ابھی منت کا دھاگہ باندھ کے لوٹی ہے شاہزادی
ابھی تو تتلیوں کے , جگنووُں کے خواب دیکھے گی
ابھی اسکواماوس رات میں بھی چاند پورا ہی دِکھے گا
فلک کا پورا آنچل بھی ستاروں سے ڈھکا محسوس ہوگا
ابھی اسکو سیاہی بھی بہت روشن لگے گی
ابھی تو وصل کے پھولوں کو چننے میں بہت مصروف ہوگی
ابھی ٹھہرو, ذرا شہرِ تخیل میں اسے مدہوش رہنے دو
ابھی اسکو کسی صحرا کے سارے پھول چننے دو
ذرا سا ہوش میں آئے
تو دِھیرے سے , ذرا نظریں چرا کے
کان میں کہنا ,
مسافر گھر کا رستہ بھول بیٹھا ہے
پرندے بھی ٹھکانہ چھوڑ بیٹھے ہیں
اور وہ بوڑھا برگد جس پہ منت کے سبھی دھاگے بندھے تھے
اسکے سارے پتے جھڑ گئے ہیں
خزاں پِھر لوٹ آئی ہے
_________
شاعرہ:رابعہ بصری
فوٹوگرافی: صوفیہ کاشف
بہت شکریہ صوفیہ ۔۔خوش رہیں
LikeLiked by 1 person
بہت خوب رابعہ جی
LikeLiked by 1 person
آپکی اتنی خوبصورت نظم پبلش کرنا خود میرے لیے اعزاز ہے!💖💖🌷
LikeLike
بہت خوب ـ عمدہ
LikeLike
ابهی تو تتلیوں کے جگنوؤں کے خواب دیکهے گی.
انمول خیال .عمدہ انتخاب
سلامت رہیں.
LikeLiked by 1 person
Kitna khoobsoorat khyal hai.
LikeLiked by 1 person