ایڈلٹری کی لنڈا اور فورٹی رولز کی ایلا

ایلا کی شناخت میرے ذہن میں ہمیشہ ایک لائن سے رہتی ہے۔”ایک دن خموشی سے وہ اپنا گھر،بچے،بے وفا شوہر،اور ہمسائے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر دنیا کے خطرناک راستوں پر اکیلی نکل جائے گی۔”

اور ایک دن وہ واقعی یہ سب چھوڑ کر چلے جاتی ہے۔انسان کے اندر خالی پن ہو تو اسے سناٹوں کی بازگشت ہمیشہ سنائی دیتی رہتی ہے۔بستیاں سوکھنے لگیں تو وہ جانتی ہیں کہ ایک دن ان کو ریت بن کر اڑ جانا ہے۔مگر لنڈا کے کان میں ایسی کوئ بازگشت نہیں۔وہ تو اپنی بھرپور زندگی میں اس قدر مگن تھی کہ ہوا کے زرا سے جھونکے سے اس کے بدل جانے سے ڈرتی تھی اور ذندگی کا ہر لمحہ اسی کاملیت کے ساتھ اس کی بہتی روانی میں بہائے رکھنا چاہتی تھی۔اس کے باوجود کہ وقت کی مسافت اس کے ماتھے پر بھی کچھ تھکاوٹ بھری لکیریں ڈالنے لگی تھی اور اس کے گھٹنے بے مصرف مسافتوں کو سر کرتے چٹخنے لگے تھے۔

ایلا اور لنڈا کون تھیں؟ ایلف شفق کا ناول فورٹی رولز آف لو کی ایلا اور پائلو کاہلو کے ایڈلٹری کی لنڈا، دو مرکزی کردار،دو شادی شدہ عورتیں،عمر کی چڑھتی سیڑھیوں پر قدم دھرتی،پھولتے سانسوں کے ساتھ خود کو بہلانے کی طلب لئے اپنے اندر اٹھتے جوار بھاٹا سے نبرد آزما :نارتھ ایمپٹن کی ایلا ___ان طوفانوں کی آہٹوں پر کان دھرنے والی اور سوئٹزرلینڈ سے لنڈا____اس جوار بھاٹا پر کان دھرنے سے بچتی مگر بار بار ان میں پھنس جانے والی!مڈ لائف کرائسز کی شکار دو عورتیں جن میں بہت سے اختلاف کے باوجود بہت سی باتیں مشترک ہیں۔اپنے اپنے انداز میں رومی کی محبت کی فلاسفی ان دونوں خواتین کی ذندگی کا حاصل ہے۔محبت کا حصول دونوں کی ذندگی کی مشترک طلب ہے اور اس کی راہ سے چنے گئے کانٹے دونوں کا مشترکہ غم ہے۔مگر اس کے باوجود دونوں میںں بہت کچھ الگ ہے۔یہ انداز شاید مصنفین کے مختلف تہزیبی بیک گراؤنڈ کی وجہ سے مختلف ہے یا دو مختلف روایات اور اقدار رکھنے والے دو علاقوں سے تعلق رکھنے کی بنیاد پر کہ ایک ہی رومیّ کی محبت کی فلاسفی کے گرد گھومتے دونوں کے ناول ایک دوسرے سے بہت فاصلے پر ہیں۔ایک کی محبت میں روحانیت کا پہلو دکھائ دیتا ہے تو دوسرے کی کہانی میں زمینی اور مادی محبت کا۔اگر ایک کی محبت جسمانی وجود تک معلق ہو کر رہ جاتی ہے تو دوسرے کی اس سے بالاتر ہے۔روحانی تعلق نبھانے والی ایلا ذندگی کے مقابلے میں تن کر کھڑی ہو جاتی ہے اور مادیت میں ڈوب جانے والی لنڈا ہر حال میں ذندگی سے مصالحت چاہتی ہے۔دونوں کی ترجیحات میں بھی فرق ہے۔لنڈا آرام و آسائش کی عادی ہے اور اس سے جدا ہونے سے ڈرتی ہے تو ایلا ذندگی کی ہر رعایت پر محبت کا انتخاب کرتی ہے اور اس کے لئے ہر علاقائی،سماجی،مذہبی اور مادی حد کو عبور کر جاتی ہے۔حالانکہ رومی کا ایک ہی سبق جو فورٹی رولز آف لو میں محبت کا انتخاب کرنے کی تلقین کرتا ہے تو ایڈلٹری میں بھرپور زندگی کا اصل ایک مکمل اور بھرپور محبت کو قرار دیتا ہے۔مگر صحیح معانی میں پائلو کاہلو یہاں ایلف شفق سے کہیں پیچھے رہ جاتا ہے کہ اسکی محبت محض ایک جسمانی طلب کے گرد گھومنے پر مجبور ہو جاتی ہے جبکہ ایلف شفق اپنے ایشائی بیک گراؤنڈ کی نسبت جانتی ہے کہ کس طرح محبت کی حد نفس سے آگے تک کتنے میلوں کا فیصلہ طے کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔ایلف شفق کا ٹریٹمنٹ اور موضوع سے برتاو پائلو کاہلو کو اس ناول میں بہت پیچھے چھوڑ دیتا ہے۔پاؤلو جو مغرب کی تہذیب کا سرا تھامے رومی کی محبت کی گتھیاں سلجھانے نکلا ہے مگر شاید مشرقی تہذیب اور اقدار سے ناآشنائی اور باقاعدہ صوفیانہ بنیادوں سے اجنبیت کے باعث محبت کے زمینی حقائق میں پھنس کر رہا جاتا ہے۔جبکہ ایلف شفق جو اپنے وجود کی بنیاد میں گہرائی تک جمی مشرقیت اور صوفیانہ روایات سے نہ صرف بھرپور واقفیت رکھتی ہے بلکہ ان کو وسیع تر تناظر میں ہر چیز کو حدوں کے اندر رکھنے اور ان کا ایک بہترین تاثر تخلیق کرنے میں ماہر ہے۔

پاؤلو کاہلو کی لنڈا اپنی نفسی ترغیبات میں الجھتی،پھنستی،گرتی،ڈوبتے ابھرتے سمندر میں ڈبکیاں لگاتی بلآخر اسی کنارے پر واپس پہنچتی ہے جس کا سرا چھوڑنے کی اس میں طاقت نہ تھی۔لنڈا کے لئے محبت ایک مادی طلب سے آگے بڑھ نہیں پاتی اور یہی مصنف کی انتہا ہے جبکہ دوسری طرف ایلا کے سفر کا آغاز ہی طلب سے کہیں بڑھ کرہے۔حسن،جوانی، اور وصال جیسی دل لبھانے والی داستانوں کی غیر موجودگی بھی ایلا کے قدموں کو لرزا نہیں پاتی اور وہ اپنی محبت کے لئے تن کر کھڑی ہو جاتی ہے۔نظریہ ضرورت یا دنیاوی سمجھداری کے تناظر میں دیکھا جائے تو پاؤلو کاہلو کا ایڈلٹری ایک عام انسان کی بشری محبت کا افسانہ ہے۔مگر صوفیانہ رنگ میں روحانی تعلق پر، اگر آپ کو اعتقاد ہے اور زمین پر چلتے قدموں سے آگے ہوا میں اڑ جانے پر بھی آپ یقین رکھتے ہیں تو ایلف شفق کی ایلا کو ایک ماورائی کردار کہہ نہیں پاتے مگر اس کی محبت بشری تقاضوں سے بہت دور وہاں تک جاتی ہے جہاں تک عام انسان قدم دھرتے بھی ڈرتا ہے۔پھر چاہے یہ عام انسان کے لئے کیسا ہی مشکل راستہ کیوں نہ ہو،یہی راستہ دلربا لگتا ہے۔لنڈا جب لہروں سے لڑتی کنارے تک آتی ہے تو حاصل پاتی ہے کہ سفر وہیں پر تمام ہوا کہ جہاں سے اس کا آغاز تھا۔محض ایک سفر،دشت نوردی مقدر میں تھی،محض کچھ قسمت کے دھکے تھے جو اس کی گھر کی دہلیز کے باہر رکھے تھے،جن سے زخمی ہوتے،الجھتی وہ واپس اپنے ہی گھر کو لوٹ آتی ہےاور بلآخر دریافت کرتی ہے کہ جس نخلستان کی تلاش میں نکلی تھی وہ تو خود اسکے گھر کے اندر تھا۔محبت اس کی زندگی میں موسلا دھار بارش کی طرح آتی ہےجو اس کی زندگی جل تھل کر کے سب مٹی اور گرد دھو کر ساتھ لے جاتی ہےتو واپس اسے اپنے ہی آنگن کی ہریالی اور بسے بسائے گھر کی مدھر خوشبو میں اصلِ محبت محسوس ہوتی ہے۔دل میں کسک اور درد سمیٹے وہ بحرحال اپنے گھر کی طرف لوٹ جاتی ہے۔محبت کا المیہ یا تجربہ اس کی زندگی کے لئے محض ایک الہام ثابت ہوتا ہے،ایک دریافت کا سفرجو اسے صرف چیزوں کو نئے ڈھنگ سے دیکھنے کا شعور ہی دے پاتا ہے۔

ایلف شفق کی ایلا کی ذندگی میں یہ دریافت کا سفر ایک نئے اور اچھوتے خیال سے آگاہی تک محدود نہیں رہتا،اس کی آنکھوں کا خوف پانی کا بلبلہ ثابت نہیں ہوتا،جو کچھ دیر کی لذت یا خوبصورت لمحات کی یاد دے کر کچھ جلتی بجھتی چنگاریاں اس کے دامن میں چھوڑ گیا ہو،بلکہ ایک ایسا موڑ ثابت ہوتا ہے جو اس کی زندگی کا رخ اور رنگ،وجہ اور مقصد سے جغرافیہ تک بدل دیتا ہے۔محبت اس سے ذندگی مانگ لیتی ہے اور بدلے میں اسے صرف محبت کا وہ احساس ملتا ہے جس کی اس کی بے رنگ ذندگی میں شدید کمی تھی،تھوڑے ہی وقت کے لئے اسے وہ ساتھ ملتا ہے جو بن کہے بن جانے اس کے مزاج کے ہر موسم کی شناخت کرنے اور ہر روپ میں اس کے ساتھ چلنے پر قادر تھا۔

ایلا ادھیڑ عمری میں اک نئی محبت سے روشناس ہوتی ہے تو گلی کے بے مقصد چکر لگا کر واپس گھر کی طرف لوٹ نہیں پاتی۔بلکہ اس دہلیز کو وہ ہمیشہ کے لئے اس محبت کے لئے چھوڑ دیتی ہے جو اس پر الہام بن کر اتری۔اور اس کی زندگی کا ہر زاویہ بدل گئی۔ہوتی ہے بہت سی زندگیوں کو ایسی ضرورت جس میں رشتوں کا حدود اربعہ ضرور بدل دینا چاہیے مگر اکثر ایشیائی یہ روایت تک بدلنے سے ڈرتے ہیں۔ایشیائ یورپی ایلف شفق اپنے قلم سے وہ سب کچھ بدل ڈالتی ہے جو اکثر حقیقت میں بدلا نہیں جاتا۔

دوسری طرف مغرب کے پائلو کاہلو کا طاقتور قلم جس کی سرحدوں میں روزانہ کئی کچھ بدل دیا جاتا ہے ذندگی کے جغرافیے میں تبدیلی سے ڈرتا ہے اور ایشیائ انداز کی وابستگی اور وفا کا تزکرہ کرتا ہے۔ وہ اپنے مرکزی کردار لنڈا کو گھوم گھما کر پھر سے اسی گھر کی طرف لے آتا ہے جہاں سے سفر شروع ہوا۔ یہ دونوں مصنفین کے نزدیک اپنی اپنی روایات سے بغاوت اور تبدیلی کا سبق ہے یا ہر تخلیق کار اپنے قاری کو دوسری طرف کا وہ رخ دکھانے کا خواہش مند ہے جو ان کے معاشرے اور روایات میں وجود نہیں رکھتا۔دونوں میں سے کونسی ترجیح بہتر ہے اور کون سی بدتر اس کا فیصلہ کرتے ہمارے بہت سے معاشرتی اور مذہبی عقائد اس انتخاب پر اثرانداز ہوتے ہیں ہیں اس لیے انکی صداقت سے بڑھ کر میری دلچسپی اس امر سے ہے کہ دو مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والی دو مختلف خواتین کس طرح سے ایک جیسے حالات میں کیا ردعمل ظاہر کرتی ہیں۔

جیکب اور عزیز کے کرداروں میں اور ان کے لنڈا اور ایلا کے ساتھ تعلقات،احساسات اور جذبات میں فرق بھی ان کے مختلف ردعمل کا باعث ہو سکتا ہے۔

شمس کا یہ کہنا کہ “رومی کے بغیر شمس کا جنم نہیں “بھی اس کا ایک واضح ثبوت ہے ۔ایلا جو رومی کا دوسرا جنم ثابت ہوتی ہے اسکے وجود کے لئے ایک عدد شمس بہت ضروری ہے جو دنیا کے دوسرے کونے سے بھی اپنی روشنی بھیج کر ایلا کے وجود کو ذندہ رکھے۔پاولو کائلو کی ہیروئن لنڈا کی زندگی میں وہ شمس کبھی ابھر نہیں پایا بلکہ جس کردار کو وہ شمس بنانے کی کوشش میں مگن رہی وہ خود کسی دوسرے سورج کی روشنی مستعار لے کر جگمگا رہا تھا سو کچھ بھی بانٹنے سے قاصر تھا۔
چناچہ لنڈا کا اپنے گزشتہ محبوب سے تعلق سوائے ایک جسمانی کشش کے اور کچھ ثابت نہیں ہو پاتا۔ ۔جبکہ ایلا اور عزیز کا تعلق یک جان دو قالب کی ایک ذندہ گواہی محسوس ہوتا ہے،دو ایسے افراد جو ایک ہی مٹی سے تخلیق کیے گئے ہوں،جن کی خواہش سے لے کر ان کی سوچ وافکار،اڑان و پرواز کا ہر رنگ اور رخ ایک سا ہو۔لنڈا محبت کے سودے میں انا،عزت نفس،اور وقار سمیت سب کچھ لوٹا کر گھر کو لوٹتی ہے تو محبت کا مظاہرہ اس کے مسٹر پرفیکٹ شوہر کی طرف سے ہوتا ہے جو سب کچھ جاننے کے باوجود مشکل وقت میں اس کے ساتھ کھڑے ہونے کا فیصلہ کرتا ہے۔لنڈا کے لئے یہ واقعات ایک سبق ثابت ہوتے ہیں جو اسے ذندگی کی حقیقت کو نئے سرے سے قبول کرنے کی طرف اس کی ہمت بندھاتے ہیں اور وہ محبت کے اس خیال پر راضی رہنے کی کوشش کرتی ہے جو اس نے ایک مختصر مدت میں کشید کیا۔یہیں پر پاؤلو کی ساری فلاسفی ختم ہو جاتی ہے۔۔مگر ایک مشرقی قاری کو یہ آئیڈیا مرغوب دکھائ نہیں دیتا۔مشرق میں ایسے واقعات کو ناقابل تلافی غلطیاں اور گناہ تصور کیا جاتا ہے اسباق نہیں۔اور ایسی غلطی چاہے اس سے کیسا ہی حسین سبق اخذ نہ کیا جائے ناقابل معافی ہوتی ہے جس کے لئے کسی بھی انساں خصوصاً عورت کو اپنی عزت و وقار کا سودا کرنا پڑے۔مشرق کی روح میں ڈھلتی ایلا عزت و وقار سمیت کسی چیز کا سودا نہیں کرتی۔وہ سودا کرتی ہے گھر کی آسائش کا،بنے بنائے سجے سجائے گھر پر لگائی کئی سال کی محنت کا،بنی بنائی گھر گھرہستی کا ،بچوں کی محبت اور شوہر کی سرپرستی کا اور حاصل پاتی ہے من مندر میں تھرتھری لیتے عذابوں کے خاتمے کا،دل کے سکون اور روح کے اس چین کا جو گھر بار ،بچوں کے ساتھ میں اسے مل نہ سکا۔چیزوں ،آسائشوں اور سہولیات کا انتخاب ایک آسان حل ہے مگر ان سب کو ٹھکرا کر یا آتش نمرود میں بے خوف کود جانا ایک بہت مشکل چناؤ ہے جسے کرنے کی ہمت محض چند انسان کر پاتے ہیں۔ذندگی میں بہت بار انسان رستوں میں بیٹھ کر یہ سوچنے لگتا ہے کہ اس کے ہاتھ کیا آیا۔ایلا بھی یہ سوچتی ہےاور پھر بلآخر اس ذندگی کو رد کر دیتی ہےجو اس کے دامن میں محض خالی پن پیدا کر سکا۔دوسری طرف لنڈا کی محبت اس کے لئے ایک خسارہ تھی۔اس کی ذندگی مکمل تھی اس محبت کے بغیر بھی جو اسے دکھائ نہیں دیتی۔محض ہیجان کی کمی کے علاؤہ اسے اپنی ذندگی کی کاملیت سے کوئ شکایت نہ تھی۔اگرچہ ایک بظاہر مکمل ذندگی میں اس روح کی کمی اسے بھی تھی جو بے شمار مادی نعمتوں کے ہوتے بھی مل نہیں پاتا۔مگر وہ پہچان نہ پائی اور وہی سکون ایک تعلق بنا لینے کے باوجود وہ حاصل کرنے سے قاصر رہی۔وہ سکوں جو ایلا بغیر کوئ ناجائز تعلق بنائے اور نبھائے اپنی ذندگی سے کشید کر لیتی ہے۔ایک ایسا سکون جو اس کے گھر ،میاں اور بچوں سے بڑھ کر تھا۔ایک سچے تعلق کے ہونے کا یقین،ایک وجود کے ہمیشہ اپنے ساتھ ہونے کا سکوں،دو لوگوں کے لئے ایک دوسرے کے لئے لازم ملزوم ہونے کا احساس بغیر کسی مجبوری بغیر کسی عذر کے۔آخری سانس لیتے شخص کے ساتھ زندگی کے کچھ پل گزار دینے کا سودا جہاں ایلا کو عمر بھر سے قیمتی لگتا ہے وہیں لنڈا کو اپنی بے مائیگی اور بے معانی خواہشات کا ادراک ہوتا ہےاور وہ لوٹ کر اپنی اسی ذندگی کی طرف آتی ہےجو بلآخر اس کا بہترین مقام اور پناہ گاہ ثابت ہوتی ہے۔

۔رسائ اور نارسائی ایلا اور لنڈا کے بیچ بنیادی فرق رہا۔سب کچھ لٹا کر ایلا اس رسائ تک جا پہنچتی ہے جو کچھ ہی عرصے میں اس کی صدیوں کی پیاس کو سیراب کر دیتی ہے جب کہ رسائ پا کر بھی نارسائی بلآخر لنڈا کا مقدر بنتی ہے۔ان دونوں کرداروں کو ملا کر قدرت کا ایک قانون بھی واضح طور پر سامنے آتا ہے کہ جس میں سیدھے رستے کا مسافر منزل نہ پا کر بھی شادماں و کامران ٹھرتا ہے اور بھٹکا ہوا راہی منزل پر پہنچ کر بھی ہمیشہ ادھورا رہتا ہے۔

ایلا اور لنڈا کے دو کردار ،مشرق اور مغرب کے دو کرداروں کے ساتھ ان کی فلاسفی،مذاہب ، روایات اور تہذیبوں کا بھی گھمبیر مطالعہ ہیں۔لنڈا کا کردار جہاں یہ واضح کرتا ہے کہ مادی ضروریات انسان کے روحانی عذابوں کے زخم مدہم نہیں کر سکتے وہیں ایلا کا مطالعہ یہ سیکھ دیتا ہے کہ بہت سی روحانی ضروریات جسموں اور دنیا سے بڑھ کر ہوتی ہیں اور ان ضرورتوں میں سے سب سے بڑی محبت ہے۔چاہے اس کی تعریف رومی کے الفاظ میں ایلف شفق نے لکھی ہو:

“محبت کو ترجیح دو!محبت کی مٹھاس کے بغیر زندگی ایک اذیت ہے.”

یا پاؤلو کاہلو کے الفاظ میں

“بھرپور ذندگی جینے کے لئے بھرپور محبت کی ضرورت ہے”.

ذندگی کے سب ضابطے اور اخلاق محبت کے اس تعلق کے بغیر ادھورے ہیں پھر چاہے وہ مشرق کے ہوں یا مغرب کے۔رشتوں اور تعلقات میں محبت کا ذندہ وجودانسانوں میں روح کے وجود کی طرح اہم ہے۔بشرطیکہ اس کی اصل روح اور اہمیت کو سمجھا جائے۔

بقول پاؤلو کاہلو

“ذندگی ہمیں سیکھنے کے ہزاروں مواقع دیتی یے۔ہر انسان چاہے وہ مرد ہو یا عورت،اپنی ذندگی کے ہر لمحے میں محبت کے در پر سجدہ ریز ہونے کے کئی موقع پاتا ہے۔ذندگی طویل تعطیلات کا نام نہیں،یہ تو ایک سیکھتے رہنے کا عمل ہے۔

اور سب سے اہم سیکھ محبت سیکھنا ہے”

اور اسی بات کو رومی کی زبان میں فورٹی رولز آف لو میں اس طرح بیان کیا گیا ہے

” لوگ چاہے کچھ بھی کہتے رہیں،محبت وہ خوشبو کی لہر نہیں جو محض آئے گی اور چھو کر چلے جائے گی”۔”محبت ہی ذندگی کا اصل اور مقصد ہے”۔

—————

از قلم صوفیہ کاشف

2 Comments

  1. ماشاء آللہ خوب است خاتون! آپ کا تقابل جتنا لمبا تھا اتنا اچھا بھی تھا۔ زیادہ ادب شناس نہیں ہوں لیکن ان دونوں ناولوں کا اچھا تجزیہ ہی نہیں تعارف بھی ہو گیا۔
    مشرق و مغرب کے پیمانوں میں فرق یہی ظاہر اور باطن کا ہے اور اقبال تو واشگاف کہتے ہیں کہ ظاہر کی آزادی باطن کی گرفتاری بن کر رہ گئی ہے مغرب میں۔
    یہ ظاہر و باطن فکرکی سطح پر بھی اور فرد اور خاندان کی سطح پر بھی۔
    وسی بابا نے اپ کے بلاگ پر پوسٹ لگائی ہے انہیں کی توجہ پر آپ کے یہاں آمد ہوئی ہے۔
    جیتی رہیں خوش رہیں۔

    Liked by 1 person

    1. بہت شکریہ! یہاں پر اور بھی کتابوں پر تبصرے موجود ہیں آپ ان کو بھی ضرور پڑھیں۔خدا وسی بابا صاحب کو جزائے خیر دے! آمین!

      Like

Leave a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.