“اب یہ نوکری کیوں؟”
“میں اپنے جینے کا ثبوت چاہتی ہوں۔”
“جینے کا ثبوت گھر کے کام کاج سے نہیں ملتا؟”
“نہیں______ان سے تو مجھے اپنی موت کا یقین ہو جاتا ہے!”
نور نے بہت کوشش کی نوکری ڈھونڈنے کی،مگر نہ ملی!اسے مصروفیت چاہیے تھی۔کوی ایسی بے ہنگم مصروفیت جو اسکی فرصتوں کو غرق کر ڈالے،جو ہر وقت کے ماتم زدہ دماغ کو ہلا کر رکھ دے،جو اسکے دل اور دماغ سے اسکی ناآسودگی کا ہر نقش کھرچ دے۔گھاس سرسبز نظر آتی ہے ناں دوسرے کنارے پر،اسے بھی لگتا تھا مصروفیت اسکی زندگی میں سکون لاے گی۔اسکا دل دماغ بدل دے گی۔وہ خوش ماں نہ تھی۔ وہ خوش بیوی بھی نہ رہی تھی۔مگر وہ ہونا چاہتی تھی اور خوش ہونے کی اس کردار کو وہ ہر اس شے میں ڈھونڈتی جس سے اسے وہ کبھی نہ ملنا تھا۔نور نے پہلے گھر کھلونوں سے بھر لیا تھا۔کمرہ چھوٹا ہو گیا کھلونے زیادہ۔ہر رنگ ،ہر ڈیزائن ہر قیمت کے کھلونوں کا انبار لگا کر اس نے بچوں کو شکر گزار بنانے کی بجاے ناشکرا کر دیا تھا۔کھلونوں سے دل بھرا تو گھر کے ساز وسامان کی طرف متوجہ ہوی۔مہنگے صوفے،کلاسی الماریاں، وال سائز پینٹنگز، شیشوں پر موٹے دہرے پردے،نرم قالین،کیا کیا نہ بھرا تھا اس نے اپنے گھر میں،انکو چھو کر دیکھتی،بدل بدل کر رکھتی،اور خود کو یقین دلاتی کہ وہ بے تحاشا خوش ہے۔اسکے گھر میں بے تحاشا چیزیں ہیں،سجا سجایا گھر دیکھ کر بہت سے لوگ رشک کرتے تھے اسکی کامیاب خوشحال زندگی پر۔وہ بھی سر اونچا کر کے چلتی مگر آخر کبتک،اک دن گھر کا سامان بھی پورا ہوا۔پھر اپنی باری آ گئی۔مہنگے برانڈڈ کپڑے،خوبصورت جوتے،ڈیزائنر بیگز،سلم سمارٹ واچز_____آہستہ آہستہ وارڈروب اور وینٹی بھی چھلکنے لگے۔وہ ہر ضرورت کو کھلا کھلا تھک گئ۔ہر جگہ ضرورت سے زیادہ کا انبار لگا دیا تھا اس نے چیزوں کا اس خواہش میں کہ کہیں کسی طرح وہ بھی اک اچھی ہیپی مام،ہیپی وائف بن سکے۔مگر نہ بننا تھا نہ بن سکی۔چیزوں کے انبار تلے دب کر رہ گئی۔وہ خوشی کو ڈھونڈنے ہر اس حد تک گئی جہاں وہ نہ چھپی تھی۔جسکی اسے طلب نہ تھی،جسکے ساتھ اسکی خوشی نہ جڑی تھی۔وہ سمجھ نہ سکی کہ یہ خوشی دنیا جہان گھر میں اکٹھے کر لینے سے نہ ملے گی۔جس خوشی کی تلاش میں تڑپ رہی ہے وہ اسے اس گھر سے نکل جانے پر ہی ملے گی۔حماد کے ساتھ کی کمی دنیا جہان کی آسائشیں ملکر بھی پورا کرنے سے قاصر تھیں۔
1 Comment