ممی کی ڈائری ______مائیں اور بند چمنیاں

یہ میرے پہلے بچے کی روداد ہے ۔جب میں نئی نئی ماں بنی۔وہی ساری ماؤں کی طرح،میرے بچے کو ہاتھ نہ لگاو،گندہ نہ ہو جاے،رو نہ پڑے،ڈسٹرب نہ ہو جاۓ۔جس کمرے میں فاطمہ سوتی اس سے سب کو دور دور رکھتی۔دل چاہتا باہر چڑیاں بولنا چھوڑ دیں ،گلی سے ٹریفک بند ہو جاے،آسماں سے طیارے پرواز بھرنا بھول جائیں ،بادل گرجنا برسنا چھوڑ دیں تاکہ میرے بچے کی نیند میں خلل نہ پڑ جاے۔اسقدر خبطی اور غیر حقیقی ہو جاتی ہیں ہم مائیں پہلے بچے کی بار۔۔۔سونگھ سونگھ کر کھلاتی ہیں،مانجھ مانجھ نہلاتی ہیں،سنبھال سنبھال رکھتی ہیں،وہ جسے کہتے ہیں صحیح معنوں میں بچے کے قدموں تلے آپ ہتھیلیاں نہیں اپنا آپ رکھ دیتی ہیں۔اس وقت ہمیں کوئ یہ بٹھا کر نہیں سمجھاتا ناں کہ کیا ایک ہی بچہ پالنا ہے؟ کچھ طاقت،کچھ ہمت ،کچھ محبت دوسرے تیسرے اور چوتھے کے لئے بھی بچا کر رکھو!اور کچھ زندگی میں تھوڑا سا حصہ اپنے لئے بھی بچا کہ رکھو! کچھ معاشرتی دباؤ اور ہمارے آس پاس کے لوگوں کے غیر حقیقی اور غیر مناسب رویے ہم سے ہمارے دوست،سہیلیاں حتی کہ اکثر اوقات خاندان تک چھڑوا کر گھر کی چار دیواری میں بچوں کے ساتھ قید کر دیتے ہیں اور ہم مائیں اندھا دھند صحیح غلط سمجھے بغیر پہلی بار کے جوش و جذبے میں ہنسنا،بولنا،بنننا سنورنا،دوست احباب سب چھوڑ کر اس بحر بیکراں میں ڈوب جاتی ہیں۔۔۔۔

میرے خواب:ممی کی ڈائری

پھر کیا ہوتا ہے؟ ۔۔۔۔۔۔پھر دوسرا بچہ آ جاے تو وہی گھنٹوں اکیلی بیٹھ کر نظمیں اور گانے سنانے والی ماں لوری سنانے کے بھی قابل نہیں رہتی،وہ رات بھر جاگنے والی دن میں بھی وقت دے نہیں پاتی۔وہ ہر وقت سنوارنے والی ماں ہاتھ منہ تک نہیں دھلا پاتی۔اور یہ انقلاب صرف ماں کی زندگی میں نہیں بچوں کی زندگی میں بھی اتنا ہی نقصان دہ ہوتا ہے۔اور تیسرا اور چوتھا بچہ تو ماں کے ہاتھوں بے دریغ پٹنے لگتا ہے،انکے منہ تک نہیں دھلتے،کپڑے تک نہیں بدلے جاتے۔کیوں؟ کیونکہ ماں کوی آٹھ دس سال سے یہی کام کر کر کے تھک کر چور ہو چکی ہے۔وہ اسقدر تھک چکی ہے کہ اب اپنے اندر اس ماں کو بھی گنوا چکی ہے جسکا نام محبت ہے۔۔۔اور پھر کیا ہوتا ہے ،ایک دن ہم ،ممتا سے بھری،چومتی چاٹتی ماؤں کی تیوریوں پر کئی کئی سلوٹیں دھرنا دے کر بیٹھ جاتی ہیں،لاف لائن ختم ہو کر چہرے پر اک اذلی بیزاری بس جاتی ہے ،بچے سوچنے لگتے ہیں ہماری ماں ہی ہر وقت ناراض رہتی ہے اورماؤں کو اپنے ہی بچوں سے نفرت ہونے لگتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:ماں،بچے اور پریوں کی کہانی:ممی کی ڈائری

ماں۔۔۔۔چولہے پر رکھ کر بھولی گئی ہانڈی کی طرح سڑ چکی ہے۔کبھی آپ نے سوچا کہ کچن میں تیز رفتار چولہا جلا کر چمنی،درواذے کھڑکیاں بند کر دئیے جائیں تو کیا ہو گا؟ پہلے کچن دھویں سے بھرے گا پھر اسکی چھت دیواریں کالی ہونگی اور آخر میں شاید خدانخواستہ سارا کچن ہی سڑجاے۔اسی لئے کچن میں چمنیاں،درواذے اور کھڑکیاں رکھی جاتی ہیں تا کہ دھواں ساتھ کا ساتھ نکلتا جاے۔ ہم ماؤں کا ایسا حال کرتے ہیں،انکی کھڑکیاں چمنیاں سب اکھاڑ دیتے ہیں یہاں تک کہ ایک دن وہ سڑا ہوا کچن بن جاتی ہیں۔میری پہلی بیٹی کو گنتی سے لیکر لاتعداد انگلش اردو نظمیں ڈیڑھ سال کی عمر میں ہی یاد تھیں۔نو ماہ کی ہو کر وہ بولنے لگ گئی اور میرا تیسرا بچہ،میرا بیٹا دو سال تک بول نہ سکا،نظمیں آج بھی چھ سال کی عمر میں بھی اسے ایک آدھ ہی آتی ہے۔جتنی فاطمہ تیز طرار رہی محمد اتنا ہی ہر چیز میں پیچھے رہا۔کیوں؟ کیونکہ فاطمہ کے ساتھ میں اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے حتی کہ اسے رضائ میں گھسے فیڈ کرواتے بھی بولتی تھی۔۔۔اور محمد کی دفعہ میں بول بول اور شور سن سن تھک چکی تھی۔محمد کو فیڈ کرواتے منہ سی کر بیٹھتی،کہ وہی تو دو گھڑی سانس لینے کا وقت تھا۔نتیجہ یہ ہوا کہ میں اس سے بولی نہیں اور دو سال کی عمر میں ہمیں اسے لینگویج تھراپی کے لئے لیجانا پڑا کہ یہ بولتا کیوں نہیں۔اپنی ساری ہمت ،توجہ اور محبت میں پہلے بچے پر لٹا بیٹھی تھی دوسرے کے بعد تیسرے تک آتے آتے ہمت سے جھولی خالی تھی۔فاطمہ کو ایک تھپڑ زرا سا لگا کر کئی دن دل روتا تھا۔محمد کو زور کا تھپڑ مار کر اپنا ہاتھ دکھا لیتی ہوں مگر دل کو کچھ نہیں ہوتا۔کیونکہ میں اپنی ساری توجہ محبت،محنت پہلے بچے پر انڈیل بیٹھی ہوں۔خود کو معتدل رکھیے۔__________میری اک دوست پہلے بچے کو دو سال تک مدر فیڈ دیتی رہی اور دوسرے بچے کو سرے سے ہی چھڑوا دیا۔

یہ بھی پڑھیں:دعا،ممی اور انگریزی ہدایت نامے

پہلے کو سنبھالتے خود کو تھوڑا متناسب رکھیں۔ دل کا کیا ہے دل تو بہت سے غلط رستوں پر ڈالتا رہتا ہے۔اور ہمارے دلوں کے راست میں ہر لمحہ کھڑا یہ معاشرہ یہ واحد جگہ ہے جہاں پر ہمیں ٹوکتا نہیں بلکہ سر کے بل ہمیں اس میں الٹا دیتا ہے۔نتیجتا ہمارے جزبات کا استحصال ہمیں اور ہمارے بچوں کے لیے بلآخر خسارے کا سودا بن جاتا ہے۔۔پہلا بچہ صبر سے پالیں خود کو سنبھال کر اور بچا کر،اپنی طاقت اور صلاحیت کے حساب سے۔وہ کچھوے اور خرگوش کی کہانی سنی ہے ناں۔خرگوش اس لئے سو جاتا ہے کہ وہ سرپٹ بھاگ کر جلدی تھک جاتا ہے اور کچھوا اسلیے نہیں سوتا چونکہ وہ کسی کام اور زمہ داری کو سر پر سوار نہیں کرتا،ٹھنڈے ٹھنڈے موڈ میں، دھیرے دھیرے چلتا ہے اور دور تک جاتا ہے۔ہم سب مائیں بھی فائر ہوتے ہی خرگوش کی طرح دوڑ پڑتی ہیں اور پہلے بچے کے بعد تھک ہار کر چُور ہو جاتی ہیں اور ریس ہار جاتی ہیں۔

ہماری سہیلیاں،دوست،بہنیں مائیں ہماری چمنیاں اور کھڑکیاں ہیں۔ماں ہونے سے زیادہ مشکل نوکری اور کوی نہیں جو سالہاسال تک چوبیس گھنٹے کی ڈیوٹی ہے۔جب ہم اپنے سارے رابطے،اپنے مشاغل،اپنا وقت،ہنسی خوشی،کئیریر سب کچھ چھوڑ دیتے ہیں یا چھڑوا دیے جاتے ہیں تو ہماری کھڑکیوں دروازوں کو بھی بند کر دیا جاتا ہے جسکے بعد ہمارا مقدر جلد یا بدیر جل کر خاک ہو جانا ہو جاتا ہے۔زندگی کو تھوڑا دھیما لیں۔یہ چند دن یا چند ماہ کی بات نہیں یہ بہت لمبی ریس ہے اور اسکے لئے آپکو لمبی ریس کے گھوڑے والا صبر ،سمجھ اور حوصلہ چاہیے۔پہلے دن سے اپنی ترجیحات کو واضح رکھیں۔کوی طعنے دے ،نصیحتیں کرے،سبق پڑھاے ممتا کے رستے میں فنا ہو جانے کے، تو اسے دور سے سلام کریں اور خود سے پرےکر دئیں۔یہ سارے ہمارے معاشرے کی عورتوں کے رٹے رٹاے اسباق ہیں جنکا یہی سارا گھسا پٹا رزلٹ ہے جو ہماری صورت میں سامنے آتا ہے۔ان سارے روائتی طریقوں کے ایک نہیں بے تحاشا نقصانات ہیں جنکا احاطہ ایک مضمون میں تو کافی ہی نہیں۔کئی دن تک اس پر بات کرنا ہو گی،کئی طرح سے تو اسکے وہ سارے چھپے اور ڈھکے نقصان سامنے آئیں گے جو اس سارے سلسلے میں ماں اور بچوں کو اور نتیجتاً ایک گھر ایک خاندان کو سہنے پڑتے ہیں۔

آپ ماں ہوں ،بیوی ہوں یا بیٹی اپنی زندگی میں ہمیشہ اپنا حصہ رکھیں۔اپنے دوستوں اور احباب سے رابطہ رکھیں۔ یہ دوست ہی ہیں جنہوں نے آپکی تھکاوٹ کی داستاں سننی ہے،جن سے دل کی بات کر کے آپ نے دھواں نکالنا ہے،یہ تھکی ہوی حکایتیں نہ آپکے بچے سمجھ سکتے ہیں نہ میاں سننے میں کوئ دلچسپی رکھتا ہے۔وہ عورتیں اور سہلیاں ،بہنیں اور بھابیاں جو آپکے جیسے مسائل میں گھری ہیں ان سے اکثر ملتی رہیں۔ہفتہ میں ایک بار بن سنور کر ،پھر سے لڑکی بنکر ،بچوں کے بغیر سہیلیوں میں جائیں،خوب ہنسیں قہقہے لگائیں۔آپ پہلے سے زیادہ تازہ دم اور خوش وخرم لوٹیں گیں۔اگر یہ ممکن نہیں تو کوی مشاغل اپنائیں،کوی بیوٹیشن کا کورس،کوی بلاگ،فوٹوگرافی،لکھنا،پڑھنا،آرٹ اینڈ کرافٹ،کچن گارڈننگ، کوی بھی مشغلہ جس سے آپکا خوب دل لگا ہو،صرف اپنے لیے اسے وقت دئیں کم سے کم ہفتے میں دو بار ،کم سے کم ہفتے میں دو تین گھنٹے۔۔ہماری بہترین زہنی صحت ہمارے بچوں کی بہترین تربیت کے لیے بہت ضروری ہے۔اور کوئ اور اس حقیقت سے اتفاق کرے یا نہ کرے خود ماں کا اس سے اتفاق کرنا اشد ضروری ہے۔ مائیں مسکراتی ہیں تو بچے مسکرانا سیکھتے ہیں۔ماوں کے ماتھے پر ہر وقت سلوٹیں ہوں تو وہ خود بخود بچوں کے تیوروں میں منتقل ہو جاتی ہیں۔ہم سالوں بچوں کو نہلاتے دھلاتے انہیں بیبے بچے بنانے میں لگ کر خود کو گندہ مندہ خوبصورتی سے عاری کر لیتی ہیں۔ہم مائیں یہ بھول جاتی ہیں کہ سجا سنورا بچہ ماؤں کو اور لوگوں کو دکھای دیتا ہے اور گندی مندی خود سے لاپرواہ ماں بچے کو۔تو وہ دراصل سجنا سنورنا نہیں سیکھ رہا ،گندا اور لاپرواہ رہنا سیکھ رہا ہے۔ہم اس پر وہ ساری محنت کر رہی ہیں جسکا آنے والے وقت میں کوی حاصل نہیں۔زرا سا وہ آپکی گود سے نکلا اور پھر آپ ڈنڈا لیکر بھی اسے سکھائیں،سیکھ نہیں پاتا۔یہی غلطی میں نے کی۔فاطمہ کی بار خوب داد سمیٹی ،خوبصورت صاف ستھرے بچے کی،اسے سجا سنوار کر کسی ڈیکوریشن پیس کی طرح ایوارڈ بنا کر ہر جگہ سر اٹھاے پھرتی ۔اب وہی فاطمہ باتھ لینے کو ہلتی نہیں۔

“فاطی نہا لے! نہا لے!”

یہ بھی پڑھیں:قربانی کی گاے اور تربیت:ممی کی ڈائری

ایک بار کہا ،دس بار،فاطمہ ہلتی نہیں۔میں بول بول تھک جاتی ہوں۔کبھی جا کر اسکے سر پر کھڑے ہو جاتی ہوں ڈانٹ ڈپٹ کر،دھمکیاں دے کر ڈرا دھمکا کر گھسیٹ کر باتھ روم میں لاتی ہوں جہاں سے وہ چند منٹ میں نہا کر نکل آتی ہے، ڈھنگ سے نہاتی تک نہیں۔سکول سے آ کر نائٹ پاجامہ پہنے سارا دن پھرتی ہے،بغیر کنگھی کے،بغیر منہ دھوے۔اپنے تصورات میں شاید وہ فخر سے اپنی ماں کی کاپی کرتی ہے اور ماں۔۔۔سوچ سوچ کڑھتی ہے کہ میری بیٹی ناز انداز کب سیکھے گی؟ اس بیٹی کو کیسے سجا سنوار کر رکھتی تھی جو اب کنگھی بھی ڈھنگ سے کر نہیں پاتی۔یہی حال آمنہ کا۔وہ خوبصورت پیارے پیارے بچے بڑے ہوتے جاتے ہیں اور میلے کچیلے رہنے لگتے ہیں بالکل ہم ماؤں کی طرح۔پھر ہم مائیں چیختی چلاتی ہیں کبھی اپنا سر پیٹتی ہیں کبھی بچوں کی شامت بلاتی ہیں۔تو پھر چلا چلا کر پاگل کیوں نہ ہوں۔بلڈ پریشر اور شوگر کیوں نہ بڑھے۔اپنی دانست میں گلاب بوۓ تھے پر کاٹنے کے وقت سب خار نکلے۔ہمیں جو اک بنیادی بات کوی سمجھا دیتا  کہ جو ماں کرے گی بچے نے وہ سیکھنا ہے،کہ سب سے پہلے اپنے آپ کا خیال رکھنا ہی بہترین تربیت ہے تو زندگی کتنی خوبصورت ہوتی۔نہیں! ہمیں تو کہا جاتا ہے”مائیں تو اپنا آپ وار جاتی ہیں”

مائیں تو کھانا پینا بھول جاتی ہیں۔

ہاے ہاے_____ وہ تو بچوں کو چھوڑ کر پہلے خود کھانے بیٹھ جاتی ہے,اتنی ندیدی ہے”۔۔۔۔۔۔۔۔وغیرہ وغیرہ جیسے سو طرح کے سو زبانوں اور لہجوں میں ایک ہی مفہوم والے فقرے جو کہتے ہیں چل قربانی کی گاے سُولی چڑھ!!!اور ایسا کہتے کسی کو ادراک بھی نہیں ہوتا کہ اک ماں کو سولی چڑھا کر آپ نے اپنی پوری نسل کا بیڑہ غرق کر دیا۔

خود کو کاموں میں کھپا دینا،تابعداری میں جوت دینا،مٹی مٹی کر لینا جتنا آسان ہے اتنا ہی کٹھن بھی ہے،خصوصا آپکے میرے جیسی پڑھی لکھی ماؤں کے لئے،جنہوں نے اک لمبے عرصے تک زندگی برتنے کے روائتی حساب نہ سیکھے ہوں،جنکی آنکھوں نے اجلے اجلے رنگ برنگے خواب دیکھے ہوں، ،جنکے تخیل نے تتلیوں اور جگنوؤں کو سوچا اور بارشوں کو چاہا ہو اور زندگی کے ہر خوبصورت موسم سے جی بھر کر محبت کی ہو۔ہم ماؤں کے مسائل ہماری ان ماؤں سے مختلف ہیں جنہیں گھروں کے اندر اک محدود سی دنیا کے اندر محدود سوچ کے ساتھ پروان چڑھایا گیا تھا۔ہم تو باغوں میں پھرنے والی تتلیاں تھیں جنہوں جارمیں بند کر کے کچن کی شیلف پر دھر دیا جاتا ہے اس آس میں کہ یہ اب اڑنا چھوڑ کر رینگنا سیکھ لیں گیں۔اور آفریں ہے ہماری ساری عقلوں اور کتابوں پر کہ ہم سیکھ بھی جاتی ہیں۔کیوں؟کیونکہ آج بھی ہمیں سکھایا جاتا ہے کہ اصغری اکبری کی داستان میں سے اصغری کی کہانی ہی ہر لڑکی کا آئیڈیل اور ہر گھر کی ملکہ کو ہونا چاہیے۔گھسے پٹے رستے پر چل کے پھر وہی گھسی پٹی منزل!!!!دنیا کو سمجھانے سے پہلے ہمیں یہ سمجھنا خود اپنے دماغوں کو یہ بتانا بہت ضروری ہے کہ میرا مسکرانا،ہنسنا بولنا،خود سے پیار کرنا میرا حق اور فرض ہے خود غرضی نہیں۔مجھ پر میری زندگی کا بھی قرض ہے جو مجھے بھی چکانا ہے۔اور یہی وہ سب سے بہتر تربیت ہے جو میں اپنی نسل کو دے سکتی ہوں۔میں نے بھی خود کو زندگی کی ہر روائتی چکی میں پیس کر دیکھا ہے،ساری کتابوں کو چھان پھٹک کر انکے علم کو آزمایا ہے اور دیکھا ہے کہ کہی سنی باتوں اور اصل زندگی کے حقائق میں کسقدر گھمبیر فرق ہے۔ہم پیرنٹنگ کے علم سے عاری لڑکیاں مائیں بنتی ہیں تو ہر علم آزماتی ہیں جو ہمیں ہر گلی ہر نکڑ پر پڑا مل جاے،کوی بتا دے،کہیں سے سن لیں حالانکہ اس میں سے بہت کم مفید ہوتا ہے باقی سب چھان بورا ہوتا ہے۔اب یہ جو بلاگ لکھنے کا اک سلسلہ ہے یہ میرے پیرنٹنگ کے دنوں کا پہلا خواب ہے جسکو گھسیٹ گھسیٹ کر میں آخر میں لے آی ہوں۔دیر کر دی میں نے بھی زندگی سے یہ اخز کرتے کرتے ۔اب چاہتی ہوں کوی اور ممی اسی دریا کو پار کرنے میں اتنے کٹھن مراحل سے نہ گزرے۔

_______________

تحریر:

ممی

کور ڈیزائن: ثروت نجیب

Write to mommy:

mommysdiary38@gmail.com

(ایک ممی کی خواب ،جزبات اور تجربات پر مشتمل یہ سلسلہ ایک ممی کے قلم سے شروع کیا گیا ہے مگر پرائیویسی پالیسی کے تحت کرداروں کے نام،مقام اور معروضی حقائق تھوڑے بدل دئیے گئے ہیں ۔فوٹو اور ڈیزائن صوفیہ لاگ ڈاٹ بلاگ کی تخلیق ہیں ۔کسی بھی قسم کی نام اور مقام سے مشابہت محض اتفاقی ہے۔)

20 Comments

  1. Mjy kyun laga ap ne meri kahni likh de.seriously pehla byta ha 2.5 ka ho raha ha baatain nhe karta.main b language tharapist ka soch rae hoon.2 saal se din raat aik kiya hua ha ab thak gae hoon.marti b hoon.halaky pehla he hai abi.mjy lagta ha humary aas pass k log humain aram nae karny dyty.or bachy ko spoil karwa dyty hain.yh karo wo karo zara roya nhe gar sar utha liya k kyu ro raha ha.kitni bar kaha bacha ha roya ga.par nae g.utha k ghoomo.yh karo wo karo.mjy mere ass pass k logoun ne thaka diya ha.

    Liked by 1 person

    1. آپکی بات بالکل بجا ہے ثوبیہ لوگوں کے غلط رویے ماوں کو غلطیاں کرنے پر مجبور کرتے ہیں اسی لئے اس پلیٹ فارم سے ہماری کوشش ہے کہ ہم خود ماوں کی رہنمائی کریں تاکہ وہ یہ سمجھ سکیں کہ کونسا مشورہ قابل عمل ہے اور کونسا نہیں۔ہمارے ساتھ رہیے انشااللہ آپکو ہر مشکل کا حل ملے گا! ہر بدھ کو اسی ویب سائ پر۔خدا آپکو ہمت دے!

      Liked by 1 person

  2. دیر آید ‘،درست آید ـ ـ ـ مطلب دیر سے آئیں مگر درست آئیں ـ ـ ــ اور آتے ہی چھا گئں آپ ـ میرا بھی کم و بیش آپ والاحال ہے ـ بہت خوبصورت جملے اور عمدہ بیان ـ ــ ـ جار میں قید تتلیاں جو کچن میں رکھ دی گئیں ہیں ـــ واقعی المیہ تو ہے کہ وہ اس قید پہ خوش ہیں ـ بہترین لکھنے پہ مبارک باد

    Like

  3. دیر آید ‘،درست آید ـ ـ ـ مطلب دیر سے آئیں مگر درست آئیں ـ ـ ــ اور آتے ہی چھا گئں آپ ـ میرا بھی کم و بیش آپ والاحال ہے ـ بہت خوبصورت جملے اور عمدہ بیان ـ ــ ـ جار میں قید تتلیاں جو کچن میں رکھ دی گئیں ہیں ـــ واقعی المیہ تو ہے کہ
    . وہ اس قید پہ خوش ہیں ـ بہترین لکھنے پہ مبارک باد

    Liked by 1 person

  4. So true bilkul apni khani 28years age mai4 kids n 4 c section k bad lgta hy kuch nae bacha apne lye.bache bht attention mangte hn or apni hunmat khatm ho gai hy.frustration b hote hy phir wohi k bache ko mar dia ya dant dia.bht nuksan hy bacho ka.

    Liked by 1 person

    1. انہیں نقصانات پر بات کرنی کی کوشش ہے امید ہے اس کوشش میں آپ ہمارے ساتھ رہیں گی۔💖💖💖💖

      Like

  5. Wowww 2 3 articles foran he parh liye….
    Ma shaa Allah acha likha sacha likha…this is actually what i feel 😍😍😍😘😘😘

    Like

Leave a reply to sofialog Cancel reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.