تحریر:شازیہ خان
کور ڈیزائن: طارق عزیز
__________________
قسط نمبر 4
” سنو ! سامعہ عمر بات کر رہا ہوں پلیز فون بند مت کرنا ” دوسری طرف سے عمر کی آواز نے سامعہ کو ایک لمحہ ساکت کر دیا ۔۔۔۔”
“پلیز سامعہ صرف دو منٹ میری بات سن لو اس کے بعد اگر نہیں چاہو گی تو ساری عمر بات نہیں کروں گا۔ ”
اس کی التجا نے سامعہ کے پگھلے ہوئے دل کو مزید پگھلا دیا ۔
۔” آج دل پربہت جبر کر کے فون کر بیٹھا یار برداشت نہیں ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ آپ جن سے بہت محبت کرتے ہیں ان کی خوشی اور غم دونوں اہمیت رکھتے ہیں۔ تمہارے بھائی کی موت ایک ایسا سانحہ ہے جس سے مجھے بھی بہت دکھ ہوا۔”
وہ کہتے کہتے رکا ۔۔۔۔ سامعہ دم بہ خود اس کی آواز سُن رہی تھی ۔۔۔ نہ جانے کیسا سحر تھا اس کی آواز میں وہ مسحور سی ہو گئی یا شاید اس وقت اُسے ایسے ہی کسی شخص کی ہمدردی کی ضرورت تھی ۔ کبھی کبھی ہمیں ہمارے ٹوٹے ٹکڑے جوڑنے والے سے بھی انس ہو جاتا ہے ۔۔۔ اور عمر سے تو وہ کہیں نہ کہیں غائبانہ انسیت محسوس کرتی ہی تھی۔ یہ اور بات تھی کہ سیما نے اس کے اندر عمر کی طرف سے بہت غلط باتیں بھر دی تھیں۔ جو اب یوں چھٹ رہی تھیں جیسے پانی پر سے کائی۔ چاہتی تھی کہ وہ بولتا رہے اور وہ سُنتی رہے ۔۔۔۔
”
میں تمہارے گھر آیا تھا ” عمر نے اس کے سرپر دھماکہ کیا۔
” کب “۔
وہ ہکا بکا رہ گئی ۔۔۔۔
” تمہارے بھائی کے سوئم پر سیما کو لے کر میں ہی آیا تھا۔ لیکن تم سے ملاقات نہ ہو سکی تھی ۔”
یہ خبر اس کے لیے بہت بڑی تھی ۔۔۔۔
” لیکن سیما نے تو نہیں بتایا “۔
“ہاں کیوں کہ وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس غم کے موقع پر میں تم سے ملوں۔ لیکن میں تم سے ملنا چاہتا تھا ۔ایک اچھے دوست کی طرح تمہارا غم بٹانا چاہتا تھا ۔”
وہ بے تابی کی انتہا پر تھا۔ اوراس کی یہ بے تابی سامعہ کے دل کے سمندر میں کہیں دور ہلکی ہلکی لہریں پیدا کر رہی تھی ۔ ایک عجیب سی لرزش جسے کوئی نام دینے کے لئے اسے لاکھ جتن کرنے پڑ رہے تھے ۔۔۔۔
” آپ کیوں آئے تھے اباجی کو پتا چل جاتا تو ناراض ہوتے ۔”
اس نے دل کا خدشہ ظاہر کیا ۔۔۔ میں اس وقت سیما کے کزن کے طور پر آیا تھا۔۔۔۔ا ور تمہارے ابا جی کو کیا پتا کہ میں ان کی بیٹی کے لئے اپنے دل میں کیا جذبہ کھتا ہوں ۔”
لیکن پھر بھی یہ غلطی دوبارہ نہ کیجئے گا آپ میرے ابا جی کو نہیں جانتے۔ انہیں اگر ذرا سی بھی بھنک پڑ گئی تو وہ بہت ناراض ہوں گے ۔”
سامعہ کے دل میں ڈر بیٹھ گیا۔ کہ اگر کبھی دوبارہ اس نے ایسی حرکت کر ڈالی تو اس کی خیر نہیں ۔۔۔۔
۔” سنو سامعہ ایک بات کہوں ؟ ”
عمر اس فون کو رائیگاں نہیں جانے دینا چاہتا تھااور جلد از جلد اپنی تمام گوٹیاں کھیل رہا تھا ۔۔۔۔
” جی کہیئے؟”
میں کسی سے نہیں ڈرتا بچپن سے اب تک جو چیز چاہی حاصل” کر لی ۔۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ پہلی بار کسی لڑکی سے سچی محبت ہوئی ہو اور میں اس کے ابا جی یا دوسری چیزوں سے ڈر کرہتھیار پھینک دوں ۔ یہ خیال تو دل سے نکال دو کہ میں کسی طرح بھی تم سے لا تعلق رہ سکتا ہوں ۔۔۔ تم مجھ سے بات کرو یا نہ کرو لیکن اپنے دل میں میری محبت محسوس کرو گی ہمیشہ ۔۔۔۔ کیوں کہ سچی محبت اپنے آپ خود بہ خود منوا لیتی ہے ۔ ۔۔۔اور مجھے بھی یقین ہے کہ میری سچی محبت تمہارے دل میں میرا وجود تسلیم کروا کر چھوڑے گی ۔۔۔۔ یہ جو ڈر ہے نا کسی وقت ختم ہو جائے گا ۔۔۔۔
بہت محبت کرتا ہوں تم سے۔ اور تمہارے لیے بہت تڑپ محسوس کرتا ہوں۔ مجھے نہیں پتا کہ سیما نے تمہارے دل میں میری طرف سے کیسی بدگمانی ڈالی ہے لیکن اگر اس نے ایسا کیاہے۔ تو بہت بُرا کیا۔۔۔ میں نے تو صرف اس سے اتنا کہا تھا کہ مجھے تم سے محبت ہو گئی ہے ۔۔۔ اور وہ حسد کرنے لگی ۔ تمہارے بارے میں الٹی سیدھی باتیں کرنے لگی ۔۔۔ لیکن میں سمجھ گیا کہ اس نے ایسا کیوں کیا؟ ۔۔۔۔ کیوں کہ وہ خود مجھ سے شادی کرنا چاہتی ہے اور جب میں نے اُسے انکار کیا تو ۔۔ اس بات کابدلہ اس نے تمہیں بہکا کر لیا۔ ”
وہ اندھیرے میں تیر چلا رہا تھا اور اس کے سارے تیر نشانے پر جا کر لگے۔ سامعہ نے اس انداز میں تو سوچاہی نہ تھا۔ عمر کی ہر بات سچ بن کر اس کے دل پر اثر کر رہی تھی۔۔
۔ “خیر میری اتنی ساری باتوں کے باوجود بھی تمہیں مجھ پر اعتبار نہیں تو میں تمہیں آج کے بعد کبھی فون نہیں کروں گا۔۔۔۔ اور اگر اعتبار آجائے تو مجھے کال کر لینا میری محبت تمہارے فون کا انتظار کرے گی ۔”
یہ کہہ کر اس نے اس یقین کے ساتھ فون رکھ دیاکہ اگر اب بھی اس نے فون نہ کیا تو پھر کیا کیا جا سکتا تھا۔۔۔ وہ اپنی تو پوری کوشش کر چکا تھا ۔۔۔ اور پھر پانچ منٹ بعد ہی سامعہ کی کال نے اس کے یقین کو مضبوطی بخش دی ۔ عورت کو بس دو لفظوں سے پگھلایا جا سکتا ہے لیکن بے وقوف مرد یہ نہیں جانتا کہ عورت کے پگھلنے کا باعث اس کے دو لفظ نہیں بلکہ اس کے اپنے اندر کی آوازبھی ہوتی ہے ۔ وہ خود کبھی کبھی پگھلنا چاہتی ہے مرد کی جھوٹی بات پر بھی یقین کرنا چاہتی ہے۔ سامعہ نے بھی اس وقت آنکھیں بند کر کے عمر پر اعتبار کر لیا۔۔۔ اور پھر اس رات کے بعد دونوں کے درمیان ہر رات بات ہوتی رہی۔
ناہید بیگم بہن اور بھائی کے سمجھانے کے بعد شوہر سے بات تو کرنے لگی تھیں ۔ لیکن بہت کم تقریباً نہ ہونے کے برابر۔۔۔ برابر والے بستر پر لیٹنے کے باوجود وہ بالکل خاموش رہ کر وقت گذارتی تھیں ۔۔۔ حاجی صاحب کی اکڑ فوں بھی بیٹے کی ناگہانی موت نے بالکل نکال کر رکھ دی تھی۔ جب بھی جائے نماز پر بیٹھ کر بیوی کو بیٹے کی یادمیں سسکتے دیکھتے خود کو اس کا مجرم پاتے ۔ یہ احساس ان کے اندر اتنا قوی ہو گیا تھا کہ ہر وقت مجرم نہ ہوتے ہوئے بھی خود کو مجرم محسوس کرتے ۔ ۔۔۔
آج بھی ناہید بیگم نماز پڑھ کر اُن کے لئے چاے بنا کر لائیں ۔تو انہوں نے ایک کپ دیکھ کرپوچھا ۔۔۔ ” اپنے لئے نہیں بنائی ۔”
” حاجی صاحب اب کچھ کھانے پینے کو دل نہیں چاہتا اور خاص طور پر چائے سے دل ہی اُٹھ گیا ہے۔۔۔ آپ کو یا دہے میرے بیٹے کو کتنی پسند تھی۔ اسی کے لیے بناتی تو اپنے لیے بھی بنا لیتی۔ اب بناتی ہوں تو سوچتی ہوں کہ وہاں اُسے چائے کون پلاتا ہوگا۔۔۔ پھر سوچتی ہوں کہ میرے اللہ نے ضرور اس کی پسند کا انتظام کر رکھا ہوگا۔۔۔۔” وہ نہ جانے کس دھیان میں اس کا ذکر کر رہی تھیں۔۔۔ حاجی صاحب کااپنا دل دکھ سے بھر آیا ۔۔۔۔۔ انہیں وہ وقت یاد آیا جب وہ پورے گھر کو صرف چائے پینے کی وجہ سے لتاڑتے تھے ۔۔۔ اور خاص طور پر ناہید بیگم کے ہاتھ میں چائے کا کپ دیکھتے ہی شور مچا دیتے ۔۔۔۔ وہ شرمندہ سے اپنی جگہ سے اُٹھے اور ان کے پاس آبیٹھے ۔۔۔۔۔۔
” سنو! مجھے معاف کردو !” ۔۔ انہوں نے ہاتھ جوڑتے ہوئے شرمندگی سے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔ تو وہ عجیب سی نظروں سے انہیں دیکھنے لگیں ۔
اگر آپ کی معافی سے مجھے میرا بیٹا دوبارہ مل جائے گا۔ تو حاجی صاحب میں نے آپ کو معاف کیا۔۔۔۔ اگر آپ کو معاف کرنے سے میرے ماضی کی ہر خوشی مجھے مل جائے گی تو حاجی صاحب میں نے آپ کو معاف کیا۔۔۔ اور اس کے سوا میرے اختیار میں کچھ ہے بھی نہیں۔۔۔”
وہ بہت ٹوٹے لہجے اور عجیب سے انداز میں بات کر رہی تھیں ۔۔ ۔ حاجی صاحب کو اندر ہی اندر کچھ ٹوٹتا ہوا محسوس ہوا ۔۔۔ اپنے گھر میں سختیوں سے آگ انہوں نے ہی لگائی تھی ۔۔۔ اور اب اس کا خمیازہ بھی وہی بھگت رہے تھے ۔۔ وہ چاہ کر بھی پچھلا وقت اور اپنا بیٹا واپس نہیں لا سکتے تھے۔۔۔ مجبور تھے لیکن بچے کُچے رشتوں کو تو بچا سکتے تھے ۔۔۔ لیکن یہ رشتے بھی ان سے کھنچے کھنچے سے تھے ۔۔۔ لا تعلق سے ۔۔۔ اور یہ لا تعلقی ان کی اپنی پیدا کردہ تھی ۔۔۔ سب مانتے تھے کہ ناہید بیگم ایک بہترین بیوی اور ماں تھیں ۔۔۔ لیکن وہ انا کے مارے جب بھی خاندان میں اپنی بیوی کی تعریف سنتے انہیں سخت غصہ آتا ۔۔۔ انہیں لگتا کہ ان کے اپنے خاندان والے ان سے ان کی بیوی کا موازنہ کرتے ہوئے انہیں ذلیل کر رہے ہیں ۔ اس کے بعد ان کا رویہ ناہید بیگم کے ساتھ مزید بُراہوجاتا ۔۔۔۔ اور وہ اپنی سختیوں کو مزید بڑھا دیتے ۔۔۔۔
اور یہی حال ان کا اپنی اولاد کے ساتھ بھی تھا ۔۔۔ خاص طور پر بیٹے کو تو انہوں نے سخت پابندیوں میں رکھا ۔۔ تاکہ وہ خراب نہ ہو سکے ۔۔۔ اپنے آشیانے کوآگ انہوں نے خود لگائی ۔۔ اب اگر افسوس کرتے تو کیا حاصل ۔ لیکن انہیں اندازہ نہ تھا کہ قدرت اپنی دی ہوئی نعمتوں کی یوں بھی آزمائش کرتی ہے ۔۔۔ نعمت دے کر آزمایا جاتا ہے۔ اگر نعمت کی قدر نہ کی جائے تو چھین لی جاتی۔۔۔ اور ان سے ان کی نعمت چھین لی گئی ۔۔۔۔ ایسا انہوں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا ۔۔ اب پچھتا رہے تھے ۔۔۔ گھرکے ہر فرد سے شرمندہ تھے لیکن کیا ہو سکتا تھا ۔۔۔۔ گیا وقت اگر واپس آسکتا تو وہ کسی قیمت پر بھی اُسے خرید لیتے مگر۔۔۔۔ ایسا ممکن نہ تھا ۔۔۔ سامنے بیٹھی ایک بے چاری ماں کے چہرے کو دیکھ کر رہ گئے ۔۔۔ درود شریف کی تسبیح پڑھتی، دل ہی دل میں اللہ سے صبر کی خواستگار بیوی کے گناہ گار شوہر کی حیثیت سے وہ خود کو کٹہرے میں کھڑا وہ مجرم سمجھ رہے تھے ۔جسے اپنی سزا کے لئے لمبی مدت درکار تھی ۔ ۔۔۔اور اس ساری مدت میں انہیں ہر ہر لمحے تکلیف سے گزرنا تھا ۔۔
وہ سر میں شدید درد محسوس کرنے لگے ۔۔۔ وہ بیوی سے اور باتیں کرنا چاہتے تھے لیکن ناہید بیگم آنکھیں بند کئے تسیبح کے دانے گرانے اور صرف اپنے رب سے محوِ گفتگو تھیں۔
٭۔۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭
کافی دن سے رضوان بہت پریشان تھا ۔ بابا سے اس کی فون کال پر بات نہیں ہوئی ۔ وہ انہیں ایک نظر دیکھنے کے لئے پریشان تھا ۔ آخری بار بھی جب بات ہوئی تو اس نے انہیں بہت کمزور پایا۔۔۔ ان کا وزن کافی حد تک گر چکا تھا ۔۔ اس نے بارہا پوچھا لیکن شمیم صاحب نے یہی جواب دیا کہ آج کل آفس میں کام بہت ہے ۔ وہ بالکل فکر نہ کرے ۔ بس کام کی زیادتی سے وہ اپنے کھانے پر دھیان نہیںرکھ پاتے ۔۔۔ رضوان نے انہیں بہت دیر تک سمجھایا ہ اس عمر میں ایسی بد احتیاطی اچھی نہیں۔۔۔ وہ پہلے اپنے کھانے پینے کا خیال رکھیں ۔۔۔ تو وہ مسکرا کر بولے کہ جب تم واپس آو¿ گے تو میں اپنے کام سے ریٹائرمنٹ لے لوں گا۔۔۔ اور پھر صرف آرام ہی آرام کروں گا۔۔۔اُسے سمجھ نہیں آیا کہ بابا نے ایسا کیوں کہا وہ تو ہمیشہ اُمید کی بات کرتے تھے ۔۔۔ اور کہتے تھے کہ آدمی کو اپنی آخر ی سانس تک کام کرنا چاہیئے۔ کام ہوگا تو شاید اسی بہانے عمر بڑھ جائے ۔۔۔۔ اور اب اتنی مایوسی کی باتیں ۔۔۔ اس کی چھٹی حس کہہ رہی تھی کہ کچھ گڑ بڑ ہے ۔۔۔ لیکن سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کس کو فون کرے ۔اسے رحیم بابا کا خیال آیا، جو بچپن سے اس گھر کے ملازم تھے ۔۔۔۔ اور اگر ملازم سے زیادہ نمک حلال اور گھر کا ایک فرد ہی سمجھا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔۔
رضوان نے انہیں فون کر ڈالا۔ گھر میں یقینا اس وقت بابا نہیں ہو ں گے۔ اسی تسلی کے ساتھ اس نے گھر کا نمبر ڈائل کیا ۔۔۔ اور فون بھی رحیم بابا نے ہی اُٹھایا ۔۔۔۔ “السلام علیکم رحیم بابا کیسے ہیں آپ؟ ” اس نے رحیم بابا کی آواز پہچان کر فون پر خوش دلی سے ان کی خیریت پوچھی۔۔۔۔۔
“ارے رضوان بیٹا وعلیکم السلام! جیتے رہیے۔ آج اپنے بوڑھے بابا کا خیال کیسے آگیا۔” وہ بھی اسی طرح خوش دلی سے بولے۔ رضوان کو انہوں نے شمیم صاحب کے ساتھ بڑا کیا تھا ۔۔۔ اور ایک باپ کی طرح ہی انہوں نے اس سے شکایتی انداز میں پوچھا۔ تو رضوان ہنس پڑا ۔©”دیکھ لیں بابا بیٹے کو تو باپ کی یاد آگئی لیکن باپ کو کبھی بیٹے کی یاد ہی نہیں آتی۔۔۔©” آپ خود بھی تو بابا سے کہہ سکتے ہیں کہ رضوان سے میری بات کروا دیں ۔ ” اس نے ان کوانہی کی طرح جواب دیا ۔۔۔ تو رحیم بابا اسے شرمندہ کرتے کرتے خود اپنی جگہ شرمندہ ہو گئے ۔۔۔ ” ارے بیٹا واقعی یہ خیال تو مجھے آیا ہی نہیں میں خود بھی تو بات کر سکتا تھا ۔”
ان کے لہجے میں شرمندگی دیکھ کر رضوان نے انہیں فوراً جواب دیا©” ارے نہیں بابا میں تو مذاق کر رہا تھا مجھے خود آپ سے بات کرنی چاہیے تھی ۔۔۔ ©”خیر بتائیں کہ طبیعت کیسی ہے آپ کی ۔” اللہ کا شکر ہے بیٹا آپ سنائیں پڑھائی کیسی جا رہی ہے۔©” وہ بھی سب کچھ بھول بھال کر اس سے باتیں کرنے لگے۔ کچھ باتیں کرنے کے بعد رضوان نے بابا کو اعتماد میں لینے کے لیے تمہید باندھی ” بابا کی طبیعت تو ٹھیک رہتی ہے نا رحیم بابا۔ آپ خیال تو رکھتے ہیں ۔” ہاں بیٹا بابا بالکل ٹھیک ہیں مگر تم نے یہ سوال کیوں پوچھا؟ ” رحیم بابا سے جھوٹ بولنا مشکل ہو رہا تھا لیکن وہ رضوان کی مکمل تسلی اور تشفی کرنا چاہتے تھے ۔ بس ان سے بات کرو تو وہ بہت تھکے تھکے سے لگتے ہیں۔ مجھے ان کا وزن بھی بہت گرا ہوا محسوس ہوا ۔۔۔۔ “کیا کھانا وغیرہ کم کر دیا ہے انہوں نے ؟۔۔۔” اس نے بہت تشویش سے پوچھا ۔۔۔” ارے نہیں رضوان بیٹا! ایسی کوئی بات نہیں بس آج کل ان کا ورک لوڈ بڑھ گیا ہے کئی بار کھانے کا ٹفن ویسے ہی واپس آتا ہے۔ تو میں پوچھتا ہوں کہ صاحب کھانا کیوں نہیں کھایا تو کہتے ہیں کہ بس وقت ہی نہ ملا ۔۔”
“تو آپ اُن کو سمجھائیں کہ اس طرح وہ بیمار ہوہ جائیں گے ۔کام کی وہ فکر نہ کریں ۔بس چند مہینے رہ گئے ہیں۔ میں آجاو¿ں گا تو سب کچھ سنبھال لوں گا ۔ ”
“جی بہت سمجھاتا ہوں بیٹا! بلکہ اور سمجھاو¿ں گا۔ بس آپ دل لگا کر اپنی تعلیم پوری کریں اور پھر واپس آجائیں ۔ ” ہاں میں یہی سوچ کر رہ جاتا ہوں کہ جلدی سے یہ وقت گزرے اور میں بابا کے پاس آجاو¿ں ۔۔۔۔”دیکھئے گا بابا میں پھر ان کو کوئی کام نہیں کرنے دوں ۔ ” اس کی آواز بھر آئی تو دوسری طرف رحیم بابا کی آنکھوں میں بھی نمی اتر آئی۔ باپ بیٹے کی محبت پر کس طرح انہوں نے اپنی کیفیت پر قابو پایا اور پھر اسے مکمل تسلی دے کر فون بند کر دیا ۔۔
صاحب ابھی تک سوئے ہوئے تھے ۔ بابا نے کمرے کا دروازہ تھوڑا سا کھول کر ان پر ایک نظر ڈالی۔۔۔ اور پھر دروازہ بند کر دیا ۔۔۔ ڈاکٹر ز نے انہیں زیادہ سے زیادہ آرام کرنے کو کہا تھا۔۔۔ اب وہ بہت کم ہی آفس جاتے۔ کبیر علی آفس جانے سے پہلے گھر آکر ساری ہدایات لے کر پھر آفس جاتے تھے ۔۔۔ دس بجنے والے تھے ۔یہ کبیر علی کے آنے کا وقت تھا ۔لیکن رحیم بابا نے انہیں اٹھانا مناسب نہ سمجھا ۔۔۔ اور خود کچن میں آکر شمیم صاحب کاناشہ بنانے لگے ۔۔۔۔
٭۔۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭
کبیر علی پوری دیانت داری سے کمپنی کے معاملات کو دیکھ رہے تھے ۔۔ اور پھر شام کو پورے دن کی خبر وہ شمیم صاحب تک پہنچاتے تھے ۔آج بھی جب وہ آفس کے کچھ کاغذات پر سائن کروانے شمیم صاحب کے گھر پہنچے تو ڈاکٹرز آئے ہوئے تھے ۔جو شمیم صاحب کو چیک کر رہے تھے ۔۔ شمیم صاحب کو ڈرپ لگی ہوئی تھی۔ چہرے پر نقاہت نے چہرے کا رنگ بالکل زرد کر دیا تھا ۔۔ انہیں کچھ مہینے پہلے تک کے شمیم صاحب یاد آئے۔وہ بڑے رعب دار اور جاہ و جلال والے لمبے چوڑے جسم کے مالک تھے۔ جب دفتر میں ہوتے تو ملازمین کی ہمت نہ تھی۔ ان کے کمرے کے پاس سے گزرنے کی ۔۔۔ اور اب وہی شخص ایک نہ ختم ہونے والی تکلیف کے ہاتھوں بے بس اور لا چار سا تھا ۔۔۔ ڈاکٹرز کی پوری ٹیم تھی۔ جو ان کی حالیہ رپورٹوں پر آپس میں ڈسکشن کر رہی تھی ۔۔۔۔
رحیم بابا ان کے پاس ہی کھڑے تھے ۔ان میں سے ایک ڈاکٹر نے رحیم بابا اور کبیر صاحب کو باہر آنے کا اشارہ کیا ۔ وہ شاید شمیم صاحب کے سامنے ان کی حالت کے بارے میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتا تھا ۔۔۔ ” دیکھیں ان کی حالت دن بہ دن بگڑ تی جا رہی ہے ۔۔ اگر ان کے کوئی قریبی رشتہ دار ہیں تو انہیں بلا لیں ۔۔۔۔”۔ ڈاکٹر نے دونوں کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔
” ڈاکٹر صاحب ایک بیٹا ہے۔ وہ بھی اپنی تعلیم کے آخری مراحل میں ہے۔ اگر اس وقت اُسے بلایا گیا تو اس کی پڑھائی ادھوری رہ جائے گی۔تو شمیم صاحب اس کے لیے تیار نہیں ۔۔۔ انہوں نے تو اسے بتانے سے بھی منع کر دیا بلکہ اپنی آخری خواہش یہ بتائی ہے کہ اسے کسی طرح پتا نہ چلے ۔۔۔۔” رحیم بابا نے اپنی آنکھیں پونچھتے ہوئے ڈاکٹر کو بتایا ۔۔۔ تو وہ بولا ۔۔۔” لیکن یہ تو ایک طرح سے ایسے مریضوں کے ساتھ زیادتی ہے۔ شاید بیٹے کے پاس آجانے سے ان کی زندگی کی چند پل بڑھ جائیں ۔۔”
©” میں نے بھی سر کو یہی سمجھا یا تھا۔ لیکن وہ نہیں مانے کہتے ہیںکہ اگر قسمت میں ہوگا تو مل لوں گا ورنہ جیسا میرا اللہ چاہے ۔۔ ” اس بار کبیرعلی بولے ۔ اوکے اب کنڈیشن ایسی ہے کہ انہیں ہسپتال بھی نہیں لے جا سکتے لیکن اچھا کیا ان کے لیے ایمرجنسی کا سارا یونٹ یہیں لگوا لیا ۔۔۔۔ بس تھوڑا زیادہ خیال رکھنا ہوگا۔۔۔”ڈاکٹر نے سر ہلاتے ہوئے جواب دیا۔
” وہ آپ فکر نہ کریں صبح شام میں خود ایک چکر لگاتا ہوں۔ پھر رحیم بابا اور میل نرس تو ہوتے ہی ہیں ان کے پاس ۔” کبیر علی نے ڈاکٹر کوتسلی دی ۔۔۔۔
یہ شمیم صاحب کی اپنی خواہش تھی کہ وہ ہاسپٹل میں نہیں رہنا چاہتے تھے۔ ایمرجنسی یونٹ انہوں نے اپنے کمرے میں ہی لگوا لیا تھا ۔۔۔۔ کیوں کہ انہیں جب بھی رضوان سے بات کرنی ہوتی تھی۔ وہ یہی تاثر دیتے کہ وہ گھر پر ہیں ۔۔۔ اور اب تو رضوان گاہے بہ گاہے رحیم بابا سے اور گھر کے دوسرے نوکروں سے بھی بات کرتا تھا ۔۔۔ اُسے شک ہو گیا تھا کہ بابا کچھ بیمار ہیں اور اس سے چھُپا رہے ہیں ۔ لیکن مجبور تھا کچھ نہیں کر پا رہا تھا ۔۔۔ سوائے دن اور رات گننے کے کہ وقت جلد از جلد گزرجائے اور وہ بابا کے پاس آسکے ۔۔۔۔ اور وقت تھا کہ جیسے اپنی جگہ منجمد ہو گیا تھا ۔گذر کے ہی نہیں دے رہا تھا ۔۔
٭۔۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭
” ثنا بھئی جلدی کرو۔ کیا کرنے لگیں ؟دیر ہو رہی ہے ۔۔” کبیر علی نے ثنا کو کچن میں برتن دھوتے دیکھا تو جھنجھلا گئے ۔” بس ابھی آئی بھائی۔” وہ دوپٹہ اور بیگ اُٹھا کر ان کے پاس ہی آگئی ۔۔۔” یار آج پہلا پیپر ہے۔ یہ کام تو ہوتے ہی رہیں گے۔ واپس آکر کر لینا ۔۔ ابھی سامعہ کو بھی لینا ہے ۔” انہوں نے اسے یاد دلایا ۔۔۔ ” جی بھائی مجھے یاد ہے آپ نے رات کو کہا تھا ۔۔۔۔ ” پھر تم نے اسے فون کر کے بتا دیا تھا ۔۔” ” نہیں بات ہی نہیں ہو سکی۔ اس کا فون بند جا رہا تھا ۔۔۔۔ کوئی بات نہیں ابھی ڈیڑھ گھنٹہ باقی ہے۔ وہ گھر سے نکلی نہیں ہو گی۔ ہم اسے گھرسے Pick کر لیتے ہیں ۔” وہ اطمینا ن سے بولی۔۔۔ تو کبیر علی ماں کے کمرے کی طرف بڑھ گئے ۔جو آج ابھی تک سو رہی تھیں۔۔۔۔وہ چاہتے تھے ۔جانے سے پہلے ان کی طبیعت پوچھ لیں ۔رات کو بھی شوگر لو ہو گئی تھی۔ ثنا رات کو ان کے پاس بیٹھی، میٹھا کھلا کر شوگر ٹھیک کر رہی تھی ۔۔۔۔
اور اب ا س نے ان کا ناشتہ بناکر رکھ دیا تھا کہ اُٹھیں گی تو کھالیں گی ۔۔۔۔ حالاں کہ وہ اُس کی ایسی باتوں پر سخت ناراض ہو تیں ۔۔۔۔ کہ میں اپنا ناشتہ وغیرہ توخود بنا سکتی ہوں۔ تم نے مجھے بالکل ہی ناکارہ کر دیا ہے ۔۔۔ لیکن وہ اُن کی ایک نہیں مانتی کہ اگر میں گھر میں ہوں تو آپ کیسے یہ کام کر سکتی ہیں؟ ۔۔ اور آج بھی اس کا پہلا پیپر نہ ہوتا تو رات والی کنڈیشن کے پیشِ نظر وہ کبھی ان کے پاس سے نہ جاتی۔ مگر مجبوری تھی ۔۔۔۔ کار میں بیٹھنے کے بعد بھی اس کے ذہن میں انہی کا خیال آتا رہا ۔۔۔
” ثنا ! سامعہ کو ایک بار پھر فون ملاو۔۔۔ ہو سکتا ہے اس کا فون آن ہو گیا ہو ۔۔۔۔” کبیر علی نے موڑ کاٹتے ہوئے اسے سوچوں میں گُم دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔ تو اس نے ایک بار پھر نمبر ڈائل کیا۔ نمبر آن تھا۔ کال مل گئی ۔۔۔ اور سامعہ نے اُٹھا بھی لی ۔۔۔©” ہیلو سامعہ یار تم تیار ہو “۔ ثنا نے بنا کسی تمہید کے سامعہ سے پوچھا ۔۔۔۔ تو وہ بولی ۔۔۔ ” ہاں بس میرا وین رائیور آنے والا ہے ۔ ” تم اسے منع کر دو میں اور بھائی تمہیںلینے آ رہے ہیں ۔” ثنا نے اسے سمجھایا ۔ ” مگر ثنا ۔” اس نے منع کر نا چاہا تو ثنا بولی: ©”اگر مگر کچھ نہیں کبیر بھائی کا فیصلہ ہے ۔اور وہ اپنے فیصلوں میں کسی کی نہیں سنتے ۔میں رات سے تمہیں فون ملا رہی ہوں مگر تم شاید فون بند کر کے سو گئی تھیں ۔ ” ثنانے اس کے بند فون کی وجہ جاننا چاہی ۔۔۔ ” ارے ہاں ! وہ میں رات کو پڑھ رہی تھی۔ تو فون بند کر دیا تھا ۔۔ خوامخواہ کے میسج کر کے لوگ ڈسٹرب کرتے ہیں ۔ ” اس کی بات کا جواب دیتے ہوئے سامعہ تھوڑا سا ہکلائی ۔۔۔ حالاں کہ وہ دو گھنٹے اپنی نئی سم کے ساتھ عمر سے بات کرتی رہی تھی۔ اسی وجہ سے دوسرا نمبر بند تھا ۔۔۔ لیکن یہ بات اب وہ ثنا کو تو نہیں بتا سکتی تھی ۔۔۔ ” خیر بس تم تیار رہو ہم پانچ منٹ میں پہنچنے والے ہیں ۔”
” اوکے! آجاو¿ میں تیار ہوں ۔” یہ کہہ کرابھی اس نے فون بند ہی کیا تھا کہ ناہید بیگم آگئیں۔ “سامعہ بیٹا تم نے ناشتہ کر لیا ۔۔ ” جی اماں اور آپ بھی کر لیجئے گا. میں نے بنا کر رکھ دیا ہے۔©”
” وین والا کب آئے گا؟” ناہید بیگم نے اسے تیزی سے کمرہ سمیٹتے ہوئے دیکھا اور پوچھا ۔۔۔” میں اُسے منع کر رہی ہوں ۔۔۔ کیوں کہ ثنا اور کبیر بھائی مجھے لینے آرہے ہیں ۔۔ اس نے رک کر فون ملایا ۔۔۔ اور وین والے کو آنے سے منع کر دیا۔۔۔۔ رات بھیعمر نے بہت اصرارکیا کہ وہ اسے چھوڑ دے گا لیکن اس نے منع کر دیا ۔۔ ورنہ کتنی پریشان کن صورتِ حال ہوتی ۔۔۔سب کی نظروں سے کیسے چھُپ سکتا تھا۔ وہ ناچاہتے ہوئے بھی عمر کی شدید محبت میں گرفتار ہو چکی تھی ۔۔ اور یہ بھی چاہتی تھی کہ دنیا کو خبر نہ ہو۔۔۔ بلکہ شایدصرف یہ چاہتی تھی کہ سیما کو خبر نہ ہو ۔۔۔۔ اور ایگزامنیشن ہال میں اگر عمر اور سیما کا سامنا ہو گیا تو اس کی کیا پوزیشن رہ جائے گی ۔ اس لئے سامعہ نے عمر کے بے حد اصرار کے باوجود اپنے وین والے کو ہی بلایا تھا ۔۔ اور اب ثنا نے آنے کا کہہ دیا ۔۔۔ دروازے پر دستک ہو رہی تھی۔ وہ جلدی سے ماں کے گلے لگی اور خدا حافظ کہا۔۔ اس وقت وہ اس پر آیت الکرسی پڑھ کر پھونک چکی تھیں۔۔۔
ب انہیں اطمینا ن تھاکہ وہ اسے اللہ کی امان میں دے چکی ہیں ۔۔۔ وہ ماںکے گال پر پیار کر کے نکل آئی۔۔۔ ایک لمحے کے لئے اس کے قدم ابا جی کے کمرے کے باہر رُکے ۔۔۔ پھر اس نے دروازے کی دستک سُن کر باہر جانا مناسب سمجھا ۔۔ ویسے بھی وہ نا چاہتے ہوئے بھی ان سے گریزاں تھی ۔۔۔۔ کم ہی سامنا کرتی ۔۔اماں تو شاید بیوی تھیں۔ انہیں خوف خدا میں اپنے شوہر کو معاف کرنا ہی تھا ۔ لیکن اس کے دل میں باپ کی طر ف سے پڑی گانٹھ کھُل ہی نہیں پا رہی تھی۔۔۔ ایک لمحہ لگا اسے باپ سے بے اعتباری میں ۔۔ ویسے ان کے ہر کام بہت آرام سے کرتی۔ وائی بھی اپنے وقت پر دیتی۔ کھانا بھی لیکن زیادہ بات نہ کرتی ۔۔۔۔ وہ ٹھنڈی سانس بھر کر باہر نکل آئی ۔۔ دیرہو ری تھی اور وقت نہیں تھا ورنہ وہ دونوں اندر آکر خالہ اور خالو کو سلام ضرور کرتے۔ کبیر علی نے سلام واپسی تک موقوف کر کے کار کی ریس پر پاو¿ں رکھ دیا ۔۔
٭۔۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭
سیما کافی دیر سے گُم صم بیٹھی تھی ۔۔۔ آج اس کا پہلا پیپر تھا ۔ اور ساتھ ہی ماما کی برسی بھی ۔۔ نانو اسے دوبار آکر اُٹھا چکی تھیں ۔۔۔ کہ تیار ہو جائے ورنہ پیپر کے لیے لیٹ ہو جائے گی ۔۔۔رات بھر کتابیں لے کر بیٹھی رہی بس خالی کتابوں کو تکتی رہی۔ پڑھا اس سے خاک نہیں گیا ۔ ۔۔ آج نہ جانے کیوں ماما اور بابا اتنا یاد آرہے تھے ۔۔۔ اللہ پاک کبھی نا انصافی نہیں کرتا یہ بات اس نے بچپن سے سُنی تھی۔ ایک رشتہ لیتا ہے تو دوسرا دے دیتا ہے ۔ اس سے تو بچپن سے ہی ہر اہم رشتہ چھین لیا۔۔۔ اوروہ ترستی ہی رہی۔ اگر نانو بی نہ ہوتیں تو ۔۔۔ شاید وہ پاگل ہو جاتی ۔۔ ۔
پہلے بابا چلے گئے۔ پھر ماما اور اب وہ رشتہ جس کو اس نے اپنے لیے اللہ کا انعام سمجھا تھا ۔۔۔ لیکن وہ کتنا بے گانہ ہے ۔۔ میری محبتوں میری شدتوں کا اسے احساس تک نہیں ۔۔۔ یہ یک طرفہ محبت مجھے نگل جائے گی ۔۔
لیکن کیا کروں ؟۔۔۔ عمر آفندی تمہاری ساری بے گانگی کے باوجود میں تم سے شدید محبت کرتی ہوں۔ ۔۔ نہیں برداشت کر سکتی کہ تم کسی اور کو چاہو ۔۔۔ مگر میرے اللہ میں ایسا کیا کروں کہ وہ میرا ہو جائے ۔۔۔ صرف میرا ۔۔۔ کسی کی طرف دیکھے بھی نہیں۔۔۔ کاش آج ماما یا خالہ دونوں میں سے کوئی ایک بھی زندہ ہوتا تو تمہیں میرے لیے منا لیتا۔۔۔ تم صرف ایک بار میرا نصیب بن جاو¿ تو میں تمہیں اپنی بے پناہ چاہتوں سے کہیں اور جانے نہیں دوں گی ۔۔۔ اتنا پیار دوں گی ۔۔۔ کہ بس تم کسی اور کے بارے میں سوچوں گے بھی نہیں ۔۔۔ اور یہ سامعہ جیسی گلی محلوں کی لڑکیاں تمہارا معیار نہیں ۔۔۔۔ تم کیوں نہیں سمجھتے اس بات کو ۔۔۔ وہ آنکھیں بند کئے عمر سے باتیں کئے جا رہی تھی ۔۔۔ کب نانو اس کے پاس آکر بیٹھ گئیں ۔وہ سرگوشی میں کیا کہہ رہی تھی ۔یہ توان کی سمجھ میں نہ آیا۔ لیکن اس کے آنکھوں سے بہتے آنسو بہت کچھ سمجھا گئے ۔۔۔ آج ان کی بیٹی کی برسی تھی۔۔۔
اور وہ بھی صُبح صُبح اس کی یاد میں رو چکی تھیں ۔۔اپنی بیٹی کے جگر کے ٹکڑے کو روتا دیکھ کر ان سے برداشت نہ ہوسکا اور انہوں نے اس کے پاس بیٹھ کر اس کے ماتھے پر بوسا لیا سیما نے جھٹ آنکھیں کھول دیں ۔۔۔ ” ارے نانو! آپ کب آئیں ۔” وہ اٹھ کر بیٹھ گئی ۔۔۔ میں تو کئی بار دروازے پر دستک دے کر جا چکی ہوں ۔۔۔ تمہارا پیپر ہے اٹھ جاو¿ ورنہ دیر ہو جائے گی ۔۔۔ ”
” بس نانوبی ! آج ماما بہت یاد آرہی تھیں ۔۔۔ ” اس نے آنکھوں میں آئی نمی کو نانو سے نظر بچا کر پونچھنے کی ناکام کوشش کی ۔۔۔ مگر کامیابی نہ ہوئی ۔۔۔ ” دیکھو بیٹا تم نے اپنی ماں کھوئی تو میں نے بھی دو دو بیٹیاں اوراپنا شوہر کھویا ۔۔۔ یہ نہیں کہتی کہ تمہارے غم سے میرا غم بڑاہے ۔۔ غم کی گہرائی تو احساس کے پیمانے سے ناپی اتی ہے ۔۔۔۔ جتنا احساس زیادہ ہوگا۔۔۔ غم بھی زیادہ ہوگا ۔ لیکن اگر ہر جینے والا اپنے مرنے والوں کے غم ساری عمر مناتا رہے تو شاید زندگی کا مقصد ہی فوت ہو جائے ۔©”
اس لئے میں نے تم میں اپنے جینے کی وجہ ڈھونڈلی۔۔۔تومیرے غم کا احساس آدھا رہ گیا۔۔۔ اور انشا اللہ تمہارے پاس بھی جلد از جلد کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہو گی ۔جس سے مرنے والوں کے جانے کا احساس آدھا رہ جائے گا۔۔۔۔ ”
” نانوبی کیا آپ ماما کو بھول گئیں ۔۔ ” اس نے حیرانی سے پوچھا ” اپنے دل پر ہاتھ رکھو۔”
” کیا مطلب ؟” سیما حیران سی انہیں دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی ۔۔۔۔ ” ہاتھ تورکھو پھر بتاتی ہوں ” وہ مسکرا کر بولیں۔ تو سیما نے سیدھا ہاتھ اپنے دل پر رکھا اور سوالیہ انداز میں ان کی طرف دیکھنے لگیں۔۔۔
© ” دھڑکن سُن رہی ہو نا ۔” جی بالکل وہ تو اگر ہاتھ نہ بھی رکھتی تو محسوس ہو جاتی ۔ ”
“اولاد ماں کے لیے دل کی دھڑکن کی مانند ہوتی ہے ۔ جب تک سانس چلتی رہتی ہے۔ دل کی دھڑکن محسوس ہوتی ہے ۔۔ ۔ جب تک زندہ ہوں اپنے جسم کے ٹکڑے کو کیسے بھول سکتی ہوں ۔۔۔۔ اور تم اسی ٹکڑے سے بنا ایک ٹکڑا ہو ۔ جس نے اس کے جانے کے بعد میرے غم کو آدھا کر دیا لیکن بھُلا یا نہیں۔۔۔” ان کی آواز بھر آگئی۔ سیما اُٹھ کر ان سے لپٹ گئی ۔۔ ایسا تو اس نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا ۔۔۔ نانو کو ہمہ وقت ہنستا بولتا دیکھ کر وہ یہی سمجھتی کہ بہت ہمت والی ہیں ۔جو دو دو بیٹیوں کے غم کو بھلا بیٹھیں ۔۔۔۔ اُسے کیا پتا تھا ۔۔ کبھی کبھی اوپر سے پتھّر نظر آنے والے لوگ موم کی مانند ہوتے ہیں۔ ذرا سی آنچ لگی اور پگھل گئے ۔۔۔ وہ جانتی تھی کہ نانواس سے کتنی محبت کرتی ہیں اور دنیا کی ہر خوشی اس کے قدموں میں لا کر ڈال دینے کو ہمہ وقت تیار۔ لیکن اس کی زندگی کی سب سے بڑی خوشی عمر آفندی کو منانے میں اب تک کامیاب نہیں ہوئیں۔۔۔ شاید چیزوں اور جیتے جاگتے انسانوں میں یہی فرق ہوتا ہے ۔۔۔۔
چیزیں تو ہاتھ بڑھا کر ۔۔۔ پیسے دے کر خریدی جا سکتی ہیں لیکن انسانوں ۔۔ کو خریدنا یا ہاتھ بڑھا کر اٹھانا ممکن نہیں ۔۔۔ اور پھر محبت کسی کے دل میں زبردستی تو نہیں جگائی جا سکتی ۔۔۔۔ یہ تو خود بخود کسی کے لئے کسی کے دل میں پھوٹتا جذبہ ہے ۔۔۔ اور یہ جذبہ یونہی کسی کے دل میں نہیں جاگتا اگر قدرت نہ چاہے ۔۔۔۔آپ اسے کسی کے لیے نہیں جگا سکتے ۔۔۔ نانوبی بھی اس معاملے میں بہت مجبور تھیں۔ تو اس کو دکھی دیکھتی مگر کچھ بھی نہیں کر سکتی تھیں سوائے وقت کے انتظار کے ۔۔۔۔
وہ دونوں ایک دوسرے سے لپٹی کافی دیر آنسو بہاتی رہیں ۔۔۔۔
پھر نانو بی کو ہی خیال آیا کہ جلدی سے تیار ہو جاو¿ ناشتہ بھی تیار ہے ۔ ڈرائیور تمہیں ایگزامنیشن ہال تک چھوڑ آئے گا۔۔” اور ہاں شام میں گھر میں قرآن خوانی رکھی ہے۔ چند دوستوں کو بلایا ہے ۔۔ تم بھی شامل ہو جانا دعا میں ۔۔ اولاد اگر ماں باپ کے جانے کے بعد ان کے لیے قرآن پڑھتی رہے تو اس سے بڑا صدقہءجاریہ کوئی نہیں ۔۔ خالی آنسو بہانے سے اولاد کے فرائض پورے نہیں ہوتے۔۔۔” انہوں نے اس کے آنسو پونچھتے ہوئے سمجھایا تو اس نے چھوٹے سے بچے کی مانند سر ہلا دیا ۔۔۔ اس کی اسی معصومیت پر تو وہ فدا تھیں ۔۔۔ مُسکرا کر اس کا ماتھا چوم لیا ۔۔۔۔ اورکھڑی ہو گئیں ۔۔۔ تو اس نے بھی گھڑی کی طرف دیکھا ۔صرف ایک گھنٹہ تھا اس کے پاس جس میں اسے تیار ہو کر ایگزامنیشن ہال تک پہنچنا تھا ۔۔۔ وہ چھلانگ لگا کر واش رو م کی طرف بھاگی۔۔۔۔
٭۔۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭
وہ اپنا پہلا پیپر دے کر آئی ۔۔ اور کھانا بھی نہیں کھایا۔ دل ہی نہیں چاہ رہا تھا ۔ پیپر اتفاق سے بہت اچھا ہو گیا ۔ حالاں کہ تیاری تو بس جیسے تیسے ہوئی تھی ۔۔ کچھ عمر کے فون نے اسے ڈسٹرب کر دیا تھا۔۔۔ وہ اس سے باتیں تو کرلیتی مگر اندر سے ایک عجیب سا احساس تھا۔۔۔ سیما سے بے وفائی کا احساس۔ جو کبھی ماں باپ سے چھُپ کر گناہ کے احساس میں بدل جاتا ۔۔۔۔ پھر اندر کا خالی پن اسے اس کیفیت سے نکال لیتا ۔۔۔ عمر ایک جادو گر تھا ۔۔ جس سے باتیں کر کے وہ گھنٹوں اس کے سحر میں مبتلا رہتی اور وہ ساری فیلنگز کہیں دور کھڑی اس پر ہنستی رہتیں ۔وہ اُسے ۔مستقبل کے ایسے ایسے خواب دِکھاتا کہ وہ نا چاہتے ہوئے بھی ان میں گُم ہو جاتی ۔۔۔۔ وہ چاہتی تھی کہ جلد از جلد اس گھٹن زدہ ماحول سے نکل جائے ۔۔ لیکن جب بھی ماں کا خیال آتا تو وہ اپنا دل پکڑ کر رہ جاتی۔۔۔ ایسا گناہ کرے اور اللہ کی پکڑ سے بچی رہے یہ کیسے ممکن تھا ۔ اس کے اندر ایک بے چینی سی بڑھ جاتی ۔۔۔ اور وہ سختی سے ارادہ کر لیتی کہ وہ عمر سے بات نہیں کرے گی لیکن پھر ۔۔ ہائے دل ۔۔ یہ دل ہی تو ہے جس میں انسان کا سب سے بڑا شیطان چُھپا ہوا ہے ۔۔۔۔ جو ہمارے نفس کو بھٹکا تا ہے۔۔۔
او وہ بھٹک گئی۔ کمرے کا دروازہ بند کر کے اس نے موبائل سے سم نکالی اور دوسری سم ڈالی ۔۔ سم ڈالنے کے ساتھ ہی عمر کے کئی msgs آگئے ۔۔۔ اس نے ایک ایک کر کے پڑھے ۔۔ بے تابیوں کی ہزار داستانیں تھیں ۔۔ جنہیں پڑھ کر اس کا دل پگھل گیا ۔۔ ہائے کیا کوئی کسی سے اتنی محبت بھی کر سکتا ہے ؟۔۔ایساکیا ہے تم میں سامعہ بی بی ؟۔۔ اس نے اُٹھ کر آئینے میں اپنی شکل دیکھی ۔۔۔ اللہ نے دولت نہیں دی مگر حسن کی دولت سے بھی محروم نہیں رکھا۔ اورشاید یہی چیز اسے سیما سے ممتاز کر گئی ۔۔۔ جو عمر نے سیما پر اُسے فوقیت دی ۔۔ لیکن میرا دل کیوں نہیں مان رہا۔۔۔۔؟ سامعہ کے دماغ نے اپنی مداخلت کرنی چاہی ۔۔۔ تو سامعہ کو دل سے سوال کرنا ہی پڑا۔ دل نے سختی سے ڈانٹ دیا ۔۔۔ خوش قسمت ہو جو عمر آفندی جیسے بندے کی نظر تم پر پڑی اور اس نے تمہیں محبت کے قابل سمجھا ۔۔۔ ایسی محبتیں تو قسمت والوں کو ملتی ہیں اور تم قسمت والی ہو ۔۔۔ شاید یقین اس لیے نہیں آرہا کہ اب تک نہ تم نے اور نہ تم سے کسی نے محبت کی ۔۔ یہ سچی محبت تمہارے نصیب میںہے بی بی ۔۔۔ اس پر آنکھیں بند کر کے یقین کر لو۔۔۔ ساری عمر عیش کروگی۔۔۔ اور اگر اسے کھو دیا تو پھر مرتی رہنا ۔۔۔ اسی دو فٹ کے کمرے میں ۔۔۔ شادی سے پہلے بھی اور شادی کے بعد بھی۔ اس نے آئینے کو تکتے ہوئے دل سے اٹھنے والی ان آوازوں کو سُنا تو دماغ نے بھی بولنا ضروری سمجھ ا۔۔۔ لیکن کبھی عمر سے پوچھو کہ اتنی حسین پیسے والی لڑکیوں کو چھوڑ کر اس نے تمہیں کیوں چنا ؟۔۔۔ ” یقینا اسے مجھ سے سچی محبت ہوئی ہے ۔ ” دل نے گواہی دی ۔۔۔۔ ” اچھا تو کیا وہ تم سے شادی بھی کرے گا۔۔” دل کے جواب پر دماغ ہنسا ۔۔۔ تو دل تھوڑی دیر ٹھٹھکا اور پھر پورے یقین سے بولا ” کیوں نہیں اتنی ساری لڑکیوں میں اگر اس نے مجھے چنا ہے تو صرف۔۔ وقت گذاری تو نہیں کرے گا ۔۔ ” ” چلو پھرآج اس سے پوچھ کر دیکھو ۔۔۔ اور پھر فیصلہ کرنا کہ کون صحیح ہے اور کون غلط ۔۔ ”
سامعہ کا دل بے چین ہو اُٹھا ۔۔۔ دماغ نے بالکل صحیح مشورہ دیا تھا ۔۔ وہ خود بھی یہی چاہتی تھی کیوں کہ جانتی تھی ۔۔اماں اور ابا نے بی ۔اے کے رزلٹ کے بعد زیادہ دیر تک اُسے بٹھا کر نہیں رکھنا ۔۔۔ ابھی وہ انہی سوچوں میں غلطاں تھی کہ فون کی بیل بج اُٹھی۔ عمر کو بھی جیسے اس کے فون آن ہونے کا میسیج مل چکا تھا ۔۔ اس نے فون کر ڈالا۔۔۔ وہ مُسکر ااُٹھی۔ جب محبوب آپ کو اہمیت دیتا ہے ۔۔۔ آپ کا خیال رکھتا ہے۔ تو جیسے اندر سے زندگی کے جلترنگ بج اٹھتے ہیں ۔ زندگی خوبصورت ہو جاتی ہے ۔۔۔ کئی پھول کھل اٹھتے ہیں اور ان پھولوں کے رنگ گلاب بن کر آپ کے چہرے پر بکھر جاتے ہیں ۔۔ بھائی کا غم اسی کے لیے بہت بڑا تھا ۔۔۔ اگرایسے وقت عمر اس کا ہاتھ نہ تھا متا اُسے اپنی محبت بھری باتوں سے نہ بہلاتا تو شاید وہ اتنی جلدی نہ سنبھل پاتی ۔۔۔۔ اُسے تو گھر میں سب کا خیال رکھنا تھا ۔۔۔ اور یہ سب اس وقت ممکن ہوتا جب وہ خود سنبھل پاتی ۔۔۔ ایک مہینہ گذر چکا تھا اور اس پورے مہینے بہت بار اُس کی عمر سے بات ہو چکی تھی ۔۔۔ اور ہر بار دوبارہ بات کرنے کی پیاس بڑھ جاتی ۔۔۔۔۔ اسے نہیں پتا تھا کہ یہ کیسی پیاس ہے، جو ہر بار بجھنے کی بجائے بڑھ جاتی ہے ۔۔۔۔
اس وقت بھی اس نے تیسری رنگ پر ہی فون اٹھا لیا ۔
” السلام علیکم ” ” وعلیکم السلام ”
©”کیسی ہو ؟ پیپر کیساہوا ؟” عمر نے کسی شاطر کھلاڑی کی طرح بے تابی سے پوچھا۔ جیسے اس کی زندگی کا مقصد ہی اس کے پیپر ز کے بارے میں پوچھنا تھا ۔۔۔ ” یار کب سے تمہارے فون آن ہونے کا انتظار کر رہا تھا۔۔۔۔” اس کی اتنی بات پر وہ سر شاری سے مُسکرا دی ۔۔۔ اپنا آپ اُسے کتنا معتبر لگ رہا تھا۔ کوئی اس کے روز مرّہ معمولات کو اتنی اہمیت دے۔ اُسے بہت خوشی ہو رہی تھی ۔۔ ” جی بہتر ہو گیا ! اب دعا کریں کہ باقی پیپرز بھی اچھے ہوجائیں ۔۔ ” اس نے مختصر جواب دیا ۔۔ انشا ءاللہ ! انشاءاللہ! میری دعائیں تمہارے ساتھ ہیں ۔۔ بس دل لگا کر دتیاری کرو۔۔ اورا چھے اچھے پیپر ز دوپھر۔۔ ” پھر” اس کی بات کو ناسمجھتے ہوئے سامعہ نے سوال کیا ۔۔۔۔
” پھر ہم دونوںجلد ازجلد کہیں مل سکیں گے ۔۔۔ ” کیا مطلب ؟” وہ سمجھ کر بھی حیران تھی۔” مطلب یہ کہ ابھی ملنے کے لئے کہتا ہوں تو بہانہ کر دیتی ہو۔ کہ پیپرز ہو رہے ہیں نکلنا مشکل ہے۔ پیپر ز کے بعد ایسا کوئی بہانہ نہیں چلے گا۔۔۔” وہ بڑے مان سے بولا۔۔۔” لیکن میرا گھر سے نکلنا بہت مشکل ہے۔ اماں اجازت نہیں دیں گی ۔۔” اس نے ڈرتے ڈرتے عمر کو صحیح بات بتائی ۔۔ کہ کہیں وہ ناراض نہ ہو جائے ۔۔ ” یار ایسی باتیں مت کرو تمہیں کیا تا کہ میں تم سے ملنے کے لئے کتنا بے تاب ہو رہا ہو ۔۔۔ تمہیں سامنے بیٹھا کر تم کو دل بھر کے دیکھنے کے لیے ۔ تم سے ہر دل کی بات کرنے کے لیے۔میں کتنا بے تاب ہوں یار ۔۔۔۔ اتنی ظالم نہ بنو ۔۔۔ ” وہ اپنا ہر شارٹ بہت آرام سے ہٹ سٹروک کی صورت کھیل رہا تھا ۔ اور بال سیدھی گراو¿نڈ کے باہر گرتی نظر آتی۔۔۔ چھّکا لازمی تھا ۔۔ ایسی باتوں پر وہ کیسے نہ پگھل جاتی ۔۔۔لیکن وہ یہ بھی جانتی تھی کہ ایسا ناممکن تھا ۔۔ اُسے فضول اورکسی کام کے بغیر گھر سے نکلنے کی اجازت بالکل ملنے والی نہیں تھی۔۔۔ اسی لیے وہ عمر کو کسی بھی خوش فہمی میں رکھنا نہیں چاہتی تھی۔۔۔۔ دل اور جذبات کے ہاتھوں اگر اس نے عمر سے بات کر لی تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ عمر کے ساتھ ڈیٹ پر بھی جائے گی ۔۔۔۔ ” لیکن عمر ایسا ممکن نہیں یں آپ سے ملنے نہیں آسکتی ۔۔۔ ” کیا تمہیں مجھ پر اعتبار نہیں ۔۔۔۔ ” اس بار عمر نے اپنے لہجے میں دنیا بھر ی بے تابی بھرتے ہوئے پوچھا ۔” نہیں ایسی بات نہیں ۔بات اعتبار یا بے اعتباری کی نہیں ۔میرے گھر کے ماحول کی ہے مجھے معلوم ہے کہ گھر والے کسی صورت باہر نکلنے کی اجازت نہیں دیں گے تو میں آپ کو کسی بہلاوئے میں نہیں رکھنا چاہتی ۔۔” وہ دل پر پتھر رکھ کر بولی ۔۔ ” دیکھو یار کوئی نا کوئی صورت نکالو ملنے کی ورنہ میں مر جاو¿ں گا ۔۔ ” اس کی بات پر سامعہ دہل کر رہ گئی ۔
©” اللہ نہ کرے کیسی بچوں جیسی باتیں کر رہے ہیں ۔۔ مریں آپ کے دشمن ۔۔ ” تم اس وقت مجھ سے کس بات کا بدلہ لے رہی ہو۔ لوگ تو اپنے محبوب کے لیے سب کچھ کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں اور تم ایک ملاقات کی وجہ سے ۔۔۔۔ ” اس نے بات ادھوری چھوڑی ۔۔۔” عمر آپ بات سمجھنے کی کوشش کیوں نہیں کر رہے ۔میرے لیے ایسا ممکن نہیں باہر نکلنے سے پہلے مجھے اپنے ماں باپ کو سو تاویلیں دینی پڑیں گی۔اب تو کالج بھی ختم ۔پیپرز دینے کے لیے بھی ثنا کے ساتھ جاتی ہوں ۔۔ پھر کیا کہہ کر ان سے باہرجانے کی اجازت لوں ۔۔۔ آپ میرے سارے حالات کے بارے میں پہلے سے جانتے تھے اور اب اس طرح کی ضد کر کے میرے لیے مشکلات پیدا کر رہے ہیں ۔ ” وہ تقریبا ً رو دی ۔۔ ” میں مشکلات پیدا کر رہا ہوں ۔۔۔ میں ۔۔۔ میں تو خود مشکل میں ہوں ۔۔ تم سے پیار کر کے ۔۔۔ پیار کا اظہار کرکے ۔۔۔ زندگی میں پہلی بار کسی لڑکی سے سچا پیار کیا اور وہ ایسی بے اعتباری کی باتیں کر رہی ہے ۔۔۔ اوکے میں سمجھ گیا ۔۔ کچھ لڑکیان محبت کسی اور سے کرتی ہیں اور شادی کسی اورسے ، اور تم بھی ان ہی میں سے ایک ہو ۔۔۔
اگر تمہیں لگتا ہے کہ میں تم سے محبت نہیں کرتا اور تمہارے لیے مشکلات میں اضافہ کر رہا ہوں ۔۔ تو بس پھر یہ میرا آخری فون ہے ۔۔۔۔ اس کے بعد میں تمہارے لیے کسی مشکل کا باعث نہیں بنوں گا۔۔ اللہ حافظ ” یہ کہہ کر اس نے فون بند کر دیا۔ بلکہ پاورڈ آف کر دیا ۔وہ ہیلو ہیلو کرکے رہ گئی ۔ اس کے بعد اس نے اس رات کئی بار فون کیا لیکن عمر کافون مسلسل بند ہی آرہا تھا ۔۔ وہ پوری رات اسی تکلیف میں رہی کہ اس نے عمر کو ناراض کر دیا ۔۔ لیکن اب وہ کیا کرے ۔۔۔ دماغ پوری رات اسی لائن پر سوچتا رہا ۔۔۔ لیکن اس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا ۔۔۔ تھک ہار کر اِس نے اپنا سر تکیے پر ڈال دیا۔۔
پروگرام تویہ تھاکہ وہ اب اگلے پیپر کی تیاری کرے گی لیکن اس سے ایک لفظ نہ پڑھا گیا ۔۔۔ عمر کو ناراض کر کے وہ بھی کون سا سکون میں تھی ۔ بار بار موبائل اٹھا کر دیکھتی لیکن کوئی msg نہ آیا اور نہ ہی فون کی رنگ بجی۔ کب آنکھ لگی پتا بھی نہ چلا ۔۔۔
٭۔۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭
کبیر علی بہت دیانت داری سے آفس اور شمیم صاحب کا ساتھ نبھا رہے تھے ۔۔۔ ان پر شمیم صاحب نے جو ذمہ داری ڈالی ہوئی تھی وہ بہ خوبی اسے پورا کر رہے تھے ۔۔۔ لیکن انہیں یہ بھی خبر تھی کہ کوئی بہت خاموشی سے ان کا پیچھا کر رہا تھا ۔۔۔ گھر سے دفتر اور دفتر سے گھر کوئی بہت خاموشی سے ان کی ہر سرگرمی پر نظر رکھے ہوئے تھا ۔لیکن خود کو ظاہر نہیں ہونے دے رہا تھا ۔۔۔وہ بھی جب جب باہر نکلتے اپنے کان اور آنکھیں پوری طرح کھلی رکھتے ۔۔ اس دن کے بعد کوئی فون بھی نہیں آیا تھا ۔۔۔ اور اس خاموشی پر انہیں تشویش سی تھی ۔۔۔
٭۔۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭
آج ایک ہفتہ ہو گیا تھا ۔سامعہ کو عمر سے بات کئے ہوئے ۔۔ نہ کوئی فون نہ میسیج ۔سامعہ کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اس سے کیسے بات کرے ۔ چند فون کالز کے بعد وہ اس کی آواز کی بہت عادی ہو گئی تھی ۔۔ جب سے عمر نے ناراض ہو کر اپنا فون بند کیا تھا ۔۔ اُسے لگتا تھا کہ دنیا ہی اندھیر ہو گئی ہے ۔ ہر کام کے بعد وہ پاگلوں کی طرح کمرے میں جاتی اور اپنی سم دوبارہ لگا کر چیک کرتی کہ شاید عمر نے اُسے کوئی میسیج ہی کیا ہو ۔ لیکن ہمیشہ مایوسی ہوتی ۔ وہ جانتی تھی کہ عمر کی خواہش پوری کرنا اس کے بس میں نہیں۔۔
وہ کیا کہہ کر نکلے گی گھر سے ۔ ظفر کی ڈیتھ کے بعد ابا جی اس کے معاملے میں بہت حساس ہو گئے تھے ۔ کئی بار جب وہ ان کے کسی کام سے کمرے میں جاتی تو ان کی کوشش ہوتی کہ وہ تھوڑی دیر ان کے پاس بیٹھ جائے ۔ ان سے باتیں کرے ۔۔۔ا ن کی تنہائی بانٹے ۔۔
وہ صبح دکان پر جانے سے پہلے اپنا ہر کام اس سے ہی کرواتے۔ ناشتے سے لے کر رات کی آخری چائے سامعہ بنا کر دیتی ۔ حتیٰ کہ اب ان کا رویہ بھی بہت ٹھنڈا ہو گیا تھا ۔۔ وہ اماں سے بھی بہت دھیمے لہجے میں بات کرتے ۔ ان کا غصہ اور چڑ چڑا پن نہ جانے کہاں رہ گیا تھا ۔۔ بس خاموش سے رہنے لگے تھے ۔۔۔ اور اکثر سر میںدرد کی شکایت کرتے رات کو تو سونے سے پہلے چائے کے ساتھ ایک ڈسپرین کی گولی ضرور مانگتے ۔۔۔ اسے بھی تشویش ہو رہی تھی ۔۔۔۔ ابا کے سر میں اتنا درد کیوں رہنے لگا ہے ۔۔۔ کئی بار ابا سے کہا بھی کہ دکان سے اُٹھ کر ڈاکٹر کے پاس ضرور ہو آئیں لیکن انہوں نے بات ٹال دی ۔۔۔ سر میں درد تو اس کے بھی رہنے لگا تھا۔ عمر کے ایسے بچگانہ رویے پر ۔۔ وہ اس کے اور اس کی فیملی کے بارے میں سب کچھ جانتا تھا ۔۔ پھر بھی ملنے پر اصرار ۔ سامعہ کی سمجھ سے بالا تر تھا ۔۔۔ کیا کروں ؟ ایک دن وہ رو پڑی ۔۔۔ معاملہ ایسا تھا کسی سے ڈسکس بھی نہیں کیا جا سکتا تھا ۔۔ پہلے خیال آیا کہ ثنا کو اپنا راز دار بنا لے لیکن پھر کچھ سوچ کر اس نے اپنے خیال کی خود ہی نفی کر دی ۔ اگر اُس نے کسی کو بتا دیا ۔۔۔
اُسے جُھر جھُری آگئی۔۔۔۔ اگر وہ ایک بار ملنے پر اصرار کر رہا ہے تو مل لواُسے کون سا کھا جائے گا تمہیں۔۔ ” دل کے شیطان نے اس کے نفس کی مٹی میں اپنی خصلت کا بیج بویا۔۔۔ توسوچ میں بھی نرمی آگئی۔۔ہاں کیا حرج ہے ؟ گھر سے کالج کسی کام سے جانے کا کوئی بہانہ بنا کر بھی نکلا جا سکتا ہے ۔۔۔ شیطانی نفس نے مٹی نم دیکھی تو دوسرا بیج بو دیا ۔۔۔ ناراض کروں گی تو کہیں عمر کو کھو نہ دوں ۔۔۔ اتنی محبت کرتا ہے مجھ سے ۔۔۔ آج سے پہلے میری زندگی میں کبھی کوئی ایسا شخص نہیں آیا جس نے میرا اتنا خیال رکھا ہو ۔۔۔۔ یقینا یہ میرے اللہ کی طرف سے میرے لیے تحفہ ہے ۔۔۔ شیطانی نفس اب اس کی فطرت کو سامنے رکھتے ہوئے اپنا کھیل کھیل رہا تھا ۔۔ ایک مرد اور عورت کے درمیان نفسانی محبت کا یہ بیج شاید اس سے بہتر انداز میں نہیں بویا جا سکتا ۔۔۔۔ شاید اسی لیے مجھے آج تک کسی سے محبت نہیں ہوئی کہ عمر نے اللہ کا تحفہ بن کر میری زندگی میں آنا تھا ۔۔ اور ایسے گھٹن زدہ ماحول سے پناہ دینی تھی ۔۔۔ وہ اب پوری طرح شیطان کے قابو میں آچکی تھی ۔ اور سوچ چکی تھی کہ اُسے کیا کرنا ہے ؟ ۔۔ جلدی جلدی اس نے معافی کا ایک میسیج ٹائپ کیا ۔۔ اور ملنے کے لیے ہاں کر دی ۔۔۔ شیطان دو ر کھڑا بنت حوا کے ایک اور شکار پر قہقہہ لگا رہا تھا ۔۔۔ وہ جانتا تھا کہ بہت معصوم ہے یہ بنتِ حوا ۔ اور اب اسے ابنِ آدم کو وہ طریقے سکھانے تھے جس سے بنتِ حوا کو خراب کیا جا سکے ۔۔۔
٭۔۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭
عمر تو جیسے اس ایک میسیج کا ہی انتظا ر کر رہا تھا۔ وہ فوراً ریپلائی نہیں کرنا چاہتا تھا ۔۔ اس نے میسیج دیکھ کر ان دیکھا کر دیا ۔۔۔ وہ بہت اچھی طرح جانتا تھا کہ اس کا شکار کسی صور ت دور نہیں جا سکتا ۔۔۔ کسی نہ کسی صورت پھنس ہی جاتا ہے ۔ ۔۔ اب تک کوئی لڑکی جس پر اس نے اپنا التفات اور کرم کیا ہو ۔۔ ایسا ممکن ہی نہ تھا کہ وہ اس سے دور رہ سکے ۔۔۔ اُسے سب لڑکیاں پسند نہیں آتی تھیں ۔۔ہمیشہ چند خوبصورت حسین اور امیر ترین لڑکیاں اس کی فرینڈ لسٹ میں رہیں۔ جن کو استعمال کر کے ان سے تحفے وصول کر کے اس نے شادی کی خواہش پر انہیں چھوڑ دیا ۔۔۔ شادی کا نہ تو کسی لڑکی کو اس نے لارا دیا اور نہ ہی بات کو اتنا بڑھنے دیا کہ اس کے لیے مصیبت بن جائے ۔۔۔
لیکن سامعہ نے اُسے نظر انداز کر کے انا کا مسئلہ بنا دیا تھا ۔۔۔ اور وہ اپنی انا کی صلیب کو کبھی گرا ہوا نہیں دیکھ سکتا تھا ۔۔ وہ جان گیا تھا کہ مڈل کلاس لڑکیاںصرف شادی کے لارے پر ہی پٹائی جا سکتی ہیں ۔۔۔ انہیں کوئی اور شے نہیں بھاتی سوائے اس کے کہ اگر کوئی ان سے محبت کرے تو شادی آخری مقام تک لے جائے ۔۔۔ ان کی زندگی میں پہلا مرد ہی آخری ہوتا ہے ۔۔ اور سامعہ کی زندگی میں بھی عمر وہ پہلا اورآخری مرد تھا جس نے اُسے محبت کے معنی سے آشنا کیا ۔۔۔ محبت اس وقت ایک ٹوٹی پھوٹی لڑکی کی ضرورت نہیں تھی ۔۔۔ اِس وقت جو توجہ اور احساس عمر نے اس کی غم گیری کر کے اُسے دیا شاید وہی اس کے لیے سچی محبت کی مانند تھا ۔۔۔ باقی کام شیطان نے اپنا بیج بو کر پورا کیا۔ اس کے دل میں ڈالا کہ دراصل عمر ہی اس کی زندگی میں آنے والا وہ پہلا شخص ہے جو اس کے لیے اللہ کا انعام ہے اور وہ شیطان کے اس جھانسے میں آگئی ۔۔
” محبت ” بنتِ حوا کے لئے شیطان کی طرف سے بُنا گیا ایک ایسا تارِ عنکبوت ہے جس کے دام میںاگر ایک بار وہ آجائے تو پھر بیت عنکبوت میں ہی اس کادم نکلتا ہے ۔۔۔ محبت کا تارِ عنکبوت اس کے دل ودماغ تک پہنچ چکاتھا ۔بس جسم کے گرد لپٹنا اور پھراس کی محبت کا جنازہ اُٹھنا باقی تھا ۔۔۔
٭۔۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭
” کبیرآج واپسی پر ذرا اپنے خالو کو دیکھ کر آنا ۔کل میری بات ہوئی تھی ۔سامعہ سے بتارہی تھی کہ بھائی صاحب کی طبیعت ٹھیک نہیں رہتی ۔۔۔ ” سلمیٰ بیگم نے ناشتہ کرتے کبیر کو بتایا ۔۔ ” اچھا لیکن میں نے دو دن پہلے ہی چکر لگایا تھا ۔۔ خالو جان نے تو مجھے اپنی طبعیت کے بارے میں کچھ نہیں بتایا ” کبیر علی نے حیرانی سے پوچھا ۔۔
” سامعہ بتا رہی تھی کہ روز رات کو سر میں درد کی شکایت کرتے ہیں اور پھر ڈسپرین لے کر سوئے ہیں۔ تم ڈاکٹر سے اپاینٹمنٹ لے کر انہیں ڈاکٹر کے پاس لے جاو¿ کہیں بلڈ پریشر تو ہائی نہیں ہو رہا ۔۔ اتنا بڑا صدمہ اٹھایا ہے۔ بے شک مرد ہیں ۔۔۔ لیکن کیا مرد کے سینے میں دل نہیں ہوتا ۔۔ اب اس گھر میں وہی واحد مرد رہ گئے ہیں ۔۔ اللہ میری بہن کا سہاگ سلامت رکھے ۔۔ بیوگی کا دکھ کیا ہوتا ہے اللہ کسی دشمن کو بھی نہ دکھائے ۔۔ ” وہ بات کرتے کرتے دُکھی ہو گئی ۔۔” خدا نہ کرے اماں کیسی بات کر رہی ہیں۔ آپ فکر نہ کریں ۔ میں آج ہی ڈاکٹر سے ٹائم لیتا ہوں ۔۔ اور اگر مل گیا تو شام کو ہی لے جاو¿ں گا ۔۔ اور پورا چیک اپ اور ٹیسٹ وغیرہ اگر ڈاکٹر نے لکھے تو کروا دوں گا۔۔۔” انہوں نے ٹشو سے ہاتھ صاف کر کے اماں کا ہاتھ تھاما ۔۔ وہ جانتے تھے کہ ا ماں کو اپنی بہن اور بہنوئی سے کتنی محبت ہے ۔۔ اور وہ انہیں کسی صورت تکلیف میں نہیں دیکھ سکتیں ۔۔ اسی لئے وہ انہیں حکم دے رہی تھیں ۔۔ وہ اگر ایسا نہ بھی کہتیں اور کبیر کو خود معلوم ہوتا تو وہ اپنے خالو کو لے کر جاتے ۔۔۔ انہیں اپنی تربیت پر فخر تھا ۔۔۔ ثنا اتنے میں گرم چائے لے آئی ۔۔ اور کپوں میں انڈیلنے لگی۔۔ “بھائی اگر آپ خالہ کے گھر جائیں تو مجھے بھی لے کر چلئے گا۔ جب سے پیپر ز ختم ہوئے ہیں۔ سامعہ سے اور خالہ سے کوئی ملاقات ہی نہیں ہوئی۔۔سوچتی ہوں کہ سامعہ سے پوچھوں کہ آگے کیا پلان ہے ۔” وہ چائے دے کر کرسی پر بیٹھ گئی اور اپنا ناشتہ کرنے لگی ۔۔۔ ” اس کا کیا پلان ہونا ہے ؟ بھائی صاحب نے پڑھنے کی اجازت دے دی یہی بہت ہے ۔۔ اب دوسرے گھر رخصتی ہو گی ۔ ” سلمیٰ بیگم کچھ سوچ کر بولیں ۔۔ انہیں یاد آگیا کہ ان کے بیٹے کی کیا خواہش ہے لیکن غم والے گھر کا سوچ کر وہ ابھی خاموش تھیں ۔۔ ایسے وقت پر اپنا مدّعا بیان کرنا انہیں کسی طرح صحیح نہ لگا ۔۔ وہ چاہتی تھیں تھوڑا وقت اورگزر جائے پھر سادگی سے نکاح کر کے سامعہ کو گھر لے آئیں ۔۔۔ وہ اپنی بہن کا بوجھ کم کرنا چاہتی تھیں۔انہیں معلوم تھا کہ اس وقت بہن اور بہنوئی کو سامعہ کی کتنی ضرورت ہے۔ اب وہی ایک اولاد رہ گئی تھی۔۔۔ جو ماں اور باپ دونوں کی خدمت کررہی تھی ۔۔۔ کل ہی انہوں نے فون پر سامعہ سے پوچھا تھا کہ سارا دن کیسے گزرتا ہے تو اس نے بتایا کہ خالہ ایک طرف اماں اور پھر دوسری طرف ابا ۔بس ان کے درمیان اب میں ہی رہ گئی ہوں ۔۔۔ اماں تواب بھی اکثر بے دھیانی میں ظفر کو پکار بیٹھتی ہیں ۔۔ اور پھر سسکیاں لے کر روتی ہیں۔ تب بھی میں ہی ان کو سنبھالتی ہوں۔۔۔۔ ابّااب ہر بات مجھ سے شیئر کرتے ہیں ۔ شام کو دکان سے آنے کے بعد چائے سے لے کر کھانے اور بستر پر جانے تک وہ ہر کام کے لیے مجھے ہی پکارتے ہیں ۔۔۔۔ آپ آئیں خالہ بہت بدل گئے ہیں وہ ۔۔ اب تو غصہ بھی نہیں کرتے۔ بس اماں کو دیکھ کر ٹھنڈی آہیں بھرتے ہیں اور
کہتے ہیں کہ تمہاری ماں کے ساتھ میں نے بہت غلط کیا ۔۔۔ اگر ساری عمر بھی پچھتاو¿ں تو کم ہے ۔۔ سمجھ نہیں آتا کفّارہ کیسے ادا کروں ؟۔۔ کتنا سمجھاتی تھی تمہاری ماں مجھے اولاد کو بُرا بھلا مت ہو ۔۔۔ مت کوسو مگر میں نے اس کی بات پر کوئی توجہ ہی نہ دی ۔ اب سب کچھ کھو کر پچھتارہا ہوں ۔۔۔ خالہ آجائیں کسی دن وہ آپ کو بھی یاد کر رہے تھے اور ماموں سے بھی ملنا چاہتے تھے ہیں۔ یہ بات ان کے لیے حیرانی کا باعث نہ تھی ۔۔ جب انسان بدلتا ہے تو اس کی سوچ مکمل طور پر بدل جاتی ہے ۔۔ا ُسے سیاہ بھی سفید نظر آتا ہے ۔۔ اس سے پہلے انہوں نے اپنے بہنوئی کو کتنا سمجھا یا تھا ۔۔۔ کہ آپ بڑے ہیں خود ہی اپنے سالے کو منالیں۔ ن وہ کسی طور نہ مانے کہ میرا رشتہ بڑا ہے۔ اسے میرے پاس آنا چاہیے ۔اور اسی انا کے کھیل میں انہوں نے کتنے برس گذار دئیے ایک بہن کو اس کے بھائی سے الگ کر کے ۔۔ خیر وقت اب بھی نہیں گذرا وہ کوشش کریں ی ۔۔ کہ بھائی کو سمجھا کر لے آئیں اور دونوں کا میل میلاپ کروا دیں۔ وہ اپنی سی کوشش ہی کر سکتی تھیں۔۔۔ انتی تھیں بھائی کو بھی اور بھاوج سے بھی اچھی طرح آشنا تھیں ۔۔ انہوں نے بھی کبھی بہن بھائی کو ملانے کی کوشش نہ کی ۔۔ خیر اتوار کو جاو¿ں گی تو بھائی صاحب سے پوچھوں گی کہ اب کس طرح بات کرنا ہے ۔ وہ یہ سب سوچ کر مطمئن ہو گئیں ۔۔ اور چائے کی پیالی سے چائے کا سِپ لیا ۔۔ چائے مکمل طور پر ٹھنڈی ہو چکی تھی ۔۔۔ ثنا کو آواز دینے کے بجائے انہوں نے خود ہی کپ گرم کرنے کا فیصلہ کیا اورکچن میں آگئیں ۔شکر ہے ثنا وہاںموجود نہ تھی ورنہ انہیں ایک منٹ وہاں رُکنے نہ دیتی اور واپس بھیج کر تازہ چائے بنا کر دیتی ۔۔ مائیکرو ویو میں چائے گرم کر کے وہ واپس ٹیبل پر آگئیں۔ اخبار پڑھنے کے ساتھ ساتھ چائے پینے لگیں ۔۔
٭۔۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭
سامعہ کو شدید ڈیپریشن ہو رہا تھا ۔۔ دودن گذر گئے عمر نے کوئی ریپلائی نہ کیا ۔۔۔ کہیں میں نے اُسے کھو تو نہیں دیا ۔۔۔ یا اللہ کیا کروں ! دوبارہ جلدی جلدی میسیج کر کے اس نے عمر کو بھیجا ۔۔ دوسری طرف پانچ منٹ کے بعد ہی کال آگئی ۔۔ گھاک کھلاڑی تھا۔اب اسے زیادہ انتظار نہیں کروا سکتا تھا ۔۔ بازی پلٹ بھی سکتی تھی ۔۔ دوسری طرف سامعہ کی سسکتی آواز سے جیسے وہ کھِل کر رہ گیا ۔ اس کی انا کوتسکین ملی ۔۔ مرد کی تسکین ا پیمانہ عورت کی تسکین کے پیمانے سے کتنا مختلف ہوتا ہے ۔۔۔ عورت اپنے باپ ، بھائی شوہر اور خاص طور پر اولاد کو خوش دیکھ کر تسکین پاتی ہے ۔ان کا دکھ اُسے دکھی کر دیتا ہے۔ لیکن مرد کی انا کا جن سب سے زیادہ تسکین اس بات میں پاتا ہے کہ کوئی عورت اس کے قربت کے لئے آنسو بہائے ، روئے ، چیخے اور چلائے۔۔۔ دم اس کی توجہ کا محوروہی ہو ۔۔ اس کی بے التفاتی سے وہ دکھی ہو جائے ۔ اور اس دکھ کا اظہار بھی کرے کتنی تسکین ملتی ہے اس احساس سے بھی کہ کوئی عورت اس کے لیے دکھی ہے ۔۔۔ اور اس وقت عمر کا حال ی ایسا ہی تھا ۔۔ اُسے خود نہیں پتاکہ وہ اتنا خوش کیوں ہے ۔۔ روتی ہوئی سسکتی ہوئی سامعہ کی آواز میں ایسا کیا جادوتھا۔۔ جس سے وہ ایک عجیب سے لطف میں مبتلا ہو گیا تھا ۔۔۔۔ اسے مزہ آرہا تھا ۔۔۔ عمر نے سامعہ کو ونے دیا ۔۔۔ دل کی بھڑاس نکالنے کے بعد سامعہ کو ہوش آیا کہ کیسے ایک مرد کے آگے اس نے اپنا دل کھول کر رکھ دیا۔۔ ایک بار بھی عمر نے اسے چُپ کرانے کی کوشش نہ کی ۔۔۔ ” آپ کتنے بُرے ہیں عمر ۔” وہ سسکتی سی آواز میں بولی ۔۔۔ ” وہ تو میں ہوں کوئی نئی بات بتاو¿۔۔ ” وہ مزے سے مُسکراتے ہوئے بولا۔۔۔
“آپ کو ذرا احساس نہیں ان چند دنوں نے مجھے کتنی تکلیف دی ہے ۔۔ خدا کے لیے اب ایسا مت کیجئے گا۔۔ ” وہ گڑ گڑائی ۔۔
کتنا سکون مل رہا تھا عمر کو اس کی باتوں سے ۔۔ ” اور تم بھی یہ وعدہ کرو کہ جیسا میں کہوں گا ویسا ہی کروگی ۔۔۔ ” وہ زیرِ لب مسکراتے ہوئے بولا ۔۔ تو ایک لمحے کے لیے وہ خاموش سی ہو گئی ۔۔ ©”کیا ہوا ؟ کسی سوچ میں پڑگئیں۔۔۔ کیا اب بھی مجھے اپنا اعتبار دلانے کے لیے کچھ اور امتحانوں سے گذرنا پڑے گا ۔جب میری محبتوںکا یقین کرو گی ۔۔ ” اس کے لہجے کی تلخی بے شک بہت کم تھی لیکن سامعہ کو کڑوی دوائی جیسی محسوس ہوئی ۔۔” نہیں نہیں عمر ایسی کوئی بات نہیں۔ آپ جیسا کہیں گے ویسا کروں گی لیکن وعدہ کریں مجھے راستے میں تنہاتو نہیں چھوڑیںدیں گے ۔۔۔۔ ” دل کا خدشہ زبان پر آگیا ۔۔۔ تو وہ بھی اسی لہجے میں بولا ۔ “سچی محبتوں کو راستے میں تنہا نہیں چھوڑا جاتا بلکہ آخری منزل تک ساتھی بنایا جاتا ہے ۔۔۔ اگر چھوڑنا ہوتا تو تمہاری اس بے اعتباری کے بعد ہی چھوڑ دیتا کیا کروں یار! زندگی میں پہلی بار کسی لڑکی نے اپنا اتنا عادی کر لیا ہے کہ اگر بڑھاپے تک اُسے ساتھی نہ بنایا تو شاید میری زندگی کو کوئی مقصد ہی نہ رہ جائے ۔۔۔ ” وہ بڑے مزے سے لمبے لمبے جال پھینک رہا تھا اور بنتِ حوا اس تارِ عنکبوت میںپوری طرح محبوس ہو چکی تھی ۔۔ بس دم گھُٹنا باقی تھا ۔۔۔
” اچھا پھر ہم کب مل رہے ہیں ۔۔” عمر نے اپنے مطلب کی بات کی ۔ “بہت جلد انشاءاللہ کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر نکلنا پرے گا لیکن بے فکر رہیں ملنے ضرور آو¿ں گی ۔۔ لیکن وعدہ کریں جلدی جلدی ملنے کا تقاضا نہیں کریں گے ۔۔ ” وہ بڑے مان سے اِٹھلا کر بولی۔۔۔ “ہائے ظالم ! ایک بار مل تو لو۔ اگر خود دوبارہ ملنے کی خواہش نہ کی تو میرا نام بھی عمر آفندی نہیں ۔۔ ” ” بہت بے شرم ہیں آپ ” سامعہ کے کان اس تخاطب پر سرخ ہو گئے ۔ بات ہی اتنی کھلی ڈلی تھی کہ اس کا شرمانا لازمی تھی ۔۔ کبھی کسی غیر مرد نے اس سے ایسی بات جو نہ کی تھی ۔۔۔۔ لیکن اس مرد کو وہ اپنا مر دمان چکی تھی ۔۔۔ اس لیے ایسی
بات پر ناراض ہونے کا کوئی فائدہ نہ تھا ۔۔ “یار بس جلد از جلد کوئی پلان بتاو¿ اور گھر سے نکلو ۔۔۔ میں زیادہ انتظار نہیں کر سکتا ۔۔ ” عمر آفندی نے تُرپ کا آخری پتا پھینکا تو اس نے مُسکرا کر اوکے کہا اور فون رکھ دیا ۔ دل میں سکون سا اُتر آیا تھا۔ اس کی آواز سُن کر ۔۔ ورنہ اتنے دن کتنی بے چینی سی رہی ۔۔۔ وہ دوپٹہ برابر کرتی ہوئی کچن میں آگئی۔اُسے شام کے کھانے کی تیاری بھی کرنی تھی ۔۔۔ اباآنے والے تھے ۔۔۔ اور انہیں آتے ہی چائے اور پھر مغرب کے بعدکھانے کی عادت تھی ۔۔ اس نے کمرے میں آکر اماں پر ایک نظر ڈالی، جو عصر کی نماز کے بعد تھوڑی دیر کے لیے لیٹ چکی تھیں ۔
اُس نے انہیں اُٹھانا مناسب نہ سمجھا ۔۔ اور کچن میں آگئی۔ فریج میں قیمہ رکھا ہوا تھا ۔۔ نکال کر پانی میں ڈالا ۔۔ قیمہ آلو بنانے لگی ۔۔اتنا بنا لوں کہ صبح ابا دکان پر بھی لے جائیں گے اور ابھی بھی ہو جائے گا ۔۔۔ ابھی وہ قیمے کے لئے پیاز کاٹ ہی رہی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ ابا ہوں گے یہ سوچ کر اس نے سرپر دوپٹہ لیا اورصحن میں آکر دروازہ کھول دیا ۔
” السلام علیکم ابا۔ ” اس نے سلام کر کے ان کے ہاتھ سے ٹفن لے لیا ۔۔ وہ بہت تھکے تھکے سے لگ رہے تھے ۔۔ ” وعلیکم السلام ” میں ذرا وضو کر کے عصر پڑھ لوں پھر چائے لے آنا ۔۔۔ ” جی ٹھیک ہے ۔ ” یہ کہہ کر وہ مُڑی اور ابا وضو کرنے واش بیسن پر کھڑے ہی ہوئے تھے کہ چکر اکر گر پڑے۔ دھماکے کی آواز سے وہ مُڑی اور زور دار چیخ ماری ۔۔۔
٭۔۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭
باقی آئندہ