سبوتاژ یومِ خواتین

اس بار یومِ خواتین کے دن پاکستانی خواتین نے ایک جلسے کے دوران کچھ ایسے پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جس نے ناصرف پاکستان بلکہ اردگرد کے ملکوں میں بھی ایک عجیب بحث کو جنم لیا ـ ” کھانا خود گرم کر لو ” “ویسے تو ہم بھی لونڈے ہیں اور” میرا جسم میری مرضی ” سمیت کئی ایسے متنازعہ پلے کارڈز جس نے نا صرف مرد و خواتین کے درمیان ایک بے تکے مقابلے کی فضا ہموار کی بلکہ اس دن کی اہمیت ہی ختم ہو گئی ـ آٹھ مارچ کا دن اب عورت کو سرخ پھول دینے ـ ڈنر پہ مدعو کرنے اور اس دن کی خوشی میں سینما پہ سپیشل شو تک ہی محدود ہو گیا ۔بہت ہوا تو گھریلو مسائل کو پیش کر کے اسے مذید مروڑ تروڑ کے رکھ دیا گیا ـ
جنگ عظیم اول کے اورجنگ عظیم دوئم کے بعد جنگ کی ہولناکیاں قحطِ الرجال کا باعث بننے سے ایک طرف افردی قوت بےحد متاثر ہوئی تو دوسری طرف مغربی عورت کے کندھوں پہ دوہری ذمہ داری عائد ہوگئی ـ اُس وقت سرمایہ داری نظام کو افرادی قوت کی اشد ضرورت تھی اس بات سے قطع نظر کہ وہ عورتیں ہیں یا کمسن بچے ،اور عورتوں کو روزگار کی کیونکہ ان کے مرد جنگ کا لقمہ بن چکے تھے اب ان کے پاس اپنے مرودں کی جگہ پہ کام کرنے اور عملی میدان میں آنے کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں تھا ۔اس وقت دھڑا دھڑ عورتیں میدانِ عمل میں آئیں ـ سب سے پہلا مسئلہ جو اس وقت عورت کو درپیش ہوا وہ ان کے لباس کا تھا تہہ در تہہ لمبے لمے گاؤن اور فراک فیکٹری کی مشینوں میں الجھ جاتے اس طرح کئی عورتوں جان کی بازی ہار گئیں یہ واقعات مسلسل ہونے لگے تو ان عورتوں کے لیے چست لباس جینز متعارف ہوا جو کہ نا صرف چست اور ہر موسم کے لیے موزوں تھا بلکہ سستا اور پائیدار بھی تھا اپنی اسی خصوصیات کی وجہ سے جینز بطور لباس مقبول ہوگئی ـ اس کے علاوہ مسئلہ انھیں مردوں کے مقابلے آدھی اجرت کا تھا جبکہ عورتیں اسی تندھی سے کام کر رہی تھیں ـ آہستہ آہستہ عورتوں کو احساس ہوا کہ ان کے ساتھ انصاف اس لیے نہیں ہو رہا کہ وہ عورتیں ہیں مگر ان کی ذمہ داری آدھی ہے نا ان کا پیٹ مرد کی نسبت آدھا ہے تو اجرت آدھی کیوں ـ بریڈ اینڈ پیس کے نام سے پہلی ہڑتال روسی خواتین نے کی اور اس طرح بریڈ اینڈ روزز سے لے کر مختلف کٹھن مرحلے طے کرتی عورتوں نے ہر سال ورکنگ عورتوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کی اور کرتی رہیں ۔

یہ بھی پڑھیں:عہدِوفا

مغرب کی تاریخ گواہ ہے کہ آج مغربی عورت کو جس قدرحقوق حاصل ہیں وہ انھی متوسط طبقے کی خواتین کی وجہ سے حاصل ہیں جو امیر خواتیں کے گھر کام کرتیں ‘ ان کے بچوں کی دیکھ بھال ‘ کھیتوں میں کاشتکاری سے فیکٹریوں میں سلائی کٹائی اور بٹن ٹانکنے سے جوتے بنانے اور مِلوں میں کام کرنے سے گھروں میں بیکنگ اور اچار و مربع بنانے تک ناصرف بچوں کی کفالت کرتیں بلکہ انہوں نےمغرب کی تاریخ بدل کر رکھ دی ـ مغرب جہاں عورت کو ووٹ دینے کی اجازت نہیں تھی اسی معاشرے کی خاتون جس دن پہلی صدر بنی تو وہی دن آٹھ مارچ تب سے اب اسی یاد میں منایا جاتا ہے ـ دنیا میں اس وقت کام کرنے والی عورتوں کو آج بھی کم و بیش وہی مسائل درپیش ہیں ـ گھروں میں مرونڈے اور پتاسے عورتیں بناتی ہیں اور انھیں بیچ کر پیسے ان کے مرد کھا جاتے ہیں ـ تپتے سورج تلے گرمی لو اور پسنے سے نڈھال اینٹیں عورتیں ڈھوتی ہیں بھٹے پہ تنخواہ لیتے وقت ان کے مرد سامنے آ جاتے ہیں ـ پیسہ پیسہ جوڑ کے کمیٹی عورتیں ڈاتی ہیں اور یکمشت رقم مرد لے جاتے ہیں ـ گھر کی قسطیں عورت ادا کرتی ہے اور ملکیت مرد کے نام ہو جاتی ہے ـ کاروبار کے لیے عورت کے نام پہ قرضے لے کر مرد کھا جاتے ہیں اور جیل عورت جاتی ہے ـ آج بھی دفتروں میں عورتوں کو ہراساں کیا جاتا ہے ـ آئے دن ایسے واقعات سنائی دیتے ہیں کہ ورک پلیس پہ جنسی تشدد کا شکار ہوئیں ـ مرد و عورت دونوں سرکاری ملازم ہوتے ہیں مگر مرد کی وفات کے بعد پنشن بیوی کو ملتی ہے مگر عورت کے مرنے کے بعد پنشن ضبط ہو جاتی ہے بچوں کو نہیں ملتی ـ مطلب یہ تصور ابھی بھی قائم ہے کہ کمانے کی ذمہ داری صرف مرد کی ہے عورت کی نہیں ـ

یہ بھی پڑھیں:سپنج

خواتین چاہیے ادیب ہوں یا شاعرات ـ مصورات ہوں یا شوبز سے تعلق رکھنے والی ـان کو مرد کے مقابلے آدھی اجرت ہی ملتی ہے ـ انڈیا کی ایک مایہ ناز ایکٹریس نے اعتراف کیا کہ ان کو مرد کے مقابلے ان کے کام کا معاوضہ کم ملتا ہے ـ مطلب دھان کے کھیت میں کام کرنے والی سے کپاس کی فصل چننے والی چائے کی پتیاں اکٹھی کرنے والی سے ہیلری کلنٹن تک کہیں نہ کہیں اپنے عورت ہونے کی وجہ سے استحصال کا شکار ہوتی ہیں ـ جیسےروسی خواتین کا نعرہ صرف روس تک محدود نہیں رہا اس طرح یہ نعرے بھی وبا کی طرح سرحدیں پار کر جاتے ہیں جس سے تمام ورکنگ خواتین متاثر ہوتی ہیں ـ وہ اسطرح کہ سرمایہ دار کبھی چاہتے ہی نہیں کہ خواتین اپنے حقوق مانگیں ! ان کی تحریک کو سبوتاژ کرنے کے لیے خواتین کے زریعے ایک الگ رخ دے کر اصل مطالبات کو دبایا جا رہا یے ـ ایسے متنازعہ پوسٹرز اور پلے کارڈز کے پیچھے کون سا پرپیگینڈا کار فرما ہے؟ اس کی تحقیق کرنے کے بجائے مردوں نے بھی دھڑا دھڑ ایسے جوابی کالم اور تبصرے کئے جو مزید اس وبا کو دور دور تک پھیلانے لگے ـ آئی کین ڈو اِٹ کا ایک مشہور زمانہ سلوگن اور اس پہ ایک خاتون کی اپنے زور بازو کی نمائش محض نمائش نہیں تھی بطورِ مجبوری گھر سے نکلنے والی عورتوں نے ثابت کیا وہ ہر میدان میں مرد کے شانہ بشانہ کام کرنے کی اہلیت رکھتی ہیں اور اسی اہلیت کی بنا پہ وہ برابری کی اجرت ‘ بونس ‘ ترقی اور عزت کی حقدار ہیں۔ انھیں کمزور سمجھ کر ان کے حقوق ضبط کرنا سراسر ذیادتی ہے ـ

آج اگر دنیا بھر کی مارکیٹ سے عورتیں نکل جائیں تو سرمایہ داروں کا دیوالیہ نکل جائے گا ـ دنیا کا نظام مفلوج ہو جائے گا اور سرمایہ دار نانِ گندم کو ترسنے لگیں گے اس لیے ایک تو آٹھ مارچ کو سرخ گلاب دے کر ٹرخانے کے بجائے انھیں دفاتر اور تمام ورک پلیس میں برابری کے حقوق دیے جائیں ،دوسرا ایسی خواتین جو اس دن کی اہمیت جانے انجانے سبوتاژ کرنے میں پیش پیش ہیں برائے مہربانی اپنے اپنے دلوں میں ان مسئلوں کو اجاگر کریں ـ افغانستان پاکستان اور ہندوستان کی بہت سی خواتین کو آج بھی بیوہ ہونے کے بعد ان کے جیٹھ یا چھوٹے دیور سے جبراً شادی پہ مجبور کیا جاتا ہے لیکن ان کو اپنے پاؤں پہ کھڑا ہونے کی ہمت نہیں دی جاتی ـ بہت سی خواتین کو سرے سے کام کرنے ہی نہیں دیا جاتا ایسی خواتین کے حقوق کے لیے زبان بننا بہت ضروی ہے ـ کھانا تو مرد ٹھنڈا بھی کھا لیں گے مگر بے اختیاری کی موت مرتی عورتوں کو اس وقت فیصلہ کرنے کے اختیار کی ضرورت ہے ـ مرد اور عورت مل کر حالات کا مقابلہ کریں اور سرمایہ داروں کے چمکتے زریں چراغ کو توڑ کر غربت کے عفریت کو ختم کریں ـ غربت بہت سے جرائم اور محرمیوں کی جڑ ہے جسے مرد اور عورت مل کر خوشحالی سے مات دے سکتے ہیں ـ خوشحال گھرانے خوشحال معاشروں و مستقبل کی ضمانت ہیں.

______________

تحریر و کور ڈیزائن:ثروت نجیب

وڈیو دیکھیں: ناران کاغان کی لولوسر جھیل

3 Comments

Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

You are commenting using your WordPress.com account. Log Out /  Change )

Facebook photo

You are commenting using your Facebook account. Log Out /  Change )

Connecting to %s

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.