محرابوں میں سمٹا کابل اور دو روشن روحیں “ از ثروت نجیب ___________کابل افغانستان

اے خورشید من کجائی سرد است خانہ من ۔۔۔
( اے میرے سورج کہاں ہو ، میرا گھر ٹھنڈا ہے )
موتی موتی برستی برف ، سفید ہوتا روکھا عالم ، سن سن سنسناتی ہوئی سردی ، کوہ ہندوکش کی پیامبر برفیلی ہوائیں ، ہواؤں میں خنکی کی خوشبو ، لومڑی کے فر سے بنا نسواری کوٹ ،گرما گرم چائے ، دل کو ٹکور دیتی محبت ۔
کیا زندگی واقعی اتنی حسین اور رومانوی ہے ؟

صبح ہوتے ہی ہلچل شروع ہو گئی۔ پڑوسی کی گاڑی کا انجن کجا دروازہ جام ہو چکا تھا ۔ وہ وائپر سے ونڈ سکرین صاف کرتے ہوئے نجانے کیا بڑ بڑا رہا تھا ۔ کچن کے کاؤنٹر پہ رکھی دہی کرسٹل بن چکی تھی ۔ الماری میں رکھی نورس کی بوتل جم چکی تھی ۔ فریج صرف موسم گرما کی ضرورت نہیں بلکہ جاڑے میں اس کی سخت ضرورت پڑتی ہے ۔ نہیں تو پھلوں کے منہ اتر جاتے ہیں ۔ آلو قہر سے کالے ہو جاتے ہیں ۔ ٹماٹر فریز ہونے سے ان کے چھلکے خودبخود اتر جاتے ہیں ۔ گاجروں پہ پھپھوندی لگنے لگتی ہے ۔ آٹا اتنا سخت ہو جاتا ہے کہ بیلن سے بھی نہ بیلا جائے ۔
پہلے زمانے میں عورتیں موسم گرما میں ساری سبزیاں حتی کہ ٹماٹر بھی دھوپ میں سکھا لیتی تھیں ۔ پھر انھیں کپڑے کی تھیلوں میں محفوظ کر دیا جاتا تھا ۔ آلو زمین کے اندر دبا دیتے ۔ اور گوشت کی لاندی بنائی جاتی ۔ تازہ گوشت پہ بہت سا نمک لگا کر اس کو تاروں پہ لٹکا دیا جاتا ۔ستمبر کے آخر یا نومبر میں یہ عمل شروع ہوتا۔ دسمبر تک لاندی تیار ہو جاتی ۔ یعنی گوشت سوکھ جاتا ۔ اب ویسے شہروں میں لاندی منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے بنائی جاتی ہے ورنہ فریج کی سہولت سے اس کی ضرورت نہیں رہی ۔ مگر کابل کے اطراف میں بیشتر گاؤں میں بجلی کی سہولت میسر نہیں وہاں لاندی اب بھی ضرورت ہے ۔
بہت سے گھروں کی تاروں پہ سوکھا گوشت سردی سے نیلا ہو چکا ہے ۔ مگر ابھی تک ارادہ نہیں کہ انھیں اتارا جائے ۔ اس کے اوپر ململ کا کپڑا باندھ کر تاروں پہ لٹکا رہنے دیں شاید جب دل چاہے گا اتار لیں گے ۔ گرم پانی میں بھگو کر نرم کریں گے ۔ دیگ میں ڈال کر شوروہ ( شوربہ ) بنائیں گے ۔ اسی میں روٹی بھگو کر کھائیں گے ۔ اور سردی بھگائیں گے ۔

کابل میں موسمِ زمستانی اپنے عروج کے دن دیکھ رہا ہے ۔ جنوری کے آغاز کے ساتھ ہی ہوا کے تیور تیکھے ، ترش اور خنک تر تو ہو ہی چکے تھے پر آج تو آسمان بھی عیار بن چکاہے ۔کبھی سلیٹی ہو جاتا تو کبھی سیاہ کبھی یہ سیاہی آھستہ آھستہ چھٹنے لگتی اور سفیدی چھا جاتی پر نیلاہٹ تو دیکھنے کو ہی نہیں مل رہی تھی ۔ بادلوں کے نرغے میں آسمان پھر سے پیشن گوئی کرنے لگا کہ برفباری کا امکان ہے ۔ جب محکمہ موسمیات کا ادارہ اور اس کے اسباب ایجاد نہیں ہوئے تھے تب لوگ بادلوں کا رنگ اور ہوا کی خوشبو سونگھ کر بتا دیا کرتے تھے کہ کب ،کس وقت ،کتنی برفباری ہوگی ۔ اب بھی کچھ لوگ ہیں جو موبائل کو ایک طرف رکھ کر کھڑکی کھول کے ہوا کو سونگھ کر بتا دیتے ہیں کہ محکمہ موسمیات کی خبروں میں کتنی سچائی ہے ۔ میں ابھی اتنی تجربہ کار نہیں کہ بتا سکوں برف دو دن بعد ہوگی آج ہوگی کل ؟ یا آسمان یونہی تیور دیکھاتا رہے گا اور بادل چھٹ جائیں گے ۔
ظہر کا وقت گرما گرم کھچڑی سے اٹھتی بھاپ یہاں اشتہا بڑھا رہی تھی تو دوسری جانب سناٹا پھیلنے لگا ۔ اچانک آسمان پہ بلا کی خاموشی چھا گئی ۔ نقرئی تھال سے موتی برسنے لگے جو زمین پہ گرتے ہی پگھلنے لگتے ۔ موتیوں کی مالا کا نظارہ بادلوں کے نیچے اور زمین کے اوپر تک تھا ۔ زمین کی سطح کو چھوتے ہی موتی موم بن جاتے ۔ دھیرے دھیرے موتی کپاس میں بدل گئے ۔ لو جی ایک بار پھر آسمان پہ بُڑھیا چرخہ کاتنے بیٹھ گئی ۔ سڑکیں سنسان ہو گئیں ۔ پرندے نجانےکہاں دبک گئے ۔ ہو کا عالم تھا اور ہُو ہُو تھی چہار سو ۔ برفباری کے موسم میں وقت ٹھہر جاتا ہے ۔ پہر برائے نام بدلتے ہیں لیکن صبح ختم نہیں ہوتی ۔ چوبیس گھنٹے صبح ہوتی ہے یا سرمئ سا دھندلکا لیکن دوپہر ، عصر شام اور شب ندارد ۔ بس خاموشی کی بکل مارے اکیلی اداس صبح ۔۔۔ تب ساری کھڑکیاں فریم بن جاتی ہیں اور سب زندہ مصوری کا پراسرار نظارہ کرتے ہیں ۔ نسواری شاخوں پہ برف در برف کی تہیں جمنے لگیں ۔ شام تک یہ سلسلہ چلتا رہا ۔ البتہ شام نہیں ہوئی صرف شام کی اذانیں سنائی دیں ۔ باہر سفید ، الوہی روشنی تھی ۔ سناٹے میں سیاہی کی آمیزش سے وحشت کا خوف ہو ، ایسا تو کچھ بھی نہیں تھا ۔ پراسرایت کے بھید کھلنے کے بجائے آسمان مزید روشن ہونے لگا ۔ جسے ٹکٹکی باندھ کر مسلسل دیکھا جائے تو آنکھیں خیرہ ہونے لگیں ۔ کھڑکی کے پردے گرا دینے سے موسم نہیں بدلتے نا ہی آنکھیں موند لینے سے سچائی چھُپتی ہے ۔ میں نے کھڑکی کھول لی رات کے آخری پہر میرے گال ٹھنڈ سے تڑکنے لگے ۔ مجھے ایبٹ آباد میں ٹین کی چھت پہ برسنے والی بارشیں یاد آ گئیں ۔ تڑ تڑ تڑ گرجنے والی بارشیں ، بجلی چمکنے والی بارشیں ۔ بارش میں ردھم ہے ، شور ہے ۔ ہر چیز جلترنگ بجاتی ہے ۔ شوخ و شنگ ۔ اپنے ساتھ سب کچھ بہا لینے والی بارشیں ۔ کبھی یادوں اور آنسوؤں سے لبریز سوگوار بارشیں تو کبھی چھئی چھپا چھئی کرتی پکوان کی سوندھی خوشبوؤں میں رچی خوشگوار بارشیں ۔
بارشیں رقص کرتی ہیں جبکہ برف رقص کرواتی ہے ۔ اس میں سکوت ہے ، ٹھہراؤ ہے ، نرماہٹ ہے اور منوں من سرد مہری ۔ مانو تو بارش عاشق کی طرح ہوتی ہے اور برف معشوق جیسی ۔

الوہی نور سی روشنی جس کا ہالہ نہیں تھا چاروں طرف پھیل چکی تھی ۔ تب مجھے لگا کھڑکی کے سامنے جیسے حضرت جبر آئیل اپنے پر کھولے رات کو معجل بنا رہے ہیں ۔
اُس کی یادیں وحی کی طرح میرے اوپر اترنے لگیں ۔

۔
محبت کے سارے شعر بارشوں پہ لکھنے والو !
کاش تم سب کے سب امشب میری کھڑکی میں آؤ تو بے اختیار کہنے لگو :
“ برف گرتی رہی ساز بجتے رہے “
دل کہ جس کی تھاپ پہ عشق محو رقصاں ہو ۔

نیچے پارکنگ میں سبھی گاڑیاں محمود و ایاز بن چکی تھیں ۔ ایک ہی صف میں کھڑی برف بنی موسم کو کوس رہی تھیں ۔ مرسیڈیز ، کرو لا ، آلٹو سب کی شناخت پہ برف جم چکی تھی ۔ بس سفید ہیت دیکھائی دے رہی تھے ۔ البتہ پجارو اور لینڈ کروزر سینہ پُھلائے لحیم شحیم بندہ اور بندہ نواز کا فرق سمجھا رہی تھیں ۔ تاروں پہ لٹکے کپڑے برف بن چکے تھے ۔ برف کی جیکٹ ۔ برف کا کوٹ برف کی قمیص ، برف کی چادریں اور برف کی جرابیں ۔ ایک تار پہ برف کا بھالو بھی لٹک رہا تھا ۔ وہ ہائبرنیشن میں جا چکا تھا ۔ کتنا کیوٹ ، کتنا سفید ۔ اس کے کانوں پہ لگے کلپ بھی برف بن چکے تھے ۔ یہ کپڑے اب دھوپ نکلنے تک یونہی لٹکے رہیں گے ۔ میں یہ سوچ کر مسکرائی کہ اس کھلونے کا مالک بچہ اپنے نسواری بھالو کو پولر بئیر بنتے دیکھ کر تب تک کتنا خوش ہوتا رہے گا جب تک برف ٹپ ٹپ کرتی پگھل نہ جائے ۔

برفباری کے موسم کو کمرے کی کھڑکی میں قید کرنا ظلم ہے ۔
مگر سچ تو یہ ہے کہ یہاں بہت سی لڑکیوں کی زندگی کھڑکی کے پیچھے فریم میں فٹ ہوتی ہے ۔ کھڑکی بدل جاتی ہے مگر زندگی نہیں بدلتی۔ نئے گھر کے نئے در و دیوار میں وہ پرانی کھڑکیوں کو بھی ترس جاتی ہیں کہ شادی سے پہلے یہ بھی ایک بڑی عیاشی ہوا کرتی ہے ۔کھڑکی میں بیٹھ کر باہرکے نظارے کرنا ، دوسروں کو آزاد دیکھ کر رشک کرنا اور تھوڑا بہت محظوظ ہونا ۔ شادی کے بعد اس کی فرصت بھی نہیں ملتی تب عورتیں کھڑکیاں صاف کرنے کے لیے ان کے قریب آتی ہیں یا باہر کھیلتے بچوں کو آواز دینے کے لیے کھڑکیاں کھول کر جھانکتی ہیں ۔
میں نے کھڑکی بند کر دی ۔ ایک تو یہ دل بھی بہت بری چیز ہے کسی بھی موسم کو پل میں پت جھڑ بنا کر ریزہ ریزہ اداسی جھڑنے لگتا ہے ۔
بستر پہ لیٹتے ہی وہ ستارے یاد آنے لگے جنھیں بچپن میں گنتے گنتے نیند آیا کرتی تھی ۔
بھیڑیں گننے سے گنتی بیس پچیس سے اوپر نہیں جاتی اور بھیڑیں بدک جاتی ہیں ۔
نری بوریت ۔۔۔۔
بوریت اچھی نیند کا مجرب نسخہ ہے ۔
ایک اور صبح ایک اور شُغل ۔۔۔۔۔
خوشگوار موسم میں برفباب سڑکوں پہ آوراگی راس آتی ہے ۔ اس سے پہلے کہ دھوپ نکلے مجھے پغمان کی پہاڑیوں کو چھونا تھا ۔ پغمان کیا ہے ؟ سمجھ لیں !
کوہ ہندوکش کے قدموں میں بیٹھی ایک حسین سی داسی ہے ۔ کہا جاتا ہے اتنا سبزہ پورے کابل میں نہیں جتنا صرف اس ننھی سی بستی میں ہے ۔ برف پوش پہاڑوں کے دامن میں سر سبز و شاداب ایک صحت افزا مقام جہاں ہر موسم میں لوگ گردوغبار جھاڑنے آتے ہیں ۔ ایک ایسی جگہ جہاں دنیا کے غم بھول کر قدرت کو سراہنے کا وقت ملتا ہے ۔ اڑتی ہوئی ابابیلیں اور نیکی چڑیاں ، سنہری دم والے پنچھی اور قسمت قسم پھول ، گو کہ موسم سرما میں وہ بھی برف سے ڈھک جاتے ہیں پر برف پگھلتے ہی پھر سے نمودار ہو جاتے ہیں ۔ میوے سے لدے درختوں ، خوشبوؤں اور تتلیوں کا خطہ ہے ۔ یہاں آبادی کم ہے بھیڑ بھاڑ نہیں ہوتی ۔ صرف سیاح ہوتے ہیں اور نظارے ۔ ولسوالی پغمان ، کابل کا ایک ضلع ہے جو کابل سے محض بیس منٹ کی ڈرائیو پہ ہے ۔ یعنی بیس منٹ بعد گرمی ، ٹھنڈ میں اور ٹھنڈ برف میں بدل جاتی ہے ۔ مشہور دریا کابل کا منبع پغمان ہی ہے ۔ جب گلیشئرزر پگھلتے ہیں تو دریا ٹھاٹھیں مارنے لگتا ہے ۔

اٹھارویں صدی میں تب یہ ایک عام سا دیہی علاقہ تھا جہاں پشتون اور کچھ تاجیک گھرانے ہنسی خوشی رہا کرتے تھے ۔ باغات اور کھیتی باڑی پہ گزارہ کرتے ۔ ریوڑ پالتے اور انھی سے خوراک لیتے ۔ مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر کی کتاب بابر نامہ میں بھی پغمان کا ذکر اس کی خوبصورتی کی وجہ سے کیا گیا ۔ احمد شاہ ابدالی کے بیٹے تیمور شاہ درانی کے دور میں جب کابل دارالحکومت بنا تو پغمان سیاحی مرکز بن گیا ۔ کنگ امان اللہ خان کے دور میں اس وادی کے بھاگ بھرے آخر کو پغمان اس کی جائے پیدائش تھا ۔ جب سن 1928 میں کنگ امان اللہ خان اور ملکہ ثریا مغرب کے دورے سے واپس آئے تو انھوں نے کابل کو ری ڈئزائن کرنے کا سوچا ۔ صرف عمارتیں ہی نہیں خیالات بھی ری ڈیزائن ہوئے ۔ تقریباً سات ماہ تک یورپ بشمول ترکی مصر اور ایران میں پرتعیش دن گزارنے کے بعدکنگ امان اللہ خان کو احساس ہوا کہ ملک کو جدید تعلیمی نظام اور روشن خیالی کی اشد ضرورت ہے ۔ آکسفورڈ سے اعزازی ڈگریاں لینے والے کنگ اور کوئین کی آنکھوں میں ایک جدید افغانستان کا خواب پنپنے لگا۔ ترکی میں ان دنوں کمال اتاترک ، مصر میں کنگ فواد ایران میں رضا پہلوی جدت کی طرف راغب تھے ۔ کنگ نے پغمان میں جدید یورپی طرز کی مسجد بنوائی اور فرانسسی طرز Arc de Triomphe جیسا ایک دروازہ بنوایا جس کا نام طاق ظفر رکھا گیا ۔ دس افغانی کے نوٹ پہ طاق ظفر کی تصویر ہر روز مختلف ہاتھوں میں گردش کرتی رہتی ہے ۔ یہاں مغربی طرز کے شیلے بنے ، گالف کورس اور لکڑی کے خوبصورت ہٹ ۔ وسیع باغات ،پھولوں سے لدے پارک ۔ پارک کہ جن میں مر مر کے فواروں سے اچھلتا پانی ، جگہ جگہ نصب حسین مجسمے ۔ مرمریں راہداریاں جن کے اردگرد پھولوں کی کیاریاں اور کیاریوں پہ اڑتی رنگین تتلیاں ، تتلیوں کے تعاقب میں منچلے بھنورے ۔ ہائے وہ باغات جن کو دیکھنے یورپ سے سیاح آتے تھے ۔ ہائے وہ امن کے روزوشب کہ جب منی سکرٹ پہنے لڑکیاں فوکسی سے اترتیں اور دسترخوان سجا کر پھلوں سے لدی ٹوکریوں سے میوے کھاتیں ، خوش گپیاں کرتیں اور شام ڈھلے واپس چلی جاتیں ۔ یکم ستمبر 1928 کو کنگ امان اللہ خان نے پغمان میں تو لویہ جرگہ بلایا ۔ پورے ملک سے تمام علماء ، ملک ، خان اور سکالرز کو مدعو کیا گیا۔ اُدھرمُلک کے کونے کونے سے بزرگ و معتبر حضرات بھاری بھرکم پگڑیاں پہنے ہال میں جمع ہوئے اِدھر خود کنگ امان اللہ تھری پیس سوٹ میں ملبوس اپنی حسین و جمیل ملکہ کا بازو کہنی میں لٹکائے جب جرگے میں حاضر ہوئے تو اکابرین کے منہ کھلے کھلے رہ گئے ملکہ نے سکرٹ پہن رکھی تھی چہرے پہ برائے نام ہلکا سا لہراتا نقاب ہائی ہیل میں وہ ٹک ٹک کرتی ، مسکاتی ہوئی داخل ہوئیں تو یہ سب دیکھ کر حاضرین میں بیٹھے بھاری بھرکم پگڑیوں والے بزرگوں کے گال غصے اور شرم سے تمتمانے لگے ۔ ان کی عورتیں تو عورتوں سے منہ چھپاتی تھیں ۔ انھوں نے کبھی عورت کو یوں کھلے عام نہیں دیکھا تھا یہ تو پھر ملکہ تھیں ۔ جرگے میں کھسر پھسر شروع ہو گئی ۔
کنگ نے آئین میں جو ترامیم کرنا چاہیں وہ الگ حاضرین کے لیے گلے میں اٹک گئیں ۔ ۔
افغانستان کا جھنڈا سیاہ سے سہ رنگے میں بدل گیا ۔ کثیر ازدواج پہ پابندی لگا دی گئی ۔ صرف ایک شادی پہ اکتفا ، عورتوں کے قدیم لباس اور پردے کو متروک کرنا ، عورتوں کی تعلیم اور مغربی لباس یہ سب اکابرین کے لیے قابل قبول نہ تھا ۔

پغمان سوئٹزلینڈ بن چکا تھا ۔ پارکوں اور باغوں میں لڑکیاں چست جینز پہنے چہلیں کرتی پھرتیں ۔ لڑکے داڑھی مونچھ منڈھوائے ہیپی بنے گھوم رہے تھے ۔
کابل جدت میں پیرس سے چار ہاتھ آگے نکل چکا تھا ۔
ملک کے دیگر علاقوں میں رہنے والے لوگوں کے لیے بادشاہ اور ملکہ سمیت کابل کے باسیوں کے نئے اور جدید رنگ ڈھنگ دیکھ کر دنگ تھے ۔ انھیں اپنے ہی ملک میں ایسے اجنبیت محسوس ہوئی جیسے وہ دارالحکومت کابل نہیں ویانا یا پیرس میں آ گئے ہوں ۔
جہاں خواتین ٹک ٹک کرتی ہیل پہنے کہنی پہ پرس لٹکائے دفتر جا رہی تھیں ۔ ان کی سیاہ منی سکرٹ سے جھانکتی سفید ننگی ٹانگیں دیکھ کر علماء سر پکڑ کر بیٹھ گئے ۔
کابل کی لمبی چوڑی کشادہ سڑکوں پہ ٹرام چل رہی تھی ۔
لڑکوں اور لڑکیوں کے کاسموپولیٹن سکول کھل چکے تھے ۔ حقوق نسواں کا برابری کی سطح پہ دورہ دور تھا ۔
ملکہ ثریا تعلیم کی وازرت سنبھالتے ہی لڑکیوں کو سکالرشپ پہ ترکی بھیج چکی تھیں۔ انھوں نے خواتین کے لیے ایک رسالہ نکالا ۔ عورتوں کو ادب اور فنون سے جوڑا ۔ ایک تقریب میں ملکہ نے اپنا ریشمی نقاب اتار کر پھاڑ دیا ۔انھیں لگتا تھا پردہ ترقی کی راہ میں بڑی روکاوٹ ہے ۔ اس قید سے عورت نکلے گی تو ملکی سطح پہ کار ہائے نمایاں انجام دے گی ۔ وہ خود آرمی کی پریڈ میں بھی بادشاہ کے ساتھ ہوتیں ۔ کیبنٹ کی میٹنگز میں بھی شامل ہوتیں ۔ وہ گھڑ سواری کی شوقین ، جدید تراش خراش کے لباس پہننے والی خوش باش باشعور خاتون تھیں ۔ کابل کی خواتین کو آزدی اظہار اور روزگار دینے میں ملکہ کا ہی کردار نمایاں تھا ۔
پانچ روزہ جرگہ جیسے تیسے ختم ہوا محفل برخاست ہوتے ہی ۔ اکابرین نے گٹھ جوڑ کیا اور ملی بھگت سے ایک لمبا چوڑا شکایت نامہ حضرت آف شور بازار کے ہاتھوں بادشاہ کو بھیجا گیا جس پہ چار سو مذہبی رہنماؤں کے دستخط تھے ۔ جس پہ شاہی ڈریس کوڈ کے خلاف اعتراضات تھے ۔ کنگ امان اللہ خان جو ملک کو مغربی طرز کی روشن خیالی دینے کے لیے دن رات کوشاں تھا ملول ہوا ۔ اس نے حضرت آف شور بازار اور اس کے حامیوں کو قید کرنے کے بعد پھانسی دے دی ۔ اس پھانسی نے مذہبی رہنماؤں کے جذبات کو بہت مجروح کیا اور انھوں نے افواہ پھیلا دی بادشاہ کافر ہو گیا ہے ۔ جنگل کی آگ کی طرح افوہ پھیلنے لگی ۔ شہروں اور قصبوں کو جب اس زہریلی افواہ نے مکمل لپیٹ لیا ۔ مذہب بدترین زریعہ انتقام ہے۔ کسی بھی وقت کسی پہ بھی فتوی صادر کر کے اسے دار پہ لٹکانا کتنا آسان ہے ۔ اسی آسانی نے بہت سے لوگوں کی زندگی مشکل کر دی ۔ یوں عوام نے تہہ تک سوچنے کی کوشش ہی نہ کی اور غم آؤ غصے سے بھر گئے کہ بادشاہ کافر ہو گیا ہے ۔ انجام 1929 میں باغیوں نے حکومت کا تختہ پلٹ دیا ۔ اور بیچارہ بادشاہ ۔ ۔۔
اٹلی میں اپنے خاندان سمیت جلاوطنی کے دن گزارنے پہ مجبور ہوگیا ۔
کہتے ہیں خون کی روانی سارے جسم میں ایک سی ہونی چاہیے نہ ہو تو فالج ہونے کا خطرہ ہو جاتا ہے ۔ جسم کی کم خون حصہ سُن ہو جاتا ہے ۔ ایسے ہی صرف چند علاقوں کی عوام کو باشعور کرنا اور باقی پہ کام نہ کرنا یا دیر سے کام کرنے کا سوچنا بہت سے خطرات کو جنم دیتا ہے ۔

بادشاہ سے با یہی غلطی ہوئی تھی ۔ وہ کمال اتاترک کے نقش قدم پہ نہ چل سکا ۔ تازہ اور صاف خون صرف کابل سمیت بڑے شہروں میں گردش کرتا رہا ۔
بادشاہ کے جاتے ہی آوے کا آوہ ہی بگڑ گیا ۔ ( یہ کہانی پھر سہی )۔
پغمان اُن دنوں امراء اور روساء کے لیے ایک بہترین تفریحی مقام تھا اور آج بھی ہے ۔ اب نئی عمارتیں عوام کی توجہ اپنی طرف کھینچتی ہیں ۔ چنار ،صنوبر ، پائن اور نٹ کے درختوں سے بھرے باغات ۔ ان باغات میں کرزئی دور حکومت میں ایک قصر کا اضافہ کر دیا گیا ۔ قصر کیا ہے بابل کے لٹکتے باغات جیسا وسیع و عریض صحت افزا مقام ہے۔ پچاس افغانی کی ٹکٹ کے عوض جب قصر کے بڑے بھاری بھرکم دروازے کھلتے ہیں تو لگتا ہے جیسے غلطی سے پرستان میں قدم رکھ دیا ہو ۔ ابھی آدم بُو آدم بُو کرتا کہیں سے کوئی دیو نکل آئے گا۔ یہ قصر کرزئی کے دور میں جب بن رہا تھا تو عوام میں ایک تذبذب تھا ۔ بہت سے لوگ خطیر رقم سے بننے والے اس قصر کے حامی نہ تھے ۔ انھیں لگتا تھا کہ ایک غریب اور دھشت گردی سے دوچار ملک کو اپنے خزانے کا مُنہ پرتعیش عمارتوں کے لیے نہیں کھولنا چاہیے ۔ حکومت کا موقف تھا کہ جشن اور سرکاری تقریبات منانے کے لیے انھیں عالمی معیار کے مطابق ایک ایسی عمارت کی اشد ضرورت ہے جو بعد از آں عوام کے لیے بھی کھولی جا سکے ۔ تُو تُو میں میں کرتے کرتے قصر بن گیا ۔ عمارت کو افغانستان کی دستکاریوں اور افغان قالینوں سے سجایا گیا جبکہ بیرونی حصے میں باغ اور فوارے لگائے گئے ۔ ہزاروں نئے درختوں کا جنم ہوا ، بیشمار پرندوں کے آشیانے بنے ۔ قسم قسم کے پھولوں پہ بیٹھی تتلیاں ضرور کرزئی کو دعا دیتی ہوں گی ۔ بز کشی کا میدان اور آبشار توجہ کا مرکز ہیں ۔ مین میکھ نکالنے والے معترض حضرات بھی اب اس قصر میں سیر کرنے آتے ہیں ۔ بہار تو بہار قصر کا توموسم سرما بھی بہت خوشگوارہوتا ہے ۔ مرمر کی محرابیں اور ستون عہد رفتہ کی یاد دلاتے ہیں ۔ میلوں وسیع باغ میں جب برف پڑتی ہے تو زینے ، ستون ، دروازے ، محرابیں سب کے سب برف میں دبے شہزادی ایلسا کا سفید محل لگتے ہیں ۔ میں نے سینکڑوں زینے چڑھ کر بالائی باغ میں کھڑے جب ان ٹھنڈے مرمریں سفید ستونوں سے جھانک کر نیچے دیکھا تو وادی کابل سفید آنچل میں لپٹی حسین دوشیزہ کی مانند محسوس ہوئی ۔ اس کے آنچل سے کئی زندگیاں بندھی ہوئی ہیں اور اس کی چولی کے پیچھے کئی دل دھڑکتے ہیں ۔ وہ جب اپنا آنچل ہوا میں لہراتی ہے تو بہار آتی ہے ۔ جب آنچل سمیٹ لے تو پت جھڑ کا موسم شروع ہو جاتا ہے اور جب چلمن سے درشن دیکھاتی ہے تو نور ہی نور پھیل کر وادی کو سفید کر دیتا ہے ۔
محرابوں کے پیچھے دیکھا تو آسمان سے سفید پریاں اتر کر بچھی ہوئی وادی کو ڈھانپ رہی تھیں ۔ ان پریوں میں کہیں ایک ملکہ ثریا بھی تھیں ۔جو چراغ ہاتھ میں لیے اب بھی روشنی کرنے کابل کی ہر اس کھڑکی پہ دستک دیتی ہیں جس کے پیچھے کھڑی لڑکی حسرت سے باہر کا نظارہ کرتی ہے ۔ میں بھی کئی ماہ سال کھڑکی میں قید رہی اور سوچا کرتی تھی کسی ملک میں جنم لیا ہوتا تو شاید کھڑکی سے باہر ہوتی ۔ جہاں بم دھماکے ہوتے ہیں نا ٹارگٹ کلنگ ۔ میرے کاش کو توڑ کر ایک ایسی ہی بے بس شب میں مجھے ملکہ نے قلم دیا تھا ۔ میں اب خوش ہوں میں اس ملک میں پیدا ہوئی ، کہیں اور ہوتی تو شاید آج میرے ہاتھ میں یہ قلم نہ ہوتا ۔ میں نے پغمان سے واپسی کی راہ لی ۔ گمنام دکھ سینے میں سرایت کر چکا تھا ۔ میری آنکھوں میں برف کی نمی تھی ۔ گزرتی ہوئی گاڑی کے ہر دوڑتے نظارے میں بادشاہ کا چہرہ دیکھائی دے رہا تھا ۔ پغمان کے ہر گلی کوچے میں ان کی آہٹ محسوس ہو رہی تھی ۔ وہ نور کا ہیولا بن کر اس وادی میں اترتے ہیں جیسے کہ سالوں پہلے کبھی اترے تھے ۔ سنا ہے روحیں پرانے گھروں میں واپس آتی ہیں مگر واپسی کے راستے بہت کھٹن ہوتے ہیں ۔ سب کچھ بدل چکا ہوتا ہے ۔

گاڑی کی کھڑکی کے شیشے پہ برف جمنے لگی ۔ یادیں شفاف ہو گئیں اور منظر دھندلا گئے ۔
“انوکھا ربط “
برف میرے چہرے پہ بوسے ثبت کرتی ہے ۔ میں اسے سینے سے لگانے کو باہیں کھول دیتی ہوں ۔
بہار کے شکوفوں سے جو دکھ چھپا کے رکھے تھے ، جب بھی برف پڑتی ہے سب اس کو بول دیتی ہوں ۔
جب برف بن کے محبت ، نور کی صورت پھیلنے لگتی ہے آنگین میں ۔
اسے یوں محسوس کرتی ہوں ،میں آنکھیں بند کر کے گھر کی ساری کھڑکیاں کھول دیتی ہوں ۔
بے ثبت سے انوکھا ربط کرتی ہے ۔
برف میرے چہرے پہ بوسے ثبت کرتی ہے ۔

_______________

تحریر و فوٹوگرافی: ثروت نجیب

4 Comments

  1. کمال است۔

    واہ۔ بہت خوب۔
    کچھ جملے تو یاد رہ جانے والے ہیں۔

    کھڑکی کے پردے گرا دینے سے موسم نہیں بدلتے نا ہی آنکھیں موند لینے سے سچائی چھُپتی ہے

    اس میں سکوت ہے ، ٹھہراؤ ہے ، نرماہٹ ہے اور منوں من سرد مہری ۔ مانو تو بارش عاشق کی طرح ہوتی ہے اور برف معشوق جیسی ۔

    صرف عمارتیں ہی نہیں خیالات بھی ری ڈیزائن ہوئے

    کہتے ہیں خون کی روانی سارے جسم میں ایک سی ہونی چاہیے نہ ہو تو فالج ہونے کا خطرہ ہو جاتا ہے ۔ جسم کی کم خون حصہ سُن ہو جاتا ہے ۔ ایسے ہی صرف چند علاقوں کی عوام کو باشعور کرنا اور باقی پہ کام نہ کرنا یا دیر سے کام کرنے کا سوچنا بہت سے خطرات کو جنم دیتا ہے

    Liked by 1 person

    1. صرف چند فقرے۔۔۔ہم نے تو تحریر کے ایک ایک لفظ کا لطف اٹھایا ہے۔ثروت نے افغانستان کی داستان پرستان کی داستان سے بھی بہتر بنا دی ہے۔

      Liked by 1 person

Leave a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.