آج مجھ سے سن لو
دیواروں پر تھک کر بیٹھی ہوئی داستانیں
سانس کی ڈوری سے چپکی
قدم قدم چلتی،سانس لیتی، دم بھرتیں
جینے کے جتن کرتی داستانیں
وہ جن کی انگلی پکڑے جینے کی طلب
سمندر کی ریت کنارے بیٹھ جاتی ہے
سسکتی ، آہیں بھرتی،تمھیں بلاتی ہے
بہتی ندیا کے رنگ میں ڈھل کر
سبز گنبدوں سے بھری نیک چادر پر
سر رکھتے ہی چیخ بنکر،
انگ انگ میں زنگ بن کراتر آتی ہے
تاریک راستوں کی سیاہی میں آسماں پر
پورا چاند بنکر تنہائ اتر آتی ہے
ذندگی کی ہر پور سے پیاس چھلکتی ہے
سوکھی بیلوں سے آس جھڑتی ہے
،کسکتی ہے تڑپتی ہے,تمھیں بلاتی ہے!
لفظ در لفظ اک تعبیر رکھتے
بے رنگ محل کی تعمیر کرتے
وہ خون جسے لال رنگ میں بدل کر
دیواروں کو چمکایا جاتا ہے
لہجے کو گرمایا جاتا ہے
اس لال لبادے کے رنگنے کی کہانی
اور جلتے ایندھن کی ان کہی داستان
محبت کی تھکی ہوئی، ہاری داستان
سانس لیتے،ہر موڑ پر گرتے بدن کی
شکست وریخت کی ماری داستان
آج ہنسی کہ ہر تسبیح لپیٹ کر رکھ دو
اپنی حدتوں کے آتش زرا مدہم کر دو
آج بیٹھو زرا ہاتھ تھامے
بیتے موسم کی ساری کالی بارشوں کی
زمین پر آگے خودرو جھاڑیوں کی
ٹوٹی بستیوں کی ڈوبتی ہستیوں کی
داستانیں سن لو!
_________________
کلام :صوفیہ کاشف
فوٹوگرافی و کور ڈیزائن:صوفیہ کاشف