ٹیولپ_______سمیرا حمید

تحریر سمیرا حمید

فوٹوگرافی:قدسیہ

ماڈل:ماہم

____________________
”زندگی ایک ساحر ہے اور ہم اس کا ”جادو” ۔”
جادوگرنی علیزہ زندگی میں کوئی عظیم کارنامہ سر انجام نہیں دینا چاہتی تھی’ وہ تو بس اپنے شہر شکاگو سے ”نیویارک” شفٹ ہو جانا چاہتی تھی۔اسے نیویارک میں رہنے(ذلیل ہونے) اور پڑھنے( آوارہ گردی) کا بہت شوق تھا۔ اس شوق کو پورا کرنے کے لیے اس نے گدھوں کی طرح کام کیا تھا۔آندھی’ طوفان’ بارش’ برف باری’ بیماری’ اس نے کبھی ایک بھی دن جاب سے آف نہیں لیا تھا۔وہ نیوز پیپر ڈیلیور کرتی تھی۔ ایک سال چھ مہینے اس نے فاسٹ فوڈ بھی ڈلیور کیا تھا۔ ایک ریسٹورنٹ میں وہ ڈش واشر بھی رہی تھی۔ہفتے میں ایک دن ‘ ایک بلڈنگ کی بیسمنٹ کی صفائی کا کام بھی کرتی رہی تھی۔ویک اینڈز پر ڈبل شفٹ میں ڈبل کام کرنا بھی اس کا ”کام” تھا۔۔۔۔۔۔
وہ کاموں کام ہوئی پڑی تھی۔۔۔۔۔۔صرف اس لیے کہ اس کے کچھ ہالی وڈ ٹائپ خواب تھے۔ انہی خوابوں کے لیے وہ اپنے گھر کے اس تہہ خانے سے نکل جانا چاہتی تھی جس میں وہ پچھلے پندرہ سالوں سے رہائش پذیر تھی۔۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔۔بالکل نہیں۔۔۔۔۔۔ وہ کوئی ایسی بے چاری اور مظلوم سی لڑکی نہیں ہے۔ وہ تہہ خانے کے اس اسٹور میں اس لیے بھی رہائش پذیر نہیں ہے کہ اس کی سوتیلی ماں نے اسے اُوپر کوئی کمرہ نہیں دیا تھا۔اور وہ اس سے دن بھر گھر بھر کے کام کرواتی رہتی ہے’ پیٹ بھرنے کے لیے بچا ہوا کھانا دیتی ہے’ اور فارغ وقت میں اسے خواہ مخواہ مارتی پیٹتی رہتی ہے۔
وہ وہاں اس لیے تھی کہ وہ اپنی چھوٹی سگی بہن کے ساتھ کمرہ شیئر نہیں کرنا چاہتی تھی۔بھائی کے منہ لگ کر اس سے اس کا کمرہ لینا نہیں چاہتی تھی۔ سگے ماں باپ اس کے لیے نیا گھر خرید نہیں سکتے تھے۔ جہاں اس کا ایک نیا نکور بڑا سا کمرہ ہوتا جس میں ایک بڑی سی کھڑکی ہوتی ‘جس کے قریب سفید کاؤچ رکھا ہوتا اورجس پر چیتے کی مصنوعی کھال کاتھرو کمبل پڑا ہوتا اور وہ اس پر بیٹھ کر ، سرخ مگ میں کافی پیتے ہوئے، بر ف باری کے منظر سے لطف اندوز ہوتی ۔۔۔۔۔۔خیالوں میں اپنے ہیرو کے ساتھ ”سینڈریلا ، سینڈریلا” کھیل رہی ہوتی۔۔۔۔۔۔لیکن افسوس ابھی اس کے ماں باپ اتنے اچھے والے ماں باپ نہیں بنے تھے۔ ابھی وہ تھوڑے سے نارمل تھے اور انہیں اس کی طرح ابنارمل ہونے میں کچھ وقت لگنے والا تھا۔۔۔۔۔۔
اس وقت کے انتظار میں وہ اپنے خوابوںکو سینے سے لگا کر ‘ سامان اٹھا کر نیچے آگئی تھی اور وہاں اپنا جہاں آباد کر لیا تھا۔اس جہاں میں معمولی نوعیت کا زلزلہ اس وقت آیا تھاجب اس کا چھوٹا سا ایکسیڈنٹ ہو ا اور اس کا دایاں پیر فیکچر ہو گیا ۔۔۔۔۔۔
”تم جا نہیں رہی نیویارک؟” ماما نے اپنی ہنسی چھپا نے کی زحمت کیے بغیر اس سے پوچھا تو اس نے غصے سے اپنا منہ تکیے میں دے لیا تھا۔ہر بندہ اس کا مذاق اڑا رہا تھا۔ جیسے اس نے کوئی انہونا ہی خواب دیکھ لیا ہو۔
”جا کر دکھاؤں گی۔۔۔۔۔۔”بیٹیوں میں سے ایک ابنارمل بیٹی نے کہا۔۔۔۔۔۔دکھی دل سے کہا۔۔۔۔۔۔
”فی الحال تم ہمیں چل کر دکھا دو۔۔۔۔۔۔”ماؤں میں سے ایک نارمل ماں نے کہا۔۔۔۔۔۔چہک کر کہا۔۔۔۔۔۔
”مجھ پر طنز کر رہی ہیں۔۔۔۔۔۔ واہ۔۔۔۔۔۔اور نہیں تو سوپ ہی بنا کر لے آتیں۔۔۔۔۔۔آہ۔۔۔۔۔۔”
”تمہارا جوکچومر بن گیا ہے’اسے دیکھنے آئی ہوں۔۔۔۔۔۔”ماما کی پشت دیوار کے ساتھ لگی ہوئی تھی۔ ہاتھ سینے پر بندھے ہوئے تھے۔ اسے ہالی وڈ ٹائپ کے پوز پسند تھے نا۔ وہ اسی پوز میں کھڑی تھیں۔
”کچن میں یقینا نمک ختم ہو چکا ہو گا۔سارا میرے زخموں پر چھڑک لیا نا۔۔۔۔۔۔”
”نہیں تو۔۔۔۔۔۔نمک تو بہت ہے لیکن واشنگ پاوڈر ختم ہو چکا ہے۔سنا ہے زخموں پر ڈالوں تو بہت مزا آتاہے۔ تم اپ ٹو ڈیٹ ہونے کی باتیں کرتی رہتی ہو نا، اس لیے میں نے واشنگ پاوڈر کا انتخاب کیا ۔۔۔۔۔۔تکلیف بھی زیادہ ہوتی ہے اور آرام بھی جلدی نہیں آتا۔”
”ماما۔۔۔۔۔۔بس کر دیں۔۔۔۔۔۔اور بات سنیں’یہ سویٹر آپ نے نیا پہنا ہے نا؟ بیٹی پینی پینی کے لیے گدھوں کی طرح کام کر رہی ہے’ماں نئے نئے سویٹر پہن رہی ہے۔۔۔۔۔۔زیادہ ہی مالدار ہو چکی ہیں تو مجھے دے دیں پیسے۔۔۔۔۔۔یوں تو نہ اڑائیں۔۔۔۔۔۔”
”اڑائے نہیں ہیں’خرچ کیے ہیں’ وہ بھی خود پر۔۔۔۔۔۔اور تم گدھا نہیں گدھی ہو۔۔۔۔۔۔پلس! یہ پیسے میں نے اور تمہارے پاپا نے محنت سے کمائے ہیں’ اسے اولاد کو لٹانے کے لیے نہیں دے سکتے۔۔۔۔۔۔”
” پڑھنے جانا ہے مجھے نیویارک۔۔۔۔۔۔مزے کرنے نہیں جا رہی۔۔۔۔۔۔”
”جسے پڑھنا ہو وہ کہیں بھی پڑھ سکتاہے۔۔۔۔۔۔یونیورسٹیاں صرف نیویارک میں ہی نہیں ہوتیں۔۔۔۔۔۔”
لیکن نیویارک، صرف ”نیویارک” میں ہی ہوتاہے۔دس دن کے بیڈ ریسٹ کے بعد وہ لنگڑا کر کالج تو جانے لگی تھی’ لیکن اپنی جاب پر نہیں جا سکی تھی۔ وہ فکر مند تھی۔ اگر وہ یونیورسٹی کی فیس کے پیسے جمع نہیں کر سکی’ تو کیا کرے گی۔ اسے گیپ دینا ہو گا۔ گیپ کا مطلب تھا کہ اسے اس گھر’ اس تہہ خانے میں ایک اور سال گزارنا ہو گا۔باہر دنیا کہاں کی کہاں پہنچ جائے گی اور وہ یہاں اکیلی جلتی سٹر تی رہے گی۔۔۔۔۔۔لوگ کیا کہیں گے۔۔۔۔۔۔دنیا کیا سوچے گی۔۔۔۔۔۔
”تمہارے دماغ کے پرزے ڈھیلے ہو چکے ہیں’ وقت نکال کر انہیں فکس کروا لو۔”لوگ یہ کہہ رہے تھے۔ یعنی اس کے گھر والے۔اس کے سگے والے پاپا۔
”پتا نہیں کس طرح کے خوابوں کی دنیا میں رہتی ہو تم۔تمہیں کیا لگتا ہے کہ کوئی جادو ہو گا اور تمہارے سب خواب پورے ہو جائیں گے۔تم بے وقوف ہو اور نکمی بھی۔۔۔۔۔۔”دنیا یہ سوچ رہی تھی۔ اس کی سگی والی ماں۔۔۔۔۔۔
ویسے جتنی باتیں اس بے چاری نے سن لی تھیں’ چھوٹے موٹے ”جادو” کو اس کی زندگی میں آجانا چاہیے تھا۔۔۔۔۔۔خیر۔۔۔۔۔۔لیکن ویسے ”جادو ”کوئی صدمہ ہوتا تو اسے اب تک مل چکا ہوتا۔۔۔۔۔۔جبکہ جادو تو ”معجزہ” تھا’ اسے چل کر اس کے پاس جانا تھا۔دو ماہ بعد اس نے جیسے تیسے پھر سے جاب شروع کر دی تھی۔پاپا نے کہا بھی تھا کہ وہ خود کو ہلکان نہ کرے’ وہ اس کی فیس دے دیں گے۔لیکن اس نے ناں میں سر ہلا دیا تھا۔اس لیے نہیں کہ وہ بہت غیرت مند تھی’ اور باپ سے پیسے لینا اسے گوارا نہیں تھا۔بلکہ اس لیے کہ پاپا اسے پیسے دیتے تو دوسرے شہر جانے سے روک بھی لیتے۔ وہ جذباتی طور پر اچھی طرح سے بلیک میل کر لیتے تھے۔وہ جذباتی طور پر بری طرح سے بھی بلیک میل نہیں ہونا چاہتی تھی۔۔۔۔۔۔
وہ ہر حال میں نیویارک جانا چاہتی ہے۔۔۔۔۔۔جا کر دکھانا چاہتی تھی۔۔۔۔۔۔
فی الحال وہ اس حال میں’ ایک عدد پیزا ڈیلیور کرنے جا رہی ہے۔اور میں آپ کو ایک بات پہلے سے ہی بتا دوں کہ اس کہانی کا ہیرو ”نیویارک” نہیں ہے۔نہ ہی اس کہانی کا تعلق اس کے پیر کے فیکچر ہونے اور اس کی بے چارگی سے ہے۔۔۔۔۔۔ فی الحال اس کہانی میں ایک عدد جپسی آرہی ہے’ آپ اس پر توجہ دیں۔۔۔۔۔۔اصل کہانی اس کے بعد شروع ہو گی۔۔۔۔۔۔ 🙂
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔)(۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭
”اوہ! تم آگئی۔۔۔۔۔۔بہت انتظار کروایا تم نے، کہاں رہ گئی تھی تم ؟” دروازہ کھول کر کھڑی جپسی’حیران جپسی۔۔۔۔۔۔پھر پریشان جپسی۔۔۔۔۔۔ وہ دو ‘ تین سکینڈز تک اسے اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے دیکھتی(گھورتی) ہی رہی تھی۔
”میں۔۔۔۔۔۔؟” حیران علیزہ۔۔۔۔۔۔پریشان علیزہ۔۔۔۔۔۔
”ہاں۔۔۔۔۔۔تم۔۔۔۔۔۔تم۔۔۔۔۔۔”وہ چہک کر بولی۔ پھر لہک کر بولی۔یعنی وہ کچھ اتنا زیادہ چہک’ لہک(بہک) رہی تھی کہ اس کے گلے میں پڑے موتی’ منکے’ اور پتھر جھولنے لگے تھے اور کافی شور شرابا کر رہے تھے۔
”آپ کا آڈر۔۔۔۔۔۔” اس نے پیزا باکس اس کے سامنے کیا۔ و ہ صرف تین منٹ لیٹ ہوئی تھی’ اور میڈم کہہ رہی تھیں کہ بہت انتظار کروایا تم نے۔ اس کا منہ بن گیا۔اب یہ میڈم کھلے پیسے لینے اندر جائیں گی تو پورے تیس منٹ لگا کر واپس آئیں گی۔”کیپ دا چینج”بھی نہیں کہیں گی۔ وہ جانتی تھی ان بھوکوں کو۔
”اندر آجاؤ۔۔۔۔۔۔”
جپسی دروازے سے ہٹ کر کھڑی ہو گئی اور بہت بڑی والی مسکراہٹ چہرے پر سجا کر اس سے کہا۔ اسے اندر جانا تو نہیں تھا لیکن اس کا زخمی پیر ابھی پوری طرح سے ٹھیک نہیں ہوا تھا’ اور وہ کچھ دیر بیٹھ کردل کے درد کو بھی ہلکا کرنا چاہتی تھی۔دل تو اس کا یہ بھی تھا کہ جپسی کو اپنا ہاتھ دکھائے او ر پوچھے کہ” کہ میں کب تک بیس پچیس کروڑ ڈالرز کی مالکن بن جاؤں گی؟ بس میں پیسے کی فکر سے آزاد ہو جانا چاہتی ہوں تاکہ دل کھول کر انسانیت کی خدمت کرسکوں۔میں لالچی نہیں ہوں’بس میںتھوڑی کاہل ہوں۔”
”میرا خیال ہے جلد ہی تم جیسے کاہل انسان کو انسانیت کی خدمت کا ایک موقعہ ملنے والا ہے۔یہ لو۔۔۔۔۔۔ یہ اب تمہارا ہے۔۔۔۔۔۔”
جپسی نے ایک چھوٹا سا رول اس کے سامنے کیا’ جو کہ پرپل ربن سے بندھا ہوا تھا۔وہ جیسے کانووکیشن پر ڈگری نہیں ملتی’ ویسے۔چونکہ وہ جپسی تھی اور اس کے گھر میں ادھر ادھر کچھ جادوئی چیزیں بھی بکھری ہوئی تھیں’تو اس نے بہت شوق سے اس رول کو پکڑا’ ربن کھولا اور اسے دیکھا۔وہ چھوٹے سائز کا موٹا ‘ کھردرا’ ہلکے بھورے رنگ کاموٹا ساکاغذ تھا۔ پہلی نظر میں وہ اڑے ہوئے رنگ کا چمڑا لگتا تھا۔ ہاتھ لگانے پر محسوس ہوتا تھاکہ و ہ کوئی قدیم سا کاغذ ہے’ جو فرعون کے مقبرے میں سے بر آمد ہوا ہے۔ یعنی فرعون کی ممی کے پہلو میں سے۔۔۔۔۔۔جس پر شاید اس نے کوئی وصیت وغیرہ لکھی ہو گی۔ وقت کی گرد آلود ربڑ نے تحریر کو مٹا دیا تھا ‘ کاغذ البتہ ”حیات” رہنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ یہ حیات یافتہ مسودہ اب اس کے ہاتھوں میں سانس لے رہا تھا۔۔۔۔۔۔
”یہ بھدا سا کاغذ۔۔۔۔۔۔؟”اسے مایوسی سی ہوئی۔
”بھدا سا منہ نہ بناؤ۔۔۔۔۔۔اسے سنبھال کر رکھ لو۔۔۔۔۔۔’ ‘جپسی اس کے سامنے بیٹھ گئی ۔ اس کے منہ کا زوایہ بگڑ گیا تھا لیکن پھر اس نے ”مسکرانے ” کا ارادہ کیا اور انسانیت کی خاطر تھوڑا سا مسکرا ہی دی۔
”مجھے آڈر کے پیسے چاہیے۔۔۔۔۔۔یہ تم مجھے کیا دے رہی ہو۔۔۔۔۔۔؟”اس کی مسکراہٹ غائب کر کے جپسی کیسے مسکرا سکتی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ وہ رول کھولے گی تو کسی جادوئی دنیا میں پہنچ جائے گی۔ لیکن وہ تو وہیںکی وہیںبیٹھی ہوئی تھی۔نہ منظر بدلا، نہ اس کا نصیب۔
جپسی کچھ دیر تک اس کے چہرے کے تاثرات کو بھانپتی رہی۔”تمہیںلگتا ہے کہ میں تم سے کوئی مذاق کر رہی ہوں؟”
”تم میرا مذاق بنا رہی ہو۔تم شاید بہک گئی ہو۔۔۔۔۔۔کیا تم نشے میں ہو۔۔۔۔۔۔؟”
”میرا خیال ہے نشے میں تو تم ہو۔اچھا! اس پر اپنا ہاتھ رکھو۔۔۔۔۔۔ ہتھیلی کھول کر پوری۔۔۔۔۔۔”جپسی نے اشارے سے کر کے بھی دکھایا۔
”اوہ اچھا! میں جیسے ہی اس پر اپنا ہاتھ رکھوں گی’ اس میں سے الہ دین کا چراغ ابھر آئے گا۔پھرمیں اسے رگڑوں گی’ اور ایک جن بر آمد ہو گا اورمیری ہر خواہش پوری کر دے گا۔۔۔۔۔۔ہے نا؟”وہ جپسی کا مذاق اڑا رہی تھی۔(اپنا رونا چھپا رہی تھی)
”جن لوگوں کی ہر خواہش پوری ہوتی ہے وہ بہت بد نصیب ہوتے ہیں۔خوش نصیب تو وہ ہیں’ جو کہیں نہ کہیں سے ادھورا ہیں۔”
”تم یہ بد رنگ کاغذمجھے کیوں دے رہی ہو؟کس خوشی میں؟”اسے بد نصیب ہو کر خوش نصیب نہیں ہونا تھا۔
”نومبر میں آنے والی اپنی سالگرہ کی خوشی میں۔ویسے اس کاغذ کی مالک اب تم ہو۔ یہ تمہارا ہوا۔”
”یہ تمہیں اس کاغذ نے بتایا ہے؟؟” چاہتی تو وہ رونا تھی لیکن چھوٹ قہقہہ گیا۔
”ہاں۔۔۔۔۔۔میں پچھلے نودنوں سے اپنے گھر میں بند ہوں۔مجھ سے جو بھی پہلا انسان ملتا’ یہ کاغذ اس کا ہوتا۔ویسے میں اس کاغذ کو ٹیولپ کہتی ہوں۔ مجھے یہ پھول بہت پسند ہے۔چاہو تو تم بھی اسے یہی کہہ لو۔۔۔۔۔۔”
”تم نے خود مجھے فون کر کے بلایا ہے میڈم ٹیولپ! میں پیزا ڈیلیور کرنے آئی ہوں۔”
”اپنا نوٹ پیڈ نکالو اور ایڈریس پڑھو۔۔۔۔۔۔”میڈم ٹیولپ نے ٹانگ پر ٹانگ رکھی اور پانچ انگلیوں میں موجود سات انگوٹھیوں کو دیکھنے لگی ۔
گردن کو تمسخر سے ہلکا سا جھٹکا دے کر اس نے نوٹ پیڈ نکالا۔ ایڈریس پڑھا اور ایکدم سے اس کے منہ سے اوہ نکل گیا۔وہ ایڈریس ساتھ والی بلڈنگ کا تھا۔”زیرو ٹو فور” فلیٹ کا ایڈریس تھا۔وہ جلدی سے اٹھی اور دروازے تک جا کر فلیٹ کا نمبر پڑھا جو ” فور زیرو ٹو ” تھا۔
جپسی نے سوالیہ آنکھ اچکائی کہ ہا ں ہو گئی تسلی۔پھر جپسی نے اس کے ہاتھ سے ٹیولپ لے کر اسے رول کیا۔ دو تین قدم مٹک کر پیچھے کی سمت گئی۔۔۔۔۔۔رکی۔۔۔۔۔۔پھر رول کو کھو ل کر اس کی آنکھوں کے سامنے پھیلا دیا۔۔۔۔۔۔
ٹیولپ پر اس کی تصویر بنی ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔
علیزہ کی۔۔۔۔۔۔بالکل اس جیسی۔۔۔۔۔۔یعنی اسی کی۔۔۔۔۔۔
”تم کوئی شعبدہ باز ہو۔۔۔۔۔۔جادوگرہو۔۔۔۔۔۔تم جیسے لوگوں کو ایسے گر بہت آتے ہیں۔” و ہ اتنی حیران ہوئی تھی کہ منہ بند کرنا بھول گئی تھی۔۔۔۔۔۔علیزہ۔۔۔۔۔۔اصل والی علیزہ۔۔۔۔۔۔
”میں ایک معمولی سی عورت ہوں۔ جس کا دل اور نیت دونوں صاف ہیں۔ اب یہ ٹیولپ تمہارا ہے’ اسے ساتھ لے جاؤ۔”
”میں اس کا کروں گی کیا؟ یہ کیا کیا کر سکتا ہے؟ کون کون سے جادو ہیں اس کے پاس؟”اصل فکر اسے جادو کی تھی۔
جپسی نے بے نیازی سے شانے اچکائے۔”یہ تمہیں خود معلوم ہو جائے گا ۔میں نے اسے بیمار روحوں کو شفاء دینے کے لیے استعمال کیا تھا۔ بیمار اور بھٹکے ہوئے لوگ میرے پاس آتے تھے اور میں اس پر ان کا نام لکھ کر اسے فولڈ کر دیتی تھی۔جب کھولتی تھی تو کوئی نہ کوئی حل لکھا ہوا نظرآجا تا تھا۔”
”ٹویٹر کی دنیامیں تم کیسی ٹوٹی پھوٹی باتیں کر رہی ہو؟”اس نے منہ بنایا۔اسے جپسی کی بات پر یقین نہیں آیا تھا۔
”فیس بک کی دنیا میں تم کیسے عجیب و غریب فیس بنا رہی ہو۔” جپسی نے قہقہہ لگایا۔آگے بڑھ کر اس کے شانے کو اپنی بھاری انگلیوں سے تھپکا(رگڑا)۔
”اگر یہ تمہارے کام کا ہے تو تم کسی اور کو کیوں دینا چاہتی تھی؟”اس نے ثابت کیا کہ تھوڑی سی ذہانت وہ بھی رکھتی ہے۔
”کیونکہ اس نے میرے لیے کام کرنا بند کر دیا ہے۔ اس کا مطلب صاف ہے’ اب یہ کسی اور کے کام آنا چاہتا ہے۔”
”اچھا؟ ایسی جادوئی چیزیں بھی ہڑتال وغیرہ کرتی ہیں۔ ریزائن دیتی ہیں۔ جاب کولات مار دیتی ہیں؟تم اس کی سیلری کیوں نہیں بڑھا دیتی؟ورنہ پرموشن ہی کر دو اس کی۔” و ہ دانت پیس رہی تھی۔
جپسی کا منہ بن گیا۔”تم اس کی توہین کر رہی ہو لڑکی!”
”تم مجھے بے وقوف بنا رہی ہو جپسی! مجھے تویقین ہی نہیں آرہا۔ کیا میں کوئی خواب دیکھ رہی ہوں؟”
”جو چیز انسان کی سمجھ سے بالاتر ہوتی ہے’ و ہ اس پر یقین نہیں کرتا۔یہ پکڑو’ اور اس کا جو چاہے کرو۔ چاہو تو اسے جلا دو’ چاہو تو پھینک دو۔ میں نے اپنی ذمہ داری پوری کی۔”
”تم نے میرے خوابو ں کے ساتھ دہشت گردی کی۔ویسے تمہیں یہ کیسے ملا تھا؟”اس نے رول پکڑ لیا تھا۔ اب ٹھوڑی کھجا رہی تھی۔وہ یقین کرنا بھی چاہتی تھی اور نہیں بھی۔ جپسی کچھ کچھ مشکوک لگ رہی تھی اسے۔اتنی وزنی انگوٹھیاں غیر مشکوک لوگ نہیں پہن سکتے نا۔۔۔۔۔۔
”ایسے ہی جیسے تمہیں مل رہا ہے۔”مشکوک جپسی نے، غیر مشکوک(معصوم) بنتے ہوئے کہا۔
”تو کیا یہ خزانہ ہے یا خزانے تک جانے کا نقشہ۔۔۔۔۔۔” وہ اپنے آپ سے باتیں کرنے لگی تھی۔ جپسی نے اس کے پیچھے دروازہ بند کر لیاتھا ۔ وہ سیڑھیاں اتر رہی تھی۔ سہانے خواب دیکھ رہی تھی۔اس کی آنکھیں مستقبل کی چکاچوند سے چمک رہی تھیں۔سینڈریلا کو شوز نہیں ملا تھا، جادوئی کاغذ مل گیا تھا۔۔۔۔۔۔اب وہ ہو گی اور اس کے خوابوں کی تعبیر۔۔۔۔۔۔ہر طرف تعبیریں ہی تعبیریں ہوں گی۔۔۔۔۔۔دنیا دیکھے گی کہ۔۔۔۔۔۔
کہ اس بے چاری کے ساتھ کیا ہوا۔۔۔۔۔۔
کہ یہ ٹیولپ اسے کچھ نہیں دینے والا ۔۔۔۔۔۔ اس کے سارے خواب چکنا چور ہو جانے والے ہیں۔ آنکھوں کی چمک دھندلی پڑ جائے گی’ اورکانوں میں سائیں سائیں ہونے لگے گی۔۔۔۔۔۔کیوں؟
کیونکہ ہر جادوئی چیز۔۔۔۔۔۔خزانے تک لے کر نہیں جاتی۔۔۔۔۔۔
کچھ چیزیں ”ابوبکر” تک بھی لے جاتی ہیں۔۔۔۔۔۔جو گونگا ہے۔۔۔۔۔۔اور ۔۔۔۔۔۔اور۔۔۔۔۔۔
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔)(۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭
ٹیولپ اس کے سامنے رکھا ہوا تھا’ اور وہ ٹھوڑی پر ہاتھ رکھ کر اُسے بڑی محبت سے دیکھ رہی تھی۔ پیچھے آتش دان روشن تھا۔کھڑکی سے باہر دھند کا بسیرا تھا۔اسے پیسے چاہیے تھے اور وہ ہزار بار اس پر پیسہ’ پیسہ’ پیسہ لکھ چکی تھی یعنی دس ملین ڈالر۔۔۔۔۔۔ پھر وہ پانچ ملین ڈالر پر آئی’ آخر کار وہ ایک ہزار ڈالر سے ایک سو ڈالر تک آگئی لیکن کچھ حاصل نہیںہوا تھا۔پھر اس نے سوچا کہ شاید پیپر ڈالر نہ دے سکے’ پونڈ دے سکے’ ورنہ ین’ دینار’ ریال’ سونے کے سکے’ چاندی کے سکے’ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اتنا وغیرہ وغیرہ کرنے پر بھی وہ ایسا ڈھیٹ ثابت ہوا تھا کہ پینی’سکہ’ کھوٹا سکہ تک دینے پر تیار نہیں ہو اتھا۔
”شاید اسے روپے پیسے سے نفرت ہے۔”
اس نے خود سے کہا اور اس پر برانڈڈ چیزوں کے نام لکھنے شروع کر دئیے۔اس نے ڈائمنڈ اور قیمتی پتھروں سے آغاز کیا اور ڈیزائنر ڈریسزپر آکر رک گئی۔پھر جوتوں’ بیگ’ اور میک اپ پر آئی۔لیکن اسے پھر سے مایوسی ہوئی۔رات کے دو بج چکے تھے’ اسے سوجانا چاہیے تھا۔لیکن اس کا خیال تھا کہ اس رات کی صبح’ ایک نئی صبح کے ساتھ ہو نی چاہیے۔ایسی صبح جب سب کچھ بدل چکا ہوگا۔وہ سب کچھ حاصل کر چکی ہو گی۔۔۔۔۔۔سب کچھ۔۔۔۔۔۔
لیکن فی الحال تو وہ ایک ٹافی بھی حاصل نہیں کر پائی تھی۔۔۔۔۔۔
پھر اسے خیال آیا کہ شاید ٹیولپ ان پڑھ ہے۔ جاہل ہے(گنوار بھی) ۔یہ تحریر’ الفاظ’ (التجا) جملے'(منتیں) نہیں پڑھ سکتا۔بلکہ شاید تصویروں کی زبان سمجھتا ہے۔تو اس نے ربڑ پنسل لے کر بڑی مہارت اور جانفشانی سے اس پر ”ڈالر” کا اسکیچ بنا دیا۔اور بریکٹ میں لکھ دیا کہ مجھے یہ ڈالر ڈھیروں کے حساب سے دے دو۔ لیکن ٹیولپ شاید گونگا تھا’ ورنہ اندھا۔۔۔۔۔۔ورنہ یقینا ”سنگدل”۔( و ہ عقل مند تھا)
ساری رات ایسے ہی گزر گئی۔ وہ پھر بھی مایوس نہیں ہوئی تھی۔اس کا ماننا تھا کہ ٹیولپ کو سوچنے’ سمجھنے کے لیے وقت چاہیے
ہو گا۔پہلے وہ جپسی کے ساتھ رہا تھا۔ وہ اس کی نئی نئی دوست بنی ہے۔ نئی دوست اور اس کی ضرورتوں کو سمجھنے میں کچھ وقت تو لگے گا نا۔جو وہ اسے دے رہی تھی۔ اور خو دوہ سیدھی’ الٹی’ ترچھی’ ہر پوز میں ساتویں آسمان پر اڑانیں بھر رہی تھی۔اور مشکل سے ہی زمین پر واپس آنے والی تھی۔۔۔۔۔۔
وہ ساتویں دن بھی ساتویں آسمان پر ہی رہی تھی۔۔۔۔۔۔
پنسل سے ٹیولپ پر ڈالر بناتی رہی تھی۔۔۔۔۔۔
”کیا بات ہے آج کل بہت خوش رہتی ہو؟”ماما کو اس کی بے جا خوشی پر بڑی حیرت تھی۔
” بس و ہ وقت آنے والا ہے کہ آپ کو مجھ پر فخر ہو گا۔۔۔۔۔۔گردن اکڑ اکر چلا کریں گی آپ۔”
”دیکھنا اپنی گردن کسی شکنجے میں نہ اکڑوا لینا۔۔۔۔۔۔دھیان سے بیٹا!ذر ا دھیان سے۔۔۔۔۔۔خواب میں بھی اتنا زیادہ اونچا نہیں اڑتے کہ انسان دھڑام سے زمین پر آگرے تو پاش پاش ہو جائے۔۔۔۔۔۔”
ایک ایک کر کے اس کے سارے خواب پاش پاش ہو رہے تھے۔ٹیولپ ضدی تھا۔ وہ ڈالر دینے پر تیار نہیں ہوا تو اس نے پنسل سے اپنی مطلوبہ چیزیں اس پر بنانی شروع کر دیں۔پہلے اس نے ایک بڑا سا گھر بنایا’ پھر کار۔۔۔۔۔۔یعنی کاریں۔۔۔۔۔۔پھر گھر کی ضروریات کی چیزیں۔۔۔۔۔۔اس نے ایک عدد جیم کی بوتل تک بنا کر دیکھ لی لیکن کچھ حاصل نہیں ہوا۔ایک بار وہ اسے پھولوں کی دکان پر بھی لے گئی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ شاید یہ ٹیولپ اصلی ٹیولپ پھولوں میں گھیرکر رہے گا تو کام کرنے لگے گا۔ جیسے موبائل فون بجلی سے جارچ ہونے کے بعد کام کرتاہے۔ گاڑی فیول ڈالنے کے بعد چلتی ہے۔ یہ بھی پھولوں کی خوشبو سے چارج ہو کر کام کرنے لگے گا۔
وہ اس کے سب خوابو ں کا کام تما م کر رہا تھا۔لیکن اس نے ابھی بھی ہمت نہیں ہاری تھی۔ اسے یہ خیا ل بھی آیا تھا کہ شاید ٹیولپ یہ سب افورڈ نہیں کر سکتا۔ تو اس نے کچھ چھوٹی چیزیں بنانی شروع کر دیں۔ جیسے ایک عدد انڈا۔ چاکلیٹ۔ ایک عدد ہیر برش۔ سردی بہت تھی تو گرم جرابیں’ سویٹر’ کوٹ۔۔۔۔۔۔اور ۔۔۔۔۔۔اور ۔۔۔۔۔۔ٹشو۔۔۔۔۔۔آنسو پونچھنے کے لیے۔۔۔۔۔۔
وہ مایوس ہونے والوں میں سے نہیں ہونا چاہتی تھی۔ اس نے سوچ لیا تھا کہ اگر ٹیولپ ایسی چھوٹی چھوٹی چیزیں بنا بنا کر دینے لگے گا تو بھی ٹھیک ہے۔ وہ رات دن اس پر اسکیچ بنا بنا کر بہت کچھ اکھٹا کر لے گی اور ایک چھوٹی سی شاپ کھول لے گی۔پھر وہ چھوٹی سی شاپ ایک عدد بڑے اسٹور میں بدل جائے گی۔ پھر ملک کے مختلف شہروںمیں اس اسٹور کی ایک ایک برانچ کھل جائے گی۔پھر دنیا کے ہر ملک میں اس کے اسٹور کی ایک شاخ ہو گی۔۔۔۔۔۔ پھر آہستہ آہستہ۔۔۔۔۔۔
آہستہ آہستہ وہ آسمان سے زمین پر واپس آنے لگی تھی۔سیدھی’ الٹی’ ترچھی’ ہر پوز میں۔اور یہ ماننے لگی تھی کہ جپسی کا دماغ بہکا ہوا تھا’ وہ اول فول پتا نہیں کیا کچھ کہہ گئی تھی اور اس نے اس کا یقین بھی کر لیا تھا۔ تھوڑا بہت ہاتھ کی صفائی دکھا کر وہ اسے پاگل بنا چکی تھی۔
وہ پاگل تھی۔وہ ایک سادہ سا کاغذ تھا۔۔۔۔۔۔بس۔۔۔۔۔۔تھوڑا سا سخت سا تھا ۔ اس نے اسے پھاڑنے کی کوشش کی تو وہ پھٹا نہیں۔ آتش دان میں جھونکا تو وہ غبارے کی طرح اُڑ کر باہر آگیا۔اتنے جدید سائنسی دَور میں ایسا کیسے ہو سکتا تھا۔اس کا جی تو چاہا کہ پھوٹ پھوٹ کر رو دے۔ساری دنیا کو اکھٹا کر لے۔۔۔۔۔۔دہائیاں دے۔۔۔۔۔۔ہنگامہ بر پا کر دے۔۔۔۔۔۔بھلا یہ کیا بات ہوئی۔۔۔۔۔۔ایک مہینہ وہ کیسے کیسے خوا ب دیکھتی رہی تھی۔ کیسی کیسی پلاننگ نہیں کر لی تھی اس نے۔۔۔۔۔۔لو بھلا۔۔۔۔۔۔یہ کیا بات ہوئی۔۔۔۔۔۔اس کے خوابو ں پر نمک چھڑکنے کے لیے یہ ٹیولپ کہاں سے آگیا تھا۔ویسے ہی زندگی میں مٹھاس کی کمی تھی۔
مٹھاس کے شاپر میں سے نمک نکلنے لگا۔امیدوں پر پانی پھر گیا۔ خوابوں کا گلستان اجڑ گیا۔۔۔۔۔۔
ٹیولپ۔۔۔۔۔۔ ٹیولپ۔۔۔۔۔۔ٹیولپ۔۔۔۔۔۔ وہ چپ چاپ سارا تماشا دیکھتا رہا۔
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔)(۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭
وہ نیویارک آچکی تھی’پاپا نے اسے پیسے دے دیئے تھے اور جذباتی طور پر بلیک میل بھی نہیں کیا تھا۔لیکن اتنا ضرور کہا تھا۔
”بار بار فون کر کر کے ہم سے پیسے نہ منگوانا۔ اتنے مہنگے شہرمیں رہنے کے لیے جا رہی ہو۔ قرض لینا یا بھیک مانگنالیکن ہمیں کچھ نہ کہنا۔”
اس نے کچھ نہیں کہا لیکن منہ بنا لیا۔ وہ کیا کرتی’ اب کیا انسان خواب بھی نہ دیکھے۔۔۔۔۔۔
”کسی نہ کسی کو تو اس گھر سے باہر نکلنا ہی تھا۔ پہلا قدم اٹھانا ہی پڑتاہے پاپا!” خوابناک انداز میں اس نے کہا۔
پاپا نے اس کے سر پر چماٹ ماری۔”تم کوئی پہاڑ سر کرنے نہیں جا رہی۔ نہ ہی تم ہجرت کر رہی ہو اور نہ ہی سرحد پر قوم و ملک کی حفاظت کے لیے جنگ لڑنے جا رہی ہو۔اپنے یہ لمبے لمبے ڈائیلاگ بولنا بند کرو۔”
اس نے لمبا سا سانس لیا اور چھوٹی سی آہ بھری۔بارش ہو رہی تھی ۔ وہ نیویارک کی سٹرک کے اس طرف کھڑی ٹریفک سگنل کے بند ہونے کا انتظار کر رہی تھی۔ سر پر چھاتا تھا لیکن پھر بھی وہ تھوڑی سی بھیگ گئی تھی۔نیویارک واقعی میں ایک مہنگا شہر تھا۔اور پر ہجوم بھی۔یہاں لوگ بہروں کی طرح چلتے ہیںاور اندھوں کی طرح بھاگتے ہیں۔
وہ کراسنگ پر تیزی سے بھاگتے ہوئے گزر رہی تھی کہ ایک اندھے سے ٹکرا گئی۔۔۔۔۔۔جی ہاں! اس کے سخت شانے سے ٹکرا کر وہ ایک پورا چکر گھوم کر دُور جا گری۔۔۔۔۔۔اس کے چھاتے نے دور جا گرنے میں اس کابھی ریکارڈ توڑ دیا تھا۔۔۔۔۔۔ اس کا ٹخنہ بھی ٹوٹ چکا تھا۔۔۔۔۔۔شاید ۔۔۔۔۔۔ورنہ یقینا۔۔۔۔۔۔ایسی لڑکیوں کی ہڈیاں وغیرہ بہت جلدی ٹوٹتی ہیں۔ انہیں خراشیں نہیں آتیں’فیکچر آتے ہیں۔۔۔۔۔۔کیونکہ ساٹھ سکینڈز میں ان کے دل کوئی سو بار ٹوٹتے ہیں۔۔۔۔۔۔
جس نے توڑا تھا وہ جاسوسی فلموں کے جاسوسوں کی طرح کالے کوٹ میں ملبوس اس کے سر پر کھڑا تھا۔ بارش ہو رہی تھی لیکن اس کے ہاتھ میں کوئی چھتری نہیں تھی۔ اس کے بال گیلے ہو کر اور سیاہ ہو چکے تھے۔۔۔۔۔۔بارش کی بوندیں اس کے بالوں اور پلکوں سے جھر رہی تھی۔سامنے اور پیچھے۔۔۔۔۔۔گاڑیوں کا اژدھام کھڑا اس پر سے گزر جانے کے لیے اشارے کے کھل جانے کے انتظار میں تھا۔۔۔۔۔۔وہ اسے روند کر گزر بھی جائے گا۔ کل کے اخبار میں بس ایک چھوٹی سی خبر آجائے گی۔
”ٹریفک سگنل پر ایک لڑکی دل کا دورہ پڑنے سے دم تو ڑ گئی۔”(اصل خبر تک کوئی نہیں پہنچ سکے گا کہ لڑکی ڈرامہ کرتے ہوئے مر گئی)
وہ اسے ایسے دیکھ رہا تھا جیسے اس کی ایک عدد ”دم’ ‘ ہو ۔ وہ خاموش کھڑا تھا۔نہ منہ سے سوری کہا’ نہ مدد کے لیے ہاتھ آگے کیا۔ اور نہیں تو اس کا چھاتا ہی اٹھا کر اسے دے دیتا۔۔۔۔۔۔ورنہ منہ سے”چچ۔۔۔۔۔۔چچ” ہی کر لیتا۔۔۔۔۔۔
”اندھے ہو تو گھر رہو’ مجھ جیسوں کو زخمی کر کے تمہیں کیا ملے گا؟” اس نے غصے سے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔وہ روہانسی ہو گئی تھی۔ سارے کپڑے خراب ہو چکے تھے۔
وہ پھر بھی خاموش رہا۔ اسے دیکھتا رہا۔ہاں البتہ اس کے چہرے پر ترحم نظر آنے لگا تھا۔
”کس قدر ظالم ہو تم۔مدد نہیں کر سکتے تو شرمندہ ہی ہو جاؤ۔ ورنہ میری نظروں کے سامنے سے دفع ہو جاؤ۔”
اس نے کچھ ایسے چلا کر کہا تھا کہ وہ سہم گیا اور واقعی میں نظروں سے اُوجھل ہو گیا۔ ( دفع ہو گیا)۔اشارہ کھلا تو اس نے ہاتھ بلند کر کے ایک اور چیخ مار دی۔”اسٹاپ۔۔۔۔۔۔اسٹاپ۔۔۔۔۔۔” اسے فلموں والے سین کری ایٹ کرنے میں بہت مزا آتا تھا۔اب وہ زخمی تھی’ تو وہ اس کا بھرپور فائدہ کیو ں نہ اُٹھاتی۔ وہ لنگڑ ا لنگڑا کر چلتی ہوئی’ کراسنگ کراس کر گئی۔اپنے لیے اس نے ٹریفک کو رو ک کر رکھا ہوا تھا۔ یہ موقعہ بھی بار بار نہیں ملتا۔اب و ہ آئندہ زندگی میں بہت فخر سے کہہ سکتی تھی کہ اس کے لیے نیویارک کی ٹریفک پورے ” پانچ سکینڈ” تک رُکی رہی تھی۔
اگلے پانچ منٹ تک وہ لنگڑا لنگڑا کر چلنے کی اچھی مشق کرتی رہی تھی۔ اسے رہ رہ کر اس منحوس انسان پر غصہ آرہا تھا’ جس کی وجہ سے وہ گر گئی تھی۔ اس کے کپڑے گندے ہو گئے تھے۔ اس کا اکلوتا پاکستانی کرتا مسخ ہو گیا تھا۔اورچھاتا تھوڑا سا پھٹ گیا تھا۔کتنے نقصانات کا پیش خیمہ بنا تھا وہ شخص۔۔۔۔۔۔ہونہہ۔۔۔۔۔۔
”تم کیا بچوں کی طرح کسی سے لڑتی رہی ہو۔ ”یونیورسٹی کی ڈاکٹر نے اس کا زخم دیکھا تو ہنس دیں۔
”ا س میں ہنسنے کی کیا بات ہے؟”وہ ہنس نہیں سکی۔
وہ اور زیادہ ہنسنے لگیں۔”اتنی سی چوٹ پر بھی کوئی ڈاکٹر کے پاس آتاہے؟”
وہ گھور کر ڈاکٹر کو دیکھنے لگی۔” میں نیویارک کی سڑک پر’ یعنی مصروف ترین سٹرک پر گری ہوں۔ وہ بھی تب جب سب اپنے اپنے کاموں پر جانے کے لیے مرے جا رہے تھے۔ یہاں کی اندھی ٹریفک کو آپ نہیں جانتیں کیا؟”
”میں اندھی لڑکیوں کو جانتی ہوں۔۔۔۔۔۔ہی ہی۔۔۔۔۔۔پھر تو تمہیں دوا کے ساتھ ساتھ ایک عدد ایوارڈ بھی دینا چاہیے۔” ڈاکٹر کو ہنسی بہت آرہی تھی۔۔۔۔۔۔ظالم ڈاکٹر۔۔۔۔۔۔
یونیورسٹی کے بعد وہ گھر واپس آئی’ تو آتے ہی سو گئی۔ کالے کو ٹ والا اس کے خواب میں آیا تو وہ چونک کر اُٹھ کر بیٹھ گئی تھی۔اس کی شکل کچھ کچھ فٹ بالر میسی سے ملتی تھی۔ کیا میسی ساری دنیا سے چھپ کرنیویارک کی سیر کے لیے نکلا ہوا ہے۔ وہ کچھ بولا نہیں تھا تاکہ کوئی اسے پہچان نہ لے۔کیا اس کے ساتھ یہ عظیم واقعہ رونما ہو چکا ہے۔ اب میسی کا سیکرٹیری آئے گا اور اسے بلینک چیک دے کر کہے گاکہ وہ جتنی چاہے رقم بھر کر ‘ اس تکلیف کا مدوا کر لے’ جو میسی کی وجہ سے اُسے پہنچی تھی۔۔۔۔۔۔وہ اس پر دس ملین ڈالر لکھ دے گی۔۔۔۔۔۔جیسے خوشیوں کی کوئی قیمت نہیں ہوتی’ ویسے ہی تکلیف کی بھی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔ ہوتی ہے تو دس ملین ڈالر ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔کیا سمجھے۔۔۔۔۔۔
سب سمجھ کر’ کافی بنا کر وہ کھڑکی کے پاس آکر بیٹھ گئی تھی۔اس کے موبائل پر کال آرہی تھی۔اس نے آس پاس دیکھا ۔اسے رنگ ٹون سنائی دے رہی تھی لیکن موبائل دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ اس نے بیگ’ سائیڈ ٹیبل سب دیکھ لیا تھا۔ کچن کے کیبنٹ تک کھول کھول کر دیکھ لیے تھے لیکن موبائل نہیں ملا تھا۔ کمرے کی چیزیں ادھر ادھر بکھر چکی تھیں۔ وہ بری طرح سے حیران ہو رہی تھی۔ تین منٹ کے وقفے کے بعد اس کے فون پر پھر سے کال آئی تھی۔اسے ٹون سنائی دے رہی تھی لیکن فون تھا کہاں۔۔۔۔۔۔
د س منٹ کے اندر اندر اس نے سارا کمرا ادھیڑ ڈالا تھا’لیکن فون ہاتھ نہیں آیا تھا۔ فون کی میسج ٹون’ واٹس ایپ ٹون’ فیس بک نوٹیفکیشن ٹون’ سب سنائی دے رہی تھیں لیکن فون دکھائی نہیں دے رہا تھا۔وہ کوفت کا شکار ہو چکی تھی۔ اسے لگتا تھا کہ اسے واقعی میں اپنے دماغ کا علاج کروا لیناچاہیے۔یہ بہک چکا ہے۔ سب کچھ الٹا پلٹا کر کے سنا اور دکھا رہا ہے۔
سب سیدھا تھا لیکن اسے الٹا نظر آرہا تھا۔ جب وہ سر پر ہاتھ رکھ کر’ کارپٹ پر اپنے بکھرے ہوئے سامان کے درمیان بیٹھی ہوئی تھی’ تو پھر سے موبائل پر ٹون سنائی دینے لگی تھی۔اس بار فون اس کے بہت قریب تھا۔۔۔۔۔۔بہت ہی زیاد ہ قریب۔۔۔۔۔۔ جتنا پرانی ڈائری سے نکل کر اس کے پیروں کے قریب پڑا ہوا ٹیولپ تھا۔۔۔۔۔۔
اس نے ہاتھ بڑھا کر ٹیولپ ہاتھ میں پکڑا اور اسے کچھ غصے اور زیادہ نفر ت سے کھولا۔اگلا منظر دیکھ کر وہ ایک لمحے کے لیے ساکت ہو گئی تھی۔۔۔۔۔۔ا سے اپنی آنکھوں پریقین نہیں آرہا تھا۔۔۔۔۔۔
کالے کوٹ والے جاسوس انسان کے سامنے میز پر اس کا فون رکھا ہوا تھا۔ فون پر بیل ہو رہی تھی اور وہ چپ چاپ اس فون کو دیکھ رہا تھا۔
جس وقت وہ روڈ کراس کر رہی تھی’ تو وہ فون پر بات کر رہی تھی’ جس وقت وہ گری تھی’ اس وقت فون کہاں تھا’ اسے معلوم نہیں تھا۔لیکن اب اسے معلوم ہو چکا تھا’ وہ فون اس جاسوس کے پاس تھا۔اس نے اسے چھاتاتو اٹھا کر نہیں دیا تھا لیکن جھک کر اس کا فون اٹھا لیا تھا۔ چور۔۔۔۔۔۔اچکا۔۔۔۔۔۔پاپا نے ٹھیک کہا تھا’نیو یارک میں رہنے کا شوق ہے تو آنکھیں کھلی رکھنا’ ورنہ گردن پر چھری پھرے گی اور یہ ہمیشہ کے لیے بند ہو جائیں گی۔
آنکھیں کھول کر اس نے دوبارہ ٹیولپ کی طرف دیکھا تو وہ خالی تھا۔ یعنی یہ کیا بات ہوئی؟ ایک منظر دکھا کر ٹیولپ پھر سے کورا ہو چکا تھا۔ اس کا دل چاہا کہیں سے اس جپسی کو ڈھونڈ کر لائے اور شانوں سے پکڑ کر اچھی طرح سے جھنجھوڑ کر پوچھے”یہ کیا واہیات چیز دی ہے تم نے مجھے۔”
”تم سے پہلے ہی کہا تھا یہ الہ دین کا چراغ نہیں ہے۔” اسے کہیں سے جپسی کی آواز سنائی دی۔
”کیوں نہیں ہے؟کیوں نہیں ہے؟اس دنیا میں غربیوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کیا الہ دین کے جن کا کام نہیں بنتا کہ وہ آئے اور آکر غربت مٹا دے۔۔۔۔۔۔”
”دنیا میں غربت نہیں لالچ زیاد ہ ہے۔ غربت تو مٹ جائے گی لیکن لالچ کبھی نہیں مٹے گی۔”
” میری غربت کا مذاق نہ اڑاؤمیڈم جپسی!”
”تمہیں کھانے کے لیے کھانا نہیں’ عیش کے لیے ڈالرز چاہییں’ اس لیے الہ دین کا چراغ تم جیسے لوگو ں سے دُور بھاگتاہے۔”
”چپ کر جاؤ۔۔۔۔۔۔مجھے لیکچر نہ دو۔۔۔۔۔۔”اس نے اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ لیے۔ سچ سننا کون چاہتاہے ۔۔۔۔۔۔
”کیوں اتنا چلا رہی ہو؟تم اپنے باپ کے گھر میں نہیں’ کرائے کے اپارٹمنٹ میں بیٹھی ہوئی ہو۔ کچھ ہم جیسے الو کے پٹھے بھی یہاں پڑھنے کے لیے آئیں ہوئے ہیں پرنسز آف ویلز!” اس کے ساتھ والے اپارٹمنٹ کی الو۔۔۔۔۔۔ لڑکی یعنی ڈچز آف ویلز نے اس کے
درواز ے پر غصے سے دستک دیتے ہوئے چلا کر کہا۔اس نے بڑ ھ کر دروازہ کھولا اور ا س سے موبائل لے کر اپنے نمبر پر کال کرنے لگی۔ فون اب بند ہو چکا تھا۔
”چور ‘اچکا ۔۔۔۔۔۔میسی ۔۔۔۔۔۔”وہ زیر لب بڑبڑائی اور غصے سے ٹیولپ کی گردن مروڑنے لگی۔
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔)(۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭
چور اچکا ۔۔۔۔۔۔میسی چپ چاپ کرسی پر بیٹھا ہوا ہے۔وہ بول نہیں سکتا’ لیکن سن سکتا ہے۔ جو کافی وہ پی رہا ہے اس میں اسٹرا ہے’ کیونکہ وہ اپنے دونوں ہاتھوں کو حرکت نہیں دے سکتا۔ایک بازو پورا ہی مفلوج ہے اور ایک کہنی تک کٹا ہوا ہے۔جس کیفے میں وہ کافی پینے آیا ہے’ یہاں کا اسٹاف اسے جانتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اسے کیا چاہییں۔ایک بار فون پر بیل ہوئی تھی تو ویٹر نے اس کا فون جیب سے نکال کر اس کے سامنے رکھ دیا تھا’ وہ اس سے پوچھ رہا تھا کہ کیا وہ کال اوکے کر دے لیکن ا س نے ناں میں سر ہلا دیا تھا۔ وہ فون اس کے سامنے رکھا رہا تھا۔فون پر پھر سے کال آئی تھی۔وہ یہ یاد کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ یہ فون اس کے پاس کیسے آیا۔اس کا اپنا فون اس کی دوسری جیب میں تھا۔اس پر صرف ماں کی کال اور میسج آتے تھے۔مسیج خود کار طریقے سے ایک منٹ کے وقفے کے بعد مشینی آواز کے ذریعے پڑھے جاتے تھے اور کال بھی تیس سکینڈ کے وقفے سے اوکے ہو جاتی تھی۔ ماں اسے کچھ ضروری ہدایتیں دیتی تھی اور بس۔جسے وہ کان پر فکس بلو ٹوتھ آلے کی مدد سے بآسانی سن لیتا تھا۔
دس منٹ بعد اس نے بہت مشکل سے ویٹر کو یہ با ت سمجھائی تھی کہ وہ فون کو آ ف کر کے اس کے کوٹ کی جیب میں واپس رکھ دے۔اس کی کافی ختم ہو چکی تھی۔ وہ اٹھا اور گھر کی طرف چل پڑا۔وہ آج دو ہفتے بعد گھر سے باہر نکلا تھا۔ ماں نے اسے زبردستی بھیجا تھا۔ اگر ماں نے موسم کا حال سن لیا ہوتا تو وہ اسے کبھی نہ بھیجتیں۔ وہ بھیگ چکا تھا لیکن وہ خوش تھا۔ کیونکہ اس کا بخار اتر چکا تھا۔اس کے مفلوج بازو کے علاج کے سلسلے میں اس کے لیے دوا تبدیل کی گئی تھی جس سے اسے الرجی ہو گئی تھی۔ وہ بیمار ہو گیا تھا۔
وہ کیفے سے باہر نکلا تو بد ستور بوندا باندی ہو رہی تھی۔بارش پھر سے تیز بھی ہو سکتی تھی لیکن وہ رکا نہیں اور باہر نکل آیا۔کیونکہ کبھی کبھی کالے سیاہ بادلوں میں’ کڑکتی ہوئی بجلی میں’ تیز یا ہلکی بارش میں بھیگ جانا بھی اچھا ہوتا ہے۔زندگی ہمیشہ بہار کی طرح لہلہاتی ہوئی سر سبز و شاداب تو نہیں رہتی۔نرم گرم بستروں میں دبک کر’ ٹی وی پر ٹام اینڈ جیری دیکھنا ہی عیاشی نہیں رہتا۔کبھی کبھی چلچلاتی ہوئی دھوپ سر پر سایہ فگن ہو جاتی ہے اور کسی بد تمیز سے بیچ سڑک میں ٹکر ہو جاتی ہے۔۔۔۔۔۔
دس سال کی عمر میں اس کی زبا ن اور تالو کا پہلا آپریشن ہوا تھا تووہ تھوڑا بہت بولنے لگا تھا۔آپریشن کامیاب رہا تھا’ لیکن ابھی بھی وہ نارمل لوگوں کی طرح نہیں بول سکتا تھا۔ایک چھوٹے سے جملے کی ادائیگی میں اسے کافی وقت لگ جاتا تھا۔ اس کا جبڑا تھک جاتا تھا’ زبان میں تکلیف ہونے لگتی تھی۔ڈاکٹر پر امید تو تھے لیکن سپیچ تھراپی کے بعد بھی وہ روانی سے بولنے میں ناکام رہا تھا۔
سترہ سا ل کی عمر میں اس کا دوسرا آپریشن ہوا تھا’ جو زیادہ کامیا ب نہیں ہو سکا تھا۔اسے زبان کو حرکت دینے میں بہت زیادہ تکلیف ہونے لگی تھی کہ اس نے بولنے کے خیال کو ہی ترک کر دیا تھا۔وہ اشاروں سے اور لکھ لکھ کر باتیں کرتا تھا۔لیکن دو سال پہلے’ وہ دونوں ہاتھوں سے بھی تقریبا معذور ہو چکا تھا۔وہ جتنا ذہین اور قابل تھا’ اب اتنا ہی بے کار ہو چکا تھا۔وہ جتنا ایکٹیو تھا اب اتنا ہی ساکت ہو چکا تھا۔
وہ ماں کا اکلوتابیٹا تھا اور ان کے لیے وہ ایک مکمل انسان تھا۔ گبرو’ جوان’ خوبصورت اور صحت مند۔ وہ چلتا پھرتا’ کام کاج کرتا ‘ کالج جاتا ‘ تو کوئی کہہ نہیں سکتا تھا کہ وہ بول نہیں سکتا ۔ٹیکنالوجی نے ترقی کی تو وہ موبائل ایپ کے ذریعے بات کرنے لگا تھا۔ بس اسے سب کچھ موبائل پر ٹائپ کرنا پڑتا تھا’ پھر اسپیکر سے اپنی بات سنانی ہوتی تھی۔زندگی اتنی مشکل نہیں تھی’ یہ تب مشکل ہوئی تھی جب اس کے دونوں بازو بھی بے کار ہو گئے تھے۔ وہ موبائل پر ٹائپ نہیں کر سکتا تھا’وہ اشارے نہیں کر سکتا تھا’ وہ پین تک پکڑ کر کچھ لکھ نہیں سکتا تھا۔وہ پہلی بار رویا بھی تب ہی تھا’ جب وہ ایک چمچ تک اٹھا کر اپنے منہ تک نہیں لے جا سکتا تھا۔اور تب ہی اس کی راتوں کی نیند مختصر ہونے لگی تھیں۔ اس کے خواب جو ابھی پورے ہونے تھے’ وہ ادھورے ہی رہ گئے تھے۔ ساری دنیا کے سائنس دان اپنا کام چھوڑ کر اس کے لیے کوئی ایسا فیچر نہیں بنا سکتے تھے جو اسے کا رآمد بنا سکتا۔وہ بول نہ سکتا لیکن اپنی بات سمجھا سکتا۔وہ ہاتھوں کو حرکت دئیے بغیر اپنے کام کر سکتا ۔
دو سال پہلے ہائیکنگ کے دوران پہاڑ سے گر کر اس نے اپنے جسم کو مفلوج کروا لیا تھا۔اس کی ریڑھ کی ہڈی پر شدید ضرب آئی تھی۔اس کے جسم کا جوڑ جوڑ ہل کر رہ گیا تھا۔وہ چل پھر نہیں سکتا تھا ۔ ہاتھ نہیں ہلا سکتا تھا۔چھ ماہ بعد ماں کی جان توڑ کوششوں کے بعد وہ چلنے پھرنے لگا تھا۔اس کی صحت بہتر ہونے لگی تھی لیکن اس کا سن بازو’ بے کار ہو کر جسم سے جھول رہا تھا۔دوسرا کہنی سے ہاتھ تک کٹ چکا تھا۔
ٍ مکمل انسانوں کی دنیا میں ادھورے انسانوں کو بہت ہمت سے کام لینا پڑتاہے۔ وہ اپنی ہمت کھو رہا تھا۔ماں کو پورا یقین تھا کہ اس کا لکڑی کے تختے کی طرح سخت ہو چکا بازوایک دن ٹھیک ہو جائے گا۔ اس کے تالو کی سرجری ہو گی اور وہ بولنے لگے گا۔پہلے اسے بھی یقین تھا’ لیکن اب یہ یقین کمزور پڑ رہا تھا۔
خوش آئندرہنے کے لیے چھوٹی موٹی خوشیاں ملتی رہنی چاہیے۔اگر وہ نہ ملیں تو انسان اُمید چھوڑ دیتاہے۔
زندگی کے اندھیروں میں ”امید” کی لو چلتی رہنی چاہیے’ورنہ یہ اندھیرے دلدل بننے لگتے ہیں۔ وہ بچپن سے خاموش رہا تھا۔ اسے بولنے کی حسرت تھی۔ وہ چاہتا تھا کہ وہ بھی بہت سی باتیں کرے۔بے سری ہی سہی’ اپنی آوازمیں گانے گائے۔ وسل بجائے۔کسی کے کان کھائے۔نارمل لوگوں کی طرح اچھے برے لطیفے سنائے اور بلند بانگ قہقہے لگائے۔لیکن جب اس کا پہلا آپریشن ہوا تو وہ صرف چند لفظ بولنے کے قابل ہو سکا تھا۔ وہ تھک جاتا تھا۔ ہانپ جاتا تھا۔تکلیف سے کراہنے لگتا تھا۔
اسے لکھ لکھ کر باتیں کی روٹین کو جاری رکھنا پڑا۔لیکن آپ جانتے ہی ہیں کہ لکھی ہوئی باتیں پڑھنے کا کس کے پاس وقت ہوتاہے۔ یعنی دوستوں کے گروپ میں’ جب سب بیٹھے ‘ گپیں اورقہقہے لگا رہے ہوں اور وہ پین سے لکھ رہا ہو اور پھر مطلوبہ شخص کو دے رہا ہو۔اس مطلوبہ شخص کے پاس ان چند حروف کو غور سے پڑھنے کا وقت بھی نہ ہو۔ زبان والوں کی دنیا میں”بے زبانوں” کے ان کہے’ کہے الفاظ کی ویلیو ہی کتنی ہوتی ہے۔ہم اتنے مصروف ہو چکے ہیں’ اور ہمارے پاس وقت کی اتنی کمی ہو چکی ہے کہ جو بول سکتے ہیں ہم انہیں نہیں سن سکتے’ جو بول ہی نہیں سکتا اسے کیسے سنیں گے۔۔۔۔۔۔
دنیا کا المیہ خودغرض ہونا نہیں’ بے حس ہونا ہے۔۔۔۔۔۔
دنیامیں کتنی بھی ٹیکنالوجی آجائے’ وہ زبان کا نعم البدل نہیں ہو سکتی۔پہلے آپریشن کے بعد ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ اسے اتنے کو ہی بہت سمجھنا چاہیے کہ وہ کچھ لفظ بو ل سکے گا۔ ڈاکٹر ساری بیماری جانتے تھے’ لیکن جان لینا اور علاج کرنا دو الگ چیزیں ہیں۔ وہ ٹھیک ہو جائے گا’ ڈاکٹر کہتے تھے۔ کب ہو گا اور کتنا وقت لگے گا وہ نہیں جانتے تھے۔کوئی نہیں جانتا تھا۔ لیکن وہ جان گیا تھا کہ وہ کبھی ٹھیک نہیں ہو گا۔وہ بول نہیں سکے گا’ اپنے ہاتھوں کو حرکت نہیں دے سکے گا۔ وہ نا امید ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔۔تب ہی۔۔۔۔۔۔
چور چور چلاتی ہوئی ایک لڑکی آئی۔۔۔۔۔۔وہ کچھ عجیب و غریب سی تھی۔۔۔۔۔۔
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔)(۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭
”مسٹر عجیب و غریب’ ایکس وائے زی! میسی کی بگڑی ہوئی کاپی!تم اپنے منہ سے بتاؤ گے کہ تم چور ہو یا میں تم سے اقرار کرواؤں؟”
کرسی کی پشت سے کمر لگا کر وہ ”ساری دنیا جائے بھاڑ میں’ مجھے اب اس سے کچھ لینا دینا نہیں رہا” کے انداز میںبیٹھا ہوا تھا۔سامنے ایک میگزین پر پیپر ویٹ رکھا ہوا تھا’ جسے وہ پڑھ رہا تھا۔جیسے ہی وہ اس کے سامنے آ کر کھڑی ہوئی’ وہ کافی کے مگ پر جھک گیا اور اسٹرا کو منہ میں لے لیا۔وہ ایسی شدنیوں سے گھبراتا تھا۔اسے ان کی بات سمجھنے میں کچھ وقت لگا کرتا تھا۔
”میں پاگل ہوں جو ایسے چلا رہی ہوں’ فون دو میرا۔” اس نے ہاتھ آگے کیا کہ موبائل دو۔ اس نے اسٹرا سے کافی پیتے پیتے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔۔۔۔۔۔آنکھیں ذرا ترچھی ہو گئیں۔۔۔۔۔۔پیشانی پر بال آگرے۔۔۔۔۔۔اگر وہ چور نہ ہوتا تو اسے بڑا اچھا لگتا۔۔۔۔۔۔لیکن خیر۔۔۔۔۔۔
” اور دیکھو یہ نہ پوچھنا کہ مجھے کیسے پتا چلا کہ میرا فون تمہارے پاس ہے۔ تمہاری سوچ بھی وہاں تک نہیں جا سکتی ‘ جہاں سے مجھے یہ معلوم ہوا ہے کہ تین دن پہلے’ اس کیفے کی اسی میز پرمیرا فون سامنے رکھ کر بیٹھے تم میرا مذاق اڑا رہے تھے’ پھر تم نے فون آف کر دیا۔ اب تک تو سیل بھی کر دیا ہو گا۔ واپس لاؤ میرا فون’ اور سن لو ‘ میں ہر گز ہرگز کوئی اور فون نہیں لوں گی۔۔۔۔۔۔وہ کتنا بھی مہنگا اور جدید کیوں نہ ہوا۔کبھی نہیں۔۔۔۔۔۔”
سنا ہے جب لڑکیاں جھوٹ بولتی ہیں’ تو دنیا بھر کے ریلوے پلیٹ فارموں پر کھڑے سچے پکے مسافروں کی ٹرینیں چھوٹ جاتی ہیں۔اسٹیشن پر کھڑے ہو کر وہ بے چارے اپنا سر کھجاتے ر ہ جاتے ہیں۔اور یہاں یہ لمبی لمبی چھوڑ تی رہ جاتی ہیں۔ ان کی بلا سے ٹرین چھوٹ جائے یا سر پر سے ہی گزر جائے۔ یہ اپنا کام جاری رکھتی ہیں۔
لمبی سی اسٹرا کا کونادانتوں میں دبا کر اس نے ایک گہرا گھونٹ بھرا۔ آج کافی بڑی کڑوی تھی۔پھر ایسے ہی ذرا سا سہم کر اسے چور نظرو ں سے دیکھا۔اس نے سفید ٹی شرٹ پر ہلکے نیلے رنگ کی جیکٹ پہنی ہوئی تھی۔ اس کی اونچی ‘ لیکن چھوٹی سی پونی طیش کی وجہ سے ہلکورے لے رہی تھی۔بھنوئیں تنی ہوئی تھیں۔ بالوں کی لٹیں یہاں وہاں سے نکلی ہوئی تھیں۔اگر وہ ایسے چلا نہ رہی ہوتی تو اسے بڑی اچھی لگتی۔۔۔۔۔۔لیکن خیر۔۔۔۔۔۔اب وہ پھر سے کرسی کی بیک سے کمر لگا کر بیٹھ چکا تھا اور اسے دیکھ رہا تھا۔اس کی آنکھوں میں حیرت تھی۔آپ جانتے ہی ہیں کہ لڑکے جب حیران ہوتے ہیں’ تو ان کی آنکھوں میں صرف حیرت ہی نہیں ہوتی’ ہلکا سا غصہ بھی ہوتاہے۔ پھر ایسے لڑکے جو سختی سے لب بھی بھینچ رہے ہوں’ اور اپنے ہاتھوں کا مکا بنا کر سامنے والے کے منہ پر دے مارنا چاہتے ہوں’ ان کی پیشانی کے بل کچھ ایسے ہوتے ہیں کہ انسان ایک ایک کر گن لے اور ڈر کر سہم جائے۔۔۔۔۔۔تھوڑا سا۔۔۔۔۔۔بس تھوڑا سا دور ہٹ کر بھی کھڑا ہو جائے۔۔۔۔۔۔
” تم چاہتے ہو کہ میں پولیس میں شکایت کروں؟ یا یہاں کھڑی ہو کر چو ر چور چلاؤں؟”عجیب انسان تھا کچھ بول ہی نہیں رہا تھا۔الٹابار بار جھک کر کافی پی رہا تھا۔۔۔۔۔۔ وہ بھی اسٹرا سے۔۔۔۔۔۔اسے کافی اور جوس میں فرق نہیں معلوم تھا؟کتنا بد تمیز’ جاہل انسان تھا وہ۔
”میں کچھ بول(بھونک) رہی ہوں۔۔۔۔۔۔” آگے بڑھ کر اس کے اسٹرا کو چٹکی سے دبا دیا۔ یعنی اب پیو کافی۔
”پہلے میرا فون ‘ پھر کافی۔ میں جل بھن رہی ہوں تم کافی پر کافی چڑھا رہے ہو۔”
وہ غصے سے اُٹھ کر کھڑا ہو گیا۔شاید اب غصہ اس کے دماغ کو چڑھ گیا تھا۔
”جیب میں ہے یا کہیں اور رکھا ہے۔ ”انگلیوں میں دبے اسٹرا کو کھینچ کر اس نے پرے پھینکا اور خود کافی کے مگ کو منہ لگا لینا چاہا لیکن پھر رُک گئی۔
”اوہ سوری! میں دوسرا اسٹرا لے آتی ہوں۔۔۔۔۔۔” سامنے والے کا چہرہ خوفناک ہو چکا تھا۔وہ تھوڑا سا ڈر گئی تھی۔
وہ تیزی سے ریسٹورنٹ سے باہر نکل گیا۔علیزہ حیرت سے اسے دیکھتی رہ گئی۔ یعنی یہ کیا بات ہوئی’ چوری اور سینہ زوری پھر ایسے بھاگا دوڑی ۔
”تم بہرے ہو کیا؟ سنائی نہیں دے رہا۔میرا فون واپس کرو’ ورنہ میں ابھی پولیس کو فون کر دوں گی۔” وہ بھاگتی ہوئی اس کے پیچھے آئی۔
وہ رکا نہیں اور تیزی سے روڈ کراس کر گیا ۔ جب تک وہ اس کے پیچھے بھاگی وہ بس میں بیٹھ چکا تھا۔وہ ٹیکسی میں بیٹھی اور ڈرائیور کو بس کا پیچھا کرنے کے لیے کہا۔
بس آگے اور اس کی ٹیکسی پیچھے۔۔۔۔۔۔وہ باقاعدہ ٹیکسی کی کھڑکی سے آدھی باہر نکل کر بس کی طرف دیکھ کر چلا رہی تھی۔
” یہ چور ہے’ اس نے میرا فون چرایا ہے۔ پکڑو اسے’ روکو اسے۔”
ٹیکسی ڈرائیور نے گردن موڑ کر پیچھے اس کی طرف دیکھا۔ بس کے مسافر بھی اس کی طرف حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ صرف وہ جاسوس’ چور ‘ میسی’ کیسی’ ستیانیسی’وہ کسی کی طرف بھی متوجہ نہیں ہو رہا تھا’ اور کمر کو سیدھا رکھ کر بیٹھا سامنے دیکھ رہا تھا۔
” تم بھی سب کے سب بہرے ہو کیا؟ ” جب کسی ایک بھی مسافر نے گردن موڑ کر کالے کوٹ والے کو گھو رکر نہیں دیکھا اور اس سے یہ نہیں کہا کہ” بھائی چور! وہ کب سے آپ کو چور چور کہہ کر بلا رہی ہے۔ چلا رہی ہے۔کیا ماجرا ہے؟ اور نہیں تو ” میں چور نہیں ہوں” کہہ کر اسے رسپانس ہی دے دیں۔”تو وہ غصے سے بھڑ ک اٹھی۔
وہ اسٹاپ پر اترا تو وہ بھی ٹیکسی سے اتر گئی۔ اس کی سانس پھولی ہوئی تھی’ چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ تین چار سو آدمیوں کے گلے دبا دے۔چار پانچ سو کو پھانسی پر چڑھا دے۔چھ سات سو کو سمندر میں دھکا دے دے۔اس کا دنیا پر سے اعتبار اٹھ چکا تھا۔اس دنیا میں انسانیت نام کی کوئی چیز کہیں نہیں بچی تھی۔۔۔۔۔۔نیویارک میں تو بالکل نہیں۔۔۔۔۔۔
”سنو! خدا کے لیے میرا فون واپس دے دو۔” وہ اس کے سامنے جا کر ہانپتے ہوئے کھڑی ہو گئی۔سامنے والا کسی بھی بات سے ڈر ہی نہیں رہا تھا’ تو اس نے ”منت سماجت’ ترلے واسطے” ٹرائی کرنے کے بارے میں سوچا۔
”میں جانتی ہوں وہ فون تمہارے ہی پاس ہے۔ میرے پاس ایک مسٹری ٹیولپ پیپر ہے۔مجھے اس میں دکھائی دیا ہے۔ دیکھا اب تم چونک گئے نا۔ ہاں ‘ مجھے یہ بھی دکھائی دیا ہے کہ تم آج کل ایک بینک لوٹنے کی تیاری کر رہے ہو۔ تم اور تمہارا گینگ۔۔۔۔۔۔ہمم میں سب کو جانتی ہوں۔ میں پولیس کو سب کچھ بتا دوں گی۔ بہتر ہے کہ میرا فون دے دو۔ میرے پاس ابھی اتنے پیسے نہیں کہ نیا فون لوں۔ میں امیر دکھائی دیتی ہوں لیکن ہوں نہیں۔”
پہلی بار وہ زیر لب ہنس دیا۔( تم جو ہو وہی دکھائی دے رہی ہو۔ مس غریب!)
” دیکھا! تم ڈر گئے۔ میں کسی کو کچھ نہیں بتاؤں گی ‘ تم بس یہ بتا دو میرا فون کہا ںہے؟”مس غریب ‘پرانے سے موبائل کے لیے تڑپ رہی تھی۔
و ہ پھر سے چلنے لگا۔ وہ اس کے ساتھ ساتھ چلنے لگی۔”تم بہر ے ہو؟”
اس نے ناں میں سر ہلایا۔
”چور ہو؟”
اس نے پھر سے ناں میں سر ہلایا۔
”تو مجھے کیا پاگل سمجھا ہے۔۔۔۔۔۔” وہ چلائی۔
اس نے ہاں میں سر ہلایا اور ایک گھر کی طرف مڑ گیا۔گھر کے دروازے پر ایک عورت کھڑی تھی’ وہ اسے دیکھتے ہی مسکرا کر اس کی طرف لپکی ۔
” آگئے تم ابوبکر!میں تمہارا نتظار کر رہی تھی۔اور یہ لڑکی کون ہے؟”
” یہ چور لڑکا آپ کا کون ہے؟”
ماںکا منہ بن گیا۔”میر ے بیٹے کو چور کہہ رہی ہو؟”
” اس نے میرا فون چرایا ہے’ میں سب جانتی ہوں۔ میرے پاس ثبوت ہیں۔”
”یہ تمہارا فون کیسے چرا سکتا ہے ؟ اس کا ایک ہاتھ کٹا ہوا ہے’ اور دوسرا حرکت نہیں کر سکتا۔دکھاؤاپنے ثبوت۔ میں بھی دیکھوں کہ اس نے کس جادو کے زور پر یہ سب کیاہے۔”
وہ جہاں کی تہاں کھڑی رہ گئی۔”کیا یہ معذرو ہے؟ گونگا بہرا’ لنگڑا لولا؟”چونکہ وہ کافی وقت سے اسے چور سمجھ رہی تھی اس لیے اس کی زبان سے ساری اخلاقیات اور انسانیت رخصت ہو گئی اور وہ ایسی بد لحاظی پر اتر آئی۔
ماں نے بہت تحمل سے اس کے جملے سہے۔”بس گونگا۔۔۔۔۔۔”
اب تک ماں نے اس کا کوٹ اتار دیا تھا۔اور وہ اندر جا کر سامنے صوفے پر بیٹھ چکا تھا۔ وہ سامنے دہلیز پر کھڑی رہ گئی تھی۔ ماں نے ایسی بد اخلاق لڑکی کو گھر کے اندر آنے اور بیٹھنے کی دعوت نہیں دی تھی۔
”یہ گونگا ہے۔۔۔۔۔۔”وہ خود ہی اندر آچکی تھی اور گھوم پھر کر اس کا جائزہ لے رہی تھی جیسے سمندر سے وہیل مچھلی باہر نکل آئی ہو۔
گونگے نے ناگواری سے اسے دیکھا۔ماں کچن کی سمت جا چکی تھی۔صوفے کی سائیڈ ٹیبل پر اس کا فون رکھا ہوا تھا۔ وہ آگے بڑھی اور اس نے وہ فون اٹھا لیا۔ فون بند تھا۔ ا س نے آن کرنا چاہا تو وہ لوبیٹری کی وجہ سے آن نہیں ہوا۔جس وقت وہ اپنا فون لے کر واپس جا رہی تھی’ اس وقت ما ں ٹرے میں سوپ رکھ کر لا رہی تھی۔ماں نے ایسے ظاہر کیا جیسے اس نے اس جیسی بد تمیز ‘ جاہل’ بے رحم لڑکی کو دیکھا ہی نہیں۔
لیکن وہ دیکھ چکی تھی۔۔۔۔۔۔”سوپ ” کو۔۔۔۔۔۔
اور ابوبکر کی آنکھوں کو جو بہت گہرائی سے اس کا جائزہ لے رہی تھیں۔۔۔۔۔۔
کیا کسی نے ابوبکر کو بتایا تھا کہ اس کی آنکھیں باتیں کرتی ہیں۔۔۔۔۔۔
فی الحال تو وہ شعلے اگل رہی تھیں۔۔۔۔۔۔اس کی پشت پر۔۔۔۔۔۔
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔)(۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭
رات کو وہ سونے کے لیے لیٹی تو تھوڑی سی شرمندہ تھی۔رات کا پہلا پہر گزرا ۔۔۔۔۔۔تب تک وہ بے انتہاء شرمندہ ہو چکی تھی۔وہ بار بار بیڈ پر کروٹیں بدل رہی تھی۔اسے نیند نہیں آرہی تھی۔ بے چینی الگ تھی۔ دیوار کے دوسری طرف سے جینا مینا نے اپنے اپارٹمنٹ سے چلا کر کہا۔
” سو مر جاؤ’ یا پھر اپنا یہ بیڈ بدل لو۔ کتنی دیر سے چوں چاں کر رہا ہے۔چھوٹے گھروں میں رہنے کا یہی نقصان ہوتاہے۔کاش میں امیر ہوتی۔ خدا کسی کو غریب پیدا نہ کرے۔”
وہ غریب اپنی غربت پر رونے لگی اور یہ غریب بیڈ سے اٹھ کر راکنگ چیئر پر آکر بیٹھ گئی۔اسے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔وہ سارا راستہ چور چور چلاتی آئی تھی۔ اس نے اس بے چارے کا دل دُکھا دیا تھا۔ اسے تکلیف پہنچائی تھی۔اس کے جسمانی نقائص کا مذاق اڑایا تھا۔ایک فون ہی تو تھا’ بھول جاتی اسے۔سمجھ لیتی کہ کوئی چور اچکا لے گیا۔ بس۔
اگلے دن یونیورسٹی کے بعد وہ”چور اچکے” کے گھر چلی گئی۔
” میں آپ کے بیٹے سے سوری کہنے کے لیے آئی ہوں۔ سچی والی سوری۔” جیسے ہی اسے اس کی ماں کا چہرہ دکھائی دیا ‘ اس نے فورا سوری کہا۔غیر محسوس ہاتھ بھی جوڑ دئیے کہ ماں پر اچھا اثر پڑے۔
”سچی والی سوری کیا ہوتی ہے؟” ماں پر کوئی خاص اثر نہیں پڑاتھا۔یا اس کی نیت میں کھوٹ تھا’ ورنہ شاید اداکاری میں۔
”سچے دل سے سوری ۔۔۔۔۔۔”
” بد تمیز لوگوں کا دل سچا نہیں ہوتا ۔ سمجھی۔۔۔۔۔۔؟”
و ہ سمجھ چکی تھی۔ سر ہلاتی ہوئی ان کے پیچھے پیچھے اندر آچکی تھی۔اس بار اسے بیٹھنے کے لیے کہا گیا تھا۔ وہ ابوبکر کے سامنے جا کر بیٹھ گئی تھی’ جو کوئی ایکشن مووی دیکھ رہا تھا۔ کچھ دیر پہلے شاید اس نے کچھ کھایا تھا’اس کی گرے ٹی شرٹ کے گول گلے پر ساس کا ایک چھوٹا سا داغ لگا ہوا تھا۔ وہ ٹشو اٹھا کر اس داغ تک کو صاف نہیں کر سکتا تھا۔کچھ دیر تک وہ سہمی سی بیٹھی رہی۔ وہ اس سے بات کرنے کی ہمت پیدا کر رہی تھی۔ ایک بار ابوبکر نے اسے نظر اٹھا کر دیکھا تھا۔ ہائے ہیلو کے انداز میں مسکرایا بھی تھا۔ لیکن اس کی مسکراہٹ اسے کچھ طنزیہ سی لگی تھی۔
”ٹھیک ہے تم چور نہیں ہو ‘ لیکن میں بھی اتنی بری لڑکی نہیں ہوں۔شکل سے تم بھی کچھ ایسے بھی شریف نہیں لگتے’ پھر تمہیں دیکھ کر کوئی بھی دھوکا کھا سکتا ہے کہ ضرور دا ل میں کچھ کالا ہے۔ یعنی جیسے تم کالا سا کوٹ پہن کر’ جاسوسوں کی طرح گھومتے پھرتے رہتے ہو’ کوئی بھی تمہیں ”کچھ بھی” سمجھ سکتا ہے۔ سمجھ رہے ہو نا۔۔۔۔۔۔کچھ بھی۔۔۔۔۔۔” یہ اس کی سچی سوری والی سوری تھی۔سچے دل سے نکلے سچے الفاظ۔
اسکرین سے نظریں اٹھا کر اس نے اس کی طرف دیکھااور دیکھتا ہی رہا۔پہلے حیران’ پھر پریشان اور پھر دانت پر دانت جما کر۔
” مجھ سے غلطی ہوئی تھی لیکن قصور تمہارا بھی تھا۔مجھے کیا خواب آنا تھا کہ تم بول نہیں سکتے ۔ بندہ کوئی اشارہ ہی کر دیتاہے کہ میں بول نہیں سکتا۔”
”اور وہ اشارہ کیسے کرتے ہیں؟”اس کی ماں اس کے سر پر کھڑی غصے سے پھنکار تے ہوئے پوچھ رہی تھیں۔”ذرا کر کے دکھاؤ وہ اشارہ۔۔۔۔۔۔ہاتھ نہ ہلانا۔”
وہ ہکا بکا ماں کی شکل دیکھنے لگی۔
” ایک بازو مفلوج ہو اور ایک کٹا ہوا ہو۔ زبان تالو سے چپکی ہوئی ہو’ تو بتاؤ کہ کیسے اشارہ کر کے بتائے گا کہ میں گونگا ہوں۔ بول نہیں سکتا ۔ تمہارا فون میری جیب میں گر گیا تھا۔سوری۔ یہ لو اپنا فون واپس۔”
وہ پھر سے شرمندہ ہو گئی۔سر جھکا کر بیٹھ گئی۔ اس نے سوچا کہ اسے اپنی زبان کو زحمت نہیں دینی چاہیے’ ورنہ اس کے سر پر کھڑی ماں اس کا کچومر نکال کر’ کھچڑی پکا کر چیل کووں کو کھلا دے گی۔
” تم مجھے جانے کے لیے کہہ رہے ہو او ریہ لڑکی تمہاری بے عزتی کر تی جار ہی ہے۔” جاتے جاتے ماں بڑبڑائی تو اس نے سر اٹھا کر پہلے ماں اور پھر ابوبکر کو دیکھا۔
”آئی ایم سوری مسٹر ابوبکر!میرے الفاظ سخت تھے اور انداز بھی۔لیکن سچی میں بہت معصوم بھولی بھالی سی لڑکی ہوں۔میں نے آج تک کسی کو کوئی تکلیف نہیں دی۔کسی کو دکھی دیکھتی ہوں تو رات رات بھر روتی(سوتی) رہتی ہوں۔ میرا دل تو سمجھو کہ سونے(کھوٹا سونا) کا ہے۔ میں تو ایسی درد دل رکھنے والی اور۔۔۔۔۔۔میں وہ۔۔۔۔۔۔اچھا خیر۔۔۔۔۔۔”
اس کے بعد دونوں کے درمیان پورے تین منٹ تک خاموشی رہی۔ وہ تو بول نہیں سکتا تھا’ اور وہ بول رہی تھی تو بس اپنی ہی شان میں بول رہی تھی۔جو کہ موقعہ کی مناسبت اور نزاکت کے حساب سے کوئی اچھی بات نہیں تھی۔پھر اس نے فیصلہ کیا کہ اسے چلے جانا چاہیے۔
” مجھے اب چلنا چاہیے۔۔۔۔۔۔” اسے افسوس تو تھا کہ ان لوگوں کو مہمان نواز ی وغیرہ نہیں آتی۔ لیکن وہ اس افسوس کا اظہار نہیں کر سکتی تھی۔ اس لیے وہ اٹھ کر کھڑی ہوگئی اور بس جانے ہی والی تھی کہ چائے کا ایک کپ اس کے سامنے آگیا۔اس نے چائے کے کپ کو دیکھا پھر ابو بکر کو۔لیکن ابوبکرماں کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔۔
”اچھا ٹھیک ہے لا رہی ہوں وہ بھی۔” وہ بڑبڑاتی ہوئی گئیں اور اس بار واپسی میں کچھ نگٹس بھی لے آئیں۔
اس نے چائے بھی پی اور نگٹس بھی کھائے۔ وہ ان لوگوں میں سے نہیں تھی’ جو غصے اور شرمندگی میں اپنے پیٹ پر لات مارتے ہیں۔لڑائی’ غصہ’ ناپسندیدگی اپنی جگہ’ اور ”پیٹ” اپنی جگہ۔۔۔۔۔۔مطلب سب سے اچھی جگہ۔۔۔۔۔۔
” میں سچ میں بہت شرمندہ ہوں’ ایک بار پھر سے سوری کہتی ہوں۔او ہ ہاں مجھے یاد آیا’ تم نے یہ تو پوچھا ہی نہیں کہ مجھے کیسے معلوم ہوا کہ میرا فون تمہارے پاس ہے۔ ”بیگ میں سے ٹیولپ نکال کر وہ اس کے ساتھ صوفے پر جا کر بیٹھ گئی۔چائے اور نگٹس نے اس کے اندر انرجی بھر دی تھی۔ وہ تر وتازہ ہو چکی تھی۔
” یہ دیکھو! کوئی اس پریقین نہیں کرتا۔میں نے اپنی فرینڈز کو بتایا تو وہ ہنسنے لگیں۔خیر ہنسی تو مجھے بھی بہت آئی تھی جب یہ مجھے ملا تھا۔ اور پھر رونا بھی جی بھر کر آیا تھا’ جب اس سے مجھے ”کچھ نہیں” ملا تھا۔سوچا تمہیں بھی بتا دوں تم کون سا کسی کو بتاؤ گے۔ہی ہی۔۔۔۔۔۔نہیں نہیں میں تمہارے گونگے ہونے کا مذاق نہیں اڑا رہی ۔ بس ویسے ہی۔۔۔۔۔۔اچھا سوری۔۔۔۔۔۔زبان سے پھسل گیا۔ دیکھو ا س میں نا یہاں۔۔۔۔۔۔ تمہاری تصویر بن گئی تھی۔۔۔۔۔۔ ” اس نے فائل کی طرح کھول کر ٹیولپ کو ابوبکر کے سامنے پھیلا دیا ۔اور حیرت سے اس کاا پنا منہ کھل گیا۔
” اتنی بد لحاظی سے مجھے گونگا کہتے ہوئے’ تمہیں شرم آنی چاہیے۔ بار بار سوری کہنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ اگلی بار سوری کہنے کی بجائے تمہیں اپنے منہ پر ایک عدد طمانچہ مار لینا چاہیے۔اس ایک عدد کو تین سے ضرب دے دینی چاہیے اور اپنا کام جاری رکھنا چاہیے۔”
ٹیولپ پر لکھا تھا۔ جیسے کتاب پر لفظ چھپے ہوئے ہوتے ہیں۔ جیسے موبائل پر میسج لکھا ہوتاہے۔ صاف صاف۔۔۔۔۔۔ ابو بکر حیرت سے ٹیولپ کی اسکرین کو دیکھ رہا تھا۔ وہ بھی دیکھ رہی تھی۔دونوں ٹیولپ پر تھوڑا سا جھک گئے تھے۔
” یہ تم نے مجھ سے کہا ہے؟” اس نے پہلے سر اٹھایا اور اس سے پوچھا۔
”بالکل!” جواب اس کے ہاتھ میں پکڑے ٹیولپ پر آیا۔
دونوں کچھ دیر کے لیے خاموش ہو گئے۔۔۔۔۔۔حیران۔۔۔۔۔۔پریشان۔۔۔۔۔۔ہکا بکا۔۔۔۔۔۔
” تو تم یہاں بول رہے ہو۔۔۔۔۔۔اس ٹیولپ پیپر پر۔ وہ بھی ایسے۔۔۔۔۔۔طمانچہ اور تین سے ضرب۔۔۔۔۔۔یہ سب؟”وہ چلا اٹھی۔
” چلانا بند کرو’ بد لحاظ لڑکی! میں تمہیں کل سے بر داشت کر رہا ہوں۔”
”اور میں بھی۔۔۔۔۔۔”ٹیولپ کو رول کر کے اس نے ابوبکر کے سر پر دے مارا۔ یہ اس نے عادتا کیا تھا۔ لیکن کچن سے برتن دھو کر نکلی ماں کو یہ منظر اچھا لگا تھا’ نہ یہ عادت۔ اور انہوں نے آگے بڑھ کر ایک موٹا میگزین رول کر کے اس کے سر پر دے مارا تھا۔ ماں نے یہ عادتا نہیں کیا تھا۔
علیزہ کی آنکھیں نم سی ہو گئیں۔ اس لیے نہیں کہ اسے ابوبکر کی ماں سے مار پڑی تھی۔ بلکہ اس لیے کہ اس کا جیک پوٹ’ الہ دین کا چراغ۔۔۔۔۔۔ اس کا ٹیولپ ایسا پھس نکل آیا تھا۔۔۔۔۔۔خوابوں کا جہاں زمین بوس ہو چکا تھا۔۔۔۔۔۔
زمین پر موجود ہر جادوئی چیز ”جادو” نہیں کرتی۔۔۔۔۔۔ کبھی کبھی وہ بس چھوٹے موٹے کام ہی کر سکتی ہے۔ایک مترجم کا کام۔ ایک بے زبان کی زبان کاکام۔ ایک دوست کی طرح مددگار کا کام۔۔۔۔۔۔بس۔۔۔۔۔۔
علیزہ۔۔۔۔۔۔ابوبکر۔۔۔۔۔۔زندگی کے ساحر اور ”ٹولپ”ان کا جادو۔۔۔۔۔۔
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔)(۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭
اس کا الہ دین کا چراغ صرف ایک ٹرانسلیٹر تھا ۔جس ٹیولپ کو وہ کوئی بہت ہی خاص ‘ توپ نما چیز سمجھ رہی تھی’ وہ بس اتنی سی چیز نکلا تھا کہ ایک عدد گونگے لڑکے کی زبان بولنے لگا تھا۔بس۔یعنی وہ اس لڑکے کی مترجم تھی۔۔۔۔۔۔وہ بولے گا اور وہ پڑھے گی۔
اس نے گھر آتے ہی ٹیولپ کو دیوار پر دے مارا تھا۔جپسی کا کیا یہ ایک عد د گھٹیا مذاق تھا۔اسے اب ایسے پیپر کی کوئی ضرورت نہیں تھی جو نہ پیسے دے’ نہ کھانا’ نہ کوئی اور جادوئی طاقت۔ دے تو بس ایک عدد سہولت کہ آپ کسی بے زبان کی زبان سمجھ سکیں۔ وہ بھی اس جیسے روڈ اور بد تمیز انسان کی۔جو نہ فٹ بالر تھا’ نہ ہی کسی فلم کا ہیرو۔ جس کے پاس کوئی گو لڈ میڈ ل تھا اور نہ ہی کوئی ٹرافی۔اس کی تو شکل بھی پوری طرح سے میسی سے نہیں ملتی تھی۔۔۔۔۔۔ایسی’ویسی’ جیسی ‘تیسی۔۔۔۔۔۔
کتنے ہی دن اسے دُکھ ہوتا رہا تھا۔شروع میں ٹیولپ سے ناامید ہونے کے باوجود اسے پوری امید تھی کہ ایک دن ضرور کچھ نہ کچھ نکلے گا۔جیسے کوئی ہیرے کی کان۔۔۔۔۔۔سونے چاندی کی دکان۔۔۔۔۔۔ضرور کچھ بڑا سا ہو گا۔۔۔۔۔۔
بیٹرا غرق ہو تو گیاتھا ۔۔۔۔۔۔اس کی خواہشات اور خوابوں کا۔۔۔۔۔۔
خوشحالی آئی نہیں تھی کہ ہر طرف تباہی چھا گئی تھی۔۔۔۔۔۔
تباہی نے اُداسی سے’ ٹھوڑی کو ہاتھ کی ہتھیلی پر ٹکا کر کھڑکی سے بھاگتی دوڑتی ٹریفک کو دیکھا۔وہ چڑھ کر کھڑکی کے فریم میں بیٹھی ہوئی تھی۔ایسے لگتا تھا کہ وہ بس کود کر خود کو ختم ہی کر لے گی۔وہ اداس تھی کہ اسے کوئی خاص فائدہ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔اس کے سب خواب چکنا چور ہو چکے تھے۔ اسے ‘ اس لڑکے کا مترجم بننے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔بدلے میں اسے کیا ملنے والا تھا۔۔۔۔۔۔کچھ نہیں۔۔۔۔۔۔
دروازے پر دستک ہو رہی تھی۔ ہو گی وہی جینا’ مینا’ شینا’کافی مانگ رہی ہو گی۔ وہ ویسے ہی ڈھیٹ بن کر بیٹھی رہی۔ دستک پھر سے ہوئی۔ وہ بے زاری سے اٹھی’ کچن سے کافی اٹھائی اور دروازہ کھول دیا۔
”یہ لو! اور خد ا کے لیے اپنی کافی لینا شروع کر دو ‘ورنہ میری جان چھوڑ دو۔ میرا باپ لارڈ ہے نہ ماں مسز لارڈ’ جو تمہیں اپنے کچن کی چیزیں اٹھا اٹھا کر دیتی رہوں۔ویسے ہی قرض میں گردن تک ڈوبی ہوئی ہوں۔ بس ناک اور آنکھیں بچی ہیں’ وہ بھی ڈوبنے ہی والی ہیں۔”اداس ہو کر بھی وہ اتنی بھڑاس نکال لیتی تھی۔۔۔۔۔۔کمال لڑکی تھی۔۔۔۔۔۔
”اسلام علیکم! کیسی ہو علیزہ بیٹا؟” مسٹر لارڈ آف دی رنگز کی والدہ محترمہ کھڑی مسکرا رہی تھیں۔ وہ مسکرا بھی سکتی ہیں یہ اسے اب معلوم ہواتھا۔
”آپ؟”
”اندر آجاؤں نا؟”
اب کیا وہ اسے گھر کے اندر گھس کر بھی ماریں گی۔وہ بھی ایسے باقاعدہ’ مسکرا کر’ ہاتھ کو چینی عورتوں کی طرح سینے پر باندھ کر۔اسے سمجھ نہیں آئی کہ وہ کیا کہے۔اس کے سرسر ی انداز سے بتائے گئے ایڈریس پر وہ پوری طرح سے آ موجود ہوئی تھیں۔
”اندر آجائیں۔۔۔۔۔۔میں اور یہ۔۔۔۔۔۔” انہوں نے ہاتھ میں پکڑی چھوٹی سی باسکٹ کو اس کے سامنے لہراتے ہوئے پوچھا۔باسکٹ میں سے کھانے کی خوشبو آرہی تھی۔اس نے سر ہلا دیا۔ وہ اندر آگئیں۔
”تم دوبارہ آئی ہی نہیں۔ ابوبکر تمہیں یاد کرر ہا تھا۔”
وہ حیرت سے ا نہیں دیکھنے لگی۔ابوبکر اسے کیسے یاد کر سکتا تھا۔ اوہ! کہیں یہ۔۔۔۔۔۔یہ توکہنے نہیں آئیں کہ تم ابوبکر سے شادی کر لو’ اس کا خیال رکھو۔میں بوڑھی ہو چکی ہوں’ مجھ میں ا ب اتنی ہمت نہیں رہی۔۔۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔۔
” میں یہ شادی نہیں کروں گی۔۔۔۔۔۔سوری آنٹی!” ایکدم سے اس کے منہ سے پھسل گیا۔
وہ حیرت سے اس کی شکل دیکھنے لگیں۔ پھر ایک دم سے اداس سی ہو گئیں۔آنکھیں بھی نم ہو گئی تھیں۔
”دراصل میں نے تمہاری باتیں سن لی تھیں۔وہ جو تم کہہ رہی تھی نا کہ وہ جو بولتا ہے’ وہ تم سن لیتی ہو ۔ وہ سب۔”
”اچھا وہ۔۔۔۔۔۔وہ میں مذاق کر رہی تھی۔۔۔۔۔۔ایسا کچھ نہیں ہے۔۔۔۔۔۔”اس کی نظریں باسکٹ پر جمی ہوئی تھیں۔ بھوکی تھی نا وہ۔
”مجھے اپنے بیٹے کی بات سمجھنے کے لیے الفاظ کی ضرورت نہیں پڑتی علیزہ!میں جان جاتی ہوں کہ وہ کیا کہنا چاہتا ہے’ تو کیا میں یہ نہیں جان سکتی کہ کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ۔تم تب سچ بول رہی تھی لیکن اب جھوٹ بول رہی ہو۔ ایک ماں کا دل سب جانتا ہے۔”
وہ گڑ بڑا گئی۔ ماں کے دل نے اسے سہما دیا تھا۔ کیا یہ خاتون اس سے ٹیولپ لینے آئی تھیں۔اچھا تو وہ اس کے بھی بھلا کس کام کا تھا۔ وہ اٹھی اور اس نے ٹیولپ لا کر ان کے سامنے رکھ دیا۔
”ابوبکر جو بولے گا وہ یہاں لکھا جائے گا۔ آپ یہ لے جائیں ۔ میرے یہ کسی کام کا نہیں ہے۔”
”اچھا۔۔۔۔۔۔” خوشی سے وہ رونے لگیں۔ ”حادثے سے پہلے وہ ایک کتاب لکھ رہا تھا’ جو نا مکمل ہی رہی۔ اب میں اس کی مدد کر سکتی ہوں۔ وہ جو جو کہتا جائے گا میں وہ نوٹ کرتی جاؤں گی۔ ایسے اس کی کتاب مکمل ہو جائے گی۔پھر وہ زندگی کی طرف لوٹ آئے گا۔ وہ بھی عام لوگوں کی طرح خوش باش رہا کرے گا۔”
”ایک کاپی مجھے بھی دیجئے گا۔” وہ دانت پیس کر بولی۔( اس کی کتاب مکمل ہو جائے گی اور میرے خواب ادھورے رہ جائیں گے)
اسے دعائیں دیتی ہوئیں وہ چلی گئیں۔جس کی چیز تھی اسے مل گئی ‘ پھر جپسی نے یہ کیوں کہا تھا کہ یہ اس کا ہے۔ کیا خاک اس کا تھا۔ اسے کیا فائدہ ہوا۔صرف خواری’ اور سہانے خوابوں کی تباہی۔
تباہی نے ایک لمبی آ ہ بھری ۔پاپا نے کہا تھا کہ اتنی دور جا کر’ اتنے مہنگے شہر میں نہ پڑھو۔لیکن وہ کیا کرتی’ اسے نیویارک کا لچا لفنگا پن بڑاپسند تھا۔یہ ایک بد معاش’غنڈا نما شہر تھا۔جہاں خالی جیب گھومنابڑا برا سمجھا جاتا تھا۔ اسے پسند تھا ایسا شہر جہاں انسانوں سے زیادہ ٹیکسیاں تھیں۔ جو ہاتھ کے اشارے پر رکتی تھیں نہ منہ کی سیٹی پر۔ٹیکسی ڈرائیور خود کو بڑی توپ چیز سمجھتے تھے۔اور ٹیکسی پر سواری کرنے والے کو اس توپ کا گولہ بننا پڑتاتھا۔ وہ پاپا کو کیسے سمجھاتی کہ نیویار ک کی اونچی بلڈنگوں کو دیکھ دیکھ کر اسے کیسی خوشی حاصل ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔
خوشی خاک میں مل چکی تھی۔اسے اچھی جاب نہیں مل سکی تھی اوروہ بمشکل اپنے خرچے پورے کر رہی تھی۔پاپا اور ماما نے صاف ہاتھ اٹھا لیے تھے۔ وہ تو بار بار اس پر طنز کرتے تھے۔”اور جاؤ اتنی دُور۔”
وہ دُور تک ‘ دیر تک واک کر تی رہتی تھی۔سوچتی رہتی تھی کہ کاش ٹیولپ کسی کام کا نکل آتا توآج صبح چائے کے لیے دودھ ساتھ والی سے ادھار نہ لینا پڑتا۔لانڈری کے لیے واشنگ پاوڈر تک ختم ہو چکا تھا۔
” تم نے میرے ساتھ مذاق کیا تھا کیا؟ یہ تو خالی رہتا ہے۔۔۔۔۔۔کورا۔۔۔۔۔۔گونگا۔۔۔۔۔۔”اگلے دن وہ یونیورسٹی سے آئی تو اسے اپارٹمنٹ کے دروازے کے پاس ابوبکر کی ماں کھڑی ہوئی ملیں۔شاید وہ کافی دیر سے وہاں کھڑی تھیں۔اسے دیکھتے ہی بولنے لگیں۔
”اچھا۔۔۔۔۔۔اوہ۔۔۔۔۔۔شاید اس نے کام کرنا بند کر دیاہے۔” اسے زیادہ دلچسپی نہیں تھی کہ اس نے کام کیا یا نہیں۔ اس کی بلا سے۔
”ایسا بھی تو ہو سکتا ہے کہ یہ صرف تمہار ے ہاتھ سے کام کر تا ہو۔تم ایسا کرو میرے ساتھ چلو۔ ابھی دیکھ لیتے ہیں۔”
”میں۔۔۔۔۔۔لیکن میں کیوں جاؤں؟ ویسے بھی میں بہت مصروف ہوں۔” اس نے سنگدلی سے شانے اچکائے اور لاک کھولنے لگی۔
” میں اندر آکر ایک کپ چائے پی سکتی ہوں؟ دراصل میں کافی دیر سے یہاں کھڑی ہوئی ہوں’تھک چکی ہوں۔” انہو ں نے لجاجت سے کہا۔ وہ انکار نہیں کر سکتی تھی۔ انہیں اپنے ساتھ اندر لے آئی۔و ہ بیٹھ گئیں تو وہ فریش ہونے کے لیے چلی گئی۔
”آجاؤ ‘ پہلے کھانا کھا لو ۔ چائے بھی بس تیار ہی ہے۔”
وہ فریش ہو کر باہر نکلی تو وہ فریج میں سے کھانا نکال کر گرم کر چکی تھیں اور اب اس کا انتظار کر رہی تھیں۔
” یہ سب آپ نے کیوں کیا؟”وہ شرمندہ ہوئی۔۔۔۔۔۔ایویں بس تھوڑی سی۔۔۔۔۔۔
”سچ بتاؤں تو میں اپنے بیٹے کے لیے کچھ بھی کر سکتی ہوں۔ تمہیں راضی کرنے کے لیے بھی۔ ”
وہ خاموش رہی اور ان کی پلیٹ میں کھانا نکال کر ان کے آگے پلیٹ کھسکادی۔”آپ یہ کھائیں۔پھر بات کرتے ہیں۔”
فرمانبرداری سے انہوں نے کھانا’ کھانا شروع کر دیا۔وہ دیکھ سکتی تھی کہ ابوبکر کی ماں کے لیے نوالے چبانا کتنا مشکل ہو رہاہے۔ وہ جلد سے جلد اس کا جواب سننا چاہتی تھیں۔۔۔۔۔۔ا ن کے ہاتھوں میں اس فیصلے کی کپکپاہٹ تھی۔۔۔۔۔۔وہ ماں تھیں نا۔۔۔۔۔۔
”تم میرے بیٹے کی مدد کرو گی نا؟” جیسے ہی پلیٹ صاف ہوئی انہوں نے بڑی آس سے پوچھا۔ وہ پھر سے صاف انکار کر دینا چاہتی تھی لیکن ماں کی محبت نے اس کے لب سی دئیے تھے۔
” میں مجبور ہوں’ مجھے یونیورسٹی جانا ہوتا ہے’ پھر جا ب پر۔ میں ادھر ادھر ٹائم ویسٹ نہیں کر سکتی۔”وہ مجبور کم اور سنگدل زیادہ تھی۔
”تم جتنا وقت اس کے ساتھ رہو گی میں تمہیں اس کے لیے پے کروں گی۔تمہیں تنخواہ دوں گی۔میں بہت زیادہ امیر نہیں ہوں’ لیکن اپنے بیٹے کی زندگی کے لیے میں اپنی جان بھی دے سکتی ہوں۔اس آخری حادثے نے اسے بالکل ناامید کر دیا ہے۔ وہ ہنسنا ‘ مسکرانا بھول گیا ہے۔ اگر وہ پیدائشی ایسا ہوتا تو اور بات تھی۔ معذروی اتنی تکلیف دہ نہیں ہے’ جتنی خاموشی۔شروع میں اس نے حالات کا مقابلہ کرنے کی بہت کوشش کی تھی ۔ اسے پوری اُمید تھی کہ اس کا ہاتھ ٹھیک ہو جائے گا۔ دو آپریشن ہو چکے ہیں لیکن نہ زبان ٹھیک ہو رہی ہے نہ ہاتھ۔تمہیں اللہ نے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ تم چاہو تو اس کی مدد کر سکتی ہو۔”
”لیکن میں کیا مدد کر سکتی ہوں؟”
”تم اس کے ذریعے اس کی زندگی میں تبدیلی لا سکتی ہو ۔ تم اس سے بات چیت کر سکتی ہو۔اسے سن سکتی ہو۔ وہ کیا کہنا اور کیا کرنا چاہتا ہے’ اس سلسلے میں تم اس کی مدد گار بن سکتی ہو۔”
”لیکن مجھے اس سے بات چیت میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ میں یہ سب نہیں کر سکتی۔آپ سمجھنے کی کوشش کریں پلیز۔”
” میں سب سمجھ چکی ہوں اسی لیے تو تمہارے پاس آئی ہوں۔ دیکھو ایک ماں اپنی اولاد کی خوشی کے لیے کسی کے پاس بھی جانے سے نہیں چوکتی۔ تم جو کہو گی میں وہ سب کروں گی۔ میرے پاس کچھ جیولری ہے۔ابوبکر کے فادر تیس سال پہلے یہاں کام کے لیے آئے تھے۔پھر انہوں نے مجھے بھی یہاں بلا لیا تھا ۔ ابو بکر یہیں پیدا ہوا تھا۔ ہم نے ایک مشقت بھری زندگی گزاری ہے۔ہم میاں بیوی یہاں رات دن کام کیا کرتے تھے۔ ابو بکر سترہ سال کا تھا جب رحمان کی ڈیتھ ہو ئی۔ پھر میں نے اکیلے ہی اس کی دیکھ بھال کی تھی۔ گھر لیا۔ اس کے آپریشن کے لیے پیسے جمع کیے۔ہم اپنی زندگی سے خوش تھے۔ لیکن اب میں جب جب ابو بکر کو اس حال میں دیکھتی ہوں تو میرا د ل کٹ کر رہ جاتاہے۔ میں جانتی ہوں کہ وہ موت کے بارے میں سوچتا رہتا ہے۔شایداسے اب اپنی زندگی میں ہر طرف اندھیرہ ہی اندھیرہ دکھائی دیتا ہے۔”
موت کا سن کر وہ ٹھٹکی تھی۔۔۔۔۔۔
”وہ کچھ نہ بھی کہے تو میں سب جان جاتی ہوں۔ زندگی میں اس کی دلچسپی ختم ہو چکی ہے ۔”بیگ میں سے ایک لفافہ نکال کر انہوں نے اس کے سامنے رکھا۔” اس میں کچھ پیسے ہیں۔ یہ میں اپنی خوشی سے دے رہی ہوں۔”
وہ ہکا بکا ان کی شکل دیکھتی رہ گئی۔ یہ ٹھیک ہے کہ وہ لالچی تھی’ اس کی وار ڈروب بھی خالی تھی۔ اسے ایک عدد گرم کوٹ’ نہیں ایک عدد ڈیزائنر ‘ فیشن ایبل کوٹ کی ضرورت تھی۔نئی جینز اور جوگرز کی بھی۔۔۔۔۔۔لیکن پھر بھی۔۔۔۔۔۔
”لیکن یہ سب ۔۔۔۔۔۔یہ کیا ہے؟” وہ ہکلا سی گئی۔ہاتھ آئے پیسوں کو انکار کرنا ہمت والوں کا کام ہوتاہے۔
”یہ میری طرف سے چھوٹاسا تحفہ ہے ۔ میری زندگی کی کل جمع پونجی صرف اور صرف میرا بیٹا ہے۔ باقی دنیا کی دولت سے مجھے کوئی سروکار نہیں ہے۔ تم میرا سب کچھ لے لینا’ لیکن میرے بیٹے کے دل کی بات سن لیا کرنا۔اس کے چند فرینڈز تھے۔ اچھے تھے وہ بھی۔ ایک تو آسٹریلیا چلا گیا ہے’ وہ ویڈیو کال پر کبھی کبھی بات کر لیتا ہے۔ظاہر ہے کہ وہ ہی بولتا رہتاہے’ ابو بکر یا مسکرا سکتاہے ‘ یا سر کے اشارو ں سے ہاں ناں کر سکتاہے۔ دوسرے فرینڈز پہلے تو آجاتے تھے لیکن اب نہیں آتے۔ شاید انہیں بھی میرے بیٹے کی ضرورت نہیں رہی۔میں جانتی ہوں کہ ابوبکر جیسے انسان سے دوستی نبھانا آسان نہیں ہوتا۔ لیکن جب مجھ جیسی ماں”محبت” نبھا سکتی ہے تو تم جیسے لوگ تھوڑی بہت دوستی اور انسانیت تو نبھا ہی سکتے ہو نا؟” پھر سے لفافے کو اس کے آگے کیا۔
آپ کو کیا لگتا ہے کہ علیزہ نے پیسوں کا کیا ہو گا؟ اس نے ”نہیں’ نہیں’ یہ آپ رکھیں ”کہہ کر واپس کر دئیے ہوں گے؟
نہیں۔۔۔۔۔۔اس نے ہاتھ بڑھا کر وہ پیسے پکڑلیے’اور انہیں صوفے پر رکھے کشن کے نیچے کھسکا دیا۔ ہرکام کی اجرت ہوتی ہے’ تو اس کام کی بھی کیوں نہیں۔بے رحم اور لالچی ہونا بہت دل گردے کا کام ہوتا ہے۔جو بندہ نیویارک شہر میں رہے گا’ وہ بندہ تھوڑا بہت خودغرض تو ہو گا ہی۔کیونکہ نیک اور شریف ہونے سے ‘ کھانا نہیں ملتا ‘ شاپنگ نہیں ہوتی۔زارا کے ٹاپ اور گوچی کی جینز نہیں آتی۔ہم انسانوں کی ضرورتیں اتنی نہیں ہیں’ جتنی خواہشیں ہیں۔ انسان کو ضرورت نہیں خواہش بے رحم بناتی ہے۔
”آپ اصرار کر رہی ہیں تو کیوں نہیں۔” چالاکی اور مکاری سے اس نے کہا۔
کبھی کبھی کہانی کی ہیروئن بھی devilبن جاتی ہے۔۔۔۔۔۔ہے نا؟
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔)(۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭
اگلے دن یونیورسٹی کے بعد ابوبکر کے پاس جانے سے پہلے اس نے تھوڑی سی تیاری کر لی تھی۔یہ اب اس کی جاب تھی تو اسے تھوڑا بہت اہتمام کر لینا چاہیے تھا۔ اس نے ٹیولپ کو کھول کر’ پھیلا کر’ موبائل کی پشت پر چپکا کر کور سے محفوظ کر لیا تھا۔ اب وہ ٹیولپ کو موبائل اسکرین کی طرح پڑھ سکتی تھی۔
بے زبان کی زبان سمجھنے وہ مسٹر مطلوبہ کے پاس پہنچی تو آنٹی نے اسے خوشدلی سے خوش آمدید کہا۔
”آ ج سے میں روز تم سے ملنے آیا کروں گی۔”
اس نے خوش ہو کر ابوبکر سے کہا۔ٹیولپ کو پڑھا تو وہ کورا تھا۔۔۔۔۔۔اسکرین صاف تھی۔۔۔۔۔۔وہاں کچھ نہیں تھا۔۔۔۔۔۔وہ بلینک تھا۔۔۔۔۔۔اگلے ایک گھنٹے تک وہ بلینک رہا تھا۔ آنٹی اس کی شکل دیکھ رہی تھیں۔
”آج اس نے کیا کہا؟”وہ اسے اپنے ساتھ کچن میں لے آئیں اور بہت شوق سے پوچھنے لگیں۔
آج وہ تو پتا نہیں کیا کیا کہتا رہا تھا’ لیکن اس کا ٹیولپ گونگا بنا رہا تھا۔ اس نے کام کرنا بند کر دیا تھا’ یا وہ ٹک کر کام کرنے کا عادی نہیں بن پا رہا تھا۔اسے بیروزگاری کی عادت ہو چکی تھی یا وہ نکما اسے کچھ کما کر دینے پر تیار نہیں ہو رہا تھا۔ورنہ وہ ہڑتال پر تھا۔ یہ جپسی لوگ بھی عجیب ہوتے ہیں۔ ایسی بے کار چیز اسے پکڑا دی۔ اچھی بھلی گھر بیٹھے بٹھائے جاب ملی تھی۔ وہ بھی ہاتھ سے گئی۔اگلے دو دن وہ ابوبکر کے پاس جاتی رہی لیکن ٹیولپ خاموش رہا ۔ وہ آئیں بائیں شائیں کرتی رہتی۔آنٹی سے جھوٹ بول دیتی تھی کہ آج یہ یہ باتیں ہوئی ہیں۔ وہ یہ یہ کہہ رہا تھا۔ اس دوران ابو بکر اسے مشکوک نظروں سے دیکھتا رہتا تھا۔کبھی وہ پہلو بدلتا۔ کبھی ایسا لگتا کہ وہ اپنابازو ہلانا چاہتا ہے اور گھما کر ایک مکا اس کے جبڑے پر دے مارنا چاہتاہے۔۔۔۔۔۔
”گیٹ لاسٹ۔۔۔۔۔۔” اور چلا کر یہ کہنا چاہتاہے۔
اس نے بڑی ترکیبیں لڑائیں کہ ٹیولپ پہلے کی طرح کام کرنا شروع کر دے لیکن نہیں جی۔ آخر کار وہ سب سمجھ گئی۔ اس نے ایک گہری آہ بھری۔ تو اس کی جیبیں خالی ہی رہیں گی۔ وہ امیر نہیں ہو گی۔ نہ ٹیولپ سے ڈالر ملیں گے اور نہ ہی ٹیولپ کے ذریعے۔اگلے دن وہ ابوبکر سے ملنے کے لیے آئی تو آنٹی کا دیا لفافہ(پیسہ) ساتھ لائی تھی۔
” میں یہ پیسے نہیں رکھ سکتی آنٹی جی!(ہائے سی) تھوڑی دوستی(زبردستی) اور زیادہ ‘انسانیت’کے لیے میں ابوبکر سے ملنا چاہتی ہوں۔(دل اور جیب پر پتھر رکھ کر)۔” اس نے کہا۔ آنٹی تو خوشی سے کھل اُٹھی تھیں۔ اس لیے نہیں کہ پیسے واپس مل گئے تھے۔ اس لیے کہ ابوبکر کو ایک انسان دوست ‘ ساتھی مل گیا تھا۔
وہ ابوبکر کے پاس آکر بیٹھی تو ٹیولپ نے دھڑا دھڑکام کرنا شروع کر دیا تھا۔ دل تواس کا چاہا کہ اس کا گلا دبا دے ورنہ آگ میں جھونک دے۔ پر کیا کرتی’ بے جان چیزوں پر انسان کتنا بھی غصہ نکال لے’کچھ حاصل نہیں ہوتا۔پر ہائے کاش ٹیولپ تھوڑا سا تو اس کی صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کرتا۔۔۔۔۔۔اور نہیں تو اس کا بھوکا پیٹ ہی دیکھ لیتا۔۔۔۔۔۔
”یہ تم کیا جوکر کی طرح تماشتے کرتی رہتی ہو؟؟؟کیوں اتنا جھوٹ بولتی ہو میری ماں کے ساتھ؟”ابوبکر کے چہرے کے عضلات غصے سے کھنچے ہوئے تھے۔
اس نے منہ بنا کر اسے چڑایا۔” تو اس نیویارک جیسے بھوت شہر میں رہنے کے لیے تمہارا کیا خیال ہے مجھے کیا کرنا چاہیے؟الٹا لٹک جاؤںتو بھی اتنے پیسے نہیں ملتے۔ ایک تو گھر کا کرایہ اتنا زیادہ ہے’ اوپر سے ساری دنیا کا قرض دیناہے مجھے۔”
”اب دفعہ ہو جاؤ یہاں سے اور دوبارہ نہ آنا۔”یہ کہتے ہوئے وہ سنجیدہ صور ت تھا۔
اسے غصہ آیا لیکن وہ پی گئی۔’ ‘ کافی پینے چلیں؟” اس نے ذرا بلند آواز سے کہا۔آنٹی باہر آئیں’ ابوبکر کو کوٹ پہنایا اور کافی کے لیے علیزہ کے ہاتھ میں پیسے دئیے۔(پتا نہیں یہ پیسے بھی کام کرنے والے تھے یا نہیں۔۔۔۔۔۔ہائے۔۔۔۔۔۔آہ۔۔۔۔۔۔)
”ہاں لے جاؤ اسے۔ بہت دنوں سے یہ بھی باہر نہیں نکلا۔”و ہ بڑی خوش تھیں۔اوروہ کمینگی سے مسکرا رہی تھی۔
جب وہ سڑک پر چل رہے تھے تو وہ اپنے ناخن کتر رہی تھی۔اس نے جو جوگر پہنے ہوئے تھے وہ ایڑی سے تھوڑے سے پھٹے ہوئے تھے۔ اس کی پینٹ بھی کافی گھسی ہوئی تھی’ سویٹر بھی بد رنگ سا تھا۔( واشنگ پاوڈر نہیں تھاتووہ دھلا نہیں تھا)
”لگتا ہے کافی غریب ہو تم۔”ابوبکر اس سے دو قدم دور تھا’دور سے ہی اس کی قریب کی غربت کا اندازہ لگا لیا تھا۔
”تمہیں تو صرف لگتاہے نا۔۔۔۔۔۔مجھے تو غربت لگی ہوئی ہے ۔ بری طرح سے’ پوری طرح سے۔ڈھپہ۔ٹھاں۔”
اس نے ہاتھ کے اشارے سے اپنی کمر کی طرف ”غربت کا خیالی ڈھپہ” لگایا تو ابوبکر نے قہقہہ لگادیا۔جن لوگوں کی زبان تالو سے لگی ہوئی ہو’ وہ جب قہقہہ لگاتے ہیں تو۔۔۔۔۔۔تو وہ کسی بچے کی طرح لگتے ہیں۔ معصوم اور بے ضرر۔
”غریب ہونا برا نہیں ہوتا’ معذورہونا برا ہو تاہے۔” جلد ہی ا س کا قہقہہ دم توڑ گیا۔
وہ چونکی اور اسے دیکھنے لگی۔ واقعی جیب خالی ہو تو چلتاہے’ لیکن اگر جسم کا کوئی حصہ ناکارہ ہوتو۔۔۔۔۔۔
”ماما نے تم سے کیا کہا ہے کہ میں مرنے والا ہوں؟خود کو ختم کر لوں گا؟”
”ہاں۔۔۔۔۔۔ان کا کہنا ہے کہ تم زندگی سے بے زار ہو چکے ہو۔مایوس ہو۔”
”مائیں پتا نہیں یہ سب کیسے جان جاتی ہیں۔کون سا آلہ فٹ ہوتاہے ان کے دلوں میں۔”
”محبت کا آلہ۔۔۔۔۔۔یہ آلہ ساری خبریں دیتا ہے انہیں۔۔۔۔۔۔” ا ب تک کی زندگی۔۔۔۔۔۔بے کار کی زندگی میں اس نے ایک کام کی بات کی تھی۔۔۔۔۔۔
”اور تم میری مدد کیوں کرنا چاہتی ہو؟”وہ بڑے سنجیدہ سوال کر رہاتھا۔
”میں اسکول میں تھی’ جب پیسوں کے لیے جھوٹ موٹ تاش کے پتوں سے فیوچر بتایا کرتی تھی۔میری دُور کی نظر کمزور ہے مجھے دس فٹ سے آگے صاف دکھائی نہیں دیتا تو کسی کا فیوچر کیسے دکھائی دے سکتاہے۔ لیکن پتا نہیں کیسے’ میں جو جو بتاتی تھی’ وہ وہ تیس چالیس فیصد سہی ثابت ہو جاتا تھا۔ میرے بارے میں یہ مشہور ہو چکا تھا کہ میری بتائی ہوئی باتیں سچ ثابت ہوتی ہیں۔ ایک دن میری کلاس فیلو اپنی ایک کزن کو لے کر میری پاس آئی۔ وہ یہ جاننا چاہتی تھی کہ وہ فیوچر میں کیا بنے گی۔ یہ مشکل وقت ہوتاہے۔کئی بار میرے تکے فیل ہو جاتے تھے۔ مجھے احتیا ط سے کام لینا پڑتا تھا۔میں نے دیکھا کہ لڑکی کوعینک لگی ہوئی ہے۔وہ دیکھنے میں بھی ذہین نظر آرہی تھی۔ میں نے کہہ دیا کہ وہ سائنس کے شعبے میں کوئی کمال دکھائے گی۔ڈاکٹر یا سائنس دان بنے گی۔میرے جواب پر لڑکی خاموش ہو گئی۔ اس کا چہرہ سفید پڑ چکا تھا۔”
”کیا تمہیں یقین ہے۔”سائنس دان لڑکی نے بڑی مسکین سی صورت بنا کر پوچھا۔
مجھے خاک یقین ہونا تھا لیکن اب میں اپنے الفاظ واپس نہیں لے سکتی تھی۔ اس بزنس میں الفاظ واپس نہیں لیے جا سکتے۔ساکھ تباہ ہو جاتی ہے۔خیر میں نے سر ہلا دیا کہ ہاں ۔ اور یہی میری سب سے بڑی غلطی تھی۔ ایک مہینے بعد مجھے معلوم ہوا کہ اس نے خود کشی کر لی ہے۔ وہ میوزک اسکول جانا چاہتی تھی لیکن اس کے ڈاکٹر فادر اسے ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے۔ میرے منہ سے بھی سائنس کا سن کر اسے یقین ہو گیا کہ وہ ڈاکٹر ہی بنے گی۔
”تو اس نے مرنا پسند کیا؟”ابوبکر نے طنزیہ پوچھا۔
”ہاں۔۔۔۔۔۔”
”اس کے بعد بھی تم لوگوں کی جانوں کے ساتھ ایسے ہی کھیلتی رہی؟”
”مجھے اسکول سے نکال دیا گیا تھا۔”(لوگوں کی جانیں بچ گئی تھیں)
”اس لڑکی کی وجہ سے؟”
”نہیں۔۔۔۔۔۔ایک معمولی سی غلطی پر۔۔۔۔۔۔میں نے ایک چھوٹے قد کی لڑکی پر مذاقا کچھ طنز کیے تھے۔ جو اسکول میں اتنے مشہور(بدنام) ہو گئے کہ مجھ پر ” نسل پرست” ہونے کا الزام لگ گیا تھا۔ اسٹوڈنٹس کے والدین نے مطالبہ کیا کہ مجھے اسکول سے نکال دیا جائے۔ آخر کار مجھے خارج(دفعان) کر دیا گیا۔پھر میرے ساتھ سب کچھ برا(اچھا) ہی ہوتا چلا گیا۔ دو بار میر اایکسیڈنٹ ہوا۔ایک بار میرا اپنڈکس کا آپریشن ہوا۔ اگر میں بر وقت ہاسپٹل نہ پہنچ جاتی تو اپنڈکس پھٹ جاتی۔میں مر جاتی۔ اور اس وقت تمہاری باتیں سننے کے لیے کوئی موجود نہ ہوتا۔ تم تنہارہ رہ کر تھک جاتے۔ اور پھرتنہائی کی موت مر جاتے۔۔۔۔۔۔اوہ۔۔۔۔۔۔میرا مطلب۔۔۔۔۔۔خیر۔۔۔۔۔۔”
”تو یہ تمہاری سزا ہے۔۔۔۔۔۔؟”ابوبکر نے منہ بنا کر پوچھا۔وہ اتنا غیر ضروری بولتی تھی کہ شدت سے ضرورت محسوس ہوتی تھی کہ اس کی زبان کو تھوڑا بہت کاٹ دیا جائے۔۔۔۔۔۔پھر ان پر مرچیں چھڑک دی جائیں۔۔۔۔۔۔پھر نیچے سے تھوڑی آگ لگا دی جائے۔۔۔۔۔۔
”نہیں۔۔۔۔۔۔میری سزا تم ہو۔۔۔۔۔۔اگر تم واقعی میں زندگی سے مایوس ہو چکے ہو تو مجھے تمہیں زندگی کی طرف واپس لانا ہے۔”اس نے ایسے کہا جیسے گلیڈی ایٹر رومن اکھاڑے میں ہاتھ لہرا کر کہتا ہو۔”میں ہوں تمہارا نجات دہندہ۔”
”تو پھر میری ماں سے ڈالر کیوں لیے تھے۔۔۔۔۔۔؟” وہ دانت پیس کر بولا۔
”اب ایسی بھی فرشتہ نہیں بن گئی میں۔ابھی بھی غلطیاں ہو جاتی ہیں مجھ سے۔پھر میں غریب بھی تو ہوں۔اس ٹیولپ نے میری روزی روٹی پر لات مار دی’ورنہ ایسا بھی کوئی خراب کام نہیں کرنے جا رہی تھی میں۔پر اس پر انسانیت کی خدمت کا بھوت سوار ہے۔اچھا ہے کر لے یہ اپنی مرضی کی سواری۔۔۔۔۔۔پھر میں بھی اسے نیویارک کی سب سے اونچی بلڈنگ سے نیچے دھکا دوں گی۔جیسے اس نے مجھے غربت کی طرف دھکا دیا ہے۔۔۔۔۔۔”
”او غریب لڑکی!ٹھیک ہے’ میں تمہاری مدد کروں گا۔” اگر وہ ایک گلیڈی ایٹر کی طرح ”نجات دہندہ” کا نعرہ لگا سکتی تھی تو کم وہ بھی نہیں تھا۔ گاڈ فادر کی طرح اس نے بھی سرہلا کر کہا۔”میں ہوں نا! تمہار ا گاڈ فادر!”(ہونہہ!پہلے اپنی مدد تو کر لو)
وہ حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔ مدد وہ کر رہی تھی اس کی۔ لیکن چلو بے چارہ خوش فہمی میں ر ہ لے کوئی بات نہیں۔پھر وہ گونگا بھی تو تھا۔۔۔۔۔۔
”میرا ایک دوست ہے’بلکہ تھا۔۔۔۔۔۔اچھی دوستی تھی ہماری۔۔۔۔۔۔پھر اس نے دوستی ختم کر دی۔”
”و ہ تو اس نے اچھا کیا۔۔۔۔۔۔” اس کی زبان سے پھسلا۔ اس نے اپنی زبان دانت میں دبا لی۔
” تو آج ہم اس سے ملنے جائیں گے۔۔۔۔۔۔چلو آجاؤ میرے پیچھے پیچھے۔۔۔۔۔۔”وہ مارچ کرنے کے انداز سے قدم اٹھا کر آگے بڑھ گیا۔پیچھے سے اس نے سر ہلا دیا اور ٹیکسی کو ہاتھ دینے لگی۔
”یہ تم ٹیکسی کیو ں روک رہی ہو؟اتنے پیسے نہیں ہیں میرے پاس۔ بس ہے نا’ بیٹھو اس میں۔۔۔۔۔۔”
وہ خاموشی سے بس اسٹاپ پر آکر کھڑی ہو گئی ۔ غریب کی کہاں اتنی جلدی سنی جاتی ہے۔ بسوں کے دھکے’پھٹی پرانی جینز’ بچے ہوئے پیزا’ برگر ‘ گھونٹ گھونٹ مانگی ہوئی کوک’ اور گھنٹوں کی خالی خولی ونڈو شاپنگ۔۔۔۔۔۔ یہ ٹیکسیاں ‘ ہوم ڈیلیوری’ آن لائن شاپنگ’ یہ تو
امیرو ں کے چونچلے تھے۔۔۔۔۔۔آہ۔۔۔۔۔۔کوئی غریب نہ ہو۔۔۔۔۔۔
غریب بس میں اس کے ساتھ جا کر بیٹھ گئی۔ منہ لٹکا لیا۔ بیگ میں سے ببل گم نکال کر کھانے لگی۔
”ساتھ بیٹھے ہوئے کو بھی پوچھ لیتے ہیں ۔” اس نے طنز کیا۔
”تم ببل کھا لیتے ہو؟” وہ خواہ مخواہ حیران ہوئی۔(ببل تھی یابیل جو کوئی کوئی کھا سکتا تھا؟)
”گونگا ہوں’ بول نہیں سکتا۔لیکن زبان ہے’ دانت بھی ہیں’ سب کھا سکتا ہوں۔کس دنیامیں رہتی رہی ہو تم؟”
”زبان والوں کی دنیا میں۔کسی گونگے کے ساتھ رہنے کا یہ میرا پہلا تجربہ ہے۔اس لیے سب کچھ بدلا بدلا’ یعنی عجیب وغریب۔۔۔۔۔۔اوہ ۔۔۔۔۔۔یعنی سمجھ سے بالاتر لگ رہا ہے۔ ویسے بھی لڑکے ببل گم کھاتے ہوئے اچھے نہیں لگتے۔ لڑکیوں پر سوٹ کرتا ہے یہ۔” اس نے غبارہ پھلایا اور اشارہ کر کے اترا کر کہا۔
”اور لڑکوں پر یہ سوٹ کرتاہے۔” اس نے سر کو ٹکر مارنے کے انداز سے جھکایا اور کوٹ کے کالر سے غبارہ پھوڑ دیا ۔ ببل بڑی تھی’ اس کا غبارہ بھی بڑا تھا۔پھٹا تو منہ پر نقش و نگار بنا گیا۔پہلے غبار ہ پھولا تھا’ اب اس کا منہ پھول گیا۔
”کہنا کیا ہے تمہارے فرینڈ سے؟”اس کے منہ کے زوایے بگڑ گئے۔ اس گونگے کو ہر بار معاف کرنا آسان نہیں تھا۔
وہ اسے بتانے لگا کہ اس سے کیا کہنا ہے۔ وہ اس کی یونیورسٹی پہنچ چکے تھے۔کچھ ہی دیر میں اس نے اسے ڈھونڈ بھی لیا تھا۔
” تم نے ابوبکر کا کچھ قرض دینا ہے’ و ہ دے دو پلیز۔”رسمی تعارف کے بعد اس نے کہا۔وہ ابوبکر کی شکل دیکھنے لگا۔
”میں نے تمہارا قرض دینا ہے۔۔۔۔۔۔کیا مذاق کر رہے ہو یار!”
” جب ہم آخری بار ملے تھے تو تم نے مجھ سے پورے تین سو ڈالر لیے تھے۔پھر میرے ساتھ یہ حادثہ ہو گیا۔میں کسی کو بتا ہی نہیں سکا کہ میں نے تمہیں اتنے پیسے د ئیے ہیں۔ تم نے بھی واپس نہیں کیے۔اب میرے پیسے واپس کر دو۔”
وہ ہنسنے لگا۔”مس کیا بات کر رہی ہیں آپ! مجھے کسی سے پیسے لینے کی ضرورت نہیں ہے۔یہ تو پاگل ہو گیا ہے’ اور پھر کیا ثبوت ہے اس کے پاس کہ میں نے پیسے لیے تھے؟ وہ بھی پورے تین سو ڈالر۔۔۔۔۔۔”
ہاں اس کے پاس کوئی ثبوت نہیں تھا۔ ایک گونگا انسان کیا ثبوت دے گا۔نہ وہ بول سکتا تھا نہ ہاتھ سے گریبان پکڑکر جھنجوڑ سکتا تھا۔ تین سو ڈالر اتنی بڑی رقم نہیں تھی’لیکن ایسی معمولی بھی نہیں تھی۔بات نفع نقصان سے زیادہ بے حسی کی تھی۔
‘ ‘ اب میرا یہ قرض لینا تمہاری ذمہ داری ہے’ کیونکہ میں تمہاری ذمہ داری ہوں۔”تیس منٹ کی بحث و تکرار کے بعد بھی اس کا دوست فہد نہیں مانا تو وہ اس کی طرف رخ موڑ کر کہنے لگا تھا۔
”اب تم ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہو۔۔۔۔۔۔” وہ چڑ گئی۔
”ہاں ۔۔۔۔۔۔شاید۔۔۔۔۔۔لیکن تم دیکھ رہی ہو کہ دوسروں نے بھی میرا کتنا ناجائزہ فائدہ اٹھایا ہے۔”اس کے الفاظ میں اتنی تلخی تھی تو اس کے لہجے میں کتنی ہوگی۔ اگر وہ بول سکتا تو۔۔۔۔۔۔اگر وہ چلا سکتا تو۔۔۔۔۔۔
” تم یہ سمجھ لو کہ تم نے کسی کو کوئی قرض دیا ہی نہیں۔”
”تو تم ہمت ہار رہی ہو۔ تمہار ے پاس زبان ہے۔ دو ہاتھ ہیں’ اور تم ہمت ہار رہی ہو۔”
و ہ چپ اس کی شکل دیکھنے لگی تھی۔” میں اس طرح کے جھگڑوں میں نہیں پڑنا چاہتی۔”
”یہ جھگڑا نہیں انصاف ہے۔ بات تین سو ڈالر کی نہیں ہے’ بات حق کی ہے۔ تمہیں حق کے لیے لڑنا چاہیے۔”
وہ حیرانی سے آنکھیں جھپک کر اس گاڈ فادر کو دیکھنے لگی تھی۔اب وہ سمجھ چکی تھی کہ جب وہ پاپا کے سامنے ایسے بڑے بڑے ڈائیلاگ بولتی تھی تو وہ کیسا محسوس کرتے تھے۔۔۔۔۔۔
”باتیں بنانی آسان ہوتی ہیں۔” اس نے اپنی ہنسی چھپانے کی کوشش کی۔
”تم باتیں نہ بناؤ نا۔۔۔۔۔۔کام بناؤ۔۔۔۔۔۔میرے پیسے لا کر دو مجھے واپس۔۔۔۔۔۔آسانی سے یا مشکل سے۔کیسے بھی۔وہ میں نہیں جانتا۔”
چلتے چلتے وہ رک گئی۔ مڑ کر اسے دیکھا۔”سارے برے حادثے میرے ساتھ ہونے ضروری تھے؟” طنزیہ کہا۔
”تم ایک لڑکی کی جان لے چکی ہو۔ میں تمہاری سزا ہوں اور سزائیں ایسی ہی ہوتی ہیں۔بری اور تکلیف دہ۔” اس نے صاف گوئی سے کہا۔
سزائیں ایسی بھی ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔ابوبکر جیسی۔۔۔۔۔۔معصوم اور بے ضرر۔۔۔۔۔۔
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔)(۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭
وہ ٹیولپ کو پھاڑ کر پھینک دینا چاہتی تھی۔ وہ کسی کی ملازم تھی جو خوار ہوتی پھرے۔وہ ابوبکر کے پاس انسانیت کے ناطے گئی تھی تاکہ تھوڑا بہت اسے سن سکے۔دوستی کر سکے۔ اس کی ماں کو اس کے دل کی بات بتا سکے۔ کبھی کبھار اس کے ساتھ باہر جا سکے تاکہ وہ بہل جائے اور ناامید نہ ہو۔ یہ سب وہ تھوڑی سی دوستی’ اور زیادہ ہمددری میں کر رہی تھی۔لیکن اب وہ اس کے لیے یہ سب کام نہیں کر سکتی تھی۔ کل وہ اس سے کہے گا کہ میرے لیے کسی پہاڑ سے کو د جاؤ۔۔۔۔۔۔ تو۔۔۔۔۔۔کیا اسے کود جانا چاہیے۔۔۔۔۔۔؟
ہاں۔۔۔۔۔۔کود جانا چاہیے۔۔۔۔۔۔کود جانا کوئی ایسی بڑی بات تو نہیں ویسے۔۔۔۔۔۔انسان مر جاتاہے’ورنہ فوت ہو جاتاہے۔۔۔۔۔۔بس۔۔۔۔۔۔
وہ بری طرح سے تھکی ہوئی تھی۔ چڑ چڑی ہو رہی تھی۔گھر میں کھانے کے لیے کچھ نہیں تھا۔اسے بہت بھوک لگی تھی اور کوکنگ کی ہمت نہیں تھی۔دودھ پی کر وہ سونے لگی تو ڈور بیل ہوئی۔ دروازہ کھولا تو ساتھ والے اپارٹمنٹ کی جینا مینا شیناکھڑی مسکرا رہی تھی۔
”تم گھر نہیں تھیںتو کوئی آیا تھا اور یہ دے گیا تھا۔’ ‘
ایک بڑا سا ڈبہ اس نے آگے کیا۔اس نے کھولا تو اندر چکن رائس تھے۔لیکن ڈبہ آدھا خالی تھا۔ کیوں؟ کیونکہ جس نے اسے دو گھنٹے اپنے فریج میں رکھنے کی زحمت کی تھی اس نے اسے آدھا کھا لینے کی زحمت بھی کر لی تھی۔چور اور ڈاکو صرف سڑکوں پر ہی نہیں گھومتے پھرتے’ وہ گھروں میں بھی پائے جاتے ہیں ۔میک اپ کرتے ہیں’ یونیورسٹی جاتے ہیں ‘ اور ڈھٹاٹی سے مسکراتے ہیں۔
”بہت مزے کے ہیں۔”اس نے چٹخارہ سا لیا تو اس نے منہ بنا کر اس کے منہ پر دروازہ دے مارا۔۔۔۔۔۔
وہ ابوبکر کی ماں تھیں جنہوں نے اس کے لیے یہ چاول بھیجے تھے۔چاول کھاتے ہوئے اس کی آنکھیں نم سی ہو گئیں۔وہ ماں تھیں اور اپنی پوری کوشش کر رہی تھیں کہ وہ ابوبکر سے ملتی رہے۔بیٹے کو زندگی کی طرف واپس لے آئے۔
”ابوبکر آج رات جلدی سو گیا تھا’وہ خراٹے لے رہا تھا۔تمہارا شکریہ۔”ڈبے میں نوٹ بھی آیا تھا۔
”اوہ۔۔۔۔۔۔”اس نے آہ بھری۔
چاول کھا کر اس نے باقی فریج میں رکھ دئیے۔ اب اسے وہ قرض واپس لینا تھا جو ابوبکر کے دوست کے پاس پھنسا ہوا تھا۔وہ قرض کیسے لینا ہے وہ نہیں جانتی تھی۔لیکن شاید ٹیولپ بھائی جانتے تھے۔ اس نے اسے کھولا تو اس پر ایک ڈائری کی تصویر دکھائی دے رہی تھی۔ دن ‘ تاریخ اور ”ابوبکر تین سو ڈالر” کے نوٹ کے ساتھ۔
”یہ ڈائری کس کی تھی۔۔۔۔۔۔؟”
یہ ڈائری جس کی تھی’ اگلے دن شام کو وہ اس کے گھر پہنچ گئی۔فہد کے والد محترم سیاسی پروگرام دیکھ رہے تھے اور امی جان کونے میں صوفے پر بیٹھیں تسبیح پڑھ رہی تھیں۔اس نے بہت مود ب انداز سے سب کو سلام کیا۔اسے بٹھایا گیا اور اندر سے فہد کو بلاکر اس کے روبرو لایا گیا۔اسے دیکھ کر اس کا رنگ اڑ گیا لیکن اس نے کمال اداکاری سے کمپوز رکھا۔۔۔۔۔۔
”تم۔۔۔۔۔۔تم مجھے تنگ کرنے یہاں بھی آگئی ہو ۔ وہ جھوٹ بول رہا ہے۔ اسے عادت ہے جھوت بولنے کی۔”اس کے سامنے بیٹھ کر وہ دھیمی آواز میں کہنے لگا ۔ساتھ ساتھ وہ بار بار اپنے باپ کو کن اکھیوں سے دیکھ رہا تھا۔
اس نے سر ہلا دیا۔”ٹھیک ہے۔ تمہاری ایک ڈائری ہے’ نیلے رنگ کی’ وہ مجھے دکھا دو پلیز۔”
اس کے چہرے کے رنگ اُڑ گئے۔’ ” میری ڈائری نیلے رنگ کی ہے یہ تمہیں کیسے پتا؟”
”مجھے اور بھی بہت کچھ معلوم ہے۔تم بس وہ ڈائری لا دو۔”
فہد کی امی اس کے لیے چائے اور لوازمات لائی تھیں۔ وہ کپ اسے پکڑا رہی تھیں کہ ڈائری والی بات پر چونک کر علیزہ کو دیکھنے لگیں۔
”کیا معاملہ ہے فہد؟” ا نہوں نے کڑی نظروں سے بیٹے کو گھورا۔
”دراصل فہد نے ابوبکر سے کچھ قرض لیا تھا’ اب یہ واپس نہیں کر رہا ۔”اس نے دبنگ انداز اور بلند آواز سے کہا کہ سیاسی پروگرام دیکھتے والد محترم نے گردن موڑ کر فہد کو دیکھا۔ ٹی وی کی آواز کم کی اور پوری طرح سے ان کی طرف متوجہ ہو گئے۔
”تم نے ابوبکر سے پیسے کیوں لیے تھے۔ کہاں خرچ کرنے تھے؟”
فہد کا رنگ فق ہو چکا تھا۔لیکن اس نے جلد ہی خود کو سنبھال لیا۔” پاپا یہ جھوٹ بول رہی ہے۔ مجھے کیا ضرورت ہے ابوبکر سے قرض لینے کی۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ ابوبکر کے اپنے حالات کتنے خراب رہتے ہیں۔وہ تو مجھ سے پیسے مانگ رہا تھا۔۔۔۔۔۔ویسے تم ابوبکر کی کو ن ہو؟”باپ سے بات کرنے کے بعد وہ اپنا غصہ دباتے ہوئے اس کی طرف مڑا۔ اس کے انداز بتا رہے تھے کہ وہ کسی صورت نہیں مانے گا کہ اس نے کچھ پیسے لیے ہیں۔
”اس نے مجھے اپناسیکڑیری رکھا ہے۔”وہ چائے کے ساتھ پیسٹری کھانا نہیں بھولی تھی۔
وہ طنز سے ہنس دیا۔”جو انسان دونوں ہاتھوں سے معذوراور جیب سے کنگال ہے’ وہ سیکڑیری کیوں رکھے گا؟”
”وہ ہاتھ سے معذور اور جیب سے کنگال ضرور ہے’ لیکن وہ جھوٹا’ بے ایمان’ اور دوسروں کا حق مارنے والا نہیں ہے۔ جاؤ اور جا کر اپنی نیلی ڈائری لاؤ’ جس میں تم نے اس قرض کے بارے میں ایک نوٹ لکھا ہوا ہے۔”اس نے کچھ ایسے تحکم سے کہا کہ لاونج میں سناٹا پھیل گیا۔
”جاؤ جا کر ڈائری لاؤ۔” اس کے باپ نے بھی تیز آواز سے کہا۔
وہ گیا ‘ ڈائری لایا’ اور اس کی سمت اچھال دی۔ ظاہر ہے اس میں سے وہ صفحہ غائب تھا’ جس پر قرض کی یادداشت لکھی ہوئی تھی۔
”تم صفحہ پھاڑ کر پھینک آئے ہو ؟ ہے نا؟” اسے ڈائری کھول کر دیکھنے کی ضرورت نہیں تھی۔
وہ ہکا بکا اس کی شکل دیکھ رہا تھا۔اس سے پہلے کہ وہ اسے روکتا’ وہ جلدی سے اٹھ کر اس کے کمرے میں گئی اور اسے اسٹڈی ٹیبل کی دراز میں سے وہ پھٹا ہوا صفحہ مل گیا۔ اس نے وہ صفحہ فہد کی آنکھوں کے سامنے لہرایا تو وہ تمسخر سے ہنس دیا۔
”تم یہ کیسے ثابت کرو گی کہ میں نے اسے یہ قرض واپس نہیں کیا۔ میں یہ بھی تو کہہ سکتا ہوں کہ میں اسے پیسے واپس دے آیا تھا۔اب وہ مجھ پر جھوٹا دعوا کر رہا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ اس کے حالات خراب ہیں۔ اسے اپنے علاج کے لیے پیسے چاہیے۔ سب میری بات کا آسانی سے یقین کر لیں گے۔”
وہ اس انسان کی کمینگی پر حیران رہ گئی۔اس کا خون کھول رہا تھا۔لیکن ابھی اس کے پاس ایک عددترپ کا پتا موجود تھا۔
”تمہارے ماں باپ کو یہ معلوم ہے کہ تم نے وہ تین سو ڈالر کہاں خرچ کیے ہیں؟اگر میں یہ جان سکتی ہوں کہ تمہارے پاس ایک نیلے رنگ کی ڈائری ہے۔ اس کے ایک صفحے پر تم نے قرض کا نوٹ لکھا ہوا تھا تو میں اور بھی بہت کچھ جان سکتی ہوں۔ جیسے کہ تم نے اس وار ڈروب میں سگریٹ کیس چھپایا ہوا ہے۔” وہ چلتی ہوئی وارڈوب کے پاس گئی اور اسے انگلی سے اسے ٹھوکا۔
”تمہارے پاپا کو سیگریٹ پینے والے”نشئی” لگتے ہیں اور ماما کو”لعنتی”۔۔۔۔۔۔خیر آگے بڑھتے ہیں۔تم روکس اِن کلب جاتے ہو۔جس کے بارے میں یقینا دونوں کو کچھ معلوم نہیں ہو گا۔اس کلب میں جوا بھی کھیلا جاتاہے’ یہ تو ان بے چاروں کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہو گا۔میں ان سے یہ کہہ سکتی ہوں کہ تم نے ان پیسوں سے اس کلب کی ممبر شپ حاصل کی ہے۔ وہ وہاں جائیں گے’ پوچھیں گے۔ اور جان جائیں گے کہ تمہارے پاس کلب کی ممبر شپ موجود ہے۔ اب اگر وہ ممبر شپ تم نے اپنے پیسوں سے بھی لی ہو گی’ تو بھی تمہاری زندگی اس گھر میں بہت مشکل ہو جائے گی۔تمہاری ماں تو تمہارا گلا ہی دبا دے گی۔اور ہاں وہ غیر ملکی لڑکی۔۔۔۔۔۔اسے تو میں بھول ہی گئی۔۔۔۔۔۔کیا نام ہے اس کا ۔۔۔۔۔۔اچھاچلو نام چھوڑو’ آگے بات سنو۔۔۔۔۔۔یہاں۔۔۔۔۔۔وار ڈروب کے اس خانے میں تم نے اپنی اور اس کی مشترکہ تصویر کی ایک ٹی شرٹ چھپا کرر کھی ہوئی ہے۔۔۔۔۔۔یو نو لورز ٹی شرٹ۔۔۔۔۔۔کپل ازگول۔۔۔۔۔۔”وہ وار ڈروب کے دوسرے خانے کو انگلی سے ٹھونک کر کہہ رہی تھی۔
اس کا رنگ جتنا پیلا پڑ سکتا تھا وہ پڑ چکا تھا۔۔۔۔۔۔وہ پیلو۔۔۔۔۔۔پیلیا ہو چکا تھا۔کچھ دیر پہلے وہ جتنا کمینہ نظر آرہاتھا’ اب اتنا ہی،”کم آن یار! تم تو سیریس ہی ہو گئی۔” نظر آرہا تھا۔
”مجھے کچھ وقت دو’ میں پیسے واپس کر دوں گا۔”اس نے دانت پیستے ہوئے کہا۔پیلے منہ پر سفید دانت۔۔۔۔۔۔یونو۔۔۔۔۔۔
اتنی جلدی کامیابی کی اسے امید نہیں تھی۔جوش سے وہ ہاتھ جھاڑے بغیر بھی نہیں رہ سکی تھی۔ایسے کاموں میں ویسے مزا ہے۔۔۔۔۔۔رنگ اڑا کر ‘دل کو کیسا اطمینان ملتا ہے نا۔۔۔۔۔۔ جس وقت وہ فہد کے گھر سے باہر نکل رہی تھی’ اس وقت زیر لب مسکرا رہی تھی۔وہ اپنے شانے پر ایک تھپکی دینا چاہتی تھی۔۔۔۔۔۔دراصل۔۔۔۔۔۔وہ نہیں جانتی تھی کہ اس نے وہ تین سو ڈالر کہاں خرچ کیے ہیں۔یہ تو اس نے بس ایک عدد تکا مارا تھا۔۔۔۔۔۔ماضی میں کارڈز پڑھ پڑھ کر تکے مارنے کا ہنر کام آرہا تھا۔کسی نے ٹھیک ہی کہا ہے’ ہنر کوئی بھی ہو’ کبھی کام ہی آجاتاہے۔ رہی بات باقی کی باتوں کی’ تو جب وہ ٹیولپ دیکھ رہی تھی تو ایک ایک کر کے وہاں کچھ تصویریں بن ابھر رہی تھیں۔بس وہ ان تصویروں کا مطلب جلدی سے سمجھ گئی تھی اور بروقت ان کا استعمال کر لیا تھا۔۔۔۔۔۔
”تو یہ ٹیولپ سچویشن کے حساب سے بھی کام کرتاہے۔” وہ آج پہلی بار ٹیولپ کی کاردکردگی سے خوش ہوئی تھی۔
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔)(۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭
”یہ پکڑو اپنے پیسے ۔۔۔۔۔۔” اس نے ابوبکر کے سامنے پیسے رکھے تو وہ خوش ہونے کی بجائے حیران ہوا۔
”تم نے تو واقعی یہ سب کر دکھایا۔ واہ۔۔۔۔۔۔”
”جب کسی کو قرض دیتے ہیں تو لکھوا لیتے ہیں اوردو گواہوں کی موجودگی میں دیتے ہیں۔مسلمان ہو تو تھوڑا سا مذہب کا مطالعہ بھی کر لو۔” وہ اسے لیکچر دینے لگی۔اتنی محنت پر لیکچر دینا بنتا تھا۔
اس نے گہری سانس لی۔”دوست” کسی” نہیں ہوتے۔جب اسے پیسے چاہیے تھے تو وہ میری بہت منتیں کرر ہا تھا۔ میں یہ پیسے اپنے علاج کے لیے سیو کر رہا تھا’ پھر بھی میں نے اسے دے دیے تھے۔ حادثے کے بعد میں اس کے پاس گیا کہ شاید وہ مجھے میرے پیسے واپس کر دے لیکن وہ ایسے بن گیا جیسے مجھے جانتا ہی نہیں۔ مجھے اس کے رویے پر دکھ ہوا ۔”
”اب تم ان پیسوں کا کیا کرو گے۔۔۔۔۔۔؟”اسے کہانی سے زیادہ’ کہانی کی ہیپی اینڈنگ سے دلچسپی تھی۔۔۔۔۔۔یعنی پیسے سے۔۔۔۔۔۔
”تم کیوں پوچھ رہی ہو۔۔۔۔۔۔؟”وہ سب سمجھ رہا تھا۔۔۔۔۔۔دماغ تھا اس کے پاس۔۔۔۔۔۔
”کیونکہ عقل اور اخلاق کا تقاضا ہے کہ تم اس میں سے مجھے میری فیس کے پیسے نکال کر دے دو۔” اس نے ڈھیٹ بن کر کہہ ہی دیا۔آپ جانتے ہی ہیں کہ ڈھیٹ ہونا آسان نہیں ہوتا۔ انسان کو پوری طرح سے بے شرم ہونا پڑتاہے۔
”او ہاں۔۔۔۔۔۔” وہ مسکرایا اور اسے اس کی فیس دے دی۔”کافی کے ساتھ ایک چھوٹی سی پیسٹری’ اور دو مے فر۔’ ‘
اور آپ یہ بھی جانتے ہی ہیں کہ انسان پر برا وقت آتا ہے’ تو ہر طرف سے آتا ہے۔ اگلے دن وہ اسے اپنی دوسری فرینڈ کے گھر لے گیا۔ وہ ایک مریل سی لڑکی تھی ۔۔۔۔۔۔ٹیلر۔۔۔۔۔۔وہ ”ٹی” کی طر ح لمبی اور ”آئی” کی طرح پتلی تھی۔۔۔۔۔۔اتنی ناتواں کہ ذرا سی ہوا چلنے پر اُڑ اڑا سکتی تھی۔ شایداسی لیے اس نے کافی سارے سویٹر پہنے ہوئے تھے۔ ہوا سے جنگ کرنے’ اور جیت جانے کے لیے۔ہر بار یقینا ہوا ہی جیت جاتی ہو گی۔کیونکہ اس کے چہرے پرزخموں کے کافی نشانات تھے ۔ جیسے کوئی انسان کھمبوں اور دیواروں سے نبر دآزما رہا ہو۔۔۔۔۔۔چر’ مرہوتا ہواتا رہا ہو۔۔۔۔۔۔یہاں وہاں، ادھر ادھر’ بجتا ‘بجاتابھی رہا ہو۔۔۔۔۔۔و ہ جیسے چپس کے خالی پیکٹ کی شکل نہیں ہو جاتی۔۔۔۔۔۔ ویسی۔۔۔۔۔۔اسے دیکھ کر بے ساختہ ابوبکر کی طرف دیکھنے کو جی چاہتا تھا کہ۔۔۔۔۔۔
”تمہیں اور کوئی نہیں ملا تھا دوست بنانے کے لیے’ جو تم نے اسے دوست بنایا۔۔۔۔۔۔لو بتاؤ بھلا۔۔۔۔۔۔”
وہ تینوں آمنے سامنے بیٹھ گئے تو لڑکی نے کوئی پانچویں بار ابوبکر کو” یہاں کیوں آئے ہو” کی سوالیہ نظر سے دیکھا۔ابوبکر کیا بولتا’ اسے ہی بولنا پڑا۔
”ابوبکر اپنی کتاب کا مسودہ واپس لینے آیا ہے۔اس کی موٹی سی ڈائری جس پر وہ اپنی تحریر لکھ رہا تھا۔”
”کیسی ڈائری ؟ کون سی کتاب بھئی؟” وہ کمزور و ناتواں ضرورتھی لیکن اداکارہ کمال کی تھی۔۔۔۔۔۔مذاق تھا بھلا۔۔۔۔۔۔
”وہ کتاب جو یہ چند سالوں سے لکھ رہا تھا اور تم اس کے کمرے سے چرا لائی تھی۔”
لڑکی کا چہرہ زرد پڑ گیا لیکن وہ لانگ شاٹ میں’ کٹ دینے کی عادی نہیں تھی۔”تمہیں کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔ ابوبکر کی کوئی چیزمیرے پاس نہیں ہے۔پتا نہیں تم کیا بات کر رہی ہو۔”
” میں وہی بات کر رہی ہوں جو مجھے ابوبکر نے بتائی ہے۔”
”ابوبکر تمہیں کیسے بتا سکتا ہے’ یہ تو بول ہی نہیں سکتا۔اس کے ہاتھ بھی کام نہیں کرتے۔”اس نے ہاتھ لہرا لہرا کر ابوبکر کے جسمانی نقائص کی طرف اشارہ کیا۔
”میں آنکھوں کی تحریر پڑھ لیتی ہوں۔”محترمہ علیزہ کو فلمی ڈائیلاگ بولنے کا بہت شوق تھا۔وہ کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتی تھی۔
”آنکھوں کی تحریر۔۔۔۔۔۔” لڑکی ٹیلر کو بڑی زور سے ہنسی آئی اور وہ دیر تک ہنستی ہی رہی۔ اس کی ہڈیوں کاڈھانچہ چوں چاں’ ہلاتار ہا۔
”لگتا ہے تم دونوں کو علاج کی ضرور ت ہے۔تم تو پاگل لگتی ہو’اور یہ بے چارہ۔۔۔۔۔۔خیر۔۔۔۔۔۔کافی پی لی ہے تو اب اٹھ کر چلنے کی کوشش کرو۔۔۔۔۔۔و ہ سامنے دروازہ ہے’ اور اس کے باہر سڑک ہے۔نظر آرہا ہے یا میں اٹھ کر دکھاؤں؟”
علیزہ اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔ جبکہ ابوبکر چپ بیٹھا علیزہ کو دیکھتا رہا ۔ دراصل وہ اس کی پرفارمنس سے خو ش ہو رہا تھا۔
”اگرمیں نے پولیس کو شکایت کر دی تو وہ تمہارے گھر کی تلاشی لیں گے۔پھر کتاب نکل آئی تو۔۔۔۔۔۔؟”
”تو کر دو شکایت۔۔۔۔۔۔اگر واقعی میں ایسی کوئی کتاب ہے تو ابوبکر یہ دعوا کیسے کر سکتا ہے کہ یہ اسی کی ہے۔ اگر میں دھوکے باز ہوں تو اب تک میں نے کتاب کو کمپوز کر لیا ہو گا۔ اس کے ہاتھ سے لکھے مسودے کو ضائع کر دیا ہو گا۔ پھر کیسے ثابت کرو گے؟”
گردن موڑ کر اس نے ابوبکر کی طرف دیکھا۔ ابوبکر نے شانے اچکا دئیے کہ تم ہی اس کی چرب زبانی سے نپٹو۔یہ محاذ اب تمہارا ہے۔ جنگ جیت جاؤ یا شہید ہو جائے۔
”کچھ خدا کا خوف ہی کر لو۔۔۔۔۔۔”شہید نے چڑ کر کہا اور ابوبکر کو ساتھ لے کر اس کے چڑیا گھر سے باہر آگئی۔
”وہ کتاب تمہاری ہے؟”دونوں فٹ پاتھ پر چل رہے تھے۔
”ہاں۔۔۔۔۔۔میں اپنی بیماری اور محسوسات پر لکھ رہا تھا۔ یہ بات ٹیلر جانتی تھی۔اسے وہ کتاب بہت پسند تھی۔ بار بار مجھ سے کہتی رہتی تھی کہ یہ کتاب بہت کامیاب ہو گی۔ میں جلد ہی بہت امیر ہو جاؤں گا۔”
”تو حادثے سے پہلے چھپوا لیتے۔ اب تک امیر ہو چکے ہوتے’ میری جان بھی چھوٹتی۔” اس نے چڑ کر کہا۔
”میں کتاب لکھ رہا تھا نوڈلز نہیں بنا رہا تھا جو دس منٹ میں تیار ہو جاتے۔” اس نے بھی چڑ کر ہی کہا۔
”چھوڑو پھر۔۔۔۔۔۔اسے ہی چھپوا لینے دو۔۔۔۔۔۔تم یہ سمجھ لو کہ تم نے کبھی کچھ لکھا ہی نہیں۔” اس نے لاپرواہی سے کہا۔
”تم اتنی جلدی ہمت ہار جاتی ہو۔۔۔۔۔۔تم زندگی میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔”
”تو تم کامیاب ہو کر دکھا دو نا۔۔۔۔۔۔آئے بڑے۔۔۔۔۔۔مجھ پر طنز نہ کرو۔ سمجھے۔ ابھی تمہیں تمہارے پیسے واپس لے کر دیے ہیں میں نے۔۔۔۔۔۔”
” تو بس ٹھیک ہے۔۔۔۔۔۔یہ کتاب بھی لے دو۔۔۔۔۔۔اس میں میرے بچپن کی یاداشتیں بھی ہیں۔ویسے بھی وہ ادھوری ہے’ اگر مکمل ہوتی تو ٹیلر اب تک اسے چھپوا چکی ہوتی۔ اب یہ سب تمہاری ذمہ داری ہے۔۔۔۔۔۔بس۔۔۔۔۔۔”
”تم بس پکڑو اور اپنے گھرجاؤ۔ نوڈلز کھاؤ اور ٹی وی دیکھو۔ مجھے کیا سمجھا ہوا ہے تم نے۔۔۔۔۔۔جواب دو؟”
” قاتل۔۔۔۔۔۔تم نے ایک لڑکی کو خودکشی پر مجبور کر دیا تھا۔۔۔۔۔۔”
”کتنے ظالم ہو تم’ مجھ پر طنز کر رہے ہو۔”انگلی کو تلوار کی طرح لہرا کر وہ غصے سے چلائی۔
”کتنی سست ہو تم’ ایک انسان کی مد د نہیں کر سکتی۔”وہ پرسکون کھڑا رہا۔
”مدد کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔تم چاہتے ہو میں رات گئے اس کے گھر چھپ کر جاؤں اور تمہاری کتاب کا مسودہ چرا لاؤں؟”
”ہاں۔۔۔۔۔۔کیو ں نہیں۔۔۔۔۔۔تم چور بن سکتی ہو۔ اچھے کام کے لیے چوری کرنا برا نہیں ہوتا۔”
”اچھائی کے سارے فلسفے اب تمہیں یاد آنے لگے ہیں۔تمہاری کتاب تمہیں مل جائے گی تو مجھے کیا فائدہ ہو گا؟”
”تمہیں جیل ہو گی۔۔۔۔۔۔سڑنا وہاں۔۔۔۔۔۔”ابوبکر بھی اسی کی طرح باتیں کرنے لگا تھا۔
”سڑوں گی کیوں۔۔۔۔۔۔سلاخوں کے پیچھے سے جوکر بن کر نکلوں گی اور تمہارے گالوں کو بلیڈ سے کاٹ ڈالوں گی۔۔۔۔۔۔”
”بس بس۔۔۔۔۔۔میں بدلے میںتمہیں دعائیں دوں گا۔یہ فائدہ کیا کم ہے؟”
وہ خاموشی سے اس سے دو قدم آگے چلتی رہی۔
”ایک بہت بڑے ڈاکٹر سے میری بات چیت چل رہی ہے۔ وہ میری سرجری کرنے کے لیے تیار ہیں۔لیکن ظاہر ہے مجھے اس کے لیے بہت پیسے چاہیے ہوں گے۔ ماں ایک معمولی سی جاب کرتی ہیں’ اورمیں کوئی جاب نہیں کر سکتا۔ میں حکومتی فنڈ کے انتظار میں ساری زندگی نہیں بیٹھ سکتا۔ میں بولنے لگوں گا تو میری زندگی بدل جائے گی۔”
ٹیولپ اس کے سامنے کھلا ہوا تھا’ وہ اس کی بات پڑھ رہی تھی۔ چلتے چلتے وہ رک گئی۔اور پلٹ کر اس کے پاس آئی۔
”تم واقعی میں بولنے لگو گے؟؟”
” میری ماں کو یقین ہے کہ ایک دن ایسا ضرور ہو گا۔دیکھو وہ کتاب بہت قیمتی ہے۔وہ ایک گونگے انسان کی کہانی ہے۔ اس میں میری یادیں’ میرے جذبات ہیں۔ وہ میری ڈائری ہے۔”
”اب وہ ڈائری کسی اور کو پیاری ہو چکی ہے اور میری مانو تو اسے اس مریل سی لڑکی کے پاس ہی رہنے دو۔ اس سال ریکارڈ توڑ سردی پڑنے والی ہے۔وہ لڑکی درجہ حرات گرتے ہی’ اوپر اٹھ جائے گی۔ تم فکر نہ کرو۔پھر آرام سے وہ ڈائری تمہیں واپس مل جائے گی۔” اس نے مسکرا کر اس کا شانہ تھپتایا۔تو وہ آنکھیں ترچھی کر کے اپنے شانے کو دیکھنے لگا۔پھر وہ زیر لب مسکرا دیا۔زندگی میں ساری قیمتی چیزیں صرف پیسوں سے ہی حاصل نہیں کی جاسکتیں۔ ایک عدد ”دوستانہ تھپکی” بھی بہت قیمتی ہوتی ہے۔
”ٹھیک ہے میں فکر نہیں کرتا۔ لیکن تم فکر کرنا نہ چھوڑنا۔ تمہیں ہر حال میں اسے واپس لینا ہے۔” ٹیولپ نے مسکراتے ہوئے اس تک ابوبکر کا پیغام پہنچایا تو اس نے پیر پٹخ دیے ۔
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔)(۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭
ڈائری کتنی بھی قیمتی تھی’ اسے واپس نہیں ملی تھی۔ اس نے ایک اور بار جا کر اس لڑکی کی منت کی تھی کہ وہ ایک بے بس انسان کی چیز پر قبضہ کر کے اپنی خواہشات پوری نہ کرے۔اس کی زندگی تو ویسے ہی مشکل ہے’ اسے اور مشکل نہ بنائے۔ اس کی واحد چیز”کتاب” اسے واپس لوٹا دے لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہوئی تھی۔
”بائی دا وے!تمہیں اس سے اتنی ہمدردی کیوں ہے؟”اپنے بالوں میں برش کرتے ہوئے اور ان میں پنیں ٹھونکتے ہوئے اس نے پوچھا۔
”یہ تم نہیں سمجھو گی۔۔۔۔۔۔جو لوگ دوسروں کی چیزیں غصب کر چکے ہوں وہ اور کچھ نہیں سمجھ سکتے۔”
”تم ہمیشہ ایسی سقراطی بقراطی باتیں کرتی ہو’ یا میری شکل دیکھ کر ایسا فلسفہ گھڑتی ہو؟”
”تمہاری شکل دیکھ کر تو صرف دانت ہی رگڑ سکتی ہوں’ وہ بھی آپس میں ۔دیکھو میں پھر کہہ رہی ہوں کتاب واپس کر دو۔ اللہ تمہارا بھلا کرے گا یار!” وہ روہانسی ہو گئی۔کیونکہ ٹیولپ بھی کوئی مدد نہیں کر رہا تھا۔
”میں بھی پھر کہہ رہی ہوں کہ بار بار یہاں آنا بند کرو ۔ سمجھی؟”
وہ سمجھ گئی تھی کہ یہ مریل نہیں سمجھے گی ۔ گھی سیدھی کیا ٹیڑھی انگلیوں سے بھی نہیں نکلے گا۔لاتیں گھونسے مار کر’ غنڈی گردی دکھا کر بھی نہیں۔
”ٹھیک ہے پھر ہم ایک معاہد ہ کر لیتے ہیں۔ تم کتاب واپس کر دو۔اگر کتاب کامیاب ہو گئی تو اس کے فائدے کا پچاس فیصدشیئر تمہیں ملے گا۔۔۔۔۔۔ بولو منظور ہے۔۔۔۔۔۔؟”
” نامنظور ہے۔ جب میں پورا سو فیصد لے سکتی ہوں تو پچاس فیصد کیوں لوں؟” اس کی زبان سے پھسل گیا تھا۔
”تو کتاب تمہارے ہی پاس ہے۔۔۔۔۔۔؟”وہ اٹھ کر کھڑی ہو گئی تھی اور ہاتھ سینے پر باند ھ کر اسے گھورنے لگی تھی۔
‘ہاں۔۔۔۔۔۔” اس نے تمسخر سے ہنس کر کہا اور ہاتھ کو اس کے سینے پر رکھ کر اسے دھکا دیا۔”ناؤ گیٹ لاسٹ۔”
دھکا لگنے سے وہ لڑھکڑا کر دو قدم پیچھے ہوئی۔۔۔۔۔۔گرتے گرت بچی۔۔۔۔۔۔وہ دیکھ رہی تھی کہ انسان کتنا ظالم اور بے رحم ہے۔ ایک معذور انسان کی کل متاع پر قبضہ کرکے اسے اپنا بناتے ہوئے’ وہ لڑکی کتنی خوش اور مطمئن تھی۔
”تم جانتی ہو کہ ابوبکر کی زندگی کتنی مشکل ہو چکی ہے؟”
”زندگی کسی کی بھی آسان نہیںہوتی۔”اس نے رکھائی سے کہا۔
وہ اس کی بلڈنگ سے باہر نکلی تو بری طرح سے بد مزہ ہو چکی تھی۔ اس کا دل برا ہو چکا تھا۔یہ سارا معاملہ اس کے لیے پہلے سنجیدہ نہیں تھا’ لیکن اب ہو چکا تھا۔اس نے ٹھان لی تھی کہ وہ اس سے ابوبکر کی کتاب لے کر ہی رہے گی۔ٹیولپ کو بار بار دیکھنے پر بھی کچھ حاصل نہیں ہو رہا تھا۔وہ ابوبکر سے ملنے گئی تو اسے بھی کوئی تسلی نہیں دے سکی۔
”تم اب تک کیسے صبر کر کے بیٹھے ہوئے تھے؟” وہ اس سے پوچھ رہی تھی۔
اس نے ایک سرد سانس اندر کھینچی۔”مجھ جیسے لوگ’ پیدا ہوتے ہی صبر کرنا سیکھ جاتے ہیں۔قدم قدم پر ہمارے ساتھ ایسے واقعات ہوتے ہیں کہ ہم ان کے عادی ہو جاتے ہیں۔ اس دنیا میں اچھے برے سب لوگ ہیں لیکن برے لوگ زیادہ ہیں اور وہ ہمیں بار بار ملتے ہیں۔دھوکا دیتے ہیں’ تکلیف دیتے ہیں۔سچ کہوں تو میں پہلے بہت خوش امید تھا’ کہ آہستہ آہستہ میرا ہاتھ کام کرنے لگے گا اور میں ایک ہاتھ سے کافی کچھ کر لوں گا ۔ میں اپنی کوشش کے بل بوتے پر معجزے کے انتظار میں تھا۔میری ڈگری مکمل ہونے والی تھی جب یہ حادثہ ہوا تھا۔ میں دماغی طور پر ڈسٹرب ہو گیا تھا۔ میرے پاس سب کچھ نامکمل ہے۔ ایک نامکمل خاندان’ ایک نامکمل جسم اوار نامکمل ڈگری۔میں اپنے ایک دوست کے ساتھ ایک موبائل ایپ پر کام کر رہا تھا’ جو گونگے بہرے لوگوں کے لیے بہت مد دگار ثابت ہو سکتی تھی۔”
”کیا واقعی؟تو کیا بنا اس ایپ کا؟”اس نے بہت جوش سے پوچھا۔
”تین ہفتے پہلے میرا دوست وہ موبائل ایپ لانچ کر چکا ہے۔اسے بہت اچھا رسپانس ملا ہے۔ ایپ کو بہت پسند کیا جا رہا ہے۔ ایک بڑی کمپنی اس سے معاہدہ کر چکی ہے۔نیوز پیپرز میں اس کے انٹرویو آرہے ہیں۔ وہ تو ترقی پر ترقی کرتا جا رہا ہے۔”
”اور تم؟” اس نے افسوس سے ایک گہرا سانس کھینچا۔
” ایپ کا آئیڈیا میرا تھا۔ اس ایپ پر میں نے اس کے ساتھ کام کیا تھا۔آج صبح میں نے اسے ایک ٹی وی شو میں دیکھا تو وہ کہہ رہا تھا کہ اس کی ایک میڈ گونگی بہری تھی’ جسے دیکھ کر اسے یہ ایپ بنانے کا خیال آیا تھا۔”
وہ حیران اسے دیکھ رہی تھی۔” مجھے ایڈریس دو اس فرینڈ کا۔ایک عدد منہ توڑ مکا اس کا حق بنتا ہے۔”
”جو اپنی لالچ کا منہ نہ توڑ سکے’ اسے زوال توڑ پھوڑ دیتاہے۔اٹس فائن!مجھ جیسے لوگ صبر کرنا ‘اگنور کرنا جانتے ہیں کیونکہ ہم جان جاتے ہیں کہ ہمیں اپنی معذوری ہی نہیں” لوگوں کی ذہنی معذوری اور لالچ کو بھی جھیلنا ہے۔ہم ہنس کر”لیٹ اٹ گو” کرتے ہیں۔اپنی یادداشت کمزور کر لیتے ہیں تاکہ نارمل لوگوں کے ابنارمل رویے کو بھول سکیں۔ہمیں معاف کرناآتا ہے۔ ہم دوستی کرتے ہیں تو پیٹھ پر وار نہیں کرتے۔ہم دوست بناتے ہیں تو پھر کبھی ان کے دشمن نہیں بنتے۔ حسد نہیں کرتے۔۔۔۔۔۔ہمیں کسی کی کامیابی بے چین نہیں کرتی’کیونکہ ہم دنیا کو پھلتا پھولتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔۔۔۔۔۔اور ایسا صرف”ہم” ہی کر سکتے ہیں کیونکہ ہم ہی تو ”نارمل” ہوتے ہیں۔”
”تم مایوس ہو چکے تھے اورخودکشی کرنے لگے تھے۔” اس نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔
وہ ہنس دیا۔”ماماکو پتا نہیں کیوں ایسا لگتاہے کہ میں یہ سب کرنے لگا تھا۔وہ ہر وقت ایسی کتابیں پڑھتی رہتی ہیں جو انہیں مجھ جیسے انسان کی نفسیات کو سمجھنے میں مدد دے سکے۔یا پھر ایسی فلمیں دیکھتی رہتی ہیں ۔ کہیں کسی فلم میں مجھ جیسے انسان نے خو د کشی کر لی تھی۔بس تب سے انہیں لگنے لگا ہے کہ کسی دن میں بھی پانی کے پول میں کود کر خود کو ختم کر لوں گا۔”
”تو تم اپنی اس موجودہ حالت سے خوش ہو؟”
”میں خوش نہیں ہوں’ میں مایوس بھی نہیں ہوں اور ایسا پر امید بھی نہیں ہوں۔ میں ایک عام انسان ہوں۔ کمزور ہوں۔ ناتواں ہوں۔تکلیف میں ہوتا ہوں تو کراہتا ہوں۔ خوش ہوتا ہوں تو مسکراتا ہوں۔میں پہاڑ یا چٹان نہیں ہوں۔میں ہمیشہ مضبوط نہیں رہ سکتا۔میں بھی ٹوٹ جاتا ہوں۔لیکن پھر خود کو جوڑ لیتا ہوں۔میں بھی ہر طرح کے جذبے سے گزرتاہوں۔میرے بھی خواب ہیں اور میں ان خوابو ں کی تعبیر حاصل کرنا چاہتا ہوں۔”
وہ اس سے پہلی بار متاثر ہوئی تھی۔آج اسے معلوم ہو ا تھا کہ ”مشکل زندگی” کسے کہتے ہیں۔ آج اس نے جانا تھا پیسوں کی کمی غربت نہیں ہوتی۔ اچھی خوبیوں کی کمی ”غربت” کہلاتی ہے۔ اصل بدصورتی جسم کی نہیں روح کی ہوتی ہے۔کھانے کے لیے اچھا کھانا نہ ملنا’ پہننے کے لیے اچھے کپڑے نہ خرید سکنا’اور رہنے کے لیے مناسب چھت کا میسر نہ ہونا’ مشکل حالات نہیں ہوتے۔زیادتی پر چلا نہ سکنا’زیادتی کرنے والوں کی طرف انگلی نہ اٹھا سکنا ”مشکل حالات ” ہوتے ہیں۔
”ویسے میرے آنے سے تمہاری زندگی میں کافی تبدیلیاں آئی ہیں نا۔” اس نے شوخی سے پوچھا۔ وہ اسے ہنسانا چاہتی تھی۔
”ہاں۔۔۔۔۔۔بہت۔۔۔۔۔۔”وہ دیر تک ہنستا رہا۔
”مذاق اُڑا رہے ہو میرا؟”ا س کی ہنسی طنزیہ تھی۔
وہ اور زیادہ ہنسنے لگا۔پہلے اس کا دل چاہا کہ منہ پھلا کر چلی جائے۔ اسے اس کی ہنسی بری لگ رہی تھی۔ لیکن پھر وہ اسے چپ چاپ دیکھتی رہی۔ وہ ہنس ہی تو رہا تھا۔۔۔۔۔۔اس پر ہی سہی۔چلو اسے ہنسنے دیا جائے۔۔۔۔۔۔خوش ہونے دیا جائے۔۔۔۔۔۔جس انسان کی ہنسی اس جیسے کتنے ہی لوگوں نے چھین لی تھی’ اسے چہکنے دیا جائے۔ کچھ دیر کے لیے اسے یہ بھول جانے دیا جائے کہ وہ ابنارمل ہے۔ معذور ہے۔ اسے بھول جانے دیا جائے کہ یہ دنیا تو ایک اچھی جگہ ہے لیکن برائیوں سے بھری پڑی ہے۔
”میری بھی زبان قینچی کی طرح چلنے لگی’ دماغ ناکارہ پرزے کی طرح’اور پیٹ سو بھوکوں کی طرح۔”وہ کہہ رہا تھا۔
اب وہ ہنس دی تھی۔۔۔۔۔۔اس نے ہاتھ لہرا کر اس کی کیپ کو ترچھا کر دیا تھا۔۔۔۔۔۔
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔)(۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭
ٹیولپ نے فی الحال اس کی کوئی مدد نہیں کی تھی۔وہ ہر دس پندرہ منٹ بعد اسے دیکھ لیتی تھی۔عاجزا ۤکر اس نے اس پر لکھا دیا۔
” مجھے وہ کتاب حاصل کرنی ہے’ میری مدد کرو ٹیولپ یار!”
ٹیولپ یار نے یار ی نبھائی اور کچھ نمبرز اور حروف لکھ دئیے ۔وہ ناسمجھی سے انہیں دیکھنے لگی۔اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ کیا ہے۔ اٹھ کر وہ اپنے لیے کھانا گرم کرنے لگی اور جب اس نے میکرو کے بٹن کو پش کیا تواسے جھٹکا سا لگا اور اس نے جوش سے بلند آواز سے کہا۔
”اوہ اچھا! یہ پاس ورڈ ہے۔۔۔۔۔۔پر کس چیز کا؟”
بد قسمتی سے ٹیولپ بول نہیں سکتا تھا۔خوش قسمتی سے وہ ایسی بھی کوئی بے وقو ف نہیں تھی۔ کھانا کھا کر وہ اپنا بیگ اٹھا کر اس چڑیل ٹیلر کے چڑیا گھر آ گئی۔ وہ بیل دینے ہی والی تھی کہ اس کی نظر الیکٹرک لاک پر پڑی۔وہ چونک گئی۔ تو یہ پاس ورڈ دروازے کا لاک کھولنے کے لیے تھا۔ یعنی ٹیولپ چاہتا تھا کہ وہ گھر کے اندر گھس جائے(چور بن جائے)۔
”دیکھو پھنسوا نہ دینا۔” اس نے ٹیولپ کو تھپک کر کہا۔
”دیکھو پھنس نہ جانا۔ اب ساری ذمہ داری میری تھوڑی ہے۔کچھ تم بھی عقل کا استعمال کرنا۔”ٹیولپ نے کہا۔
وہ واپس آگئی اور اگلے دن اس وقت اس کے گھر گئی جب ٹیلر یونیورسٹی کے لیے جا چکی تھی۔پاس ورڈ لگایا تو لاک کھل گیا۔ اندر جا کر اس نے جلدی سے چیزوں کی تلاشی لینا شروع کر دی۔بہت کچھ کھنگال لیا تھا لیکن اسے کچھ نہیں ملا تھا۔ اس نے بیڈ کامیٹریس’ چینی’ کافی کی شیشیوں’ لانڈری مشین’ حتی کہ اس کے بدبودار جوتوں تک میں جھانک لیا لیکن فی الحال کچھ حاصل نہیں ہوا تھا۔اسے ٹیولپ پر غصہ آرہا تھا کہ اگر آگے رہنمائی نہیں کرنی تھی تو اسے اس گھر میں چوروں کی طرح داخل ہی کیوں کروایا۔وہ پھر سے چیزوں کی تلاشی لینے لگی۔ ایک دراز میں جرابوں کے ڈھیر کے نیچے ایک چھوٹا سا لکڑی کا باکس دبا ہوا ملا۔ اس نے بڑی خوشی سے اسے باہر نکالا۔اس پر چھوٹا سا تالا لگا ہوا تھا۔
”اس کی چابی کہاں ہو سکتی ہے۔۔۔۔۔۔” وہ زیر لب بڑ بڑاتے ہوئے ادھر ادھر دیکھنے لگی۔
”چابی میرے پاس ہے۔”
اسے اپنے پیچھے آواز سنائی دی تو خوف سے باکس اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔جسے اس وقت یونیورسٹی میں ہونا چاہیے تھا’ وہ اس وقت اس کے پیچھے کھڑی اسے گھور رہی تھی۔پھر وہ آگے بڑھی اور اس کے ہاتھ سے باکس چھین لیا ۔پھر وہ پولیس کو فون کرنے لگی تو اس نے آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ سے فون چھین لیا۔
”پولیس سے کیا کہو گی؟”وہ ڈر تو گئی تھی لیکن اتنی جلدی ہار بھی نہیں ماننا چاہتی تھی۔
”تم میرے گھر میں چوری کرنے آئی ہو۔ تم نے میرا پاس ورڈ تک توڑ دیا۔ پولیس کو فون نہ کرو ں تو تمہاری مہمان نوازی کے لیے پیز ا ڈیلیوری والوں کو فون کروں؟”وہ اتنے غصے میں تھی کہ اس کے چہرے کی کھال کھینچ کر رہ گئی تھی۔
”لیکن تم یہ کیسے ثابت کرو گی کہ میں پاس ورڈ توڑ کر اندر آئی ہوں۔کیونکہ میں نے پاس ورڈ توڑا نہیں کھولا ہے۔کوریڈور میں سیکیورٹی کیمرہ نہیں لگا ہوا۔ اس وقت تم خود بھی یہاں موجود ہو۔ میں کہہ سکتی ہوں کہ میں تمہارے ساتھ اند را ۤئی ہوں اور تم مجھے پھنسوانے کی کوشش کر رہی ہو۔”
”ہونہہ۔۔۔۔۔۔وہ بھی دیکھ لیں گے۔”
”اچھا چلو میں مان جاؤں گی کہ میں چوری کرنے آئی ہوں’ تو میں کہہ دوں گی کہ میں اپنی بک لینے آئی ہوں۔”
”وہ مان جائیں گے کہ تمہاری بک میرے ہی پاس ہے۔”
”وہ نہیں مانیں گے تو عدالت مانے گی۔ وہ ابوبکر کو دیکھی گی۔ اس کی کتاب کو پڑھے گی’ اور یہ جان جائے گی کہ ایک گونگا انسان ہی ایسی کتاب لکھ سکتا ہے۔کیونکہ اس میں بہت سی ذاتی باتیں بھی لکھی ہوئی ہیں۔ جیسے ایک یاد گار عید کا احوال۔ ماں کی سالگرہ کے دن کی بابت۔اسکول ٹیچر کی باتیں۔ ایگزمز کے گریڈز۔ تم کس کس بات کو غلط ثابت کرو گی۔ ایک اور بات’ تم نے کتاب کی کوئی کاپی نہیں کی۔ابوبکر کا کہنا ہے کہ تم تو اتنی سست ہو کہ اپنی آسائمنٹ پر کام نہیں کر سکتی تھی’ تم اس کتاب کی کاپی کیسے کر سکتی تھی۔تم نے اسے اسکین بھی نہیں کیا۔ اگر کیا ہوتا تو مجھے دکھائی دے جاتا۔تمہارے پاس ایک ہی کاپی ہے’ اور وہ اس وقت’ اس گھر میں موجود نہیں ہے۔اس گھر میں کچھ ایسی چیزیں موجود ہیں جو تمہاری نہیں ہیں۔”
ٹیولپ نے پھر سے کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ ایک ایک کر کے فلم سی چلا رہا تھا۔۔۔۔۔۔ضروری چیزوں کی فوٹیج دکھا رہا تھا۔۔۔۔۔۔
”ابوبکر کی کتاب کی طرح’ تم نے کچھ اور فرینڈز کی چیزیں بھی چرائی ہیں۔جیسے کہ ۔۔۔۔۔۔” وہ چلتے ہوئے اس کے قریب آئی اور اس کی کوٹ کی جیب میں ہاتھ ڈال کر ایک سمارٹ فون نکال لیا۔” جیسے کہ یہ۔۔۔۔۔۔جو تم ابھی ابھی چرا کر لا رہی ہو۔۔۔۔۔۔”
”یہ میرا ہے۔۔۔۔۔۔”
”جو تمہارا ہے ‘ وہ تمہارے کوٹ کی دوسری جیب میں پڑا ہواہے۔یہ باکس جو تم نے چھپا کر رکھا تھا’ اس میں ایک قیمتی گھڑی’ اور کچھ جیولری ہے۔۔۔۔۔۔ پولیس آئے گی تو میں ایک ایک کر کے ان سب چیزوں کی طرف اشارہ کر وں گی’ جو یہاں موجود ہیں’ لیکن تمہاری نہیں ہیں۔ ہاں لیکن تمہاری چرائی ہوئی ضرور ہیں۔ ” اس نے ایڑی کے بل گھوم کر ‘ ہاتھ لہرا کر اس چڑیا گھر کی کچھ چیزوں کی طرف اشارہ کیا۔
”اور ان کے بارے میں بھی بتاؤں گی جنہیں تم بیچ کر ہڑپ کر چکی ہو۔پھر جانتی ہو تمہارے ساتھ کیا ہو گا؟”
اس کے ساتھ انصاف ہو گا۔۔۔۔۔۔مقدمے کا فیصلہ ہو گا۔۔۔۔۔۔پھر اسے جیل جانا ہو گا۔۔۔۔۔۔
اس کا رنگ زرد پڑ چکا تھا۔اس نے سختی سے لب پھینچ لیے اور پھر وہ ایکدم سے پھوٹ پھوٹ کر رو نے لگی۔ اسے حیرت ہوئی۔ وہ اس کے رونے کی توقع نہیں کر رہی تھی۔وہ اس کے دھکوں اور گالیوں کی امید کر رہی تھی۔
”میں ایک اچھی لڑکی ہوں۔۔۔۔۔۔”روتے ہوئے اچھی لڑکی کہہ رہی تھی۔۔۔۔۔۔بڑی بری لگ رہی تھی۔۔۔۔۔۔سچی۔۔۔۔۔۔
علیزہ پہلے تو چپ چا پ کھڑی دیکھتی رہی۔ پھر چل کر اس کے فریج تک گئی او ر ایک سیب نکال کر کھانے لگی۔وہ اس پر ترس نہیں کھانا چاہتی تھی اس لیے”سیب” کھانے لگی تھی۔
”دراصل مجھے چھوٹی موٹی چوریاں کرنے کی عادت ہے۔”جب اس کے رونے کا سیشن مکمل ہو گیا تو دونوں آمنے سامنے بیٹھ کر بات کرنے لگیں۔
”چوری چھوٹی موٹی کیسے ہوتی ہے’ وہ تو بس چوری نہیں ہوتی؟” اس نے اس چور کو ٹیولپ کے ہاتھوں پکڑ لیا تھا تو انعام کے طور پر وہ کچن سے کاجو اور بادام کی پلیٹ بھی بھر کر لے آئی تھی اور مزے سے کھا رہی تھی۔ٹیلر اسے روکنے کی جرات نہیں کر سکتی تھی۔
”مجھے جہاں تھوڑی بہت کام کی چیز نظر آتی ہے’ وہ میں اٹھا(چرا) لیتی ہوں۔”
”یہ عادت ہے یا لعنت۔۔۔۔۔۔؟” اس نے جل کر پوچھا۔ وہ اپنے چور ہونے کے بارے میں کتنے آرا م سے بتا رہی تھی۔
” میں ایک گھر میں تہہ خانے میں کرایہ دار کی حیثیت سے رہتی تھی۔ کرایہ کم تھا اس لیے میں وہاں رہنے لگی تھی۔ تہہ خانے کے کونے میں لینڈ لیڈی کا کچھ بے کار(قابل سیل) سامان رکھا ہوا تھا۔جب وہ مجھے جگہ دکھا رہی تھی تو اس نے مجھ سے کہہ دیا تھا کہ اگر میں اس سامان کی موجودگی میں رہ سکتی ہوں تو ٹھیک ہے’ ورنہ وہ مجھے رہنے کے لیے جگہ نہیں دے سکتی۔میں نے فورا ہاں میں سر ہلا دیا۔ اکثر جب کبھی مجھے تھوڑے بہت پیسوں کی ضرورت ہوتی تھی تو میں کچھ سامان نکال کر بیچ دیتی تھی۔وہ کافی موٹی تھی تو کم ہی نیچے آتی تھی۔ اسے سانس کا مسئلہ بھی تھا۔”
”اور تمہیں ہاتھ کی صفائی کا مسئلہ تھا۔۔۔۔۔۔”
”لیکن ایک دن میرا راز کھلا گیا۔”وہ پھر سے سوں سوں کرنے لگی تھی۔
”بھانڈا پھوٹ گیا۔۔۔۔۔۔ایسے کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔”اس نے دانت پر دانت جما کر کہا۔
”میں یونیورسٹی میں تھی’ وہ نیچے آگئی۔ وہ اپنے باپ کی نشانی ہاتھی کی کھال کا لیمپ ڈھونڈ رہی تھی۔جسے پچھلے ہفتے ہی میں نے بیچ دیا تھا۔جب وہ اسے وہاں نہیں ملا تو اس نے ادھر ادھر اور چیزوں کی تلاشی لینی شروع کر دی۔بالآخر اسے اپنی ایک ایک چیز کی گمشدگی کے بارے میں معلوم ہو گیا۔”
”ایک ایک چیز کی چوری کے بارے میں۔۔۔۔۔۔” اس نے اس کی تصحیح کی۔
” ہاں چور اور چوری دونوں کا۔۔۔۔۔۔اس نے اسی وقت مجھے دھکے دے کر گھر سے باہر نکال دیا۔اس نے میرا سارا سامان ضبط کر لیا۔ میرے اسی سامان میں ابوبکر کی کتاب تھی۔تم دونوں جس دن میرے گھر آئے تھے’ میں ایک بار پھر اس کے گھر گئی تھی۔ اس کی منت کی تھی کہ میرا سامان مجھے واپس کر دے۔جوابا اس نے کہا کہ پہلے میں اسے اس کا سامان واپس کروں۔ اس کا سامان تو میں بیچ کر کھا(ہڑپ کر) گئی ہوں۔وہ کہاں سے واپس کروں اب۔ اس کے باپ کی نشانی ہاتھی کی کھال کا لیمپ اور دادی کی شادی کا یادگار عروسی لباس۔”
”تم نے اس کی دادی کا شادی کاعروسی لباس بھی پار کر دیا؟”
”ہاں ۔۔۔۔۔۔وہ بہت اچھی قیمت پر بکا تھا۔دکاندار کا کہنا تھا کہ اس کپڑے کے بہت اچھے کشن بن جائیں گے۔آج کل تو ایسا کپڑا ملتا بھی نہیں۔”پتا نہیں اسے اپنی کارکردگی پر خوشی تھی یا اپنی قابلیت پر۔وہ ہنس بھی رہی تھی۔ڈھیٹ بننے کے لیے بس بے شرم ہی تو بننا پڑتا ہے۔
”کشن۔۔۔۔۔۔اس بے چاری کی دادی کے ڈریس کو تم کشن بننے کے لیے دے آئیں۔ تمہیں تو ڈوب مرنا چاہیے۔ دادی کی روح کتنی بے چین ہو ئی ہو گی۔”
”وہ تو دادی کی روح ہوئی ہو گی’ تمہاری روح کو اتنی بے چینی کس بات کی ہے۔” دادی کی روح کو بیچ کھانے والی نے اسے گھور کر دیکھا۔”اب وہ کتاب اس لینڈ لیڈی کے پاس ہے۔ تمہیں وہ کتاب چاہیے تو تم اس کے پاس جاؤ۔کیونکہ میں اب کچھ نہیں کر سکتی۔”
سب کچھ کر کے وہ کہہ رہی تھی کہ میں کچھ نہیں کر سکتی۔وہ مر تو سکتی تھی نا۔ ایسے زندہ رہ کر’ سب کو زندہ درگور کیوں کر رہی تھی۔
”تمہیں میرے گھر کے لاک کا پاس ورڈ کیسے معلوم ہوا؟”
اب و ہ پوچھ پڑتال کر رہی تھی۔اپنی چورانا ہسٹری بتانے کے بعد وہ کافی ہلکی پھلکی ہو چکی تھی۔صوفے پر پھیل کر پھسر گئی تھی۔علیزہ زیر لب ہنس دی۔ جیسے وہ کوئی بہت ہی اونچی چیز ہو۔ شرلا ہومز یا عینک والا جن۔ ورنہ کرنانی چڑیل۔
”میرے پاس جادو ہے۔۔۔۔۔۔”
”اچھا کہاں ہے۔۔۔۔۔۔؟”وہ واقعی میں آس پاس دیکھنے لگی تھی۔
”کیوں اسے بھی چرانا ہے۔۔۔۔۔۔اپنی عادتیں ٹھیک کرو’ ورنہ جیل میں سڑ کر مر جاؤ گی۔چوہے تمہاری لاش کھائیں گے۔مچھر تمہاری بوٹیاں نوچیں گے۔کاکروچ تمہارے ناک میں گھسیں گے۔مکھیاں تمہارے منہ پر بھنبھنائیں گی۔۔۔۔۔۔سمجھیں۔۔۔۔۔۔؟”
وہ سمجھ چکی تھی’ اسی لیے اسے دھکے دے کر گھر سے باہر نکال رہی تھی۔
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔)(۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭
زندگی میں کچھ بھی حاصل کر لینا آسان نہیں ہوتا۔جو چیز اس مریل کے پاس تھی’ اب وہ کہیں اور جا چکی تھی۔سڑک پر چلتے چلتے وہ رک گئی۔
”کیا یہ ضروری ہے کہ میں اس سارے مسئلے میں پھنسوں۔ ”اس نے خود سے کہا۔ وہ پریشان ہو چکی تھی۔
”نہیں یہ ضروری نہیں ہے۔ لیکن انسانیت بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔”ٹیولپ نے بڑ بڑا کر دلیل دی۔
”کیا سار ی انسانیت میرے اندر ہی چوکڑی مار کر بیٹھ گئی ہے؟باقی لوگوں نے اپنے دل کے فرش’ بے رحمی کے پٹرول سے دھلوا لیے ہیں۔”
اس بار ٹیولپ خاموش رہا ۔ لیکن چلتے چلتے وہ گر گئی۔۔۔۔۔۔کیسے؟ اس کے تسمے کھل چکے تھے’ اور وہ ان سے الجھ گئی ۔۔۔۔۔۔ اسے جھٹکا لگا اور وہ منہ کے بل گری۔ناک سے خون نکلنے لگا تھا۔ ہاتھ بڑھا کر ایک بوڑھی عورت نے اسے اٹھایااور کرتے کی جیب میں ہاتھ ڈال کر’ گلابی رومال نکال کر اس کا خون صاف کرنے لگیں۔
”تم اکیلی انسانیت کی ٹھیکیدار نہیں بچی تھی۔” ٹیولپ نے طنزیہ کہا۔
” بیٹا! دھیان سے چلتے ہیں اور اس آکسیجن کے آلے’ دل کی دھڑکن کو تھوڑی دیر کے لیے جیب میں رکھ لیتے ہیں۔”گلابی رومال دینے والی نے ‘رومال کو اس کی ہتھیلی پر رکھتے ہوئے کہا ۔ اب وہ اس کا خون آلود رومال رکھ کر کیا کرتیں۔ وہ کون سا قلوپطرہ تھی۔
آکسیجن کے آلے’ دل کی دھڑکن ‘ فون کو جیب میں رکھ کر وہ تیز تیز قدم اٹھاتی ہوئی ابوبکر کے پاس پہنچی۔
”دیکھو وہ کتاب اس کی لینڈ لیڈی کے پاس ہے’ جس کا سامان ٹیلرچوری کر کے بیچ کر کھاچکی ہے۔ اب باقی کا کام تم کرو۔اس کے پاس جاؤ اور اس کی منت کرو کہ وہ ٹیلر کے سامان میں سے تمہاری کتاب نکال کر تمہیں دے دے۔”
”میں منت کس منہ سے کروں گا ؟میرے منہ میں تو زبان ہی نہیں ہے۔”بے زبان نے بڑی معصومیت سے کہا۔
”اف۔۔۔۔۔۔میں تو بھول ہی گئی تھی۔” اس نے سر کھجایا۔
”تم نے اتنی معلومات حاصل کر لیں’تو یہ بھی بہت ہے۔”ابوبکر نے اس کا حوصلہ بڑھایا۔
”مکھن نہ لگاؤ۔ بہتر ہے کہ تم مجھے کچھ رشوت لگا دو۔” اس نے جل کر کہا تو ابوبکر قہقہہ لگا کر ہنسنے لگا۔
اگلے دن وہ اس لینڈ لیڈی سے ملنے کے لیے چلی گئی۔ اس کے گھر کے باہر ایک چھوٹا سا نوٹ چپکا ہوا تھا کہ کرایہ کے لیے کمرہ دستیاب ہے۔ اس نے وہ نوٹ پڑھا اور اندر چلی گئی۔اس کا خیال تھا کہ منت سماجت سے کام بننے والا نہیں ہے’ کرایہ دار بن کر ہی کوئی کام دکھانا ہو گا۔
”تم نے شاید وہ نوٹ غور سے نہیں پڑھا ۔میں نے لکھا ہے کہ کرایہ کے لیے کمرہ خالی ہے۔”صرف لڑکوں کے لیے۔” وہ بے زاری سے بولیں ۔ اس سے پہلے وہ گہری نظر سے اس کا جائرہ لے چکی تھیں۔
”اوہ اچھا!میں پوری کوشش کروں گی کہ کسی لڑکے سے کم نہ رہو۔ میرا مطلب ‘ میں اپنا رویہ مردانہ رکھوں گی۔۔۔۔۔۔”
وہ حیرت سے اسے دیکھنے لگیں۔”مردانہ رویہ؟تم زنانی ہو کر مردانہ رویہ کیسے رکھ سکتی ہو؟”
”اوہ۔۔۔۔۔۔میرا مطلب کہ آپ اس لیے لڑکے کو کرایہ دار رکھنا چاہتی ہیں نا کہ وہ آپ کے اسٹو ر کی چیزیں نہ بیچے؟”
اس کے کان کھڑے ہو گئے۔”کیا کہا تم نے۔۔۔۔۔۔چیزیں۔۔۔۔۔۔تمہیں کیسے پتا کہ میرے گھر کی چیزیں۔۔۔۔۔۔”
اس نے اپنی زبان کاٹی۔” وہ دراصل میں۔۔۔۔۔۔وہ۔۔۔۔۔۔وہ میں پہلے بھی تین چار گھر دیکھ چکی ہوں۔ ایک لینڈ لیڈی بتا رہی تھیں کہ یونیورسٹی کی لڑکیاں بہت تنگ کرتی ہیں۔میک اپ چرا لیتی ہیں۔ کھانے پینے کی چیزیں اٹھا لیتی ہیں۔ ایک لڑکی ان کی دادی کا شاد۔۔۔۔۔۔ان کی دادی کی شال اٹھا کر لے گئی۔تو مجھے اندازہ ہو گیا کہ لڑکیاں یہ سب کرتی ہیں اور اس لیے انہیں کوئی نہیں رکھنا چاہتا۔”
”اچھا ۔۔۔۔۔۔باقی سب کے ساتھ بھی لڑکیاں یہی کرتی ہیں۔”اس کے زخموں پر شاید تھوڑا سا مرہم لگ گیا تھا۔
”لیکن میں ایسی نہیں ہوں۔آپ کو مجھ سے کوئی شکایت نہیں ہو گی۔ ان فیکٹ میں آ پ کی گھر کے کاموں میں مدد بھی کر دیا کروں گی۔”
”اور پھر گھر کا صفایا بھی کر دیا کروں گی۔” لینڈ لیڈی نے جل بھن کر کہا۔
اس کا منہ بن گیا۔”ہر انسان ایک جیسا نہیں ہوتامیڈم!”
”ہر انسان کے منہ پر بھی نہیں لکھا ہوتا کہ وہ چور اچکا’ نہیں ہے۔”
”آپ میری بے عزتی کر رہی ہیں۔۔۔۔۔۔بے شک تھوڑی سی اور کر لیں’ لیکن مجھے رہنے کے لیے جگہ دے دیں۔میرے ایگزمز شروع ہونے والے ہیں’ اور برف باری بھی۔ تو مجھے تو تہہ خانے میں بہت سکون ملے گا۔مجھے تہہ خانوں میں رہنے کی بہت اچھی پریکٹس ہے۔ میں پورے پندرہ سال رہی ہوں۔”
”تمہیں کیسے پتا کہ میرے گھر میں ایک تہہ خانہ ہے’ اور میں وہی کرائے پر دینے والی ہوں؟”
”وہ ہر گھر میں تہہ خانہ ہوتا ہے نا۔۔۔۔۔۔”اس کے حلق میں پھندا پڑا۔
”نہیں۔۔۔۔۔۔ہمارے پڑوس کے کسی گھرمیں نہیں ہے۔”
”وہ میں شکاگو میں رہتی ہوں نا۔۔۔۔۔۔تو شکاگو میں مشہور ہے کہ نیویارک کے ہر گھرمیں ایک تہہ خانہ ہوتاہے۔بس اسی لیے۔”
”اور کیا کیا مشہور ہے شکاگو میں؟”لینڈلیڈی نے شاکی نظروں سے اسے دیکھا۔
”یہی کہ نیویارک کی عورتیں بہت سلیقہ شعار اور خوش گفتا ر ہوتی ہیں۔ خوب صورت اور نازک سی۔” اس نے منہ بنا کر کہا۔
”لیکن میں تو موٹی ہوں۔۔۔۔۔۔”لینڈلیڈی کی نظروں کی مشکوکیت کم ہی نہیں ہو رہی تھی۔
”خوب صورت اور نازک جذبات کی حامل۔۔۔۔۔۔”اس نے فقرہ اد ل بدل کر کے لینڈ لیڈی کے سپرد کیا۔
اسے تہہ خانہ دے دیا گیا۔ جہاں ایک عدد سنگل بیڈ تھا۔کونے میں ایک لکھنے پڑھنے کی میز اور اس پر ایک لیمپ۔ وہ اپنا سجا سجایا اپارٹمنٹ چھوڑ کر اس چھوٹے سے تہہ خانہ میں آچکی تھی۔انسان کا ماضی گھوم پھر کر اس کے سامنے آ ہی جاتاہے۔۔۔۔۔۔آہ۔۔۔۔۔۔
وہاں کوئی اور سامان موجود نہیں تھا۔ فی الحال وہ گھر میں گھوم پھر کر ڈائری نہیں ڈھونڈ سکتی تھی۔لینڈ لیڈی اس پر کڑی نظر رکھتی تھیں۔ پہلے اسے اپنا اعتماد بحال کرنا تھا۔پھر لینڈ لیڈی سے بات کرنی تھی۔
”آپ کا گھر بہت صاف ستھرا ہے’ کوئی کاٹھ کباڑ وغیرہ نہیں ہے۔” اس نے ایک دن ایسے بات شروع کی تھی۔
لینڈ لیڈی نے ایک آہ سی بھری۔”بہت کچھ تھا’ سب چلا گیا۔”
”کہاں۔۔۔۔۔۔”اس کی نظروں کے سامنے ٹیلر کا چڑیا گھر گھوم گیا۔
”چور کے ہاتھوں’ چور بازار۔۔۔۔۔۔”
”اوہ۔۔۔۔۔۔بہت دکھ ہوا۔۔۔۔۔۔”
”میری سالگرہ پر پاپا نے مجھے ایک لیمپ گفٹ کیا تھا۔ ہاتھی کی کھال کا تھا۔۔۔۔۔۔بہت پیارا اور نازک سا تھا۔”
”ہاتھی کی کھال اور نازک۔”اس کے منہ سے پھسل گیا۔( افف! پھر سے لیمپ کا قصہ)
”تم کیا جانو۔۔۔۔۔۔”
”اتنا ہی پیارا تھا وہ لیمپ تو اسے تہہ خانے کے کاٹھ کباڑمیں کیوں پھینکا ہوا تھا۔سنبھال کر رکھتیں نا۔”
وہ آہیں بھرتے بھرتے چونک گئیں۔”تمہیں کیسے پتا کہ وہ تہہ خانے کے کاٹھ کباڑ میں پڑا ہوا تھا؟”
اس کا نیچے کا سانس نیچے اور اوپر کا اتنا اوپر رہ گیا کہ وہ سیدھے سیدھے اوپر نکل سکتی تھی۔”میرا اندازہ ہے۔”
”جب سے تم آئی ہو’ تمہارے سارے اندازے بالکل ٹھیک ثابت ہو رہے ہیں ‘ کون ہو تم؟
” وہ۔۔۔۔۔۔میں۔۔۔۔۔۔وہ دراصل۔۔۔۔۔۔” وہ ایکدم سے رو دی۔آنکھیں رگڑنے لگی۔”میری ماں کے پاس بھی میرے نانا کا دیا ہوا ایک لیمپ تھا۔خرگوش کی کھال کا۔ میری ماں نے اسے تہہ خانہ میں چھپا کر رکھا ہوا تھا۔ ماں سے ایک بار پوچھا کہ وہ اسے ایسے چھپا کر کیوں رکھتی ہیں تو انہوں نے کہا کہ جب جب میری نظر اس پر پڑتی ہے تو مجھے تمہارے نانا یاد آتے ہیں۔ بس اسی لیے۔۔۔۔۔۔ وہ میں نے سوچا ہر عورت ایک جیسا سوچتی ہے۔ا ۤپ نے بھی اس لیے اسے۔۔۔۔۔۔”
اس نے گہری آہ بھری۔۔۔۔۔۔”ہاں ہر عورت کا ایک ہی غم ہے۔مجھے اسے دیکھ کر پاپا یاد آتے تھے۔میں نے اسے اچھی طرح سے پیک کر کے’ نیچے رکھا ہوا تھا۔نظر سے دو رلیکن دل کے قریب۔۔۔۔۔۔اگر اب وہ مجھے کہیں سے مل جائے’ تو میں اسے اپنی نظروں کے سامنے رکھوں گی۔ کاش وہ مجھے مل جائے۔”
وہ علیزہ کو مل چکا تھا’ ٹیولپ ڈاٹ کام پر۔ایک آکشن شاپ پر پڑا ہوا تھا۔پورے ستر ڈالر کا تھا۔وہ ابوبکر کے ساتھ گئی اور لیمپ خرید کر لے آئی۔ پھر لا کر لینڈ لیڈی کو دیا اور کہا ”کہ ایسے ہی چلتے چلتے یہ پسند آیا گیا تھا تو سوچا آپ کے لیے لے لوں۔”(ستر ڈالر اور وہ بھی چلتے چلتے۔۔۔۔۔۔آہ۔۔۔۔۔۔)
لینڈ لیڈی تو سانس لینا ہی بھول گئی تھیں۔پھر وہ رونے بھی لگیں۔”یہ تو میرے پاپا والا ہے۔” اسے اٹھا کر ‘ نشانیاں چیک کر نے کے بعد وہ سسکتے ہوئے کہنے لگیں۔
علیزہ نے مسکراہٹ دبائی۔”اچھا۔۔۔۔۔۔کیا واقعی۔۔۔۔۔۔کیا حسین اتفاق ہے۔۔۔۔۔۔”
اب وہ دیر تک اسے سینے سے لگاکر روتی رہیں۔علیزہ کو دادی کے کشن بھی نظر آئے تھے’ لیکن وہ کچھ زیادہ ہی مہنگے تھے۔ وہ اتنا کچھ افورڈ نہیں کر سکتی تھی۔یہ پیسے بھی ابوبکر نے دئیے تھے۔لینڈ لیڈی کچھ اتنی خوش تھیں کہ اسے رات کے کھانے کی دعوت دے ڈالی۔
”وہ ایک لڑکی آپ کی کرایہ دار رہی تھی۔ٹیلر نام تھا اس کا۔وہ۔۔۔۔۔۔وہ۔۔۔۔۔۔اس کا سامان آپ نے رکھا ہوا ہے۔پلیز وہ دے دیں ۔
اس سامان میں اس کے فادر کی کچھ تصویریں ہیں’ اور کچھ پرانی یادیں۔۔۔۔۔۔تو۔۔۔۔۔۔” کھانا کھانے کے بعد اس نے بات شروع کی۔
”تو تم اس چورنی’مورنی کی فرینڈ ہو۔۔۔۔۔۔تمہیں اس نے بھیجا تھا۔۔۔۔۔۔”لینڈلیڈی کا موڈ بگڑ گیا۔
”نہیں نہیں۔۔۔۔۔۔یہ ظلم نہ کریں’ اس مریل کو مورنی تو نہ کہیں۔۔۔۔۔۔اورمیں اس کی فرینڈ نہیں ہوں۔لیکن بس اتنا جانتی ہوں کہ وہ اپنے سامان کے لیے پریشان ہے۔ بس میرا دل اس کے آنسو دیکھ کر نرم پڑ گیا۔ میں دوسروں کو درد محسوس کرنے والی لڑکی ہوں۔ کسی کو روتا ہوا نہیں دیکھ سکتی۔میں نے سوچا کہ آپ سے بات کر کے دیکھوں۔ آپ جیسی رحم دل خاتون ضرور اسے معاف کر دیں گی۔”
رحم دل خاتون نے اسے بے رحمی سے گھورا۔”تمہیں اس نے بھیجا ہے نا۔۔۔۔۔۔یہ لیمپ بھی اس نے دیا ہو گا۔ یعنی میری چیزیں اس نے چھپا کر رکھی ہوئی تھیں۔ میری دادی کا ڈریس بھی اس کے پاس ہی ہو گا۔”
کہانی الٹی پڑ گئی تھی۔دادی کا ڈریس قینچی اور سوئی دھاگے سے ہو کر کٹ پھٹ چکا تھا۔ اس نے جلدی سے دُکان کی رسید نکال کر انہیں دکھائی۔” یہ دیکھیں ۔لیمپ میں آج ہی خرید کر لائی ہوں۔ آپ دکان پر جاکر بھی پوچھ سکتی ہیں۔ورنہ فون کر کے پوچھ لیں۔پورے ستر ڈالر کا آیا ہے۔”
لینڈ لیڈی نے دکان پر فون کیا۔پھر کہیں جا کر ان کا غصہ ٹھنڈا ہوا۔ اور وہ اسے اپنے ساتھ لے کر لکڑی کی الماری کے پاس آئیں ۔ لاک کھولا اور سامان کی طرف اشارہ کیا۔
”میں غصے میں تھی تو میں نے بھی اس کا سامان بیچ دیا تھا۔ بس یہ تھوڑ ا بہت بچا ہے’ یہ کسی نے خریدا ہی نہیں تھا۔”
وہ ہکا بکا کھڑی کی کھڑی رہ گئی۔ ایک پرانا کمبل’ کچھ عمر رسیدہ’ غم زددہ سویٹر’ کچھ ٹوٹے پھوٹے مگ وغیرہ ۔ بس۔
”اور ڈائری کہاں ہے۔۔۔۔۔۔” وہ چلا اٹھی تھی۔ اس کا رنگ زرد پڑ چکا تھا۔
”ڈائری؟”وہ یاد کر نے لگیں۔۔۔۔۔۔”اس چورنی کے بعد ایک لڑکا کرایے دار بن کر رہا تھا یہاں۔میں نے اسے چورنی کی بکس دکھائی تھیں کہ جس کی ضرورت ہے وہ آدھی قیمت پر لے لے۔ اس نے پانچ چھ بکس لے لی تھیں۔۔۔۔۔۔کوئی ڈائری بھی تھی ان میں۔۔۔۔۔۔؟ ”وہ پوچھ رہی تھیں
و ہ اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔اس کا دل چاہا کہ ہاتھی کی کھال سے بنے لیمپ کو اٹھا کر اپنے اور لینڈ لیڈی کے سر پر دے مارے۔اور دادی کے عروسی لباس کا پھندا بنا کر اپنا گلا گھونٹ لے۔۔۔۔۔۔
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔)(۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭
”بہت دنوں سے تم ملنے نہیں آئیں۔”
ابو بکر پہلی بار اس کے گھر آیا تھا۔اس نے سر کی حرکت سے بیل دی تھی۔شاید اس کا سر کچھ زیادہی زور سے بیل اور دیوار سے ٹکرا گیا تھا۔
”تم مجھے بلا لیتے۔۔۔۔۔۔میں آجاتی۔۔۔۔۔۔” اس کی حالت دیکھ کر اسے افسوس سا ہوا۔
”ماما نے کہا کہ مجھے چلنا پھرنا چاہیے۔ ”اس نے نظریں چرا کر کہا۔
”تو تم بس واک کرنے کے خیال سے آئے ہو۔” اس کے بے ضرر سے جذبات پر پانی پڑ گیا تھا۔
وہ اپارٹمنٹ کی واحد کھڑکی میں سے پورا سر’ اور آدھا دھڑ نکال کر باہر دیکھنے لگا ۔” ہاں۔۔۔۔۔۔” وہیں سے کہا۔
” کھڑکی سے باہر سر نکالو’ دھڑ نہیں۔ نیچے گر گرا گئے’ تو کون اٹھائے گا تمہیں۔سب اس وقت اپنی اپنی جاب پر ہوتے ہیں۔”
”اتنی اونچائی سے گرنے پر انسان نیچے نہیں اُوپر جاتاہے۔” سر کو کھڑکی سے باہر رکھتے ہوئے’ اس نے مڑ کر اسے دیکھااور زیرلب ہنس دیا۔پھر وہ کھڑکی کے پاس رکھی واحد چیئر پر بیٹھ کر جھولنے لگا۔بالکل بچوں کی طرح’ جیسے وہ کبھی راکنگ چیئر پر بیٹھا ہی نہ ہو۔
”اچھا لگ رہا ہے یہاں آکر۔پر یہاں شور بہت ہے۔ تمہارا گھر بھی اچھا ہے ‘ چھوٹا سا ڈربہ۔شروع بھی نہیں ہوتا اور ختم ہو جاتاہے۔ ایسے اپارٹمنٹ کو کیا کہتے ہیں مائیکرو اپارٹمنٹ۔۔۔۔۔۔تم تو واقعی میں بہت غریب ہو بھئی۔۔۔۔۔۔یہ راکنگ چیئرکتنے کی لی تھی؟”
” یہ پہلے کرایے دار کی تھی’ فری ملی ہے۔”
وہ ہنس دیا۔ ”تمہاری قسمت کافی اچھی لگتی ہے۔”
”اچھی ہوتی تو تم سے ملتی۔۔۔۔۔۔”وہ طنز کر رہا تھا تو ا س نے بھی کر دیا۔
اس کی مسکراہٹ ایکدم سے غائب ہو گئی۔وہ سوری کہنے ہی والی تھی کہ وہ اٹھ کر کھڑا ہو گیا’ اور گردن کو سیدھا کر کے باہر کی طرف جانے لگا۔اس کی چال میں اتنی تیزی تھی کہ وہ بھی تیز ی سے اس کی سمت لپکی اور عین اس کے منہ کے سامنے جا کر کھڑی ہو گئی۔زیادہ فاصلہ نہیں رہا تھا دونوں میں۔ پیچھے کچن کاونٹر تھا’ آگے صوفہ ۔۔۔۔۔۔گھر چھوٹا تھا نا۔۔۔۔۔۔مائیکرو۔۔۔۔۔۔
”آئی ایم سوری۔۔۔۔۔۔میں مذاق کر رہی تھی۔۔۔۔۔۔”
کوئی اتنا قریب ہو کر ایسے سوری کہے’ تووہ جو دل ہوتا ہے نا ‘ اس کے آس پاس گھنٹیاں سے بجنے لگتی ہیں۔ابوبکر ہنس دیا اور پہلے دایاں پیر پیچھے کیا۔ پھر بائیں کو بھی شرم دلائی اور ایک قدم دور ہٹ کر کھڑا ہو گیا۔چھوٹے گھر اس لیے بھی اچھے ہوتے ہیں۔
”اور میں بھی مذاق میں ہی جا رہا تھا۔ماما کہتی ہیں بے وقوفوں کی باتوں کا برا نہیں مانتے۔بلکہ انہیں ہاتھ سے مار لیتے ہیں۔”
”گھومنے چلیں؟” بے وقوف نے ایسے چٹکی بجا کر کہا جیسے کھڑکی سے باہر اس کا ہیلی کاپٹر تیار کھڑ ا ہو۔
شا م تک دونوں ادھر ادھر گھومتے پھرتے رہے۔ ایک پارک میں بیٹھ کر انہوں نے آئسکریم کھائی۔ وہ خود بھی کھاتی رہی’ اور سپون سے اسے بھی کھلاتی رہی۔ ٹشو سے اس کا منہ صاف کرتی رہی۔جب اس کا ہاتھ تھک گیا’ تو اس نے اس کی باقی ماندہ آئسکریم خود کھالی ۔
”میرے آنے سے پہلے تمہاری زندگی بڑی بے رنگ سی ہو گی۔ ہے نا؟”وہ ایک جھولے پر بیٹھ کر گول گول گھوم رہی تھی۔
”تمہارے آنے سے پہلے میری زندگی بلیک اینڈ وائٹ تھی’ اب صرف بلیک ہے۔۔۔۔۔۔ہی ہی ہی۔۔۔۔۔۔”وہ بھی ویسے ہی جھولے پر بیٹھ کر گھوم رہا تھا۔
”تم ناشکرے ہو’ اسی لیے تمہاری کتاب نہیں مل رہی۔ اب وہ کسی اور کے پاس جا چکی ہے۔ ”
”وہ جس کے پاس بھی جائے’ تم اس کے پاس جاو’ اور اسے میرے پاس واپس لاؤ۔ورنہ میرے علاج کا خرچ تم برداشت کرو۔ ہیں تمہار ے پاس اتنے پیسے؟”
”ہاں میرے پاس بہت کچھ ہے۔تین فرینڈز کو جو قرض واپس کرنا ہے اس کی رسیدیں۔ لانڈری کا بل’اگلے مہینے کے کرایے کی فکر’اور تیسرے سمسٹر کی فیس کا بھوت۔۔۔۔۔۔کیا لینا پسند کرو گے تم؟”
اس نے جل کر کہا تو وہ بے ساختہ ہنس دیا۔اب وہ دونوں روڈ سائیڈ ریسٹورنٹ میں بیٹھے پیزا کھا رہے تھے۔
”تو بس پھر! پوری جان لگا دو اور میری ڈائری واپس لے لو۔”
”تم میری جان ویسے ہی نکال لو نا۔ اور بات سنو! تمہیں کیسے یقین ہے کہ وہ ڈائری جب کتاب کی شکل میں چھپے گی تو ضرور ہی کامیاب ہوگی؟اور تمہیں بہت سارا پیسہ مل جائے گا۔”
اس کے چہرے کی مسکراہٹ غائب ہو گی۔ وہ سنجیدہ ہو گیا۔”علیزہ! مجھے زندگی میں کوئی ایک آدھ یقین تو اپنے پاس رکھنا ہی ہے نا؟میں ٹھیک ہو جاؤں گا۔ میری کتاب کامیاب رہے گی۔۔۔۔۔۔اگر یہ دو یقین بھی میرے پاس نہیں ہوں گے تو اور کیا بچے گا۔میں تو بالکل خالی ہاتھ رہ جاؤں گا۔پھر میرے لیے ایک بھی اور دن زندہ رہنا مشکل ہو جائے گا۔”
وہ ٹھیک کہہ رہا تھا۔وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ وہ کسی بند غارمیں کھڑا ہوا ہے۔وہ جانتی ہی نہیں تھی کہ ایک مضبوط اونچے لمبے جوان انسان کو جب اس جیسا انسان چمچ بڑھا کر آئسکریم کھلاتا ہے تو وہ کتنا شرمندہ ہوتا ہے۔ وہ کیا محسوس کرتاہے۔ وہ کیا کچھ چھپا لینا اور کیا کچھ دبا لینا چاہتاہے۔اسی لیے ایسا شخص گھر میں بند رہتا ہے۔ وہ لوگوں کو یہ نہیں بتانا چاہتا کہ دیکھو’ میں تمہاری طرح نارمل نہیں ہوں۔ تمہیں میرے منہ میں نوالے بھی ڈالنے پڑتے ہیں او رمیرا منہ بھی پونچھنا پڑتاہے۔
”تم ٹھیک بھی ہو جاؤ گے اور تمہاری کتاب بھی کامیاب رہے گی۔ ان شاء اللہ۔ ” اس نے پورے یقین سے کہا۔
”میں تمہیں اچھا لگتا ہوں۔؟’ اس نے ٹیولپ پر ابوبکر کا یہ سوال پڑھا تو ٹیولپ کو فولڈ کر دیا اور مسکرا کر ابوبکر کی طرف دیکھا۔
”کم بولا کرو’ اور زیادہ سنا کرو ۔سمجھے؟اور اب اٹھو۔پیسے ویسے تم ساتھ لائے نہیں تھے اور آگئے تھے سیر کرنے۔پورے پندرہ ڈالر کے پڑے ہو تم مجھے۔کتاب کامیاب ہو جائے تو کچھ میرا بھی حساب کتاب کر دینا پلیز۔اٹھ جاؤ اب۔۔۔۔۔۔” وہ کرسی سے اٹھ کر اس سے چار قدم آگے جا چکی تھی۔ وہ وہیں بیٹھ کر اسے دیکھ رہا تھا۔اس کی آنکھوں میں مسکراہٹ تھی۔ اگر وہ ٹیولپ کھولتی تو دیکھ لیتی کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔
” کہ لڑکی مشرق کی ہو یا مغرب کی۔۔۔۔۔۔دل کے سوال پر’ دل سے جواب دینے کے لیے بوکھلا جاتی ہے۔”
جب وہ رات کو سونے کے لیے لیٹی تو اس نے ڈرتے ڈرتے ٹیولپ کھولا تھا۔ اس پر ایک چھوٹا سا دل بنا ہوا تھا۔اس نے حیرت سے دل کو دیکھا۔ پھر آنکھیں مسلیں ۔ٹیولپ تو بلینک تھا۔تو پھر کیا دل اس کی آنکھوں میں بنا ہوا تھا۔جو اسے ہر جگہ نظر آرہاتھا۔
ہاں ۔۔۔۔۔۔کیونکہ ٹیولپ عشق محبت کے کاموں میں نہیں پڑتا۔ وہ جانتا ہے کہ جو ان کاموں میں پڑ تا ہے وہ کسی اور کام کا نہیں رہتا۔ اور ابھی اسے بہت سے لوگوں کے بہت سے کام کرنے تھے۔۔۔۔۔۔لیلی مجنوں کے کام نہیں۔۔۔۔۔۔
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔)(۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭
لینڈلیڈی سے اسے اس لڑکے کی ایک تصویر اور فون نمبر مل گیا تھا۔اس نے فون کیا تو فون بند ملا۔ شاید وہ نمبر بدل چکا تھا۔سوشل سائٹس پر ڈھونڈ ا تو وہاں بھی نہیں ملا۔وہ ملک سے باہر ہو سکتا تھا۔ یہ بھی ہو سکتا تھا کہ ا س نے غلطی سے ڈائری لے لی ہو پھر بعدمیں غیر دلچسپی سے یہاں وہاں پھینک دی ہو۔بلکہ ضائع ہی کر دی ہو۔ٹیولپ بھی خاموش تھا۔ ابوبکر بھی چپ چپ رہتا تھا۔
”تھوڑی دیر کے لیے فرض کر لیتے ہیں کہ ہمیں وہ ڈائری نہیں ملتی تو پھر؟؟ ”ابوبکر اس سے ملنے یونیورسٹی آیا تھا۔ لنچ کے بعد ‘ واک کرتے ہوئے’ اس نے اس سے پوچھا تھا۔
”تمہیں برا لگا؟” جواب میں وہ خاموش رہا تھا تو اس نے پوچھا۔
”نہیں۔۔۔۔۔۔”
”تم ڈائری کے خیال کو دل سے نکال نہیں سکتے؟وہ ڈائری تمہاری کل متاع نہیں ہے۔وہ بس تمہاری ایک کوشش ہے۔انسان کا سب کچھ تباہ ہو جائے تو بھی بہت کچھ سلامت رہتاہے۔اس کی ہمت اور آگے بڑھنے کا جذبہ۔”
”نارمل لوگوں کے لیے ایسی باتیں کرنا بہت آسان ہوتاہے۔”
”ابنارمل صرف وہی نہیں ہوتا ابوبکر جس میں جسمانی نقص ہوں۔ تمہیں کیا لگتا ہے کہ زندگی کی جنگ صرف تمہارے لیے مشکل ہے؟کیا یہ مجھ جیسے ۔۔۔۔۔۔چلو مجھے چھوڑو۔۔۔۔۔۔کیا یہ دوسرے مکمل انسانوں کے لیے آسان ہے؟غربت کی چکی میں پیسنے والا ہر وہ انسان جو رات دن جان توڑ محنت کرتاہے پھر بھی اسے دو وقت کی پیٹ بھر روٹی نصیب نہیںہوتی۔کیا وہ ابنارمل زندگی نہیں گزار رہا؟ملک سے بدر ہوئے سب رفیوجی جو کیمپوں میں پڑے ہوئے ہیں’ اور صرف یہ چاہتے ہیں کہ ان کے ملک کی خانہ جنگی تھم جائے اور وہ واپس اپنے گھروں کو لوٹ جائیں’ کیا وہ ابنارمل زندگی نہیں گزار رہے؟جو بچے یتیم ہو چکے ہیں’ جن نومولودوں کی مائیں مر چکی ہیں ‘ جن کے سروں پر سائبان نہیں’ جن کا کوئی سہارا نہیں رہا’ جو سالوں سے موذی بیماریوں سے لڑ رہے ہیں’کیا وہ ابنارمل زندگی نہیں گزارتے؟تمہیں کیا لگتاہے’ گونگا بہرا’ اندھا ‘ یا ہاتھوں سے معذورہونا ہی ابنارمل ہونا ہوتاہے؟ہم سب انسانوں کی زندگیاں کہیں نہ کہیں سے نامکمل ہیں ابوبکر! لیکن ہاں جہاں بہت بڑے بڑے خلاء ہوتے ہیں وہاں بہت کچھ موجود بھی ہوتاہے۔ سب کچھ کسی کے پاس بھی نہیں ہوتا ابوبکر!ہم سب کہیں ادھورے’ کہیں پورے’ کہیں دکھی اور کہیں سکھی ہیں۔۔۔۔۔۔اور یہی زندگی ہے۔۔۔۔۔۔”
ابوبکر یک ٹک اسے دیکھ رہا تھا۔ دونوں چلتے چلتے رک گئے تھے۔
”تم گونگنے بہرے نہیں ہو’بلکہ چند وجوہات کی بناء پر تم صرف بول نہیں سکتے۔تم نے ان لوگوں کے بارے میں سوچا ہے جو سرے سے سن ہی نہیں سکتے۔۔۔۔۔۔جنہوں نے کبھی کوئی آواز سنی ہی نہیں۔۔۔۔۔۔ سرجری کے ذریعے تمہاری زبان ٹھیک ہونے کے امکانات موجود ہیں’ لیکن ان کے بارے میں کیا کہو گے جو کسی بھی طرح کے علاج سے کوئی بھی آواز سننے کے لیے قابل ہی نہیں ہو سکتے۔۔۔۔۔۔چانس ہی نہیں ہے۔۔۔۔۔۔
زندگی تم پر بہت مہربان رہی ہے’ کیونکہ اس زندگی نے تمہیں اپنی ہر آواز سنائی ہے۔بارش کی بوچھاڑ’ٹریفک کا شور’ ماں کی لوری اور لاڈ’بچوں کے مترنم قہقہے’پرندوں کی چہکار۔۔۔۔۔۔اور یہ دیکھو۔۔۔۔۔۔مجھے۔۔۔۔۔۔”دونوں پیر جوڑ کر وہ اچھلی’ اور پیرو ں کو فٹ پاتھ پر زور سے رگڑا۔
”ایسی اوٹ پٹانگ آوازیں بھی ۔ جو مفت ہیں’ جن پر تمہارا پورا حق ہے۔زندگی نے تم سے کچھ چھپا کر نہیں رکھا۔ تمہیں سب دیاہے۔تمہارا ایک ہاتھ مفلوج ہے’ لیکن ایک کے ٹھیک ہونے کے امکانات ہیں’ آج نہیں تو کل یہ بھی ٹھیک ہو جائے گا۔”
”اتنی جلدی سب کچھ ٹھیک نہیں ہوتا۔”اس کی آواز میں کمزوری تھی۔ یہ اس کے ماضی کی تلخی تھی۔
”ہاں۔۔۔۔۔۔جلدی سے نہیں ہوتا معجزے سے ہوتاہے۔تمہیں اس معجزے تک اپنی ہمت اور کوشش کے ذریعے پہنچنا ہو گا۔ اپنی کم ہمتی سے تم اس روشن معجزے کو اندھیرہ کر دو گے۔ اس کی لو بجھا دو گے۔ہیلن کیلر نے پہلا جملہ کیا بولا تھا؟ جانتے ہو؟اس نے کہا تھا۔”میں گونگی نہیں ہوں۔”اس جملے کا مطلب جانتے ہو کیا تھا؟ اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ میرے پاس آواز ہے’ اس کا مطلب تھا کہ میرے پاس طاقت ہے۔ میں فتح یاب ہو چکی ہوں۔ میں اپنی کمزور ی کو مات دے چکی ہوں۔ میں ہیلن کیلر ‘میں ایک مکمل انسان ہوں۔ بیس سال اس نے اپنا ہاتھ اپنی ٹیچر کے ہونٹوں اور حلق پر رکھا تھا اور دنیا کا سارا علم نچوڑ لیا تھا۔ تم بیس مہینوں میں تھک گئے ہو؟”
ابوبکر لاجواب ہو چکا تھا۔
”ٹیولپ تمہاری مدد کے لیے آیا ہے’ لیکن سچ بتاؤ’ کیا تم خود ٹیولپ سے بڑا جادو نہیں ہو؟؟تمہاری ہمت اور حوصلہ ہی اصل ٹیولپ ہے۔ اب تک کی انسانی تاریخ میں کتنے بڑے بڑے جادو ہوئے ہیں۔کیوں اور کیسے؟ صرف اس لیے کہ انسان کے پاس ہر جادو سے بڑا ایک جادو ہوتاہے۔اس کی کوشش کا جادو۔اس کے جنون اور لگن کا جادو۔خود کو مکمل سمجھنے اور کبھی ہار نہ ماننے کا جادو۔امید اور یقین کا جادو’ دنیا کے ہر جادو سے بڑا ہے ابوبکر!اللہ نے ٹیولپ کو بھیجا لیکن کوشش کے لیے ہمیں ہی موجود رکھا۔ تم سے ملنے سے پہلے میں بہت عجیب تھی’ لیکن اب میں بھی بہت بدل چکی ہوں ابوبکر!زندگی آسائشیں پا لینے کا نام نہیں ہے۔کامیاب زندگی دولت اور شہرت’ کے گرد نہیں گھومتی۔کامیا ب زندگی اور کامیاب انسان تو وہ ہے جو پہلے خود مضبوط انسان بنے’ پھر دوسرے کمزور انسان کو مضبوط بننے میں مدد دے۔ یہ زندگی انسانیت کی خدمت کے علاوہ کچھ نہیں ہے ابوبکر! میری اور تمہاری زندگی’ یہ ایک دوسرے کو سہار ا دینے کا نام ہے۔یہی ہمارا مقصد ہونا چاہیے۔ہمیں اسی کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔”
ابوبکر چپ تھا۔ وہ رات تک چپ رہا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ کب اور کیسے وہ اتنا بدل گیا ۔ بچپن سے لے کر اس حادثے سے پہلے تک وہ بہت خوش اُ مید رہا کرتا تھا۔ اس نے کبھی خود کو گونگا نہیں سمجھا تھا۔اس کے بہت سے پلان تھے’ خواب تھے’ جنہیں وہ پورا کرنا چاہتا تھا۔ پھر کیسے ہاتھوں کی معذوری کے بعد اس نے خود کو ادھورا سمجھنا شروع کر دیا تھا۔ ہنسنا اور قہقہے لگانا ترک کر دیا تھا۔ اپنے خوابوں کو محدود کر لیا تھا۔وہ کیوں محسوس نہیں کر پایا تھا کہ اس پر مایوسی طاری ہوتی جا رہی ہے۔اس نے ہمت ہارنا شروع کر دی ہے۔ وہ خود کوزیرو سمجھنے لگا ہے۔
زندگی۔۔۔۔۔۔یہ تو ہمیشہ اس پر مہربان رہی تھی۔۔۔۔۔۔پھر وہ اس سے خفا کیوں ہوا؟
چند دنوں بعد وہ دوبارہ اس سے ملنے کے لیے گئی توابوبکر گھر پر نہیں تھا۔آنٹی نے بتایا کہ وہ قریبی گراونڈمیں فٹ بال کھیلنے کے لیے گیاہے۔
”جب وہ فٹ بال کھیلتاہے تو اکثر منہ کے بل گر جاتاہے’ اٹھنا اس کے لیے مشکل ہوتاہے’ لیکن پھر بھی وہ چلا گیا۔”آنٹی کی آنکھیں نم تھیں لیکن چہرے پر خوشی تھی۔وہ بھی یہی چاہتی تھیں کہ تکلیف سے گزرکر ہی سہی ابوبکر راحت پا لے۔ وہ خود کو زندگی میں شامل کر لے۔
”ساری ساری رات بیٹھ کر انہیں لکھتا رہتاہے۔پسینے سے بھیگ جاتاہے۔ تکلیف سے چہرہ سکڑ جاتاہے لیکن یہ تو پین کو انگلیوں میں پھنسا کر لکھتا ہی رہتاہے۔ ٹائپ کرنے کی کوشش بھی کر رہا تھا ۔”وہ اسے ابوبکر کے لکھے پیپرز دکھا رہی تھیں۔
اپنی گم شدہ ڈائری کو بھول کر وہ نئے سرے سے کچھ نہ کچھ لکھنا شروع ہو چکا تھا۔ ان پیپرز پرٹیڑھی میٹرھی چند پانچ سطریں لکھی ہوئی تھیں اور پہلی سطر تھی۔۔۔۔۔۔
”میں ایک مکمل انسان ہوں۔”
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔)(۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭
”ایسا تو نہیں کہ وہ یہ دنیا ہی چھوڑ چکا ہے؟” وہ خود سے ہم کلام تھی۔ اپنے لیے تھوڑی بہت کوکنگ کر رہی تھی۔
”تم کتنی آسانی سے موت کے بارے میں سوچ لیتی ہو۔ بہت بری بات ہے۔”
اچھی بات یہ تھی کہ پین میں ساس ڈالتے ہوئے’ ٹیولپ کے طنزیہ فقر ے کے بعد اسے ایک آواز سنائی دی۔
”میرے خیال سے میں بہرا نہیں ہوں’سن چکا ہوں کہ تمہیں نو بجے پک کرنا ہے۔ اگر تمہاری فلائٹ لیٹ ہوئی’ تو مجھ سے یہ توقع نہ رکھنا کہ میں وہاں بیٹھ کر تمہارا انتظار کروں گا۔۔۔۔۔۔ٹھیک ہے۔۔۔۔۔۔بائے۔۔۔۔۔۔”
وہ سمجھی ساتھ والے اپارٹمنٹ سے کسی کی آواز آرہی ہے ۔ اس نے آواز کو اگنور کر دیا۔ جب وہ برتن دھو چکی’ تو۔۔۔۔۔۔تو۔۔۔۔۔۔اسے یاد آیا کہ ساتھ والے اپارٹمنٹ میں کیا ‘ پورے فلور میں کوئی لڑکا نہیں رہتا ۔تو یہ آواز آئی کہاں سے آئی۔ کچن کاؤنٹرپر اس کا موبائل رکھا ہوا تھا۔ تو آواز ٹیولپ سے آئی تھی۔اس نے جلدی سے ٹیولپ کو دیکھا لیکن وہ بلینک تھا۔اس نے کوفت سے اسے پٹخ دیا۔ یہ کیا بات ہوئی۔ اب یہ کون تھا جو ایئر پورٹ جا رہا تھا’ یا جہاز سے آرہا تھا۔ وہی کرایے دار لڑکا یا یہ آواز ہی کسی اور کی تھی۔۔۔۔۔۔کون سے والے ”نو” کا کہا تھا۔صبح کے یا رات کے ۔۔۔۔۔۔دن کون ساتھا۔۔۔۔۔۔اس ہفتے یا اگلے ہفتے۔افف۔۔۔۔۔۔اس نے ٹیولپ کو اپنے منہ کے سامنے رکھا اور ایک تھپڑ کھینچ کر مارا۔ اگر ٹیولپ انسان ہوتا تو وہ اسے جاب سے بر خاست کر دیتی۔ بندہ پوری اور ٹھیک ٹھیک تفصیل دے۔ ورنہ نہ دے۔
وہ پریشان ہو چکی تھی۔ آج د ن کے نو تو گزر چکے تھے۔ رات کے نو بجے سے پہلے وہ آٹھ بجے ہی ایئر پور ٹ آچکی ہے۔وہ ادھر ادھر چل پھر کر لڑکے کو ڈھونڈنے کی کوشش کر رہی تھی۔نو سے گیار ہ بج گئے لیکن وہاں کوئی نہیں آیا۔
رات کو سونے سے پہلے اس نے صبح جلدی اٹھنے کے لیے الارم لگادیا ۔ صبح سنڈے تھا اور وہ بارہ بجے تک سوتی تھی لیکن اب اسے سات بجے اٹھ کر نو بجے سے پہلے ایئر پورٹ جانا تھا۔
وہ اگلے دن صبح ایئر پورٹ پہنچ گئی لیکن گیارہ بجے تک اسے وہاں کوئی نہیں ملا۔اس کے پاس کرایے دار کی جو تصویر تھی’ وہ اس تصویر کو اتنی بار دیکھ چکی تھی کہ اسے لگنے لگا تھا کہ اس کی اپنی شکل اس کرایے دار لڑکے جیسی ہو چکی ہے۔
وہ گھر واپس آئی اور رات کو پھر نو بجے سے پہلے’ ایئر پورٹ آگئی۔ اسے ہنسی بھی آرہی تھی اور رونا بھی۔ ہنسی اس لیے کہ اس کی زندگی کہاں سے کہاں آچکی ہے۔ رونا اس لیے کہ وہ منحوس آکر کیوں نہیں رہا تھا ۔۔۔۔۔۔
وہ منحو س آچکا تھا۔وہ پک کرنے کے لیے آیا تھا۔بار بار ریسٹ واچ کی طرف دیکھ رہا تھا۔نو بجنے میں ابھی پورے سات منٹ تھے کہ علیزہ نے اس کے بارہ بجا دئیے۔
”تم جسے پک کرنے آئے ہو’ اس کی فلائٹ پورے تیس منٹ لیٹ ہے۔ میں تم سے ملنے کے لیے آئی ہوں(جمائی لیتے ہوئے) اور میں ۔۔۔۔۔۔میں تمہارا یہاں تین سال۔۔۔۔۔۔مطلب تین دن سے انتظار کر رہی ہوں۔”
وہ حیران ہو کر اس عجیب و غریب لڑکی کی طرف دیکھنے لگا۔اس نے شاید تین دن سے کچھ کھایا پیا نہیں تھا اسی لیے بے چاری بہک گئی تھی۔
”تم مسز نوبیتا۔۔۔۔۔۔او ہ میرا مطلب مسز جارج کے گھر پے انگ گیسٹ رہ چکے ہو۔ وہاں تم نے ان سے کچھ بکس خریدی تھیں’ جن میں ایک ڈائری بھی تھی۔ مجھے وہ ڈائری واپس چاہیے کیونکہ وہ کسی اور کی ملکیت ہے۔ اور دیکھو! کوئی ہوشیاری نہ دکھانا۔میرے دو آدمی تم پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔”چوتھی جمائی کو بمشکل روکتے ہوئے اس نے بمشکل ہی کہا۔
لڑکے نے گردن موڑ کر آس پاس دیکھا اور پھر قہقہہ لگا دیا۔”کوئی پرانک کر رہی ہو ؟کیمرہ کہاں چھپا یاہے۔”
”میں تھپڑ ماروں گی اور وہ تمہارے منہ پر چھپے گا۔”وہ یہ کہنا چاہتی تھی’ لیکن کہہ نہیں سکی۔ ساری دنیا کے کام چھوڑ کر وہ اس کا انتظار کرتی رہی تھی اور اب وہ قہقہے لگا رہا تھا۔(پرانک تو میری زندگی کے ساتھ کیا گیا ہے ۔۔۔۔۔۔وہ بھی ٹیولپ کے ذریعے۔۔۔۔۔۔)
بہرحال دس منٹ کی بحث و تکرار کے بعد و ہ دونوں اگلے دن ایک جگہ مل بیٹھ کر بات کرنے کے لیے تیار ہو چکے تھے۔ اگلے دن جب وہ وقت مقررہ اس کے یونیورسٹی ڈیپارٹمنٹ گئی تو وہ گھاس پر سینے کے بل لیٹ کر’ لیپ ٹاپ پر کام کرر ہا تھا۔
”تم ڈائری لے آئے ہو۔۔۔۔۔۔؟”وہ گھاس پر اس کے سامنے بیٹھ گئی۔
”میں نے کب کہا تھا کہ میں ڈائری لاؤں گا۔”
”تم نے کہا تھا کل آنا اور لے جانا۔۔۔۔۔۔”وہ غصے سے اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔
”ہاں کہاں تھا۔۔۔۔۔۔کل آنا اور ”انکار” لے جانا۔۔۔۔۔۔میں ڈائری نہیں دوں گا۔دے دیا ”انکار”۔۔۔۔۔۔ اب جاؤ۔”
اس کا خون کھول کر رہ گیا۔یہ تو بد تمیزی کی انتہاء تھی۔”دیکھو کسی کی چیز پر پر ایسے قبضہ نہیں کرتے۔”
”میں نے کسی کی چیز پر قبضہ نہیں کیا۔ میں نے اس گھر کی مالکن سے ڈائری خریدی ہے۔ پیسے دئیے تھے انہیں۔”
وہ ٹھیک کہہ رہا تھا’ اس نے اسے چوری نہیں کیا تھا۔ قبضہ بھی نہیں کیا تھا۔ جیسے نیلامی میں لوگ چیزیں خرید کر ان کے مالک بن جاتے ہیں’ ویسے ہی وہ بن چکاتھا۔ اب اس سے کوئی بھی وہ ڈائری واپس نہیں لے سکتا تھا۔
”وہ ڈائری تمہارے کسی کام کی نہیں ہے’ لیکن وہ ابوبکر کے بہت کام کی ہے۔ وہ سرجری کروانا چاہتا ہے۔ زندگی میں آگے بڑھناچاہتا ہے۔”
”تو تم یہاں میرے سر پر کھڑی کیا کر رہی ہو۔ تم بھی آگے بڑھو۔۔۔۔۔۔شاباش۔۔۔۔۔۔”
غصے سے کھولتے ہوئے اس نے مٹھیاں پھینچ لیں اور بہت ضبط سے کہا۔” تم اس ڈائری کے بدلے میں کیا لو گے؟”
وہ حیران سا ہوا۔ خو د بھی اٹھ کر اس کے مقابل آکر کھڑا ہو گیا۔”تم کچھ بھی دے سکتی ہو۔۔۔۔۔۔کچھ بھی؟”
”میں کوشش کروں گی ۔ لیکن دیکھو بے وقوفوں کی طرح پیسے نہ مانگ لینا۔کوئی ایسا کام جو میں کر سکوں۔”
وہ ٹھوڑی کھجانے لگا۔شاید وہ سچویشن انجوائے کر رہاتھا۔”تم میری گرل فرینڈ سے میری بات کروا سکتی ہو؟”
”تم خود بات کر لو۔۔۔۔۔۔فون کر لو۔۔۔۔۔۔مریخ پر تو نہیں رہتی نا وہ۔۔۔۔۔۔؟”
” اس زمین پر نہیں رہتی۔۔۔۔۔۔مر چکی ہے نا وہ۔۔۔۔۔۔”
”تو تم بھی مر مرا جاتے۔” اس نے سوچا لیکن کہانہیں۔کہا اس نے یہ۔”مجھے مردہ لوگوں سے بات چیت کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔تم کچھ اور کہوں شاید میں وہ کر سکوں۔”
”یہ کر سکتی ہو تو ٹھیک ہے۔۔۔۔۔۔ورنہ بائے بائے۔۔۔۔۔۔” اس نے ہاتھ ہلایا۔
”ہائے ہائے۔۔۔۔۔۔”اس کا دل دہائی دیتے ہوئے دکھ سے لہرایا۔وہ سوچنے لگی۔ شاید ٹیولپ اس سلسلے میں کچھ کر سکے۔
”اچھا اپنی گرل فرینڈ کا نام وغیر ہ بتاؤ۔ یا کوئی تصویر دے دو ‘ میں کوشش کروں گی۔”
وہ حیرت سے اسے دیکھنے لگا۔ اسے توقع نہیں تھی کہ وہ ہاں کہہ دے گی۔اس نے جیب میں سے موبائل نکالا۔ گیلری تک گیا۔ ایک تصویر نکالی اور اسے علیزہ کے منہ کے سامنے کر دیا۔
”یہ ہے وہ۔۔۔۔۔۔”
اور آپ جانتے ہیں کہ ”وہ” کون ہے۔یہ وہ۔۔۔۔۔۔ وہ ہے جس کے کارڈز پڑھ کر علیزہ نے کہا تھا کہ وہ ایک سائنس دان یا ڈاکٹر بنے گی۔لیکن جو خود کشی کر کے ”مردہ” بن چکی تھی۔۔۔۔۔۔
اوہ۔۔۔۔۔۔”بے ساختہ اس کے منہ سے نکلا۔ تو اس کی اصل سزا یہ تھی۔اس نے اپنی پیشانی کو ہاتھ سے ٹھونکا۔
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔)(۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭
گھر آکر اس نے ٹیولپ پر لڑکی کا نام لکھا تھا۔اس پر ا س کی تصویر بھی رکھی تھی لیکن ٹیولپ نے کوئی رسپانس نہیں دیا تھا۔ وہ جانتی تھی کہ ایسا کچھ نہیں ہو سکتا۔وہ ایک مردہ لڑکی سے بات کرنا چاہتا تھا’ اور ٹیولپ مردہ لڑکی سے بات کروا نہیں سکتا تھا۔ اب ڈائری کا اصل مالک بھی وہی تھا۔وہ جس شرط پر چاہے’ اس شرط پر انہیں ڈائری واپس دے سکتا تھا۔وہ دھونس سے اس سے ڈائری واپس نہیں لے سکتے تھے۔نہ پولیس کے ذریعے نہ ہی عدالت کے ذریعے۔
وہ ابوبکر سے ملنے کے لیے گئی تو آنٹی ڈاکٹر سے فون پر بات کر رہی تھیں۔ وہ بہت پر جوش تھیں۔شاید ڈاکٹر نے انہیں کوئی اچھی خبر سنا دی تھی۔ ایک ماں کی زندگی کی سب سے بڑی خوشی اپنے بیٹے کو تندرست دیکھنے کی تھی۔انتظار تھا تو بس پیسوں کا۔اوربات صرف پیسوں کی بھی نہیں تھی۔بات اس کامیابی کی تھی جس کی ابوبکر کو اب ضرورت تھی۔ اس یقین کی تھی’ جو اس کے پاس موجود رہنا ضروری ہو گیا تھا۔ اس کی اپنی چیز۔۔۔۔۔۔اس کا اپنا کام۔۔۔۔۔۔اس کی اپنی قابلیت۔۔۔۔۔۔
کتنے ہی دن اور پھر ہفتے بھی گزر گئے لیکن کچھ نہیں ہوا۔نیویارک میں سردی بڑھ گئی تھی۔ ایک دن بر ف باری کے دوران ابوبکر اس سے ملنے کے لیے آیا ۔اس کی ناک اور آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔
”اتنی ٹھنڈ میں تم گھر سے باہر کیوں نکلے؟”
”ماما نے کہا چلنا پھرنا اچھا ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔”اس کے پاس بولنے کے لیے ایک یہی جھوٹ ‘ ایک یہی بہانہ رہ گیا تھا۔
اس نے لب پھینچ لیے۔” تو تم چلتے پھرتے میرے گھر تک ہی کیوں آتے ہو؟”(ویلے)
”اور کہاں جاؤں؟”اگر وہ منہ سے بول سکتا تو اس کی آواز میں بڑی معصومیت ہوتی۔۔۔۔۔۔اور۔۔۔۔۔۔ اور محبت بھی تو۔۔۔۔۔۔
اس نے ابوبکر کو لڑکی کی تصویر دکھائی ۔”یہ لڑکی مر چکی ہے’ اور ہیری اس سے بات کرنا چاہتاہے۔ پھر ہی وہ ڈائری دے گا۔”
ابوبکر چونک گیا۔” ابھی کل ہی تو ماما نے اس سے ویڈیو کال پر بات کی ہے۔اس کے فادر میرا کیس دیکھ رہے ہیں۔یہ اپنے فادر کے مریضوں کی کالز وغیرہ اٹینڈ کرتی ہے۔ ان کا ریکارڈ دیکھتی ہے اور میٹنگ ارینج کرواتی ہے۔”
وہ حیران ابوبکر کی شکل دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔۔”وہ اس سے ملتی جلتی کوئی اور لڑکی ہو گی۔”
ایسا ہو سکتا تھا’ لیکن اس تصویر کو غور سے دیکھو۔ اس لڑکی کے کان پر زخم کا نشان نمایاں نظر آرہا ہے۔ جو لڑکی ہم سے بات کرتی ہے اس کے کان پر بھی ایسا ہی نشان ہے۔”
اسے یاد تھا کہ اس کے کان پر چوٹ کا نشان بہت نمایا ں تھا ۔ یہ کسی بچپن کی چوٹ کا نشان تھا۔وہ حیران پریشان ابوبکر کو دیکھ رہی تھی۔اس نے ابوبکر کا فون نکالا اور لڑکی کو اسی وقت ویڈیو کال کی۔ کال پک کر لی گئی’ اور ۔۔۔۔۔۔
”ہیلو مسٹر ابوبکر!آپ کی اپائنٹ منٹ کل صبح دس بجے کی ہے۔ اس وقت آپ سے بات نہیں ہو سکتی۔”
علیزہ نے ایکدم سے اپنا چہرہ فون کے سامنے کر دیا۔ ” میں تمہیں یاد ہوں۔۔۔۔۔۔علیزہ۔میں شکاگو میں ہوتی تھی۔ تم اپنی فرینڈ کے ساتھ میرے پاس آئی تھیں۔ تم نے کہا تھا کہ میں تمہارے لیے کارڈ پڑھوں۔میں نے کہا تھا کہ تم بہت بڑی ڈاکٹر بنو گی۔۔۔۔۔۔یاد ہے۔۔۔۔۔۔ یاد کرو ۔۔۔۔۔۔”
وہ ایکدم سے پریشان سی ہو گئی۔ ”کون ہو تم۔۔۔۔۔۔؟”
”زیادہ پرانی بات نہیں ہے۔۔۔۔۔۔میں بھی ہائی اسکول میں تھی اور تم بھی۔تم دلبرداشتہ ہو گئی تھی اورتم نے خود کشی کر لی تھی۔تم مر گئی تھی۔۔۔۔۔۔”
”اوہ ہاں۔۔۔۔۔۔میں تو مر گئی تھی۔۔۔۔۔۔”
”تو اب تم زندہ کیسے ہو گئی ہو؟”
وہ زندہ ہی تھی۔ باپ پر پریشر ڈالنے کے لیے اس نے خود کشی کی تھی۔لیکن باپ نے اسے بر وقت بچا لیا تھا۔پھر وہ نیوزی لینڈ چلے گئے تھے۔اپنی خود کشی کی خبر اس نے خود ہی بڑھا چڑھا کر پھیلا دی تھی۔وہی ٹین ایجرز کی بے وقوفانہ(منحوسانہ) حرکتیں۔ اس کے باپ نے اسے میوزک اسکول جانے کی اجازت دے دی تھی۔ لیکن میوزک کا بھوت چار چھ مہینے میں اتر گیا تھا۔وہ باپ کی خواہش کے مطابق سائنس پڑھنے لگی تھی۔وہ ڈاکٹر بن رہی تھی اور ساتھ ساتھ اپنے ڈاکٹر با پ کے لیے کام بھی کر رہی تھی۔
”تمہارا بوائے فرینڈ ہیری بھی کہہ رہا تھا کہ تم مر چکی ہو۔”
” اس سے جان چھڑانے کے لیے ایک خود کشی کا ڈرامہ میں نے اس کے ساتھ بھی کر دیا تھا۔”
اچھی ڈرامے باز لڑکی تھی وہ۔۔۔۔۔۔ جان پر کھیل کھیل کر جان چھڑا رہی تھی۔
”ا ب میری بہن! ایک بار اور جا ن پر کھیل کر ‘ میری جان بھی آزاد کروا دو۔ وہ تم سے بات کرنا چاہتا ہے۔ تم اس سے بات کر لو’ اور ہمیں ہماری ڈائری دلوا دو۔”
معاملات طے ہو گئے۔۔۔۔۔۔آئیے آگے دیکھتے ہیں کیا ہوا۔۔۔۔۔۔
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔)(۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭
جیسے کانووکیشن تقریب کے لیے اسٹوڈنٹس تیار ہو کر ‘ بن ٹھن کر جاتے ہیں۔ ایسے ہی وہ دونوں تیار شیار ہو کر ہیری کے پاس یونیورسٹی ڈائری لینے پہنچ گئے تھے۔ ابوبکر نے آج سرمئی رنگ کا نیا کوٹ پہنا تھا۔ اس نے بھی ایک عدد نئی جیکٹ پہنی تھی۔ پاپا نے اسے کچھ پیسے بھجوائے تھے’ جس سے اس نے شاپنگ کر لی تھی۔ آج اسے یقین تھا کہ کام بن جائے گا۔
”میں نے تمہاری مردہ گرل فرینڈ سے سارے معاملات طے کر لیے ہیں’ اب تم جب چاہو اس سے بات کر سکتے ہو۔”علیزہ کے اندا زمیں بڑی اتراہٹ تھی۔جیسے وہ ڈائری لینے نہیں ”گولڈ میڈل” لینے آئی ہو۔
”اچھا۔۔۔۔۔۔کیا واقعی۔۔۔۔۔۔”وہ بر گر کھا رہا تھا۔وہی کھاتارہا۔
”ہاں۔۔۔۔۔۔تم ڈائری لے آنا۔مجھے چیک کروا دینا۔ ہم دیکھیں گے کہ وہ اصلی ہے یا نہیں۔میں اسی وقت تمہاری اس سے بات کروا دوں گی۔”
وہ بے یقینی سے اسے دیکھ رہا تھا۔ ” کیا واقعی۔۔۔۔۔۔”( اسے ہنسی بھی آرہی تھی)
”ہاں میرے باپ۔۔۔۔۔۔ہاں میرے دادا۔۔۔۔۔۔تمہارے لیے میں نے ایک مرے ہوئے انسان کو ڈسٹرب کیا ہے۔اسے بات کرنے پر آمادہ کیا ہے۔ اب تمہیں یقین کیوں نہیں آرہا۔” اس نے عاجز آکر جھنجلا کر کہا۔
برگر چباتے چباتے وہ رک گیا۔ تھوڑا سا چونک گیا۔” میں نے مذاق میں کہا تھا’ تم نے واقعی شرلا سے رابطہ کر لیا ہے؟”
” وہ سب میں نہیں جانتیں۔ میرا اس سے رابطہ ہو چکا ہے۔ تم ڈائری دو’ اس سے بات کرو اور ہمیں آزاد کرو۔”
” میں نے تم دونوں کو قید ہی کب کیا ہے بھئی۔ اچھا کیا ابھی ایک گھنٹے میں میری اس سے بات ہو سکتی ہے۔ میں اپنے ڈروم روم سے ڈائری لے کر آتا ہوں۔”
”ہاں جاؤ ۔۔۔۔۔۔ڈائری لے آؤ۔۔۔۔۔۔اور جلدی آنا۔”
وہ ایک گھنٹے کی بجائے تیس منٹ میں واپس آیا تھا۔تب تک وہ دونوں ایک ایک برگر کھا چکے تھے۔ان کے چہروں پر بڑا اطمینان تھا۔ ابو بکر تو مسکرا بھی رہا تھا۔لیکن علیزہ کا دل دھڑک رہا تھا۔ کوئی بھی چار سو بیسی ہو سکتی تھی۔
”یہ رہی تمہاری ڈائری۔۔۔۔۔۔اب شرلا سے رابطہ کرو۔” اس نے ذرا دور سے چلا کر کہا۔
”ڈائری کو کھول کر دکھاؤ۔ پوری بھی ہے یا نہیں۔”
وہ ڈائری کے صفحے کھول کھول کر لہرانے لگا۔ ابوبکر نے ہاں میں سر ہلایا تو علیزہ نے اطمینان کا سانس لیا۔دل تو اس کا چاہ رہا تھا کہ چکما دے کر اس کے ہاتھ سے ڈائری چھین لے ۔۔۔۔۔۔لیکن۔۔۔۔۔۔
”اگر میری شرلاسے بات نہ ہوئی تو میں اسے ابھی جلا دوں گا۔ سمجھیں۔مجھے پاگل بنانے کی بالکل ضرورت نہیں ہے۔”اس نے لائٹر نکال کر انہیں دکھایا۔
” یہ کوئی فلم نہیں ہے’ جہاں دھوکا دہی’ جعلسازی وغیرہ ہو گی اور انجام میں سچ کی جیت ہو گی۔ میں تمہیں پہلے شرلا کی آواز سنواؤں گی۔ پھر اسے دکھاؤں گی بھی ‘یعنی ویڈیو کال۔۔۔۔۔۔ پھر تم یہ ڈائری دے دینا۔پھر وہ میرے اشارے پر تم سے مزید بات کرے گی۔ اوکے؟”
”اوکے۔۔۔۔۔۔”اس نے سر ہلایا۔
اس نے کال ملائی’ شرلا آن لائن آئی۔ جو لڑکی مرنے کے اتنے ڈرامے کر چکی تھی’ وہ مرنے کے بعد کے بھی کر سکتی تھی۔ اس نے سفید ڈریس پہن لیا تھا۔ بال کھلے ہوئے تھے۔ پیچھے کا ماحول بڑا ہی دھواں دھواں ‘ خواب ناک سا تھا۔ علیزہ نے بمشکل اپنی ہنسی چھپائی۔ پہلے اس نے بہت اخلاق کے ساتھ”روح” سے سلام دعا کی۔ پھر اس نے فون کو گھما کر ہیری کی طرف کیا۔ اس کا رنگ فق ہو گیا۔وہ اپنی جگہ سے ہل ہی نہیں سکا۔
” مم۔۔۔۔۔۔ میں سمجھا تم مجھے پاگل بنا رہی ہو۔ میں بھی انجوائے کرنے کے لیے تمہارے ڈرامے کا حصہ بن گیا۔ لیکن یہ تو سچ میں۔۔۔۔۔۔” وہ ہکلانے لگا۔
پھر علیزہ نے فون اس کے ہاتھ میں دیا اور ڈائری اس کے ہاتھ سے لے لی۔ ”یہ لو اور جتنا دل چاہتا ہے روح سے بات چیت کو انجوائے کرو۔چاہو تو اسکرین میں ہاتھ ڈال کر اس کا گلا دبا دو۔۔۔۔۔۔”
شرلا نے اپنے مرنے کا ڈرامہ اتنی شفافیت سے کھیلا تھا کہ اس کے زندہ ہونے کا گمان بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ وہ بے چارا ہکا بکا شرلا کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔۔ایسے جیسے دیکھتے دیکھتے ہی مر جائے گا۔۔۔۔۔۔
پانچ منٹ کی بات کے بعد ظاہر ہے کہ اسے معلوم ہو گیا تھا کہ سچ جھوٹ کیا ہے۔گلے شکوے شروع ہو گئے۔ دو بچھڑے ہوئے دوبارہ سے مل گئے تھے۔علیزہ نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھا۔
”میرا فون واپس کر دو’ اور اپنے فون سے اس ”روح” سے باتیں کر لو۔ہمیں اب اجازت دو’ خدا حافظ۔۔۔۔۔۔”
جس وقت وہ ہیری سے اپنا فون لے رہی تھی’ اس وقت ابوبکر گھاس پر جوش سے بھاگ رہا تھا۔۔۔۔۔۔جیسے بچے جہاز بن کر بھاگتے ہیں نا۔۔۔۔۔۔پتنگ کی طرح اڑان بھرنے کے انداز میں۔۔۔۔۔۔ وہ ڈائری کو اس کی کوٹ کی جیب میں ڈال چکی تھی۔ وہ خوش تھا اور اس کا چہرہ دمک رہاتھا۔یہ کامیابی معمولی تھی یا غیر معمولی’ لیکن یہ اس کی زندگی میں تبدیلی لانے والی تھی۔پھول بے رنگ ہی کیوں نہ ہو ‘ وہ پھول ہوتاہے۔ زندگی مشکل ہی کیوں نہ ہو،زندگی ہوتی ہے اور ہر مشکل کے بعد آسان ہو ہی جاتی ہے۔انسان کو بس ایک کام کرنا آناچاہیے’ہر صورتحال کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا۔۔۔۔۔۔ہر د ن مسکرانا ۔۔۔۔۔۔ہر پل”جینا”۔۔۔۔۔۔ 🙂
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔)(۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭
زندگی ایک د م سے نہیں بدل جاتی ۔یہ ٹریک سے اُترتی ہے تو اسے ٹریک پر آنے میں وقت لگتا ہے۔یونیورسٹی سے آنے کے بعد وہ ابوبکر کے گھر جایا کرتی تھی۔ وہ بولتا تھا ‘ اور وہ لکھتی تھی۔ اس کی کتاب ادھوری تھی۔ وہ اسے مکمل کر رہی تھی۔ غیر ضروری چیزیں نکال رہی تھی۔اکثر لفظوں اور جملوں پر ان کی تکرا ر ہو جاتی تھی’ لیکن کرتی وہ اپنی مرضی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ اس کتاب پر اس کا بھی حق ہے۔ ابوبکر اس کے حق کو تسلیم کر لیتا تھا۔وہ اسے بھی تسلیم کر چکاتھا اور اس بات کو بھی وہ اس کے ساتھ موجود ہے۔۔۔۔۔۔اور شاید ہمیشہ رہے۔۔۔۔۔۔
کتاب مکمل ہو چکی تھی لیکن وہ شائع نہیں ہو رہی تھی۔ میں نے کہا نا’ زندگی میں ہر کام اتنا آسان نہیں ہوتا۔ قدم قدم پر پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔بڑی تکلیفیں سہنی پڑتی ہیں۔ مشکلوں کی کڑیاں کاٹنی پڑتی ہیں۔کہیں تاریک جنگلوں اور دلدلی راستوں سے گزرنا پڑتا ہے اور کہیں پہاڑوں کو سر کرنا ضروری ہو جاتاہے۔۔۔۔۔۔پھر کہیں کامیابی کا دروازہ ”وا” ہو تاہے۔۔۔۔۔۔
کتنے ہی پبلشرز اس کے مسودے کو ر د کر چکے تھے۔ اب وہ پریشان ہوتی تھی لیکن ابوبکر ہنس دیا کر تا تھا۔ ظاہر ہے کہ وہ بدل چکا تھا۔ بات صر ف ڈائری کے ملنے کی نہیں تھی’ اس نے اس سے پہلے ہی خود کو بدل لیا تھا۔اپنے آپ کو پا لیا تھا۔ٹیڑھی میٹری لکھائی سے اس نے ایک عدد لمبا نوٹ لکھ لیا تھا جس میں اس نے لکھا تھا کہ
” یہ میری کتاب ہے’ میں نے لکھی ہے’ آپ اسے شائع کرنے میں دلچسپی لیں گے؟ہاں اور ناں کا فیصلہ اسے ایک بار پڑھ کے بعد کیجئے گا۔اس سے پہلے اسے رد مت کیجئے گا۔شکریہ۔”
وہ ایک سے دوسرے پبلشر کے پاس جا رہا تھا۔ اپنا مسودہ انہیں دے رہا تھا۔ناکامی پر کچھ دیر کے لیے منہ بھی لٹکا لیتا تھا’ لیکن پھر اگلے دن گھر سے نکل جایا کرتا تھا۔چند مہینوں کی جان توڑ کوشش کے بعد ایک این جی او نے ان کی تھوڑی سی مدد کی تھی اور انہیں ایک پبلشر تک رسائی دے دی تھی کہ وہ ان سے معاملات طے کرنے کی کوشش کر کے دیکھ لیں۔۔۔۔۔۔
معاملات طے پا گئے۔۔۔۔۔۔
کتاب آئی اور چھا گئی۔۔۔۔۔۔
ایسا نہیں ہوا تھا۔وہ ہفتوں اور مہینوں میں سست روی سے کامیاب ہو ئی تھی۔ شروع میں ایک مقامی نیوز پیپر نے اس پر چھوٹا سا تبصرہ کیا تھا۔اگلا تبصرہ پانچ مہینے بعد آیا تھا۔جب کتاب نے آہستہ آہستہ کامیاب ہونا شروع کر دیا تھا۔
اس دوران ابوبکر کاسن بازو کچھ کچھ کام کرنے لگا تھا۔کیونکہ اس کا آپریشن کامیاب رہا تھا۔ فزیو تھراپسٹ کا کہنا تھا کہ وہ جلد ہی نارمل لوگوں کے ہاتھ کی طرح حرکت کرنے لگے گا۔آپریشن سے بہت پہلے ‘ تکلیف سے گزر کر ہی سہی لیکن ابوبکر نے بازو کو حرکت دینا شروع کر دیا تھا۔ ہر بار جب وہ بازو کو معمولی سی حرکت بھی دیتا تھا تو تکلیف سے اس کی رگیں تن جاتی تھیں ۔اس کی آنکھیں نم ہو جاتی تھیں لیکن وہ اس تکلیف کو اپنی زندگی میں خوش آمدید کہہ چکا تھا۔
اس وقت تک اس کی کتاب کی شہرت بڑھنے لگی تھی۔اسے لیکچر ز کے لیے بلایا جاتا تھا۔ اس نے ادبی فیسٹول میں شرکت بھی کی تھی۔ وہ پھر سے موبائل ایپ کے استعمال سے بولنے لگا تھا۔وہ مائیک پر لیکچر بھی ایسے ہی دیتا تھا۔ وہ خوش تھا۔ وہ مطمئن تھا۔ جہاں نارمل اور مکمل لوگ ڈیپریشن کا شکار تھے’ وہ ادھورا ہو کر بڑا شاکر تھا۔وہ جان گیا تھا کہ جب ہم کسی بڑی تکلیف یا کسی مشکل سے گزرتے ہیں تو پھر ”مثال” بن کر ابھرتے ہیں۔ وہ مثال بن چکا تھا۔
”یہ کتاب لکھی اس نے ہے’ لیکن اسے ڈھونڈا میں نے ہے۔مکمل بھی کروایا ہے۔ ” پاپا ابوبکر کا لیکچر سننے کے لیے آئے تھے۔ اس نے جھک کر ان کے کان میں کہا تھا ۔وہ دونوں پہلی رومیں بیٹھے تھے۔پاپا ابوبکر سے بڑے متاثر تھے۔ کتنی ہی بار اس کی کتاب پڑھ چکے تھے۔
”بیٹا اتنی لمبی لمبی نہیں چھوڑتے’ مسافر وں کی ٹرینیں چھوٹ جاتی ہیں۔”
”آپ کی کبھی چھوٹی۔۔۔۔۔۔؟” و ہ چڑ گئی۔ اس کے سگے پاپا تک یقین کرنے کے لیے تیار نہیں تھے کہ اس کتاب کو حاصل کرنے میں اس کا بھی کوئی کمال ہو سکتاہے۔
”تمہیں اپنا کمال ثابت کر کے کون سا ایورڈ لینا ہے؟” ٹیولپ پر لکھا تھا۔ اچھا تو ٹیولپ طنز بھی کر سکتا تھا۔
”کوئی کمال کر ہی دکھایا تو شکر ادا کرو کہ اللہ نے کسی اچھے کام کے لیے تمہارا انتخاب کیا ہے۔ چپ رہو اور پھر بھول جاؤ۔۔۔۔۔۔”ٹیولپ اچھے سبق بھی دے سکتا ہے۔ وہ بے ساختہ مسکرانے لگی۔
”تم نے اپنے ان فرینڈز کا ذکر کیوں نہیں کیا’ جنہوں نے تمہارے ساتھ فراڈ کیاتھا۔ تمہیں ساری دنیا کو بتانا چاہیے کہ لوگ کتنے برے ہیں۔”اس دن اس کا ٹی وی پر انٹرویو تھا۔ اور اس نے بس اچھی اچھی باتیں ہی کیں تھیں۔ جبکہ وہ شکوہ کر رہی تھی۔
”میں بھی تو برا ہوں اور تم بھی۔اگر انہوں نے میرے ساتھ فراڈ کیا تھا تو بدلے میں اللہ نے میرے لیے معجزہ بھی تو کیا ۔”ٹیولپ” کا۔ جب اللہ نے ہر طرح سے میری مدد کر دی تو میںان چند لوگوں کی دھوکے بازی کا شکوہ کیوں کروں؟پھر اگر میں سب کے چہروں سے نقاب اتارنے لگا تو یہ دنیا بہت بد صورت ہو جائے گی۔ کیونکہ ہم سب ہی کسی نہ کسی نقاب کے پیچھے چھپے ہوئے ہیں۔”
اسی لیے اس کی کتاب اتنی زیادہ پسند کی جار ہی تھی کیونکہ وہ احساسات کی کہانی تھی۔” بے حسی ” کی نہیں۔
اس کا اگلا آپریشن زبان کا تھا۔وہ نیوزی لینڈ جا چکا تھا۔ایگزمز کے بعد اسے بھی گھر واپس چلے جانا تھا لیکن ۔۔۔۔۔۔
اس کے واپس جانے سے کچھ دن پہلے۔۔۔۔۔۔ایک واقعہ ہوا۔۔۔۔۔۔چھوٹا سا۔۔۔۔۔۔
وہ رو ڈ کراس کر رہی تھی’ بارش ہو رہی تھی۔چھاتا اس کے ہاتھ میں تھا’ اور کوئی بہت شدت سے’ پوری قوت سے اس سے ٹکرایا تھا۔ وہ گھوم کر گر گئی تھی۔۔۔۔۔۔ چھاتا بھی دور جا گرا تھا۔۔۔۔۔۔اورکسی کا دل اس کے قدموں میں۔۔۔۔۔۔
”تمہیں چو ٹ تو نہیں آئی؟مجھے تمہیں ایسے گرا کر کوئی خوشی تو نہیں ہوئی’ لیکن کیا کروں’ سوچا کچھ پرانی یادوں کو تاز ہ کر لینا چاہیے۔”
پرانا انسان’ نئے انسان میں بدل گیا تھا۔ اس بار اسے اٹھنے میں مدد دینے کے لیے اس نے اس کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا تھا۔اس کی آواز خوبصورت تھی۔ اسے بولنے میں دقت ہوئی تھی لیکن شاید وہ اس فقرے کی بہت زیادہ مشق کرتا رہا تھا۔کراسنگ پر گرے ہوئے وہ یک ٹک اسے بولتے ہوئے سن رہی تھی۔اس کے بھیگے بالوں سے بوند یں گرتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔ وہ آج بھی چھاتا نہیں لایا تھا۔۔۔۔۔۔کیوں۔۔۔۔۔۔کیونکہ اپنے اکلوتے ہاتھ کو اسے علیزہ کی طرف بڑھانا تھا۔
” تم واپس کب آئے؟تمہاری سرجری کامیاب رہی۔”اس کا ہاتھ تھام کر وہ اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔
”ہاں۔۔۔۔۔۔میں نے کہا نا! میرے پاس دو ہی چیزیں تھیں جن پرمجھے یقین رکھنا تھا۔ ایک اپنی گویائی پر ایک اپنی کتاب پر۔اللہ نے میرے دونوں یقین کامل کیے۔”
وہ بڑے دل سے مسکرائی۔ابوبکر نے سر اٹھا کر بارش برساتے آسمان کی طرف دیکھا۔ ا ب وہ گنگنا سکتا تھا۔
”آج بادل بھی مجھ سے کوئی داستان کہنے آئے۔۔۔۔۔۔آئے۔۔۔۔۔۔آئے۔۔۔۔۔۔”
اس نے علیزہ کی کمر میں اپنا بازو حمائل کیا تو علیزہ نے اپنی چھتری کو اوپر اٹھا کر اس پر سایہ کر دیا۔۔۔۔۔۔
ٹیولپ پر ایک دل بن کر ابھرا۔۔۔۔۔۔یہ دو دل تھے’ جو مل کر ”ایک ” ہو چکے تھے۔۔۔۔۔۔
میں نے کہا تھا نا۔”زندگی ساحر ہے اور ہم اس کا ”جادو”۔
علیزہ کی جیب میں رکھا ٹیولپ جگمگ جگمگ کرنے لگا تھا۔۔۔۔۔۔اس کا کام مکمل ہو چکا تھا۔۔۔۔۔۔
تو اب ” ٹیولپ” کیا کرے گا؟؟کہاں جائے گا؟
پریشان نہ ہوں۔۔۔۔۔۔وہ جا رہا ہے۔۔۔۔۔۔کسی اور علیزہ اور ابو بکر کے پاس۔۔۔۔۔۔شاید آپ کے پاس۔۔۔۔۔۔
ورنہ یقینا میرے پاس۔۔۔۔۔۔ 🙂
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔)(۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭ّ

2 Comments

Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

You are commenting using your WordPress.com account. Log Out /  Change )

Twitter picture

You are commenting using your Twitter account. Log Out /  Change )

Facebook photo

You are commenting using your Facebook account. Log Out /  Change )

Connecting to %s

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.