میم_____________شیما قاضی

تحریر: شیما قاضی

فوٹوگرافی و کور ڈیزائن:صوفیہ کاشف

___________________________

“بڑے ڈرپوک ہو تارو!
فقط شب کو نکلتے ہو!
کبھی آنسوکی
بھیگی مامتامیں
مہکتی چاندنی کی اوڑھنی میں۔۔۔
چھپ کے آتے ہو
کبھی تم
روشنی کی ان گنت
میخوں کی صورت
تیرگی کے جسم میں پیوست ہوتے ہو
نہ جیتے ہو نہ مرتے ہو
بڑے ڈرپوک ہو تارو!
کبھی دیکھا نہیں تم نے کہ دن کتنا منّور
کس قدر بے انت ہوتا ہے
کبھی دیکھا نہیں تم نے
وہ تارا
جو فقط دن کو نکلتا ہے
چمکتی برچھیوں سے لیس ہو کر
اک سنہرا گرز اپنے ہاتھ میں لے کر
بہادر۔۔۔ سورما
تنہا گزرتا ہے
افق کی قوس سے
غم کی، خوشی کی سرحدوں سے
بے خطر بڑھتا چلا جاتا ہے
آخر شام کے کہرام میں
منزل پہ اپنی پہنچ جاتا ہے
بڑے ڈرپوک ہو تارو!
فقط شب کو نکلتے ہو۔۔۔” اس نےآسمان کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹر وزیر آغا کی نظم پڑھی اور کروٹ بدل کے سو گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“تم لوٹ کر آگئی جہاں آراء تبّسم! تمہیں آنا ہی تھا کیونکہ یہ محل، یہ مقام تمہارا تھا۔ تم ہی اس کے لائق تھی۔” وہ اپنی آرام گاہ کے اندر جاتے ہوئے بڑبڑائیں۔ “دیویا پہ چوری کا الزام لگا کر میں نے اسے اس محل سے باہر کر دیا تھا اور آج اسی بیٹی پھر سے اس ویران محل کو آباد کرنے آئی ہے۔ سبھی ملازموں کی محل کے اندر رہائش گاہیں بنائی جا رہی ہیں۔ محل آباد ہو گیا جہاں آراء تبّسم! آکے دیکھ لو یہ منظر۔۔۔ تم حیران رہ جاؤگی کہ تمہاری بہو نے ہوبہو ویسی رونق لگائی ہے جس طرح تم کسی زمانے میں لگایا کرتی تھی۔” انہوں نےاپنےکانپتےہاتھوں سےعینک اتار کر میز پر رکھ دی اورپلنگ پہ بیٹھ گئیں۔ وہ اب ذرا سا چل کے بھی تھک جایا کرتی تھیں۔ اس وقت بھی ان کی سانسیں پھولی ہوئی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیاہ رنگ کے عبایے میں ملبوس وہ مٹی کے اس ڈھیر کے پاس کھڑی تھی جس کے بارے میں سب کا کہنا تھا کہ وہ اس کے مالک کی قبر ہے۔ “مالک شاہ احمد اورنگزیب۔۔۔” اس نے زیرلب وہ نام دہرایا اورزمین پر بیٹھ گئی۔ تھوڑی سی مٹی اپنی مٹھی میں بھرکراس نےاپنی آنکھوں سے لگائ اورپھر اس مٹی کو اپنے پلو میں باندھ لیا۔ کافی دیر تک خالی نظروں سے مٹی کے اس ڈھیر کو گھورتے رہنے کے بعد اس نے آنکھیں بھینچ لیں۔ اس کی آنکھوں کے سامنے وہ شخص چلنے پھرنے لگا جس کی قبر کے پاس وہ اس بے یقینی کے ساتھ بیٹھی تھی کہ وہ واقعی مر چکا ہے۔ اور موت بھی کس قدربے دھڑک اور جلد بازہوتی ہے، یہ نہ تو آپ کو مہلت دیتی ہےاورنہ ہی آپ کو یقین کرنے کا وقت دیتی ہے۔ اس کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی کیا تھا مالک کی موت نے۔۔۔۔ لیکن سچ تو یہ تھا کہ اسے زندگی نے بھی کبھی مہلت نہیں دی تھی، ہر تلخ حقیقت بِن بلاۓ اس کے سر پہ سوار ہوئی تھی، ہر تکلیف کسی بن بلاۓ مہمان کی طرح حاضر ہوئی تھی لیکن اس سب کے بیچ اگر وہ خوش و خرم اور زندہ تھی تو اس کی وجہ وہ شخص تھا جس کی ذات اس کا عقیدہ تھی۔ جس کا اصل نام شاہ احمد اورنگزیب تھا۔ جو باقی سب کےلۓ ولی عہد جب کہ اُس کے لۓ ‘مالک’ تھا۔
وہ ایک ٹھہرا ہوا سمندر تھا جس میں بہت سے طوفان آ کے گزر جاتے تھے پر کسی کو خبر تک نہ ہوتی۔ اس کی طبیعت میں بے پناہ ٹھہراؤ تھا۔ چہرے پہ حد درجہ بے نیازی اور آنکھوں میں خفیف سی افسردگی تھی جو چندریکا کور کے چلے جانے کے بعد ماتم میں بدل گئی تھی۔ اس شخص کی شخصیت کا رعب اور اس کی پر اسرار سی خاموشی اس لڑکی کو مزید اپنی طرف کھینچتی چلی جاتی تھی۔ ہر بار وہ اس سے نئے سرے سے محبت کرنا شروع ہو جاتی تھی یہ جانے بغیر کہ ان کے درمیان براعظموں سے فاصلے تھے جنہیں ننگے پیر سر کرنا کسی طور ممکن نہ تھا
“چلیں؟” ایک نسوانی ہاتھ نے اس کے کندھے کو چھوا۔ اس نے نگاہ اٹھا کر دیکھنے کی زحمت نہ کی بس اپنے پلؤ میں بندھی مٹی کو مٹھی میں دبا کر وہ بنا کسی مشقت کے اٹھی۔ ڈھلتی عمر کی اس عورت نے قبرستان سے نکلتے ہوئے مڑ کر
مٹی کے اس ڈھیر کو نہیں دیکھا تھا۔ نہ اس نے جاتے ہوئے اشک بہائے تھے، نہ ہی ماتم کیا تھا کیونکہ جس انسان کی زندگی میں چندریکا کور نے کبھی اس پر اپنا حق نہیں جتایا تھا اس کی موت کے بعد وہ مٹی کے اس ڈھیر پہ کیا حق جتاتی جسے قبر کہا جاتا ہے۔
“پس یقیناً مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔ بے شک مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔” سورۃ الم نشرح کی آیات کا ورد کرتی ہوئی وہ دبے پاؤں قبرستان سے نکل گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عشق تھی۔ جنون تھی۔ پاگل پن تھی چندریکا کور۔۔۔۔اپنی ذات، اپنے وجود سے غافل وہ شاہ احمد اورنگزیب کے خیالوں میں مگن رہتی تھی۔ وہ خاموش طبع اور بے نیاز سا شخص اس کے ذہن سے محو ہی نہیں ہوتا تھا۔ وہ سوتی تو خواب میں ‘مالک’ کو دیکھتی، کھانا کھاتی تو اسی کی بھوک کا خیال آتا تھا، گوردوارے جاتی تو وہی نماز پڑھتا ہوا اس کی نگاہوں کے سامنے آجاتا تھا اور کبھی روتی تو ان ہونٹوں پہ سجی خفیف سی مسکراہٹ اس کو یاد آجاتی تھی۔ یہی وہ سہارے تھے جن کے بل بوتے پروہ جیتی چلی جا رہی تھی کہ ‘مالک’ کو لندن گۓ تین برس ہو چکے تھے اور ان تین برسوں میں اس نے اپنی ایک ہی تصویر بھیجی تھی جو کہ شاہ محل کےسامنے والے برآمدے میں آویزاں تھی اور جسے دیکھنے کے لۓ وہ ہر صبح وہاں پہنچ جایا کرتی تھی اور ان خدوخال کو وہ اتنا دیکھتی، اتنا دیکھتی کہ اس شخص کا چہرہ اسے ازبر ہو جاتا تھا اور کوئی اسے ‘مالک شاہ احمد اورنگزیب’ کے خدوخال پہ مضمون لکھنے کو کہتا تو وہ یقیناً ایک شاہکار لکھ ڈالتی۔
اس سال جب وہ دسویں کے امتحان دے کر فارغ ہوئی تب مالک لندن گئے تھے اور جب اس کا نتیجہ نکلا تو حیرت کی بات یہ تھی کہ وہ ریاضی میں اچھے نمبروں سے پاس ہوئی تھی۔ ‘مالک’ اس وقت وہاں ہوتے تو خوش ہو جاتے اور یقیناً حیران بھی۔ چندریکا کویقین تھا کہ اسے ریاضی میں اتنے اچھے نمبر دینے والا یا تو اندھا ہو سکتا تھا یا نا لائق۔۔۔
اس نے دل کی گہرائی سے خواہش کی تھی کہ وہ وہاں ہوتے تو چندریکا انہیں بتاتی کہ یہ سب ان کی وجہ سے ہوا ہے لیکن وہ جانتی تھی کہ اس کی یہ خواہش صرف اس کے دل تک محدود تھی، وہ سچ نہیں ہو سکتی تھی کیوں کہ ‘مالک’ لندن میں تھے اوران کے واپس آنے کے بارے میں چندریکا کو کوئی علم نہیں تھا۔ وہ تو بس اتنا جانتی تھی کہ وہ وہاں قانون پڑھنےگئے ہیں۔ وہ واپس کب آئیں گے؟ واپس آئیں گےبھی یا نہیں؟ اس پہ اس نےنہیں سوچا تھا۔ وہ تو بس ‘مالک’ کے ساتھ گزرے اپنے بچپن اور لڑکپن کے زمانوں کی یادوں کو بڑے تقّدس کے ساتھ دل کے نہاں خانوں میں یوں رکھتی کہ خود کو ان یادوں سے غافل نہیں ہونے دیتی تھی اور کوئی اور انہیں دیکھ نہیں پاتا تھا۔۔
وہ اس علاقے کے شاہ کا ولی عہد اور چندریکا کے بھائی آکاش کا بہترین دوست تھا۔ وہ شہر کے مہنگے ترین اسکول میں پڑھتا تھا اور صرف چھٹیاں گزارنے گاؤں آیا کرتا تھا لیکن جب بھی آتا تھا آکاش کے ساتھ ساتھ چندریکا کے لئے بھی نت نئے تحائف لایا کرتا تھا اورپھر آکاش کی جواں مرگی کے بعد بھی اس کا اس گھر سے تعلق نہیں ٹوٹا۔ اس کی چندریکا سے بڑی معصوم سی دوستی تھی۔ ان کی پکّی دوستی کی ایک وجہ شاید یہ بھی تھی کہ ان کے والدین کے آپس میں بڑے اچھے تعلقات تھے۔
اورنگ نگر میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندو اور سِکھ باشندے بھی شامل تھے۔ اس ریاست کے والی شاہ اورنگزیب ایک بہت ہی خاکسار اور رعایا پرورانسان تھے اسی لئے نہ صرف مسلمان بلکہ ہندو اور سِکھ بھی ان سے بڑی محبت کرتے تھے لیکن یہ محبت عداوت میں تب بدلی جب تقسیمِ ہند کے موقع پر یہ ریاست پاکستان کے ساتھ شامل ہو گئی۔ جو ہندو اور سکھ ہندوستان جا سکتے تھے وہ چلے گئے اور جو نہیں جا سکتے تھے انہوں نے اورنگ نگر کے ایک علاقے میں بسیرا کرلیا جو بعد میں ہند کہلایا۔ اسی موقعے پہ چند ہندو اور سکھ خاندان جو اپنے والی شاہ اورنگزیب کے وفادار تھے وہ نہ تو ہندوستان گۓ اور نہ ہی انہوں نے ہند علاقے میں بسیرا کیا بلکہ پہلے کی طرح اتّفاق سے مسلمانوں کے ساتھ رہنے لگے اور ان چند سِکھوں میں سے ایک چندریکا کے دادا بھی تھے جو کہ والی کے مشیروں میں سے ایک تھے اور یوں یہ دوستی نسل در نسل چلتی آرہی تھی۔ پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کے بعد یہ ریاست مختلف علاقوں میں بٹ گئ اور شاہی رسوخ چند علاقوں تک محدود ہو کے رہ گیا لیکن اس کے باوجود شاہی خاندان کی تمکّنت اور وقار برقرار رہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ دبے پاؤں اپنے مرحوم باپ کے بیڈروم میں داخل ہوئی تھی۔ کمرے کے ایک کونےمیں امّی جائےنمازبچھائے نماز پڑھنے میں مصروف تھیں۔ وہ خاموشی سے جا کے ان کے نزدیک ہی قالین پہ آلتی پالتی مار کے بیٹھ گئی۔ بابا کی موت کے بعد وہ پہلی دفعہ اس کمرے کے اندر آئی تھی ورنہ اس کمرے میں موجود ایک ایک شے اُسے بابا کی یاد دلاتی اور چیخ چیخ کے کہتی کہ وہ ان کی موت کی ذمہ دار ہے
“ایسی خاموش محبتیں ہی امر ہوتی ہیں ورنہ جو اظہار کی محتاج ہو وہ محبت نہیں رہتی۔ضرورت بن جاتی ہے۔” نجلہ نے اپنی ماں کے پر سکون چہرے کو دیکھا جس پے ایک نور ؛سا چھایا ہوا تھا۔ وہ اب سلام پھیر رہی تھیں۔
“اور اس خاموش محبت کا ثبوت خود میرا وجود ہے”۔ اُس نے قدرے بے چینی سے سوچا اور اپنی نگاہیں اپنی ماں کے چہرے پہ مرکوز رکھیں جہاں کسی پچھتاوے، ندامت، دکھ، درد اور شکایت کا شائبہ تک نہ تھا۔
“حیران ہوں کہ ایک خاموش محبت کی خاطر، جس کا اظہار اشاروں میں بھی کبھی نہ ہوا، اداؤں سے بھی کبھی نہ ہوا، آپ یوں قربان ہوئے کہ لُٹ گۓ۔ کہاں سے آیا آپ میں اتنا حوصلہ اور اُن میں اتنا صبر؟” اُس کی آنکھیں بھیگنے لگیں۔ اُسے اپنا باپ یاد آنے لگا۔ اُس کے سینے میں ایک درد سا اُٹھا۔ وہ کمرے سے نکل گئی۔ اُس کی ماں کی پر سکون خاموشی نے اُسے مزید بے چین کر دیا تھا۔
اُس نے دروازے سے مڑ کر دیکھا۔ اُن کے ہاتھ اب دعا کے لئے اُٹھے ہوئے تھے اور اُن کی آنکھیں بند تھیں۔
“کاش آپ یہ دعا مانگ لیں کہ بابا واپس آجائیں۔ آپ کی محبتوں اور قربانیوں کا صلہ اس سے بڑھ کے اور کیا ہو سکتا ہے؟” اُس نے آنکھیں بند کر کے دیوار سے ٹیک لگا لیا۔
ایک انسان کے پاس سب سے قیمتی چیز اُس کی اپنی زندگی ہوتی ہے اور شاہ احمد اورنگزیب نے اپنی وہی قیمتی ترین شے نجلہ شاہ احمد اور اُس کی ماں کے صدقے وار دی تھی کہ وہ اگر جیا تھا تو بھی ان ماں بیٹی کی خاطر اور اگرمرا تھا تو بھی ان کے واسطے۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شام کو شاہ محل سے نکلتے ہوۓ وہ کسی کے ساتھ بڑے زور سے ٹکرائی تھی۔
صبح کی آئی ہوئی وہ اب گھر کو لوٹ رہی تھی۔ پورے گاؤں میں ‘ولی عہد’ کے لندن سے آنے کی خبر مچی تھی۔ گاؤں کی ساری عورتیں شاہ محل میں حاضری دے کر اپنی خدمات پیش کررہی تھیں پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ چندریکا کماری کسی سے پیچھے رہتی؟ اور ویسے بھی چاہے بارش ہو یا طوفان، وہ ہر صبح کالج جانے سے پہلے شاہ محل جا کر سامنے والے برآمدے میں ‘مالک’ کی تصویر کا دیدار کرتی ورنہ اس کے بغیر اس کا دن ہی شروع نہیں ہوتا تھا۔ اب جب سے وہ بارھویں جماعت سے فارغ ہوئی تھی، تب سے گھر بیٹھی تھی اور یہی اس کا معمول تھا کہ وہ صبح صبح شاہ محل جاتی۔ دیدار کرتی۔ سکون کا سانس بھرتی اور اگلی صبح کا انتظار کرتی۔
“کہاں جا رہی ہو؟” یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ ہر صبح شاہ محل کا چکر لگا کے آتی ہے، ممی نے پھر بھی پوچھا۔
“کہاں جا سکتی ہوں ممی؟ جانتی تو ہیں آپ مُلّا کی دوڑ مسجد تک ہوتی ہے۔” وہ سلیقے سے دوپٹہ اوڑھتے ہوئے بولی۔
“اچھا۔ اچھا۔ لیکن جانتی تو ہو نا کہ میں بیمار ہوں۔ وہاں جا کے بھول مت جانا یہ بات۔ بیچ میں چکّر لگانا گھر کا۔” انہوں نےاُٹھ کر بیٹھنے کی ناکام کوشش کی۔
“اے ہے ممی! مر نہ جاؤں جو آپکو بھول جاؤں؟” اس نے اپنی ماں کا بوسہ لیا۔
“اونہہ ہٹ جاؤ۔ میں جانتی ہوں۔ تم روز یہی مکّھن لگا کے نکلتی ہو۔ اب میں نہیں آنے والی تمہاری چلاکیوں میں۔” انہوں نے مصنوعی ناراضگی سے کہا۔ “سنو! ولی عہد کو سلام دینا میرا۔”
“کیا ممی! آپ اُن سے ملنے نہیں جائیں گی؟ پتہ تو ہیں نا وہ لندن سے آرہے ہیں اتنے سالوں بعد۔ کتنا بُرا لگے گا۔”
“کیوں بولتی ہو تم اتنا چاند؟ کیوں میرا دماغ خراب کرتی ہو؟ جتنا کہا ہے اتنا کرو۔ جاؤں گی میں ملنے لیکن تمہیں نظر نہیں آرہا میں کتنی بیمار ہوں؟ تھوڑی سی بہتر ہوں گی تو جاؤں گی۔ اب تم جاؤ۔” ممی نے اُسے ڈانٹا اور وہ منہ پھلا کر گھر سے نکل گئی۔ ہر کوئی اُسے زیادہ بولنے کے طعنے دیتا تھا۔ کچھ وقت کے لئے غیرت میں آکے وہ خاموشی اپنا بھی لیتی تھی لیکن پھر اس سے رہا نہ جاتا تھا۔ اس کو اپنی ہر بات ضروری اور ہر رائے اہم لگتی تھی۔ وہ مفت مشورے دیا کرتی تھی کیوں کہ اُسے لگتا تھا کہ جو قیمتی خیالات اس کے ذہن میں جنم لیتے ہیں اس سے کسی دوسرے کو محروم رکھنا انسانیت کے خلاف تھا۔
وہ زیادہ بولتی تھی یہ اُسکی معصومیت تھی۔ وہ مخلص تھی۔ صاف گو تھی اور یہ بات اس کی ماں جانتی تھی اسی لئے اُسے ہر جگہ، ہر وقت بولنے سے منع کرتی تھی لیکن چونکہ اُس کا زیادہ تر آنا جانا شاہ محل تک ہوتا تھا۔ اسی لئے دیویکا مطمئین تھی کیونکہ اسی شاہ محل میں آتے جاتے خود اُس کی جوانی گزری تھی۔ بیگم جہاں آراء تبّسم کے ساتھ جہاں اس کی دوستی تھی تو وہاں وہ عورت اس کی بیٹی کے لئے ایک دیوی کی حیثیت رکھتی تھی اور دیویکا کو اپنی بیٹی کی بیگم جہاں آراء تبسم سے اس معصوم محبت پہ قطعاً کوئی اعتراض نہ تھا۔
شاہ محل جا کے روزمرہ کی طرح وہ آج بھی ممّی کے بارے میں بھول گئی تھی۔ اُسے کسی چیز کا ہوش نہیں تھا سوائے اس بات کے کہ ‘مالک شاہ احمد اورنگزیب’ آنے والے ہیں اور اس انتظار کا ایک ایک پل اتنا قیمتی، اتنا مقّدس تھا کہ وہ کسی اور چیز کے بارے میں سوچتی تو اس کی محبت پہ حرف آتا۔ اُسے اپنی بھوک، پیاس اور تھکن کا خیال نہ تھا بس وہ مسلسل کاموں میں مصروف تھی۔ ملازموں کے ساتھ مل کے محل کی آرام گاہوں کی صفائی سے لے کے برتن دھونے تک سب میں اس نے مدد دی لیکن ایک کام میں گڑ بڑ کردی۔ باورچی خانے سے نکلتے ہوئے وہ شاہ بیگم سے ٹکرائی اور لڈّوؤں کی طشتری ان کی جھولی میں اُنڈیل دی۔
“کس نے یہ طشتری تھمائی تھی اسے؟ اس کو باورچی خانے میں کس نے گھسنے دیا؟” شاہ بیگم کی غضبناک آواز نے چندریکا کی جان نکال دی تھی۔ وہ وہیں کھڑی کی کھڑی رہ گئی۔
“دفع ہو جاؤ یہاں سے!” شاہ بیگم نے حقارت سے اُسے دیکھا اور وہاں سے چلی گئیں۔
“اس میں میرا کیا قصور ہے؟ میں تو ‘مالک’ کو دیکھ رہی تھی۔” اُس نے برآمدے میں لگی شاہ احمد اورنگزیب کی اکلوتی تصویر کو دیکھا۔ یہ کہاں ممکن تھا کہ سامنے ‘مالک’ ہو اور وہ کسی اور طرف دیکھتی؟ یہ تو اس کی محبت کی توہین تھی۔ ہاں! شاہ بیگم کو چاہیئے تھا کہ دیکھ کے چلتیں۔۔۔
پورا دن شاہ محل میں خوار ہونے کے بعد آخرکار شام کو اُسے پتہ چلا کہ جو قافلہ شہرکے ہوائی اڈے ولی عہد کو لینے گیا تھا، خالی ہاتھ لوٹ آیا ہے کیونکہ وہ شہر میں اپنے ایک دوست کے والد کی موت پہ تعّزیت کرنے چلے گئے اور قافلے کو یہ کہہ کے واپس بھیج دیا کہ وہ ذرا دیر سے اکیلے ہی گاؤں آئیں گے۔
محل میں ایک دم چہل پہل رُک گئی۔ خاموشی سی چھا گئی۔ جو لوگ اُس وقت محل میں موجود تھے اُن سب کو شاہ کے حکم سے کھانا پیش کیا گیا۔ صرف چندریکا وہاں سے کچھ بھی کھائے پئے بغیر نکلی تھی۔ “جلدی سو جاؤں گی تا کہ کل صبح سویرے مالک کو دیکھنے آجاؤں۔ کاش اُن کو مجھ سے پہلے کوئی نہ دیکھے۔ کاش اُن کو سب سے پہلے میں دیکھ لوں۔۔۔” وہ بڑبڑاتے ہوۓ شاہ محل کے دروازے سے نکل رہی تھی جب وہ کسی سے ٹکرائی۔
دروازے کے ساتھ لٹکے فانوس کی روشنی میں اُس نے اپنے خواب کو تعبیر ہوتے دیکھا۔ اپنی دعا کو قبول ہوتے دیکھا۔ وہ اپنی بڑبڑاہٹ بھول گئی۔ اُس کی سانسیں،اُسکی دھڑکنیں اوراُس کی رگوں میں دوڑتا لہو۔۔۔ سب ایک ساتھ تھم گیا تھا۔ پورا جہاں جیسے خاموش سا ہو گیا تھا بس ایک وہی شخص تھا جو سانس لے رہا تھا۔ پلک جھپک رہا تھا اور شاید کچھ بول بھی رہا تھا مگر چندریکا کو نہ کوئی آواز سنائی دے رہی تھی اور نہ ہی کوئی زبان سمجھ میں آرہی تھی۔ وہ تو بس اُن خدوخال کو دیکھے جا رہی تھی جن کو تصویر میں دیکھ دیکھ کے نہ اُس کا دل بھرا تھا اور نہ ہی وہ بے زار ہوئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“زندگی بھر اُنہوں نے مجھے آپ کے وجود سے غافل رکھا۔ آپ سے متعلق کسی بھی سوال کا کبھی کوئی تسّلی بخش جواب نہیں دیا اُنہوں نے مجھے۔” وہ بیڈروم کے دروازے میں کھڑی اپنی ماں کے سوئے ہوئے چہرے کو دیکھ کے سوچ رہی تھی۔
“میرے مستقبل کے لئے اُنہوں نے آپ کو اور خود کو جدائی کے جس عذاب میں ڈالا اُس کا اندازہ شاید میں کبھی نہ کر سکوں۔” وہ دروازہ بند کر کے اپنے کمرے کی سمت چلی گئی۔
بابا! امیّ کیسے دِکھتی تھیں؟ اُسے اپنی آواز کی بازگشت سُنائی دی
یاد نہیں مجھے۔” وہ کوئی فا ئل پڑھنے میں مصروف تھے”
“واہ۔ یہ کیوں؟ آپ کواُن سے محبت نہیں تھی کیا؟”
اگلے ہی لمحے اُسے اپنے سوال پہ پچھتاوا ہوا۔ وہ بابا کے ساتھ اتنی بے تکلّف تو نہیں تھی کہ اُن کے ساتھ اپنی ماں کے رشتے کے نوعیت کے بارے میں سوال کرتی۔
“آپ اُن کے لئے دعا کیا کریں نجلہ!” وہ فائل بند کر کے اُٹھ گئے۔اُن کے چہرے پہ واضح بے چینی تھی۔ وہ بھاری بھاری قدم اُٹھاتے ہوۓ لاؤنج سے نکل گئے
شاید تمہاری دعائیں اسکے حق میں قبول ہو جائیں اور
اُس کی تکلیف میں کمی ہو جائے. وہ سخت بے چین تھے
نجلہ ہمیشہ یہی موضوع چھیڑ کر اُنہیں بے چین کر دیا کرتی
تھی اور اب تو وہ اُس سے بات کرنے سے بھی ڈرتے تھے۔ وہ ایسے ایسے سوال کرتی تھی کہ ان کا سینہ چھلنی کر دیتی تھی اور اُسے ٹال بھی نہیں سکتے تھے کیوں کہ اب وہ چھوٹی بچّی نہیں تھی جس کا دھیان کسی اور طرف لگا دینے سے وہ اپنی بات بھول جاتی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“آپ شاہ ہیں۔ آپ مالک ہیں۔ آپ سب کچھ ہیں” اُس کا دل پکار رہا تھا۔ وہ پلک جھپکائے بغیر اُس شخص کو دیکھتی جا رہی تھی جس سے اُسے محبت تھی۔ عشق تھا یا پھر عقیدت تھی۔ نجانے کیا تھا۔ اُسے خود بھی معلوم نہیں تھا اور یہ ضروری تو نہیں کہ انسان ہر جذبے کو نام دے۔ کچھ جذبے بے نام بھی تو ہوتے ہیں۔
“چاند!” اُن کے لبوں سے اُس کا نام نکلا تھا۔ کیا خوش قسمتی تھی کہ وہ اُس سے مخاطب تھے۔ یعنی وہ اُسے بھولے نہیں تھے۔ یعنی وہ اُن کے لۓ اہم تھی۔ کیا خوش فہم لڑکی تھی۔ کس قدر سادہ دل اور بے وقوف تھی۔ وہ ٹکر ٹکر اُنہیں دیکھے گئی۔
“تم رنگ ہو۔ تم نور ہو۔ تم خوشبوہو”
وہ جو بڑبڑاتے ہوئے جا رہی تھی۔ پھر اُس سے ٹکرائی اور ٹکرا کے ہمیشہ کی طرح پریشانی اور اُکتاہٹ سے اُس نے اوپردیکھا تو وہ اُسے پہچان گیا۔ وہ کوئی اور ہو ہی نہیں سکتی تھی۔ وہ راہ چلتے ہوئے بڑبڑانے والی۔ لوگوں سے بے دھیانی میں ٹکرا جانے والی اور ٹکرا کے پریشان ہوجانے والی چندریکا کور۔ چاند! وہ نالائق لڑکی جسے پہاڑے نہیں آتے تھے۔ “چھ چھکے؟” آکاش نے پوچھا۔
“چوبیس!” وہ جھّٹ سے بولی۔
“چھتیس!” اُس کے گال پہ ایک زوردار تھپڑ پڑا تھا۔ وہ بے بسی سے رونے لگی تھی اور بظاہر آکاش سے محوِ گفتگو شاہ احمد اورنگزیب کا پورا دھیان اُس روتی ہوئی لڑکی کی طرف تھا جس کی آنکھیں غروبِ آفتاب کا سا منظر پیش کرتی تھیں اور اب جب وہ رو رہی تھی تو یوں لگ رہا تھا کہ جیسے سورج کسی سمندر میں ڈوب رہا ہو اور اُس کے سارے رنگ پانی کے ساتھ مل کے اُسے رنگین بنا رہے ہوں۔ وہ کوئی لڑکی تھی یا کوئ حسین منظر جس سے نگاہ ہٹانے کو دل نہیں کرتا تھا لیکن پھر بھی اُس نے نظریں جُھکا لی تھیں
“اتنے سالوں میں آپ نے دیکھ کے چلنا نہیں سیکھا؟” اس سےعمراور رُتبے میں بڑا ہونے کے باوجود ‘آپ’ بلانے والا وہ وہی تھا۔ یعنی وہ لندن جا کے رہنے کے باوجود اُسے بھولے نہیں تھے؟ اُن کو کوئی تو بات یاد تھی اُس سے متعلق۔۔ کیا حسین پل تھا! کیا قبولیت کی گھڑی تھی! اور کچھ پل کس قدر امیر ہوتے ہیں۔ کسی فراخ دل انسان کی طرح آپ کی جھولی بھر دیتے ہیں۔ آپ کو مالامال کر دیتے ہیں اتنا کہ آپ شکر کرتے نہیں تھکتے ۔۔۔ چندریکا کو بھی اپنی خوش قسمتی کا یقین نہیں آرہا تھا۔ اُس نے بے یقینی سے اپنی آنکھیں ملیں۔
“آپ کو نیند آرہی ہے۔ چلیں! میں آپ کو گھر تک چھوڑ دیتا ہوں۔” اُس نے دیکھا دربان موجود نہیں تھا ورنہ وہ اُسے چندریکا کو گھر تک چھوڑنےکا کہہ دیتا۔
‘رہنے دیجیئے میری نیند کو۔ آپ بس مجھے اس پل کو جی لینے دیجیئے!” اُس کا دل چاہا وہ بولے لیکن ‘مالک’ کے سامنے زبان کھولنے کی اُسے ہمّت نہ ہوئی۔
وہ اُس سے آگے آگے چلنے لگا۔ “نہ تم کوئی پیغمبر زادی ہو اور نہ ہی میں کوئی جوان رسولِ خدا۔ لیکن پھر بھی میں تم سے آگے چلوں گا چندریکا کماری! اس لئے نہیں کہ مجھے تمہارے گھر کا راستہ معلوم ہے بلکہ اس لئے کہ ایسی ہی ایک اندھیری رات میں موسیٰؑ اُن نا محرم لڑکیوں سے آگے چلے تھے۔” لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہ چلتا جا رہا تھا۔ “میں مسلمان ہوں اور مجھ پہ اللہ کے سارے نبیوں کی پیروی کرنا فرض ہے۔” اُس نے بڑے سکون سے سوچا۔
اُس شخص کو چھو کر سچائی کا یقین کرنا ممکن نہ تھا اس لئے وہ خاموشی سے ‘مالک’ کے پیچھے پیچھے چلتی گئی۔ اسی بے یقینی کے عالم میں وہ گھر کے اندر گئی تھی۔ اس وقت اس کی مثال اُس مفلس کی سی تھی جسے خزانہ تو مل جاتا ہے پر اپنی خوش بختی پر یقین نہیں آتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

“تمہاری مدر نہیں ہیں ۔ تم تو اپنے فادر سے کافی کلوز ہوگی ن”:
ایک دن لنچ بریک میں اُس کی کلاس فیلو نے پوچھا “ہاں!” مختصر جواب دے کر وہ اپنا لنچ باکس کھولنے لگی۔ وہ خود پسند اور انٹروورٹ تھی اسی لئے نہ تو اُس نے اسکول میں کبھی دوست بنائے تھے اور نہ ہی اب کالج میں کوئی دوست بنانے کا ارادہ تھا بلکہ اُسے بِلا ضرورت کسی سے بات کرنا اچھا ہی نہیں لگتا تھا۔ اُس کے لئے اپنی ذات اہمیت اور دلچسپی کی حامل تھی اسی لئے نہ تو وہ کبھی کسی سے متاثر ہوئی نہ ہی اُسے کبھی کسی سے محبت ہوئی۔ اُس کے بابا اُس کے لئے پوری دنیا تھے اور اماں۔۔۔ اُن سے بھی لگاؤ تھا نجلہ کو کیوںکہ اُنہوں نے ہی تو اُسے پالا پوسا اور بڑا کیا تھا۔
“کافی دوستی ہوگی نا تمہاری اُن سے۔” سحرش پھر سے بول پڑی۔
“نہیں!” نجلہ نے پھر سے مختصر جواب دیا اور لنچ کھانے لگی۔
” اوہ! وہ کیوں؟”
“کیوںکہ میرےباباسیرئیس ٹائپ ہیں۔” نجلہ نےاُکتاہٹ سےسحرش کودیکھاجونجانےکیوں اُس سےاتنےسوال کررہی تھی۔
ہیں۔ سحرش نےخود ہی اندازہ لگا لیا۔conservativeاور typical”اوہ اچھا!
اُس نے فخر سے گردن اونچی کرکےکہا۔ “Excuse me! My father is the best dad in the world.”
اُس نے سحرش کو اپنی سیٹ پر سے اٹھنے کو کہا اور وہ جو اُس سے دوستی کرنے آئی تھی شرمندہ سی “You may go now!
ہو کر کلاس سے نکل گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اتنی خاموشی کے ساتھ شاہ محل میں داخل ہو کر اپنی آرام گاہ کے اندر گیا تھا کہ دروازے پہ کھڑے اونگھتے ہوئے دربان کو اُس کےقدموں کی آواز بھی نہیں سنائی دی تھی۔
“آگئے ہمارے ولی عہد!” شاہ ابا آرام کرسی پہ جھولتے جھولتے رُکے۔ “بڑا انتظار کروایا آپ نے۔۔” اُنہوں نے اپنی بانہیں پھیلا دیں۔ وہ بِلا جِھجھک اُن کے گلےلگ گیا۔
“وہ شاہ ابا۔۔۔۔”
“آپ سبھاش کی بیٹی کو گھر تک چھوڑنے گئے تھے۔” اُن کے لہجے میں سوال سے کہیں زیادہ یقین کا عنصر شامل تھا۔ شاہ احمد نے حیرت سے اپنے باپ کو دیکھا۔
“ہمیں فخر ہے آپ پہ۔” وہ اُس کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کے بولے۔ “اس لئے نہیں کہ آپ نے ہمارے مرحوم دوست کی بیٹی کو عزّت دی بلکہ اس لئے کہ آپ لندن جا کر بھی عورتوں کی عزّت کرنا نہیں بھولے۔” وہ سر جھکائے ہلکا سا مسکرایا۔
آپ کھانا کھا کے آگئے باوجود اس کے کہ آپ کے لئے کھانے کا خاص اہتمام کیا گیا تھا۔ شاہ ابا کوشش کے باوجود اپنے لہجے سے شکایت کا عنصر نہ ہٹا سکے۔
“اویس کے پاس جانا ضروری تھا ابا!”
“ہاں۔ آپ آرام کریں۔ صبح ناشتے پہ ملاقات ہوگی۔ ان شاءاللہ۔” وہ اس کا کندھا تھپتھپا کر بولے۔ ” اور ہاں!” وہ جاتے جاتے مڑے۔ “ہمارے دربان چاق وچوبند ہیں۔ اُنہیں آج اونگھنے کا حکم دیا گیا تھا کیونکہ ہم جانتے تھے آپ خاموشی سے آنا پسند کریں گے اور ہم نے آپ کی اس خواہش کا پاس رکھا۔” وہ کمرے سے نکل گئے۔ شاہ احمد حیرت سے اپنے باپ کو جاتا دیکھتا رہا۔عجیب بات تھی، اس سے ہمیشہ دور رہ کے بھی وہ شخص اس کی شخصیت کے ہر پہلو سے واقف تھا۔
“جن بیٹوں کی مائیں دروازے پہ کھڑی ہو کے اُن کی راہ تکتی ہیں، وہ باہر سے کھا کر نہیں آتے شاہ احمد اورنگزیب! اور تم بچپن سے یہی یقین لئےآرہے ہو کہ تمہارا کوئی منتظر ہی نہیں ہے اس لئے تم نے ہمارے آدمیوں کو خالی ہاتھ واپس بھیج دیا اور خود دبے پاؤں کسی اجنبی کی طرح آگئے یہ جانے بغیر کہ تمہارا باپ تمہارا منتظر ہے۔” وہ اپنی آرام گاہ کے اندر داخل ہو گئے۔
میں تھک جاتا ہوں گنتے گنتے کہ میں نے کہاں کہاں پہ تمھارا حق مارا ہے” وہ اپنے شاہی طرز کے پلنگ پہ لیٹ گئے۔ وہ شکایت کرتا۔ وہ حق جتاتا۔ شکوؤں کا انبار لگاتا تو شاید ان کے احساسِ جرم میں کمی ہوتی لیکن شاہ احمد کی بے نیازی، اُس کی خاموشی اور اُس کا پُر سکون چہرہ اُنہیں مزید بے چین کر دیا کرتا تھا۔
اُنہیں یکدم اپنی علیل بیوی یاد آگئی جس نے شاہ احمد کی پیدائش کے تھوڑے سے عرصے بعد ان کا نکاح اپنی بہترین سہیلی شبینہ کے ساتھ کروا دیا تھا کیونکہ اس کا خیال تھا کہ اس کے بعد اگر کوئی اس کے بیٹے کو ایک ماں جیسی اپنائیت دے سکتا تھا تو وہ شبینہ ہی تھی لیکن اپنے اس فیصلے کے غلط نتائج دیکھنے سے پہلے ہی وہ فوت ہو گئی۔
“اتنا سمجھدار ہونے کے باوجود جہاں آراءتبّسم! تم نے کس قدر غلط فیصلہ لیا تھا جس کی سزا میں آج اپنے بیٹے سے دوری کی صورت میں کاٹ رہا ھوں۔” اُنہیں یاد آتا وہ اُن کے بچپن کی منگیتر تھی۔ اُن کے ساتھ اسی شاہ محل میں پلی بڑی تھی۔ سمجھدار اور عقلمند ہونے کے ساتھ ساتھ حسین بھی تھی۔ مختلف مسائل کے حل کے لئے ان کو مشورے دیتی اور ان کے شانہ بشانہ کھڑی رہتی۔ کبھی کبھی تو شاہ محمد سوچتے کہ وہ اگر مرد ہوتی تو یقیناً وہی شاہ بننے کی مستحق تھی۔ پھر شاید نظر کھا گئی تھی اُسے۔ شادی کے چند سال بعد اُسے ایک نامعلوم مرض نے آلیا۔ طبیبوں نے جواب دے دیا۔ وہ بھی جان گئی تھی کہ وہ اب بچنے والی نہیں ہے اس لئے اپنی زندگی ہی میں اس نے اپنی ایک غریب دوست کا نکاح ان کے ساتھ پڑھوادیا۔
اُنہوں نے آنکھیں بند کردیں۔
“تمہاری محبت میں شاہ احمد اورنگزیب! تمہاری بے پناہ محبت میں ہمیں تم سے تمہارے حقوق چھیننے پڑے۔ کبھی مجھےتو کبھی تمہاری ماں کو۔۔۔۔” اُن کی بند آنکھوں میں پانی اُتر آیا جس کو کو بہانا اُن کی شان کے خلاف تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“وہ کافی دیر تک کروٹیں بدلتی رہی پر اُسے نیند نہیں آرہی تھی۔
“بابا میرا رزلٹ آگیا ہے۔ کالج میں سیکنڈ پوزیشن ہے میری۔” اُس دن وہ بے حد خوش تھی۔ اُس کے ایف۔ایس۔سی کا بہت اچھا رزلٹ آیا تھا اور وہ یہ خوش خبری سنانے بابا کے پاس گئی تھی۔
“واہ بھئ ماشاءاللہ۔ بہت بہت مُبارک ہو آپ کو۔” اُنہوں نے اُس کے سر پہ شفقت بھرا ہاتھ پھیرا۔
اُسی شام وہ دونوں ڈنر کرنے نجلہ کے فیورٹ ریسٹورنٹ گئے تھے اور وہاں سے واپسی پہ بابا اُسے شو روم لے کے گئے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ نجلہ اپنی پسند کی گاڑی لےلے۔
گاڑی دیکھنے کے بعد بابا پارکنگ ایریا سے گاڑی نکالنے گئے تھے اور وہ شو روم کے باہر اُن کا انتظار کر رہی تھی جب اُس نے ایک لڑکے کو ایک لڑکی کا ہاتھ پکڑتے دیکھا۔ وہ لڑکی گھبرائی ہوئی اِدھر اُدھر دیکھنے کے بعد اپنا ہاتھ چھڑانے لگی۔
نجلہ تیز رفتاری سے اُس طرف گئی۔ وہ کُشتی میں ماہر تھی اور پٹائی کرنا اُس کے پسندیدہ مشغلوں میں سے ایک تھا۔
“چھوڑ دو اِسے۔” وہ آستینیں چڑھاتے ہوئے بولی۔
“اور اگر نہ چھوڑوں تو؟” لڑکے نے حقارت سے اُس کی طرف دیکھا۔
“میں کہتی ہوں چھوڑ دو۔” اُس نے اُس لڑکے کو خوب مارا۔ لوگ جمع ہوئے تو وہ لڑکی کو اُس طرف لے گئی جہاں بابا گاڑی میں اُس کا انتظار کر رہے تھے۔
“کیا لگتا ہے یہ تمہارا۔”
“کچھ نہیں باجی۔” لڑکی نے جھوٹ بولا۔
“یوںہی نہیں کوئی کسی کا ہاتھ پکڑ لیتا۔ سچ بتاؤ۔”
وہ جی میں اسے جانتی تھی۔ دوستی تھی ہماری۔ لیکن اب میری منگنی۔۔۔۔۔۔۔۔
بات سنو! اپنے ماں باپ کی عزّت اُچھالنے کی سزا ملی ہے یہ تمہیں چھوٹی سی۔ آئیندہ خیال رکھنا.-نجلہ نے اُسے اپنے ساتھ گاڑی میں بٹھایا۔ “ابھی ہم تمہیں گھر تک چھوڑ دیں گے۔ چلیں بابا!”
یہ بد تمیز اگر تجھ سے ڈر رہے ہیں تو پھر
تجھے بگاڑ کے میں نے بُرا نہیں کیا ہے
زیرِلب علی زریون کا شعر پڑھتے ہوۓ اُنہوں نے کن اکھیوں سے سیٹ بیلٹ باندھتی نجلہ کو دیکھا اور ہولے سے مسکرا دئیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اُس کی آمد کی خوشی میں علاقے والوں کی عام دعوت تھی۔ عید کا سا سماں تھا۔ شاہ محل میں صبح صبح لوگوں کی آمدورفت جاری تھی۔
شاہ ابا اپنی آرام گاہ کے سامنے پڑے تخت پہ براجمان تھے۔آج پہلی دفعہ ایسا ہوا تھا کہ وہ اپنے مشیروں کے ساتھ ناشتہ کرنے کے بجائے وہاں بیٹھے شاہ احمد کا انتظار کر رہے تھے۔ یوں لگتا تھا جیسے شاہ احمد کے آنے سے ان کا پورا معمول ہی بدلنے لگا تھا۔
وہ سفید شلوار قمیض میں ملبوس شاہ ابا کے پاس آکے بیٹھنے لگا جب کسی کی کھنکھتی پائل نے اُسے اپنی جانب متوجہ کیا۔ وہ وہی تھی! پاگل۔ سرپھری۔ بے ڈھنگی۔ بے وقوف لڑکی۔ اور کوئی ہو ہی نہیں سکتی تھی۔ مالک کی آمد پہ عید کی سی تیاری کرنے والی۔ چندریکا کور۔ چاند!
وہ نگاہیں اُٹھائے بغیر شاہ ابا کے پاس بیٹھ گیا۔ وہ نظریں اُٹھا کے اُسے دیکھتا تو یقیناً دیکھتا ہی رہ جاتا۔ وہ جہاں ہوتی وہ منظر کسی خواب کی مانند شاہ احمد کی آنکھوں میں بس جاتا پر جو لڑکی اس کی حقیقت سے اتنی پرے تھی وہ اُسے خواب بنا کے کیا کرتا؟
وہ ہرگز نگاہ اُٹھا کے اُسے نہ دیکھتا اگر وہ ملازمہ کے ہاتھ سے طشتری لے کر اس کے سامنے ناشتہ رکھنے نہ آتی۔
“آداب!” وہ پیالیوں میں چائے ڈالنے لگی۔
“جیتی رہو چاند! بیٹا کیسی ہو؟” شاہ ابا ہمیشہ سے سبھاش سنگھ کی اس بیٹی پہ مہربان تھے۔ وہ ان کے دوست کی اکلوتی بیٹی تھی اور تھی بھی کس قدر تابعدار اور سُلجھی ہوئی۔ روز شاہ محل آتی۔ بڑی اپنائیت سے ہر کام کر دیا کرتی تھی اور ان سے تو آج بھی اُسی اپنائیت سے ملتی تھی جس اپنائیت سے کبھی وہ اپنے باپ کی زندگی میں ان کے پاس جاتی تھی۔ اُنہیں اچھی طرح یاد تھا جب وہ اور سبھاش شکار پہ جاتے تھے، چندریکا جانے کے لئے کیسی ضد کرتی۔ روتی۔ چیختی چلّاتی اور تب تک خاموش نہیں بیٹھتی تھی جب تک گھوڑے پہ نہ بیٹھ جاتی تھی۔
“میں بہت اچھی۔” شاہ احمد خفیف سے انداز میں اس کے جواب پہ مسکرایا۔
“کچھ چاہیئے ہو تو بتانا۔” وہ زرد رنگ کا دوپٹہ سنبھالتی ہوئی جانے لگی۔ شاہ احمد نے نگاہیں اُٹھا کر اُسے دیکھا۔ وہ جاتے جاتے مڑی۔ اُس کی آنکھوں میں وہی غروبِ آفتاب کا سا سماں تھا۔ شاہ احمد کو وہ روشن صبح ڈھلتی شام کی سی لگنے لگی۔ اُس کا چہرہ وہی تھا۔ چودھویں کے چاند سا روشن، دمکتا ہوا۔۔
وہ وہیں کھڑی رہتی اگروہ نظریں نہ جھکاتا۔ ایسا کب ممکن تھا کہ مالک کی نظر اُس پہ ہو اور وہ کسی اور طرف دیکھتی۔ یہ تو کفر ہوا نا۔ نا فرمانی ہوئی۔
مالک کو ناشتہ شروع کرتے دیکھ کے وہ پازیب کھنکھاتی وہاں سے چلی گئی۔ شاہ احمد کو لگا وہ لڑکی جاتے ہوئے اُس کا سینہ چاک کر کے گئی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“بُرائی کو ہاتھ سے روکنا ایمان کا اوّل ترین درجہ ہے۔” اُس نے اپنا اسکارف ہٹا کر بیڈ پہ رکھا۔
“ہم سب بُرائی کو یہ کہہ کے نہیں روکتے کہ ہر کسی کا ذاتی معاملہ ہے لیکن حقیقت کچھ اور ہے۔ بُرائی کسی کا بھی ذاتی معاملہ نہیں ہوتا۔ یہ ہم سب کا اجتماعی مسئلہ ہے۔”
اُس نے آئینے میں خود کو دیکھا اور مسکرائی۔
“ہمارے معاشرے میں بُرائیاں اسی لئے فروغ پاتی ہیں کہ ہم انہیں ہر کسی کا ذاتی معاملہ سمجھ کے نظرانداز کر دیتے ہیں اور ہماری نئی نسلیں اب اسی چیز کا شکار ہو رہی ہیں۔” اس کے کانوں میں بابا بول رہے تھے۔ “اب تو بچے ماں باپ تک کوکہنے لگے ہیں کہ وہ ان کی ذاتی زندگی میں دخل اندازی نہ کریں۔” وہ بیڈ پہ لیٹ گئی۔
“لیکن مجھے فخر ہے کہ آپ ایسا نہیں سمجھتی۔ آپ میں بُرائی کو ہاتھ سے روک دینے کی جُراۤت ہے۔” وہ جب سے باہر سے آئے تھے نجلہ کی جُراۤت کی داد دیئے جا رہے تھے اور اب جب کہ وہ سونے لگی تھی اُسے بار بار بابا کی باتیں یاد آرہی تھیں۔ وہ خوش تھی۔ زندگی میں پہلی بار اُس کے باپ نے کھل کر اس بات کا اظہار کیا تھا کہ وہ اس سے مطمئن ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ دن اُس نے شاہ ابا کے ساتھ دوروں پر گزارا اور جب وہ واپس محل لوٹے تو شام ڈھل چکی تھی۔
“آداب مالک!” وہ اپنی آرام گاہ میں داخل ہوا تو وہ غسل خانے سے نکل رہی تھی۔
آپ یہاں؟” اُسے اچانک اپنے سامنے دیکھ کے وہ گھبرا گیا۔ وہ اس کو جتنا نظرانداز کرنے کی کوشش کرتا وہ اُتنا ہی اُس کے سامنے آتی۔ وہ جس طرح بھاگتی بھاگتی محل میں داخل ہوتی اُسی طرح دل میں بھی گُھس جایا کرتی تھی اور اب اُس کی آرام گاہ میں موجود تھی۔ وہ اس کو کیا ڈانٹتا؟ کیا سمجھاتا؟ کیا حساب کرتا؟ وہ سدا سے حساب میں کمزور لڑکی دلائل اور منطق کیا سمجھتی؟ وہ تو جیت کے نشے میں دھت کسی جنگجو کی طرح آتی۔ حملہ کرتی۔ فتح یاب ہوتی اور سبھی خزانے لوٹ کرچلی جاتی۔ وہ ایسی ہی تھی۔ اِدھر اُدھر بھاگنے دوڑنے والی۔ جسے لگام ڈال کے قابو نہیں کیا جا سکتا تھا۔ شاہ احمد اُسے خوب جانتا تھا۔
“میں غسل خانے میں تولیہ رکھنے آئی تھی۔”
“کافی دیر ہو گئی ہے۔ آپ گھر چلی جائیں۔” کیا اعزاز کی بات تھی کہ مالک اس سے مخاطب تھے۔ اُن کے لہجے میں فکر کی جھلک تھی۔ چندریکا کا دل چاہا وہ پھر سے اس کو گھر تک چھوڑنے جائے۔ قسمت پھر سے مہربان ہو جائے اور وہ سر جھکا کر اُن کے پیچھے پیچھے چل دے جیسے کوئی عورت اپنے مرد کے پیچھے چلتی ہے اس اطمینان کے ساتھ کہ وہ اسے منزل تک پہنچا کے دم لے گا۔
“ممّی آپ کو سلام کرنے کے لئے آنا چاہ رہی تھیں لیکن بخار چڑھ گیا اُن کو۔”
“چلیں۔ میں آپ کو گھر تک چھوڑ دیتا ہوں۔ کاکی سے مل بھی لوں گا۔” وہ دروازہ کھول کر باہر جانے لگا۔ چندریکا کا دل چاہا وہ وہیں بھنگڑا ڈالنے لگے۔ اتنا ناچے۔ اتنا ناچے کہ اس کی ہڈّیاں دُکھنے لگے لیکن اس وقت چونکہ یہ ممکن نہ تھا اسی لئے وہ خاموشی سے مالک کے پیچھے چل دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اُس کی کسی کے ساتھ بھی کوئی خاص دوستی نہیں تھی۔ صرف انکل اویس کے بیٹے اظفر سے اس کی بنتی تھی۔ وہ بچپن سے اس کے ساتھ ایک ہی اسکول میں پڑھتا تھا اور سب سے بڑھ کر اُس میں جو بات نجلہ کو اچھی لگتی تھی وہ یہ تھی کہ وہ بچپن سے انگریزی میں جاسوسی کہانیاں لکھتا تھا اور اس میں نجلہ سے رائے بھی لیتا تھا۔ اُس کی کہانیاں ایک انگریزی ڈائجسٹ میں چَھپتی تھیں۔ اظفر کی وجہ سے نجلہ کو بھی لٹریچر میں دلچسپی پیدا ہوئی تھی۔ وہ سیکنڈائیر کے بعد انگلش لٹریچر پڑھنا چاہتی تھی لیکن بابا کے کہنے پہ اُس نے لاء کالج میں ایڈمیشن لے لیا۔
بھی یوٹیلائیز کر سکتی ہیں۔ بلکہ آپ لاء کر کےas a lawyerکوالیٹیز ہیں تو آپ اُن کو detective”آپ کو لگتا ہے کہ آپ میں
اپنی اُن کوالیٹیز کو پریکٹیکلی یوُزکر سکتی ہیں۔” بابا نے اُسے سمجھایا تھا۔ وہ جیسی تھی اُنہوں نے بلکل ویسا ہی بنانا چاہا تھا اُسے۔ بس ایک چیز تھی جس سے اُنہوں نے ہمیشہ بچانا چاہا تھا نجلہ کو۔ ‘آئیڈئیلیزم!’ اسی چیز سے وہ ڈرتے تھے۔ وہ اُسے ایک عملی سوچ رکھنے والی مضبوط لڑکی بنانا چاہتے تھے جو جذبات سے زیادہ عمل پہ یقین رکھتی ہواور اپنی اسی سوچ کے مدِنظر اُنہوں نے اُس کا ایڈمیشن لاء کالج میں کروا دیا تا کہ اُس کی زندگی دلائل کے درمیان گزرے۔ وہ اپنی بات ثابت کرنے کا گُر سیکھے اور ایک خود مختار انسان بن کے زندگی گزارے۔
وہ اُن کی زندگی کا واحد اثاثہ، اُن کی جمع پونجی تھی اور اُنہوں نے ہر حال میں اُسے ‘وہ’ بنانا تھا جو اُنہوں نے اُسے بنانا چاہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ برآمدے میں سے گزر کر صحن میں اُتر آئے جب ان کا سامنا شاہ بیگم سے ہو گیا۔ شاہ احمد کی نظریں اماں بیگم کی معنی خیز نگاہوں سے ٹکرائیں تو اُس نے نظریں جھکا لیں۔
“السّلام علیکم!” وہ چاہ کے بھی اس عورت کو اماں نہیں بُلا پاتا تھا اور اس کی وجہ ہرگز یہ نہ تھی کہ اس کے دل میں اس عورت کے لئے نفرت کا جذبہ تھا بلکہ ہماری زندگیوں میں کچھ لوگ ہماری محبت مہ تو کیا نفرت پہ بھی اپنا حق نہیں جتا پاتے اور ایسے لوگوں کے لئے ہمارے دلوں کے خانے کسی بھی قسم کے جذبے سے خالی ہی رہتے ہیں پھر وہ کیا اُس عورت سےمحبت یا نفرت کا کوئی بھی رشتہ رکھ پاتا جس کے ساتھ بچپن کی وہ قلیل مدّت گزارنے کے بعد وہ شہر چلا گیا تھا اور اگر گھر آبھی جاتا تو ان دونوں کا سامنا کم ہی ہوتا تھا اور سامنا ہونے کی صورت میں بھی بات کم ہی ہوا کرتی تھی۔
شاہ بیگم سلام کا جواب دئے بغیر ہی وہاں سے چلی گئیں۔ شاہ احمد کے دل میں یوں ہی ایک خوف سا اُٹھا۔ اُس عورت کا نام، اُس کا ذکر، اُس کا سامنا اُسے ایک نا معلوم خوف میں مبتلا کر دیا کرتا تھا۔ بلا کی مردانگی اور رگوں میں شاہی خون ہونے کے باوجود وہ اس عورت سے بے پناہ ڈرتا تھا جو کہ شادی سے پہلے اس کی ماں کی بہترین سہیلی ہوا کرتی تھی اور شاہ احمد کی بد بختی کہ اب اس کی سوتیلی ماں تھی اور جس نے ایک زمانے میں اپنی اس سوتیلی اولاد کو جان سے مار دینے کی کوشش بھی کی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اُسکی ذات میں نسوانیت سے کہیں زیادہ مردانگی کا عنصر شامل تھا۔ وہ باقی لڑکیوں کی طرح بنتی سنورتی نہیں تھی۔ سادہ قسم کا لباس زیبِ تن کرتی تھی لیکن اس کے باوجود اس میں ایک خاص قسم کی کشش تھی۔ وہ اتنی خود پرست اور پُر اعتماد تھی کہ اُس کی طرف سے اُنہیں کوئی خدشہ لاحق نہیں تھا۔ وہ اُس کی طرف سے مطمئن تھے کہ وہ مغرور اور خود پسند تھی حالانکہ وہ خود مغرور تھے نہ ہی اُنہیں غرور پسند تھا لیکن یہاں پہ بات اُن کی بیٹی کی تھی اور اُس کی یہ خود پرستی اور غرور اُس کی حفاظت کے لئے ایک ڈھال تھا۔
اُنہوں نے جس طرح اُسے بنانا چاہا تھا وہ ویسی ہی تھی اسی لئے اُسے دیکھ کے ہر دم اُنہیں اپنی کامیابی کا احساس ہوتا تھا۔
اُس کے بال سُنہرے تھے جنہیں وہ ہمیشہ سے اسکارف میں چھپائے رکھتی تھی۔ اُس کی رنگت گرمی کی دوپہر کی مانند روشن تھی اور اُ س کی سُرمئی آنکھیں کچھ عجیب سا منظر پیش کرتی تھیں یوں لگتا تھا جیسے شام دھل چکی ہو اور ہر طرف اندھیرا چھا گیا ہو۔ شاہ احمد کو ہر بار ان آنکھوں کو دیکھ کے ڈر سا لگ جاتا تھا۔ ماضی پلٹ کر ان کے سامنے آ کھڑا ہو جاتا تھا اور وہ ہر بار گھبرا کے نگاہیں جھکا لیا کرتے تھے۔
“اُس کی آنکھیں ڈھلتی شام کی سی تھیں۔ اُس کی آنکھوں میں زرد سی روشنی دیکھ کے اُن پہ غروبِ آفتاب کا سا گُمان ہوتا تھا پر اُس چمک کے باوجود اُس کی قسمت کس قدر تاریک ثابت ہوئی۔” بظاہر پُرسکون نظر آنے والے اُس شخص کے اندر ایک طوفان سا برپا ہو جاتا تھا۔
“تمہاری آنکھیں اس قدر تاریک ہیں کہ لگتا ہے رات چھا گئی ہے۔ خُدا کرے تمہاری قسمت تمہاری آنکھوں کے اُلٹ ہو۔ تمہارا نصیب اتنا روشن، اتنا خوبصورت ہو کہ تمہاری زندگی مکمل ہو جائے۔ تمہیں ہر شکر کے بدلے نئی نعمت ملے۔ تمہیں اللہ اتنا نوازے کہ تمہاری ماں کے ساتھ کی گئی نا انصافیوں کا آزالہ ہو سکے۔”وہ بے چینی سے ٹہلنے لگتے۔ ٹہلتے ٹہلتے رُک جاتے۔ رُک کر بیٹھ جاتے تھے پر اُن کو چین کسی طور نہ پڑتاتھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اُس کے دل میں خواہش اُبھری تھی کہ راستہ لمبا ہوتا جائے اور وہ چلتی جائے۔ ایسے ہی خاموشی کے ساتھ۔ سر جھکائے۔ مالک کی پیروی میں۔
“آپ چلیں۔” دروازے پہ رُک کے اُس نے چندریکا کو آگے جانے کا حکم دیا اور وہ خاموشی سے اندر چلی گئی۔
“کاشی! کہاں ہو تُم؟” اندر داخل ہوتے ہی اُس نے آواز لگائی ۔ “جلدی آؤ۔ مالک آئے ہیں۔” اُس نے اعلان کیا۔ پرکاش بھاگ کے باہر آیا اور اُس نے شاہ احمد کو سلام کیا۔
“آج آپ نے بڑی دیر لگا دی۔ ممی سخت ناراض ہیں۔” پرکاش نے اُسے اطلاع دی۔
“چپ کر! دیکھ نہیں رہا مالک آئے ہیں۔” چندریکا نے اپنے بھائ کو ڈانٹا۔ شاہ احمد مسکرایا اور چندریکا کے پیچھے پیچھے چلتے ہوئے وہ کمرے کے اندر گیا۔
“کیسی ہیں آپ؟” شاہ احمد پلنگ کے پاس پڑی کرسی پہ بیٹھ گیا۔ کاکی نے اُٹھنے کی ناکام کوشش کی۔
“نہ اُٹھیں! لیٹی رہیں۔” اُس نے اس کمزور سی عورت کو دیکھا جس کے پاس سے اُسے ماں کی خوشبو آتی تھی۔ جس نے ہمیشہ اُسے آکاش جیسی محبت اور اہمیت دی تھی۔
“حکیم آیا تھا؟” اُس نے دریافت کیا۔
“نہیں۔” کاکی نے کمزور سی آواز میں جواب دیا۔
“اچھا؟ تو آپ نے بتایا کیوں نہیں؟ دیکھیں آپ کتنی کمزور ہو رہی ہیں۔” وہ کرسی سے اُٹھا۔ “میں ابھی جا کے بُلاتا ہوں۔”
وہ کمرے سے نکل گیا اور سیدھا دواخانے چلا گیا۔
“آپ کے عملے کا کام ہی یہی ہے کہ وہ لوگوں کی خبر رکھے۔ ایسے بہت سے گھر ہیں یہاں پہ جہاں کوئی مرد نہیں ہے۔ ان لوگوں کا کون زمہ دار ہے؟”
“آبادی بڑھ گئی ہے ولی عہد! ہر گھر کی خبر رکھنا مشکل ہے۔”
“تو آپ یہ بات شاہ ابا کو کیوں نہیں بتاتے؟ مسائل کا حل اس میں تو نہیں ہے کہ آپ اپنے فرائض سے منہ پھیر لیں۔ کل اسی مسّلے پہ بیٹھک ہوگی۔ آپ کو جتنی بھی مشکلات ہیں شاہ ابا کے سامنے اُن سب کا ذکر کر دیجئیےگا۔”
وہ حکیم کو لے کے کاکی کے پاس پہنچا۔ اُن کو دوائی وغیرہ دینے کے بعد اُس نے حکیم کو روانہ کیا اور کاکی کو تسّلی دی کہ وہ جلد ہی ٹھیک ہو جائیں گی۔
“اب میں چلتا ہوں۔” وہ کمرے سے نکل گیا۔
“میں تو چائے بنا رہی تھی اُن کے لئے۔ کاشی! وہ چلے گئے کیا؟” وہ باورچی خانے کے دروازے میں کھڑی تھی۔ برآمدے میں اندھیرا ہونے کی وجہ سے اُسے لگا کہ کمرے سے پرکاش نکلا ہے۔
“چائے بنانا سیکھ گئیں آپ؟” وہ اُس کی طرف آتا حیرانگی سے بولا۔
“تو انہیں یہ بھی یاد ہے کہ میں کس قدر بد مزہ چائے بناتی تھی؟” اس خیال نے اُسے شرمندہ کرنے کے بجائے خوش کر دیا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ اپنی اس خوشی کو منا پاتی وہ بول پڑا۔
“میں چلتا ہوں۔ آپ کی چائے کو چکھنے کا تجربہ پھر کبھی سہی۔۔” وہ چلا گیا۔ وہ مسکرائی۔ وہ اس کا مذاق اُڑا کے گیا تھا۔ کیا اعزاز کی بات تھی کہ وہ آج بھی اُسے دوست مانتا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ٹول باکس اُٹھائے بابا کے کمرے کی طرف جا رہی تھی۔ ابھی ابھی شوکت چچا نے آ کر اُسے اطلاع دی تھی کہ صاحب کے کمرے کی بجلی کٹ گئی ہے۔
“السّلام علیکم!” یہ اُن کی عادت تھی کہ وہ لاؤنج میں داخل ہوتے ہی بلند آواز میں سلام کرتے تھے۔
“وعلیکم السّلام بابا! آپ کے کمرے کی لائٹ کٹ گئی ہے۔” نجلہ نے خوش ہو کر اُنہیں اطلاع دی۔
“یعنی آپ کی عید ہے۔” وہ مسکرائے۔
“اور آپ کی بچّت۔۔” وہ حاضر جوابی سے بولی۔
“ہاں بھئی! یہ بات تو ہے۔ اب ہم بجلی ٹھیک کروانے کے لئے الیکٹریشن کو بُلائیں گے۔ پائپ جوڑنے کے لئے پلمبر کو بُلائیں گے تو خرچہ تو بڑھے گا نا۔” وہ صوفے پر بیٹھ گئے۔
“ہاں جی۔ لیکن آپ کی لائق فائق، اینٹیلیجنٹ اور ملٹی ٹیلینٹڈ بیٹی کے ہوتے ہوئے نہ تو آپ کو کسی الیکٹریشن کی ضرورت ہے اور نہ ہی پلمبر کی۔” وہ فخریہ انداز میں بولی۔ “آپ یہاں بیٹھ کے انتظار فرمائیں۔ میں ابھی لائٹ ٹھیک کر کے دیتی ہوں۔” وہ بابا کے بیڈروم کی طرف چلی گئی۔
وہ یہ سب کام بڑے شوق سے کرتی تھی لیکن جب اُسے انجینئرنگ پڑھنے کو کہا جاتا تو وہ جھٹ سے بولتی “اُس کے لئے ضروری ہے کہ آپ میتھس میں ہیرو ہوں لیکن میں تو زیرو ہوں اس سبجیکٹ میں۔ بڑی مشکلوں سے تو میٹرک کا میتھس پاس کیا تھا میں نے۔ اب کیا آگے بھی یہی دردِسر پال لوں؟” اور اس کی بظاہر یہ عام سی بات شاہ احمد اورنگزیب کو خوف کے اندھیروں میں دھکیل دیا کرتی تھی جس سے وہ اپنی بیٹی کو دور رکھنے کی ہر ممکن کوشش کیا کرتے تھے۔
“چھ چھکے؟” آکاش پوچھتا۔
“چوبیس۔” وہ سر جھٹکتے مگر وہ آواز اُن کا پیچھا نہ چھوڑتی۔
“مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ کسی بھی ہندسے کو صفر سے ضرب دو تو وہ صفر کیسے بن جاتا ہے؟ ارے بھئی! اچھا بھلا ہندسہ تھا دیکھتے ہی دیکھتے صفر بن گیا۔ اب اس بات کی کوئی تُک بنتی ہے؟” وہ منہ پھُلا کے بیٹھ جاتی تھی تو شاہ احمد کو کس قدر بھلی لگتی تھی۔
“Baba! Why a digit becomes zero when it is multiplied with zero? I just don’t understand, how?”
نجلہ اپنی توتلی زبان میں سوال کرتی۔
“کاش میں تمہاری رگوں سے اُس کا خون نکال کے پھینک سکتا۔ لیکن اگر ایسا ممکن ہوتا تب بھی میں یہ نہ کر پاتا کیونکہ تمہاری بیٹی میرے گھر کا نور ہے اور اس کے وجود سے تمہارا خون نکال کر میں اپنی دنیا تاریک نہیں کر سکتا۔ میرے زندہ رہنے کی بس یہی ایک وجہ ہے کہ تمھاری معصومیت کا فائدہ اُٹھا کے دنیا نے جو تمہیں نوچ ڈالا ہے تو میں اس کو اتنا پُر اعتماد بناؤں گا کہ خود میں، شاہ احمد اورنگزیب، شاہی خاندان کا ولی عہد بھی اس کے سامنے کھڑا نہ رہ سکوں۔” وہ سوچوں ہی سوچوں میں اس احمق لڑکی سے مخاطب ہوتے جو ان کی بیٹی کی ماں تھی۔
“تمہارے سامنے میں تھا تو تم مجھ سے سوال نہ کر سکی اس لئے تم نے فرار کو چُنا لیکن تمہاری بیٹی کو میں سوال کرنے کے قابِل بناؤں گا اور میری دعا ہے کہ اگر زندگی میں اسے کبھی مجھ سے سوال کرنا ہو تو وہ میری آنکھوں میں دیکھ کے اپنا حق مانگے اور حق نہ ملنے پر فرار وہ نہیں میں اختیار کروں۔ تمہاری بیٹی سے ہار جاؤں تا کہ تمہارے ساتھ انصاف ہو اور میرا احساسِ جُرم کم ہو۔”
اُنہوں نے نجلہ کے لئے میتھس کا ایک ٹیوٹر رکھ لیا کیونکہ وہ اپنی بیٹی میں اُس عورت کی جھلک نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ جس قدر اپنی ماں سے مختلف تھی اُتنی وہ اُس کی طرح حساب کی کچی تھی اور شاہ احمد اُسے میتھس پڑھانے سے ڈرتے تھے کیونکہ وہ جو بھی سوال کرتی تھی لگتا تھا کئی برسوں پہلےوالی چندریکا کماری بول رہی ہے۔ اُنہیں بتا رہی ہے کہ “دیکھو! تم چاہے مجھ سے کتنا ہی کیوں نہ بھاگو۔ مجھے ایک ساتھ کئی میدانوں پہ قتل کیوں نہ کر دو۔ میں زندہ ہوں۔ کل تمہارے محل میں اور آج تمہارے گھر میں۔۔۔ بھاگتی پھرتی ہوں۔ تم مجھے خود سے الگ کر ہی نہیں سکتے کیونکہ میں تمہاری ہر حقیقت کے ساتھ عالمِ ارواح سے جُڑی ہوئی ہوں۔”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“طعام خانے میں کافی دیر سے آپ کا انتظار ہو رہا ہے۔” ایک ملازم نے اُسے اطلاع دی۔
‘میں کھانا کھا چکا ہوں۔” وہ اپنی آرام گاہ کی جانب بڑھا۔ اُسے یہ یاد ہی نہیں رہا تھا کہ اُس نے شاہ ابا کے ساتھ وعدہ کیا ہے کہ وہ رات کا کھانا انہی کے ساتھ کھائے گا کیونکہ اُنہوں نے اس کے آنے کی خوشی میں اپنے خاص آدمیوں کی دعوت رکھی تھی۔
ملازم نے جا کے شاہ کو اطلاع دی۔ وہ ایک بھی نوالہ لئے بغیرشاہی دستر خوان سے اُٹھ گئے۔
“آپ لوگ کھائیں ۔ ولی عہد کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ ہمیں اُن کے پاس جانا ہے۔” طعام خانے میں موجود سبھی لوگ اُن کے اُٹھتے ہی اُٹھ گئے۔ “تشریف رکھیں آپ لوگ۔” اُن کے اصرار پہ سب بیٹھ تو گئے مگر کھانا کسی نے بھی نہیں کھایا تھا۔
وہ کافی دیر تک بے چینی سے ٹہلتے رہے۔ شاہ احمد کی بے رُخی تھی یا بے نیازی۔ ان کی سمجھ میں نہیں آتی تھی۔ وہ اس کے پاس جانا چاہ رہے تھے پر ان کی ہمّت نہیں ہو رہی تھی کہ اس سے سوال کرتے ۔ اُسے آخری دفعہ جب اُنہوں نے دل کھول کے پیار کیا تھا اس سے اگلی صبح شاہ احمد کو شہر کے ایک بہترین اسکول میں ڈال کے اُنہوں نے اسکول کے نزدیک ہی ایک گھر بھی لے لیا تھا اور اس گھر میں انہوں نے بھروسے کے تین ملازم رکھ لئے تھے جن کا ان کے علاقے سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں تھا کیونکہ وہ اپنے ولی عہد کو شبینہ بیگم کی پہنچ سے دور رکھنا چاہتے تھے اسی لئے انہوں نے اپنے ایک دوست کی مدد سے ایک ملازمہ، ایک خانساماں اور ایک چوکیدار کا بندوبست کر لیا تھا۔
“تمہیں زندہ رکھنے کے لئے شاہ احمد اورنگزیب! مجھے تمہیں خود سے دور رکھنا پڑا کیونکہ تمہیں مزید اگر میں یہاں رہنے دیتے تو تم قتل کردئیے جاتے اور مجھے تمہیں اپنے پاس رکھ کر قتل کروانے کے مقابلے میں تمہارا دور بھیج کے زندہ رکھنا قبول تھا۔” اُنہوں نے تاۤسف سے سوچا تھا۔ “تم چاہے جتنی بے رُخی برتولیکن یہ مان لو کہ تمہارا باپ بہرحال مجبور تھا۔” وہ خیالوں ہی خیالوں میں شاہ احمد کو صفائیاں دے رہے تھے جو اس وقت اپنے شاہی طرز کے پلنگ پہ لیٹا اپنی زندگی کی حسین ترین لمحات کے بارے میں سوچ رہا تھا۔
“اب اُس طرح سے جو منہ میں آیا، نہیں بولتی۔ تھوڑی سی عقلمند ہو گئی ہے۔” وہ مسکرایا۔ “اب تو چائے بھی اچھی بنا لیتی ہے۔ کھانا بنانا بھی سیکھ لیا ہے۔”
“صبح سویرے ناشتہ کر کے محل جاتی ہے۔ پھر دوپہر کو آکر کھانا بناتی ہے۔ کھا کے دوبارہ چلی جاتی ہے اور شام کا کھانا کبھی بنا لیتی ہے جب اُس کا دل کرے ورنہ مجھ پہ ہی چھوڑ دیتی ہے۔” اُسے کاکی کی بات یاد آگئی۔
“بڑی محبت ہے اس کو شاہ محل سے۔ ابھی تک اسی بات کی رٹ لگائے رکھتی ہے کہ بڑی ہو کے شادی کرون گی توبیگم جہاں آراء تبّسم کی طرح بنا سنورا کرون گی اور کوئی پوچھے کہ تم نے کہاں دیکھا ہےبیگم جہاں آراء تبّسم کو؟ تو کہتی ہے دیکھا ہے نا۔ شاہ کی آرام گاہ میں ان کی بڑی سی تصویر۔ بھلا اس کو کون سمجھائے کہ جہاں آراء تبّسم تو بس ایک ہی تھی زمانے بھرمیں۔ کیا شان و شوکت کیا حسن تھا اُس کا۔” وہ بولتے بولتے ماضی کے دریچون میں جھانکنے لگیں۔ “ہم تین سہیلیاں تھیں۔ جہاں آراء تبُسم، میں اور شبینہ بیگم۔۔۔” وہ کھانسنے لگیں۔
شاہ احمد نے کروٹ بدلی۔ وہ جانتا تھا کہ چندریکا اس کی مرحومہ ماں سے اس قدر متاثر تھی کہ بچپن میں جب وہ کھیلتی تھی تو شاہ کے کمرے میں لگی تصویر میں مسکراتی اس حسین و جمیل عورت کی طرح سلیقے سے دوپٹہ اوڑھ کر وہ اپنی ماں کی چادر کندھے پہ ڈال کے اپنی قد بڑھانے اور اونچا دِکھنے کے لئے پنجوں کے بل چلتی اور کہتی “آداب کرو۔ بیگم جہاں آراء تبّسم تشریف لا رہی ہیں۔” شاہ احمد نہیں جانتا تھا کہ کہ چندریکا کی محبت کس نوعیت کی تھی؟ وہ جس عورت سے متاثر تھی وہ اُس کے بیٹے کے عشق میں مبتلا تھی لیکن یہ سب اُس نے باقاعدہ طور پہ سوچا نہیں تھا۔ وہ اتنی بے لوث تھی کہ اپنی محبتوں کا صلہ لینے کے بارے میں اُسے خیال نہیں آتا تھا۔ اُس کی محبتوں کا صلہ بس یہی کافی تھا کہ اُسے برآمدے میں لگی مالک کی تصویر دیکھنے کا موقع مل جاتا تھا۔ دن بھر محل میں بھاگ دوڑ کے بعد شام کو مالک کی ایک جھلک دیکھنے کو مل جاتی تھی اور اُس کے لئے یہ سب کافی تھا۔ اس سے آگے یا پیچھے کا اُس نے سوچا ہی نہیں تھا۔ اُسے تو حق جتانا آتا تھا نہ صلہ مانگنا اور نہ حساب کرنا۔ اُسے تو اپنے اور مالک کے درمیان مذاہب کے اختلاف کا بھی کوئی احساس نہیں تھا اور نہ ہی اُسے یہ خیال آیا تھا کہ جب وہ فجر کی اذانیں سُن کر اپنے کانوں پہ تکیہ رکھ کے کروٹ بدل کر سو جاتی ہے تو تب وہ جاگ کے وضو بناتا ہے اور فجر پڑھنے مسجد پہنچ جاتا ہے۔ جب وہ گوردوارے جاتی ہے تب وہ نماز پڑھتا ہے اور عیدِقرباں کے موقع پر جب وہ جانور ذبح کرتا ہے تو چندریکا اپنے گھر میں بیٹھ کے سبزی کاٹتی ہے۔ اور یہ باتیں جن کا ابھی تک اس کو خیال بھی نہیں آیا تھا تھا اس اختلاف کی اصل بنیاد تھیں۔
چندریکا کماری کے نزدیک تو بس یہ بات اہم تھی کہ وہ دونوں انسان تھے۔ کھانا وہ بھی کھاتی تھی اور مالک بھی کھاتے تھے۔ وہ ایک زبان کے بولنے والے تھے۔ ایک علاقے کے رہنے والے، ان کے والدین بھی آپس میں دوست تھے اوراس کے خیال میں آپس میں دوستی اور محبت کے لئے بس اتنی یکسانیت کافی تھی۔
“نعتیں اب بھی پڑھتی ہے کہ نہیں؟ یہ تو میں نے پوچھا ہی نہیں۔” شاہ احمد کو یکدم یاد آگیا۔ “کل ضرور پوچھوں گا۔ ” اُس نے کروٹ بدلتے ہوئے سوچا۔
____________________________________

صاحب نے آفس سے ایک بندے کو اپنی ایک ضروری فائل لینے بھیجا ہے۔”
“آپ اُنہیں ڈرائینگ روم میں بٹھا دیں۔ میں بابا کے بیڈروم میں فائل دیکھتی ہوں۔” شوکت چاچا نے اُسے اطلاع دی تو وہ بابا کے کمرے کی طرف چلی گئی۔
بابا کی الماری میں فائلوں کا ایک پلندہ پڑا تھا۔
“اب اس میں کون سی چاہئیے ان کو؟” وہ اُنہیں فون ملانے لگی۔
“السّلام علیکم بابا! یہاں تو بہت سی فائلزپڑی ہیں۔ کون سی بھجواؤں؟”
“پنک کلر کی فائل ہوگی بیٹا!”وہ موبائل کان سے لگائے فائلوں کے ڈھیرمیں سے گلابی رنگ کی فائل نکالنے لگی۔
“chandrika’s medical reports”یہاں ایک فائل ہے پنک کلر کی۔۔ اوپر لکھا ہے
“نہیں۔ نہیں۔ اس فائل کو مت کھولنا۔ سائڈ پہ رکھ دیں اس فائل کو۔ یہ نہیں ہے۔” وہ بد حواس سے ہو گئے۔ “عدنان پراپرٹی کیس والی فائل ڈھونڈ لیں۔ نیچے پڑی ہوگی کہیں۔”
“جی بابا مل گئی۔” تھوڑی سی تؤقف کےبعد وہ بولی۔
“اوکے بیٹا! تھینک یو۔۔”
فون بند کر کے اُس نے فائل شوکت چچا کو تھمائی اور کمرے سے نکلنے لگی لیکن پھر یوں ہی وہ الماری کے پاس آئی۔ فائلوں کو پہلی جیسی ترتیب سے رکھنے کے بعد اس نے ‘چندریکا میڈیکل رپورٹس’ والی فائل اُٹھا لی۔ اس کے دل میں تجسس تھا کہ اس فائل کا سن کر بابا اتنے پریشان کیوں ہو گئے تھے؟
اس نے فائل کھولی۔ اس میں چندریکا نامی کسی مریض کی میڈیکل رپورٹس پڑی تھیں۔ بظاہر تو اس میں کچھ بھی قابلِ اعتراض نہیں تھا۔ وہ رپورٹس ٹٹول کر دیکھنے لگی۔ رپورٹس کے بیچوں بیچ ایک تصویر پڑی تھی جس میں بابا اپنی جوانی میں میں کسی لڑکی کے ساتھ مسکراتے ہوئے نظر آرہے تھے۔
“ایسا کچھ بھی آبجیکشنیبل تو نہیں ہے اس فائل میں۔” اس نے فائل بند کر کے رکھ دی۔
“بابا کے ساتھ اس فوٹوگراف میں کون ہو سکتی ہے؟” وہ تصویر کو دیکھتے ہوئے سوچنے لگی۔ “جو کوئی بھی ہے کافی حسین ہے۔” وہ کمرے سے نکلتے ہوئے بڑبڑائی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے دروازہ بجایا تو پرکاش نے آکے دروازہ کھول دیا اور اس کو اپنے سامنے پا کر وہ مؤدب انداز میں کھڑا ہوگیا۔
“آئیں ولی عہد!” پرکاش ہاتھ میں آتش دان اُٹھائے اندر جانے لگا۔
“کاکی کیسی ہیں؟” اس نے کمرے کے اندر جاتے ہوئے پرکاش سے پوچھا۔
“اچھی ہیں۔” وہ اسے اندر لے گیا۔
کاکی اپنے پلنگ پہ لیٹی تھیں۔ اُسے آتے دیکھ کر اُٹھ کر بیٹھ گئیں۔
“اُٹھیں مت۔ لیٹی رہیں۔” وہ ان کے سامنے کرسی پہ بیٹھ گیا۔ “کیسی ہیں آپ؟”
“بہت بہتر۔” وہ کمزور سی آواز میں بولیں۔ “آپ نے پھلوں کے ٹوکرے بھجوائے تھے۔ ان کی کیا ضرورت تھی؟”
“ضرورت تھی کاکی! آپ بیمار ہیں۔ تکلّف نہ کیا کریں۔ جو بھی چاہئیے ہو بتا دیا کریں۔ شاہ ابا خود آرہے تھے لیکن اُن کی کسانوں کے ساتھ بیٹھک تھی۔ مجھے بھیج دیا۔ خود ذرا دیر سے پہنچیں گے۔” تھوڑی دیر کاکی کے ساتھ بیٹھے رہنے کے بعد وہ جانے کو اُٹھا اور جب وہ اندھیرا ہونے کی وجہ سے راستہ ڈھونڈتا ہوا صحن میں اُتر گیا تو وہ باورچی خانےکےدروازے سے نمودارہوئی۔ اُس نے ہاتھ میں موم بتی اُٹھا رکھی تھی اور پریشان سا چہرہ لئے وہ اس کو دیکھے جا رہی تھی۔ شاہ احمد کو یوں لگا جیسےاس کے وجود سمیت پوری کائنات تاریکی میں ڈوب گئی ہو۔ بس اگر روشن تھا تو وہ ایک وجود۔ وہ ایک چہرہ۔ جس پہ چاند کی سی دمک تھی اور وہ ڈھلتی شام کی سی اُداس آنکھیں۔ وہ سفید ریشمی لباس میں ملبوس تھی جس کی قمیض کے کناروں پہ لال رنگ کا فیتہ لگا ہوا تھا اور اسی فیتے کے رنگ کا دوپٹہ تھا جسے وہ بار بار سر پہ ڈالتی اور وہ پھسل کر اس کے کندھوں پہ گِر جاتا تھا۔
“جب نگاہیں آوارہ ہو جاتی ہیں تو دل باغی ہو جاتا ہے اور تم ایسا کوئی منظر نہ دیکھنا شاہ احمد اورنگزیب! جس سے تمہاری نگاہوں پہ آوارگی کا گمان ہو۔تمہارا دل باغی کہلائے اور تم اُن مسلمانوں کی فہرست میں شامل ہو جاؤ جن کا ایمان ڈگمگایا ہوا ہو۔” اُسے لندن میں کہی گئی اپنے ایک خیر خواہ کی بات یاد آگئی۔ اُس نے جلدی کسی اور طرف دیکھا کیونکہ اُسی لمحے اگر وہ نظریں نہ جھکاتا تو یقیناً اس کی نگاہیں گمراہ اور دل باغی ہو جاتا اور جو اس کا ایمان ڈگمگا جاتا تو اس منظر کا تقّدس کہاں باقی رہتا؟ وہ لڑکی اس قدر روشن اور پاک کہاں لگتی؟ وہ منظر اگر تقّدس کا حامل تھا۔ وہ روشن وجود اگر اتناپُر نور اور پاک تھا کہ اس کا چہرہ دمکتے چاند کی مانند شفاف دکھائی دیتا تھا تو وہ اس لئے کہ وہاں نگاہوں کی آوارگی نہیں تھی۔ وہاں محبت مادی نہیں بلکہ روح کی گہرائی میں پلتا ایک بے لوث جذبہ تھا جس میں سامنے کھڑی اس حسین لڑکی کی پاک دامنی اور عزّت اہم تھی، اس کا دیدار نہیں۔۔
“آپ اسی خاموشی کے ساتھ چلے جائیں گے؟” وہ اس سے مخاطب تھی اور وہ اُسے دیکھ نہیں رہا تھا کہ پہلی نگاہ نے جو منظر دیکھ لیا تھا وہ اگر دوسری نگاہ ڈالتاتو یقیناً کافر ہو جاتا۔
اس کے لندن سے آنے کے بعد چندریکا سے اس کی بات کم ہی ہوتی تھی اور جب ہوتی تھی تو وہ بڑے پُر تکلّف انداز میں اسث سے بات کرتی لیکن آج وہ حق جتا رہی تھی۔ اس کو روک رہی تھی اور وہ جو اس سے یہ پوچھنے آیا تھا کہ وہ اب نعتیں پڑھتی ہے کہ نہیں؟شاعری میں دلچسپی لیتی ہے کہ نہیں؟ یہ سب پوچھے بغیر وہ وہاں سے نکل آیا تھا جہاں آج پہلی بار اس کو اپنے ایمان کے ڈگمگا جانے کا خطرہ محسوس ہوا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ لان میں بیٹھی چائے پی رہی تھی جب اُن کی گاڑی پورچ میں آکے رُکی۔ وہ سفید شلوار قمیض کے اوپر سیاہ کوٹ میں ملبوس تھے اور یہی اُن کے معمول کا لباس تھا۔
“السّلام علیکم”روایت کے مطابق اُنہوں نے آتے ہی سلام کیا۔
سلام کا جواب دینے کے بعد وہ پُر جوش انداز میں بولی۔ “آپ کی الماری سے مجھے کیا ملا؟”“Guess what baba?”
اس نے تصویر اُٹھا کر اپنی آنکھوں سے قریب تر کی۔ وہ دیکھ نہ سکے کہ تصویر کس کی ہے؟ اس کے باوجود ان کے چہرے پہ کئی رنگ آکے گزر گئے اور خوف کے سائے منڈلانے لگے۔
“نجلہ! میں نے آپ کو وہ فائل کھولنے سے منع کیا تھا بیٹا!” اُن کے لہجے میں غصّے سے ذیادہ التجا تھی۔
“اس فائل میں تو ایسا کچھ بھی نہیں تھا جسے دیکھنا میرے لئے منع ہو۔ ہاں اگر یہ پکچر چھپانا چاہتے تھےتویہ میں نے دیکھ لی ہے۔” اس کے لہجے میں شرارت تھی۔
“یہ تصویر مجھے واپس کردیں۔ آپ کے کام کی نہیں ہے یہ۔”
“کون ہے اس فوٹوگراف میں آپ کے ساتھ؟ کافی پریٹی ہے۔” ان کی بات نظر انداز کر کے وہ بولی۔
“آپ تصویر مجھے دے دیں۔ میں بتاتا ہوں۔”
“آپ بتائیں۔ پھر میں فوٹوگراف واپس کروں گی آپ کو۔” وہ بدستور شریر لہجے میں بولی۔
“آپ کی امّی۔۔۔” انہوں نے آنکھیں جھکا لیں۔ وہ نجلہ کے چہرے پہ کوئی بھی ایسا تاۤثر نہیں دیکھنا چاہتے تھے کہ جس سے معلوم ہو کہ اس کا اپنے باپ پر سے یقین اٹھ گیا۔
“میری امّی؟ یعنی آپ کی بیوی۔۔۔ پر آپ تو کہتے تھے کہ وہ تصویریں نہیں بناتی تھیں۔ ان کو پسند نہیں تھا۔ ان کو دیکھ کے تو ایسا نہیں لگتا بابا۔۔۔” اس کی آواز مدھم ہو گئی۔ “بچپن سے لے کے آج تک میں آپ سے پوچھتی رہی ہوں کہ وہ کیسے دِکھتی تھیں؟ اور آپ کہتے کہ آپ کو یاد نہیں۔۔ یہ صورت بُھلا دینے والی تو نہیں ہے بابا!” اس نے تصویر پہ نگاہیں جمائے رکھیں۔
“تم ٹھیک کہتی ہو یہ صورت بھُلا دینے والی تو نہیں اور خدا کی قسم میں اس کو بھولا بھی نہیں ہوں لیکن اس کا ذکر کرنا مجھے تکلیف دیتا ہےاسی لئے میں اس سے متعلق ہر بات ٹال دیتا ہوں۔” انہوں نے اپنی بیٹی کو دل ہی دل میں جواب دیا مگر زبان سے خاموش رہے۔
“میں یہ واپس نہیں کروں گی بابا! میرا اتنا تو حق بنتا ہے کہ میری ماں کی ایک پکچر میرے پاس رہے۔” وہ اُٹھ کر جانے لگی۔
دیتا تھا نا کہ میں پیاری ہوں تو میں فخر سے کہتی تھی کہ میں ایک ہینڈسم باپ کی بیٹی ہوں۔” complimentمجھے جب کوئی
وہ جاتے جاتے رُکی۔ “لیکن آج پتہ چلا کہ می اپنے باپ سے کہیں زیادہ اپنی ماں سے ملتی ہوں۔” آنکھوں میں نمی لئے وہ مسکرائی اور لمبے لمبے ڈگ بھرتی وہاں سے چلی گئی۔ شاہ احمد جو سانس روکے کھڑے تھے آہ بھر کے رہ گئے۔ زندگی میں پہلی بار وہ اس قدر شرمندہ ہوئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کھانا کھائے بغیر اپنی آرام گاہ میں داخل ہوا۔ زندگی میں پہلی بار اُسے اپنے اور چندریکا کےبیچ مذاہب کے فرق اور عقائد کے اختلاف کا احساس ہوا تھا۔ پہلی بار اُسے اس جذبے سے خوف آیا تھا جو بچپن سے اس کی رگوں میں لہو کی مانند دوڑتا چلا آیا تھا۔ پہلی بار شاہ احمد اورنگزیب پہ یہ عقدہ وا ہوا تھا کہ اُس روشن وجود، دمکتے چہرے اور غروبِ آفتاب کا سا منظر پیش کرنے والی زردروُ سی آنکھوں کے ساتھ اس کا رشتہ صرف بچپن کی دوستی کا نہیں تھا بلکہ محبت کا تھا اور وہ بھی اب سے نہیں تب سے جب وہ محبت کے مفہوم سے بھی واقف نہیں تھاپر آج جب اس نے اپنے وجود سمیت پوری کائنات کو تاریکی میں ڈوبتے دیکھا تھا تو اسے اس روشن وجود کا نور محسوس ہوا تھا۔ پہلی بار وہ ڈرا تھا۔ پہلی بار اسے ان فاصلوں کا احساس ہوا تھا جو اس کے اور چندریکا کے درمیان تھے۔ اور تب پہلی بار اسے یہ سوچنے سے بھی خوف آیا تھا۔ یہ تسلیم کرنا بھی دشوار تھا کہ وہ واقعی محبت ہی تھی جس نے اس کے وجود کو تاریکی کا حصّہ بنا کر چندریکا کے وجود کا نور اسے دکھایا تھا،
“میں نے یہ سنا ہے کہ پہلی نگاہ معصوم ہوتی ہے اسی لئے ہم سے اس کا حساب نہیں لیا جائے گا کیونکہ پہلی نگاہ میں ہمارے ارادوں کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ بس دوسری نگاہ ڈالنے سے پرہیز کرنا چاہئیے۔” وہ ٹہلنے لگا۔ “لیکن میری اس پہلی نگاہ نے جو حقیقتیں مجھ پہ کھول دی ہیں۔ اس کے بعد مجھے نہیں معلوم کیا ہوگا؟ لیکن کیا مجھ سے اس نگاہ کا حساب ہوگا؟ کہ اس ایک بار نے مجھے بے خود کر دیا۔ میں دوسری نگاہ ڈالتا بھی تو کیسے؟ ایمان سے تو جاتا جان سے بھی چلا جاتا۔” وہ نڈھال سا بیٹھ گیا۔
“تمہارا پر نور روشن وجود،جسے دیکھ کے یوں لگتا ہے جیسے ارد گرد کی ساری چیزیں، سارے لوگ ماند پڑ گئے ہوں۔ تم جہاں ہوتی ہو وہاں کی جان بن جاتی ہو۔ تمہارا چہرہ جس میں سے چاندنی چھلکتی ہے اور تمہاری شفاف رنگت، یوں لگتا ہے جیسے کسی بوڑھے مصّور نے چاول کا آٹا گوندھ کر اس میں دودھ ملادیا ہوپھر اپنے سارے کام چھوڑ کے بڑی فرصت سے تمہارا وجود تراشا ہو اور گئی رات تک بڑے شوق سے منہ، ناک، آنکھیں بناتا رہا ہو۔ اور مڑی ہوئی پلکوں کے
نیچے وہ کچھ خوابیدہ کچھ بیدار سی آنکھیں۔۔ جن کو دیکھ لگتا ہے جیسے شام ہو رہی ہو۔ سورج ڈوب رہا ہو اور تمہاری آنکھوں کی نمی ایسا تاۤثر پیش کرتی ہے جیسے اس ڈوبتے سورج کا عکس جھیل کے پانی میں نمایاں ہو رہا ہو۔ تمہاری آنکھوں پہ کئ رنگوں کے امتزاج کا سا گمان ہوتا ہے۔ سمجھ نہیں آتی اس مصّور نے کون کون سے رنگ ملا کے ان آنکھوں کو بنایا ہےجن میں آگ کے شعلے جھیل کے پانیوں میں بھڑکتے نظر آتے ہیں۔” اس نے پلنگ پہ لیٹے لیٹے غیر ارادی طور پہ سوچا۔
“اس سب سے بڑھ کے تمہاری وہ معصومیت اور اپنائیت، تمہاری بے فکری تو کبھی کبھی تمہاری فکر۔۔ تمہاری اپنے ماحول سے بے نیازی اور اپنی ذات میں مگن رہنا۔ تمہارا بڑے حق سے مجھے دوست سمجھ کے مجھ پر حق جتانا اور پھر مالک سمجھ کے پیچھے ہٹ جانا۔ تمہارا راہ چلتے ہوئے بڑبڑانا۔ کسی سے ٹکرا کر گھبرا جانا اور تمہارا دن بھر محل میں بنا کسی لالچ کے کام کرنا ۔ یہ سب دیکھ کے لگتا ہے تم احمق ہو۔ بے وقوف ہو۔ سر پھری پاگل لڑکی ہو لیکن ایسا نہیں ہے چندریکا کماری ماکول! نہ تو تم احمق ہو۔ نہ پاگل۔ نہ سر پھری۔ نہ بے وقوف بلکہ تم بے لوث اور مخلص ہو۔ یہ تمہارا خلوص ہے کہ تم بنا صلہ مانگے اور حساب کئے ہمارے لئے اتنا کرتی ہوورنہ اگر تمہیں میری محبت کا پتہ چلے تو نجانے تم کیا کردو۔ محل آنا چھوڑ دو۔ مجھ سے بات کرنا چھوڑ دو اور نجانے میرے بارے میں کیا کیا سوچو۔” اس نے کروٹ بدلی۔
“تم مجھ سے نفرت کرنے لگو گی۔ تمہارے دل میں میری عزّت، اپنائیت اور دوستی ختم ہو جائے گی۔ غصّے میں آکر تم شاہ ابا اور اماں بیگم کو بتا دوگی۔ کاکی کو پتہ چل جائے گا۔ پھر پورا علاقہ مذاق اڑائے گا۔ اور اس جذبے کا تقدس ختم ہو جائے گا اور تم جو میرے گھر اور میرے کمرے میں بلا جھجھک آتجاتی ہو تو وہ اس لئے تم جانتی ہو کہ تم یہاں محفوظ ہولیکن یہ جذبہ اگر ظاہر ہوا تو سب برباد کر ڈالے گا۔” وہ خاموش طبع تو شروع سے تھا مگر اب بزدل بھی بن گیا تھا اور مزید اس محبت کے بارے میں سوچنے سے ڈرتا تھا جس کی کوئی منزل نہیں تھی۔
“کیا ہی اچھا ہے کہ کسی کے ذہن میں چلتی سوچیں کوئی دوسرا انسان سُن نہیں پاتا ورنہ تو میری یہ سوچ طوفان کھڑا کر دیتی۔” اس نے گھبرا کر آنکھیں بند کردیں۔
“اور اگر اس کا حل یہ ہے کہ میں خاموش رہوں تو میں خاموش رہوں گا چاہے ضبط کرتے کرتے میری جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔ اور تم سے ملنا، تمہاری طرف دیکھنا بھی ترک کر دوں گا۔ کیونکہ میں ایک مسلمان ہوں اور مسلمانوں کی نگاہیں آوارہ نہیں ہوا کرتیں۔” وہ اپنے اوپر کمبل ڈال کر سو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ تصویر حاصل کرنے کے بعد نجلہ بڑی بے تکلّفی کے ساتھ شاہ احمد سے اپنی ماں کے بارے میں دریافت کرتی حالانکہ اس سے پہلے وہ جب کبھی اپنی ماں کے بارے میں سوال کرتی یا تو اس کا دھیان کسی اور طرف لگا دیا جاتا تھا یا پھر اس کو مختصر سا جواب دے کر ٹال دیا جاتا تھا۔ لیکن اب تو اسے جیسے موقع مل گیا تھا اپنی ماں کے بارے میں بات کرنے کا اور شاہ احمد اسے خاموش نہ کر سکے کیونکہ نجلہ انہیں ان کے جھوٹ کا احساس دلا کے شرمندہ بھی کر سکتی تھی لیکن اس نے ایسا کچھ نہیں کیا کیونکہ اسے اپنے باپ سے محبت تھی۔ ان پہ یقین تھا اور وہ جانتی تھی کہ ان کی ہر بات میں اس کی بہتری ہوتی ہے۔
“امّی کی موت کب واقع ہوئی تھی؟” رات کا کھان کھاتے ہوئے اس نے سوال کیا۔
“نجلہ بیٹیا! یہ پلاؤ ڈالیں نا آپ اپنی پلیٹ میں۔” ڈائیننگ روم میں داخل ہوتی اماں نے اس کا دھیان بٹانا چاہا۔
“بتائیں نا بابا!” نجلہ نے اماں کے ہاتھ سے ٹرے لی اور اپنی بات جاری رکھی۔
“نجلہ بیٹیا! کھانا جلدی سے ختم کرلیں۔ پھر سونا بھی ہے آپ نے۔” اماں نے باہر جاتے جاتے بات بدلنے کی کوشش کی۔
“کیا اماں؟ کھا رہی ہوں نا۔ سو جاؤں گی۔ بچی نہیں ہوں اب۔ بڑی ہو گئی ہوں۔” وہ جھنجھلائی۔ “بابا! آئی ایم آسکینگ یو۔۔۔” اس نے اپنے باپ کو خاموشی سے کھانا کھاتے دیکھ کر کہا۔
“تمہارا وجود میرے لئے کوئی بوجھ تو نہ تھا کہ میں نے تمہارے ساتھ ایسا کیا اور انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ تم آکے میرا گریبان پکڑ کے مجھ سے سوال کرو کہ بتاؤ شاہ احمد اورنگزیب! تم نے مجھے زندہ ہوتے ہوئے مردہ کیوں قرار دیا؟” ان کے گلے میں کانٹے چھبنے لگے۔
“میں تمہیں یہاں رکھ لیتا کہ اس سے میرے گھر، میری ذات کی تکمیل ہوتی لیکن اس کا تم سے دور رہنا ضروری تھا۔” انہوں نے کھانا چھوڑ دیا۔ “یہ بجا ہے کہ مجھے تم سے محبت ہے لیکن مجھے تمہاری بیٹی کو تم جیسا نہیں بنانا تھا جو کچھ تمہارے ساتھ ہوا وہ اس کے ساتھ نہ ہو۔ مجھے اس کو تمہارے زیرِسایہ نہیں رکھنا۔” وہ اٹھ کر جانے لگے۔
“بابا! بتائیں نا پلیز۔۔۔” نجلہ جاننے پہ مصّر تھی۔ وہ بیٹھ گئے۔
“آپ تقریباً ڈیڑھ سال کی تھیں تب۔۔۔”
“اور وہ کہاں دفن ہیں؟ کہاں ہے ان کی قبر؟ ہم کیوں ان کی قبر پہ فاتحہ پڑھنے نہیں جاتے؟” سوال تھے کہ تیر۔ نجلہ کی صورت میں چندریکا تھی جو پوچھ رہی تھی کہ آپ میری قبر کھود کر، مجھے دفنا کر اب فاتحہ پڑھنے کیوں نہیں آتےَ کیا میں اس قابل نہیں یا آپ کو مجھ سے محبت نہیں؟”
“ان کی قبر کے نشان مٹ چکے ہیں۔ آپ کو جب بھی ان کے لئے دعا کرنی ہو جائے نماز بچھا کے نفل پڑھ لیا کریں۔ ان کی روح کو تسکین ملے گی۔” وہ دوبارہ اٹھ گئے۔ “آپ آئندہ مجھ سے اس بارے میں کوئی سوال نہیں کریں گی پلیز۔”
“لیکن کیوں بابا؟”
“کیونکہ مجھے ان سے محبت ہے اور آپ کے سوال مجھ پریشان کرتے ہیں۔” انہوں نے پہلی بار اس عورت سے محبت کا برملا اعلان کر دیا تھا جس سے انہوں نے پوری زندگی محبت نبھائی تھی۔ جتائی نہ تھی۔
وہ اپنے باپ کو اداس دیکھ کر اداس ہو گئی تھی۔“I am sorry baba.”
نجلہ شاہ احمد یہ نہیں جانتی تھی کہ اس وقت ان کے دل میں جو چبھن ہو رہی تھی اس کی وجہ کیا تھی؟ ان کی محبت یا ان کا پچھتاوا؟
“اس کی قبر پہ فاتحہ پڑھنے میں روز جاتا ہوں۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ میں اسے دیکھنے نہیں گیا لیکن جب بھی جاتا ہوں یوں آتا ہوں جیسے دھتکار دیا گیا ہوں۔ میری دعائیں اس کے حق میں قبول نہیں ہوتیں۔ وہ میری بات سنتی تو ہے پر جواب نہیں دیتی۔” وہ یہی سوچتے ہوئےپورچ میں کھڑی گاڑی میں بیٹھ گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ طعام خانے میں داخل ہوا تو شاہ ابا کھانا کھا رہے تھے۔ خلافِ معمول آج وہ بالکل اکیلے بیٹھے تھے۔ شاہ احمد کے آنے کے بعد انہوں نے اپنے آدمیوں کے ساتھ کھانا کم کر دیا تھا تا کہ وہ اپنے بیٹے کے ساتھ مل بیٹھ کے کھانا کھائیں لیکن بد قسمتی سے ایسا موقع کم ہی ملتا تھا۔
“السّلام علیکم!” وہ دسترخوان پہ بیٹھ گیا۔
“وعلیکم السّلام۔۔۔” انہوں نے ایک نظر اس کے چہرے پہ ڈالی اور کھانا کھانے میں مصروف ہو گئے۔ “آپ تو یقیناً کھا کر آئے ہوں گے۔” وہ نوالہ منہ میں ڈالتے ڈالتے رُکے۔
“جی نہیں۔” اُس نے اپنی پلیٹ میں کھانا ڈال دیا۔
“یہاں ملازم ہیں آپ کے لئے کھانا ڈالنے کو۔” شاہ ابا نے اسے یاد دلایا۔
“جی۔ لیکن مجھے اپنا کام خود کرنا پسند ہے۔”
“یہ ہماری روایت ہے۔”
“معاف کیجیئے گا لیکن رسولؐ کی روایات کچھ اور تھیں۔” وہ کھانا کھانے لگا۔ شاہ ابا نے وہاں کھڑے ملازموں کو دیکھا اور بات بدل دی۔
“دن بھر نظر نہیں آئے آپ۔ کہاں تھے؟”
“یہ تو مجھے خود بھی نہیں معلوم کہ میں کہاں تھا؟” شاہ احمد نے بے بسی سے سوچا اور شاہ ابا کو دیکھے بغیر کہا “طبیعت ذرا نا ساز تھی۔”
“کیا ہوا آپ کو؟ بتایا کیوں نہیں؟ حکیم کو بلوا لیتے۔” شاہ ابا یکدم پریشان ہو گئے۔ “آپ یہ کھانا نہ کھائیں۔ آپ کے لئےبٹیرکی یخنی بنوا لیتے ہیں۔ پھل منگوا لیتے ہیں۔”
ارے نہیں شاہ ابا میں ٹھیک ہوں۔ بس سر میں درد تھا۔ بالکل ٹھیک ہوں میں۔”
“جن بیٹوں کی مائیں ہوتی ہیں نا۔ ان کے سر میں بھی درد ہو تو ان کی مائیں پورا گھر سر پہ اٹھا لیتی ہیں۔ حکیم کی دی ہوئی دواؤں سے لے کر گھریلو نسخوں تک سب آزماتی ہیں کیونکہ ان سے ان کے بچوں کی تکلیف نہیں دیکھی جاتی اور بد قسمت ہو تم شاہ احمد اورنگزیب! کہ تمہاری ماں نہیں ہے۔” انہوں نے کھانا چھوڑ دیا۔
“شاہ ابا! میں نے کافی وقت گزار لیا یہاں پہ۔ اب شہر جا کے اپنی پریکٹس کرنا چاہتا ہوں۔”
“شاہوں کی اولاد اب ملازمت کرے گی؟”
“بات ملازمت کی نہیں ہے شاہ ابا۔۔۔”
“بات جیسی بھی ہے۔ ہم نے آپ کی بات مان لی آپ کو لندن بھیجا۔ اب آپ ہماری بات مانیں گے یہاں رہیں گے۔” وہ اٹھ کر جانے لگے۔ “یہی ہمارا آخری فیصلہ ہے۔” شاہ احمد کچھ بول نہ پایا۔
“تم یہاں سے جا کر خود کو اس محل سے بے دخل کرنا چاہتے ہو؟ تم یہ بات کیوں نہیں سمجھتے کہ اس سے اس عورت کو خوشی ملے گی اور ہمارا نام مٹ جائے گا۔ اسی لئے ہم تمہیں ہرگز یہاں سے جانے نہیں دیں گے۔ تمہیں تمہارے حق سے محروم کریں گے تو جہاں آراء تبّسم کو کیا منہ دکھائیں گے؟ وہ برآمدے میں ٹہلنے لگے۔ “تم کسی قیمت پہ بھی یہاں سے نہیں جاؤگے شاہ احمد اورنگزیب! تم یہاں رہوگے اور ویسی ہی زندگی گزاروگے جیسی تمہارے باپ دادا نے گزاری ہے تا کہ کل کو کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ شاہ احمد اورنگزیب اس لئے محل سے گیا تھا کیونکہ اس کی مان نہیں تھی۔” انہوں نے سوچتے سوچتے طے کرلیا اور جب شاہ احمد طعام خانے سے نکلا تو وہ اپنی آرام گاہ کے اندر جا چکے تھے۔
“کتنی رونق ہوتی تھی اس محل میں جب تم زندہ تھی۔ تمہاری سہیلیوں کا وہ جمگھٹا جس میں بیٹھ کے تم ان سے دنیا جہاں کی باتیں کیا کرتی تھی۔ محفلیں سجایا کرتی تھی اور یہاں جب تمہاری ہنسی گونجتی تھی تو یوں لگتا تھا جیسے کوئی سُر ہو، کوئی نغمہ یا خوبصورت گیت۔ اور محل بھر میں ہمیں ڈھونڈتی تمہاری آنکھیں جن پہ طلوعِ آفتاب کا سا گمان ہوتا تھا اور اب تمہارا بیٹا اس ویران محل کو آباد کرنے کے بجائے یہاں سے جانے کی بات کر رہا ہے۔ تم ہی بتاؤ جہاں آراء تبّسم! میں تمہارے بیٹے کا کیا کروں؟” وہ سوچتے سوچتے تھک گئے تھے۔ اپنی مرحومہ بیوی کی تصویر کو ایک نظر دیکھنے کے بعد وہ سونے کے لئے لیٹ گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ جب وہاں پہنچے تو اویس ہاسپٹل سے نکل رہے تھے۔
“ارے شاہ! تم؟ یہاں؟ اس وقت؟”ان کو دیکھ کروہ اپنی گاڑی کی طرف جانے کے بجائے ان کی طرف آگئے۔
“مجھے اس سے بات کرنی ہے۔” ان کی آنکھیں ملتجی تھیں۔
“وہ سو رہی ہے۔”
“یہ ضروری ہے۔”
“ابھی شام کو تم مل کر گئے ہو اس سے۔”
“میرے سینے میں کانٹے ابھی چبھے ہیں۔”
“وہ ڈسٹرب ہو جائے گی۔”
“تو کیا میری موجودگی کو وہ محسوس کرتی ہے؟” ان کے انداز میں امید کی جھلک تھی۔
“کوئی بھی اسے نیند سے جگائے گا تو ڈسٹرب تو ہوگی وہ۔ اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ وہ ٹھیک ہو گئی ہے شاہ! آئی تھنک تمہیں گھر جا کے آرام کرنا چاہیئے۔” اویس یہ کہہ کر چلے گئے اور وہ کافی دیر تک وہاں کھڑے خود پہ حیران ہوتے رہے۔
“میرے لئے ضبط کرنا اتنا مشکل کیوں ہوگیا ہے؟” انہوں نے گاڑی اسٹارٹ کرتے ہوئے سوچا تھا۔
“تمہاری بیٹی مجھ پہ سوالوں کے تیر برساتی ہے اور میرے پاس جواب کوئی نہیں۔ جس طرح میں تم سے سوال کرتے کرتے تھک جاتا ہوں پر تمہارے پاس جواب میں میرے لئے ہمیشہ خاموشی ہوتی ہے۔” انہوں نے گاڑی گھر کی طرف موڑدی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کئی دنوں تک محل کے چکر لگانے کے باوجود وہ اسے نظر نہیں آیا۔ وہ حیران تھی کہ اس شام نجانے ایسا کیا ہو گیا تھا کہ وہ بنا جواب دئیے وہاں سے چلا آیا تھا اور اب اسے نظر تک نہیں آرہا تھا۔ اور پھر اس خیال نے اسے جیسے ڈرا دیا تھا کہ کہیں وہ کسی بات یا کسی حرکت پہ ناراض تو نہیں ہے؟ لیکن بہت سوچنے کے بعد بھی اسے اپنی کوئی غلطی یاد ہی نہ آئی۔ پھر اس نے سوچ کر یہ خیال دل سے نکال دیا کیونکہ وہ جانتی تھی اس شخص کو کبھی غصہ آتا ہی نہ تھا۔ وہ برف کی چٹان تھا جس کو پگھلایا تو جا سکتا تھا پر جلایا نہیں جا سکتا تھا۔
اگلی صبح اس نے ممی کو یہ دریافت کرنے محل بھیج دیا کہ کہیں مالک کو اس کی کوئی بات بری تو نہیں لگی۔
وہ ناشتہ کرنے جا رہا تھا جب اس نے برآمدے میں کاکی کو ایک ملازمہ سے بات کرتے دیکھا۔
“کاکی آپ؟ کیسی ہیں؟”
“میں ٹھیک۔ آپ سے کچھ پوچھنے آئی ہوں۔ چاند نے بھیجا ہے مجھے۔” کاکی کے منہ سے وہ نام سن کر وہ گھبرا سا گیا۔ اسے اب اس نام سے متعلق ہر حقیقت سے خوف آتا تھا لیکن پھر بھی وہ بظاہر بڑے اطمینان سے بولا “جی بولیں۔”
“وہ پوچھ رہی کہ کہیں اس سے کوئی غلطی تو سر زد نہیں ہوئی۔ احمق ہے تھوڑی سی۔ آپ اسے معاف کر دیا کریں۔”‘نہیں کاکی ایسی کوئی بات نہیں ہے بلکہ میں نے تو اسے کافی دنوں سے دیکھا بھی نہیں ہے۔”
“اسی بات کا تو رونا روتی ہے وہ۔ کہتی ہے مالک اب میرے سامنے نہیں آتےناراض ہیں کسی بات پہ۔”
“آپ یقین کریں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔”
“بہت شکریہ!”
“شکریہ کی کوئی بات نہیں۔آپ مطمئن ہو کے گھر جائیں۔” اس لڑکی کے بارے میں کوئی بھی بات سوچے بغیر وہ ناشتہ کرنے چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“آج کس پراجیکٹ پہ کام ہو رہا ہے بھئی؟” وہ لاؤنج کے سامنے والی سیڑھی پہ بیٹھی اپنا ٹول باکس کھولے اس میں کچھ ڈھونڈ رہی تھی۔ بابا کی آواز سن کر اس نے اپنا ٹول باکس ایک طرف رکھا اور کھڑی ہو گئی۔
“کافی اہم پراجیکٹ پہ کام ہو رہا ہے۔” وہ فخریہ انداز میں بولی۔
“واہ بھئی! ہمیں بھی تو پتہ چلے کہ ہماری بیٹی کیا کیا کام کر سکتی ہے؟” وہ اندر جانے لگے۔ نجلہ نے اپنا ٹول باکس اٹھا کر ان کے ہاتھ سے بیگ لیا اوران کے پیچھے پیچھے اندر داخل ہو گئی
انکل اویس کے ٹی وی کی وائر جل گئی تھی
۔ ٹھیک کروانے والے جھنجھٹ تو وہ پالتے نہیں تہ میں نے اظفر سے کہا بھئی! مجھے دے دو میں ٹھیک کر لوں گی۔۔۔” وہ صوفے پر بیٹھ گئی۔ “اپنے لئے۔۔۔” اس کی اس بات پہ بابا نے ایک مصنوعی قہقہہ لگایا۔
“اب مجھے بھی تو کوئی فائدہ ہونا چاہیئے نا اپنے ٹیلنٹ کا۔” بابا اس کے سامنے صوفے پر بیٹھ گئے۔
“بھئی میں تو کہتی ہوں انسان کو انکل اویس کی طرح بزی رہنا چاہیئے۔ ہم جیسے لوگوں کا بھلا ہو جاتا ہے۔ آپ بھی کیا یاد کریں گے بابا! کیسی کمال بیٹی ملی ہے آپ کو۔” اس کے لہجے میں شرارت تھی۔ وہ مسکرائے۔
“اماں کہہ رہی تھیں آپ سن کر برا مان جائیں گے۔ میں نے ان سے کہا اماں! میرے بابا کسی بات کا برا نہیں مانتے۔۔۔”
“میں چینج کر کے آتا ہوں۔”وہ سیدھا اپنے کمرے میں چلے گئے۔ یوں لگ رہا تھا جیسے انہیں کوئی بات یاد آگئی ہو۔ وہ کسی بات سے ڈر گئے ہوں۔
ڈریسنگ روم جانے سے پہلے انہوں نے اویس کو کال ملائی۔“Awais! You shouldn’t have given it to her.”
“کیوں؟ خیریت تو ہے؟ کیا ہوا؟”اویس کی آواز میں فکر تھی۔
“کچھ نہیں۔” فون بند کر کے انہوں نے بیڈ پہ رکھا اور ڈریسنگ روم جانے لگے۔ “جب سے ٹی وی توڑ کر وہ میرے گھر سے گئی ہے۔ تب سے خوف آتا ہے مجھےٹی وی پہ چلنے والی خبروں سے۔” وہ بڑبڑائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسے شاہ ابا کے ساتھ دوپہر کو کہیں جانا تھا اسی لئے وہ صبح کے وقت فارغ تھا۔
“میرے ساتھ چلیں۔ آپ کو ضروری کچھ دکھانا ہے۔” پرکاش ہانپتا ہوا محل کے باہر اسے ملا۔
“خیریت ہے؟”
“ہاں جی خیریت ہے۔ بس آپ چلیں میرے ساتھ۔” وہ اس کی انگلی پکڑ کر اس پہاڑی پر لے گیا جہاں وہ کسی زمانے میں بڑی چٹان پہ بیٹھ کے چندریکا کو پڑھایا کرتا تھا۔
“یہاں کیوں لائے ہو مجھے؟” سردی کا موسم تھا اور دھوپ اچھی تھی۔ وہ اسی بڑے چٹان پہ جا کے بیٹھ گیا۔
“یہ جگہ یاد ہے آپ کو؟” وہ اس کے سامنے کھڑا ہو گیا۔
“ہاں یاد ہے۔ میں یہیں بیٹھ کے تمہاری دی کو پڑھایا کرتا تھا۔”
“بہت اچھے! اب لیں یہ پراٹھے کھائیں۔” وہ اسی چٹان کے نییچے سے ایک ڈونگا نکال کے بولا۔
“یہ تم مجھے محل میں بھی دے سکتے تھے۔ یہاں آنے کی کیا ضرورت تھی؟”
“یہاں آپ کو لانے کا مقصد آپ کو یاد دلانا تھا کہ آپ کسی زمانے میں دی کے دوست ہوا کرتے تھے۔ اب آپ کو یہ پراٹھے کھانے پڑیں گے اور جو بھی ناراضگی یا غصہ ہے وہ ختم کر دیں۔”
“ارے یار! میں میں نہ ناراض ہوں اور۔۔۔”
“اور ہاں ساتھ میں یہ بھی کہا ہے دی نے کہ اگر آپ پراٹھے کھانے سے انکار کر دیں تو میں آپ کو بچپن کی دوستی کا واسطہ دے کر یہ کھلا دوں۔” پرکاش نے اس کی بات کاٹ کے اپنی بات پوری کی تو وہ خاموشی سے پراٹھے کھانے لگا۔
“تم بھی کھاؤ۔” اس نے پرکاش کو اپنے ساتھ بٹھایا۔
وہ کافی دیر تک پرکاش کے ساتھ بیٹھا چندریکا کی باتیں کرتا رہا اور اس نے پرکاش کو یہ بھی اطمینان دلایا کہ وہ ناراض نہیں ہے بلکہ روزانہ مصروفیت کی وجہ سے وہ رات کو دیر سے محل آتا ہے۔
“اس نے پڑھائی چھوڑ دی کیا؟” اس لڑکی کے بارے میں بات کرنا اسے بہرحال اچھا لگتا تھا۔ بارہویں تک پڑھ لیا نا علاقے کے
سیکنڈری میں۔ اب تو بس گھر بیٹھے شاعری کی کتابیں پڑھتی ہے
“ابھی تک پڑھتی ہے مؔیرو غؔالب کو؟” اس نے سوال کیا اور پھر جیسے اسے کچھ یاد آگیا۔ “کون سا مضمون پڑھا اس نے؟”
“اردو ادب۔” پرکاش کا جواب سن کر وہ مسکرایا۔ اسے یاد آیا وہ کم عمری سے ہی شاعری میں دلچسپی لیتی تھی اور گرمیوں کی چھٹیوں میں جب وہ شہر سے آکے اسی چٹان پہ بیٹھ کے اسے پڑھایا کرتا تو کبھی کبھی اسے مذاق میں یہ کہہ کے چھیڑ بھی دیا کرتا تھا “نالائق لڑکی! پڑھائی میں دل لگاؤ۔ چھوڑو ان مؔیر وغؔالب کو۔” اور وہ ناراض ہو کر کہتی “دل پڑھائی کے لئے تھوڑی دیا ہے اوپر والے نے۔ اس کے لئے تو دماغ ہے۔ دل تو بڑے بڑے کارنامے سر کرنے کے لئے ہے۔” اور وہ اسے خاموشی سے مسکراتے ہوئے دیکھتا رہتا کیونکہ اس لڑکی کو سمجھانا کسی طور ممکن نہ تھا۔
“اور نعتیں؟ پڑھتی ہے اب کہ نہیں؟” اسے جیسے اس لڑکی کے بارے میں مزید جاننے کا شوق سا پیدا ہوا۔
“نہیں۔ اس طرح سے نہیں۔” پرکاش کے جواب پہ اس نے نظر اٹھا کر اس کا چہرہ دیکھا اور پھر آنکھیں جھکا کر زمین کو یوں دیکھنے لگا جیسے ماضی کے نشانات ڈھونڈ رہا ہو۔
اسے یاد تھا وہ لڑکی سریلی آواز کی مالک تھی۔ اسکول کی اسمبلی اور مختلف پروگراموں میں وہ نعتیں پڑھتی تھی۔ کبھی کبھی تو شوق میں آکر وہ اسی چٹان پہ بیٹھے بیٹھے نعت پڑھنے لگتی تھی۔ آنکھیں بند کر کے، ہر لفظ کو پوری توجہ کے ساتھ ادا کرتی اور وہ محوِ حیرت اس کا چہرہ دیکھتا رہ جاتا۔
“اسکول کی لڑکیاں ہنستی ہیں مجھ پر۔ مذاق اڑاتی ہیں میرا۔ کہتی ہیں میں سِکھ ہو کے بھی نعتیں پڑھتی ہوں۔اس شخص کی شان میں قصیدے پڑھتی ہوں جس پہ ایمان رکھنا میرے دھرم کا حصہ نہیں۔”
“جب اگلی بار ایسا کہیں تو بتا دینا انہیں کہ جس شخص کی محبت میں یہ دنیا بنائی گئی ہے اس کی شان کے قصیدے پڑھنا ہم سب پر فرض ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کام کے لئے اللہ نے تم لوگوں کے بجائے مجھے اس کام کے لئے چنا۔” وہ اتنی مشکل باتیں سمجھی تو نہیں تھی پر خوش ضرور ہو گئی۔ یہی اس میں اچھی بات تھی، وہ چھوٹی سی بات پہ ناراض ہو جاتی تھی۔ پھر چھوٹی سی بات سے خوش ہو جاتی تھی۔ ناراضگی پیچھے چھوڑ دیتی تھی۔ دل میں میل نہیں رکھتی تھی اور وجہ یہی تھی کہ اس کا چہرہ دیکھنے والوں کو بڑا روشن اور پر نور نظر آتا تھا۔
“میں بھی فخر بتاتی ہوں ان کو۔ تم جس ولی عہد سے بات تک نہیں کر سکتے وہ دوست ہیں میرے۔ پڑھاتے ہیں مجھے۔” وہ فخر سے کہتی۔ وہ اس پر ہنستا۔
“تو وہ کیا کہتی ہیں؟” وہ دلچسپی لینے لگتا۔
“کیا کہہ سکتی ہیں؟ منہ کھولے، آنکھیں پھاڑے دیکھتی ہیں مجھ کو۔”
“یعنی وہ یقین نہیں کرتیں تمہاری بات کا؟”
“نہیں۔ لیکن مجھے کیا کرنا ہے ان کے یقین کا؟” وہ بے نیازی سے بولتی۔ “جب اپنا دل مطمئن ہو تو لوگوں کو یقین دلا کے کیا کرنا؟” وہ لڑکی کبھی کبھی نا سمجھی میں، باتوں کی روانی میں بڑے پتے کی بات کہہ دیا کرتی تھی۔
“وہ ولی عہد کہتی ہیں آپ کو۔ پر میں کہتی ہوں آپ مالک ہیں مالک۔ انسان خود کو جس کے حوالے کردے وہی تو ہوتا ہے مالک۔ جس طرح میں نے خود کو کردیا آپ کے حوالے۔ اب آپ ہی پاس کرائیں گے میری ریاضی۔” وہ کھلکھلا کر ہنس دی۔ وہ مسکرایا۔
اسے یاد آیا وہ اسلامیات میں سب سے زیادہ نمبر لیتی تھی۔ نصاب میں موجود ساری قرآنی سورتوں کے ترجمے اس نے زبانی یاد کئے تھے اور اس کی خوش قسمتی یہ تھی کہ اس نے خود کو جس کے حوالے کیا تھا۔ جس کو مالک بنایا تھا۔ وہ شاہ احمد اورنگزیب تھا۔ ایک حافظِ قرآن۔ پھر کہاں ممکن تھا کہ وہ اسلامیات میں کم نمبر لیتی؟ وہ اگر اسے ریاضی پاس تو اسلامیات ٹاپ کرواتا تھا۔ وہ اسے عربی تلفظ سکھایا کرتا تھا۔ اسے نماز کا طریقہ، چھ بنیادی کلمے، ایمانِ مجمل اور ایمانِ مفصل زبانی یاد تھے۔
سبھی استانیاں مسلمان لڑکیوں کو چندریکا کی مثال دیتی تھیں کہ وہ ایک سکھ ہو کے بھی اسلام کے بارے میں وہ سب جانتی ہے جو ایک مسلمان بچے کے لئے سیکھنا ضروری ہوتا ہے۔
“بس ایک درودِ ابراہیمیؑ میں وہ ہمیشہ اٹک جایا کرتی تھی۔” اس کے چہرے پہ مسکراہٹ ابھری۔
“یہاں جو درخت تھا جس کے سائے میں بیٹھ کے میں اسے پڑھایا کرتا تھا۔ وہ کہاں گیا؟” وہ چٹان سے اتر گیا۔
“وہ تو کاٹ دیا ہے کسی نے۔”
“کوئی بات نہیں۔ جب تک اس کی جڑیں زمین کے اندر ہیں فکر کی کوئی بات نہیں۔” اسے جیسے کچھ یاد آگیا۔ وہ تیزی سے پہاڑی سے اترنے لگا۔
“آپ کہاں چل دئیے؟” پرکاش نے آواز دی۔
“شکرانے کے نفل پڑھنے۔۔۔” اس نے جواباً بلند آواز میں کہا۔
“وہ کیوں؟” وہ اس کے پیچھے پیچھے پہاڑی سے اترا۔
“کیونکہ دل جب گواہی دینے لگتا ہے تو کہتے ہیں منزل کو پانا آسان ہو جاتا ہے۔ سنا ہے دل کی اس گواہی کو الہام کہتے ہیں اور جس محبت میں الہام آہوں وہ سچی ہوتی ہے۔” وہ بڑبڑاتے ہوئے تیزی سے جا رہا تھا جبکہ اس کے پیچھے بھاگتے بھاگتے پرکاش کی سانسیں پھول گئی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے فائنل ایگزامز تھے اور اس کا پہلا پیپرکافی اچھا ہوگیا تھا۔ موسم اچھا تھا۔ ہلکی ہلکی بارش برس رہی تھی۔ وہ کافی اچھے موڈ میں گاڑی میں بیٹھ گئی-
گھر کے پاس ہی اس نے اپنی ایک ٹیچر کو اپنی گاڑی کے پاس کھڑے بارش میں بھیگتے دیکھا۔ وہ کافی پریشان لگ رہی تھیں۔ نجلہ نے ڈرائیور سے گاڑی روکنے کو کہا۔
“میم! آپ یہاں کیوں کھڑی ہیں؟ کوئی پرابلم ہے ؟” وہ میم پریا کے پاس گئی۔
“میری گاڑی خراب ہو گئی ہے۔” وہ پریشان تھیں۔
“کوئی بات نہیں۔ میرا ڈرائیور آپ کی گاڑی ٹھیک کروا کے لے آئے گا۔ تب تک آپ میرے ساتھ میرے گھر چلیں۔” اور وہ ذرا جھجھکتے ہوئے مان گئیں۔
نجلہ نے انہیں اپنے بیڈروم لے جا کر تولیہ دیا اور خود کپڑے بدلنے ڈریسنگ روم چلی گئی۔ جب وہ واپس آئی تو میم پریا کے سامنے میز پہ پڑا جوس کا گلاس ابھی تک بھرا پڑا تھا جبکہ وہ سائیڈ ٹیبل پہ پڑی بابا کی تصویر کو ہاتھ میں اٹھائے بغور دیکھے جا رہی تھیں۔
“یہ میرے بابا ہیں۔” وہ ان کے پاس آ کے بیٹھ گئی۔
“ان کا نام کیا ہے؟” اسے اندازہ ہی نہ ہوا کہ وہ اس کے باپ میں کچھ زیادہ ہی دلچسپی لے رہی ہیں۔
“شاہ احمد اورنگزیب۔” انہوں نے قدرے بے یقینی سے نجلہ کو دیکھا اور پھر ذرا سنبھلتے ہوئے بولیں “اور آپ کی مدر؟”
“ان کی پکچر بھی دکھاتی ہوں آپ کو۔” اس نے اپنے سائیڈ ٹیبل کے دراز سے ایک تصویر نکال کر میم کو پکڑا دی۔ تصویر دیکھ کر وہ تیزی سے اٹھیں۔
“آپ جوس تو پی لیں۔”
“نو تھینکس! میں ذرا جلدی میں ہوں۔” وہ تیزی سے کمرے سے نکل گئیں۔
“آپ رکیں۔ میں ڈرائیور سے کہتی ہوں آپ کو گھر تک چھوڑ دے۔”
میم پریا کو رخصت کر کے وہ دوپہر کا کھانا کھانے چلی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ الماری کھولے اس میں پڑی کتابوں میں کچھ ڈھونڈ رہا تھا۔ وہ ایک ایک کتاب کھول کر اس کے اوراق پلٹتا۔ پھر اس کو بند کر کے پلنگ پہ رکھ دیتا اور اسی طرح اس کے پلنگ پہ کتابوں کا ایک ڈھیر بن گیا تھا۔
“سکونِ قلب۔” ڈاکٹر محمد عبدالحیؒ کی کتاب جو الماری میں پڑی آخری کتاب تھی، اٹھا کر وہ نڈھال سا پلنگ پہ بیٹھ گیا اور جیسے ہی وہ اس کتاب کو کھولنے لگا ایک تصویر اس میں سے نکل کر قالین پہ جا گری۔ کتاب کھلی چھوڑ کر اس نے وہ تصویر اٹھا لی جس کہ وہ پچھلے آدھے گھنٹے سے ڈھونڈ رہا تھا۔
وہ اس سے ذرا فاصلے پہ کھڑی گلابی رنگ کے کپڑوں میں ملبوس تھی جس پہ بینگنی رنگ کے بڑے بڑے پھول بنے ہوئے تھے۔ وہ بڑے سلیقے سے دوپٹہ اوڑھے ہوئے تھی اور اس کے چہرے پہ ایک گہری مسکراہٹ چھائی ہوئی تھی۔ شاہ احمد سفید شلوار قمیض کے اوپر سیاہ رنگ کی بغیر آستینوں والی کوٹ پہنے ہوئے قدرے سنجیدہ انداز میں کھڑا تھا۔
اسے یاد آیا وہ کئی سال پہلے عید کے میلے میں لی گئی وہ تصویر تھی جس کی ایک کاپی چندریکا نے اپنے پاس رکھ کے دوسری اسے دے دی تھی۔ یہ ان کی دوستی کے زمانے کی واحد نشانی تھی۔
اس نے بڑی احتیاط سے اس تصویر کو خاکی رنگ کے ایک لفافے میں ڈال کر دراز میں رکھ دیا اور جیسے ہی وہ کتابیں واپس الماری میں رکھنے کو مڑا اس کی نظر پلنگ پہ کھلی پڑی اس کتاب پہ پڑی جہاں بڑے بڑے حروف میں لکھا تھا “قلب بہترین مفتی ہے۔” اس نے کتاب اٹھا لی۔ “جب تمہیں کوئی معاملہ درپیش ہو تو اپنے دل سے فتویٰ لے لیا کرو۔” وہ بار بار اس حدیث کو پڑھتا گیا اور بلآخر وہ اسے ازبر ہو گیا۔
اس نے کتاب بند کر کے رکھ دی اور رات سونے سے پہلے اس نے بڑے سکون سے سوچا تھا “اگر تم بھی یہاں کی باقی سکھ لڑکیوں کی طرح اسلام سے غافل رہتی۔ اس میں کوئی خاص دلچسپی نہ رکھتی تو کوئی تعجب کی بات نہ تھی لیکن تمہیں اللہ چنا ہے اپنے دین کے لئے۔ ہدایت کے راستے کے لئے اور تم مجھے ملو نہ ملو چندریکا کماری ماکول! فلاح کی راہ تمہیں ضرور ملے گی۔ یہ میرا یقین ہے۔” اس نے کروٹ بدلی اور سو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جسپریت پچھلے آدھے گھنٹے میں اسے کئی بار کال کر چکا تھا۔
“مجھے ہر حال میں اس عورت سے ملنا ہے۔ کسی بھی حال میں۔ سمجھیں آپ!”
“ہاں ٹھیک ہے۔ میں پوری کوشش کروں گی۔ تم فکر نہ کرو۔” اس نے جسپریت کو تسلی دی اور فون بند کر دیا۔ وہ تھکی ہوئی تھی اور اس وقت اس بارے میں مزید سوچنا نہیں چاہتی تھی کیونکہ وہ پہلے ہی کالیں کر کر کے اس کا دماغ خراب کر چکا تھا۔ وہ ایسا ہی تھا۔ بگڑا ہوا، غصے کا تیز اور بد دماغ سا جو ہر بات پر بگڑ جایا کرتا تھا لیکن وہ اسے خوب جانتی تھی۔ اسے کہاں پہ کیسے استعمال کرنا ہے پریا کماری کو بخوبی معلوم تھا کیونکہ وہ بچپن سے اسی کے ساتھ پلا بڑا تھا۔ وہ اسے اپنی بڑی بہن مانتا تھا لیکن پریا نے اسے کبھی اپنا بھائی نہیں سمجھا تھا۔ جن محرومیوں نے جسپریت کو آتش فشاں بنایا تھا انہی محرومیوں نے پریا کو انگارہ بنادیا تھا کہ جب وہ کسی کو جلانے لگتی تو جلنے والے کو راکھ بننے تک خبر بھی نہ ہوتی کے وہ جل رہا ہے۔
ایک اور یکسانیت ان بہن بھائی میں یہ تھی کہ جسپریت کو جہاں اپنی ماں سے نفرت تھی وہاں پریا اپنے باپ سے نفرت کرتی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“آپ میری بات کا یقین کریں شاہ! کہ جو میں نے دیکھا اور محسوس کیا وہ بالکل سچ ہے۔” گہرے نیلے رنگ کی ساڑھی میں ملبوس شاہ محمد اورنگزیب کے سامنے سر جھکائے کھڑی انہیں اپنی بات کی سچائی کا یقین دلانے کی ناکام کوشش کر رہی تھیں۔
“کس منہ سے آپ یقین کی بات کر رہی ہیں شبینہ بیگم! آپ یقین کے قابل ہیں کیا؟” انہوں نے اس عورت کو دیکھے بغیر جواب دیا جو کہ ان کی دوسری بیوی تھی۔
“بڑی لمبی سزا ہو گئی میری۔” شبینہ بیگم کی آواز بھرآگئی۔
“قتل کی سزا اس سے بڑھ کے ہوتی ہے۔” ان کے لہجے میں سختی تھی۔
“لیکن قتل کیا تو نہیں نا میں نے؟” وہ اپنی صفائی میں بولیں۔
“قتل کر دیتیں تو آج آپ یہاں کھڑی ہوتیں؟ شاہ محمد اورنگزیب کے سامنے؟ وہ آدھا وجود ہے میرا اور اگر اس کو کھروچ بھی آجاتی تو میں پورا وجود مٹا دیتا آپ کا۔” وہ ایک جھٹکے سے اپنی بیوی کی طرف مڑے۔ ان کی آنکھوں میں ماضی کا وہ بد ترین واقعہ یاد کر کے جیسے خون اتر آیا تھا۔
“شاہ احمد اورنگزیب اور چندریکا کے درمیان ایسی کوئی بات نہیں جس کی بنا پر ان کو شک کی نگاہ سے دیکھا جائے لیکن اگر ایسا کچھ ہے بھی تو وہ آپ کی اولاد نہیں۔ ہم اس کی خوشی کے لئے کسی سکھ بیوہ کے پاؤں بھی پڑ سکتے ہیں۔” اپنےدعوے کی گہرائی کا اندازہ شاید خود انہیں بھی نہیں تھا۔
“ہمارے ولی عہد کی طرف آنکھ اٹھا کے دیکھنے کی جراۤت بھی کی تو آنکھیں نوچ لی جائیں گی۔” شبینہ بیگم نے شاہ محمد اورنگزیب کی آرام گاہ سے نکلتے ہوئے وہ آخری دھمکی سن لی تھی اور وہ جانتی تھیں شاہ کی دھمکی فقط دھمکی نہیں ہوا کرتی۔ ان کی بات پتھر پہ لکیر ہوا کرتی ہے۔ وہ یا تو عمرِقید کی سزا سناتے تھے یا پھر سنگسار کر دیا کرتے تھے۔ قید میں وہ پہلے سے تھیں، ان کے اگلے گناہ کی سزا یقیناً سنگسار کردیا جانا تھا!
ہر سُو اتنا سناٹا چھایا ہوا تھا کہ انہیں اپنے چلتے قدموں کی آواز سنائی دے رہی تھی اور نہ ہی وہ باہر برستی بارش کے پانی کی چھپ چھپ سن رہی تھیں۔
“واہ دیویا کماری واہ! جیت جانے کے گُر کوئی تم سے سیکھے۔ کل بھی جیت تمہاری تھی اور آج بھی بازی تم لے گئی۔ سنا تم نے۔۔۔ آج بھی بازی تم لے گئی۔ شاہ تمہارے قدموں میں گرنے کی بات کر رہے تھے۔ والئ اورنگ نگر کا جانشین۔ ان کا ولی عہد۔ تمہارے شاہ۔ میرے مجازی خدا۔ شاہ محمد اورنگزیب! جانتی ہو کیوں؟ کیونکہ وہ اپنے ولی عہد کے لئے ایک عورت کو عمرِقید میں بھی ڈال سکتے ہیں اور دوسری کے پاؤں بھی پڑ سکتے ہیں!” وہ صحن میں آگئیں۔ بارش تیز ہو گئیں۔ وہ زمین پہ بیٹھ کے رونے لگیں۔
“کچھ سزائیں عمرِقید ہوتی ہیں۔ آپ جیتے ہیں تو آپ کی سزا جاری رہتی ہے اور آزادی کے لئے مرنا شرط ہوتا ہے۔” وہ روتے ہوئے بڑبڑائے جارہی تھیں۔ “میں بھی اس عمرِقید میں ہوں۔ میری سانسوں کے ساتھ میری سزا جاری ہے۔ یہ رکیں گی تو وہ ختم ہوگی شبینہ بیگم! لیکن تم برسوں سے یہی امید لئے بیٹھی ہو کہ شاید تمہارے جیتے جی یہ سزا ختم ہو کیونکہ تم بزدل ہو۔ تمہیں موت سے خوف آتا ہے۔” انہیں برسوں پہلے منایا جانے والا عید کا وہ میلا یاد آگیا جب سب لوگ گاؤں کے اس بڑے سے میدان میں جمع تھے۔ ہر کوئی خوش تھا اور خوشیاں منانے میں مگن تھا۔ صرف وہ تھی جس کے دل میں ایک کانٹا چبھ رہا تھا۔ اس کی شادی کے دن سے لے کر اس دن تک اس کے شوہر نے اس سے محبت کے چند لفظ نہیں بولے تھے۔ اسے کسی بھی موقعے پہ نہیں سراہا تھا بلکہ ان کی توجہ کا مرکز مسلسل جہاں آراء تبّسم کا اکلوتا بیٹا تھا جس کے علاوہ شاہ کو اور کچھ دِکھتا ہی نہ تھا۔ شبینہ بیگم اس سب سے تنگ آچکی تھی کہ شاہ احمد کی موجودگی میں اسے اپنا آپ منوانا اور شاہ کی محبت پہ حق جتانا مشکل لگ رہا تھا۔ وہ چھوٹا سا بچہ اس کے اور شاہ کے بیچ مسلسل دوری کا باعث تھا اسی لئے اس نے اسے راستے سے مٹانے کا فیصلہ کر لیا کیونکہ اس کی حیثیت اس سے بڑھ کے کیا تھی کہ وہ شاہ کا ولی عہد تھا، تو شبینہ بیگم انہیں اولاد دے سکتی تھی۔ ولی عہد دے سکتی تھی۔
قتل کا شبہ اس پہ نہ ہو اس لئے اس نے اپنی اور جہاں آراء تبّسم کی تیسری سہیلی دیویا جو کہ شاہ محمد کے دوست سبھاش سنگھ کی بیوی تھی کے گھرجو کے محل ہی کے ایک حصہ میں واقع تھا میں شاہ احمد کا کام تمام کرنے کا فیصلہ کیا۔
میلہ عروج پہ تھا۔ لوگ خریداریوں اور لطف اندوز ہونے میں مصروف تھے۔ وہ شاہ احمد کو لے کر دیویا کے گھر گئی اور دودھ میں ملایا ہوا زہر اسے پلانے لگی جب دیویا باورچی خانے میں داخل ہوئی۔ گلاس شبینہ بیگم کے ہاتھ سے گر گیا۔ سارا دودھ شاہ احمد کے کپڑوں پہ گر گیا۔
“یہ کیا ہو رہا ہے؟ تم دونوں یہاں کیا کر رہے ہو؟”
“تم۔۔۔ تم کیوں آگئی؟ اس وقت۔۔۔” شبینہ بیگم کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ وہ ہکلا رہی تھی۔
“میں تو آکاش کو دیکھنے آئی تھی۔ وہ بخار میں تپ رہا ہے۔ لیکن تم کیوں میلہ چھوڑ کر یہاں۔۔۔” اس سے پہلے کے وہ اپنا سوال پورا کرتی اس کی نظر دودھ کی کیتلی کے پاس رکھی اس بوتل پر پڑی جس پہ صاف صاف زہر لکھا ہوا تھا۔
دیویا نے لپک کر شاہ احمد کو گود میں اٹھایا۔ اس کی آنکھوں میں شبینہ بیگم کے لئے نفرت اور حقارت تھی۔ وہ بھاگتی ہوئی شاہ کے پاس گئی اور انہیں ایک طرف لے جا کر ساری حقیقت بتا دی۔ پھر ایک قیامت شبینہ بیگم کی زندگی میں آگئی تھی۔ میدانِ حشر بپا ہوا تھا اور اسے جہنم میں پھینک دیا گیا تھا۔ اس کی معافیوں اور آنسوؤں سے شاہ کو کہاں فرق پڑتا تھا۔ ماں باپ اس کے تھے نہیں اور بھائی طلاق یافتہ بہن رکھنے پر تیار نہیں تھے اسی لئے وہ شاہ کے پاؤں پڑ کے روئی تھی۔ گڑگڑائی تھی کہ اسے طلاق نہ دی جائے لیکن شاہ کا کہنا تھا “شاہ طلاق نہیں دیتے۔ مار دیتے ہیں!” مگر اس کے اشکوں سے اتنا فائدہ ہوا تھا۔ اس نے جان کی امان پا لی تھی۔ اسے محل میں رہنے کی اجازت تھی لیکن شاہ اس سے کسی بھی قسم کا تعلق رکھنے کے روادار نہیں تھے۔
اس کے بعد اس نے کچھ ملازموں کے ساتھ مل کر دیویا پر چوری کا الزام لگایا۔ جو زیور غائب ہوئے تھے وہ واقعی دیویا کے گھر سے برآمد ہوئے لیکن شاہ کو اس کی کسی بات کا یقین نہیں تھا اسی لئے انہوں نے سبھاش سے معذرت کر کے بات رفع دفع کرنے کی کوشش کی مگر وہ نہیں مانا۔ اس نے محل سے کافی فاصلے پر ایک چھوٹا سا مکان بنوایا اور اپنے بیوی بچوں کو لے کر وہاں چلا گیا۔ اس نے شاہ کو بتایا کہ وہ ان سے ناراض نہیں ہے بلکہ اسے اپنی عزّت عزیز ہے اسی لئے وہ آئندہ اس قسم کے الزامات سے بچنے کے لئے محل سے دور گیا ہے۔ ان کا تعلق پہلے کی طرح برقرار رہا بس ایک شبینہ بیگم تھیں جو ہرشخص کی نگاہ میں گر گئی تھیں۔
وہ آدھی رات تک بارش میں بھیگتی رہیں لیکن ان کے اندر محرومیوں کی آگ نہ بجھ سکی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“آپ کو یقین ہے نا وہ تصویر شاہ احمد اور چاندنی کی تھی؟” وہ یہ سوال بارہا پوچھ چکا تھا اور اس کا جواب بھی سن چکا تھا اس کے باوجود اسے تسّلی نہیں ہو رہی تھی۔
“ہاں بھئی۔ جیسی تصویر تمہارے پاس ہے اس کی ایگزیکٹ کاپی دیکھ آئی ہوں میں وہاں۔ تمہیں یقین دلانے کے لئے میں اپنے فون میں اس کی پکچر لے لیتی لیکن موقع ایسا نہیں تھا۔” وہ جھنجھلاگئی۔
“بس کچھ بھی کر کے مجھے ایک بار اس عورت سے ملوا دو۔ جان سے مار دینا چاہتا ہوں میں اسے۔” جسپریت کے لہجے میں نفرت تھی۔
“میرے بھائی ایسی باتیں نہیں کرتے۔” وہ ہمیشہ کی طرح نرم لہجے میں بولی۔ وہ جسپریت سنگھ کو بخوبی جانتی تھی۔ وہ اسے قابو کرنا جانتی تھی۔ اسے استعمال کرنا جانتی تھی۔ اسے نقصان پہنچا کر اپنا فائدہ نکالنا جانتی تھی۔ وہ پریا کور تھی۔ نفرت اور حسد کی آگ میں جل کے انگارہ ہونے والی۔ وہ جلانا خوب جانتی تھی۔ جلا کر بھسم کر دینا تو اس کی خصوصیت تھی اور پھر سامنے بھی کون تھا، اس کے اپنے سگے باپ کی نا جائز اولاد!
“اچھا، اچھا! یہ نصیحتیں آپ کسی اور کے لئے رکھیں۔ فی الحال مجھے آپ کی مدد چاہیئے۔” وہ ہمیشہ سے اسی انداز میں بات کیا کرتا تھا۔ بے رخی، بے نیازی اور تکّبر سے۔۔۔
“خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک۔۔۔” جسپریت نے تصویر کی پشت پہ لکھے غالب کے شعر کا وہ مصرع پڑھا جس کو وہ اس سے پہلے ہزار دفعہ پڑھ چکا تھا اور ہر بار اسے پڑھتے ہوئے وہ اس عورت سے مزید شدت سے نفرت کرنے لگتا جو کہ اس کی سگی ماں تھی لیکن جس نے اسے ایک غیر مرد کے لئے چھوڑ دیا تھا۔ اس شخص کی محبت میں اسے اپنے دھرم کا خیال رہا نہ ہی اپنے معصوم بیٹے کا۔۔۔
“میں تمہارے ساتھ ہوں۔” وہ پیار سے مارنا جانتی تھی۔ وہ ایک وکیل تھی۔ اسے چال چلنا آتا تھا پھر یہاں مقدمہ بھی تو اس کا اپنا تھا۔ دشمن اپنا بھائی تھا۔ اسے تو جی جان سے لڑنا تھا۔ اپنے باپ کی بد کرداری کے ثبوت کو مٹا دینا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھنے بادل چھائے ہوئے تھے۔ لگتا تھا بارش ہو کے رہے گی لیکن پھر بھی سب لوگ ہمیشہ کی طرح پُر جوش تھے۔ نئے سال کا میلہ اپنے ابتدائی مراحل سے گزر رہا تھا۔ جابجا چبوترے بنے ہوئے تھے اور ان چبوتروں پہ موجود بیوپاری اپنے اپنے مال کی نمائش میں مصروف تھے۔
چندریکا اپنے چبوترے پہ پرکاش کے ہمراہ کھڑی لوگوں کی فرمائش پہ اپنی سریلی آواز میں باری باری ہر ایک کے لئے گانا گا رہی تھی۔ اس کے گرد جوان طبقے کا ایک جمگھٹا بنا ہوا تھا جس سے پرکاش کو بھی فائدہ تھا کیونکہ اس کی پانی پوری بھی خوب بِک رہی تھی۔ وہ اپنی کمائی لوہے کے اس زنگ آلودہ ڈبے میں ڈالتا جو کسی زمانے میں اس کی ماں کے زیور سے بھرا رہتا تھا جبکہ چندریکا اپنے پیسے کندھے سے لٹکتے اون سے بنے اُس بٹوے میں ڈالتی جس میں مالک کی واحد تصویر پڑی تھی۔ کہیں باہرجاتے ہوئے وہ یہ بٹوہ ساتھ ضرور لے کے جاتی تھی کیونکہ اس کے اندر یہ یقین پختہ ہو چکا تھا کہ وہ شخص اس کا مالک، اس کی طاقت تھا اور اس کے ساتھ ہونے کا احساس اس کی بہادری کا سر چشمہ۔۔۔ وہ جہاں بھی جاتی تھی خود کو محفوظ سمجھتی تھی کیونکہ اس کے بٹوے میں مالک شاہ احمد اورنگزیب کی تصویر تھی اور اس یقین سے بڑھ کے مضبوط ہتھیار کیا ہو سکتا تھا؟
“ارے۔ ارے ہٹو۔ ہٹ جاؤ بھئی! بڑا ضروری کام ہے۔” لوگوں کو پیچھے کی طرف دھکیلتا، خود آگے بڑھتا رام اس کے سامنے آکے کھڑا ہو گیا۔
“تیری آواز کی وجہ سے میری آواز کا دھندا ٹھپ پڑا ہے۔ بند کردے یہ گانا اور آنے دے لوگوں کو میری طرف۔” وہ بازو چڑھاتے ہوئے ایسے بول رہا تھا جیسے لڑائی کرنے کے موڈ میں ہو۔ وہ ایسا ہی تھا۔ آوارہ اور بد تمیز۔ ہر موقعے پہ وہ اسے چھیڑتا اور تنگ کرتا رہتا تھا۔ ندریکا کی سہیلیوں کا کہنا تھا کہ وہ اس میں دلچسپی لیتا ہے مگر وہ اسے نظر انداز کیا کرتی تھی کیونکہ نہ تو اسے رام کی باتیں پسند تھیں نہ ہی اس کا انداز۔ وہ اس کے معیار کا نہیں تھا۔ اسے جو انداز پسند تھا وہ اسے دل کے نہاں خانوں میں رکھتی تھی۔ سنجیدہ۔ کم بولنے والا۔ شان والا۔ رعب دار۔۔۔ جو جب چلے تو پوری دنیا رک جائے۔ جب بولے تو پوری کائنات کی ہر آواز خاموش ہو کے اسے سنے سور جب وہ سانس لے تو ہوائیں رک جائیں۔ اس کی ہر بات الگ ہو۔ اس کا ہر انداز جدا ہو۔ اسے دیکھ کے یوں لگے کہ نگاہ میں اب کسی اور طرف اٹھنے کی سکت باقی نہیں۔
وہ رام کو بے حد نا پسند کرتی تھی لیکن اس کا بس نہیں چلتا تھا ورنہ وہ اس کی زبان کھینچ کر اس کو ہاتھ میں تھما دیتی۔
“سنا نہیں تو نے۔ میں نے کیا کہا؟” وہ بد تمیزی پر اتر آیا۔
“نہیں۔ میں نے نہیں سنا کہ تو نے کیا کہا۔ مجھے تیری بک بک سننے کا شوق نہیں ہے۔”
“دیکھ تیری وجہ سے مجھے نقصان ہو رہا ہے۔”
“جا! خود کو اس قابل بنا کہ میری آواز کا مقابلہ کر سکے اور آکے مجھے ہرا۔ اوپر والے کی قسم! شکایت کرنے نہیں آؤں گی تیرے پاس۔” وہ تحقیر آمیز انداز میں بولی۔
رام ہر کسی کی آواز نکالنا جانتا تھا۔ کسی بھی جانور یا انسان کی آواز سن کر وہ ہوبہو ویسی ہی آواز نکال لیا کرتا تھا اور ہر میلے میں لوگوں میں لوگوں کا ایک جم غفیر اس کے گرد کھڑا رہتا تھا لیکن اس بار چندریکا نے اس کا پورا کام خراب کر دیا کرتا تھا۔
“چل ٹھیک ہے۔ تو نہیں مانتی یہ بات تو چل یہ مان لے۔ مجھے گانا سنا دے۔” وہ وہیں بیٹھ کے اسے تنگ کرنے لگا۔ “مفت میں۔۔۔” اس نے ایک قہقہہ لگایا۔
“رام جا یہاں سے۔” وہ بپھر گئی۔
“چل یہ گا دے۔ چِھٹی ذرا سیّاں جی کے نام لکھ دے۔۔۔ حال میرے دل کا تمام لکھ۔۔۔” وہاں کھڑے نوجوان ہنسنے لگے۔
“تو رک! میں سیدھا کرتی ہوں تجھے۔” وہ چبوترے سے اتری اورتیزی سے چلتی لوگوں کے ہجوم میں کہیں غائب ہو گئی۔
“آج تو میں مالک کو بتا کے رہوں گی۔ وہ کھال ادھیڑ دیں گے اس کمینے کی۔” وہ غصّے سے بڑبڑاتے ہوئے مالک کو ڈھونڈتی رہی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“مجھے شاہ احمد اورنگزیب کی بیٹی چاہیئے۔” اس نے اپنی ماں کی تصویر پہ نظریں جمائے رکھتے ہوئے فون پر پریا کو بتایا۔
“وہ کیوں؟” وہ حیران ہو گئی۔
“اپنی ماں کے بدلے۔۔۔” اس نے اپنی بات پوری کر کے فون کاٹ دیا۔ اسے پریا کا جواب سننے کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ جانتا تھا وہ اس کی بات نہیں ٹالتی تھی۔ نہیں ٹال سکتی تھی۔
“میری ماں نے تیرے لئے مجھے چھوڑا۔ تیری بیٹی میرے لئے تجھے چھوڑ دے گی شاہ احمد اورنگزیب! انسان جو بوتا ہے وہی کاٹتا ہے لیکن تم نے جو بویا اس سے ہزار گنا زیادہ ذلت کاٹنی پڑے گی تمہیں۔” وہ تصویر میں اس شخص سے مخاطب تھا جس سے وہ ہر رات مخاطب ہوتا تھا۔ جس سے وہ شدید نفرت کرتا تھا۔ جو اس کے بچپن کا وہ جن تھا جو اس کی ماں پہ عاشق ہوا تھا اور پھر اس کو لے کرکہیں غائب ہوا تھا۔ جسپریت سنگھ اپنی ماں کو بھول سکتا تھا پر اس جن کو نہیں جو اس کی ماں کو لے اڑا تھا!
اس نے پریا سے ہمیشہ یہی سنا تھا کہ اس کی ماں نے اس کے باپ کو قتل کر کے شاہ احمد اورنگزیب سے شادی کی تھی۔ چونکہ وہ اتنی بڑی نہیں تھی اس لئے اسے سب کچھ واضح طور پہ یاد نہیں تھا لیکن جو کچھ اسے یاد تھا اس نے جسپریت کو بتا دیا تھا حالانکہ اس کی ماں نے جو کہ جسپریت کی طلاق یافتہ پھوپھی تھی اور انہی کے گھر میں رہتی تھی، جنہوں نے اس کی ماں کے جانے کے بعد اسے پالا تھا نے کبھی بولے سے بھی چاندنی کا ذکر نہیں کیا تھا۔ کبھی اسے یہ نہیں بتایا تھا کہ اس کی ماں کوئی اور عورت تھی لیکن اس کی موت کے بعد پریا نے جسپریت کو سب سچ بتا دیا تھا کیونکہ وہ اسے اپنی حقیقت سے بے خبر نہیں رکھنا چاہتی تھی اور وہ تصویر بھی اسے دی تھی جو اس کی ماں نے بڑے احتیاط کے ساتھ ایک ڈبے مین بند رکھی تھی۔ تب سے لے کر اس دن تک جسپریت سنگھ ہر رات اس تصویر کو دیکھ کر خود اذیتی میں مبتلا ہوا کرتا تھا۔اپنی نفرت کی آگ کو بھڑکایا کرتا کرتا تھا۔ رویا کرتا تھا۔ ہنسا کرتا تھا۔ ذلت و اذیت کے غائبانہ آگ میں جلا کرتا تھا اورروز اپنی ماں کوخود غرضی اور بد کرداری کی پستیوں میں گرتے دیکھا کرتا تھا۔
“میں انفارمیشن تو کیسے بھی کر کے نجلہ سے لے لوں گی۔ چاندنی سے تمہاری ملاقات بھی کروادوں گی لیکن لڑکی کیسے لا کے دوں میں تمہیں؟” وہ ایک پارٹی میں تھا جب پریا کا میسج آیا تھا۔
جوابی میسج بھیج کروہ ڈرنک میں مصروف ہو گیا۔عمر میں اس سےچھوٹا ہونےکےباوجودوہ اسےنام سےبلاتا تھا۔“oh come on Priya. Lawyers can do anything.”
وہ اس کا میسج پڑھ کر قہقہے لگانے لگی۔“Yes. Lawyers can do anything…”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ بھاگنے لگی تھی اوربھاگتی ہی جا رہی تھی۔ایسی بے خوف کہ اسے اکیلے پن کا ڈر تھا نہ ہی ان تاریک راہوں کا جن پہ وہ اس اندھیری رات میں بھاگتی جا رہی تھی۔ اس شدید طوفان میں جب ہر کوئی گھر کا راستہ ناپ رہا تھا وہ گھر سے دور بھاگتی جا رہی تھی۔ اپنی حقیقت پیچھے چھوڑ کر وہ کسی نا معلوم راستے پہ چل نکلی تھی جس کی کوئی منزل نہیں تھی۔
بارش کا امکان ہے یہ سب جانتے تھے لیکن طوفان اتنا شدید ہوگا کسی نے یہ سوچا بھی نہیں تھا۔
وہ بھاگتی رہی۔ بارش میں بھیگتے ہوئے۔ ان برستے پانیوں سے اپنے اندر کی ذلت اور اذیت کی آگ بجھانے کی کوشش کرتے ہوئے۔ لیکن زندگی میں کچھ لمحے جہنم کی آگ ہوتے ہیں۔ پھر آپ چاہے جتنا بھی پانی ڈالیں ان کا کام آپ کو جلانا ہی ہوتا ہے۔
اپنے یقین، بھروسے اور ایمان کا جنازہ اٹھائے ہوئے وہ دوڑتی رہی۔
بارش کی موٹی موٹی بوندیں اس کے چہرے پہ تیزی سے آکے لگتیں۔ اس کے چہرے پہ بہتے آنسوؤں کے ساتھ ایسے مل جاتیں کہ ان کو الگ کرنا ناممکن ہو جاتا تھا۔ اس نے بھی تواس شخص کو اپنی ذات کے اندر اتنی محبت، اتنی شدت سے ملایا تھا کہ لگتا تھا جیسے ایک ہوں! اور پھر اسے کسی نے ایک ہی جھٹکے سے الگ کر پرے ہٹا دیا تھا۔ اس کی حقیقت کو اس شخص سے جدا کر دیا تھا۔ آج اسے احساس ہوا تھا ‘یک جان دو قالب’ کس قدر غلط نظریہ تھا۔ وہ تو ایک کبھی تھے ہی نہیں۔ دو الگ وجود، الگ ذات رکھنے والے کہاں ایک ہو سکتے ہیں؟ ایک تو وہ بھی نہیں ہوتے جو ماں کے پیٹ سے جُڑے ہوئے نکلتے ہیں! اور ایک وہ تھی جو بچپن سے ایک غلط ایمان لئے چلی آرہی تھی۔ آج اسی ایمان کے غلط ثابت ہونے پرایسے بے گھر ہوئی تھی کہ سر پہ آسمان تھا نہ پیروں تلے زمین۔۔۔
بھاگتے بھاگتے وہ کتنی دور آگئی تھی اس بات کا نہ اسے احساس تھا نہ دلچسپی۔ اپنی حقیقت سے جتنا دور ممکن تھا وہ چلے جانا چاہتی تھی۔ اسی اندھیری رات میں۔۔۔ اسی تیز برستی بارش، اسی شدید طوفان میں۔۔۔
وہ جو خود کو اور اسے ‘ایک’ سمجھتی تھی آج اسے پتہ چلا تھا، ان دونوں کی کہانی میں اکائی تو وہ شخص تھا۔۔ اور وہ صفر تھی! بے وجود اور غیر اہم۔ یعنی جو تھا، وہ تھا۔ وہ توکہیں تھی ہی نہیں۔۔۔
اس کا پاؤں پھسلا اور وہ دھڑام سے نیچے گری اور پھر لڑھکتی گئی۔ کسی بے جان شے کی مانند۔۔۔ وہ خود کو سنبھال نہ سکی اسے لگا وہ کسی اونچی اور جھاڑی دار پہاڑی سے نیچے گر رہی ہے۔ لڑھکتے لڑھکتے وہ ایک کانٹے دار جھاڑی پہ جا گری جس کے کانٹے اس کے پورے وجود میں پیوست ہوگئے۔ اتنی شدید سردی میں اسے اپنا بھیگتا ہوا زخمی وجود شل ہوتا محسوس ہوا۔
“پس یقیناً مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔ بے شک مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔” وہ سورۃ الم نشرح کی 5 اور 6 آیات تھیں جو اسے ترجمے کے ساتھ زبانی یاد تھیں۔ اسلامیات لازمی کا پرچہ پاس کرنے کے لئے اس نے بڑی محنت کر کے قرآنی سورتوں کو ترجمے سمیت یاد کیا تھا۔
“پس یقیناً مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔ بے شک مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔” کوئی اس کے کان میں بول رہا تھا۔ اس کے اوپر بارش کا پانی گرتا رہا۔ اس کے زخم زخم وجود کو سکون سا ملنے لگا۔ اس نے آنکھیں بند کر دیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ٹرین میں بیٹھی کھڑکی سے باہرتیزی سے بدلتے مناظر کو دیکھ رہی تھی۔ اس کی زندگی بھی تو بڑی تیزی سے بدل گئی تھی۔ وہ شخص بھی تو بدل گیا تھا۔ خاموش طبع، سنجیدہ، بے لوث اور سچا۔۔۔ قہرناک، خود غرض اور جھوٹا ثابت ہوا تھا۔
انسان کی زندگی میں سب سے زیادہ بھروسے والے اور یقین کے قابل اس کے اپنے ماں باپ ہوتے ہیں لیکن آج اس کا بھروسہ ٹوٹ گیا تھا۔ ماں باپ ہمیشہ سچے اور پاک نہیں ہوتے۔ ان کے اپنے تاریک رخ ہوتے ہیں جن کو وہ زندگی بھر اپنے بچوں سے چھپائے پھرتے ہیں۔ سمجھداری اور عقل کے ٹھیکیدار بن کر بچوں کی زندگیوں کی لگام تھامے رکھتے ہیں۔ فرشتے بنے پھرتے ہیں۔ اس کے باپ نے بھی زندگی بھر اسے اپنی مرضی کے راستے پہ چلایا تھا اور وہ بھی سوال کئے بغیر ان کے بتائے ہوئے راستے پہ چلی تھی لیکن آج زندگی میں پہلی بار جب اس نے ان سے سوال کیا تو اسے خاموش کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔
“میرا ننھیال اور دودھیال کہاں ہیں؟” اپنے دونوں ہاتھ کولہوں پہ رکھ کے وہ ان کے سامنے ایسے کھڑی ہوگئی جیسے انہیں اندر نہ آنے دے رہی ہو۔
آپ یہ سب کیوں پوچھ رہی ہیں؟”
لاؤنج کے اندر آتے آتے رکے کیونکہ نجلہ نے ان کا راستہ بند کر دیا تھا۔ آج پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ اس نے خود سلام کیا نہ انہیں سلام کرنے کا موقع دیا بلکہ ان کے آتے ہی سوال کرنے لگی۔
“میری ماں کی موت کیسے واقع ہوئی تھی؟”
“بیٹا۔۔۔”
“آپ کا شادی سے پہلے ان سے کیا رشتہ تھا؟ وہ آپ کی کزن تھیں؟ پڑوسن تھیں؟ کیا لگتی تھیں وہ آپ کی؟” اس نے ان کی بات کاٹ کر اپنا سوال جاری رکھا لیکن جواب کی مہلت نہیں دی۔
“بیٹھ کے۔۔۔ بیٹھ کے بات ہیں۔ وہ نرمی سے بولے۔
“بیٹھ کے۔ ہمیشہ یہی کیا ہے آپ نے۔ بچپن سے لے کر آج تک آپ ٹالتے آرہے ہیں مجھے۔ کھڑے ہیں تو بیٹھ کے۔ بیٹھے ہیں تو اٹھ کے۔ ہمیشہ جھوٹ بولا ہے آپ نے مجھ سے۔ میں جب بھی اپنی ماں کے بارے میں سوال کرتی۔ آپ اپنی اداسی کا ڈھونگ رچا کرمجھے خاموش رہنے پر مجبور کردیتے اور میں سوچتی تھی میرے باپ کو میری ماں سے محبت ہے۔” اس کے منہ میں جو آتا گیا وہ بولتی گئی۔ وہ حیران و پریشان اسے دیکھتے گئے۔ نجلہ شاہ احمد نے اس سے پہلے کبھی اپنے باپ سے بدتمیزی تو کیا ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سوال نہیں کیا تھا۔
“مجھ سے یہ جاننے تک کا حق چھینا ہے آپ نے کہ میں کسی کو یہ بتا سکوں کہ میری ماں چاندنی تھی جہاں آراء تبّسم؟” ان کے چہرے پہ کئی رنگ آکے گزر گئے۔ وہ شاکڈ کھڑے نجلہ کو دیکھتے رہے۔
“دل آگیا آپ کا ایک سکھ لڑکی پر۔ مار دیا اس کا شوہراور حاصل کر لیا اسے۔ میں اسی دل لگی کا نتیجہ ہوں اور دل لگی ختم ہوئی تو مار کے پھینک دیا ہوگا اسے کہیں۔۔۔” ایک بھاری تھپڑ نجلہ کے گال پہ پڑا تھا۔ اس نے غیر یقینی عالم میں اپنے باپ کو دیکھا۔ آج اس کو اپنے شفیق باپ کے اندر چھپے وحشی درندے کی جھلک نظر آئی تھی کہ جس کا جھوٹ پکڑو اور سچ بولو تو مارنا شروع کردیتا ہے۔
نجلہ نے دیکھا ان کی آنکھوں میں جیسے خون اتر آیا تھا۔ وہ تیزی سے لاؤنج سے نکل گئے۔
“آپ کی گھناؤنی شخصیت کی سچائی جان چکی ہوں میں اور یہ بھی پتہ لگا کے رہوں گی کہ میری ماں کی موت کیسے واقع ہوئی تھی؟ اور پھر میں پوری دنیا کو بتاؤں گی کہ آپ کی سچائی کیا ہے؟” وہ بدستور چلّاتی رہی اور پھر نڈھال ہو کر فرش پر بیٹھتی چلی گئی۔ اسے میم پریا کی باتوں کا یقین آگیا تھا یعنی اس کا باپ مجرم تھا اور نجلہ کو خاموش کرانے کے لئے انہوں نے اپنی مردانگی کا استعمال کیا تھا۔
“کوئی انسان جو کہ اس قدر گنہگار وہ وہ اپنی پوری زندگی اچھا بننے کی ایکٹنگ کیسے کر سکتا ہے؟” اس کی آنکھوں سے آنسوں بہہ نکلے۔
اپنا پرس بیڈ روم سے اٹھا کر اس نے سیل فون وہیں چھوڑا اور کمرے سے نکل گئی۔ اماں کو بخار تھا اور وہ اپنے کمرے میں بے سدھ پڑی تھیں ورنہ وہ نجلہ کو کہیں نہ جانے دیتیں۔
“اپنے صاحب سے کہنا مجھے ڈھونڈنے کی کوشش نہ کریں اور نہ ہی مجھے فون کریں کیونکہ میں اپنا موبائل چھوڑ کے جا رہی ہوں۔” واچ مین کو بتا کر وہ پیدل ہی چلنے لگی۔ وہ اس کے پیچھے پیچھے آکر اسے روکنے کی کوشش کرتا رہا لیکن نجلہ نے اسے ڈانٹ کر واپس بھیج دیا اور خود ایک رکشے میں بیٹھ کر چلی گئی۔
میم پریا کے فلیٹ تک پہنچتے پہنچتے اسے جیسے صدیاں لگی تھیں۔ جو کچھ ہوا تھا اس سب کا یقین نہیں آرہا تھا اسے۔ یوں لگ رہا تھا وہ کسی برے خواب میں چل رہی ہو۔ اس کا ذہن خالی تھا۔ وہ رو بھی نہیں سکتی تھی۔ حقیقت جب توقع سے ذیادہ تکلیف دہ اور مشکل ہو تو رویا بھی نہیں جاتا۔ بس ایک تماش بین بن کر تماشہ دیکھا جاتا ہے یا ایک مہرے کی طرح تقدیر کے اشاروں پہ ناچنا پڑتا ہے۔
میم پریا نے اسی وقت اس کی سیٹ بک کروا کے اسے کراچی روانہ کر دیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہ کی اچانک موت کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیلی تھی۔ کسی کو یقین نہیں آرہا تھا۔ لوگ فق رنگ اور کانپتی ٹانگوں کے ساتھ محل کی طرف دوڑے چلے جا رہے تھے اور پھر جب اس بات کی تصدیق ہو گئی کہ شاہ کی موت واقع ہو چکی ہے اور ان کی موت کے وقت صرف ولی عہد ان کے ساتھ تھے تو ہر ایک اندر ہی اندر اس پچھتاوے کا شکار ہوا تھا کہ جب ان کے شاہ کی روح قبض ہو رہی تھی اس وقت وہ نئے سال کے میلے میں مگن، جشن میں مصروف تھے۔
شاہ محمد اورنگزیب کے جنازے میں شامل لوگوں کے ہجوم پہ سیلاب کا سا گمان ہوتا تھا ۔ اس شخص کے چاہنے والوں میں ہر طبقے کے لوگ تھےاور اس کی مقبولیت صرف اپنے علاقے تک محدود نہ تھی بلکہ دور دور کے علاقوں کے لوگوں کی پکار سن کر ان کی مدد کو پہنچ جایا کرتا تھا اسی لئے آج وہ سبھی لوگ اس کا آخری حق ادا کرنے آئے تھے۔
تعزیت کے لئے آنے والے لوگوں کی زبانوں سے اپنے باپ کے لئے دعاؤں اور اچھے کلمات سے شاہ احمد اورنگزیب کا بوجھ کم نہیں ہوتا تھا بلکہ بڑھتا ہی جاتا تھا لیکن پھر بھی وہ ہر آنے والے کے ساتھ بڑی خوش اخلاقی سے ملتا تھا اور ایسے باپ کا شاید اتنا ہی حق بنتا ہے جو اپنے بچے کو بچپن ہی میں خود سے دور رکھ کر اپنی محبت اور شفقت کے حقوق سے محروم کردے۔ یہ سب وہ تب سوچتا اگر وہ زندگی کے ان آخری لمحات میں شاہ ابا کا ہاتھ تھامے ان کے پاس بیٹھا ان کی اکھڑتی سانسوں کی گنتی نہ کر رہا ہوتا۔ اور اس وقت جب شاہ احمد کو یقین تھا کہ اب وہ کسی صورت نہیں بچیں گے تو اس نے اپنا ہر حق معاف کرتے ہوئے دل کی گہرائی سے دعا مانگی تھی کہ شاہ ابا بچ جائیں۔ وہ نہیں سمجھ رہا تھا کہ اس کے لئے کسی خاص اہمیت کا حامل نہ ہونے کے باوجود اس شخص کا زندہ رہنا کیوں ضروری تھا؟ اسے تو بس اتنا معلوم تھا کہ وہ اس کا باپ تھا جو اس کے سامنے مر رہا تھا۔ موت سے لڑ رہا تھا اور ایک ایک سانس لینے کے لئے جہد کر رہا تھا۔
“وراثت کے معاملے میں میں نے اس کے ساتھ کوئی نا انصافی نہیں کی۔ اسے اس کا حق دیا ہے۔ تم بھی اس کے حقوق پورے کرنا۔ اس کی عزت کرنا۔” وہ سمجھا نہیں کہ شاہ ابا کس کی بات کر رہے ہیں پھر بھی وہ ان کا ہاتھ مضبوطی سے تھامے انہیں سن رہا تھا۔ شاید ان کو حوصلہ اور خود کو تسلی دے رہا تھا کہ اس کے ایسا کرنے سے ان کی تکلیف کم ہو جائے گی۔
“لیکن ولی عہد! تم اس کے ہاتھ کا بنا کھانا کبھی مت کھانا۔” وہ سمجھ گیا شاہ ابا کس کی بات کر رہے تھے۔
“تم ہمارے ولی عہد ہو۔ ہم یہ سب تم کو سونپ کر جا رہے ہیں۔ تم اسلام کے اصولوں کے مطابق فیصلے کرو گے تو ہماری روح کو تسکین ملے گی۔” انہوں نے اسے تم کہہ کے پکارا تھا۔ شاہ احمد کو یوں لگا جیسے وانہوں نے اس کے سارے حقوق ادا کر دئے ہوں۔ اس کی محرومیوں کا ازالہ کر دیا ہو اور تب اس کی آنکھوں سے آنسو نکلے تھے۔
اس شخص کے سینے میں جس طرح اچانک درد اٹھا تھا اسی طرح اچانک باتوں باتوں میں اس کی جان نکلی تھی۔ وہ حکیم کو بلانے پر بضد تھا اور وہ اس سے بات کرنے پر مصر تھے۔ وہ جو ان کے ساتھ میلے میں جانے کی نیت سے ان کی آرام گاہ میں داخل ہوا تھا، ان کی موت کا اعلان کرنے وہاں سے نکلا تھا!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ خاموشی سے جا کے اس بینچ پہ بیٹھ گیا جس کی پشت اس دیوار کے ساتھ لگی تھی جس کی دوسری طرف ایسی ہی ایک بینچ پہ وہ براجمان تھی۔ اسی بینچ کی مشرقی سمت جالی کی ایک کھڑکی بنی تھی جس میں اس کی آواز دوسری طرف سنی جا سکتی تھی۔
یہ ہسپتال کا ایک خاموش گوشہ تھا جہاں سے لوگوں کا آنا جانا کم ہی ہوتا تھا اس لئے ان کی گفتگو میں خلل نہیں پڑتا تھا۔ وہ بینچ کی پشت سے ٹیک لگائے دھیرے دھیرے بولتا تھا اور دوسری طرف وہ خاموشی سے اس کی ہر بات سنتی تھی۔ جواب نہ دیتی تھی۔ ڈاکٹروں کا کہنا تھا اسے کوئی بات سمجھ نہیں آتی لیکن وہ پھر بھی روزانہ وہاں آتا تھا۔ نرس اسے لے آتی تھی۔ بینچ پہ بٹھا دیتی تھی۔ اور جب وہ بیٹھ جاتی تھی تو وہ سلام کرتا۔ پھر بات کرنا شروع کر دیتا تھا۔ گھنٹہ بھربات کرتا پھر جانے کی اجازت مانگتا۔ جواب کا انتظار کرتا اور سلام کر کے چلا جاتا تھا۔ کسی دن کوئی اہم بات ہوتی تو زیادہ دیر ٹھہرتا۔ زیادہ باتیں کرتا۔ بولتے بولتے اس سے سوال کرتا۔ جواب کا انتظار بھی کرتا اور اسے خاموش پا کر دوبارہ بولنے لگ جاتا تھا۔ یہ سب اس کا معمول تھا۔ وہ اس سے بات کرنے آتا تھا۔ اس کی یاد داشت واپس لانے آتا تھا لیکن جالی کے اس پار نگاہیں دوڑا کر اس کی طرف دیکھتا نہ تھا۔ اس کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی ہمت نہ کل اس میں تھی نہ آج وہ اتنا بہادر تھا کہ نظر بھر کے اسے دیکھتا اور اپنی اس کم ہمتی سے مطمئین تھا وہ۔
وہ باقاعدگی سے وہاں آتا تھا۔ جو لوگ اسے جانتے تھے اس پر حیران ہوتے تھے۔ اسے موسم کی خرابی نے کبھی روکا نہ طبیعت کی ناسازی نے اس کے قاعدے میں خلل ڈالا۔ وہ ہر شام اسی امید کے ساتھ آتا کہ شاید وہ اسے جواب دے دے۔ اس کی کسی بات پہ کوئی تاۤثر دکھائے لیکن ہر روز وہ جواب میں اس کی خاموشی سن کر جاتا تھا۔ پھر بھی نا امید نہ ہوتا تھا۔ اگلے دن ایک نئی امید کے ساتھ حاضر ہوتا یہ جانے بغیر کہ اس کی زندگی وہاں حاضری دیتے دیتے ختم ہو جائے گی پر وہاں سے جواب میں وہ آواز سننے کو نہیں ملے گی جس کو سن کر وہ جی اٹھتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ بے چینی سے اپنی آرام گاہ میں ٹہل رہا تھا۔ اسے عجیب بے یقینی نے گھیرا ہوا تھا۔ شاہ ابا کی اچانک موت۔ چندریکا کا غائب ہو جانا۔ کاکی کی اچانک صدمے سے اموت واقع ہوجانا۔ ان سارے واقعات نے اسے ہلا کر رکھ دیا تھا۔ وہ لڑکی کیوں غائب ہوئی تھی؟ غائب ہو کر کہاں گئی تھی؟ کسی کو کچھ معلوم نہ تھا پھر بھی لوگ چہ میگوئیاں کر رہے تھے۔ اپنی اپنی آراء پیش کر رہے تھے کہ اس نے مالک کی موت اور گاؤں میں پھیلنے والی افراتفری کا فائدہ اٹھایا اور کسی کے ساتھ بھاگ گئی۔
اماں بیگم نے آدمیوں کو اسے ڈھونڈنے بھیجا تھا کیونکہ بہرحال وہ اس علاقے کی عزت تھی لہکن وہ اسے ڈھونڈنے میں ناکام ہوئے تھے۔ دیویا کور کی آخری رسومات سکھ برادری کے چند اہم افراد نے ادا کیں اور پرکاش کو فی الحال محل کی ایک ملازمہ کی زیرِ نگرانی رکھا گیا کیونکہ اس کے بارے میں ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں ہوا تھا۔
“میری دعا ہے کہ تم جہاں بھی رہو حفاظت سے رہوچندریکا کور! لوگ جو سوچتےاور بولتے ہیں میں بالکل ویسا نہیں سوچتا کیونکہ مجھ سے بہتر تمہیں کوئی نہیں جانتا۔” اس نے غائبانہ طور پر اس لڑکی کو آیتہ الکرسی کے حصار میں لیا تھا جس سے اسے محبت تھی اور جس کی فکر اسے بے چین کئے ہوئے تھی۔
“جب تمہیں کوئی معاملہ درپیش ہو تو اپنے دل سے فتویٰ لے لیا کرو۔” وہ نڈھال سا پلنگ پہ بیٹھ گیا۔
“تمہارے چلے جانے کی خبر نے مجھے پاگل نہیں کیا۔ میں ٹھیک ٹھاک اور سلامت ہوں۔ میرا دل اور دماغ میرے قابو میں ہیں۔ میں وقت پہ کھانا کھاتا ہوں۔ تمہارے یہاں نہ ہونے کے خوف سے آنکھیں بند نہیں کرتا بلکہ حقیقت کا سامنا کرتا ہوں۔ لوگوں سے ملتا جلتا ہوں۔ ضرورت پڑے تو مسکرا بھی دیتا ہوں۔ کیونکہ میں ان لوگوں کا شاہ ہوں اور میری کچھ ذمہ داریاں ہیں چندریکا کور! لیکن اس سب کے باوجود مجھے لگتا ہے میں اندر ہی اندر برف کی مانند پگھلتا جا رہا ہوں۔ پانی بنتا جا رہا ہوں اور پتہ ہے پانی جمع ہونے سے کیا ہوتا ہے؟” وہ لیٹنے لگا۔
“سیلاب آتا ہے!” وہ بڑبڑایا۔
اس لڑکی کو گئے ہوئے ایک ہفتہ ہو گیا تھا اور وہ ہر رات سونے سے پہلے اسی طرح یقین اور بے یقینی کے درمیان جھولتا رہتا۔ خود کو یقین دلاتا کہ اس لڑکی کے جانے سے اس کی زندگی پہ کوئی خاص اثر نہیں پڑا۔ اسی طرح ٹہلتا رہتا۔ خود کلامی کرتا۔ پھر نڈھال ہو کر لیٹ جاتا۔ سکون کی نیند سو جاتا اور صبح اٹھ کر تگڑا ناشتہ کیا کرتا تھا۔
“میں جیئوں گا چندریکا کور! تب تک جیئوں گا جب تک میری سانسیں اپنی آخری گنتی نہ شروع کردیں کیونکہ تمہارا ہجر مجھے مارنے کی طاقت نہیں رکھتا۔” وہ خود کو آزما رہا تھا اور اپنی ہی آزمائش پہ پورا اتر رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ مغرب کی نماز پڑھنے کے بعد وہاں جا کے بیٹھ گئی اور اسے وہاں بیٹھے بیٹھے ڈیڑھ گھنٹہ ہو گیا لیکن وہ نہیں آیا۔ نرس نے کئی بار آکے اسے وہاں سے اٹھ کر جانے کا کہا لیکن وہ سنی ان سنی کر کے وہاں بیٹھی رہی۔
“ڈاکٹر صاحب نے آپ کو اندر جانے کا کہا ہے۔ سردی بڑھ گئی ہے۔ آپ مزید یہاں بیٹھی رہیں تو بیمار ہو جائیں گی۔” نرس نے آخری دفعہ آکر اسے اندر لے جانے کی کوشش کی۔
” اگر یہاں سے اٹھ گئی تو مر جاؤں گی!” اس نے نرس کی طرف دیکھے بغیر کہا۔ وہ حیرت سے اسے دیکھتی رہی۔ پھر خاموشی سے چلی گئی۔
اس شام سب کو لگ رہا تھا وہ اپنا قاعدہ توڑ دے گا۔ کوئی مصروفیت تو تھی جس کی وجہ سے وہ اس روز نہ آ پایا تھا ورنہ وہ روزانہ وقت ہی سے آتا تھا۔ اس وقت اس عورت کے علاوہ بھی لوگ تھے جولاشعوری طور پہ اس کے منتظر تھے۔ ریسیپشنسٹ، نرسیں اور اسے جاننے والے کچھ ڈاکٹر۔ اس کے رابطے کا نمبر سب کے پاس تھا کیونکہ وہ برسوں سے وہاں آتا تھا لیکن کسی نے رابطہ کر کے اس سے پوچھنے کی زحمت نہ کی۔ سب جاننا چاہتے تھے کہ وہ شخص اپنا بنایا ہوا قاعدہ توڑتا ہے کہ نہیں؟
دوسرا گھنٹہ پورا ہونے میں ابھی پانچ منٹ باقی تھے کہ اس نے نزدیک آتے قدموں کی آہٹ پہچان لی لیکن سر اٹھا کر جھالی کے اس پار دیکھنے کی کوشش نہیں کی۔ شاید اب محبت میں دیدار اہم نہیں تھا!
وہ بدستور بینچ کی پشت سے ٹیک لگائے، آنکھیں بند کئے ہوئے تھی۔
“محبت میں انتظار موت ہے اور آپ نے مجھے بارہا اسی موت مارا ہے۔۔۔” اس کا دل چاہا وہ اٹھ کر یہ کہہ دے لیکن وہ بھی اس شخص کی طرح اپنے قاعدے کی پابند تھی۔ خاموش رہنے کی پابند تھی اور اس نے برسوں اس قائدہ پہ چل کے گزارے تھے۔
“اوہ! آپ۔۔۔ آگئے؟ ہمیں لگا آپ نہیں آئیں گے آج۔” ریسیپشنسٹ نے اسے دیکھ کر ایک گہرا سانس لیا۔
“کیوں؟” وہ وہاں رکے بغیر بولا۔
“ہمیں لگا آپ بھول گئے۔” وہ ہنسا۔
“آپ سانس لینا بھول جاتے ہیں؟” وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا جالی دار کھڑکی کی طرف چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“تمہارے باپ نے مرنے سے پہلے اپنی پوری جائیداد اُس کے نام کر دی تھی۔” اسے رویندر سنگھ نے بتایا تھا جو کہ ہمیشہ ان کے گھر آتا تھا۔ ممی کا جاننے والا تھا۔ اسے معلوم نہیں تھا وہ رشتے میں ان کا کیا لگتا تھا لیکن وہ اسے ماما کہہ کے بلاتی تھی۔ ممی کی موت کے بعد اس شخص نے اس کی اور جسپریت کی ہر طرح سے مدد کی تھی۔
“یعنی میرے باپ نے مجھے چھوڑ کرجائیداد اپنی ناجائز اولاد کے نام کردی؟” وہ محرومی اور حسد کی آگ میں جلنے لگتی۔ “میرا حق چھین کر انہوں نے کسی اور کو تھما دیا۔” وہ اندر ہی اندر کڑھنے لگتی۔
“اسے لڑکا چاہیئے تھا۔ تم لڑکی تھی۔اسی لئے اس نے جائیداد جسپریت کے نام کردی۔ اپنی زندگی کے آخری دنوں میں اس نے جتیش کے گھر کے بڑے چکر کاٹے۔ وہ جسپریت کو اپنانا چاہتا تھا اور اس کے لئے تمہیں اور دیویکا کو بھی قبول کرنے پس تیار تھا لیکن دیویکا نہیں مانی تھی۔” رویندر ماما نے اسے بتایا تھا۔
“اسی لئے دیویکا نے وہ گھر چھوڑ کرنام بدل دیا۔ لیکن اس کی موت کے بعد سربجیت آیا تھا ایک بار یہاں۔ رویا تھا میرے سامنے کہ میں جسپریت کو اس کے حوالے کر دوں ورنہ اس کا نام ڈوب جائے گا۔ مگر میں نہ مانا۔ میں دیویکا کی مرضی کے خلاف ایسا نہیں کر سکتا تھا۔ اس کی موت کے بعد بھی۔۔۔”
“کیوں شادی کی ممی نے ایسے شخص کے ساتھ؟”
“محبت تھی اسے۔۔۔”
“یکطرفہ محبت تھی بھی تو کیا فائدہ؟”
“یکطرفہ نہیں تھی۔ دونوں طرف سے تھی۔ یہ محبت یکطرفہ تب ہوئی تھی جب چاندنی آگئی تھی درمیان میں۔۔۔ اس کے بعد سربجیت دیویکا کو دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا کرتا تھا۔” رویندر ماما ماضی کے دریچوں میں جھانکنے لگے۔ ” شروع شروع میں جب دیویکا اس سے محبت کرنے لگی تھی تو میں نے اور جتیش نے اسے بڑا منع کیا تھا۔ جتیش چاہتا تھا وہ مجھ سے شادی کر لے لیکن اس نے ایک نہ سنی۔ شادی کر کے چلی گئی۔ جتیش نے اس سے ناطہ نہ توڑا۔ وہ اکلوتی بہن تھی اس کی لیکن اس کے گھر کبھی گیا نہ ہی سربجیت دیویکا کے ساتھ جتیش کے گھر آیا۔ شروع میں سب اچھا تھا۔ وہ خوش تھی لیکن تمہاری پیدائش کے دو سال بعد جب وہ دوبارہ ماں بننے والی تھی۔ سربجیت نشے کی حالت میں تھا کسی بات پہ طیش میں آکر اس نے اسے سیڑھیوں سے دھکہ دیا۔ اس کے بعد وہ کبھی ماں نہ بن سکی۔”
“یعنی خود ہی میری ماں کو اجاڑدیا اور سزا بھی انہیں دی۔” وہ تڑپ اٹھی۔
“سزا اسے بھی بڑی ملی تھی۔ آخر میں ہار گیا تھا وہ۔۔۔ اسی لئے اپنی زندگی میں ہی اس نے سب کچھ جسپریت کے نام کردیا تھا۔ وہ تمہارا بھائی ہے۔ وہ چاہے تو تمہیں آدھا حصہ دے بھی سکتا ہے۔”
“اور اگر وہ مر جائے تو پورا حصہ میرا ہو جائے گا۔” اس نے دل ہی دل میں جیسے طے کرلیا۔
“تم دونوں میں بڑا پیار ہے۔ جو کچھ اس کا ہے وہ تمہارا بھی ہے۔ تم یہ سوچ کے دل چھوٹا نہ کرو کہ تمہیں محروم رکھا گیا ہے۔” رویندر ماما نے اسے سمجھایا تھا لیکن اس کا دل اتنا بڑا نہیں تھا کہ وہ سب کچھ معاف کردیتی۔ اپنے باپ کی بدکرداری، اپنی ماں کی محرومیاں اور اب اپنا حق۔۔۔
اسے ان ماں بیٹے کے درمیان نفرت کی آگ بھڑکانی تھی کہ جسپریت اپنی ماں کو مار کر جیل چلا جائے اور وہ اپنا حق لے کر سکون سے جیئے لیکن اس کھیل کے لئے اسے وہ عورت ڈھونڈنی تھی جو کہ اس کے بھائی کی ماں تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“تم جاؤ۔ میں یہیں پہ اتر کر زمینوں کا دورہ کروں گا۔ محل ذرا دیر سے آؤں گا۔” ڈرائیور نے سڑک کے کنارے جیپ روک دی۔ شاہ احمد جیپ سے اتر کر کھیتوں کے بیچوں بیچ جانے والے راستے پہ پیدل چلنے لگا۔
“پتہ نہیں کس کے ساتھ بھاگی ہے لیکن ظالم جو بھی تھا خزانہ لے اڑا ہے ہمارے گاؤں کا۔ کیا مست شےتھی چندریکا۔”
“ہاں یاراسے دیکھتے ہی منہ سے رال ٹپکنے لگتی تھی میری تو۔” اس سے ذرا فاصلے پہ دو تین نوجوان کھڑے تھے۔ اسے اپنی طرف آتے دیکھ کر گھبرا کے خاموش ہوگئے۔
“سلام ولی عہد!”سب نے یک آواز ہو کے کہا۔
“بہنیں ہیں آپ سب کی؟” سلام کا جواب دئیے بغیر وہ ان سے مخاطب ہوا اوران کے کسی بھی جواب سے پہلے ہی دوبارہ بول پڑا۔ “چوکیداری کیجیئے ان کی۔ کہیں ایسا نہ ہو ان کو دیکھ کے کسی کی رال ٹپکنے لگے اور راتوں رات وہ ان کو بھگا کر لے جائے تو کیا کریں گے آپ اگر ڈھونڈنے سے بھی وہ نہ ملیں؟” اس کا لہجہ سخت تھا۔
“یہاں ان راستوں کے بیچوں بیچ فارغ کھڑے گندی ذہنیت کے آدمیوں کی خوشگپیوں کا نشانہ آپ کی بہنیں بھی ہو سکتی ہیں۔” وہ تیز تیز قدم اٹھاتا وہاں سے چل دیا اور وہ لڑکے کافی دیر تک سر جھکائے کھڑے رہے۔
“روز فیصلے ہوتے ہیں۔ کوئی قصوروار تو کوئی بے گناہ ٹھہرایا جاتا ہے بس ایک تم ہو جس کا فیصلہ نہیں ہو پاتا۔ سب لوگ تمہارے بارے میں ایک جیسی سوچ رکھتے ہیں بس اظہار کا طریقہ اور الفاظ مختلف ہیں۔ تم گندگی کا ایک ڈھیر بن چکی ہو چندریکا کور ماکول! جس پہ گاؤں کے سبھی لوگ آکے تھوکتے ہیں۔ ناک بھوں چڑھاتے ہیں اور اپنی غلاظت پھینک کر چلے جاتے ہیں۔” وہ دھیرے دھیرے چلتے ہوئے سوچتا رہا۔ “تمہارا ذکر کرتے ہوئے لوگ کانوں کو ایسے ہاتھ لگاتے ہیں جیسے کسی موذی مرض سے پناہ مانگ رہے ہوں۔” وہ محل کی طرف جاتےراستے کی جانب مڑ گیا۔ “بس ایک میں ہی ہوں جس کے لئے تم وہی معصوم لڑکی ہو۔ ان راہوں پہ بھاگی بھاگی جاتی ہو۔ چلتے ہوئے بڑبڑاتی ہو اور کسی راہگیر سے ٹکرا کر گھبرا جاتی ہو۔ بلند آواز میں روتی ہو اور چھوٹی سی خوشی پا کر کھلکھلا کر ہنس لیتی ہو۔” وہ محل کے اندر جانے لگا۔ “بڑی سی گرم چادر کندھے پہ ڈالتی ہو اور پھر بڑے شان سے چل کے جہاں آراء تبّسم بن جاتی ہو۔” وہ اپنی آرام گاہ کی طرف جانے لگا۔ “میں خود کو یہ یقین دلاتے دلاتے تھک جاتا ہوں کہ تم جا چکی ہو۔ تم نے جا کر اس محل کے ساتھ ساتھ میرے دل کو بھی ویران کر دیا ہے۔”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منشی اکرم کا فون آیا تھا۔ اماں بیگم کی طبیعت بڑی ناساز تھی۔ اسے دیکھنا چاہ رہی تھیں۔ وہ آفس سے نکل کر سیدھا گاؤں پہنچا تھا۔ اس کے پاس یہی ایک ہی سگا رشتہ تھا اور وہ بھی سوتیلی ماں کا۔۔۔ ان کے علاوہ اس کی زندگی میں تھا ہی کون؟ وہ ایک معصوم سی بچی جس کو وہ صبح آفس جانے سے پہلے دیکھ لیتا اور شام کے وقت جب وہ گھر لوٹتا تو وہ بڑی محبت سے اس کے پاس آتی۔ اسے ‘بابا’ بلاتی تو اس کی تکان ختم ہو جایا کرتی تھی لیکن وہ اسے گود میں نہ اٹھاتا تھا۔ اس کے بوسے نہیں لیتا تھا۔ اس کے بالوں میں انگلیاں نہیں پھیرتا تھا بلکہ اسے خود سے ذرا فاصلے پہ بٹھا کے اس سے باتیں کیا کرتا تھا۔ اس کے پورے دن کے احوال پوچھتا۔ اس کی حفظ کے بارے میں پوچھتا۔ اس سے تلاوت سنتا اور مطمئن ہو کر اسے اماں کے پاس بھیج دیتا تھا۔ یہی اس کا روزانہ کا معمول تھا۔
اسے گاؤں گئے ہوئے لمبا عرصہ ہوا تھا۔ اسے یاد نہیں تھا وہ پچھلی دفعہ کب وہاں گیا تھا؟ وہ ان کی وجہ سے محل چھوڑ کے گیا تھا اور اب انہی کے بلانے پہ واپس جا رہا تھا۔
“کیا ہوا آپ کو؟” وہ آنکھیں بند کئے اپنی آرام گاہ کے اندر پڑی ایک آرام کرسی میں جھول رہی تھیں۔ اس کی آواز سن کے ان کے محرک وجود نے حرکت کرنا چھوڑ دی۔ انہوں نے دھیرے سے آنکھیں کھول کر اس کا چہرہ دیکھا اور پھر آنکھیں بند کر دیں۔
“زندگی گزر گئی ماں سننے کی آرزو میں۔۔۔” ان کی آواز کہیں دور سے آتی محسوس ہوئی۔ وہ خاموش کھڑا رہا۔ “بھیک میں ہی دے دو۔”
“کیا؟” وہ سمجھا نہیں۔
“بنجر زمین پانی کی چند بوندیں مانگ رہی ہے۔ اسےوہ عطا کردو شاہ احمد اورنگزیب!” انہوں نے پہلی بار اس کا نام پکارا تھا۔ وہ حیران کھڑا انہیں دیکھتا رہا۔ وہ آرام کرسی سے اٹھیں۔ “آؤ!” وہ ان کے پیچھے پیچھے طعام خانے میں داخل ہوا۔
وہ دسترخوان پہ بیٹھ گئیں۔ شاہ احمد بھی بیٹھ گیا۔ انہوں نے اپنے ہاتھ سے بنے کھانے ایک ایک کر کے اسے پیش کئے۔
“ولی عہد! اس کے ہاتھ کا کھانا کبھی مت کھانا۔” وہ شاہ ابا کی وصیت تھی۔ وہ لقمہ لیتے لیتے رکا۔
“کھا لیجیئے۔ ذہر نہیں ہے اس میں۔” ان کی آواز پہ وہ چونکا۔ کچھ بھی کہے بغیر وہ کھانا کھانے لگا۔ عجیب سی بات تھی اس رات طعام خانے میں خدمت کے لئے کوئی بھی ملازم نہیں تھا۔ اور اسے جو اماں بیگم کی بیماری کا بہانہ بنا کر بلوایا گیا تھا وہ تو ٹھیک ٹھاک لگ رہی تھیں۔
“آپ کی طبیعت خراب تھی۔ کیا ہوا تھا؟ دوا لی؟”
“طبیعت کی خرابی کا بہانہ نہ بناتی تو آپ آتے؟” وہ بدستور سنجیدہ تھیں۔
“آپ بلا کے تو دیکھتیں۔۔۔”
“سوتیلی اولاد پہ حق نہیں جتایا جاتا۔”
“سوتیلی ماں اپنے ہاتھ کابنا کھانا بھی تو نہیں کھلاتی۔”
“کیا کہنا چاہ رہے ہو؟”
“یہی کہ آپ مجھ پہ حق جتا سکتی ہیں اور میں آپ کے ہاتھ کا بنا کھانا کھا سکتا ہوں۔” وہ مسکرایا۔
“ماں بلاؤگےمجھے؟”
“بیٹا بلا کے دیکھیں!”
“آپ کو قتل کرنے کی کوشش کی تھی اپنے شوہر کو پانے کے لئے۔ ایک آرام دہ اور پر سکون زندگی گزارنے کے لئے۔ پر کیا ہوا؟ جہنم بن گئی زندگی۔۔۔”
“کیا ہوا تھا؟” وہ کھانا چھوڑ کر انہیں سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا۔
“ماں بننے کا حق چھین لیا تھا شاہ نے مجھ سے۔۔۔” شاہ احمد حیرانی سے ان کا منہ دیکھتا رہا۔
“آپ معافی مانگ لیتیں۔”
“وہ شاہ محمد اورنگزیب تھے۔ آپ کو اپنا وجود مانتے تھے۔ کیسے معاف کر سکتے تھے مجھے؟”
“معافی تو ہر گناہ کی ہوتی ہے۔”
“آپ کی یہ بات تب مان لوں گی شاہ احمد اورنگزیب! جب میں کہوں گی میں نے برباد کر دیا آپ کو اور آپ کہیں گے معاف کر دیا۔” وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بولیں۔ وہ ہلکے سے مسکرایا۔
“مائیں بیٹوں کو برباد نہیں کرتیں!”
“سوتیلی مائیں کر دیتی ہیں شاہ!”
“کیا کہنا چاہ رہی ہیں؟”
“اگلی بار آؤگے تو بتاؤں گی۔ بتا دیا تو یقین ہے اگلی بار نہیں آؤگے۔”
اسے دیر ہو رہی تھی۔ وہ اجازت لے کر وہاں سے نکلا تھا۔ انہوں نے اسے روکا نہیں تھا۔ وہ کہتی تھیں وہ حق نہیں جتا سکتی تھیں اس پر۔
“آُپ بھی عجیب منصف تھے شاہ ابا! میرے لئے اس عورت سے ممتا کے طالب تھے جن سے ماں بننے کا حق تک چھین لیا تھا آپ نے۔۔۔” وہاں سے سیدھا وہ ہسپتال گیا تھا۔ وہاں پہنچ کر اسے اندازہ ہوا کہ اسے آنے میں دیر ہو گئی ہے۔ وہاں پر اسے جاننے والوں میں سے کئی نے دیر سے آنے کی وجہ پوچھی۔ صرف اس نے نہ پوچھی جو پچھلے دو گھنٹے سے اس کی منتظر تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسے لاء گیٹ ٹیسٹ دینے کے لئے شہر جانا تھا اور کچھ عرصہ وہاں پریکٹس کرکے لائسنس حاصل کرنا تھااسی لئے اس نے علاقے کی نگرانی کی ذمہ داری اماں بیگم کو دی اور صاف صاف کہہ دیا کہ جب تک وہ زندہ ہیں اس کی رسمِ تاج پوشی نہیں ہوگی کیونکہ شاہ ابا کے بعد وہ ان ذمہ داریوں کا حقدار ان ہی
کو سمجھتا تھا اور پھر ان کے ساتھ شاہ ابا کے وفادارآدمی بھی تھے انہوں نے تو صرف نگرانی کرنی تھی..
صبح محل سے نکلتے ہوئے وہ پرکاش کو بھی اپنے ساتھ لے گیا اورایک اچھے سے بورڈنگ اسکول میں اس کا داخلہ کروا دیا۔
وہ جب بھی فارغ ہوتا اس سے ملنے جاتا اور ویک اینڈز پہ اسے گھر لے آتا تھا۔ اسے سیر کرانے لے جاتا تھا۔ اس کے لئے ضرورت کی ساری چیزیں لے کر اسے واپس ہاسٹل لے جاتا تھا۔ یہ سب کر کے اسے سکون ملتا تھا اور پرکاش کو خوشی۔ شاہ احمد دیکھ رہا تھا کہ پرکاش جوکچھ عرصے سے بالکل خاموش اور سہما ہوا سا رہتا تھا اب دوبارہ زندگی کی طرف لوٹ آیا تھا۔
جمعے کا دن تھا اور وہ گھر آیا ہوا تھا۔
“اب تم پروموٹ ہو کر گیارھویں میں چلے جاؤگے۔ تمہیں پہلے سے زیادہ محنت کرنی ہوگی۔ دل لگا کر پڑھنا ہوگا۔ ٹھیک ہے نا۔” شاہ احمد نے پرکاش کی پلیٹ میں سبزی ڈالتے ہوئے کہا۔
“جی۔” وہ کھانا کھانے لگا۔
“تم کھانا کھا کے آرام کر لو۔ میں نہا کرنماز پڑھنے مسجد جا رہا ہوں۔ پھر شام کو واک پہ چلیں گے۔” وہ ڈائیننگ روم سے نکل گیا۔
نماز پڑھنے جب وہ مسجد میں داخل ہوا تو اس نے دیکھا پرکاش وہاں بیٹھا وضو کر رہا تھا۔ آسے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ وہ اس کے قریب گیا۔ وہ پرکاش ہی تھا۔ شاہ احمد اسے آواز دینے کی ہمت نہ کر سکا۔ اس نے خاموشی سے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔
پرکاش نے سر اٹھا کر دیکھا اور شاہ احمد کو سامنے پا کر کھڑا ہوا۔ سفید شلوار قمیض میں ملبوس سر پر ٹوپی پہنے نکلتے قد کا وہ لڑکا جو اس کی آنکھوں کے سامنے بڑا ہوا تھا۔ جس کی زندگی میں پیش آنے والا ہر اہم واقعہ شاہ احمدکے سامنےواقع ہوا تھا اور وہ اس کی زندگی کے ہر سرد و گرم موسم سے واقف تھا لیکن پرکاش کا یہ روپ دیکھ کر وہ حیران رہ گیا تھا۔
“پرکاش؟”
“نہیں۔ محمد علی۔۔۔” وہ مسکرایا۔
“یہ کب ہوا؟”
“ہر غیر مسلم اپنے ارد گرد رہنے والے مسلمانوں کو دیکھ کر اسلام کے بارے میں رائے قائم کرتا ہے۔ میں نے بھی یہی کیالیکن میری خوش قسمتی سے میرے پاس ایک بہترین مسلمان کی مثال تھی۔” نماز کے بعد گھر کی طرف جاتے ہوئے اس نے بتایا۔ “میں یہ سب آپ کو بتا کے بھی کر سکتا تھا لیکن میں نے سوچا کہیں آپ کو یہ نہ لگے کہ آپ کے ان احسانات میں دب کر میں یہ فیصلہ لے رہا ہوں جو آپ نے مجھ پر کئے ہیں۔ اسی لئے میں اپنی اسکول کے قراۤت والے ٹیچر کے پاس گیا اور اب جو ہوں آپ کے سامنے ہوں۔” شاہ احمد نے اسے گلے لگا لیا۔
“تم میرے بھائی ہو۔” وہ اس کا ہاتھ تھامے گھر کے اندر لے گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ایک کامیاب ڈائریکٹر تھا اور اس نے فلم انڈسٹری کو کئی کامیاب فلمیں دی تھیں اور اس کا خیال تھا کہ یہ صلاحیت اس کو اپنے باپ سے ورثے میں ملی ہے کیونکہ جتیش سنگھ بھی اپنے زمانے کا کامیاب فلم ڈائریکٹر تھا۔
چوں کہ پریا کی جاب پنڈی میں تھی اور اسی لئے وہ وہاں ایک فلیٹ میں قیام پذیر تھی اور بہت کم وہ اپنے بھائی جسپریت کے پاس جا کے رہتی تھی۔ اس کا جسپریت کے پاس کم سے کم وقت گزارنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس کے گھر آئے روز کوئی نہ کوئی پارٹی اور گیدرنگ ہو رہی ہوتی تھی۔ اس کے ساتھ آئے روز کوئی نئی ہیروئن ہوتی۔ وہ ہر نئی لڑکی کو اپنے ساتھ کچھ عرصے کے لئے رکھتا۔ سر پر بٹھاتا اور پھر کسی پرانی بے کار شے کی طرح پھینک دیا کرتا تھا۔ اس کی انہی حرکتوں کی وجہ سے پریا اس سے الگ رہنا بہتر سمجھتی تھی۔ وہ نصیحتوں پہ عمل کرنے والوں میں سے نہیں تھا۔ وہ بد تمیز اور بد دماغ تھا اور پریا کسی طور اس سے الجھنا نہیں چاہتی تھی کیونکہ وہ اس کی ذات کی محرومیوں سے بہرحال واقف تھی۔
جسپریت کا اسسٹنٹ اسے سٹیشن سے لینے آیا تھا۔
“سر بزی ہیں اس لئے فی الحال میں آپ کو ان کے پاس نہیں لے جا سکتا۔” پرویزنے اس کو ریسٹورنٹ لے جا کر کھانا کھلایا اور پھر گھر لے گیا۔
میں نےاس میں ڈال دی ہے۔ میرا، سراورپریامیڈم کےنمبرزاس میں موجودہیں۔” وہ گیسٹ روم کےدروازےمیں کھڑاتھاsim”اوریہ لیں فون۔
“اب آپ آرام کریں۔” وہ جانے لگا۔
“لیکن میں نے تو کسی ہاسٹل میں رہنے کی بات کی تھی میم پریا سے۔” اسے جسپریت کے گھر میں رہنا اچھا نہیں لگ رہا تھا کیونکہ وہ بہرحال اس کے لئے ایک اجنبی تھا۔
“سوری میڈم مجھے اس بارے میں کوئی علم نہیں۔ آپ کل سر سے خود بات کرلیں۔ فی الحال آپ کو یہی رہنا ہے۔” وہ دروازہ بند کر کے چلا گیا۔ نجلہ نے اٹھ کر دروازہ اندر سے لاک کر دیا لیکن پھر بھی وہ ڈر رہی تھی۔ بے چین تھی۔
وہ بے حد تھکی ہوئی تھی لیکن پھر بھی اسے نیند نہیں آرہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لائسنس ملتے ہی وہ گاؤں چلا گیا۔ وقت اتنا تیزی سے گزر رہا تھا اور وہ اماں بیگم کے ساتھ علاقے کے معاملات میں اتنا مصروف ہو گیا تھا کہ اسے اپنے خالی پن کا احساس ہی نہ ہوتا تھا۔ نہ اسے کسی کی یاد آتی تھی۔ نہ وہ کسی کے ہجرکا ماتم کرتا۔ وہ شاہوں کی اولاد تھا اور اسے سخت سے سخت حالات میں جینا آتا تھا۔
وہ ہر رات اکیلے محل سے نکلتا تھا اور علاقے کی گلی کوچوں میں چہل قدمی کیا کرتا تھا۔ کافی عرصے سے یہ اس کا معمول تھا۔
“میں عمر بن خطاب ہوں اور نہ ہی یہ ریاستِ مدینہ ہے۔ پھر بھی میں رات کی تاریکی میں ان ویران گلیوں میں پھرتاہوں چمدریکا کور! میں نہیں چاہتا کہ اورنگ نگر کی کوئی اور لڑکی گھر سے بھاگ کر تمہاری طرح خود کو ذلت کی پستیوں میں دھکیل دے۔ گندگی کا ڈھیر بن جائے اور لوگ اس کا ذکر کرتے ہوئے کانوں کو ہاتھ لگائیں۔” وہ آدھی آدھی رات تک چہل قدمی کرتا۔ رات گئے محل واپس آتا۔ تہجد پڑھتا۔ فجر کی نماز ادا کرتا۔ حفظ کی ہوئی قرآنی سورتوں کی گردان کرتا اور سو جاتا۔ دھوپ نکلتے ہی وہ جاگتا کہ شاہ ابا کی ساری ذمہ داریاں اب اس کے کاندھوں پہ تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی چیز کے ٹوٹنے پہ اس کی آںکھ کھلی۔ کوئی تیز آواز میں بول رہا تھا۔ وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھی۔ اسے یاد نہیں تھا اس کی آںکھ کب لگی تھی اور اب آدھی رات کو اس شور نے اسے جگا دیا تھا۔
وہ کمرے سے نکل گئی۔ لاؤنج میں زیرو لائٹ آن تھی۔ وہ ہلکی ہلکی روشنی میں اس آواز کی طرف بڑھ رہی تھی جو کہ اب کافی مدھم ہو چکی تھی۔
لمبے لمبے بالوں والا کوئی شخص ایک خالی بوتل ہاتھ میں پکڑے جوتوں سمیت صوفے پہ لیٹ ہوا تھا۔ اس کا بوتل والا ہاتھ نیچے لٹک رہا تھا اور وہ مسلسل بڑبڑا رہا تھا لیکن نجلہ کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا بول رہا ہے۔
وہ دبے پاؤں واپس کمرے میں آگئی اور دروازہ دوبارہ اندر سے لاک کر کے لیٹ گئی لیکن دوبارہ سونے میں وہ ناکام رہی۔
اس نے تو جسپریت کو ایک سلجھا ہوا، ہینڈسم جوان تصور کیا تھا لیکن جو وہ دیکھ کے آئی تھی وہ اس کی امیدوں سے بالکل الٹ تھا۔ اسے بے پناہ خوف نے آلیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسے یاد بھی نہیں تھا کتنے سال گزر گئے تھے۔ وہ اسے یاد بھی نہیں آتی تھی۔ یاد آبھی جاتی تھی تو شاہ احمد کو بے چین نہیں کرتی تھی۔ کر ہی نہیں سکتی تھی۔ وہ چٹان تھا اور چٹان پہ کنکریاں اثر نہیں کرتیں۔ بس ہرگزرتے سال کے آخراور ہر نئے سال کے شروع میں وہ اسے یاد آتی تھی کیونکہ شاہ احمد کو یاد تھا وہ نئے سال کے میلےسے غائب ہوئی تھی۔ شاہ ابا کی طرح اسے چھوڑ کر گئی تھی۔ یہ الگ بات تھی کہ شاہ احمد اورنگزیب نے اسے دفنایا نہیں تھا ورنہ جو لڑکیاں گھروں سے بھاگ جاتی ہیں وہ اپنون کے لئے مر جاتی ہیں اور چندریکا بھی باقی سب کے لئے بھلے ہی مر گئی تھی، شاہ احمد اورنگزیب کے لئے وہ آج بھی زندہ تھی۔ ہنستی تھی۔ روتی تھی۔ بھاگتی پھرتی تھی اور راتوں کو اسے نیند سے جگا جگا کر باتیں بھی کیا کرتی تھی۔
“بھائی پلیزدی کو بچا لیں۔ آپ ہی تو کہتے تھے نا کہ وہ معصوم ہیں۔ مجھے سمجھاتے تھے کہ مین ان سے نفرت نہ کروں۔ پلیز بھائی۔” صبح ہی صبح محمد علی کافون آیا تھا۔ وہ ‘کلچر ایکسچینج پروگرام’ کے تحت کوریا میں تھا اور خاصا پریشان لگ رہاتھا۔
“کیا ہوا میرے بھائی! کیوں اتنا پریشان ہو رہے ہو؟” چندریکا کا نام سن کر وہ بے چین ہو گیا لیکن پھر بھی اس نے خود پر قابو رکھا۔
“قتل کا الزام لگا ہے ان پر۔ بڑے بُرے حال میں ہیں۔ ہسپتال میں ہیں وہ۔”
“تمہیں کیسے پتہ چلا؟ کہاں ہے وہ؟”
“نیٹ پہ دیکھا۔”
“ٹھیک ہے۔ میں کچھ کرتا ہوں۔ تم پریشان نہ ہو۔ ایڈریس وغیرہ میں تم سے بعد میں لیتا ہوں۔ سب ٹھیک ہو جائے گا ان شاءاللہ۔۔”
فون بند ہو گیا۔ وہ دیوار کا سہارا لئے کھڑا رہا کہ وہ اگر جی رہا تھا تو صرف اسی سہارے کہ دنیا کے کسی کونے میں بیٹھی وہ لڑکی آج بھی کھلکھلا کر ہنستی ہوگی۔ کسی کے گھر کے آنگن میں اسی طرح بھاگتی پھرتی ہوگی لیکن اگر وہ برے حال میں تھی تو شاہ احمد اورنگزیب کیسے سکون سے جی سکتا تھا؟
وہ ناشتہ کئے بغیر کراچی روانہ ہوا تھا کیونکہ محمد علی کا بتایا ہوا پتہ وہیں کہیں تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح کے گیارہ بج رہے تھے لیکن وہ ابھی تک کمرے میں بند بیٹھی تھی۔ جسپریت خود تو کیا اس کا کوئی ملازم بھی اس کی خبر لینے نہ آیا۔ اسے بھوک لگی تھی۔ وہ کمرے سے نکل آئی۔
“کھانے کو کچھ مل سکتا ہے؟ مجھے بھوک لگی ہے۔” لاؤنج میں ایک ملازم کو دیکھ کر اس نے پوچھا۔
“جی۔ جی آجائیں۔ میں آپ کے لئے ناشتہ بنا دیتا ہوں۔” وہ اسے کچن لے کر گیا۔ “جسپریت صاحب کے ساتھ جتنی بھی لڑکیاں آتی ہیں۔ اپنے وقت پہ جاگ کے اپنی طبیعت کا ناشتہ بنواتی ہیں مجھ سے۔ آپ کیا کھائیں گی؟” بشیر نے غیر ضروری تفصیل بتا تھی۔
“میں انڈہ پراٹھا۔” اس نے بشیر کی غیر ضروری باتوں کو نظر انداز کر کے مختصرجواب دیا۔ “تمہارے صاحب جاگ گئے ہیں؟”
“ہاں جی۔ وہ تو آفس چلے گئے ہیں نو بجے۔”
“چلے گئے؟” وہ حیران ہو گئی۔ وہ پچھلے بارہ گھنٹوں سے اس شخص کے گھر پہ موجود تھی اور وہ اس سے ابھی تک ملا بھی نہیں تھا۔
ناشتہ کرنے کے بعد اس نے بشیر سے جسپریت کے آفس کا ایڈریس لیا اور اس سے ملنے آفس چلی گئی۔
“تم یہاں کیوں آئی ہو؟ تمہیں کس نے بلایا یہاں؟” نجلہ نے جب اپنا تعارف کروایا تواسے ویلکم کرنے کے بجائے وہ اسے ڈانٹنے لگا۔ “تم میری ذاتی مہمان ہو سو گھر پہ بات ہوگی۔ اب تم جاؤ یہاں سے۔”
وہ اس کے آفس کے باہر کھڑی دیر تک اپنی آنکھوں میں ابھرنے والے پانی کے قطروں کو خشک کرتی رہی۔ اس سے کبھی اپنے باپ نے اتنی سختی سے ‘تم’ کہہ کر بات نہیں کی تھی۔ پھر اسے وہ تھپڑ یاد آگیا جو اس کے باپ نے اس کامنہ بند کرنے کے لئے اس کے گال پہ رسید کیا تھا اور اس کی آنکھوں میں اس بار اشکوں کے بجائے تلخی ابھر آئی تھی۔
وہ پیدل فٹ پاتھ پر چلنے لگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کراچی میں رہتی ہیں۔ ان کا نیا نام چاندنی ہے۔ محمد علی نے بتایا تھا۔
اویس کراچی ائیر پورٹ پہ اس کا انتظار کر رہا تھا۔ وہ کراچی میں ایم۔بی۔بی۔ایس کرنے کے بعد اب اسپیشلائیزیشن کر رہا تھا اور اس کی ایسپیشلائیزیشن پوری ہونے میں چند مہینے باقی تھے۔
“خیریت تو ہے شاہ؟ اتنی ایمرجنسی میں کیسے آنا ہوا؟” اویس نے سیٹ بیلٹ باندھتے ہوئے پوچھا۔
“تم چاندنی کو جانتے ہو جس پر ایک ڈائریکٹر کے قتل کا الزام ہے۔ آج کل میڈیا اسی کے پیچھے پڑا ہوا ہے۔” اویس کے سوال کا جواب دئیے بغیراس نے محمد علی کی بتائی ہوئی بات دہرائی۔
“ارے کون نہیں جانتا اسے۔۔۔”
“کیا مطلب؟”
“بڑی مشہور سنگر ہے وہ۔ میرے بھائی آج سے نہیں ہمیشہ سے نیوز میں اِن رہتی ہے۔۔۔”
“سنگر؟” شاہ احمد کو دھچکا لگا۔
“ہاں یار کیا آواز ہے اس کی اور کمال کی حسین بھی ہے۔ چند سال ہوئے ہیں اسے اس فیلڈ میں آئے ہوئے لیکن آتے ہی چھا گئی ہے۔”
“میں اسمبلی میں نعتیں پڑھتی ہوں اور قراۤت کے پیریڈ میں میں باقی سکھ لڑکیوں کی طرح کلاس سے باہر نہیں جاتی بلکہ قراۤت سنتی اورسیکھتی ہوں کیونکہ میں سمجھتی ہوں مذہب چاہے جو بھی ہو اس کا احترام لازم ہے۔” اویس کیا بول رہا تھا شاہ احمد وہ سن ہی نہیں رہا تھا۔
“اپنے کرئیر کے بالکل ٹاپ پر پہنچتے ہی یہ حادثہ پیش آیا اس کے ساتھ۔۔۔ لیکن تم کیوں پوچھ رہے ہو یہ سب؟ تم کب سے شوبز میں انٹرسٹ لینے لگے؟”
“میں اس کا کیس لڑوں گا۔”
“وہ کیوں؟” اویس کو لگا وہ مذاق کر رہا ہے۔
“کیونکہ وہ چاندنی نہیں چندریکا ہے۔” گاڑی ایک جھٹکے کے ساتھ رکی اور چند لمحے کے لئے مکمل خاموشی چھا گئی۔
“میں تمہارے ساتھ ہوں۔” اویس نے اپنا ہاتھ اس کے کندھے پہ رکھا۔ اسے پہلی بار یہ گمان ہوا کہ شاہ احمد اورنگزیب انسان نہیں کوئی فرشتہ ہے۔
“جب تمہیں کوئی معاملہ درپیش ہو تو اپنے دل سے فتویٰ لے لیا کرو۔” اس نے چلتی گاڑی سے باہر دیکھتے ہوئے سوچا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پورا دن بے مقصد ادھر ادھر پھرنے کے بعد جب اس کی ٹانگیں دکھنے لگیں تو وہ ایک پارک میں جا کے بیٹھ گئی۔
اس ایک دن میں وہ کہاں سے کہاں پہنچ گئی تھی۔ حالات کی موجوں نے اسے اپنی خوبصورت پرسکون زندگی سے کہیں دور پھینک دیا تھا۔ اسے اپنے باپ سے بے پناہ نفرت کے باوجود ان کا رہ رہ کے خیال آرہا تھااور اماں بھی یاد آرہی تھیں جو اس کے کالج سے لیٹ ہونے پر اتنی پریشان ہو جاتی تھیں اس کے گھر چھوڑدینے پہ ان کا کیا حال ہوگا؟
کئی بار اس کے دل میں آیا کہ وہ واپس چلی جائے لیکن جو کچھ وہ معلوم کرنے آئی تھی وہ پتہ کئے بغیر نہیں جا سکتی تھی۔
اس کا سیل فون بج اٹھا۔ اسنے بے دلی سے موبوئل کان سے لگایا۔
“میڈم کہاں ہیں آپ؟ سر آپ کو ایک پارٹی میں لے جانا چاہ رہے ہیں۔” اس نے پرویز کو پارک کا نام بتایا اور وہ تھوڑی دیر بعد اسے لینے آگیا۔ وہ خوش تھی کہ کم از کم جسپریت سے بات کرنے کا موقع اسے مل گیا۔ وہ اس سے سچائی جان سکتی تھی۔ وہ اسے بتا سکتا تھا کہ چاندنی کون تھی؟ اگر وہ سکھ تھی تو پھر مسلمان کیسے ہو گئی تھی؟
“بشیر نے بتایا کہ آپ صبح سے گھر نہیں گئیں۔ باہر سے کھانا کھایا؟” پرویز نے پوچھا۔
“جی نہیں مجھے بھوک نہیں ہے۔” اس نے پرویز کو یہ نہیں بتایا کہ اس کے پاس پیسے نہیں تھے۔ وہ انا پرست تھی۔ اپنےباپ کےگھر سے خالی ہاتھ نکلی تھی تو کسی اجنبی سے اپنی خالی جیب کی شکایت کیوںکر کرتی؟
صبح آفس میں اس کی پلائی ہوئی ڈانٹ بھلا کر وہ خوش اخلاقی سے جسپریت سے ملی تھی جس کا موڈ اسے دیکھتے ہی بگڑ گیا۔”لگتا ہے ڈریسنگ کا کوئی سینس نہیں ہے آپ کو۔” وہ سخت لہجے میں بولا۔ نجلہ نے خود اعتمادی سے اپنے حلیے پہ نظر دوڑائی اور معنی خیز انداز میں کہا “ایف آئی ہیؤ ٹو ریمائنڈ یو مسٹر جسپریت سنگھ! میں آپ سے یہاں ڈریسنگ کا سلیقہ سیکھنے نہیں آئی ہوں۔ میں جس کام کے لئے آئی ہوں مجھے وہی کرنا ہے اگر آپ مجھے بتا سکتے ہیں تو ٹھیک ورنہ میں چلی جاؤں گی یہاں سے۔۔۔”
“اوئے مس ہوُ سو ایؤر یو آر! میرے گھر میں میری پسند کے مطابق رہنا ہوگا آپ کو۔”
“میں آپ کے گھر رہنے نہیں آئی ہوں۔ میں کہیں اور اپنا ٹھکانہ ڈھونڈ لوں گی۔ وہ تو میم نے کہا تھا کہ آپ کس قدر کرئیٹیوانسان ہیں تو میں نے کہا میں آپ کے ساتھ کام کرلوں گی۔” جسپریت نے اس کی بات ان سنی کر کے پرویز کے ہاتھ سےبلیوکلرکا ایک سلیولیس ڈریس لیا۔
“یہ پہن لیں آپ۔۔۔”
“ہرگز نہیں۔” اسے بابا کی بات یاد آگئی “اور جن کے دل میں قرآن ہوتا ہے نا۔ ان کی ذمہ داری باقی لوگوں کی نسبت ذیادہ ہوتی ہے۔ وہ اللہ کی کتاب کے امین ہوتے ہیں۔ وہ دین کے امین ہوتے ہیں۔” اس نے اپنا سر جھٹک دیا۔ وہ انہیں یاد نہیں کرنا چاہتی تھی۔
“گو ٹو ہیل!” وہ کمرے سے نکل گیا۔
“ان کا مسئلہ کیا ہے؟ میں جو بات کرنے اتنی دور سے آئی ہوں وہ بتا کیوں نہیں دیتا؟ عجیب بدمعاشی ہے۔” وہ سخت غصے میں تھی۔
“سر ایسے ہی ہیں۔” وہ کمرے سے نکل گیا۔
اگلا پورا ہفتہ اسے جسپریت نظر نہیں آیا۔ بشیر نے بتایا کہ وہ کسی باہر ملک گیا ہوا ہے۔
جیسے ہی وہ واپس آیا نجلہ اس سے بات کرنے چلی گئی۔
“آپ اگر مجھے سچ بتا نہیں سکتے تو مجھے اتنی دور سے بلایا کیوں؟”
“میں نے نہیں بلایا تمہیں۔ خود آئی ہو۔ میرے پاس اتنا فضول ٹائم نہیں ہوتا۔”
“آپ مجھے بتاتے ہیں یا نہیں؟”
“اتنا اکڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بڑا سچ جاننے کا شوق تھا تو پوچھ لیتی اپنی ماں سے۔۔۔” وہ بپھر گیا۔
“مر گئی ہے وہ تو۔” وہ دھیرے سے بولی۔
“کیا؟؟؟” وہ صوفے سے اٹھا اور تیزی سے باہر نکل گیا۔ نجلہ منہ کھولے وہاں بیٹھی رہ گئی۔
“وہ سمجھتا ہے میں اس کے پیر پکڑوں گی۔ اس کی منتیں کروں گی۔ وہ جانتا نہیں ہے میں کس کی بیٹی۔۔۔۔” وہ بڑبڑاتے ہوئے خاموش ہو گئی۔ پھر وہ صوفے سے اٹھ کر کمرے کی سمت چلی گئی۔
اپنا موبائل اٹھا کر اس نے نمبر ڈائل کیا۔
“میں حقیقت کہیں سے بھی جان سکتی ہوں۔۔ اس کے لئے مجھے جسپریت جیسے فضول انسان کی باتیں برداشت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ سمجھتا ہے میں محتاج ہوں اس کی۔۔۔” اس کی سوچیں رک گئیں جب دوسری طرف فون اٹھا لیا گیا۔
“ہیلو!”
“جی کون؟” نجلہ نے اماں کی آواز پہچان لی۔
“جہاں آراء تبّسم سے بات ہو سکتی ہے؟” وہ آواز بدل کر بولی۔
“جی نہیں۔ وہ فوت ہو ہو چکی ہیں۔ آپ کون؟” وہ جاننے پر مصر تھیں۔
“فوت ہو گئی ہے؟ کب؟ کیسے؟” اس نے مصنوعی حیرانگی سے کہا۔
“برسوں پہلے کی بات ہے۔ آپ نے اپنا نام نہیں بتایا۔”
“کیا آپ مجھے بتا سکتی ہیں اس کی موت کیسے واقع ہوئی تھی؟”
“آپ مہربانی کر کے اپنا نام بتا دیں۔”
“میں اس کی سہیلی ہوں۔ آپ پلیز مجھے بتا دیں وہ کیسے مری تھی؟ یہ جاننا میرے لئے بہت ضروری ہے۔” وہ اصرار کرنے لگی۔
“نجلہ بٹیا؟” ان کی آواز بھرآگئی اور اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتیں نجلہ نے فون کاٹ دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کا بورڈ لگا ہوا تھا۔ یہاں تک پہنچنے میں اویس نے اس کی مددکی تھی۔Chandni’s Castle وہ اس عالیشان کوٹی کے سامنے کھڑا تھا جس کے باہر
اس نے باہر چوکنا کھڑے واچ مین کو اپنا کارڈ دکھایا اور ایک گہرا سانس لے کر اندر گیا۔ دیویکا نامی خاتون نے اس کا استقبال کیا۔
“؎ رکے تو گردشیں اس کا طواف کرتی ہیں۔
چلے تو اس کو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں۔” دیویکا کے کانوں میں وہ سریلی آواز گونجی۔
“رعب والے ہیں۔ سنجیدہ اور خاموش طبع۔ زیادہ ترخاموش رہتے لیکن جب بولتے ہیں تو سب کو خاموش کر دیتے ہیں۔” وہ مسکرائی۔ اس نادان لڑکی نے مکمل الفاظ میں اس شخص کو بیان کیا تھا، دیویکا کو یقین آگیا تھا۔
“وہ میرے ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔ بیٹھتی ہوں تو بیٹھ جاتے ہیں۔ چلتی ہوں تو چل پڑتے ہیں۔ ہنستی ہوں تو مسکراتے ہیں۔ روتی ہوں توخاموش رہتے ہیں۔ وہ شروع سے میرے ساتھ ہیں وہ آخرتک میرے ساتھ رہیں گے۔” دیویکا اس کو ڈرائینگ روم میں بٹھا کر اس کے سامنے والے صوفے پر بیٹھ گئی۔
“کوئی ہمارا کیس لینے کو تیار نہیں ہے۔”
“میں تیار ہوں۔”
“سب انہی کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔ کہتے ہیں ہم ہار جائیں گے۔ وہ جیت جائیں گے۔ وہ ہمیشہ جیت جاتے ہیں۔”
“میں اس کے لئے کبھی نہیں ہارا۔ اس بار بھی اسے جتا کر جاؤں گا۔”
“جنگ جیتنے کے لئے صرف جذبے تو کافی نہیں ہوا کرتے۔ مضبوط ہتھیار کا پاس ہونا بھی ضروری ہوتا ہے۔”
“انسان کا سچا جذبہ ہی اس کی سب سے بڑی ہتھیار ہوتی ہے۔ آپ فکر نہ کریں۔ اللہ ہمارے ساتھ ہے۔” دیویکا نے حیرت سے اس اجنبی کو دیکھا جس کو اس نے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا لیکن بالکل شناسا لگ رہا تھا۔
“جو شخص اتنی دور سے صرف تمہاری جنگ لڑنے کے لئے آیا ہے، میں کیسے مان لوں اس نے کبھی تمہارا تماشہ بنایا ہوگا!” دیویکا نے شاہ احمد کو چائے پیش کرتے ہوئے سوچا تھا۔ “یہ بات میں اس شخص سے پوچھ لیتی اگرتم نے مجھ سے یہ بات راز رکھنے کا وعدہ نہ لیا ہوتا۔”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“یہ تمہارے صاحب ہمیشہ سے اتنے ہی کھڑوس اور بدتمیز ہیں؟” وہ ڈائیننگ ٹیبل پہ بیٹھی رات کا کھانا کھا رہی تھی۔
“جی؟” بشیر نے پانی کا جگ میز پہ رکھ کے حیرت سے اسے دیکھا۔
“میں جا رہی ہوں کل صبح۔” اس نے اسے اطلاع دی۔
“یہی اچھا ہے آپ کے لئے۔۔۔”
“وہ جانتا نہیں ہے میں کون ہوں!” اسے پھر سے غصہ آگیا۔
“کون ہیں آپ؟” بشیر اس کے سامنے کھڑا سوال کرنے لگا۔ نجلہ کو اچانک یاد آیا کہ وہ جس شخص کے نام کو اپنے نام کے ساتھ لگا کر اکڑ دکھاتی ہے وہ اسی کی نفرت میں اپنا گھر چھوڑ کر آئی تھی۔
وہ خاموشی سے کھانا کھانے لگی۔
“میں بتاؤں کون ہیں آپ؟” نجلہ نے بشیر کو سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
“کون ہوں میں؟”
“آپ ایک شریف باپ کی بیٹی ہیں!” اس کے لہجے میں یقین تھا۔
“کیا مطلب؟”
“شریف باپوں کی بیٹیاں بگڑی ہوئی ہوتی ہیں!” نجلہ نے حیرت سے اس ان پڑھ شخص کو دیکھا جو اس کو آئینہ دکھا رہا تھا۔ نجلہ کو غصّہ آگیا لیکن وہ کچھ بول نہ سکی۔
“آپکے علاوہ میں نے جتنی لڑکیوں کو دیکھا ہے وہ یہاں اپنی مرضی سے آتی ہیں۔”
“میں بھی اپنی مرضی سے آئی ہوں۔”
“نہیں آپ کو لایا گیا ہے۔”
“کیا مطلب؟”
“مطلب یہ کہ اگر آپ اپنی مرضی سے یہاں آئی ہوتیں تو آپ صاحب کے ساتھ پارٹی میں جانے سے کبھی منع نہ کرتیں۔ یہاں آنے والی لڑکیاں ایسے مواقع ڈھونڈتی ہیں۔ آپ نے گنوا دیا۔ کیوں؟ کیونکہ آپ کو وہ سب نہیں کرنا۔”
“میں وہ سب کرنے نہیں آئی ہوں۔ لیکن میں آئی اپنی مرضی سے ہوں۔ سچ کی تلاش میں۔۔۔”
“سچ پانے نہیں۔ سچ گنوانے آئی ہیں آپ۔ میری مانیں تو چلی جائیں۔۔۔”
“ہاں۔ ہاں جا رہی ہوں میں۔ مجھے بھی کوئی شوق نہیں ہے یہاں رہنے کا۔ کوئی جاب کرلوں گی۔ کچھ بھی کر لوں گی لیکن یہاں نہیں رہوں گی۔ نہ مجھے سچ جاننے کے لئے اس بدتمیز شخص کی ضرورت ہے۔”
“یہ اس باپ ہی کی تربیت ہے جس نے آپ کو اسکارف ہٹانے سے روکا اور آپ کو پارٹی کے لئے نہ جانے دیا۔” وہ اس کو یاد دلا رہا تھا۔ وہ سچ ہی بول رہا تھا۔
“اور یہ جو آپ سمجھ رہی ہیں نا کہ آپ اپنی مرضی سے آئی ہیں۔ آپ غلط سمجھ رہی ہیں۔ یہ آگ ہے جو آپ کو اپنی طرف کھینچ رہا ہے اور آپ سمجھ رہی ہیں کہ آپ یہاں روشنی لینے آئی ہیں۔” وہ بوڑھا ملازم کس قدر سمجھداری کی باتیں کر رہا تھا۔ نجلہ کچھ دیر کے لئے بھول ہی گئی کہ وہ ایک ملازم ہے۔
“کیا کہنا چاہ رہے ہو؟”
“گھر واپس چلی جائیں آپ۔ میں نے یہاں رات کے اندھیروں میں بھیانک روشن حقیقتوں کودیکھا ہے۔ گھر جائیں اور پورے حق سے اپنے باپ سے سچ پوچھ لیں۔ اپنے گھر میں دفن خزانے باہر نہیں ڈھونڈا کرتے۔”
“تمہیں یہ سب کیسے پتہ؟ میرے بارے میں تم کیسے جانتے ہو یہ سب؟”
“گھروں کے ملازم اندر کی ساری باتیں جانتے ہیں بی بی!” نجلہ خاموش ہو گئی۔ “میں آپ کو ٹرین کا کرایہ دے دوں گا۔ آپ وہاں پہنچ کر مجھے بھیج دینا رقم۔”
“ایک منٹ۔۔۔” نجلہ نے اس کی بات کاٹی۔ “تم میری مدد کیوں کروگے؟ تمہارا اس سب میں کیا فائدہ ہے؟”
“میں بھی گھر سے بھاگی ہوئی ایک بدبخت لڑکی کا باپ ہوں۔” وہ ڈائیننگ روم سے نکل گیا۔ نجلہ سکتے کے عالم میں بیٹھی رہی۔ ایک عام سے ملازم نے اسے گھر سے بھاگی ہوئی لڑکیوں کی فہرست میں ڈال دیا تھا اور یہی حقیقت تھی، اس کے باوجود اسے لگ رہا تھا وہ اس کے منہ پہ طمانچہ مار کے گیا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ پاک تھی۔ وہ پر نور تھی۔ وہ مقدس تھی۔ شاہ احمد اورنگزیب نے ہمیشہ اس کی عزّت کی تھی کیونکہ اسے لگتا تھا وہ ہدایت کے راستے کے لئے چنے گئے لوگوں میں سے تھی۔
وہ جب اس کے سامنے آتی تو وہ نظریں جھکا لیتا تھا۔ اس کی پاکیزگی کا خیال کرتا تھا لیکن آج اس کی ذلّت اور پاکیزگی لٹنے کی داستان سن کر آیا تھا۔ وہ جو ہر رات آیۃ الکرسی پڑھ کر غائبانہ طور پر چندریکا کور کو اس کے حصا میں لے لیا کرتا تھا آج اسے پتہ چلا تھا کہ وہ اگراس کی طرف سے مطمئین تھا تو وہ غلطی پر تھا۔ پہلی بار اسے اپنی محبت کی گہرائی پہ شک ہوا تھا، یہ گمان گزرا تھا کہ اس کی محبت سچی نہ تھی ورنہ چندریکا لٹتی، اس کی عزّت پامال ہوتی۔ تاریک تہہ خانے میں اس کی چیخیں اٹھ اٹھ کر دب جاتیں اور شاہ احمد کو الہام نہ آتے؟ اسے پتہ نہ چلتا؟ یہ کہاں ممکن تھاکہ چودھویں کے چاند پہ داغ لگتے اور رتجگے کرتے شاہ احمد کرتے شاہ احند اورنگزیب کو خبر تک نہ ہوتی؟
“تم نعتیں پڑھتی تھی، تم گانے لگ گئی۔ تم نے جہاں آراء تبّسم بننا تھا، تم چاندنی بن گئی۔ تم باعزّت تھی، تمہاری عزّت لٹ گئی۔ تم سے متعلق ہر حقیقت بدل گئی سوائے اس کے کہ تم معصوم ہو اور آج بھی حساب کی کچی ہو۔ تم آج بھی چھ چھکے چوبیس پہ یقین رکھتی ہو۔ اسی لئے ہر جگہ، ہر شخص نے اپنی ضرورت کے مطابق لوٹا ہے تمہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں تمہیں حساب کرنا نہیں آتا چندریکا کوراور حساب کے کچے لوگ بدلے نہیں لیا کرتے!” وہ گیلری میں سے ہوتا ہوا دیوار پہ لگی اس تصویر کے سامنےرک ہوگیا جس میں چاندنی کو ایوارڈ دیا جا رہا تھا۔
“جس حقیقت کو سننے کی طاقت مجھ میں نہ تھی۔ جس کو سوچنے کی ہمت میں پیدا نہیں کر سکتا۔ جس کا تصّورکر کے مجھے موت آتی ہے وہ تم پہ گزری تو تم کیسے زندہ رہی چندریکا کور! تمہیں تو مر جانا چاہیئے تھا۔ اسی میں تمہاری نجات تھی۔” وہ گیلری سے نکل گیا۔ “تمہی جو اذیت اس تاریک تہہ خانے میں جھیلنی پڑی تھی میں اس کا ذکر بھری عدالت میں کر کے تمہیں انصاف دلاؤں گا لیکن تمہیں سرِبازار نیلام کرجاؤں گا۔” وہ تیز بارش میں ہی پیدل چلتے ہوئے گیٹ سے نکل گیا۔ “اپنا سچ بھری عدالت میں کھلتا دیکھ کر شاید تم مر جاؤ یا بولتے بولتے میں جان دے دوں لیکن ایسا نہیں ہوگا چندریکا کور! کیونکہ ہم دونوں سخت جان ہیں اس لئےتو اب تک تم نے جان دی ہے نہ میں مرا ہوں۔” سڑک پہ کوئی انسان یا گاڑی نہ تھی۔ وہ رات کے اس اندھیرے میں تیز بارش میں ایک سٹریٹ لائٹ کے نیچے جا کے بیٹھ گیا اور زندگی میں پہلی بار بلک بلک کر رویا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشیر اس سے پہلے باہر نکلا تھا کہ کسی کو شک نہ ہو کہ نجلہ کےچلے جانے میں اس کا ہاتھ ہے۔ وہ اپنا پرس اٹھانے کمرے کے اندر گئی تھی اور جب وہ باہر نکلی تو جسپریت اپنے کمرے کے درمیان میں کھڑا ایک ہاتھ میں شراب کی ایک بوتل تھامے کھڑا تھا اور اس کے دوسرے ہاتھ میں کوئی تصویرتھی۔ وہ معمول کے مطابق نشے میں تھا۔
نجلہ دبے پاؤں اس کے کمرے کے سامنے سے گزر رہی تھی جب اس نے چاندنی کا نام سنا۔ جسپریت کی پشت دروازے کی طرف تھی۔ نجلہ رک گئی۔
“میں نے پریا سے کہا مجھے تیری بیٹی چاہیئے کہ وہ آئے تو تم میرے قابو میں آؤ۔ پر تُو تو مر گئی۔ اب تیرے بدلے اس سے لوں گا۔ اسے ذلیل کروں گا۔ بڑی اکڑتی ہے وہ۔ میں بھی دیکھتا ہوں کتنی دیر ٹکتی ہے جسپریت سنگھ کے سامنے۔۔۔ کمینی۔” نجلہ کو غصّہ آگیا۔ وہ بنا کچھ سوچےتیزی سے اندر داخل ہوئی۔
“کیا بکواس کررہے ہو؟” وہ اس کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔
“یہ دیکھ رہی ہو؟ یہ میری ماں ہے۔۔۔ نہیں۔ نہیں۔۔۔ تھی!” وہ ہکلاتے ہوئے بول رہا تھا۔ “اور یہ اس کا یار۔۔۔ شاہ احمد اورنگزیب۔” اس نے قہقہہ لگایا۔ نجلہ کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ جسپریت کے ہاتھ میں جو تصویرتھی اس کی کاپی وہ بابا کے فائل میں دیکھ آئی تھی۔ جسپریت نشے میں تھا وہ جو بول رہا تھا وہ سچ نہیں ہو سکتا تھا لیکن اس کے ماں باپ کی ذاتی نوعیت کی تصویر اگر اس کے پاس فریم میں بند موجود تھی اس کا مطلب تھا اس شخص کا ان سے کوئی نہ کوئی تعلق تو ضرور تھا۔
“تم میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔” اسے غصّہ آگیا کہ اس شخص نے میم پریا کے ساتھ مل کر اسے بیوقوف بنایا۔ اس کے والدین کے ساتھ اپنا حساب برابر کرنے کے لئے اس کا استعمال کیا۔ اسے اپنے باپ کے خلاف بھڑکایا۔ حقیقت مختلف ہو سکتی تھی۔ اب اسے سمجھ آگئی تھی کہ اس رات اس کے منہ پہ پڑنے والا تپھڑ اسے خاموش کرنے کے لئے نہیں تھا بلکہ اس کی بدتمیزی اور اپنے والدین کے رشتے پہ شک کرنے کا تھا۔
“میں تیری جان لے لوں گا۔” وہ سائڈ ٹیبل پہ پڑا چاقو اٹھا کر نجلہ کی طرف بڑھا۔ وہ تیزی کے ساتھ کمرے سے نکل گئی۔ وہ نشے میں تھا۔ لڑکھڑاتے ہوئے جا رہا تھا جب تھوڑی دیر پہلے توڑے گئے گلاس کی کانچ اس کے پاؤں میں چبھ گئی۔ وہ دھڑام سے فرش پہ گرا۔
گھر کے اندرونی حصّے سے نکلتے ہوئے نجلہ نے آخری آوازاس کے گرنے کی سنی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“او بھائی مل لیں اس سے لیکن فائدہ کوئی نہیں ہونے والا۔ وہ پاگل ہے۔” ریسپشن پہ ایک ڈاکٹر جو شکل سے ہی پڑھا لکھا جاہل لگ رہا تھا، بولا۔
“میں یہ بھاری میز اٹھا کر آپ کے سر پہ دے ماروں تو آپ بھی پاگل ہو جائیں گے۔” اس نے ڈاکٹر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔ “نہیں۔ مر جائیں گے۔”
“تُو مجھے دھمکی دے رہا ہے؟”
“نہیں۔ شاہ دھمکی نہیں دیتے۔ حملہ کرتے ہیں۔” وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے چلا گیا۔
“یہاں پہ ہر قدم پہ آپ کو دھمکانے والے ملیں گے۔ ڈرانے والے ملیں گے۔ میں نے جتیش کی موت کے بعد ہر شخص کو اپنا دشمن بنتے دیکھا ہے۔ سب آپ کے بھی دشمن بن جائیں گے۔” دیویکا اس کے ساتھ چلتے ہوئے بول رہی تھی۔
“میں اس کی حفاظت کرتے ہوئے نہیں ڈرتا کیونکہ میں جانتا ہوں اس کی زندگی میری طاقت کے ساتھ جڑی ہے۔ میں ڈر گیا تو مر جائے گی وہ۔ میں اسے مرنے کہاں دے سکتا ہوں؟” اس نے بڑے سکون سے سوچا اور ہسپتال کے اس کمرے کے اندر گیا جہاں چندریکا کا علاج ہو رہا تھا۔
بکھرے بال، سوجے ہوئے پپوٹے، پیلا چہرہ۔ وہ آنکھیں بند کئے لیٹی تھی۔ شاہ احمد نے آنکھیں بند کرلیں.

سیاہ لمبے بال، ڈھلتی شام کی سی زردرو آنکھیں، چودھویں کے چاند کا سا دمکتا چہرہ۔۔۔
“چھ چھکے؟”
“چوبیس۔”
“میں جہاں آراء تبّسم بنوں گی۔”
“دل پڑھائی کے لئے تھوڑی دیا ہے اوپر والے نے؟ اس کے لئے تو دماغ ہے۔ دل تو بڑے بڑے کارنامے سر کرنے کے لئے ہے۔”
“انسان خود کو جس کے حوالے کر دیتا ہے وہی تو ہوتا ہے مالک۔ جس طرح میں نے خود کو آپ کے حوالے کر دیا ہے۔” اس کی باتیں شاہ احمد کے ذہن میں گڈمڈ ہوتی رہیں۔
“چاند؟” وہ غیر یقینی کیفیت میں بولا جیسے یہ جاننا چاہ رہا ہو کہ وہ واقعی وہ تھی بھی کہ نہیں۔
“مالک!” اس نے آنکھیں کھولے بغیر سرگوشی میں کہا۔ وہ سن نہ پایا۔ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتا وہ اس کی جانب بڑھ رہا تھا۔ وہ اسے پہچان گئی تھی۔ وہ دنیا بھر کے ہجوم میں اسے پہچان سکتی تھی۔ وہ اس کی آواز پہچانتی تھی۔ وہ اس کے قدموں کی آہٹ پہچانتی تھی۔ وہ عاشق تھی۔ اس کی ہر ادا پہ فدا تھی۔ وہ مالک تھا۔ اس کی ہر تکلیف سے واقف تھا!
“تم چاند ہو۔ تم نور ہو۔ تم پاکیزگی ہو۔” اس نے اس بے خبر لڑکی کو دیکھا۔ اسے لگ رہا تھا وہ اس کی موجودگی سےانجان تھی۔ وہ اس کی ہر حرکت کو بند آنکھوں سے محسوس کر سکتی تھی پر آنکھیں کھول کر دیدار نہیں کر سکتی تھی۔ وہ آنکھیں کھول کر اسے دیکھتی تو مر جاتی۔ وہ مالک تھا۔ چندریکا میں اسے آنکھ بھرکے دیکھنے کی کہاں طاقت تھی۔ بس اب وہ مطمئین تھی۔ وہ اسے لینے آیا تھا۔ یہاں جو وہ انجان لوگوں کے درمیان گرفتار تھی۔ مالک اسے چھڑانےآیا تھا پھر اسے کچھ بولنے کی کہاں ضرورت تھی؟ وہ شخص تو بنا سنے سمجھ جایا کرتا تھا۔
وہ ایک جھٹکے سے باہر نکل گیا اور کافی دیر تک دروازے کے سامنے کھڑا اپنی سانسیں بحال کرتا رہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کی آنکھیں ٹرین کی کھڑکی سے باہر چھائی تاریکی میں نہ جانے کیا ڈھونڈ رہی تھیں۔ جو بھی ہوا تھا غلط ہوا تھا۔ جو کچھ اس نے کیا تھا غلط تھا۔ کسی انجان عورت کی باتوں میں آکے اس نے اپنے باپ پہ شک کیا تھا۔ انہیں غلط کہا تھا، وہ شخص جو زندگی بھر اسے اچھائی اور برائی میں فرق بتاتا رہا تھا۔
“آپ نے مجھے بلایا؟” وہ میم پریا کے آفس کے دروازے میں کھڑی تھی۔
“جی۔ جی نجلہ آئیے!” وہ لیپ ٹاپ کھولے کسی کام میں مصروف تھیں۔ اس کی آواز سن کر انہوں نے بنا اوپر دیکھے اسے اندر آنے کی اجازت دی۔ وہ اندر جا کے ان کے سامنے پڑی کرسی پہ بیٹھ گئی۔
“آپ بیٹھیں۔ میں ایک کال کر کے آتی ہوں۔” وہ اپنا سیل فون لے کر باہر چلی گئیں۔ نجلہ کرسی سے اٹھ کرکافی دیر تک ان کے بڑے سے آفس کا جائزہ لیتی رہی۔ دیواروں سے لے کر میز پہ پڑے پن ہولڈر تک۔۔۔ اور پھر اس کی نگاہ میز پہ پڑے کسی پرانے اخبار پہ پڑی۔
اس کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔ اس نے اخبار اٹھا کر کئی بارخود کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ جو اس نے دیکھا وہ اس کی نظر کا دھوکا تھا مگر وہ غلط تھی۔ جو اس نے دیکھا وہی حقیقت تھی۔ وہ تصویر اسی حسین عورت کی تھی۔ جہاں آراء تبّسم کی۔۔۔
“میم! یہ کون ہے؟ یہ نیوزپیپر کہاں ملا آپ کو؟” اس نے اندر داخل ہوتی میم سے پوچھا۔
“یہ ایک سنگر تھی پرانے زمانے کی۔ چاندنی۔” وہ اپنی کرسی پر بیٹھ گئیں۔
“چاندنی؟” نجلہ نے جلدی سے تصویر کے اوپر خبر پہ نظر دوڑائی۔ وہاں واقعی چاندنی کا نام درج تھا۔
“جی۔ بڑی پاپولر رہی ہیں کسی زمانے میں۔”
“اچھا۔۔۔ مجھے لگا یہ۔۔۔۔”
“کیا؟” میم اب غور سے اسے دیکھنے لگی۔
“مجھے لگا یہ میری امّی ہیں۔”
“آپ کی امّی؟” وہ ہنسنے لگیں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ آپ کی امّی شوبز میں تھیں کیا؟ ان کا نام بھی چاندنی ہے؟”
“نہیں۔ ان کا نام جہاں آراء تبّسم تھا۔ وہ۔۔۔”
“کیا مطلب تھا؟” میم نے اس کی بات کاٹی۔
“ان کی ڈیتھ ہو گئی ہے۔”
“اوہ۔ آئی ایم سو سوری۔” وہ کچھ دیر خاموش رہی۔ ان کی الجھی ہوئی انگلیوں کو دیکھ کے نجلہ کو لگا کہ وہ ضرورت سے زیادہ دکھی ہوگئی تھیں۔
“چاندنی نے بھی اپنے کرئیر کے بالکل ٹاپ پہ پہنچ کے شوبز چھوڑ کردوسری شادی کر لی تھی۔ کسی مسلمان سے۔۔۔ پہلی شادی اس نے ایک سکھ سے کی تھی۔”
“کیوں یہ نان مسلم تھی؟”
“ہاں۔ شاہ احمد سے شادی کر کے وہ مسلمان ہو گئی تھی۔”
“کس سے۔۔۔ کس سے شادی کر کے؟ آپ نے کیا نام لیا؟” اسے لگاجیسے کسی نے اس کا گلہ اپنے مضبوط ہاتھوں میں جھکڑ لیا ہو۔
“شاہ احمد اورنگزیب۔ اس کا وکیل۔۔۔”
“وکیل؟” اس نے سرگوشی میں کہا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔
“چاندنی پہ اپنے پہلے شوہر کے قتل کا الزام تھا اور شاہ احمد اورنگزیب اس کا وکیل تھا۔ پھر کیس جیتنے کے بعد انہوں نے شادی کرلی۔ اس کے بعدمجھے علم نہیں وہ کہاں گئی؟” نجلہ کرسی سے اٹھ گئی۔ اس کے قدم من من بھاری تھے۔ وہ آفس سے نکل گئی۔ اسے یہ بھی یاد نہیں رہا تھا کہ میم نے اسے کسی کام سے بلایا تھا۔ وہ سیدھی گھر گئی تھی۔ وہ سمجھ گئی تھی بابا اس کی ماں کے بارےمیں بات کرتے ہوئے اس قدر دکھی کیوں ہوجاتے تھے؟ عجیب بات تھی ان کا معاشقہ ان کی بیٹی کے علاوہ زمانے بھر کو معلوم تھا۔ وہ جانتی تھی وہ نیک اور پاکباز شخص آج مجرم ثابت ہوگا۔ اگر سچ بولے گا تو قاتل کہلائے گا اور جھوٹ بولے گا تو منافق۔۔۔
“انہوں نے مجھے کسی کام سے نہیں بلایا تھا بلکہ یہ سب ان کا پلان تھا۔” وہ سمٹ کر بیٹھی ہوئی سوچتی رہی۔
بابا کے ساتھ بد تمیزی کرنے کے بعد وہ میم کے فلیٹ پہنچ گئی تھی۔
“میں نے ان کو بولنے کا موقع نہیں دیا۔ میں انہیں بولنے دیتی تو وہ سچ بتا دیتے مجھے۔۔۔ اب جاؤں گی تو پاچھوں گی حقیقت۔ حق جتاؤں گی اورفراراختیار نہیں کروں گی۔۔ ڈانٹیں گے تو سن لوں گی۔ بدتمیزی نہیں کروں گی۔” اسے شدت سے بابا کی یاد آرہی تھی۔ وہ اڑ کر ان کے پاس پہنچ جانا چاہتی تھی۔
“مجھے سچ بتا دیں پلیز! چاندنی کا کیا ہوا پھر؟ وہ میری ماں تھیں۔ شاہ احمد اورنگزیب میرے بابا۔۔ آپ کو شاید یاد نہ ہو میں نے بتایا تھا آپ کو۔۔۔”
“اس سے آگے مجھے نہیں معلوم کیا ہوا؟ میرا بھائی جانتا ہے۔ وہ ایک فلم ڈائریکٹر ہے۔ اسے علم ہوتا ہے ان سب باتوں کا۔”
“مجھے ان سے ملنا ہے۔”
“وہ کراچی میں ہوتا ہے۔ میں آپ کو ان کے پاس بھیج سکتی ہوں۔” انہوں نے اس کی سیٹ بک کرا کے اسے کراچی روانہ کردیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج کیس کی پہلی سنوائی تھی۔ وہ فجر کی نماز پڑھنے کے بعد قرآن کی تلاوت کرنے بیٹھ گیا۔
“قسم ہے چاشت کی۔ اورقسم ہے رات کی جب چھا جائے۔ نہ تو تیرے رب نے تجھے چھوڑا ہے اور نہ بےزارہوگیا ہے۔ یقیناً تیرے لئے انجام آغاز سے بہتر ہوگا۔ تجھے تیرا رب بہت جلد(انعام) دےگا اور تو راضی(وخوش) ہوجائےگا۔ وہ ہر مشکل وقت میں سورۃالضحیٰ کی تلاوت کرکےسکون پذیر ہوجایا کرتا تھا۔ مطمئین ہو جاتا تھا کہ اللہ اس کے ساتھ ہے۔
ناشتہ کر کے صبح سویرے وہ کورٹ پہنچ گیا۔ یہ اس کا پہلا کیس تھا اسی لئے وہ سب سے پہلے وہاں پہنچ گیا تھا۔ ریہرسل کرتا رہا۔ اپنی ہمت بڑھاتا رہا۔
مقدمہ جج صاحب کے سامنے رکھا گیا۔ مخالف وکیل کی طرف سے چاندنی کے خلاف کچھ ثبوت جمع ہوئے کہ وہ منشیات لیتی رہی ہے۔ اس کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں ہے اور جتیش کو اسی نے قتل کیا ہے۔
دیویکا نے پریشانی سے شاہ احمد کی طرف دیکھا تھا اور اس نے بڑے تحمل سے اسے جواب دیا تھا “میرے عزیز دوست یہ نہیں جانتے کہ ذہنی توازن توازن اس کا پہلے سے ٹھیک نہیں تھا۔ اس کا منشیات سے کوئی لینا دینا نہیں۔” وہ مسکرایا۔ “وہ چندریکا کور ہے۔ اس کی زندگی امتحان ہے اور وہ اس کا مقابلہ کرنا جانتی ہے۔”
شاہ احمد نے چاندنی کو بےگناہ ثابت کرنے کے لئے عدالت سے مزید کچھ وقت مانگا اور اسے اجازت مل گئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسےگھر کے اندر نہیں جانے دیا گیا۔ اس نے گیٹ کیپرکو بتایا کہ وہ اس کے مالک کی بیٹی ہے اور وہ ہرگزاسے اپنے ہی گھرمیں جانے سے روک نہیں سکتا۔
“آپ رکیں۔ میں کچھ کرتا ہوں۔” گیٹ کیپر نے کسی کو فون ملایا اور تھوڑی دیر بات کرنے کے بعد وہ اس کی طرف متوجہ ہو گیا۔
“اویس صاحب کے پاس چلی جائیں ہسپتال۔ انہوں نے بلایا ہے آپ کو۔”
“لیکن مجھےپہلے بابا سے ملنا ہے۔ ضروری کام ہے ان سے۔”
“آپ ان سے نہیں مل سکتیں۔”
“کیوں نہیں مل سکتی؟ تم کون ہوتے ہو مجھے روکنے والے؟ مجھے ابھی اسی وقت ملنا ہے ان سے۔ جا کے بتا دو انہیں۔”
“آپ اویس صاحب کے پاس جائیں وہ آپ کو پوری بات سمجھا دیں گے۔”
نجلہ کو مجبوراً انکل اویس کے مینٹل ہاسپٹل جانا پڑا۔ وہ اسے دیکھ کر پہلے کی طرح خوش نہیں ہوئے تھے بلکہ خاموشی سے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا تھا۔
“مجھے بابا سے ملنا ہے۔” وہ اپنی بات پر اڑی رہی۔
“نہیں مل سکتی۔” ان کا لہجہ اتنا سخت تھا کہ اسے چبھ سا گیا۔ انہوں نے کبھی اس سے اس طرح سے بات نہیں کی تھی۔
“کیوں؟” وہ جھنجھلا گئی۔
“کیونکہ وہ اب زندہ نہیں ہے!” ایک بھاری آسمان تھا جو نجلہ شاہ احمد کےسرپرگراتھا۔ اس نے اٹھ کر وہاں سے بھاگ جانے کی کوشش کی لیکن اس سے اٹھا نہ گیا۔ اس نے انکل اویس سے کچھ پوچھنا چاہا لیکن اس کی زبان لڑکھڑارہی تھی۔ ہونٹ کانپ رہے تھے۔
“آپ کے سوال مجھے پریشان کرتے ہیں۔”
“بیٹھ کے۔۔ بیٹھ کے بات کرتے ہیں۔” اشکوں کی لڑیاں بے اختیار اس کی آنکھوں سے بہہ نکلیں۔
“جس رات تم نے اس سے سچ سننا چاہا تھا اسی وقت وہ آرہا تھامیرے پاس جہاں آراء کو لےجانے۔ راستے میں اس کا ایکسیڈنٹ ہو گیا۔” نجلہ نے کرسی کی پشت پہ رکھا اپنا سر اٹھا کر سوالیہ نظروں سے انہیں دیکھا جیسے کہہ رہی ہو کہ میں کچھ سمجھی نہیں۔
“ہاں۔ جہاں آراء تبّسم۔ تمہاری ماں زندہ ہے۔ وہ میرے ہاسپٹل میں زیرِعلاج تھی اور ٹھیک ہونے کے بعد بھی یہیں رہتی تھی کیونکہ شاہ تمہاری تربیت اپنے طور سے کرنا چاہتا تھا۔ تم پہ تمہاری ماں کا سایہ نہیں پڑنے دینا چاہتا تھا کہ وہ ڈرتا تھا جو غلطیاں اس نے کیں وہ تم نہ دہراؤ۔” وہ خاموشی سےوہ سب سنتی رہی جو اب بے معنی تھا۔
اسے اپنی ماں کی زندگی کی خوشخبری ملی تھی لیکن اسے اپنی سگی ماں کے زندہ ہونے کی خوشی سے زیادہ اپنے باپ کے مرنے کا غم تھا۔
“میں بچپن سے اس کے ساتھ تھا۔ تمہاری ماں کی جدائی اسے نہ مار سکی تھی۔ وہ شاہوں کا ولی عہد تھا۔ سینہ تھان کے چلنے والا بہادرانسان۔۔ اسے اگر کسی چیز نے مارا ہے تو وہ تھیں تمہاری باتیں۔۔ تمہارے چلے جانے نے اس کی جان لی تھی۔ اس کے بعد وہ سانس تو لیتا تھا پر وہ جیا نہیں تھا۔ مر گیا تھا۔” وہ ہمت کر کے کرسی سے اٹھی۔
“ناظرین آج کی افسوس ناک خبر یہ ہے ملک کے نامورفلم ڈائریکٹر جسپریت سنگھ نے خود کشی کرلی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مرحوم نے چاقو سے اپنے سینے پہ وار کر کے خود کوہلاک کر دیا ہے۔” ریسیپشن پہ لگے ٹی وی پہ خبر چل رہی تھی۔ نجلہ کی ٹانگیں کانپنے لگیں۔ وہ وہیں فرش پہ بیٹھ کر بلک بلک کر رونے لگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“تمام ثبوتوں اور گواہوں کے بیانات کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہ عدالت سربجیت سنگھ کو عمرِ قید کی سزا سناتی ہے اور چاندنی کو باعزّت بری کرتی ہے۔” وہ مقدمہ جیت گیا تھا۔
اپنی نشست پہ کافی دیر تک بیٹھا وہ اپنی آنکھوں میں لہراتے پانیوں کو قابو کر رہا تھا۔ اسے اپنے رب کے وعدے کا یقین آگیا تھا کہ جب وہ ساتھ دیتا ہے تو سامنے والا چاہے جتنا بھی مضبوط ہو زیادہ دیر ٹک نہیں پاتا۔
اسے ہر طرف سے پذیرائی مل رہی تھی۔ چاندنی کے پرستار اس کے چاہنے والے بن گئے تھے۔ بلآخر اس نے چاندنی کو انصاف دلا دیا تھا اور اب اسے واپس جانا تھا۔
“وہ نہیں پہچانتی ہم میں سے کسی کو بھی۔ اس کے دماغ پہ الٹا منفی اثر پڑے گا۔ آپ اسے لے جائیں۔ جتن میرے ساتھ رہے گا۔ وہ شروع سے چاندنی کے زیادہ قریب نہیں رہا ہے۔” دیویکا نے اسے بتایا تھا۔ “وہ اپنے لوگوں میں رہے گی تو جلدی ٹھیک ہو جائے گی۔”
شاہ احمد نے جتن سے ساتھ جانے کو کہا تو وہ رونے لگا۔ اسے بُوا کے پاس رہنا تھا کیونکہ ممی اسے پیار نہیں کرتی تھیں۔
“کوئی بھی ضرورت ہو آپ مجھ سے رابطہ کر سکتی ہیں۔” وہ چاندنی کو لے کر واپس چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ویران آنکھیں، وہ پیلی رنگت اور پر سکون چہرہ۔ وہ چندریکا کور یا چاندنی نہیں تھی۔ وہ جہاں آراء تبّسم تھی۔ نجلہ شاہ احمد کی ماں۔ وہ کافی دیر تک اس کے سینے پہ سر رکھ کے روتی رہی اور وہ نجلہ کے بال یوں سہلاتی رہی جیسے برسوں سے اسے جانتی ہو۔ جیسے وہ دونوں ہمیشہ سے ساتھ تھیں۔
وہ ہر وقت اپنی ماں کے پاس رہتی تھی۔ ان کے کھانے اور آرام کا خیال رکھتی تھی۔ انہیں اکیلا نہیں چھوڑتی تھی۔ ان کو اپنے ساتھ گفتگو میں مصروف رکھتی تھی لیکن پھر بھی ان ماں بیٹی کے درمیان تکلّف کی جو دیوار تھی وہ بدستور قائم رہی۔ نجلہ اپنے باپ کی نسبت اپنی ماں سے زیادہ قریب نہیں تھی، اس بات کا اندازہ اسے اب ہوا تھا اور اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ اسے اس وقت سنبھالا اپنے باپ نے تھا جب اسے ضرورت اپنی ماں کی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اویس کی اسپیشلائزیشن مکمل ہو گئی تھی اور وہ اپنے تایاجو کہ اس کے سسر بھی تھے کے ہسپتال میں ڈیوٹی کرنے لگا تھا۔ شاہ احمد نے چندریکاکو اپنےشہروالے گھر میں ایک نرس کی زیرِنگرانی رکھا ہوا تھا اور اس کاعلاج اویس کے ہاسپٹل سے ہوتا رہا لیکن چونکہ شاہ احمد کی گاؤں میں بھی ضرورت تھی اس لئے وہ چندریکا کو لے کر گاؤں چلا گیا۔
“میرے کندھے اس بوجھ سے جھکتے جاتے ہیں کہ میں تمہارے دامن پہ لگے بدنامی کے داغ کیسے صاف کروں گا؟ کیسے ایک ایک شخص کو روک روک کے تمہاری پاکدامنی ثابت کروں گا؟ کہ یہاں تو لوگ آج بھی تمہارا نام لیتے ہوئے کانوں کو ہاتھ لگا لیتے ہیں۔” اس نے محل کے اندر جاتے ہوئے سوچا تھا۔
سب کو اس کا چندریکا کو ساتھ لے کر آنا نا گوار گزرا تھا مگر اس کے سامنے کوئی کچھ نہیں بول سکتا تھا اسی لئے سب خوموش رہے۔
جب سے وہ آیا تھا اماں بیگم نے اس سے کوئی بات نہ کی تھی بلکہ اب وہ سارے اہم فیصلے خود لینے لگی تھیں۔
“بتا یہ بچہ کس کا ہے؟ کس کا گناہ پیٹ میں لئے یہاں رہ رہی ہے توُ؟” وہ جیسے ہی محل کے اندرونی حصے میں داخل ہوا، سامنے والے برآمدے میں اماں بیگم چندریکا کو بالوں سے پکڑے غضب ناک آواز میں بول رہی تھیں اور وہ سہمی ہوئی انہیں دیکھے جا رہی تھی۔ روئے جا رہی تھی۔ وہ زیادہ بولتی نہ تھی بلکہ وہ بولتی ہی نہ تھی۔ وہ بالکل خاموش رہتی تھی۔ مالک جب اس سے بات کرتے وہ ہاں یا ناں میں جواب دے دیتی تھی اس سے آگے سبھی الفاظ کھو گئے تھے۔ وہ کھوئی کھوئی سی رہتی تھی۔ ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ اسے اچھے اور خوشگوار ماحول میں رکھا گیا تو وہ جلدی نارمل ہو جائے گی۔ لوگوں کو پہچاننے لگے گی۔
وہ تیزی سے اس طرف آگیا لیکن جب تک وہ پہنچا چندریکا کے لمبے لمبے سیاہ بال بے جان رسیوں کی طرح زمین پہ پڑے تھے۔ اماں بیگم نے اس کے بال کٹوا دئیے تھے۔
“کوئی گناہ نہیں کیا اس نے۔ شادی کی تھی وہاں۔” وہ شبینہ بیگم کے سامنے کھڑا پہلی بار سخت لہجے میں ان سے مخاطب تھا۔ “میں جا رہا ہوں۔ رہیں آپ یہاں۔ میں آپ کو مزید یہ حق نہیں دے سکتا کہ آپ مجھے تکلیف دیتی رہیں۔” پہلی بار شبینہ بیگم نے جہاں آراء تبّسم کے اس خاموش طبع بیٹے کو غصّے میں بولتے دیکھا تھا۔ وہ چندریکا کو لے کر واپس شہر چلا گیا۔ کچھ عرصے بعد اس کی بیٹی پیدا ہو گئی۔
بچی کو دیکھ بھال کے لئے سکینہ اماں کے حوالے کردیا گیا جو کہ اس گھر کی پرانی ملازمہ تھی اور جس کے شوہر سلیم چچا کو گزرے کچھ ہی برس ہوئے تھے۔
سکینہ اماں کے اپنے بچے نہیں تھے اسی لئے بچی کو پا کر وہ بڑی خوش تھی۔ اسےخاص ہدایت کی گئی تھی کہ بچی کو چندریکا کے سامنے نہ لایا جائے کیونکہ وہ اس کو دیکھ کے اپنی خاموشی بھول جاتی تھی۔ وہ آپے سے باہر ہو جاتی تھی۔ شاہ احمد نہیں چاہتا تھا وہ بچی کو کوئی نقصان پہنچائے۔
ایک دن جب سکینہ اماں بچی کے لئے دودھ ابالنے کچن گئی تھی اور اسے ٹی وی کے سامنے بٹھا دیا تھا۔ چندریکا نے آکر ریمورٹ اٹھایا اور کرٹون والا چینل بدل دیا۔ بچی رونے لگی۔ اس کے رونے سے چندریکا اپنے آپے سے باہر ہو گئی۔ اس نے بچی کو اٹھا کر فرش پر دے مارا۔
“ملک کے مقبول ترین ڈائریکٹر سربجیت کمار کو گزرے ہوئے تین برس بیت گئے۔” وہ بھٹی پھٹی آنکھوں سے کبھی فرش پہ پڑی نجلہ کے سر سے پہتے خون کو دیکھتی اور کبھی ٹی وی پہ چلتی خبر کو۔
سربجیت۔ دیویکا۔ جتیش۔ اس کا سر چکرانے لگا۔ اس نے دھکہ دے کر ٹی وی توڑ دیا اور فرش پہ گر پڑی۔
اسے جب ہوش آیا تو باہر اندھیراچھایا ہوا تھا۔ وہ اپنے بیڈ سے اٹھی۔ اسے مالک کے پاس جا کے ان سے بات کرنی تھی پھر وہ چاہے جو بھی فیصلہ کرتے لیکن آج وہ انہیں اپنی محبت کے بارے میں بتا دینا چاہتی تھی۔
لاؤنج میں لائٹ آن تھی
۔ وہ ننگے پیر مالک کے کمرے کی طرف جا رہی تھی۔ کمرے کے اندر اندھیرا تھا لیکن باہر سے جھانکنے والی روشنی میں اس نے انہیں تہجد پڑھتے دیکھ لیا۔
وہ دروازے ہی میں رک گئی۔
وہ رکوع میں جھکے “سبحان ربی العظیم۔” وہ سرگوشی میں اپنا پرانا بھولا ہوا سبق یاد کرتی رہی۔ وہ سجدے میں جھکے۔ “سبحان ربی الاعلیٰ۔” وہ قاعدے پہ بیٹھے۔ چندریکا ان کے ساتھ ساتھ پڑھتی گئی۔
انہوں نے سلام پھیرا اور قرآن اٹھا کر باہر آگئے۔
“آپ جاگ رہی ہیں؟” اس کو دیکھ کر وہ حیران ہو ا پھر نارمل انداز میں بولا۔ “میں کل آپ کو ہاسپٹل لے کر جا رہا ہوں۔ کل سے آپ وہیں رہیں گی۔ کوئی مسئلہ نہیں ہوگا وہاں پہ۔ یہاں پہ آپ ڈسٹرب ہیں اور بچی کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کے بعد میں کوئی رِسک نہیں لے سکتا۔” وہ جانتا تھا چندریکا اس کی باتین نہیں سمجھتی۔ اس کا ذہن منتشر ہے۔ وہ عجیب عجیب حرکتیں کرتی ہے پھر بھی وہ اسے ہر بات تفصیل سے بتاتا اور سمجھاتا تھا۔
وہ خاموشی کے ساتھ وہاں سے چلی گئی۔ “آپ اگر میری بیٹی کے مستقبل کے لئے اتنے فکرمند ہیں تو میں وعدہ کرتی ہوں آپ کے راستے کی رکاوٹ نہیں بنوں گی۔” اگلے دن شاہ احمد اسے ہاسپٹل لے کر چلے گئے۔ وہ روز اس سے ملنے آتے تھے۔ اس کی بیٹی سے متعلق ہر بات اسے بتاتے تھے پر وہ جواب میں خاموش رہتی تھی۔ اویس کا کہنا تھا کہ اسے چپ
لگی ہے۔ وہ کسی کی موجودگی کو محسوس نہیں کرتی۔ ہنستی ہے نہ روتی ہے۔ بس مجسمہ بنی بیٹھی رہتی ہے۔
“جہاں آراء کہتی تھی میرا اگر بیٹا ہوا اس کا نام شاہ احمد رکھوں گی اور اگر بیٹی ہوئی تو نجلہ۔” اسے دیویا کاکی کی بات یاد آگئی۔ اس نے بچی کا نام نجلہ رکھ دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“شاید وہ ابھی تک میلے میں آئے ہی نہیں۔” وہ محل کی جانب چلی گئی۔ شام گہری تھی۔ وہ روشنیوں اور چہل پہل سے نکل کر محل کے راستے پہ چلنے لگی۔
“ارے یار! محبت کون کرتا ہے اس سے؟ وہ تو بس دل لگی کا سامان بن جاتی ہے کبھی کبھی۔” وہ محل سے ذرا فاصلے پہ درختوں کے جھنڈ میں کسی دو نوجوانوں سے مخاطب تھے۔ اس نے ان کی آواز پہچان لی تھی۔ وہ ان کی طرف بڑھ ہی رہی تھی لیکن اس کے قدم رک گئے۔ ” مرتی ہے چندریکا کور مجھ پر۔ میری ایک نظرِکرم کے لئے ترستی ہے۔ میرا تو دل بھر جانا ہے آخر لیکن اس سے اگر اس کی عقیدت کو تقویت ملتی ہے تو اچھا ہے نا۔۔۔ کیوں نہ ایک تیر سے دو شکار کئےجائیں۔” وہ وہیں زمین پہ کھڑی تھی یا زمین کے اندر دھنس گئی تھی۔ اسے کچھ خبر نہ تھی۔ اس کے اوپر آسمان ٹوٹ کے گرا تھا۔ سبھی پہاڑ بیک وقت آپس میں ٹکرائے تھے اور چندریکا اس میں کچل دی گئی تھی۔ جو کچھ بھی ہوا تھا اس کے نشان مٹا چکا تھااور اب وہ کہیں بھی نہیں تھی۔
اسے لگا جیسےاسےصفر کے ساتھ ضرب دی گئی ہو۔ وہ اب اچھی طرح سمجھ گئی تھی کہ کوئی ہندسہ صفر کے ساتھ ضرب ہو کر صفر کیسے بن جاتا ہے۔ آج اسے مالک شاہ احمد اورنگزیب نے صفر بنا دیا تھا۔ اسے مٹا دیا تھا۔ وہ آگے بڑھ کے سوال نہ کر سکی کیونکہ اس نےخود کو اس شخص کے حوالے کیا تھا۔ اس سے محبت کی تھی اور محبت میں سوال کرنا محبت ہی کی توہین تھی۔ اس کی ٹانگیں کانپ رہی تھیں پھر بھی وہ پوری قوّت لگا کر وہاں سے بھاگی تھی۔
اس کی آنکھ کھلی تو وہ کسی تاریک تہہ خانے میں بند تھی۔ تھوڑی دیر بعد ایک آدمی نے آکے اسے پانی پلایا تھا اور پھر اسے اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلایا تھا۔ وہ جب یہ پوچھتی کہ میں کہاں ہوں؟ تو وہ جواب میں بولتا “میرے دل میں۔۔۔”
اس کو کئی زخم آئے تھے اور جب تک وہ تھے وہ محفوظ تھی لیکن جیسے ہی وہ بھر گئے وہ اسے ایک گہرا اور زندگی بھر کے لئے نہ بھرنے والا گھاؤ دینے آگیا۔ اس رات وہ چیخی تھی۔ چلاّئی تھی۔ روئی تھی لیکن اس کی آواز وہیں دب کر رہ گئی تھی۔ اس کا ایمان جھوٹا تھا۔ وہ جو سمجھتی تھی کہ مالک کی تصویر کے ہوتے ہوئے وہ محفوظ ہے، اس رات بھی وہ تصویر اس کے بٹوے میں پڑی تھی لیکن وہ لٹ گئی تھی!
سربجیت ایک سیاسی آدمی تھا اور اوّل درجے کا بد معاش۔ اس کو اپنی بیوی منع کر سکتی تھی اور نہ ہی اپنے دوست واحباب۔
وہ کچھ دنوں کے لئے کہیں گیا ہوا تھا۔ دیویکا تالا توڑ کرچندریکا کو باہر لے آئی۔
“سربجیت میرا شوہر ہے۔ مین اسے جانتی ہوں۔ اس کا دل تم سے بھر جائے گا تو تمہیں مار ڈالے گا۔”
“میں مرنے ہی تو آئی تھی!”
“میرا بھائی ہے کراچی میں۔ میں تمہیں اس کے پاس بھجوا دوں گی۔ وہاں تم محفوظ رہوگی۔”
“تم اتنا یقین سے کیسے کہہ سکتی ہو کہ تمہارا بھائی تمہارے شوہر جیسا نہیں ہے؟”
“کیونکہ جتیش کو ایک ہی لڑکی سے محبت ہوئی تھی پوری زندگی میں۔ اس کے بعد اس نے کسی اور طرف دیکھا تک نہیں۔ تم اس سے شادی کر لو۔ یہ میرا مشورہ ہے۔ تمہارے پاس اب یہی ایک راستہ ہے۔”
“اس لڑکی کا کیا ہوا؟ اس سے شادی کیوں نہیں کی اس نے؟”
“اس نے دھوکہ دے دیا جتیش کو۔ چھوڑ کر چلی گئی اسے۔ تم دونوں بہتر طریقے سے ایک دوسرے کو سنبھال سکوگے لیکن اسے اپنے ساتھ ہونے والے اس حادثے کے بارے میں مت بتانا۔”
“تو تم اپنے شوہر کا گناہ اپنے بھائی کے سر تھوپنا چاہتی ہو؟”
“نہیں تمہاری کہانی سن کر مجھے اندازہ ہوا کہ تم ایک معصوم لڑکی ہو۔ اپنے محبوب کی بےوفائی سے ڈر کے بھاگی ہو اور میں جانتی ہوں کہ میرے بھائی کے لئے تم سے بہتر کوئی لڑکی نہیں ہو سکتی اور رہی بات گناہ چھپانے کی تو میں چاہتی ہوں تم اس کے ساتھ عزّت سے رہو۔” دیویکا نے اسے کراچی بھیج دیا تھا اور جب سربجیت واپس آیا تو تہہ خانے کا دروازہ کسی نے کلہاڑی سے توڑا تھا۔ وہ سمجھ گیا کہ تہہ خانے کے کونے میں پڑی کھدال اور کلہاڑیاں چندریکا نے دیکھ لی ہوں گی اور اس کی غیر موجودگی کا فائدہ اٹھا کر وہ بھاگ گئی۔
دیویکا نے فون کر کے جتیش کو چاندنی کے آنے کی خبر دی اور اسے بتایا کہ وہ ایک یتیم بے سہارا لڑکی ہے پسند آجائے تو شادی کرلینا ورنہ ملازمہ بنا لینا۔
جتیش اسے لینے سٹیشن پہنچ گیا۔ بڑی خوش اخلاقی سے وہ اس سے ملا اور اس کے لئے اپنی گاڑی کا دروازہ کھول کر کہا “آئیے چاندنی جی!” تب وہ بے اختیار مسکرائی، اس لئے نہیں کہ اسے جتیش اچھے سے ملا تھا بلکہ اس لئے کہ اسے جتیش نے اس کے نئے نام سے پکارا تھا۔ “میرا نام بدل کر میری قسمت بدلنے چلی ہے نادان یہ نہیں جانتی میری قسمت میرے نام کے ساتھ نہیں میری ذات کے ساتھ جڑی ہے۔” اسے دیویکا کی سادگی پہ ہنسی آتی تھی۔ اسے زندگی سے نفرت تھی لیکن پھر بھی وہ جی رہی تھی اور یہی مشکل ترین کام تھا۔
وہ صبح ناشتے سے لے کر رات کھانے تک سب کام کرتی تھی۔ جتیش خاموش طبع انسان تھا۔ وہ صرف رات کا کھانا گھر آکے کھاتا تھا اور جب چاندنی اس کے سامنے کھانا رکھتی تو اسے دیویکا کی بات یاد آجاتی “پسند آجائے تو شادی کرلینا ورنہ ملازمہ رکھ لینا۔” اور اسے عجیب شرمندگی محسوس ہوتی تھی۔ پھر وہ اس کی ضرورتوں کے بارے میں دریافت کیا کرتا تھا۔ کوئی موضوع نہ ہوتی تب بھی بات کرنے کی کوشش کرتا تھا۔
“میں نے شروع سے کوئی ملازم نہیں رکھا کیونکہ مجھے اپنا کام خود کرنا پسند ہے لیکن اگر آپ یہ سب اپنے شوق سے کرتی ہیں تو مین منع نہیں کروں گا آپ کو۔” ایک بار جتیش نے اسے بتایا تھا لیکن ایک بات ان دونوں کی سمجھ مٰن نہیں آتی تھی کہ وہ اس گھر میں ملازمہ بن کے رہ رہی تھی یا مہمان بن کر۔۔۔ اور اس بات کو فیصلہ بھی تب ہو گیا جب وہ پرندوں کو دانہ ڈالتے ہوئے گا رہی تھی۔ جتیش کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی اسی لئے وہ دفتر نہیں گیا تھا۔ تازہ ہوا کھانے جب وہ ٹیرس پہ گیا تب اس نے نیچے لان میں اسے دیکھا۔ وہ خود میں مگن گا رہی تھی اور جو کچھ گا رہی تھی وہ جتیش کے دل میں اتر رہا تھا۔ جو درد الفاظ میں تھا اس لڑکی کی آواز میں اتر آیا تھا اور یہی شاید ایک بہترین گلوکار کی نشانی ہوتی ہے۔
پہلی بار جب جتیش نے اسے بتایا کہ وہ باقاعدہ طور پہ گا بھی سکتی ہے تو اسے یقین نہیں آیا بلکہ اس نے اس بات میں کوئی دلچسپی ہی نہ لی لیکن پھر جتیش کے اصرار پہ وہ اس کے ساتھ اسٹوڈیو گئی تھی اور تھوڑی سی مشق و ریاضت کے بعد جتیش کو لگا کہ وہ اب گا سکتی ہے۔ اس کے پہلے گانے کو بڑی پذیرائی ملی۔ جس دن اس کا پہلا گانا ریکارڈ ہوا اسی شام جتیش نے اسے پرپوز کیا اور چاندنی نے بلا تؤقف اس کا پروپوزل قبول کرلیا کیونکہ اس وقت وہ ڈوب رہی تھی اور ڈوبتے کو تنکے کا سہارا چاہئیے ہوتا ہے۔
“تم ماں بننے والی ہو۔” اس کے ذہن پہ اپنی دوست ڈاکٹر مہرین کی بات سوار تھی اور اس کے پاس سوائے جتیش سے شادی کرنے کے اور کوئی راستہ نہ تھا۔ انہوں نے اگلے ہفتے اپنے قریبی دوستوں کو بلا کر خفیہ شادی کر لی تھی۔ چاندنی بنتے ہی اس کی قسمت چمک اٹھی تھی۔۔ اسے کامیابیاں مل رہی تھیں۔ فلموں میں گانے کی آفرز مل رہی تھیں۔ وہ تھوڑے ہی عرصے میں لوگوں کے دلوں پہ راج کرنے لگی تھی۔ اسے وہ کچھ ملنا بھی شروع ہو گیا تھا جس کی اس خواہش ہی نہ کی تھی۔
جتن کی پیدائش کو بھی خفیہ رکھا گیا کیونکہ جتیش جانتا تھا کہ چاندنی اس وقت اپنےکرئیرکےٹاپ پرہے اور ان کی شادی اور پھرایک بچے کی پیدائش کی خبر سے حالات کایا بھی پلٹ سکتے تھے۔
شروع شروع کے دنوں میں جب جتیش جتن کو پیار کرتا تو چاندنی واش روم کے اندر جا کر ندامت کے بے شمار آنسو بہاتی۔ اپنے بال نوچتی۔ خود کو ملامت کرتی کہ وہ اپنے شوہر کے خلوص کے ساتھ کھیل رہی ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسے جتن اور جتیش کے آپس میں پیار کی عادت سی پڑگئی حالانکہ خود وہ جتن کو کبھی پیار نہیں کرتی تھی۔ اسے اس بچے سے خوف آتا تھا۔ اسے گود میں اٹھانا تو دور کی بات وہ چاہ کے بھی اسے سینے سے لگا سکتی تھی نہ اس کا بوسہ لے سکتی تھی اور یہ بات جتیش کو اس لئے زیادہ محسوس نہ ہوتی تھی کیونکہ چاندنی کی مصروفیات بہت زیادہ تھیں اور وہ جتن کو وقت ہی نہ دے پاتی تھی۔
وہ چودہ اگست کے موقعے پر منعقد کئے گئے جس شو میں گئی تھی اس میں ملک کی کئی سیاسی شخصیات بھی موجود تھیں اور ان میں سربجیت سنگھ بھی وہاں اپنے ایک سیاسی دوست کے ساتھ موجود تھا۔ چاندنی کو سٹیج پہ گاتے دیکھ کر وہ آگ بگولہ ہوا تھا کہ جولڑکی اس کے گھر سے اپنی زندگی بچانے کے لئے بھاگی تھی وہ اس مقام تک کیسے پہنچ گئی اور اس سے اتنا عرصہ چھپی کیسے رہی؟ اسے اتنی کامیابی تک پہنچانے والا جو بھی تھا سربجیت اس کی جان لینا چاہتا تھا اور چاندنی کو اسی تہہ خانے لے جا کر دوبارہ چندریکا بنا دینا چاہتا تھا۔ اسے بتا دینا چاہتا تھا کہ گھر سے بھاگی ہوئی لڑکیاں کتنی بے وقعت ہوتی ہیں!
چندریکا کو جتیش کے ساتھ گاڑی میں بیٹھتے دیکھ کر وہ اپنے آپے سے باہر ہوگیا۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ چندریکا کو بھاگنے میں مدد دینے والی دیویکا ہی ہو سکتی ہے۔
وہ سیدھا گھر گیا اور دیویکا کو کھینچتے ہوئے گاڑی میں بٹھا دیا۔
“تجھے وہیں چھوڑ کے لے آؤں گا میں ا۔ پھر اکھاڑ لے جو اکھاڑ سکتا ہے تیرا بھائی۔ میرے منہ کا نوالا چھینتا ہے سالا۔” دیویکا نے اس کی منت کی۔ اس کے سامنے روئی لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔
دیویکا کو اپنے آدمی کے حوالے کر کے اس نے گاڑی میں بند کردیا اور خود گاڑی سے اتر کر بلند آواز میں جتیش کو بلانے لگا۔ چاندنی اور جتیش دونوں گھر پہ تھےآوازیں سن کر باہر آگئے۔ سربجیت نے لپک کر جتیش کی کنپٹی پر بندوق رکھ دی آور اس سے پہلے کہ گیٹ کیپر کچھ کرتا سربجیت کے آدمی نے اسے گولی مارسے دیا۔ چاندنی بدحواسی کے عالم میں اپنے شوہر کو بچانے کے لئے بھاگی لیکن سربجیت کے آدمی نے بڑھ کر اسے پکڑ لیا اور اپنی ٹانگوں میں دبوچ لیا۔ چاندنی نے اسے دانتوں سے اس زور سے کاٹا کہ وہ درد سے بلبلا اٹھا، اس نے ایک گملا اٹھا کر چاندنی کے سر پہ دے مارا۔ اس کے سر سے خون کے فوارے پھوٹ نکلے۔ جب سربجیت نے یہ دیکھ کہ چاندنی اب بچنے والی نہیں ہے تو اس نے جتیش کے سر میں گولی اتار دی اور بندوق چاندنی کے ہاتھ میں ایسے تھمائی کہ دیکھنے والوں کو لگے کہ گولی اسی نے چلائی ہے۔ جلدی سے گاڑی میں بیٹھ کر وہ بھاگنے لگا کہ دیویکا خود کو چھڑا کر چلتی گاڑی سے کود گئی۔
جتیش اور گیٹ کیپر کے سروں میں گولیاں لگنے کی وجہ سے وہ دونوں جائے وقوعہ پہ ہی جاں بحق ہوئے تھے اور چاندنی کو ایمرجنسی وارڈ لے جایا گیا۔
انسپکٹر ایف آئی آر کاٹنے پہ تیار نہیں تھا۔ دیویکا کو اس کا بیان بدلنے پہ مجبور کیا جا رہا تھا۔ اسے کہا جا رہا تھا کہ وہ اپنے بیا ن میں لکھوا دے کہ چاندنی کے اس کے بھائی کے ساتھ تعلقات تھے۔ وہ اس کے ساتھ رہتی تھی لیکن آپس میں کسی بات پہ لڑنے کے نتیجے میں چاندنی نے جتیش اور گیٹ کیپر کو مور دیا کیونکہ وہ منشیات لیتی رہی تھی اور اس کا ذہنی تواذن بھی ٹھیک نہیں تھا۔ وہ تنہا یہ لڑائی لڑ رہی تھی، کوئی اس کی مدد کو تیار نہیں تھا جب شاہ احمد اورنگزیب امید کی کرن بن کر آیا تھا۔
عدالت کی اجازت سے اس نے سربجیت اور جتن کے ڈی این اے ٹیسٹ کروائے جن سے یہ ظاہر ہوا کہ جتن سربجیت کا بیٹا ہے یوں اس پہ کئی سال پہلے کا گناہ ثابت ہو گیا اور جتیش کے گھر سے ملنے والی سی سی ٹی وی فوٹیج سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ جتیش اور گیٹ کیپر کو چاندنی نے نہیں بلکہ سربجیت سنگھ اور اس کے آدمیوں نے مارا تھا۔
چاندنی اور جتیش کی خفیہ شادی میں شامل گواہوں کو عدالت میں بلا کر شاہ احمد نے یہ بھی ثابت کردیا تھا کہ وہ اگر جتیش کے ساتھ رہتی تھی تو وہ اس لئے کہ وہ قانونی طور پہ اس کی بیوی تھی۔ چاندنی کی پریگنینسی رپورٹس بھی عدالت میں پیش کی گئیں جن سے یہ صاف ظاہر ہوتا تھا کہ وہ جتیش کے بچے کی ماں بننے والی ہے۔
مقدمہ جیت کر وہ چاندنی کو لے کر چلا تو گیا تھا لیکن باقاعدہ دیویکا کے ساتھ رابطے میں رہا تھا کہ اگر کبھی بھی جتن کو اس کی ماں کی ضرورت ہو تو وہ چاندنی کو لے کر اس کے پاس چلا جائے لیکن چاندنی نے ہمیشہ یہی جواب دیا کہ وہ اس کے ساتھ بالکل خوش اور مطمئن ہے۔ دیویکا کی موت کے بعد یہ رابطہ ختم ہو گیا!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“تمہاری بیٹی نے سوال نہیں پوچھا چندریکا کور! میری محبت اور تمہاری پاکیزگی پہ انگلی اٹھائی ہے اور اب یہی وقت ہے اسے سچ بتانے کا۔” وہ تیزی سے گاڑی چلاتے ہوئے سوچ رہا تھا۔ اسے عجیب ذلّت کا احساس ہو رہا تھا۔ اس کو اس لڑکی نے غلط کہا تھا جسے ہر غلط اور صحیح کی پہچان شاہ احمد اورنگزیب نے کرائی تھی۔
وہ سیدھا اویس کے گھر کے اندر گیا۔ لاؤنج میں خاموشی تھی۔ سب اپنے اپنے کمروں میں جا چکے تھے۔ وہ صوفے پہ بیٹھنے لگا لیکن اویس کو فون ملاتے ملاتے اس کی نظر وہیں ایک کونے میں نماز پڑھتی اس عورت پہ پڑی جو اس کی زندگی کا نور تھی۔ وہ سلام پھیر رہی تھی۔ وہ چندریکا کور ماکول تھی۔ نہیں! وہ جہاں آراء تبّسم تھی! وہ خواب دیکھ رہا تھا۔ یہ حقیقت نہیں تھی۔ شاہ احمد اورنگزیب اسے دیکھتا رہا۔ اس نے آنکھیں نہیں ملیں۔ اس نے نگاہیں نہیں جھکائیں۔ وہ حیرت سے وہ حسین نظارہ دیکھتا رہا۔ وہ جنّت میں تھا۔ وہ خوش تھا۔ اس کا دل کہیں ہواؤں میں اڑ رہا تھا۔ کس قدر خوبصورت تھی حقیقت۔ کس قدر مہربان تھا کاتبِ تقدیر۔۔۔
سلام پھیر کر اس نے مالک کی طرف دیکھا۔ وہ ڈر گئی۔ ایک لمحے کے اندر اندر وہ وہاں سے غائب ہو گئی تھی۔ وہ حیران و پریشان وہاں کھڑا رہا۔ اس کے ہاتھ پیر کام نہیں کر رہے تھے۔ اس نے پوری قوت لگا کر اویس کو آواز دی۔
“انکل ڈیڈی ہاسپٹل میں ہیں۔”
“وہ۔۔۔ وہ کون تھی؟” وہ ہکلاتے ہوئے بولا جیسے کوئی بھوت دیکھ کر گھبرا گیا ہو۔
“کون؟ یہاں تو کوئی نہیں۔۔۔” اظفر نے ادھر ادھر دیکھا۔
“میں۔۔۔ مجھے اویس سے ملنا ہے۔۔۔ مجھے بات کرنی ہے اس سے۔” وہ تیزی سے باہر نکل گیا۔
“میں تم سے کوئی سوال نہیں کر سکتا چندریکا! میں تم سے سوال کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ میں تمہارا مجرم ہوں۔ میں تمہارے سامنے کھڑے ہو کر حق جتانے کا حوصلہ نہیں رکھتا۔” وہ تیزی سے گاڑی چلاتے ہوئے سوچتا رہا۔ “جو کچھ پوچھنا ہے مجھے اویس سے پوچھنا ہے کہ اس نے مجھے اندھیرے میں کیوں رکھا؟ تم اس کے گھر میں اتنے سکون سے نماز پڑھتی کیوں نظر آئی مجھے؟ تم۔۔۔ جسے اپنے گھر سے بے دخل کر کے میں نے اپنی زندگی تاریک کر دی۔” اس کا فون بج رہا تھا۔ اس نے غیر حاضر دماغی سے فون کان سے لگایا “نجلہ بی بی گھر چھوڑ کر چلی گئیں صاحب!” اس کے بعد اسے ہوش نہیں رہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“ہم گاؤں جا رہے ہیں۔” امّی نے رات کو اسے بتایا تھا۔ اپنی اور ان کی پیکنگ کر کے وہ صبح سویرے گاؤں کے لئے نکل گئے۔
“آپ نے اپنے بیٹے کی خبر کیوں نہیں لی؟” اس نے نہ چاہتے ہوئے وہ سوال پوچھ ڈالا جو کافی دنوں سے اس کے دماغ میں موجود تھا۔
“میں نے کئی دفعہ اویس بھائی کے ساتھ کراچی کا چکر لگاتی ۔ اس ایڈریس پہ جاتی جہاں ہمارا گھر ہوا کرتا تھا مگر وہ گھر انہوں نے بیچ ڈالا تھا۔ جہاں جہاں ہو سکا میں نے انہیں ڈھونڈنے کی کوشش کی۔ نان مسلم کالونیز میں جا کےپوچھا لیکن انہوں نے اپنے نام بدل دئیے تھے۔ کوئی ان کو پرانے ناموں سے نہیں جانتا تھا۔ میں جتن کو ڈھونڈتی تھی اور وہ جسپریت کےروپ میں مجھ سے نفرت کرتا تھا۔” امّی نے اسے تفصیل بتا دی۔ وہ خاموشی سے گاڑی سے باہر دیکھنے لگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ اس کا بچنا مشکل ہے۔ اس کی پسلیاں ٹوٹ گئی تھیں۔ اس کا پورا وجود پٹیوں میں جکڑا ہوا تھا۔ اس نے ہوش میں آتے ہی اویس کو بلایا تھا۔ اویس نے اسے بتا دیا تھا کہ چندریکا برسوں سے وہ کردار نبھا رہی تھی جو شاہ احمد نے اسے دینا چاہا تھا۔ نجلہ کی تربیت وہ اپنے طور سے کرنا چاہتا تھا اور چندریکا راستے سے ہٹ گئی تھی۔ وہ اویس کے ساتھ صبح سے شام تک ہسپتال میں رہتی۔ ذہنی مریضوں کا خیال رکھتی اور شام کو اس کے ساتھ گھر آجاتی۔ اس کےبیوی بچے اس کے ساتھ کافی خوش تھے۔ اسلام قبول کر کے اس نے اپنا نام جہاں آراء تبّسم رکھ دیا تھا۔
“میں بچوں گا نہیں اویس! میں اس سے نکاح کرنا چاہتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں میرے بعد وہ محفوظ رہے۔”
“میں بھی یہی چاہتا ہوں شاہ! تم نکاح کرلو اس سے۔۔۔ تم ٹھیک ہو جاؤگے ان شاءاللہ۔”
“میں مروں گا تو اللہ مجھ سے خوش ہو کے تو ملے گا نا؟” اس نے سوالیہ نظروں سے اویس کو دیکھا۔ “اللہ کو ابراھیمؑ کا شیطان کو کنکریاں مارنا بھا گیا تھا۔ مین بھی عمر بھر اپنے نفس کو کنکریاں مارتا رہا۔ میری بخشش تو ہو جائے گی نا؟ ہمارے شاہی خاندان کے سبھی لوگ اپنی شان بڑھانے کے لئے ملازموں کے قافلے ساتھ لئے پھرتے تھے، میں اکیلا ہی پھرا کرتا تھا۔ وہ مجھے بخش تو دے گا نا؟ میرے ابا خود کو ‘ہم ‘ بلاتے تھے۔ کھانا کھاتے وقت ملازموں کو خدمت کے لئے کھڑا رکھتے تھے۔ میں نے ایسا کچھ نہ کیا۔ عام انسان تھا۔ عام بن کے جیا۔ مجھے اللہ کی رحمت میں پناہ ملے گی؟” وہ روتا رہا۔ اویس اس کا ہاتھ تھامے خاموشی سے اس مرتے آدمی کی باتیں سنتا رہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“چندریکا غائب نہیں ہوئی تھی۔ اسے غائب کیا گیا تھا۔” اماں بیگم صحن میں کھڑی آسمان کو دیکھتی رہیں۔ ان میں شاید اس سے آنکھ ملانے کا حوصلہ نہیں تھا۔
“کیا مطلب؟ کس نے اسے غائب کیا؟” وہ حیران ہو گیا۔
“میں نے۔ سیج رام کے ساتھ مل کر۔۔۔” انہوں نے تسلیم کرلیا۔ “اب بولو شاہ احمد اورنگزیب! ہوتی ہےہر گناہ کی معافی؟ اگر ہوتی ہے تو بول دو معاف کردیا۔” وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے انہیں دیکھتا رہا۔ “سوتیلی مائیں برباد کر دیتی ہیں۔” اسے پچھلی دفعہ کہی گئی ان کی بات یاد آگئی۔ وہ حیرت سے انہیں دیکھنے لگا۔ واقعی اس عورت نے برباد کر دیا تھا اسے۔
“جائیں۔ معاف کردیا آپ کو۔” وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے چلا گیا۔ وہاں مزید رکتا توارادہ بدل دیتا۔ پچھلی دفعہ کئے ہوئے اپنے وعدے کے مطابق ان کو معاف نہ کر پاتا اور یہ کہاں ممکن تھا کہ وہ وعدہ توڑ دیتا؟ وہ شاہ احمد اورنگزیب تھا!
“تم سے ملوں گا تو موت تک یہ احساسِ جرم میرے ساتھ رہے گا کہ تم اگر آج بے گھر ہو تو میری وجہ سے۔ اجڑی ہوئی ہو تو میری وجہ سے کیونکہ تمہیں مجھ سے محبت تھی اور اماں بیگم کو مجھ سے نفرت تھی۔ ان کی اسی نفرت نے ہرا دیا تمہاری محبت کو۔” اس نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے سوچا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“یہ ہے وہ علاقہ جہاں رات کے اندھیرے میں بھاگتے بھاگتے میں پہنچی تھی۔ سربجیت سنگھ کا علاقہ۔۔۔ ہند!” امّی نے چلتی گاڑی سے باہر دیکھتےہوئے اسے بتایا تھا۔
“میں بھی عجیب ہوں۔ وہ زندہ تھے تو ان کو باپ سمجھ کر ان پہ حق جتاتی رہی اور اب وہ مر گئے ہیں تو ان کے گھر پہ حق جتانے جا رہی ہوں۔” اس نے افسردگی سے سوچا۔ “کیا تھا وہ شخص۔۔۔ زندگی بھر اوروں کے لئے خود کو قربان کرتا رہا اور آخر میں اس کے لئے کیا بچا؟” اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
محل میں ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔ شبینہ بیگم خود محل کے باہر ان کا استقبال کرنے کے لئے کھڑی تھیں۔ جہاں آراء سے ملنے کے بعد انہوں نے نجلہ کو گلے لگایا اور دیر تک اسے سینے سے لگائے رکھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کا نکاح ہو گیا تھا۔ وہ ہسپتال کے کمرے میں داخل ہوئی تو وہ آنکھیں بند کئے ہوئے تھا۔ اسے لگا وہ سو رہا ہے۔ اپنا عبایا اتار کر اس نے صوفے پر رکھ دیا اور سلیقے سے دوپٹہ اوڑھ کر اس نے ایک گرم چادر اپنے کندھے پہ ڈالی اور اس کے بیڈ کے پاس رکھی کرسی پہ بیٹھ کر اس کے جاگنے کا انتظار کرنے لگی۔
“؎ سنا ہے ربط ہے اس کو خراب حالوں سے۔۔
سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں۔” وہ سرگوشی میں بولا۔ وہ سن نہ پائی، اس کوفکرمندی سے دیکھنے لگی۔ “آپ ٹھیک ہیں؟ آپ کو کچھ چاہیئے
؟”
“؎ سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھرتے ہیں۔۔
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں۔” وہ مسکرایا۔
“؎ سنا ہے رات اسے چاند تکتا رہتا ہے۔۔
ستارے بامِ فلک سے اتر کے دیکھتے ہیں۔۔۔” اس نے بڑے غور سے اس کا چہرہ دیکھا۔ آج اس نے نگاہیں نہیں جھکائیں۔ آج اس پہ کوئی پابندی نہیں تھی کیونکہ آج اس کے سامنے چندریکا کور نہیں جہاں آراء تبّسم بیٹھی تھی! بڑے سلیقے سے دوپٹہ سر پہ لئے، چادر کندھے پہ ڈالے وہ اس کے سامنے بیٹھی تھی۔
“؎ سنا ہے دن کو اسے تتلیاں ستاتی ہیں۔۔
سنا ہےرات کوجگنو ٹھہرکےدیکھتےہیں۔” وہ اسے دیکھتا رہا۔ وہ وہی معصوم لڑکی تھی۔ وہی حساب کی کچی، وہی غروبِ آفتاب کی سی آنکھوں والی۔۔۔ سیاہ لمبے بالوں والی۔۔۔ چھ چھکے چھتیس کو چوبیس سمجھنے والی۔۔۔
“؎ سنا ہے اس کے بدن کی تراش ایسی ہے۔۔
سو پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں۔” اس نے دیکھا اس کی دھودھیا رنگ پیلی پڑ گئی تھی۔ اس کی چمک دار آنکھیں ویران تھیں اور اس کے گلابی ہونٹ خشک تھے۔ وہ خزاں رسیدہ پتے کی مانند تھی۔ بہار کے گزرنے کے بعد اپنی تمام تر تازگی اور حسن کھو چکی تھی پھر بھی اس کے دل کے قریب تھی۔ اس کی محبت تھی۔ اس کے دل کا سکوں تھی۔ آج بھی معززاورپاکیزہ تھی۔
“تم چاند ہو۔ تم نور ہو۔ تم پاکیزگی ہو۔۔۔” وہ بڑبڑایا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج نجلہ کو واپس شہر جا کے لاء کالج میں اپنی پڑھائی جاری رکھنی تھی۔ امّی نے فیصلہ کرلیا تھا۔
اس کے سامان کی پیکنگ مکمل ہو چکی تھی۔ وہ اپنا پرس اٹھا کر کمرے سے نکلی تو امّی بابا کی تصویر کے سامنے کھڑی مسکرا رہی تھیں۔ “اس شخص کی مثال محبت میں میم کی سی تھی۔ اس کے بغھیر محبت مکمل ہو ہی نہیں سکتی تھی۔” اس نے عقیدت سے سوچا تھا۔
“امّی!” نجلہ نے انہیں پکارا۔
“جی۔”
“میں جا رہی ہوں۔”
“چلو۔ فی امانِ اللہ۔” انہوں نے اسے گلے لگایا۔
“پس یقیناً مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔ بے شک مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔” اس کے کان میں کوئی بول رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

3 Comments

Leave a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.