۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“چلو تمھارے ساتھ چلتا ہوں!”
“کہاں تک چلو گے؟”
“جہاں تک تم چاہو!”
اگر میں کہوں کہ زمان و مکان کی آخری حد تک؟؟؟تو چلو گے ساتھ؟!”
“اگر تم کہو گی کہ مکاں سے لا مکاں تک ,,,,تو بھی چلوں گا!”
میں اسکے چہرے کی طرف مڑ کر اسکی آنکھوں کے رنگ کھوجنے لگی نجانے اسکے لفظوں میں اور آنکھوں کے رنگ میں کوئ مطابقت بھی ہے کہ نہیں،،،،،،کہیں کچھ پھیکا کسی مصنوعی مصالحے کا تڑکہ تو نہیں؟مگر وہاں سب کچھ یکساں تھا ایک دوسرے سے ملتا،ایک رنگ چمکتا،اسکے لبوں سے نظروں تک سب معانی سر اٹھائے کھڑے میری ٹکٹکی کا سامنا کرتے تھے۔میرے پیروں تلے نرم ملائم سبز گھاس مزید ملائم سی ہونے لگی،آس پاس خموش کھڑے پہاڑ شاید گنگنانے سے لگے اور وادی کے اوپر منڈلاتی بدلیاں جیسے پنجوں پر بیلے کا رقص کرنے لگیں۔ایک ایمان سا اسکے لہجے سے جھانکتا تھا اور میرا دنیا سے ستایا ہوا دل اسکے الفاظ پر لبیک کہنے سے ڈرتا تھا۔ اندیشوں کے جن یقین کامل نہ ہونے دیتے تھے۔پھر بھی میں نے اس پر یقین کیا۔
“بہت سخت منزلیں ہیں! تھک تو نہیں جاؤ گے ناں!”
،،،،میں نے چلتے چلتے پیر سے ایک پتے کو مسلا اور اس سے پوچھا تھا۔۔
“تھک جاؤں گا۔۔۔۔۔مگر پھر بھی محبت بنکر کر ہمیشہ تمھارےساتھ رہوں گا!!!”
یہ ایمان تھا ،گماں تھا کہ گیاں تھا، مگر زمان و مکاں سے جب میں لامکان ہوی تو وہ میرے ساتھ نہیں تھا مگر ۔۔۔۔۔ وہ ایک ایماں کا۔۔۔۔۔خوبصورت گماں کا ہاتھ ٬،،،پتھروں سے ستاروں تک اور پھر بہاروں تک میرا ہاتھ تھامے ہر منزل پر میرے ہمراہ رہا تھا۔
______________
تحریر و فوٹوگرافی:صوفیہ کاشف
خوبصورت خیال!
LikeLiked by 1 person
شکریہ ھدیٰ
LikeLike