ممی کی ڈائری _______دعا، ممی اور انگریزی ہدایت نامے

پچھلے کچھ دن سے ایک دعا مسلسل مانگ رہی ہوں” یااللہ! مجھے میرے بچوں کے لیے نرم اور محبت بھرا کر دے! یا اللہ مجھے بچوں کے سامنے سب سے زیادہ ٹھنڈا کر دے!”

لگتا ہے ناں عجیب سا کہ میں خود سے اپنے روئیے کو سنبھالنے اور نکھارنے کی بجاے خدا سے دعائیں مانگ رہیں ہوں۔ایسے ہی جسے جب خود ماں نہیں تھی بیٹی تھی تو دعائیں مانگتی تھی “کہ یا اللہ مجھے فرمانبردار اولاد بنا!”مگر مجھے یہ عجیب نہیں لگتا۔کیو نکہ باشعور بالغ فرد ہونے کے باوجود،زندگی کے بہت سے مقامات پر سخت فیصلے کرنے کے باوجود،بڑے بڑے نبھاہ اور کمپرومائز کرنے کے باوجود مجھے خبر ہے کہ سب کچھ میرے اختیار میں نہیں۔جلتی زمین پر چلنے والا اچھل ہی پڑتا ہے،پاوں لہولہاں ہو رہے ہوں تو زبان سے چیخیں نکل ہی آتی ہیں۔میں ہر وقت بچوں کو میٹھی نظروں سے تکتی نہیں رہ سکتی،انکے ہر بات پر انکا منہ بھی نہیں چوم سکتی،ہر وقت ان سے کھیلنے کا وقت بھی نہیں میرے پاس۔۔میں کبھی بھاگتے دوڑتے وقت کی ٹینشن میں چولھے پر کھڑی سڑ رہی ہوں ،کبھی تھوڑے سے وقت میں زیادہ سکول کا کام نبیڑ لینے میں الجھی ہوئی ہوں کبھی کم وقت میں ڈھیر سا کھانا بنانا ہے تو ایسے میں کیسے ہو گا مجھ سے کہ میری بچی آے اور کہے کہ مما اگر میں نے اپنی سہیلی سے دوستی نہ کی تو مجھے اللہ مارے گا کیا؟ اور میں اسے کہوں،”آو بیٹی یہاں بیٹھو میں تمھیں خدا کا سارا فلسفہ شفقت سے سنا دوں۔”میں تو یہ کہوں گی کہ “خدا کے لئے جاؤ مجھے کام ختم کر لینے دو!”

یہ بھی پڑھیں: قربانی کی گاۓ اور تربیت____ ممی کی ڈائری

آج صبح پہلی بار میرے تینوں بچے بغیر میرے گلے لگے ،بغیر مسکراے ،بغیر پپی لئے،اور خدا حافظ کہے،بغیر مجھے تاکید کئے” مما خوب مزے سے ریسٹ کریں ! مما اپنا خیال رکھیے گا!”چلے گئے۔کیوں؟ کیونکہ زرا جو تھوڑی سی بات پر غصہ آیا تو پھر تیز ہوتی ہوی ٹرین کی طرح بڑھتا ہی چلا گیا۔میں جتنا اسے روکتی رہی وہ اتنا بھانبھڑ بنتا رہا۔پہلے فاطمہ کے تیاری چھوڑ کر کتاب پڑھنے میں مگن ہونے سے لیکر پھر آمنہ کے سوئمنگ ڈریس نہ ملنے،بگڑے ہوے چہرے تک میں بگڑتی ہی چلی گئی۔محمد کو روتے دھوتے اٹھا کر نہلانا،ڈانٹ ڈپٹ کر کے رونے سے روکنا۔۔۔۔۔کیسا عجیب لگتا ہے ناں روتے ہوے بچے کو ڈانٹنا کہ چپ کر جاؤ!،،،ہاں! پیار سے سمجھانے کے بہت طریقے معلوم ہیں مگر پیار کرنے کا وقت رہانہ حوصلہ۔علم پڑا کتابوں کاپیوں میں یا دماغ کے کسی بیکار گوشے میں سڑ رہا ہے اور ہم دیکھے دیکھاے،سیکھے سکھاے رستے پر سر پٹ بھاگے چلے جا رہے ہیں۔کیا تربیت کا علم کتابوں کے علم سے زیادہ گہرا ہوتا ہے؟ جی ہاں! کتاب کا علم دھرانے اور نافذ ہونے کے لئے ذہنی سکون اور پری پلاننگ مانگتا ہے جبکہ اپنے گھر اور ماحول سے سیکھے ہوے طریقے بے ساختہ اور فوری آتے ہیں ،بغیر ایک منٹ ضائع کئے۔ہم بہت کام بغیر غور و حوض کے کرتے رہتے ہیں۔اب جانے یہ میرا چیخنا چلانا میرے بلڈ پریشر کے بڑھنے کا نتیجہ ہے، زندگی کی تقریبا ایک دہائی بھٹی میں جلنے والی لکڑیوں کا دھواں ہے یا ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ میری عادت ثانیہ بن چکا ہے،کچھ خبر نہیں۔مگر ایک بار غصہ کرنا شروع کیا تو پھر کھڑوس ماؤں کی طرح بغیر رکے کرتی چلے گئی۔تب نہ میرا بیٹھ کر ٹھنڈا پانی پینے کو دل کرتا ہے۔نہ بچوں سے پرے ہٹ جانے کا۔۔۔۔۔کیا واقعی میں ایک ماں ہوں یا ایک بہت بری ماں ہوں؟؟؟؟؟؟

یہ بھی پڑھیں:ممی کی ڈائری_میرے خواب

ماں بننے اور بچوں کو چومنے چاٹنے کی وہ پریوں کی کہانی ختم ہو چکی جب معصوم سے ،زرا زرا سے بچے ، ننھے ننھے خرگوشں جیسے، چوم چوم تھکتے نہ تھی،جب انکے رونے پر فٹا فٹ اٹھا کر بانہوں کا جھولا جھلانے لگتی،جب انکی ایک چھینک پر ساری رات جاگ کر گزار دیتی۔اب بچے بڑے ہو گئے ہیں۔اب انکی ضد غصہ دلاتی ہے ،اب انکا شور برا لگتا ہے اور اب انکا بحث کرنا مستقبل سے خوفزدہ کر دیتا ہے۔کیا یہی ہیں وہ پیارے پیارے بچوں کی محبتوں کی دیو مالائی داستان جس کے پہلے صفحات پر محبت اور خوبصورتی لکھ کر اگلے صفحات پر صرف آزمائش لکھی ہے۔اک مایوسی،اک نارسائی اک بے بس سی ہے جو گھیرے رکھتی ہے۔بحثیت ماں اپنی ناکامی کا احساس،گھر کے یونٹ میں بہتریں رول ادا نہ کر سکنے کا احساس،سارے سالوں کا ہر لمحہ ان پر نچھاور کر کے بھی ہار جانے کا احساس!وہ بہتریں کردار جو کتابوں رسالوں کا نصابی علم حاصل کرتے ہم سب نے اخذ کیا تھا ،دماغوں میں سوچا تھا اور دنیا کے سب سے زہین، خوبصورت،فرنمابردار اور تابعدار بچوں کا خواب دیکھا تھا۔وہ سارے خواب جیسے دنیا کے گھن چکر میں پس چکے ہیں۔خوبصورت خوابوں کی تعبیر ہمیشہ ویسی نہیں ہوتی۔اب اس موڑ پر مجھے بھی یہ لگنے لگا ہے کہ یہ تھی بچوں کی خوبصورت کہانیوں کی تعبیریں۔میں وہی ہوں ہر وقت ہنستی شوخیاں کرتی زندگی سے بھرپور لڑکی جسے اب بات بات پر غصہ آتا ہے۔وہ جسکی صورت سے شوخی لپکتی تھی اب اس پر لاف لائن نہیں ملتی۔ہنسیاں رُک چکیں،زندگی نے زمہ داری بنکر حیات کے پھولوں کا ہر رنگ نچوڑ لیا۔وہ کتابوں میں پڑھے فلسفے کہ بچوں کو خوب سارا پیار دو سب ڈھکوسلہ نکلے۔بھلا ہر وقت چولہے میں ،صفائ میں، تابعداری میں ،خدمت سسرال میں پھنسا ہوا ماسی سا وجود اتنا پیار کہاں سے لاے۔وہ ماں جسکے پیچھے کبھی ماں ہو کر ،کبھی ماسی ہو کرکبھی بیوی ہو کر، کبھی باورچن ہو کر،کبھی بہو اور بھابھی ہو کر ہزاروں آوازیں لپکتی ہوں وہ ٹھہراو،وہ شفقت،وہ پرسکوں شفیق رویہ کہاں سے لاے۔وہ جو خود تیز گام بنی بھاگتی پھرتی ہے، وہ پیار دینے اور سکھانے کی عیاشی کیا برداشت کر بھی سکتی ہے؟میںرا دل کرتا ہے پیرنٹنگ کی ایسی ساری کتابوں کو آگ لگا دوں جو ہمیں ایسی میٹھی میٹھی باتیں بتاتی ہیں جو ہمارے بس میں ہی نہیں۔کوی ایسی کتابیں کیوں نہیں لکھتا جیسے اچھی مائیں پیدا کرنے کا طریقہ،بہو کو اچھی ماں بنانے کا طریقہ،اپنی بیوی کو اچھی ماں بننے میں مدد کیجئے وغیرہ وغیرہ۔ارے مجھے پتا ہے کہ یہ یہ یہ کرنا چاہیے ،پر میرے شوہر میری ساس کو بھی تو کوئ یہ بتاے کہ یہ بھی کرنا چاہیے، میں اس سارے علم اور فلسفے کو کیا اپنے سر پر ماروں جس پر عمل کرنا میرے اختیار میں نہیں کہ میری تو اپنی حیثیت بھی اک زر خرید غلام سے بڑھ کر نہیں۔آہ! مجھے معاف کیجئے گا کہ بات بات بڑھک اٹھتی ہوں اور کڑوا کڑوا بولتی ہوں ۔کیا کروں ایک فل ٹائم ممی ہوں جو شفیق سے کسیل ہو چکی، میٹھا پانی بے تحاشا کڑوا ہو چکا اب اوپر سے کئی ڈول کڑواہٹ کے نکلیں گے تو ہی نیچے کے ٹھنڈے میٹھے پانی تک ہاتھ پہنچے گا۔

ہاں تو ان کتابوں سے پڑھے اسباق کے مطابق خوب چوما بچوں کو،خوب پچکارہ،انکی ہر اک چیخ پر لپکے،انکی انگلی کے ہر اشارے کو مکمل کیا۔اور ہمیں لگا کہ ہم زندگی کو جنت بنا رہے ہیں۔مگر وقت نے یہ غلط فہمی بھی ختم کر دی۔بہت سارا پیار بچوں کو بگاڑ گیا ہے ۔آخر ہم کب تک بچوں کو بے دریغ پیار کر سکتے تھے؟ ایک بچے کے بعد دوسرے کے آ نے پر،دو تین بچوں کے ایک ساتھ چلانے پر ،کھانے،پینے،کھیلنے حتی کہ اٹھنے بیٹھنے اور ایک دوسرے کو دیکھنے پر بھی جن بچوں میں جھگڑا ہو ان کو کب تک چومتے رہیں گے۔نجانے سب کے بچے جھگڑتے ہیں یا صرف ہمارے جھگڑتے ہیں چونکہ انہوں نے اماں ابا کو صرف جھگڑتے ہی دیکھا ہے۔تو وہ جنکو بہت چوم چوم کر پالا تھا اب انہی کو ڈانٹتے پھرتے ہیں۔کیا تھا جو اگر محبت کو اتنے ہم ترسے نہ ہوتے،محبت کے اتنے اسباق پڑھے نہ ہوتے، زرا جو بچوں کے ساتھ ایک متوسط سا رویہ پہلے دن سے رکھتے تو شاید آج بچے کچھ حدوں میں ہوتے۔آج انکو سمجھاتے ہیں تو سمجھتے نہیں اور اوپر سے فیس بک کی وہ گھومتی گھماتی پوسٹس جو ہمارا دماغ پھر سے خراب کرتی رہتی ہیں جو کہتی ہیں بچوں پر تنقید نہ کریں،انکو ایسے نہ ڈانٹیں،انکو ایسے نہ روکیں جیسی بیکار واہیات باتیں۔۔۔۔کبھی ان باتوں پر عمل بھی کر کے دیکھا ہے کسی نے؟ کبھی اس عمل کا رزلٹ بھی دیکھا ہے کسی نے؟ آج میں آپ کو ایک سنہری الفاظ سے لکھنے والی بات بتانے لگی ہوں آپ چاہے پیرنٹنگ میں پی ایچ ڈی کر لیجئے آپ بچے ویسے ہی پالیں گے جیسے آپ کو پالا گیا۔یہ وہ تربیت یافتہ اصلی علم ہے جو آپ کو گھٹی میں ملا ہے اور یہی آپ آگے منتقل کر سکتے ہیں۔یہ کتابوں کی باتیں جگسا پزل کی طرح ہمیشہ ادھوری رہتی ہیں ،ہمیشہ نامکمل،یہ فلسفے ہمیشہ آپکو مشکل میں تنہا چھوڑ جاتے ہیں اور مائیگرئن،بلڈ پریشر سمیت بہت سی بیماریوں کی وجہ بھی بنتے ہیں۔ہم ان پر چلنے کی کوشش میں پہلی نکڑ پر پھنس جاتے ہیں اور مشکل سے نکلنے کا نسخہ پھر ہمیں نہیں ملتا۔پھر نکالنا پڑتا ہے جیب میں سے وہی اپنے معاشرے کا دیا علم۔اس معاشرے کی روایات سے لڑ جانے کی ہمت کس کس میں ہے؟؟؟؟

اففففففففففف کیا لکھنے بیٹھتی ہوں اور کدھر جا پہنچتی ہوں۔آپکو بھی میری باتوں میں یاد آتی ہے وہ کھڑوس بوڑھی عورت کہ جو خلاؤں میں گھورتی نجانے کیسی بے سروپا باتیں کرتی رہتی ہے۔۔

ہاں تو بات شروع ہوی تھی ڈانٹنے سے۔سارا دن کئی بار کندھے اچکاے،خود کو سمجھایا” کچھ نہیں ہوتا! لوٹ کر گھر کو ہی آنا ہے آخر!” اب اس ممی کو سمیٹ چکی ہوں میں جو ایسی باتوں پر رونے لگتی تھی۔پھر بھی مشکل تو بحرطور تھی جو تب تک نہیں ختم ہوی جب تک دونوں بچے سکول سے واپس نہیں لوٹے اور انکو گلے لگا کر خوب ساری پپیاں کر کے دل کو چین نہ مل گیا طبیعت ایسی ہی زدوغم رہی۔مگر انکو گلے سے لگا لیا تو جیسے ساری مشکلیں ختم ہو گئیں۔ماں جب گلے لگا لے تو سمجھ لو اس نے سب معاف کر دیا،وہ سب بھول چکی،کہ وہ ماں کیا جو بچوں پر غصہ رہے اور معاف نہ کرے،چاہے کتنی ہی غصیلی اور سڑیل کیوں نہ ہو میرے جیسی۔

صبح سے کڑھ کڑھ کر نجانے کتنا خون جلا بیٹھی تھی۔حالانکہ جلتے رہنا نہ میں خود چاہتی ہوں نہ یہ زہر آلود احساس بچوں کو دینا چاہتی ہوں۔مگر پھر ایک خیال آتا ہے۔میں زندگی کے ہر موڑ پر بچوں کے لئے سایہ نہیں بن سکتی۔زندگی انہیں اسی طرح کی تلخ اور شیریں لوگوں اور حالات میں جینی ہے۔میں انکو بے تحاشا پیار کر سکتی ہوں مگر اس دنیا کو انہیں اتنا پیار دینے پر مجبور نہیں کر سکتی۔تو اچھا ہے کہ میرا یہ بے تحاشا غصہ کا ہاتھی کبھی بے قابو ہو جاتا ہے تو۔گھر سے نکلیں گے تو کم سے کم یہ گلہ تو نہیں کریں گے کہ ماں نے دنیا کی سختی سے نپٹنا ہی سکھایا ہوتا!!!!!!ہر کام میں کچھ نہ کچھ تو اچھا ہوتا ہی ہے ناں!

_____________________

تحریر: ممی

کور ڈیزائن: ثروت نجیب

(ایک ممی کی خواب ،جزبات اور تجربات پر مشتمل یہ سلسلہ ایک ممی کے قلم سے شروع کیا گیا ہے مگر پرائیویسی پالیسی کے تحت کرداروں کے نام،مقام اور معروضی حقائق تھوڑے بدل دئیے گئے ہیں ۔فوٹو اور ڈیزائن صوفیہ لاگ ڈاٹ بلاگ کی تخلیق ہیں ۔کسی بھی قسم کی نام اور مقام سے مشابہت محض اتفاقی ہے۔)

12 Comments

  1. آہ ممی ایک نئی قسط کے ساتھ خیالوں جوـقسط قسط کرتی تحریر ـ بعض جگہوں پہ میں مسکرائی اور بعض جگہ ایسے محسوس ہوا جیسے یہ ممی میں خود ہوں ـ ایک آفاقی کہانی جس میں یر ممی کی داستان اور تھکان چھپی ہے ـ ویل ڈن ممی ـ مذید اقساط کا انتظار رہے گا ـ

    Liked by 1 person

  2. بہت شکریہ ثروت! آپکی حوصلہ افزائی ہمیشہ کی طرح ممی تک پہنچا دی گئی ہے اور اسکے لئے وہ آپکی بہت مشکور ہیں۔ سلامت رہیں اور ایسے ہی ہمارا حوصلہ بڑھاتی رہیں!❤️❤️

    Liked by 1 person

  3. کتنی سادگی اور روانی سے ہمارے جذبات کے مدوجزرکی تصویر کشی کی ہے ماشاءاللہ

    Liked by 1 person

  4. Bohut zabardast.
    Pehle dafa is tarz ka koi blog urdu mein parh rahe hun. Bohut pasand aya apka yeh intekhab aur kaavish. Keep doing what you’re doing. 🙂

    Liked by 1 person

    1. ممی کی ڈائری کی بہت سی اقساط یہاں موجود ہیں ہم ان کے بارے میں بھی آپ کی آرا کے منتظر رہیں گے!💝💝💝💝

      Like

  5. میرے بچے تو ابھی چھوٹے ہیں اور یہ علامات مجھ میں بھی آ رہی ہیں میں کیا کرو گی😛

    Liked by 1 person

Leave a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.