—————میں نے ممی کی ڈائری کیوں لکھی؟

تحریر :صوفیہ کاشف

کور ڈیزائن:ثروت نجیب

اگر تین سال پہلے مجھ سے کوئ پوچھتا کہ میری قابلیت کیا ہے تو میں کہتی”ممی”.میرا کام،میری نوکری،ذمہ داری، فرض میرا ہنر میری مہارت سب کچھ میرا ممی ہونا ہی تھا۔چونکہ بارہ سال میں نے صرف اور صرف ممی ہڈ mommyhood

کو دئیے ہیں۔صرف ممی بننا سیکھا اور صرف اسی میں مہارت حاصل کی۔کیا میں ایک ایکسپرٹ ممی بن سکی؟ اس بات کا جواب تو وقت دے سکے گا ،میں نہیں۔چونکہ ماں اپنی کوشش میں کامیاب ٹھہرے یا ناکام اس سے اس کی کی گئی محنت کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ہر ماں اچھی اور محنتی ماں ہوتی ہے۔لیکن وہ ایک کامیاب ماں ٹھہرتی ہے کہ نہیں اس کا فیصلہ بہت سارے مختلف عناصر کرتے ہیں۔ان عناصر کا ذکر میں نے دفتا فوقتاً ممی کی ڈائری کے ان صفحات پر کئی بار کیاہے ۔بہت ساری وجوہات ماؤں کی کامیابی میں دخل دیتی ہیں۔ میں اس سارے عمل میں سے ایک انٹرنی کی طرح سے گزری اور دن رات سالہا سال اسے دے کر میں نے اس سے بہت کچھ سیکھا۔میں نے ذندگی کے بڑے بڑے سبق ان بارہ سالوں میں سیکھے۔آج مجھے شاید اتنے لوگ نہیں جانتے جتنے غائبانہ طور پر ممی سے واقف ہیں۔مختلف صفحات اور گروپس میں ممی کی ڈائری کے صفحات چھپے اور ایک ممی کے ٹائیٹل تلے یہ ہر اس ماں تک پہنچے جس کے لئے یہ لکھی گئی۔یہی میری کامیابی ہے۔پھر مجھے اس سے کوئ فرق نہیں پڑتا اگر کوئ ممی کی اصل صورت سے واقف نہیں یا اس کے اصل حوالے سے لاعلم ہے۔اگر ممی کی ڈائری نے ہر اس ماں کے دل کی بات کر کے اسے کچھ سکون کچھ آسرا کچھ شعور بخشا ہے تو یہی میری اس تمام کوشش کا حاصل ہے۔جی ہاں! میں ہی ہوں وہ ممی جسکی تحریریں ممی کی ڈائری کے عنوان سے آپ پڑھتے رہے ہیں۔

میں ماؤں کی اس نسل میں سے ہوں جن کی ماؤں نے ان کو شہزادیوں کی طرح ناز نخروں سے پروان چڑھایا۔جنکو کچن کے گرم چولہے کی ہوا تک نہ لگنے دی گئی جنہوں نے گھر کے کسی کام کو کبھی ہاتھ لگا کر نہیں دیکھا۔والدین ہمیں زندگی میں سب سے کامیاب دیکھنا چاہتے تھے اس لئے ہمیں پڑھائی کے لئے کھلا وقت دیتے تھے تا کہ ہم ڈاکٹر اور انجینئر بن کر اپنا مستقبل محفوظ کر سکیں۔یہ اور بات کہ کچھ ہمارے جیسے نکمے لوگ کتابوں میں سر دے کر کہانیاں اور غزلیں لکھنے میں وقت بتاتے تھے یا رنگوں کی دنیا میں تخیل کی پروازوں میں الجھے رہتے تھے۔ سو میں بھی فرصت سے کتابیں پڑتی تھی نظمیں اور غزلیں کہتی تھی،دوستوں سے گپ شپ لگاتی تھی اور انہیں خوش گپیوں میں مگن رہتی تھی کہ ایک دم میرے سامنے بیوی اور ماں ہونے کی منزل آ گئی۔ایک ایسی منزل جس کے لئے میری مہارت اور علم صفر سے بھی کمتر تھا۔

میں ہمیشہ محسوس کرتی ہوں کہ ہمارا معاشرہ ایک کنفیوژ معاشرہ ہے جسے یہ نہیں پتا کہ گندم اگانی ہے تو گندم ہی بونی ہے۔ہم ڈاکٹر انجینئر بنانے کی خواہش میں لڑکیوں کو اعلی تعلیم دیتے ہیں مگر بعد میں ان کی اعلی تعلیم گھر رکھ کر جہیز دے کر گھر بنانے رخصت کر دیتے ہیں جس کے لئے تمام تر قابلیت گول روٹی پکانے کی مہارت،میاں اور سسرال کے نخرے برداشت کرنے کی طاقت اور بچوں کو چپ کروانے کے ہنر پر منحصر ہے۔تو میں بھی سائنس پڑھتے پڑھتے انگلش ادب میں پہنچی اور لیکچر دیتے دیتے گھر گھرہستی میں اٹکی اور میں نے اگلے کئی سال ہوم اکنامکس کے اس علم کو استعمال کرنے میں لگائے جو میں نے کبھی حاصل نہ کیا۔ڈش واشنگ کی کیمسٹری سے لیکر،پیمپر کی بائیو تک,سردی کی چھینکوں سے گرمی کے بخار تک مجھے کسی چیز کا کوئ علم نہ تھا ۔تو پہلے ہی سال جب ہجرت مجھے متحدہ عرب امارات اپنی تماتر زمہ داریوں کے ساتھ ایسے لے آئی کہ نہ میرے پاس کوئ بتانے اور سمجھانے والی ماں تھی نہ ساس،نہ بہن نہ نند۔لے دے کر چند نام کی بھابیاں۔جن کا ساتھ کبھی مل پاتا کبھی نہیں۔تو اگلے تمام سال اس مدرہڈ کے دریا میں تن تنہا بغیر کسی کی رہنمائی کے میں تیری۔بہت سی غلطیاں ہوئیں،بہت سے خمیازے اٹھائے، چیزیں بگڑیں ،پھر بگڑی چیزوں کو سنوارا،سنوری چیزیں خراب ہوتیں اور ان کو دوبارہ سے سنبھالنا پڑتا۔ایک سیکھنے کا غلطیوں بھرا طویل سفر تھا جو میں نے گزارا۔مانا سوشل میڈیا اور ٹیکنالوجی نے بہت کچھ آسان کر دیا ہے پر آج سے بارہ سال پہلے سب اتنا بھی آسان نہیں تھا جتنا تیز رفتار آج ہے اور سب تو یہ ہے کہ شروعات میں ہمیں بھی اندازہ نہیں تھا کہ ہر چیز گوگل پر مل جاتی ہے۔پھر نئے ملک نئے معاشرے کے نئے تقاضے اور نئے مسائل بھی تھے جو ہر آسان چیز کو بھی بہت مشکل کر دیتے تھے۔تو ان تمام غلطیوں سے سیکھتے سیکھتے ذندگی سے کچھ بہت بنیادی سبق اخذ کئے۔ایک سب سے اہم سبق جو نہ صرف سیکھا بلکہ سہا وہ یہ تھا کہ چیلنج صرف یہ نہیں ہوتا کہ آپ وقت کے ساتھ کس رفتار سے بھاگتے ہیں۔چیلنج یہ بھی بہت مشکل ہے کہ کب آپ بھاگنا چھوڑ کر خاموشی سے کھڑے ہو جاتے ہیں اور مشکلوں کو اپنے سر کے اوپر سے گزرنے دیتے ہیں۔اور یہ چیلنج میں نے بھی بہت سی دوسری نوکریاں چھوڑ کر گھر گھرہستی کرنے والی خواتین کے ساتھ قبول کیا۔

ایک وقت آ تا ہے جب آپ کے سامنے دو راستے ہوتے ہیں اور رابرٹ فراسٹ کی طرح آپ صرف ایک چن سکتے ہیں۔اور یہ وقت اکثر پاکستانی عورتوں کی زندگی میں آتا رہتا ہے۔تو جب وہ وقت آیا تو میں نے بھی ایک پلڑے میں اپنی سال بھر کی بیٹی اور دوسرے میں اپنا کیریئر رکھا تو ماؤں کی اکثریت کی طرح کرئیر کو بہت ہلکا جانا۔آج مجھے اپنے فیصلے سے اختلاف بھی ہو سکتا ہے اور اس اختلاف کی ٹھوس وجوہات بھی کچھ جگہوں پر میں ممی کی ڈائری میں دے چکی ہوں۔مگر اس وقت یہ میرے عقل اور شعور کے مطابق ایک بہترین فیصلہ تھا۔یہی وجہ ممی کی ڈائری لکھنے کی وجہ بنی کہ یہ سفر بہت کچھ سیکھنے اور بہت سے نظریات بدلنے کا تھا۔اپنا ہر آئیڈیا زندگی کی کسوٹی پر پرکھ کر دیکھا، اپنی ہر خواہش کو آزمانے کے بعد بہت سارے معاشرے سے سیکھے رویوں کو غلط پایا،بہت سی باتیں جو صبح شام ہمارا معاشرہ اور لوگ ہمیں سکھاتے رہتے ہیں انہیں بے وزن اور غیر منطقی دیکھا اور ذندگی پر ان کا مفید اثر ہونے کی بجائے غیر مفید دیکھا۔اس سارے سفر میں سیکھا کہ ہر بتائ جانے والی بات ٹھیک نہیں ہوتی،ہر مشورہ قابل عمل نہیں ہوتا۔اور جب بات آپ کے بچوں کی ہو تو اس میدان میں تجربات کرنا بہت خطرناک ہو سکتا ہے ۔ہر ماں صفر سے تجربات کر کے اپنے بچوں کی صحت اور سلامتی خدانخواستہ داؤ پر نہیں لگا سکتی اس لئے یہ بہت ضروری ہے کہ اپنے تجربات اور ان سے حاصل ہونے والے مشاہدات کی بات کی جائے۔اور ہر اس ماں سے کی جائے جس کو آج ان باتوں کی ضرورت ہے بجائے کہ وہ زندگی گزار کر تب ان باتوں کو جانے جب ان سے فایدہ اٹھانے کا وقت ہی گزر چکا ہو۔اس لئے بھی ممی کی ڈائری لکھنا بہت ضروری تھا۔ اور الحمدللہ میرے ویب پورٹل صوفیہ لاگ ڈاٹ بلاگ کے ساتھ ساتھ “ہم سب” سمیت بہت سے پلیٹ فارمز اور فیس بک گروپس اور پیجز نے اس پیغام کو پھیلانے میں میرا ساتھ دیا۔

میں سمجھتی ہوں کہ مائیں ہمارے معاشرے کا سب سے کمزور طبقہ ہیں جب کہ ان کو سب سے مضبوط اور پراستحقاق کلاس ہونا چاہیے۔ایک ماں کے کردار،اس کے اعمال،اس کی ذہنی،جسمانی صحت اور کردار پر آپ کی اور اس زمین کی نسل تعمیر ہوتی ہے مگر معاشرے کا رویہ اس کے برعکس ہے۔شوہر سسرال سے لیکر عورت کے ننھیال اور معاشرہ تک ماں کے کاندھے پر وزن تو بے دریغ رکھتے ہیں مگر اس میں ان کو طاقت دینے ،ان کا حوصلہ بننے یا ان کے ساتھ کھڑے ہونے پر بالکل تیار نہیں ہوتے۔یہ معرکہ ایک ماں کو اکثر اکیلے ہی طے کرنا پڑتا ہے۔ایسی صورتحال میں پورا معاشرہ تو ہم منٹوں میں بدل نہیں سکتے مگر ماؤں کو کچھ ایسی سبق کچھ معلومات ضرور دے سکتے ہیں جن کی وجہ سے یہ سفر ان کے لئے آسان ہو سکے۔

۔میں نے کوشش کی کہ میں فردا فردا ان تمام اہم امور کو زیر بحث لاؤں جن کے بارے میں ہمیں اپنے مشاہدات اور نظریات کو اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ ڈائری کی شکل میں لکھنا اس لئے بھی ضروری تھا تا کہ یہ صفحات ہر ماں کے ہاتھ تک پہنچ سکیں۔میری ٹارگٹڈ آڈینس پہلے ہی دن سے عورت اور ماں تھی۔عام انداز کے مضامین عورتوں تک نہیں پہنچ پاتے چونکہ بحثیت ایک ممی میں خود جانتی ہوں کہ مطالعہ نہ کر سکنے کی ماؤں کے پاس بہت ٹھوس وجوہات موجود ہوتی ہیں ایسے میں ان کو اس بات پر مجبور کرنا کہ وہ روکھے پھیکے انداز کے درسی قسم کے مضامین پڑھیں سے بہتر تھا کہ بات ان کے دل سے نکالی جائے،ان کے انداز سے نکالی جائے،سامنے ایک ممی کو بٹھایا جائے اور اس کی عام سادہ فہم انداز میں دل کی داستاں سنائ جائے۔یہی سب سے بڑا چیلنج تھا۔خود کو فرسٹ پرسن کے طور پر پیش کرنا اور ہر بات کو اپنے گرد گھمانا،مسائل پر سادہ انداز اور سادا الفاظ میں بات کرنا ہی سب سے بڑی مشکل تھی جو راہ میں حائل رہی۔بہت سے واقعات حلقہ احباب سے اٹھائے اور بہت سے اپنی زندگی سے شامل کئے ۔کچھ کرداروں کا اضافہ کیا کچھ کی کٹوتی۔بہت سے مسائل پر بات کرنی مشکل لگی اس لئے بھی کہ کل کو میرے بچے بڑے ہو کر مجھ سے یہ نہ پوچھیں کہ یہ کیا لکھا آپ نے ہمارے نام پر۔تو اس کے لئے یہ واضح کرنا بہت ضروری ہے کہ ممی ایک کردار ہے جو اس ڈائری کی خاطر تخلیق کیا گیا۔اور اس میں واقعات بہت سی ممیز اور ان کے بچوں کی زندگیوں سے اکٹھے کئے گئے۔انہیں میں کچھ کہانیاں میری اپنی ذندگی کی بھی ہیں۔۔یہ ڈائری جھوٹ نہیں ،حرف حرف سچ ہے! بس یہ کہ کرداروں کے نام و مقام بدل کر انہیں ممی کے بچوں کے روپ میں ڈھال دیا گیا ہے تا کہ اک ماں کی اصل بپتا سامنے آسکے۔جب ہمیں ہر بات افسانوی انداز میں،استعاروں اور تلمیحات میں کہنے کی عادت ہو جاتی ہے تو یہ بھی مشکل تھا کہ ہر بات سادہ عام انداز میں کیسے کی جائے۔اللہ کا شکر ہے کہ بہت حد تک اس میں کامیاب رہی۔اگرچہ ابھی بہت سے موضوعات ادھورے ہیں مگر یہی مشکل ابھی بھی آڑے آ جاتی ہے اور دوسری مشکل یہ کہ

Once a mom,always a mom!

سو بہت سے مسائل آج بھی چلتے پھرتے دماغ میں خیالات کی تشکیل تو کرتے ہیں کہ ان پر بات کرنی بہت ضروری ہے مگر ماں کی زمہ داری اس کو تحریر میں لانے سے پہلے ہی گنوا بیٹھتی ہے۔جب خیالات رواں ہوں تو وقت نہیں ملتا اور جب وقت ہاتھ آتا ہے تو خیالات کی آندھی ہر چیز چکنا چور کر کے جا چکی ہوتی ہے۔

ممی کی ڈائری آج سے سات آٹھ سال پہلے وجودمیں آ چکی ہوتی اگر ممی کے پاس اس کا وقت ہوتا۔مگر اس وقت جب ممی ایک گھڑی پیمپر بدلتی تھی اور دوسرے لمحے کچن کی طرف بھاگتی تھی۔تو ہر اس بات کو درج کرنے کا وقت نہیں تھا۔پھر سے وہی دو راستے سامنے تھے۔یا تو اچھی ماں بن جاؤ یا ایک اچھی ممی بلاگر۔ایک اچھی ممی بلاگر کی پوسٹ کا مطلب آپ کے بچے کے نصیب کے بہت سے گھنٹے،اس کی بہت سی مسکراہٹیں،اور توجہ کے لمحے۔مجھے یہ افسوس بہت ہے کہ میرے پاس کرنے والا کام بہت تھا جنہیں کرنے کی وجہ سے بچے نظر انداز ہوتے تھے مگر اس کی خوشی بھی ہے میں نے اپنے بچوں کی ہر دھڑکن کو محسوس کیا ہے،انکی ہر مسکراہٹ میں جئیا ہے اور ان کی ہر طرح کی ضرورت اپنے ہاتھ سے پوری کی ہے۔میں نے ان کو لوریاں دی ہیں اور راتوں میں اپنے بازو پر سلایا ہے۔بحرحال میں نے ماں بن کر اپنی تماتر صلاحیتوں اور مجبوریوں کے ساتھ انکے لئے بہترین کوشش کی ہے۔الحمداللہ یہی میری زندگی کا اطمینان ہے جو میرے بہت سے بچھتاوں کو رد کر دیتا ہے۔

چناچہ وہ بلاگ جس کی بنیاد 2011 میں رکھی گئی آخر 2018 میں تشکیل پایا۔اسی لئے یہ خاصا حقیقت ذدہ،تلخ،اور تھکا ہوا ہو چکا تھا مشاہدات اور اسباق سے بھرپور۔2011 میں لکھتی تو میں بھی وہ خوبصورت خواب لکھتی جو میری تروتازہ آنکھیں دیکھتی تھیں۔مگر تب ذندگی کو میرے ہاتھوں کی ضرورت تھی سو مجھے 2018 میں کٹھن تعبیریں لکھنی پڑیں۔ میں چاہتی ہوں کہ ہم اپنے ماؤں کے لئے اپنے خیالات بدلیں۔ہم نے بطور معاشرہ عادت ڈال لی ہے ہر چیز کو جذباتی کمزوری بنا کر دوسرے انسان کا استحصال کرنے کی۔رنگ برنگے جوڑے دکھا کر لڑکیوں کو الف لیلوی کہانی کے بھیس میں شادی نام کی ایک گھمبیر زمہ داری میں جکڑ دیا جاتا ہے اور محبت شفقت کرتے کرتے ماؤں کو کولہو کے بیل بنا دیا جاتا ہے۔اگر خدا نے شعور دیا ہے تو اب وقت ہے ذندگی کو حقائق کی نظر سے دیکھا جائے،جیسے ہیں ویسے دیکھا جائے۔ہر چیز کی غیر ضروری مبالغہ آرائ اس سے جڑے حقائق ،ضروریات اور تقاضوں کو نقصان پہنچاتی ہیں۔مائیں پیدا کریں باشعور اور سمجھ دار،ا ن کو بند آنکھوں سے سر کے بل مت پھنکیں کہ خود ہی سیکھ جائیں گی آہستہ آہستہ۔ان کو شعور دیں کسی بڑی کمپنی کے ایم ڈی سے ذیادہ ماہر اور معتبر کر کے۔کہ جو کام ان کو کرنا ہے اس کے لئے بے تحاشا مہارت سمجھ بوجھ اور فراست ضروری ہے۔

ممی کی ڈائری کو شروع کرتے میں نے اسے اپنا نام نہیں دیا ۔کیونکہ اس کی شروعات میرے بلاگ صوفیہ لاگ ڈاٹ بلاگ سے ہوئ۔میں نے چاہا کہ میری زندگی کے حالات سمجھ کر نظر انداز کرنے کی بجائے خواتین اس کے پیغام پر کان دھریں۔میں نے چاہا کہ اس سیریز کو ذاتیات سے بالاتر ہو کر سمجھا جائے کہ تب ہی اس کے مقصد کی تعمیل ہوتی ہے۔میرے نام سے چھپتی تو یہ میری تخلیق تو بن جاتی مگر شاید وہ یونیورسل پیغام نہ بن پاتی جو میں نے اس سے چاہا الحمداللہ خدا نے مجھے اس میں کامیاب کیا۔

آخر میں ہم سب کی بہت شکریہ گزار جو میرے اس نئے اور انوکھے پراجیکٹ کے ساتھ کھڑے ہوئے۔نئے تجربات کرنے ہمیشہ مشکل ہوتے ہیں اور ہم سب نے اس تجربے میں میرا ساتھ دیا۔پھر ثروت نجیب کی بہت زیادہ احسان مند جس نے پہلے دن سے ممی کی ڈائری کے لئے گرافکس بنا کر اس کے کرداروں میں جان بھر دی۔

ممی کی ڈائری ابھی ختم نہیں ہوئ۔یہ تب تک جاری رہے گی جب تک ممی کا وجود ہے ۔۔جب بھی اسے کوئ نیا سبق ملے گا یہ اپنا قلم اٹھائے اسے جلد یا بدیر آپ کے سامنے رکھتی رہے گی۔ممی کی ڈیوٹی مشکل ہے اور ہر جگہ ہر وقت حاضری اس سے بھی مشکل ہے۔سو اگرچہ کب ،کہاں اور کیسے جیسا کوئ وعدہ نہیں کر سکتی مگر جب بھی ممکن ہوا اس کے اسباق میں اصافہ ممکن ہے۔

تحریر:صوفیہ کاشف

گرافک:ثروت نجیب

Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

You are commenting using your WordPress.com account. Log Out /  Change )

Facebook photo

You are commenting using your Facebook account. Log Out /  Change )

Connecting to %s

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.