تحریر: شازیہ خان
کور ڈیزائن: طارق عزیز
وہ رات بھر یہی سوچ کر روتی رہی کہ بس اب زندگی کی خوشیاں اس کے ہاتھوں سے نکل گئی ہیں۔ تمام عمر مردہ دلی سے ایک ایسے شخص کے ساتھ زندگی گذارنا پڑے گی جس سے اس کا دل کبھی نہیں ملا۔ وہ ساری رات خود کو کوستی رہی کہ اس نے کبھی محبت کی خواہش ہی کیوں کی۔۔۔کیوں چاہا کہ وہ چاہی جائے۔۔۔ کیوں ایسے راستے پر چلنے کی خواہش کی جس کی ہر گلی،ہر چوراہے پر ناکے لگے تھے۔۔۔جس کا اختتام سوائے درد کے کچھ نہ تھا۔۔۔ عمر آفندی آخر اس کی زندگی میں آیا ہی کیوں؟۔۔۔ اور اگر آیا تھا تو دونوں کے راستے مشترک کیوں نہ ہو پائے۔۔۔ مگر اس سوالیہ نشان سے آگے اس کی ساری سوچ محدود تھی۔۔۔اور کب صُبح ہوئی اُسے معلوم نہ ہوسکا۔سارے مہمان رات کو چلے گئے تھے۔۔۔ وہ کمرے سے اُٹھ کر باہر آئی تو صحن بالکل یوں صاف تھا۔ جیسے یہاں رات کو کوئی تقریب ہی نہ ہوئی ہو۔۔۔ ماموں جان جانے سے پہلے اپنے ملازمین سے تمام صفائی ستھرائی کروا کر گئے تھے۔۔۔ وہ خاموشی سے صحن میں پڑی چارپائی پر آکر بیٹھ گئی۔۔۔ اماں اور ابا شاید دوبارہ ناشتہ کر کے لیٹ گئے تھے۔یہ کیسی شادی تھی۔۔۔ شادی والا گھر تو کسی صورت نہیں لگ رہا تھا۔۔۔ بالکل اس کے دل کی طرح ویران۔۔۔ کوئی ہنسی،کوئی قہقہہ اور نہ کوئی خوشی۔۔۔ کہیں موجود نہ تھی۔۔۔ گھر میں اور ناہی اس کے دل میں۔۔۔ اس نے موبائل اُٹھا کر دیکھا میسج باکس میں کوئی نیا میسج بھی نہ تھا۔۔۔ اسے یکدم سیما کا خیال آگیا۔ رات کی تقریب میں سیما نہیں تھی۔ باقی کالج کی ساری فرینڈز تھیں۔۔۔ سیما نے عمر کو میری شادی کے بارے میں بتادیا ہوگا۔۔۔ہو سکتا ہے اسی نے سیما کو بھی مایوں میں آنے سے منع کر دیا ہو۔۔۔۔
وہ اسی طرح کے الٹے سیدھے خیالوں کے ساتھ کافی دیر تک دھوپ میں بیٹھی رہی ناشتہ کرنے کا بھی دل نہیں چاہ رہا تھا۔ مگر چائے کی طلب نے بے چین کر دیا وہ اُٹھ کر کچن میں آگئی۔۔۔ چونکی تو اس وقت جب دروازے پر دستک ہوئی۔۔۔ لیکن اس نے دروازے پر جانا مناسب نہ سمجھا اور چائے کا کپ لے کر اپنے کمرے میں آگئی۔مایوں کے کپڑوں میں وہ کسی کے سامنے نہیں آنا چاہتی تھی۔اس نے اماں کی چپل کی آواز سن لی تھی۔۔۔ وہ دروازہ کھولنے آرہی تھیں۔۔ اُسے اس طرح سر جھاڑ منہ پھاڑ دیکھ کر ضرور کچھ نہ کچھ کہتیں۔اسی لیے سامعہ نے دستک سنی ان سنُنی کر دی۔۔۔اس وقت کون ہو سکتا تھا؟۔۔۔ اسے پروا نہیں تھی۔ پھر وہ اندر سے ایک عجیب سی کیفیت کا شکار تھی۔دو تین دن کے بعد یہ گھر اور اس کے لوگ پرائے ہو جائیں گے۔۔۔ اس کی زندگی کی ڈور کسی اور شخص کے ہاتھوں میں تھما کر خون کے رشتے بے گانے ہو جائیں گے۔۔۔سامعہ کی آنکھیں بھر آئیں۔۔۔ کسی بھی لڑکی کے لیے کتنا تکلیف دہ وقت ہوتا ہے یہ سوچنا کہ اب اس کے اپنے سگے خون کے رشتوں میں ایک عجیب سی اجنبیت کا احساس جنم لے لے گا۔۔۔ گھر کی ہر ایک شے اس کے لیے پرائی ہو جائے گی۔ وہ چیزیں جو پہلے کسی سے بنا پوچھے اس کے استعمال میں تھیں۔ اب گھر والوں کی اجازت سے استعمال کرنا پڑیں گی۔۔۔ گھر میں موجود الماری کو گھر والوں کی اجازت سے کھولنا پڑے گا۔ فریج میں رکھی ہوئی رات کی بچی ڈش یا کوئی پسندیدہ سوئیٹ ڈش پوچھ کر کھانی ہوگی۔۔۔ یہ سب کتنا تکلیف دہ تھا کوئی اس وقت سامعہ سے پوچھتا۔۔۔
x۔۔۔۔۔۔۔۔۔x۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔x
صارم کافی دیر سے عمر کو فون ملا رہا تھا۔ لیکن عمر کا فون نوریپلائی تھا۔۔۔ وہ آج شام اپنے گھر پر ہونے والی ایک بڑی پارٹی میں عمر کو انوائیٹ کرنا چاہتا تھا۔۔۔ اُسے لگا کہ شاید عمر کسی میٹنگ میں بزی نہ ہو۔۔۔اس لئے فون بند کر دیا۔ عمر نے تھوڑی دیر کے بعد ہی اسے کال بیک کر لی۔ ” اوئے سالے میں سمجھا تو اپنی” اسی ” گرل فرینڈ کے ساتھ مصروف ہے. اسی لیے میری کال ریسیو نہیں کر رہا۔۔” صارم نے مکاّری سے ہنستے ہوئے سامعہ کا حوالہ دیا۔۔۔ “یارمیں میٹنگ میں تھا۔۔۔ا ور سُن میری اس گرل فرینڈ کی شادی ہو رہی ہے۔ تجھ سے میرا اتنا سا کام نہیں ہو سکا۔باتیں تو بڑی کرتا ہے تو۔۔۔” اس کی بات سن کر عمر آفندی کی تو جیسے دُم پر پاؤں آگیا تھا۔۔۔
” اوئے ہوئے بڑی نازک صورت حال ہے۔ میرے یار کی سن کر بڑا افسوس ہوا۔۔۔ تو نے پہلے کیوں نہیں بتایا۔۔۔ گھر سے اُٹھا لاتے ہیں تیری دوست کو۔۔” صارم نے بھی اسی انداز میں جواب دیا۔۔۔”یار تجھے مذاق سوجھ رہا ہے۔۔۔”عمر جل کر رہ گیا۔۔۔
“خدا کی قسم مذاق نہیں کر رہا۔۔۔ اگر تو سیریس ہے تو آج ہی اُٹھوالیتے ہیں۔۔”صارم نے جواب دیا۔۔” چھوڑ یار!کون کم بخت ایسی لڑکیوں کے لیے سیریس ہوتا ہے۔۔۔ بس ایک چوٹ ہے، جو تیرے بھائی سے برداشت نہیں ہو رہی۔ بتا کہ کیا کروں۔۔۔” عمر آفندی نے دل کی بھڑاس نکالی۔۔۔ ” ہمم۔۔۔ یار میرا تو اصول ہے جو چیز ہاتھ نہ آئے۔ اُسے برباد کر دو۔۔۔ نہ کھیلو اور نہ کھیلنے دو۔۔۔ تیرا ہی حوصلہ ہے جو اتنی آسانی سے چڑیا کو جانے دیا۔۔۔ تیری جگہ میں ہوتا تو کب کا۔۔۔۔۔” صارم نے بات ادھوری چھوڑی۔۔۔ “تو بتا نا کہ اب کیا کروں۔ دو دن کے بعد اس کی شادی ہے۔۔۔” عمر نے ہتھیار ڈالتے ہوئے صارم کو جواب دیا۔۔۔۔ “جیسا میں کہوں گا کرے گا؟۔۔۔” صارم کو ایسے کاموں میں بڑی مہارت تھی بڑا پرانا کھلاڑی تھاایسی بربادیوں کا۔۔۔ اس لیے اُسے اس کیفیت میں مبتلا عمر کی حالت دیکھ کر پہلے تو ترس آیا اور پھر مزہ آنے لگا۔۔۔” اچھا یار کہا ہے تو یار بن کر دکھاؤں گا۔۔۔ تو ایسا کر اپنی گرل فرینڈ کا نام اور فون نمبر مجھے بھیج اور تین بجے تک اس سے ملنے کے لیے میرے گھر پہنچ جا۔۔۔” وہ نہیں آئے گی یار بہت تیز لڑکی ہے۔ اتنی بار میں نے بلایا مگر کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر نہیں آئی۔۔۔” عمر نے اس کی بات پر ہلکی سی تلخی سے جواب دیا۔۔۔ “یار تو ابھی اپنے بھائی کو جانتا نہیں ہے۔ آج تک کسی لڑکی نے تیرے بھائی کو انکار ہی نہیں کیا۔۔۔ دانا ہی ایسا پھینکوں گا کہ چڑیا کو چگنے آنا ہی پڑے گا۔۔۔ “صارم نے مکّاری سے کہتے ہوئے عمرکا مذاق اُڑایا۔۔۔” چل تو ٹھیک ہے تو بھی اپنی کر کے دیکھ لے۔۔۔ مگر مجھے سو فیصد یقین ہے کہ وہ نہیں آئے گی۔۔۔۔”عمر نے اُسے جواب دیا۔۔۔۔
“وہ آئے یا نا آئے تو ٹھیک تین بجے تک میرے گھر پہنچ جانا۔۔۔ ” “اور جلدی سے اس چڑیا کا نام اور نمبر سینڈ کر مجھے ” اس بار لگاتار عمر کے انکار پر صارم جھلّا سا گیا۔ تو عمر نے بھی اس کی تلخی محسوس کر لی۔۔۔ اور فون بند کر کے سب سے پہلا کام ہی اسے سامعہ کا نمبر سینڈ کرنے کا کیا۔۔۔ جو صارم نے فوری طور پر محفوظ کر لیا۔۔۔۔ وہ پوری پلاننگ کر چکا تھا۔ کہ سامعہ کو کیسے کوٹھی تک بلانا ہے۔
x۔۔۔۔۔۔۔x۔۔۔۔۔۔۔۔x
سیما آج آفس کافی لیٹ آئی۔۔۔ کل رات سے اُسے شدید فلو اور ہلکا ہلکا سا بخار تھا۔ اسی لیے نانو بی نے اُسے سامعہ کے مایوں میں بھی نہیں جانے دیا۔۔۔ ان کا خیال تھا کہ بس شادی میں چلی جانا اور کوئی اچھا سا گفٹ دے دینا۔ آج مکمل آرام کر لو۔۔۔ اور پھر پوری رات وہ دوائی لے کر سوتی رہی۔۔۔ صُبح بھی آنکھ دیر سے ہی کھُلی۔ نانو بی نے اس کا ناشتہ کمرے میں ہی بھجوا دیا۔۔۔ ان کا خیال تھا کہ ناسازی ء طبع کے باعث وہ آج آرام کرے گی۔ لیکن گیارہ بجے وہ جب تیار ہو کر نیچے آئی تو کافی فریش لگ رہی تھی۔۔۔” تم کم از کم آج کے دن کو آف کر لیتیں۔ ایک دن آرام کے بعد طبیعت کچھ بہتر ہو جاتی۔۔۔”
انہوں نے سمجھانے کی کوشش کی۔۔۔ مگر سیما نے کب ماننا تھا۔ انہیں معلوم تھا کہ ان کی نواسی انتہائی ضدی ہے۔جس بات کی دل میں ٹھان لے پورا کر کے رہتی ہے۔۔۔ اور اس وقت بھی وہ آفس جانے کے لیے بالکل تیار تھی۔۔۔”نانو بی آپ کو پتا ہے خالو جی اب مجھ پر کتنا ٹرسٹ کرنے لگے ہیں۔عمر سے زیادہ وہ مجھ سے آفس کے کام ڈسکس کرتے ہیں۔۔۔ انہیں معلوم ہے کہ میں پوری ذمہ داری سے کام کروں گی۔۔۔” اس لیے چھٹی کا لفظ میرے لیے اب نا ممکن ہو گیا ہے۔۔۔۔” نانو بی اس کی بات پر مُسکرا دیں۔۔۔”ہاں اسی بات کی خوشی ہے کہ تم نے بہت جلد اپنی محنت سے اس کے آفس اور دل میں اپنی جگہ بنا لی۔۔۔ اب جلد از جلد اس گھر میں بھی جگہ بنا لو تو میری ذمہ داریاں بھی ختم ہوں۔۔۔۔” بس نانو بی آپ کو تو موقع چاہیے میری شادی کی بات کرنے کا۔۔۔ میں اب اس بارے میں بالکل نہیں سوچ رہی۔۔۔ جب ہونی ہو گی اللہ کے حکم سے ہو جائے گی۔۔۔ ابھی تو میں آپ کی طرح بزنس وومن بننے کا سفر طے کر رہی ہوں۔ دعا کیجئے اس میں بالکل آپ کی طرح کامیاب بھی رہوں۔۔۔۔” وہ واقعی ٹھیک کہہ رہی تھی۔۔۔ جب سے وہ آفس جانے لگی تھی۔ دماغ کی ہر سوچ اپنے کام پر ٹھہرسی گئی تھی۔۔۔عمر کے ساتھ کام کرنے میں اپنا مزہ تھا لیکن خود کو ایک اچھی بزنس وومن ثابت کرنے میں جو مزہ تھا۔ وہ سب سے الگ۔۔۔ اور پھر اس سفر میں سب اُس کا مکمل ساتھ دے رہے تھے۔۔۔۔ کبھی کبھی تو عمر بھی اس کی اتنی محنت پر حیران ہو جاتا۔۔۔ اپنے بزنس کو اتنا سیریس تو اس نے بھی کبھی نہیں لیا تھا۔۔۔ باپ کی طرف سے پکی پکائی کھیر مل رہی تھی۔ اسی لیے کھیر کی شیرینی کا احساس تک نہ تھا۔۔۔ اور وہ پہلی بار ہی اس کاروباری دنیا میں داخل ہوئی اور نانو بی کے تمام تر مشوروں کے ساتھ اچھا کام کر کے سب کو حیران کر رہی تھی۔وہ جانتی تھی کہ اسے اپنا آپ منوانا ہے اور وہ یہ محنت پورے دل و جان سے کر رہی تھی۔۔۔ اسی لیے آج رات بھر کے فلو اور بخار کے باوجود وہ جانے کے لیے بالکل تیار تھی۔۔۔ آفس پہنچی تو سب سے زیادہ اُسے آفس میں دیکھ کر عمر حیران ہوا۔۔۔ ” ارے تم آفس آگئیں۔ میری رات ہی تو نانو بی سے بات ہوئی تھی۔انہوں نے بتایا کہ تم فلو اور بخار کی وجہ سے دوائی لے کر سوئی ہو۔۔۔ اتنی جلدی طبعیت بھی ٹھیک ہو گئی۔۔۔۔” ہاں دوائی لے لی تھی۔ اب بہتر محسوس کر رہی تھی، اس لیے سوچا گھر بیٹھ کر وقت ضائع کیوں کیا جائے۔ پھرآج ایک امپورٹنٹ میٹنگ بھی ہے۔خالو جان کا صُبح میسج آگیا تھا۔۔۔ وہ نہیں آسکیں گے۔۔۔ تو میں چھٹی کیسے کر لیتی۔۔۔۔” لیپ ٹاپ والا بیگ اپنی میز پر رکھا اور خود کرسی پر بیٹھ گئی۔۔۔” بابا تو تمہاری تعریفیں کرتے نہیں تھکتے اور کئی بار تمہاری محنت کی مثالیں دے دے کر مجھے شرمندہ کرتے رہتے ہیں۔ لیکن دیکھ لو کہ ہم پر ایک بار بھی اثر نہیں ہوتا۔۔۔” وہ بے پروائی سے ہنستا رہا۔۔۔ اور وہ غور سے اس کی شکل تک رہی تھی۔ کیا تھا اُس جادو گر میں۔۔۔جب ہنستا تھا تو لگتا کہ چاروں طرف جلترنگ سے بج رہے ہوں۔۔۔ اگر اس شخص کا ساتھ عمر بھر کو مل جائے تو زندگی کتنی حسین ہو جائے گی۔۔۔۔ اس نے ایک آخری چو رسی نظر عمر پر ڈالی۔جو اپنے موبائل پر آئے ہوئے مسیج چیک کر رہا تھا۔۔۔عمر ایک میسج پڑھ کر چونک اُٹھا۔۔ ایمان نے اسے رات کا میسج کیا ہوا تھا لیکن اس نے اب دیکھا۔ وہ اُٹھ کھڑا ہوا۔۔۔ اوکے یار! تم کام کرو میں ذرا اپنی کچھ فائلز چیک کرلوں۔۔۔ کافی دن سے کام ادھورا ہے ختم ہی نہیں ہو رہا۔۔۔” کافی نہیں پیؤ گے کافی منگوائی ہے۔۔۔” اس نے حیرانی سے عمر کو دیکھا۔جو اچانک ہی کھڑ ا ہو گیا تھا۔۔۔ دراصل ایمان کے میسج کو دیکھ کر وہ اسے فون کرنے کا سوچ رہا تھا۔۔۔ اور شاید اس وقت کو سیما کے ساتھ کافی پی کر وقت ضائع کرنا نہیں چاہتا تھا۔۔۔ “کافی تم میرے کمرے میں بھجوا دو اور ہاں میٹنگ کے وقت بھی میسج کر دینا میں آ جاؤں گا بابا نے سخت ہدایت کی ہے شامل ہونے کی۔۔۔” وہ اسے ہدایت دیتا ہوا اپنے روم میں چلا گیا۔۔ تو سیما کو لگا کہ وہ کمرے کی ساری رونق اپنے ساتھ ہی لے گیا ہے۔۔۔کمرہ یک دم ویران سا ہو گیا۔۔۔ سیما نے ٹھنڈی سانس بھر کر لیپ ٹاپ کھول لیا۔ تاکہ آج کی میٹنگ کے اہم پوائنٹس تیار کر لے۔۔۔ وہ واقعی بہت دل سے کا م کر رہی تھی۔۔۔ اس بزنس کو آگے لے جانے کا خواب اس کی نانو بی نے اس کی آنکھوں میں بھر دیا تھا۔ وہ اب کچھ اور دیکھ ہی نہیں سکتی تھی۔۔۔ اور پھر اس خواب میں عمر بھی تو اکثر اس کے ساتھ ہی ہوتا۔۔۔ اپنے من پسند سفر میں ساتھی بھی من پسند ہو تو راستہ کتنا خوبصورت ہو جاتا ہے۔ کوئی اس وقت سیما سے پوچھتا۔۔۔ وہ جانتی تھی کہ عمر بے شک ادھر اُدھر منہ مارتا پھرے لیکن شادی وہ اسی سے کرے گا۔۔۔ اس لیے عمر کی چھوٹی موٹی حرکتوں کو نظر انداز کرنا ہی ضروری ہے۔۔۔۔
x۔۔۔۔۔۔۔۔x۔۔۔۔۔۔۔۔۔x
اوپر کا سارا پورشن تیار ہو چکا تھا۔۔۔ کمرہ بہت خوبصورت سیٹ ہوا تھا۔۔۔،دُلہن کے آنے میں ابھی دو دن باقی تھے۔ لیکن کبیر علی نے ساری تیاری مکمل کر لی تھی۔۔۔ اس وقت وہ ثنا اور اماں کو لے کر اوپر اپنے پورشن میں آئے تھے۔ کمرے میں فرنیچر کے ساتھ پردے بھی ڈال دئیے گئے تھے۔۔۔ چھوٹے چھوٹے شو پیس کے ساتھ مصنوعی پھولوں سے سجے فلاور واز اپنی بہار دکھا رہے تھے۔۔۔ ہلکے ہلکے ائیر فریشنر کی خوشبو پورے کمرے میں بکھری ہوئی تھی۔۔۔ سلمیٰ بیگم کا دل خوش ہو گیا۔۔۔ اور انہوں نے دل سے بیٹے کو دُعا دی۔ ” یا اللہ! میرے بیٹے کے نصیب میں آنے والی کی قسمت کا سُکھ ضرور دینا۔۔۔”اور پھر سورۂ فلق اور سورۂ الناس پڑھ کر انہوں نے بیٹے اور کمرے پر بھونکا تاکہ دونوں نظرِ بد سے بچے رہیں۔۔۔” ماشا ء اللہ بہت اچھا لگ رہا ہے۔ اللہ رہنا اور بسنا نصیب کرے۔۔۔ صُبح دو بکرے لا کر صدقہ بھی دے دینا۔۔۔” انہوں نے کبیر علی کو ہدایت دی۔۔۔ ” جو حکم اماں اورآپ کی ہدایت پر خالہ اور خالو جان کے لیے اگلا والا کمرہ بھی تیار کروا دیا ہے۔ لیکن مجھے نہیں لگتا کہ وہ یہ بات مانیں گے۔۔۔” ” بے شک نہ مانیں۔ لیکن میں ایک بار اپنی بہن او ر بہنوئی سے یہ بات کہوں گی ضرور۔۔۔ تم ہی سوچو کہ وہاں اب ان کا خیال کون رکھے گا۔۔۔ بھائی جان کو ہر دوسرے دن فزیو تھراپی کی ضرورت پڑتی ہے۔۔۔ اور ناہید بھی بیمار ہی رہتی ہے۔۔۔ اگر پاس آجائے گی تو میرا بھی سہارا ہو جائے گا۔۔۔” انہوں نے فکر مندی سے کہا دراصل ان دونوں کو اوپر والا علیحدہ پورشن دینے کا ایک مقصد یہ بھی تھا۔۔۔ انہیں خیال تھا کہ ابھی تو سامعہ ان کی دیکھ بھال کرتی ہے شادی کے بعد روز روز بھاگ کر اپنے میکے جانا اس کے لیے بھی مشکل ہو جائے گا۔۔۔ وہ نا ہید سے اصرار کریں گی کہ دونوں بھی اِدھر ہی شفٹ ہو جائیں۔۔۔” اماں خالہ کبھی نہیں مانیں گی۔۔۔” اس بار ثنا بھی بولی۔۔۔” بیٹا مانیں یا نہ مانیں لیکن میں ایک بار بھائی صاحب سے کہوں گی ضرور۔ وہ کسی غیر کے گھر نہیں آرہے ان کی اپنی سالی کا گھر ہے۔ بیٹے کی موت کے بعد تو وہ کبیر کو اپنا بیٹا ہی سمجھتے ہیں۔اگر کبیر ان سے کہے گا تو شاید وہ مان جائیں۔۔۔ میں جانتی ہوں۔۔۔ سامعہ کو ان دونوں کی کتنی فکر ہے۔۔۔ وہ مرجھا کر رہ گئی ہے تم نے دیکھا نہیں کل اس کے چہرے پر دُلہنوں والی کوئی خوشی نہ تھی۔ صرف اپنے ماں باپ کی فکر نظر آرہی تھی۔۔۔ میں نے اُس سے کچھ کہا نہیں۔لیکن کل کبیر کے ساتھ جا کر خود بھائی صاحب سے بات کروں گی۔۔۔۔” ثنا نے آج تک اپنی ماں سے زیادہ رشتوں کا احساس کرنے والا کوئی اور نہیں دیکھا تھا۔۔۔ کل اس نے بھی سامعہ کا مُر جھایا ہوا چہرہ محسوس کیا۔ لیکن اتنی گہرائی میں جا کر نہیں سوچا کہ وہ اپنے ماں باپ کے اکلاپے کی وجہ سے پریشان ہے۔۔۔ بلکہ وہ تو عجیب و غریب سے واہمے پالے بیٹھی تھی۔۔۔ اُسے محسوس ہو رہا تھا کہ سامعہ کبیر بھائی سے شادی پر خوش نہیں۔ لیکن اس کی ماں کتنے دور کی کوڑی لائی تھیں۔۔۔۔ اس پہلو پر تو اس کا دھیان ہی نہیں گیا تھا۔۔ اس نے آگے بڑھ کر ماں اور کبیر بھائی کو گلے لگا لیا۔۔۔
” بھائی! شادی کے بعد بھی یہی والے بھائی رہنا بدل نہ جانا۔۔۔” اُسے اپنے بھائی سے شدید محبت تھی۔۔۔ اور محبتوں میں واہمے اور شکوک تو ہوتے ہی ہیں۔۔۔ کوئی دوسرا جب آپ کی جگہ لے رہا ہو۔۔۔ تو دل میں عجیب عجیب سے خیال تو پلتے ہی ہیں۔۔۔ “چل جھلّی! ایسا سوچنا بھی مت دنیا بدل سکتی ہے لیکن تیرا بھائی نہیں بدل سکتا۔۔۔” ارے بھئی! کوئی غیر تو نہیں آرہا اس گھر میں۔ جسے تمہاری اور تمہارے بھائی کی محبت کے بارے میں علم نہیں۔۔۔ فکر مت کرو جیسے یہ تمہارا بھائی تم سے محبت کرتا ہے اسی طرح وہ تمہاری خالہ زاد اور دوست تمہارا خیال رکھے گی۔ خوامخواہ کے واہمے دل میں نہ پالو۔۔۔۔”اس کی بات کا جواب سلمیٰ بیگم نے ڈانٹ کر دیا۔۔۔ وہ دل کی بہت صاف تھیں۔ جیسا دوسروں کے لیے سوچتیں تھیں۔ اسی طرح دوسرا بھی ان کے بارے میں سوچے گا یہی ان کا خیال تھا۔۔۔ لیکن نہیں جانتی تھیں کہ دنیا بہت سنگ دل ہے محبتوں کے جواب اکثر دل توڑ کر دئیے جاتے ہیں۔۔۔ آپ جتنی بھی کسی سے کتنی شدید محبت کرلیں۔۔۔ اگر اس نے آپ کی محبت کو سرسری لینا ہے تو اُسے آپ کی قدر کبھی نہیں آئے گی۔ وہ آپ کی محبتوں کو روند کر آگے بڑھ جائے گا۔۔۔ انہیں بالکل اندازہ نہ تھا کہ آگے ان کے اور ان کی اولاد کے ساتھ کیا ہونے والا ہے؟۔۔۔
x۔۔۔۔۔۔۔۔x۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔x
رحیم بابا نے کھانا لگوادیا تھا۔۔۔۔ اور رضوان کو دو بار یاد دہانی بھی کروا دی۔ وہ اس وقت لیپ ٹاپ پر اپنے کام میں اتنا بزی تھا کہ اُسے وقت کا احساس ہی نہ ہوا۔۔۔ آخری بار انہوں نے کمپنی کو میل سینڈ کی اور ٹھنڈا سانس لیا۔۔۔ آسٹریلیا کے لیے ایک بڑی کنسائنمنٹ بھجوانا تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ ساری میلنگ مکمل کر کے ہی کھانے کے لیے ٹیبل پر جائیں۔ جب وہ ٹیبل پر پہنچے۔ تورحیم بابا کھانا اٹھوا چکے تھے۔۔۔ انہیں میز پر دیکھ کر اُن کے پاس آگئے۔۔۔” رضوان بابا اگر اس وقت بڑے صاحب زندہ ہوتے تو آپ پر شدید ناراض ہوتے۔وہ اس بات کو سخت ناپسند کرتے تھے کہ ٹیبل پر کھانا لگا ہو اور بندہ کام میں مصروف رہے۔۔۔۔” ” لیکن بابا کام بھی بہت ضروری تھا۔۔۔ وہ مکمل ہوا تو فوراً نیچے آگیا۔ یہ بتائیں کھانا ہے کہاں۔۔۔” انہوں نے ٹیبل خالی دیکھ کر پوچھا۔ دوبار گرم کر کے لگوا چکا ہوں۔ پچھلے چالیس منٹ میں چار بار آپ کو یادہانی کروائی لیکن جب آپ نہ آئے تو اُٹھوا دیا۔۔ پانچ منٹ ٹھہریں دوبارہ گرم ہو رہا ہے۔۔۔” انہوں نے وضاحت کی تو رضوان ہنس پڑا۔۔۔۔ رحیم بابا بچپن سے ہی اُسے کھانے پر ڈانٹتے آئے تھے۔وہ کھانوں میں نخرے تو نہیں کرتا تھا لیکن اکثر مشکل سے ہی اُسے کھانا کھلایا جاسکتا تھا۔۔۔ جو چیز پسند نہیں آتی تھی کبھی کچھ کہتا نہیں تھا بس تھوڑا سا کھا کر چھوڑ دیتا۔۔۔ اور انہیں پتا لگ جاتا کہ چھوٹے بابا کو کھانا پسند نہیں آیا۔۔۔اور پھر وہ کوشش کرتے۔ہر بار کھانے میں ان کی پسند کا ہی خیال رکھا جائے۔۔۔” چھوٹے بابا کل کے لیے آفس کے کپڑے نکال کر استری کروا دی تھی۔۔۔ اورکوئی حکم۔۔۔” وہ بڑی تابع داری سے پوچھنے لگے۔تو رضوان ہنس پڑا۔ رحیم بابا آپ ایسی باتیں کر کے مجھے شرمندہ مت کیا کریں۔۔۔ ” میں چھوٹا ہوں۔بھلا میں آپ کو حکم کیسے دے سکتا ہوں۔ صرف کہہ ہی سکتا ہوں۔۔۔ حکم تو آپ کریں۔۔” وہ ہنستا ہوا بولا۔۔۔ اتنے میں کُک نے ٹیبل دوبارہ لگا دی۔ اور اس نے کھانا شروع کیا۔۔۔کُک کو دیکھ کر اُسے کچھ یادآگیا۔۔۔ ” سنو! کل مزے دار سے ڈھیر سارے شامی کباب بنانا اور ساتھ ایک اَدھ بریانی بھی بنا دینا۔ مجھے آفس کے لوگوں کو کھانا کھلانا ہے۔۔۔” جی سر بہت بہتر کتنے لوگ ہوں گے۔۔۔؟” “یہی کوئی بیس پچیس۔۔” انہوں نے سوچ کر جواب دیا۔” بن جائے گا سر۔۔۔ اور میٹھے میں کسٹرڈ بنا دوں۔۔۔” وہ اکثر آفس کے لوگوں کے لیے کھانا گھر سے بنوا کر لے جاتے تھے۔۔ بالکل اپنے باپ کی طرح انہیں بھی کھلانے پلانے کا بہت شوق تھا۔ وہ اس طرح اپنے آفس کے ورکرز کے درمیان فاصلہ باٹنے کی کوشش کرتے۔۔۔ اور یہ سٹریٹیجی کامیاب بھی تھی۔۔۔ اور ہاں بابا پرسوں کبیر علی کی شادی ہے۔ انہوں نے آپ کو بھی بلایا ہے۔ خاص طور پر کہا تھا۔۔۔ آپ بھی تیار رہیئے گا۔۔۔” کھانا جلدی جلدی کھاتے ہوئے انہوں نے رحیم بابا سے کہا۔۔۔ ” جی مجھے بھی کبیر صاحب کا فون آگیا تھا۔۔۔ آپ کے یہاں نہ ہونے پر انہوں نے صاحب اور آفس کا بہت خیال رکھا۔۔۔ بہت اچھے آدمی ہیں۔۔۔ میں ضرور چلوں گا۔۔۔” وہ بولے۔۔۔” ہاں واقعی اتنے اچھے لوگ بہت کم ہوتے ہیں۔۔۔ بابا نے آفس میں چُن چُن کر ہیرے ڈھونڈے تھے۔۔۔ اور کبیر علی اُن میں سے ایک ہیں۔۔۔” رضوان بھی ان کی شرافت کا معترف تھا۔۔۔” بہت اچھی ماں کے ہاتھوں پرورش ہوئی ہے۔۔۔ انتہائی شریف اور عزت کرنے والا بچہ ہے۔۔۔ بالکل آپ کی طرح۔۔۔” رحیم بابا نے مُسکرا کر رضوان کی بھی تعریف کی۔۔۔
” لیکن میری تربیت میں تو سارا ہاتھ بابا کا ہے۔ اگر وہ زندگی کی اونچ نیچ کے بارے میں مجھے نہ بتاتے تو شاید آج میں بھی ایک بگڑا ہوا بچہ ہوتا۔۔۔” انہیں اپنے باپ کو یاد کرنے کا ایک اور موقع مل گیا۔۔۔ تو رحیم بابا کی آنکھوں میں بھی شمیم صاحب کے ذکرسے پانی آگیا۔۔۔۔ رضوان کھانا ختم کر چکا تھا۔۔” آپ کافی پئیں گے۔۔” رحیم بابا نے بات بدلنے کے لیے کہا۔ ” بالکل پلا دیں لیکن آپ کے ہاتھ کی ہو۔۔۔” رضوان نے ٹیبل سے اُٹھتے ہوئے کہا۔۔۔ اس وقت وہ قدرے جاگنے اور کوئی اچھی سی مووی دیکھنے کے موڈ میں تھے۔ اسی لیے انہوں نے بابا کی آفر فوراً قبول کر لی۔۔۔” بس آپ پانچ منٹ دیں میں ابھی بنا کر لاتا ہوں۔۔۔” ان کے ہاتھ کی کافی تو شمیم صاحب کو بھی بہت پسند تھی اور وہ اکثر فرمائش کر کے بنواتے تھے۔۔۔ پھر وہ ٹیبل سے برتن اُٹھوانے تک کافی بھی تیار کر چکے تھے۔۔۔۔
x۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔x۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔x
آج سامعہ صُبح ہی اُٹھ گئی تھی۔ اماں ابا کو ناشتہ دیا تو ساتھ والی خالہ آگئیں۔ اس کے لیے کپڑے اور جہیز کی چند اور چیزیں بنا کر لائیں تھیں۔ سامعہ کا سارا بچپن اسی محلّے میں ہی گذرا تھا۔ محلّے کے آس پاس کے تمام گھروں میں بہت محبت اور بھائی چارہ تھا۔ ایک دوسرے کے بچوں کو اپنا بچہ سمجھا جاتا تھا۔ اماں نے بھی اُن کی بیٹی کی شادی میں کافی سارا سامان اورپیسے دیئے تھے۔ لیکن برابر والی قریشہ خالہ اس کے لیے بہت کچھ لائی تھیں۔ اس کا سر بھی بار بار چوم رہی تھیں۔ ان کی آنکھوں کی نمی دیکھ کر وہ خود پگھل گئی۔ اُسے احساس تھا کہ اب اس کا اپنے گھر میں صرف کچھ وقت باقی ہے۔ وہ ان کا لایا ہوا سامان دیکھ رہی تھی۔ کافی اچھے کپڑے تھے۔ان کا بیٹا دبئی میں ہوتا تھا۔ جس سے انہوں نے کاسمیٹکس بھی منگوایا تھا۔۔۔ اس نے خود تو کاسمیٹکس کا کوئی سامان نہیں لیا۔ کیوں کہ ثنا نے منع کر دیا تھا۔۔۔ کبیر اور ثنا کافی سارا سامان اس سے پوچھ کر خرید چکے تھے۔اس لیے اس نے ضرورت ہی نہ سمجھی۔۔۔حالاں کہ اُسے کتنا شوق تھا کہ جب شادی ہو گی تو اپنی پسند کا ڈھیر سارا میک اَپ لوں گی۔ لیکن اب تو جیسے سارے ارماں مر ہی گئے تھے۔۔۔۔ وہ خالہ کا شکریہ ادا کرکے اُٹھ گئی۔۔۔۔ خالہ کافی دیر بیٹھی رہیں۔ اماں سے باتیں کرتی رہیں۔ اور وہ اپنے کمرے میں بند صرف آنے والے دنوں کے بارے میں سوچتی رہی۔۔۔ عجیب سی کیفیت تھی۔ خوشی اور نہ ہی کوئی غم۔۔۔ غم جو عمر کے حوالے سے تھا۔ وہ پوری طرح دل کے کسی کونے کُھدرے میں دبا چکی تھی۔۔۔ اب تو اس بارے میں سوچ بھی نہیں رہی تھی۔۔۔ بس یہ افسوس تھا کہ اس سے آخری لمحہ مل کر کوئی بات بھی نہ کر پائی۔۔۔ اسے اپنی صفائی بھی نہ دے سکی۔۔۔ کاش! میں اس سے آخری بار مل سکتی۔۔۔ شاید کوئی نہ کوئی حل ہی نکل آتا۔۔۔ اس نے بھی تو میری بات سُننے کی زحمت گوارانہ کی۔ وہ ایسی باتیں سوچ کر اپنا دل خراب کر رہی تھی۔۔۔ کہ اچانک موبائل کی بپ بجی کسی انجانے نمبر سے میسج تھا۔۔۔ اس نے اُٹھا کر پڑھا۔ “میں عمر کا دوست صارم ہوں۔۔۔ آپ نے عمر کے ساتھ بالکل اچھا نہیں کیا۔۔۔ اس وقت وہ موت و زیست کی کشمکس میں ہے اور آخری لمحوں میں بھی صرف آپ کا ہی نام لے رہا ہے۔۔۔ مرتے ہوئے شخص کی آخری خواہش پوری کردیں۔۔۔ ایک بار آکر مل جائیں۔۔۔ ورنہ ساری عمر ایک شخص کی موت کا ذمہ دار خود کو ٹھہرائیں گی۔ نیچے ایک ایڈریس دیا ہوا تھا۔۔۔ سامعہ کی آنکھیں اُبل کر باہر آگئیں۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ عمر ایسا بھی کر سکتا ہے۔۔۔ اس نے فوراً فون ملایا دوسری طرف سے صارم نے کال اُٹھائی اور ایک منٹ میں عمر کی محبت اور عمر کے بارے میں ایسی جذباتی گفت گو کی۔ عمر خود کشی کی کوشش میں بچا تو لیا گیا تھا لیکن سامعہ سے ملنے کا شدید خواہش مند تھا۔ صارم کو ڈر تھا کہ اگر وہ ملنے نہ آئی تو وہ دوبارہ خود کُشی کی کوشش نہ کرے۔ وہ ملنے کے لیے بے قرار ہو گئی۔۔۔ لیکن مسئلہ یہی تھا کہ اس وقت گھر سے کیسے نکلے؟۔۔۔ اُسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کس طرح وہ عمر کے پاس اُڑ کر پہنچ جائے اچانک اُسے زہیب کا خیال آیا۔ جسے ایک گھنٹے کے بعد میں اُسے دلہن کی سروسز کے لیے پارلر لے کر جانا تھا۔۔۔ آج پارلر والوں نے بلایا تھا۔۔۔ جانا توایک گھنٹے بعد تھا لیکن اس نے زہیب کو اسی وقت فون کر دیا۔ کہ پارلر سے فون آگیا ہے۔ اُسے آکر لے جاؤ۔۔۔2بج چکے تھے اور ڈھائی بجے تک وہ اُسے لینے آگیا۔ وہ اس کے ساتھ پارلر آگئی۔۔۔ زہیب کو اس نے دروازے سے ہی رخصت کر دیا۔۔۔ اُس کے جاتے ہی سامعہ نے پاس گذرتے رکشے کو ہاتھ دیا۔۔۔ اور اُسے علاقے کا پتا سمجھایا۔۔۔ وہ بالکل سُن تھی۔ بس دعا کر رہی تھی کہ یا اللہ عمر کو کچھ نہ ہو۔۔۔ پورے راستے وہ عمر آفندی کی زندگی کے لیے دُعا کرتی رہی۔۔۔ دونوں کے درمیاں کتنا عجیب سا رشتہ تھا۔ نا مکمل اور عجیب سا۔۔۔ دونوں کو ایک دوسرے پر اعتبار بھی تھا اور نہیں بھی۔۔۔ دونوں کو ایک دوسرے سے محبت بھی تھی اور نہیں بھی۔۔۔ دونوں ایک دوسرے سے ملنا چاہتے تھے اور نہیں مل پاتے تھے۔۔۔ کیا تھا ایسی محبت میں۔۔۔ اور کیوں ہوئی ایسی محبت جس کی ابتدابھی ایک پہیلی تھی اور انجام بھی۔۔۔ زندگی کے اس مقام پر جب وہ کسی اور کے نام سے بندھنے جا رہی تھی۔ عمر آفندی نے اس کی شادی کی خبر سُن کر خود کشی کرنے کی کوشش کی۔۔۔ اُسے یقین کیوں نہیں آرہاتھا؟۔۔۔ عمر نے اس سے انتہائی شدیددرجے کی محبت کی تھی۔۔۔ اتنی محبت جس میں وہ اپنی جان لینے کی کوشش بھی کر سکتا تھا؟۔۔۔ اُسے یقین کیوں نہیں آرہا تھا۔۔۔ لیکن یقین نہ کرنے کے کسی بھی پہلو پر اس نے سوچنا بھی گوارا نہ کیا۔۔۔ اس کی محبت کے لیے صارم کی طرف سے دی گئی یہی خبر کافی تھی کہ اس کی جدائی میں عمر آفندی نے خود کشی کی کوشش کی۔۔۔ رکشہ بہت تیزی سے اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھا۔ لیکن اسے لگ رہا تھا کہ چیونٹی کی رفتار ہے۔۔۔ وہ زور سے چلائی “بھائی ذرا تیز چلائیں۔ مجھے دیر ہو رہی ہے۔۔۔” “بہن اس سے زیادہ تو جہاز ہی اُڑ سکتا ہے۔ چاہیں تو جہاز میں بیٹھ جائیں۔۔۔” وہ بھی کوئی مسخرہ تھا۔ پیچھے مُڑکر بولا۔ “بکواس بند کرو اور آگے دیکھ کر تیز چلاؤ۔۔” وہ چلائی۔ اُسے رکشے والے کی بکواس نہیں سُننی تھی۔۔ وہ کچھ اور سُننے کے موڈ میں ہی نہ تھی۔۔۔ بیس منٹ کے بعد علاقے میں پہنچ کر ایک کوٹھی کے آگے رکشے والے نے رکشہ روکا۔۔۔” باجی ایڈریس چیک کر لیں وائی بلاک یہی ہے۔ Y بلاک کی پہلی کوٹھی یہی ہے۔۔۔” اس نے دوبارہ ایڈریس دیکھنے کے لیے پرس سے فون نکالنے میں چند لمحے لگائے اور اتنی دیر میں ہی چار پانچ پولیس موبائل کوٹھی کے آگے آکر کھڑی ہو گئیں۔۔۔ رکشے والے نے رکشے کودھکا دے کر رکشہ دوسری کوٹھی کے آگے کھڑا کر دیا اور خود باہر نکل کر تماشا دیکھنے لگا۔ ایک لمحے کو اس نے گیٹ پر دئیے ہوئے پتے اور موبائل میں صارم کی طرف بھیجے ہوئے پتے کو ملایا تووہ ایک تھا۔۔۔ وہ ٹھہر گئی۔۔۔ کہ رکشے سے باہر آئے یا نہ آئے۔۔ اتنی دیر میں رکشے والا برابر والی کوٹھی کے چوکیدار سے ساری معلومات لے چکا تھا۔۔۔ ” جی باجی! آپ نے اسی پتے پر آنا تھا۔۔۔” اب وہ سامعہ کو بڑی مشکوک سی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔۔۔ ” نہیں۔۔۔پتا نہیں۔۔۔۔شاید آگے والا کوئی گھر ہو۔۔۔” وہ گڑ بڑا سی گئی۔۔۔ مگر یہاں پولیس کیوں آئی ہے؟۔۔۔” ” پولیس نے چھاپہ مارا ہے۔ بڑا غیر قانونی کام ہوتا ہے جی روزشام کو اس کوٹھی کی راتیں جوان ہوتی ہیں۔۔۔ شراب اور لڑکی وڑکی کا بھی چکر ہے۔۔۔” رکشے والا اب بھی اُسے مشکوک نظروں سے دیکھ رہا تھا۔۔۔ اور وہ پھٹی پھٹی نظروں سے اُسے تک رہی تھی۔۔۔ قدرت قدم قدم پر اُسے اشارے دے رہی تھی او روہ سمجھ کر بھی نا سمجھ تھی۔۔۔” جی باجی بتائیں۔ کہاں اتاروں کیایہی کوٹھی ہے۔۔۔” ” نہیں یہ وہ کوٹھی نہیں ہے۔ میں شاید غلط پتے پر آگئی ہوں۔۔۔” یہ کہہ کر وہ دوبارہ رکشے میں بیٹھ گئی۔۔ رکشے والا بڑی عجیب سی نظروں سے اُسے دیکھ رہا تھا۔۔۔ اور وہ صرف کوٹھی میں داخل ہونے والے پولیس والوں کو دیکھ رہی تھی۔ اگر وہ پندرہ منٹ پہلے اس کوٹھی میں داخل ہو جاتی تو شاید اندر بیٹھی بہت ساری آوارہ لڑکیوں کے ساتھ اس کا نام سبھی آتا۔۔۔ اُسے یاد آیا کہ اماں نے چلتے وقت اس پر آیت الکرسی پڑھ کر پھونکی تھی۔ وہ بہت پریشان تھیں کہ وہ اکیلی ہے اس کے ساتھ کوئی نہیں جا رہا۔۔۔ دراصل ماموں کی بیٹی رمشا نے اس کے ساتھ جانا تھا لیکن اب اس کے اچانک پروگرام کی وجہ سے وہ نہ آسکی۔ زہیب اسے ڈراپ کرنے پارلر تک آیا۔۔۔ شاید آیت الکرسی کی پھونک اتنی طاقت ور تھی۔۔۔ یا ماں کا ڈر اور اس کی دل سے نکلی دعا اتنی طاقت ور تھی۔ جس نے اسے ساری عمر کی رسوائی سے بچا لیا۔۔۔ وہ بے آواز آنسو بہاتی رہی۔ چہرے پر مکمل طور پر چادر پڑی تھی۔۔۔ وہ بالکل خاموش بیٹھی باہر آتی جاتی گاڑیوں کو دیکھتی رہی اور خود کو کوستی رہی کہ اس کی آنکھوں پر کیسا پردہ پڑ گیا تھا کہ ایک اجنبی کی بات پر یقین کر کے یہاں آگئی۔ یہ بھی نہ سوچا کہ یہ سب جھوٹ بھی تو ہو سکتا تھا۔۔۔ اُسے یہاں تک بلانے کا کوئی فریب بھی تو ہو سکتا تھا۔۔۔ آنکھوں پر شیطان نے کیسی پٹی باندھ دی تھی۔کہ کسی اور بات کی طرف دھیان ہی نہیں گیا۔۔۔ بس یہی سوچا کہ عمر اس وقت زندگی اور موت کی کشمکش میں ہے۔ اس کو میری ضرورت ہے۔ اگر یہ ضرورت پوری نہ ہوئی تو ضمیر مجھے کبھی معاف نہیں کرے گا۔۔۔ رکشے سے اُتر کر اُس نے رکشے والے کو ہزار کا نوٹ تھمایا اور خود پارلر میں بڑھ گئی۔۔۔ اور وہ وہیں کھڑا حیران نظروں سے اندر جاتی لڑکی کو دیکھتا رہ گیا۔۔۔ شاید اب ساری عمر یہ پہیلی کبھی نہیں سلجھے گی کہ یہ لڑکی کون تھی؟۔۔۔سامعہ بھی پارلر میں بیٹھی یہی سوچتی رہی کہ اس قسم کی فریبی محبتوں کی پہیلیاں کبھی اُلجھ جائیں تو ساری عمر نہیں سلجھتیں۔۔۔ عمر اور اس کی محبت بھی ایسی ہی ایک گُتھی تھی۔۔۔ اور ایسی محبتوں کی گُتھیاں شاید ہماری جیسی بہت سی لڑکیوں کا نصیب ہوتی ہیں۔۔۔جنہیں وہ عمر بھر کھولنے کی کوشش میں مزید اُلجھا بیٹھتیں ہیں۔۔۔پارلر والی اس سے کچھ پوچھ رہی تھی۔ اس نے خا لی نظروں سے اُسے دیکھا۔۔۔ وہ اُسے بتا رہی تھی کہ اس کی تمام سروسز مکمل ہو چکی ہیں۔ وہ جا سکتی ہے۔۔۔ کب اس کا فیشل۔مینی اور پیڈی کیور ہوا۔۔۔ کب وہ مزید کوئی اور سروس اسے دیتی رہی۔۔۔ سامعہ کو ان چند گھنٹوں کا بالکل پتا نہ چلا۔وہ تو صرف آنے والے اس وقت کے بارے میں سوچتی رہی۔اگر وہ اس کوٹھی پر پڑنے والے ریڈ میں پکڑی جاتی۔۔۔ یہ اگر اس کے تمام رونگٹے سوال کھڑے کر گیا۔۔۔ اور وہ بس یہی سوچتی رہی۔۔۔ واپس گھر آنے کے بعد بھی وہ اماں سے لپٹ کر خوب روئی۔۔۔ اُسے آج پہلی بار ماں اور اُن کی دعا پر شدت سے یقین آیا تھا۔۔۔ یونہی تو ماں کو اللہ کا روپ قرار نہیں دیا گیا۔ وہ اپنی اولاد پر آنے والی مصیبتوں کو اپنی دعاؤں سے ختم کر تی رہتی ہے۔۔۔ لیکن آج جیسی مصیبت کا تو سامعہ نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔۔۔ جس لمحے وہ اس وقت کے بارے میں سوچتی۔ تو وہ جیسے تھرا کر رہ جاتی۔۔۔ کیا واقعی اس کوٹھی میں غلط کام ہوتے تھے؟۔۔۔ اور اگر ہاں تو کیا وہ بھی اسی کام کے لیے بلائی گئی تھی۔ قدرت نے ہمیشہ اس کا ساتھ دیا تھا اور ہر باراُسے عمر کے چنگل میں پھنسنے سے بچایا تھا۔۔۔ اس وقت وہ جتنا بھی شکر ادا کرتی کم تھا۔۔۔ اس نے وضو کر کے نماز کی نیت باندھ لی۔۔۔ نماز کے بعد وہ کھُل کر روئی کھل کررب سے معافی مانگی اور کھُل کرہی اس کی رحمت کا شکر اد اکیا۔۔۔ اگر اس وقت اس کا رب اُسے نہ بچاتا تو کون تھا اسے بدنامی کے گڑھے میں گرنے سے روکنے والا۔۔۔ ساری عمر اس کی زندگی پر داغ لگ جاتا۔۔۔ پھر چاہیں کتنا وضو کرتی کتنا توبہ تلّا کرتی۔۔۔ اس کی معافی دنیا میں مشکل تھی۔ دنیا کسی کی غلطی کو نہیں بخشتی۔ چاہے وہ دانستہ ہو یا نا دانستہ۔ اُسے تو صرف چسکے کو کہانیاں چاہیے او روہ بھی تھوڑی دیر پہلے دنیا کے لیے ایک چسکے دار کہانی بننے والی تھی۔
شام کو خالہ اس کی برّی کے جوڑے لے کر آگئیں۔۔ ساتھ ہی چڑھاوے کے تین سونے کے سیٹ اور بارہ سونے کی چوڑیاں بھی تھیں۔۔۔ انہوں نے سب سے پہلے کمرے میں آکرسامعہ کو گلے لگا کر پیار کیا پھر ایک ایک جوڑا کھول کر دِکھایا۔۔۔ ثنا اور خالہ نے اپنے طور اچھا کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی تھی۔۔۔ بہترین ڈیزائنر کپڑے اور ڈیزائنر جیولری سب کو بہت پسند آئی۔۔۔ ناہید بیگم نے بیٹی اور داماد کے لیے دل سے دعائیں کیں۔۔۔ اللہ دونوں کو خوش رکھے۔۔۔ حاجی صاحب کو بھی برّ ی کا سامان بہت پسندآیا۔ وہ اور کبیر علی کمرے میں تھین۔ ثنا نے انہیں سامان وہیں دکھا کر داد وصول کی۔۔۔ “بھائی یہ سب تو اس کے نصیب کا تھا اسے مل گیا۔ اب دعا کیجئے گا کہ میرے بیٹے کا نصیب بھی کھُل جائے۔۔۔ اور میری بھانجی کے بھاگوان قدم ہمارے گھر میں پڑتے ہی ہر طرف خوشیاں اپنی بہاریں دکھانے لگیں۔۔۔” وہ بڑے پیار سے بیٹے کو دیکھتے ہوئے کہہ رہی تھیں۔۔۔ ” بھائی صاحب!آج میں ایک اور بات بھی کہنے آئی ہوں۔ بلکہ بہن سمجھ کر تھوڑا حق دیجئے اور میرا مان رکھ لیجئے گا۔۔۔” سلمیٰ بیگم کو ہمیشہ سے بات کرنا آتا تھا۔۔۔ وہ سامنے والے کو اپنی بات ماننے پر مجبور کر دینے کا ہنر رکھتی تھیں۔۔” کہو سلمیٰ! مجھ پر تمہارے بہت احسان ہیں۔ بڑا بھائی سمجھ کر اپنا پورا حق مانگ سکتی ہو۔۔۔”حاجی صاحب ان کی بات سے کچھ نہ سمجھنے والی کیفیت میں تھے۔۔۔ اور شادی کے اتنے قریب سالی کی ڈیمانڈ ان کے لیے بھی حیرانی کا باعث تھی۔۔۔
“بھائی جان! کبیر کا خیال ہے کہ وہ آپ دونوں کو اس حالت میں یہاں نہیں چھوڑا جاسکتا آپ دونوں کو ہمارے ساتھ ہمارے گھر میں رہنا ہوگا۔۔۔” انہوں نے مسکرا کر حاجی صاحب کی طرف دیکھا تو حاجی صاحب ان کی بات پر پریشان ہو گئے۔۔۔ ” لیکن ایسا کیسے ممکن ہے؟ بھلا کوئی اپنی بیٹی کے سسرال میں بھی رہتا ہے۔۔۔” ان کی بات سُن کر وہ واقعی بہت حیران ہو ئے ” بھائی صاحب اوپر کا پورا پورشن میں نے کبیر علی کے حوالے کر دیا ہے. اگر آپ کو میرے ساتھ رہنے پر اعتراض ہے۔ تو آپ وہاں رہیں گے۔۔ سامعہ اس طرح آپ کا مکمل خیال رکھ سکتی ہے۔۔۔۔”
“لیکن بیٹی کے ساتھ کون رخصت ہوتا ہے۔۔۔”ناہید بیگم بھی سلمیٰ بیگم کی بات پر حیران تھیں۔انہیں بالکل اُمید نہ تھی کہ اُن کی بہن اچانک یہ بات کر دیں گی۔۔۔ انہیں سلمیٰ بیگم نے بتایا تھاکہ کبیر علی نے اوپر کا پورا پورشن اپنے لیے سیٹ کیا ہے۔ جس میں وہ ابتدا سے ہی دونوں کو الگ کر دیں گی۔ لیکن وہ انہیں بھی ساتھ لے جانے کی بات کریں گی اس کا بالکل آئیڈیا نہ تھا۔۔۔ انہیں اپنی بڑی بہن پر شدید پیار آگیا۔ ان کا دل چاہ رہا تھا کہ اتنے احساس پر وہ اُٹھ کر اپنی بہن کو گلے لگالیں۔۔۔ لیکن وہ حاجی صاحب کے جواب کے انتظار میں خاموش سی ہو گئیں۔ انہیں معلوم تھا کہ حاجی صاحب اس بات پر کبھی راضی نہ ہوں گے۔۔۔ وہ خود بھی بیٹی کی سسرال میں رہنے کے قطعی حق میں نہ تھیں۔۔۔ لیکن دل ہی دل میں بہن کے اتنے احساس میں انتہائی خوش تھیں۔۔
” دیکھو سلمیٰ میں تمہاری دل سے عزت کرتا ہوں۔۔ اور تمہاری اس خواہش پر ممنون بھی ہوں کہ تم نے ہمارا اتنا خیال کیا۔ لیکن میری بہن یہ خواہش پوری کرنا میرے اختیار میں نہیں۔۔۔ بے شک ہمارا تمہارا ایک رشتہ بیٹی کی سسرال سے بالکل الگ ہے۔۔۔ اور میں نے تمہیں بالکل سگی بہن سمجھا لیکن تمہاری یہ بات ماننا میرے اختیار میں نہیں۔۔۔” حاجی صاحب بہت آہستہ آہستہ رک رک کر بات کر رہے تھے۔۔۔ اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے۔ تو بھائی صاحب لوگ تو صرف کہتے ہی ہیں۔ کرتے کچھ نہیں۔ اگر کرنے کا کہہ دیا جائے تو اپنی جان بچا کر ایک طرف ہو جاتے ہیں۔۔۔ میں نے اپنے شوہر کے بعد زندگی کتنی مشکلوں سے گذاری۔ یہ صرف میں جانتی ہوں۔ اس وقت بھی میرے اپنے سگے بھائی سے زیادہ آپ اور میری بہن میرے ساتھ کھڑے تھے۔۔۔ میرا حوصلہ آپ دونوں تھے۔ میں وہ وقت کیسے بھول سکتی ہوں۔۔۔ اگر آج مجھے یا میرے بیٹے کو آپ کی خدمت کا موقع مل رہا ہے۔ تو پلیز بھائی صاحب مجھ سے یہ موقع نہ چھینئے گا۔۔۔” انہوں نے گلوگیر آواز میں کہتے ہوئے حاجی صاحب کے آگے ہاتھ جوڑ دئیے۔۔۔”اس وقت میں نے جو کچھ کیا وہ میرا فرض تھا۔مجھے تو یاد بھی نہیں کہ ہم دونوں نے کیا کیا تھا۔ مگر اس وقت تم نے ان ساری باتوں کو دہرا دیا یہی محبت بہت ہے۔ اب آئندہ کبھی اس وقت کا ذکر نہ کرنا۔ تم میرے گھر سے میری بیٹی کو لے جار ہی ہو۔ تمہارا یہی احسان بہت ہے۔ایک مجبور باپ کی بیٹی کا بوجھ اگر اس کے کاندھوں سے کوئی بآسانی اتار کر لے جائے۔تو شاید اس سے بڑا احسان کوئی نہیں۔۔۔” وہ رو پڑے۔۔۔ تو کبیر علی نے آگے بڑھ کر انہیں چپ کروایا اور ماں کو اشارہ کیا کہ بس اب خاموش ہو جائیں۔۔۔ خالو جان سے مزید کوئی بات نہ کریں۔ورنہ اُن کا بی پی ہائی ہو جائے گا۔۔۔ ناہید بیگم آگے بڑھ کر بہن کے گلے لگ گئیں۔۔” آپا حاجی صاحب ٹھیک کہہ رہے۔ہیں تمہارا یہی احسان بہت ہے کہ تم نے ہماری بیٹی کو اپنے گھر کی زینت بنا لیا۔۔۔ اس گھر کو چھوڑنا بہت مشکل ہوگا۔ہم دونوں اپنی بیٹی کے گھر آتے جاتے رہیں گے۔۔۔ ” ” ٹھیک ہے ناہید! میں تو اس خیال سے کہہ رہی تھی کہ بھائی جان کی حالت کے پیش ِ نظر ان کا اکیلا رہنا بہت مشکل ہوگا۔۔۔” ” ارے ہم اکیلے کب ہیں۔روز تو آپ فون کر کے خیریت معلوم کر لیتی ہو۔ پھر دکان والا لڑکا بھی روزانہ آتا رہتا ہے۔۔۔ آپ فکر مت کریں۔۔۔ پھر کبیر علی تو میرا بیٹا ہے وہ رکھے گا اپنی خالہ خالو کا خیال۔۔۔” ناہید بیگم نے کبیر علی کی طرف دیکھ کر کہا تو کبیر علی اُٹھ کر ان کے پاس آگئے۔۔۔ “خالہ میں پہلے آپ کا بیٹا ہوں بعد میں داماد۔۔۔ بے فکر رہیئے ہمیشہ بیٹا ہی رہوں گا۔۔۔” ” جیتے رہو ہمیشہ خوش رہو۔۔۔” انہوں نے چٹا چٹ کبیر علی کے ماتھے پر پیار کیا۔ تو وہ اتنی محبت پر مُسکرا اُٹھے۔۔۔خالہ ہمیشہ انہیں اسی طرح پیار کرتی تھیں۔۔بچپن میں بھی جب اماں خالہ کے گھر آتیں تو وہ ان کا اتنا خیال رکھتیں کہ وہ شرمندہ ہو ہو جاتے۔۔۔۔ انہوں نے اپنے بچوں اور ان میں کبھی فرق نہیں کیا تھا۔۔۔ ہمیشہ برابری کا سلوک کیا۔ اسی لیے وہ بھی خالہ سے بہت محبت کرتے تھے۔۔۔۔
” خالہ آپ اور خالو جب چاہیں گے۔ میں سامعہ کو لے کر آجاؤں گا۔۔۔ آپ بالکل فکر مت کیجئے گا۔ آپ کا دل جب چاہے آپ کی بیٹی کے گھر کے دروازے ہمیشہ آپ کے لیے کھُلے ہیں۔۔۔۔” اماں کو تو بس آپ دونوں کے اکیلے پن کا احساس تھا۔ اس لیے وہ چاہتی تھیں کہ آپ ہمارے ساتھ ہی شفٹ ہو جائیں لیکن اگر خالو نہیں چاہتے تو کوئی بات نہیں۔۔۔” انہوں نے ہنس کر بات کو ختم کرنے کی کوشش کی۔۔۔ اور اتنے میں ثنا سب کے لیے چائے اور دیگر لوازمات لے آئی۔ اپنی اور سامعہ کی ٹرے اٹھا کر وہ سامعہ کے کمرے میں آگئی۔ جہاں سامعہ سر جھکائے ہاتھوں پر نظریں نا جانے کیا سوچ رہی تھی۔۔۔ ” اے میری بنو! کیا سوچ رہی ہو؟ ” اس نے چائے کی ٹرے سامعہ کے آگے رکھی۔۔۔ تو وہ چونک گئی۔۔۔ ” بھئی میں بھی بہت سارے کام کرواؤں گی تم سے۔ایک بار میرے گھر آتو جاؤ۔” وہ شرارت سے مسکراتے ہوئے بولی۔۔۔ اُسے سامعہ کی آنکھوں میں ٹرے دیکھ کر حیرانی نظر آگئی تھی۔۔۔ “لو چاے پیؤ اور کباب کھاؤ۔ فریج میں یہی موجود تھا۔ جو میں نے جلدی جلدی سب کے لیے فرائی کر لیے۔۔۔” ایسے کاموں میں ثنا ہمیشہ سے ماسٹر تھی۔۔۔ گھر گھرہستی کا اُسے ہمیشہ شوق رہا۔۔۔ اور وہ اکثر خالہ کے گھر آکر بھی یہ سارا کام سنبھال لیتی۔۔ ” اچھا یہ بتاؤ تمہیں شادی کا جوڑا تو پسند آیا؟” چائے کا گھونٹ بھرتے ہوئے وہ مزے سے پوچھ رہی تھی۔ سامعہ جس نے بہت بے دلی سے جوڑا دیکھا تھا۔ اب سوچ رہی تھی کہ ان میں سے شادی کا جوڑا کون سا تھاحالاں کہ وہ خود پسند کر کے آئی تھی۔۔۔بس سر ہلا کر بولی۔۔۔” ہاں بہت خوبصورت ہے۔۔۔” ” باقی سب چیزیں بھی بہت اچھی ہیں۔۔۔ خالہ جان نے بہت محبت سے بنوائی ہیں۔۔۔” اس کے منہ سے اتنا ہی نکلا۔۔۔ اس وقت وہ کسی سے بات کرنا نہیں چاہتی تھی۔۔ اور اپنی شادی کے متعلق تو کچھ بھی نہیں لیکن مجبور تھی۔ ثنا سے یہ بھی نہیں کہہ سکتی تھی کہ میں تھوڑی دیر چُپ رہنا چاہتی ہوں۔۔۔ اپنے آپ سے باتیں کرنا چاہتی ہوں۔ پلیز تم یہاں سے چلی جاؤ۔۔ کیوں کہ اب وہ خالہ زاد یا دوست نہیں بلکہ ایک اور رشتے کے حق سے اس کے پاس بیٹھی تھی۔۔۔ اب وہ اس کی نند تھی۔۔۔ ” سامعہ تمہیں پتا ہے بھائی نے کمرہ بہت خوبصورت سیٹ کروایا ہے۔ پلیٹ سے کباب اُٹھا کر کھاتے ہوئے ثنا نے چٹخارہ بھرا۔۔ تو سامعہ کو عجیب سے احساسات نے گھیر لیا۔۔۔ کبیر علی جس کے بارے میں اس نے کبھی اپنے دل میں کوئی نرم گوشہ نہیں پایا تھا۔ اب اس کے لائف پارٹنر کا روپ دھار لے گا۔۔۔ یہ احساس ہی بدمزہ کر دینے والا تھا۔۔۔ اپنی بات پر اس کے خوبصورت چہرے پر کسی لالی کا نام و نشان نہ پا کر ثنا حیرانی سے اس کی طرف دیکھنے لگی۔۔ اس کا خیا ل تھا کہ اپنے کمرے کے ذکر پر وہ کچھ نہ کچھ تو بولے گی لیکن وہاں توچہرہ ایک دم سپاٹ تھا۔۔۔ جیسے اُسے اس ذکر سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔ ثنا نے بھی مزید کوئی بات کرنا مناسب نہ سمجھا۔۔ اُسے اندازہ تھا کہ وہ اپنے ماں باپ کے اکیلے پن کی وجہ سے پریشان ہے۔اسی لئے اتنی عجیب سی کیفیت کا شکار ہے۔۔۔” چلو تم آرام کرو۔ میں ذرا باہر دیکھتی ہوں ۔بڑوں کی باتیں ختم ہو گئی ہوں، تو چلنے کا کوئی پروگرام بنائیں۔۔۔” وہ جاتے ہوئے ٹرے بھی سمیٹ کر لے گئی۔۔۔ اُس وقت سامعہ سے بہت ساری باتیں کرنے کے خیال سے آئی تھی۔ لیکن اس کا سر د رویہ دیکھ کر جلدی ہی لوٹ گئی۔۔ وہ اُسے اپنے بھائی کی کی بے تابی کے بارے میں بہت ساری باتیں کرنا چاہتی تھی۔۔۔ اس شدید محبت کے بارے میں آگاہ کرنا چاہتی تھی۔ کتنے عرصہ سے اس کا بھائی سامعہ کو چاہتا ہے۔ لیکن اُسے محسوس ہو گیا تھا کہ وہ کوئی بات نہیں کرنا چاہتی۔۔۔ اسی لیے وہاں سے اُٹھ گئی۔۔۔ حاجی صاحب کے کمرے میں رونق اسی طرح لگی ہوئی تھی۔۔۔ سب ہنس بول رہے تھے ثنا بھی ایک کونے میں جا کر خاموشی سے بیٹھ گئی۔۔۔ وہ کسی سے چلنے کا کہہ بھی نہیں سکتی تھی بڑوں کی محفل میں بولنا بے ادبی ہوتی۔۔۔ اسی لیے اس نے کبیر علی کو میسج کیا کہ اب چلنے کی اجازت لی جائے۔ کافی رات ہو گئی ہے۔۔ گھر میں ڈھیروں کام کرنے والے ہیں۔۔ تو کبیر علی نے اس کی حالت کے پیش ِ نظر حاجی صاحب اور خالہ سے رخصت کی اجازت لی۔۔۔
x۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔x۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔x
صارم کو پولیس پکڑ کر لے گئی۔ یہ خبر عمر کو اس کی کوٹھی پر جا کر معلوم ہوئی۔۔۔ وہ جب صارم کے دئیے ہوئے وقت سے آدھا گھنٹہ لیٹ وہاں پہنچا تو ہر طرف افراتفری تھی۔۔۔ گیٹ پر موجود چوکی دار بھی اب وہاں نہیں تھا۔۔ برابر والے بنگلے کے ایک ملازم نے اُسے پوری کہانی سنائی۔ تو وہ چونک گیا۔۔ اور اُلٹے قدموں وہاں سے لوٹ آیا۔۔۔ پورے راستے یہ خیال اُسے پریشان کرتا رہا کہ صارم نے اُسے جو ٹائم دیا تھا اگر وہ اس وقت وہاں پہنچ جاتا تو شاید وہ بھی باقی سب کے ساتھ دَھر لیا جاتا۔۔۔ اُسے اور سیما کو میٹنگ میں تھوڑا دیر ہو گئی اور اس کے لیے اس نے صارم کو میسج بھی کر دیا تھا۔وہ تھوڑا لیت ہوگا۔ سامعہ کے پہنچنے کی صورت میں صورت ِ حال سنبھا ل لے۔شاید صار م کو اس کا میسج پڑھنا نصیب ہی نہیں ہوا۔۔۔ ورنہ وہ اسے کال بیک یا ریپلائی ضرور کرتا۔ وہ دوبارہ آفس جانے کے بجائے گھر آگیا۔۔۔ تھوڑی دیر کے لئے اس کا دماغ بھی گھوم کر رہ گیا تھا۔۔۔ کہ اگروہ بھی صارم کے ساتھ گرفتار ہو جاتا تو۔۔ لیکن کیا سامعہ وہاں پہنچی تھی۔۔ یہ سوال عمر کو مزید پریشان کر گیا۔۔ اگر وہ پہنچی اور اس کو گرفتار کر لیا گیا تو کہیں وہ میرا نام نہ لے دے۔۔۔ عمر نے پریشان ہو کر سر پر ہاتھ پھیرا۔۔ اس کاپورا جسم پسینے سے بھر گیا۔۔۔ وہ شدید قسم کے تناؤکا شکار ہو گیا تھا۔۔۔ لیکن مجبور تھا خبر کھلنے تک وہ کسی سے پوچھ بھی نہیں سکتا تھا۔۔۔ اس نے کچھ سوچ کر ایمان کو کال ملائی۔۔ ” ہیلو عمر تمہیں صارم کے گھر چھاپے کا علم ہوا۔۔۔” اس سے پہلے کہ وہ ایمان سے کچھ پوچھتا۔ ایمان نے فون ریسیو کرتے ہی عمر سے پہلا سوال ہی یہی کیا۔۔۔” ہاں اس نے مجھے بھی بلایا تھا لیکن میں میٹنگ میں لیٹ ہو گیا۔ اسی لیے جب وہاں پہنچا تو پولیس اُسے لے کر جا چکی تھی۔۔۔” ” یار صارم کے ساتھ بہت بُرا ہوا مجھے لگتا ہے کسی نے مخبری کر دی۔۔ ورنہ وہ تو سالوں سے ایسی پارٹیاں کرتا ہی رہتا تھا۔۔۔” ایمان نے عمر کو بتایا۔۔۔”آج کیا کوئی خاص پارٹی تھی۔۔۔” عمر ایمان کے منہ سے سُننا چاہتا تھا کہ کیاصارم نے عمر اور سامعہ کی ملاقات کے سلسلے میں توکچھ نہیں بتایا۔۔۔ ” مجھے نہیں معلوم۔ میں نے تو کل اُسے یونہی فون کیا تھا۔۔۔ تو اس نے اصرار کیا کہ کل شام کو آجانا۔ ایک پارٹی ہے۔۔۔ میں شوٹنگ پر تھی کہ ایک دوست نے فون کر کے اس واقعے کے بارے میں بتایا۔۔” ایمان نے سرسری انداز میں بتایا تو عمر نے سکون کا سانس لیا۔۔۔ اُسے یقین تھا کہ صارم کسی بھی طرح اس کا نام نہیں آنے دے گا۔
آج صُبح سے اماں کے دل کو کچھ ہو رہا تھا۔ وہ بار بار اس کے پاس آکر گلے لگا کر رونے لگتیں۔۔۔ کبھی اس کے گال پر پیار کرتیں۔ کبھی ہاتھ چومتیں۔۔۔ اور وہ بس خاموشی سے ان کے یہ جذباتی انداز دیکھتی رہی۔۔۔ جتنے آنسو اس نے بہانے تھے بہا لئے۔۔۔ کبھی کبھی ہمارے آنسو بالکل خشک ہو جاتے ہیں۔۔۔ یا ہم فرض کر لیتے ہیں کہ کچھ بھی ہو جائے ہمیں رونا نہیں۔۔۔ کسی کے آگے اور نا ہی اپنی ذات کے آگے۔۔۔ شاید خود سے بدلہ لینے کا اس سے بہترین کوئی طریقہ نہیں۔۔۔ وہ بھی خود سے بدلہ لینے کی ٹھان کر بیٹھی تھی۔۔۔ زندگی نے اُسے کتنا دُکھ دیا تھا۔ اتنی سی عمر میں جگہ جگہ اپنی دکان کھول کر دکھوں نے کپڑا بیچنے کی کوشش کی۔اپنی زندگی سے وہ شدید بد دل ہو چکی تھی۔۔۔ وہ سمجھ چکی تھی کہ قسمت نے اس کے لیے کچھ اچھا نہیں لکھا۔۔ اور عمر کی اُس حرکت کے بعد تو اُسے جیسے پکاّ یقین ہو چکا تھا کہ کبیر علی سے بھی اُسے کوئی خوشی نہیں مل پائے گی۔۔۔ وہ ان لڑکیوں میں سے تھی، جنہیں اچھی شکل سے تو ضرور نواز جاتا ہے مگر ساتھ میں بدقسمتی کی پوٹلی بھی تھما دی جاتی ہے۔۔۔ جاؤ اور جگہ جگہ ٹھوکریں کھاؤ، آنسو بہاؤ اور اپنی بد قسمتی کو روتے رہو۔۔۔ جب تھک جاؤ تو ایسی قسمت دینے والے سے کوئی شکوہ یا شکایت بھی نہ کرو۔۔۔ ورنہ مزید ٹھوکریں مقدر میں لکھ دی جائیں گی۔۔۔ اُسے ایک لمحے بھی خوشی کا ایسا کوئی احساس چھو کر نہیں گذرا جیسا لڑکیوں کو شادی سے پہلے ہوتا ہے۔۔۔ وہ کپڑوں، چوڑیوں اور جوتوں کی شدید شوقین تھی۔اس وقت اُسے ان سب چیزوں سے نفرت محسوس ہو رہی تھی جوآج کے دن کے لئے تیار کروائی گئی تھیں۔۔۔ سرخ جوڑا اسے آگ کا انگارہ محسوس ہو رہا تھا۔۔۔ اماں اس سے نہ جانے کیا کیا کہہ رہی تھیں۔ اس کی سمجھ نہیں آرہا تھا۔۔۔ وہ اُسے آنے والے وقت کے بارے میں اور خالہ کے احسانوں کے بارے میں بہت کچھ بتا رہی تھیں۔ لیکن وہ تو صرف پاس پڑے جوڑے کو تک رہی تھی۔اپنے شوہر کے بارے میں کتنے ارمان تھے اُس کے۔۔۔ کبیر علی کے شوہر بننے کا خیال تو کبھی اس کے گُمان میں بھی نہ تھا۔۔۔ تمام عمر کے لیے ہمارے نصیب میں اکثر وہی چیزیں لکھ دی جاتی ہیں جن کو ہم کم تر جان کر چھوڑ دیتے ہیں۔۔۔ اور پھر ناپسندیدہ چیز مقدر ہونے پر تمام عمر کی تڑپ بھی ہمارا مقدر کر دی جاتی ہے۔۔۔
” دیکھو بیٹا! آپا کا بہت خیال رکھنا۔۔۔ مجھے ان کی طرف سے کبھی کوئی شکایت نہ ملے۔۔۔ ویسے مجھے اُمید ہے کہ وہ خودکبھی ایسا ماحول پیدا ہی نہیں ہونے دیں گی۔۔۔ اب یہی دیکھ لو۔۔۔۔ تمہارے شوہر نے شروع سے تمہیں الگ پورشن دے دیا۔۔۔ کون کرتا ہے ایسا؟۔۔۔ اور جب بیٹا بھی اکلوتا ہو۔۔۔ صرف تمہاری خوشی کی خاطر کہ تم اپنی مرضی سے اپنے گھر کو سجاؤ سنوارو۔۔۔ اپنی مرضی سے کچن سنبھالو۔۔۔۔ ” وہ ان کی بات پر صرف ایک خاموش نظر ڈال کر رہ گئی۔۔۔ وہ چاہتی تھی کہ پچھلے وقت کی ساری باتیں بھول جائے۔۔۔ لیکن ممکن ہی نہ تھا۔۔۔ اور اس آخری چوٹ نے تو اُسے ایک عجیب سے احساس میں گرفتار کر دیا تھا۔آج وہ اپنے ربّ سے شکوہ کناں نہیں تھی۔۔۔ لیکن خوش بھی نہ تھی۔۔۔ وہ اتنے بڑے حادثے سے بچ نکلی تھی۔ اللہ نے رسوائی سے بچا لیا تھا۔۔ لیکن یہ رسوائی صرف اس کا مقدر ہی کیوں؟۔۔۔ ایسا کیا جرم کیا تھا اس نے کہ اس کے نصیب میں کہ خوشی کا احساس ہی نہیں تھا۔۔۔ پتا نہیں شیطان بہکاوئے کے لیے حضرتِ انسان کو کِن کن باتوں پر سوچنے کے لیے مجبور کر دیتا ہے۔۔۔ اس وقت اُسے اللہ کا شکر ادا کر کے صرف کبیر علی پر قناعت کرنا چاہیے تھی لیکن وہ اسے ناشکری کے نئے راستے دکھا رہا تھا۔۔۔ اس واقعہ کے بعد اُسے عمر سے نفر ت تو ہوگئی لیکن کبیر علی سے محبت نہ ہو سکی۔۔۔ وہ اُسے اپنے شوہر کے روپ میں سوچنا بھی نہیں چاہتی تھی۔۔۔ تو ساری عمر کیسے اس کے ساتھ رہ پائے گی؟۔۔ شیطان نے اس بار بہکاوے کے لیے خود ترسی کا ہتھیار اُٹھالیا۔۔۔ اُسے خود پر اور اپنی قسمت پر ترس کا شکار بنا دیا۔ اے میرے رب! اتنی خوب صورت شکل کے ساتھ اگر ساتھی بھی خوب صورت دے دیتا تو کیا تیرے لیے ایسا ممکن نہ تھا؟۔۔۔ وہ اس وقت صرف اپنی ذات کو محوّر بنا کر سوچ رہی تھی۔ مگر اس کا رب تو اپنے ہر بندے سے برابر کی محبت کرتا ہے۔ وہ کبیر علی کی محبت اور اس کی صور ت کو ملا کر لوگوں کے لیے ایک بہترین مثال بنا رہا تھا۔۔۔ جسے وہ بے وقوف شیطان کے بہکاوے میں آکر سمجھ ہی نہیں پا رہی تھی۔۔۔ اچھی شکل کے ساتھ اگر محبت مقدر نہ ہو تو زندگی بے روح بسر ہوتی ہے۔ اس کا رب کبیر علی کی پوری محبت اُسے سونپ کر مکمل کرنا چاہتا تھا۔۔۔ اُسے معلوم ہی نہ تھا کہ عمر جیسے نرگیسیت کا شکار شخص اُسے کبھی محبت نہیں دے سکتا تھا۔۔۔ اُسے وہ اپنائیت کا احساس نہیں دے سکتا تھا، جس کی وہ مستحق تھی۔جو صرف کبیر علی دے سکتے تھے۔۔۔ وہ پہلے بھی اپنی بے خبری میں ماری گئی تھی اوراُس سوچ کے ساتھ آگے بھی یہی خدشہ نظر آرہا تھا۔۔۔
x۔۔۔۔۔۔۔۔x۔۔۔۔۔۔۔۔۔x
ماموں کا بیٹا زوہیب اور بیٹی دونوں اسے پارلر لے جانے کے لیے آگئے تھے۔ زوہیب نے اس کا وینٹی بکس اور کپڑے گاڑی میں رکھے۔ اتنی دیر میں اماں نے اس پر چادر ڈال دی۔وہ مایوں کے زرد جوڑے میں بہت خوب صورت لگ رہی تھی۔۔۔ ” اللہ تمہیں بہت سی خوشیوں سے نوازے۔۔۔”یہ دعا دیتے ہوئے اماں نے نم آنکھوں کے ساتھ اس پر معوذتین اور آیت الکرسی کا دم کیا اور گاڑی میں بٹھا دیا۔۔۔ اس نے دروازے کی طرف دیکھا۔۔۔ یہ اس گھر سے اس کا الوداعی منظر تھا۔۔۔ یہ گھر اب اس کے لیے پرایا ہو رہا تھا۔۔۔ وہ قدرے دُکھ سے ماں کی طرف دیکھنے لگی۔ جو منہ ہی منہ میں کچھ پڑھ رہی تھیں۔۔۔ اس کا دل چاہا کہ تھوڑی دیررُک کر ابّا سے بھی مل لیتی۔۔۔ لیکن اتنی دیر میں زوہیب نے گاڑی آگے بڑھا دی۔۔ وہ اپنی گلی کے ایک ایک منظر کو اپنی آنکھوں میں بند کرتی گئی۔۔۔ اُس گلی میں اس نے اپنی سہیلیوں کے ساتھ کم عمری میں بہت وقت گذارا تھا۔ اس وقت ابّا اتنی سختی نہیں کرتے تھے۔ تھوڑا بڑا ہوتے ہی انہوں نے اس کا بلا ضرورت باہر جانابند کر دیا۔۔۔ آہستہ آہستہ دوستوں اور سہیلیوں نے بھی گھر آنا کم کر دیا۔۔۔ کبھی کبھار، عید بقر ا عید پر وہ اماں کے ساتھ اپنی سہیلیوں کے گھر چلی جاتی تھی۔۔۔لیکن پھر آہستہ آہستہ وہ بھی ختم ہو گیا۔۔۔ سب ابّا کے سخت رویے سے نالاں تھے۔۔ گلی ختم ہوتے ہی بازار شروع ہو گیا۔۔۔ چاچا فیکے کی دکان سے وہ بچپن میں دودھ جلیبی لے کر آتی تھی۔ ظفر بڑا ہوا تو گھر کا سامان وہ لانے لگا۔۔۔اس کے برابر والی چھوٹی سی گوشت کی دکان اب کافی بہتر ہو چکی تھی۔۔ اُسے ایک ایک شے سے جُڑا اپنا بچپن یاد آرہا تھا۔۔۔ اس نے ٹشو سے اپنی بھیگی اور نم آنکھیں پونچھیں اور موبائل ہاتھ میں لے کر اس کے میسج پڑھنے لگی۔۔۔ عمر کا ایک ایک میسج محفوظ تھا۔۔۔ اس نے عمر کے نمبر سے آئے اب تک سارے میسج ڈیلیٹ کر دئیے۔کل سے وہ اس بات کی ہمت کر رہی تھی۔۔۔ اور آج پوری ہمت سے اس نے میسج کے ساتھ کا نام اور نمبر بھی مٹا دیا۔۔۔ اُسے پہلی ملاقات سے عمر کے آخری جھوٹے بلاوے تک ایک ایک لمحہ یادآیا۔۔۔ وہ اب اس کے بارے میں کبھی نہیں سوچے گی۔ اس نے مصّمم ارادے کے ساتھ موبائل پاورڈ آف کر دیا۔۔۔ وہ پارلر پہنچ چکے تھے۔ کار رکتے ہی دھچکے نے اُسے حال کی دنیا میں لا پھینکا۔ پارلر میں تیار ہوتے اور ایک آخری آنسو بہاتے ہوئے اس نے سوچا کہ اب کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھے گی۔۔۔ لیکن کبیر علی اور خالہ کے گھر میں خوش بھی رہ سکے گی۔۔۔ یہ سوال تو اس کے لیے بھی ایک پہیلی تھا۔۔۔ نہ جانے قسمت نے اس کے لیے آگے کیا لکھ رکھا تھا۔۔۔
x۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔x۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔x
پارلر والی نے میک اپ کی آکری ٹچنگ کے بعد اُس کے ماتھے پر ٹیکا سجاتے ہوئے اسے آج کی سب سے خوبصورت دلہن کا کمپلیمنٹ دیا۔ وہ صرف مُسکرا کر رہ گئی۔۔۔ ” واؤ سامعہ آپی آپ تو واقعی دلہن بن کر بہت خوب صورت لگ رہی ہیں۔۔۔” رمشانے اُسے دیکھا تو چیخ ہی پڑی۔۔۔” کبیر بھائی تو آج بے ہوش ہو جائیں گے۔۔آپ کا حُسن لشکارے مار رہا ہے۔۔۔” اس نے فرینڈلی اندا زمیں کہا اور ایک آنکھ دبائی۔۔۔ تو وہ بے حسی سے مسکرا کر رہ گئی۔ اس کی مسکراہٹ میں بالکل جان نہیں تھی۔۔۔ جان تو اس کے اپنے اندر بھی نہیں تھی۔۔۔۔ اُسے اپنے اتنے ڈھیر سارے حُسن پر ترس آرہا تھا۔۔۔ حسن پر ترس کب آتا ہے؟ جب اس کا سراہنے والا آپ کو محبوب نہ ہو۔۔۔ کبیر علی شاید اس کے محبوب کا درجہ کبھی نہ پا سکیں پھر کیا ان کی محبت اور کیا ان کا سراہنا۔۔۔ سب ثانوی سی باتیں تھیں۔۔۔ وہ لہنگا سنبھالتی رمشا کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گئی۔۔۔ یہاں سے اُسے سیدھا ہال پہنچنا تھا۔۔۔
x۔۔۔۔۔۔۔۔x۔۔۔۔۔۔۔۔۔x
کبیر علی تیار ہو کر ماں کے سامنے آئے۔ تو انہوں نے ان کے سر پر سے صدقہ اُتار کر پیسے کام والی کو دے دئیے۔۔۔ آج ان کے بیٹے پر الگ روپ آیا ہوا تھالوگ صحیح کہتے ہیں بارات والے دن صرف دلہن پر نہیں بلکہ دُلہا پر بھی روپ آتا ہے۔۔ اس وقت وہ آف وائٹ شیروانی میں بہت خوب صورت لگ رہے تھے۔۔۔ یا شاید وہ ایک ماں کی نظر سے دیکھ رہی تھیں۔ جسے اپنی اولاد دنیا کی تمام اولادوں سے پیاری ہوتی ہے۔۔۔ ثنا نے بھی بھائی کودیکھا۔ تو سیدھا آکر ان کے گلے لگ گئی۔۔” بہت اچھے لگ رہے ہیں بھائی۔۔” وہ مسکرا دئیے۔ بہن کی محبت بھی کیا چیز ہے۔۔ ” ماشاء اللہ بولو ” سلمیٰ بیگم نے فوراً ٹوک دیا۔۔۔
” ارے اماں! وہ تو میں پہلے ہی کہہ چکی ہوں۔۔۔۔ اب تو تعریف کر رہی ہوں۔۔۔” اس نے جواب دیا۔۔۔” اچھا چلو دیر ہو رہی ہے اب کس کا انتظار ہے۔۔” سلمیٰ بیگم نے گھڑی دیکھی۔ جہاں سوئی آٹھ کا ہندسہ عبور کر چکی تھی۔۔۔ ” بس اماں پانچ منٹ۔رضوان صاحب کا انتظار ہے۔وہ آرہے ہیں۔ ہمارے ساتھ ہی جائیں گے۔۔۔” کبیر علی نے گھڑی پر نظر دالی۔۔۔ ان کے لیے یہی بہت تھا کہ ان کا باس انہیں اتنی اہمیت دے رہا تھا کہ شادی میں شریک ہونے کے علاوہ بارات میں بھی ساتھ جانے کو کہا تھا۔۔۔ انتظار تو ضروری تھا۔۔۔اور پندرہ منٹ بعد رحیم بابا اور رضوان ان کے گھر میں تھے۔۔۔ سلمیٰ بیگم ان سے مل کر بہت خوش ہوئیں۔ انہین اندازہ نہیں تھا کہ وہ اتنی کم عمری میں اتنی بڑی پوزیشن کے مالک ہوں گے۔۔۔ رحیم بابا اور رضوان ان کے لیے گفٹس بھی لائے تھے۔۔ دلہن کے لیے ایک سونے کا سیٹ اور سلمیٰ بیگم کے لیے سوٹ اور شال۔۔ ” اس تکلیف کی کیا ضرورت تھی۔۔۔”سلمیٰ بیگم کو اپنے لیے گفٹ کچھ زیادہ ہی لگا۔۔” ساتھ میں مٹھائی اور پھل بھی تھے۔۔۔”ارے خالہ جان یہ کچھ اتنا زیادہ بھی نہیں ہے۔۔۔” وہ شرمندہ ہو گئے۔۔” بس دُلہن کے لئے گفٹ لے آتے کافی تھا۔۔۔” وہ بولیں۔۔
” کبیر علی میرے بڑے بھائی کی طرح ہیں۔۔ آپ نہیں جانتیں انہوں نے مجھ پر کتنا بڑا احسان کیا ہے۔ رحیم بابا گواہ ہیں کہ انہوں نے میری غیر موجودگی میں بابا کا کتنا خیال رکھا ہے۔۔۔ یہ تو اس کے آگے کچھ نہیں۔۔۔” وہ مُسکرا دئیے۔
” بھائی خالوجان کا فون آیا ہے کہ وہ سب ہال پہنچ گئے ہیں۔۔۔” ثنا اپنا موبائل بند کرتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی۔ اسے یہاں رضوان کی موجودگی کا علم نہ تھا۔۔۔ اس لئے بات کرتے کرتے رُکی اور جھجھک سی گئی۔۔۔ لیکن رضوان کی نظر اس کے بھولے پن پر ہی اٹک گئی۔۔۔ گرین اور اورنچ چٹا پٹی غرارہ دوپٹے میں وہ بہت خوب صورت لگ رہی تھی۔۔۔ لیکن اس کی خوبصورتی پر اس کی معصومیت حاوی تھی۔۔۔ اور یہی معصومیت رضوان کے دماغ پر حاوی ہو گئی۔۔۔ اور یہی سلسلہ پوری بارات میں چلتا رہا۔۔۔ ان کی نظر کسی نہ کسی بہانے ادھر سے اُدھر جاتی ثنا پر اٹک سی جاتی۔۔۔ ناجانے ایسا کیوں تھا۔ وہ یہ سب نادانستگی میں کر رہے تھے۔ اس کا احساس ثنا کو بھی تھا۔۔۔ اسی لیے اُسے بار بار ان کے دیکھنے پر عجیب سی جھجھک ہو رہی تھی۔۔۔ وہ کوشش کر رہی تھی کہ اس کا ٹکراؤ رضوان سے کم سے کم ہی ہو۔۔۔ لیکن اس رات کتنی بار ان دونوں کا سامنا ہوا۔۔۔ اُسے خود بھی معلوم نہ ہو سکا۔۔۔
x۔۔۔۔۔۔۔۔x۔۔۔۔۔۔۔۔x
نکاح کے وقت ماموں جان نے جب اس سے نکاح قبولیت کا عندیہ لیا، تو وہ ایک لمحے کو سوچ میں پڑ گئی۔۔ کہ یہ سوال اس سے ہی کیا گیا ہے۔۔ چند لمحے لگے اُسے حواسوں میں آنے کے لیے۔ اماں نے جب اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔تو وہ جیسے ہوش میں آگئی۔۔۔ بہت مشکل سے اس کے حلق سے قبول ہے نکلا۔ پھرجو رونا شروع کیا تو اماں اس کو چپ کرانے میں خود ر رو پڑیں۔۔۔ بلکہ اس وقت کمرے میں موجود ہر شخص غمگین تھا۔۔۔ بیٹی کی رخصتی کا دُکھ تو سب والدین کا سانجھا ہی ہوتا ہے۔۔۔ جس نے کبھی اپنی بیٹی رخصت کی ہو۔۔۔ کسی دوسرے کی بیٹی کی رخصتی پر اس کی آنکھوں سے آنسو خود بہ خود نکل ہی آتے ہیں۔۔ خالہ نے بھی آگے بڑھ کر اس کو گلے لگا لیا۔۔۔ اب وہ ان کے گھر کا باقاعدہ رکن تھی۔ اس کی خوشی اور غم کا خیال انہیں اپنی سگی بیٹی کی طرح رکھنا تھا۔۔
دیگر سہیلیوں کی طرح سیما بھی نانو بی کے ساتھ اس کی شادی میں شریک ہوئی۔۔ اور ایک لمحے کو اس کیا دُلہن والا روپ دیکھ کر تعریف کئے بنا نہ رہ سکی۔۔۔ ” خدا کی قسم! بہت خوب صورت لگ رہی ہو۔۔۔ مجھے کالج کے ڈرامے والی انار کلی یاد آگئی۔۔۔” وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر تعریف کر رہی تھی۔۔۔ اس وقت تک کبیر علی کو دلہن کے ساتھ سٹیج پر نہیں بٹھایا گیا تھا۔۔۔ اس لئے ساری دوستوں کو موقع مل گیا اس کے پاس آنے گا۔۔۔اس وقت وہ سیما سے اس کے کزن کی بابت کوئی سوال نہیں کر سکتی تھی۔۔۔ لیکن پوچھنا چاہتی تھی کہ اس دوپہر اس کے ساتھ کیا ہوا؟۔۔۔ کیا وہ اس وقت وہاں موجود تھا۔۔۔ اگر نہیں تو اس نے سامعہ کو وہاں کیوں بلایا تھا۔۔۔ مگر وہ یہ سارے سوالات اپنے دل میں دبا کر بیٹھ گئی۔۔۔ کیا فائدہ اسے پولیس نے گرفتار کر لیا یا اس کے دوست کے مطابق وہ زندگی کی آخری سانسیں لے رہا تھا۔۔۔ ہر صورت میں نقصان تو صرف سامعہ کا ہوا تھا۔۔۔ جو ذہنی اور نفیساتی اذیت سامعہ نے اتنے دن اٹھائی اس کا حساب وہ کس سے لے؟۔۔۔ کس سے پوچھے کہ عمرنے اُسے اپنی ہوس کو مٹانے کے لیے اس عیش کدہ میں کیوں بلایا تھا۔۔۔ وہ سیما کی تعریف سُن کر بس زبردستی مسکرا کر رہ گئی۔ اور اتنے میں کبیر علی کو اس کے برابر صوفے پر لا کر بٹھا دیا گیا۔۔۔ دونوں کی جوڑی اتنی بُری بھی نہیں لگ رہی تھی۔۔۔اگر وہ بے انتہا حسین اور خوب صورت لگ رہی تھی۔۔ تو روپ کبیر علی پر بھی کم نہیں آیا تھا۔۔۔ بے شک وہ ایک حسین و جمیل مرد نہیں تھے لیکن وجہیہ اور پر وقار ضرور تھے۔۔۔ جس کی گواہی آج اس شادی میں شریک ہر آنکھ دے رہی تھی۔۔۔ کبیر علی نے ایک چور نظر پاس بیٹھی سامعہ پہ ڈالی۔۔۔ کیا ہوتا ہے یہ نکاح کا بندھن۔۔۔سرخ جوڑے میں ملبوس برابر بیٹھی اس کی کزن کل تک بالکل نا محرم تھی۔ایک نکاح نے دونوں کو اٹوٹ سا انگ بنا دیا تھا۔۔۔ ایسا کبیر علی سوچ رہے تھے۔۔۔۔ بلکہ دل ہی دل میں اس سے اظہار محبت کے لیے الفاظ ڈھونڈ رہے تھے۔۔۔۔سامعہ کے سامنے ان کے لفظ ہمیشہ کُند ہو جاتے تھے۔۔۔ وہ ہمیشہ کچھ نہ کچھ کہنا چاہتے تھے لیکن کہہ نہیں پاتے۔۔۔ مگر آج تو سارا دن شیشے کے سامنے کھڑے ہو کر انہوں نے بہت ساری پریکٹس کی تھی۔ اس کا گھونگھٹ اُلٹتے ہی انہیں کیسے ڈائیلاگ بولنے ہیں؟۔۔۔ لیکن وہ یہ بھی جانتے تھے کہ سے نظر ملاتے ہی وہ سارے لفظ بھاپ بن کر اُڑ جائیں گے۔ خود وہ گونگے بن جائیں گے۔ نا جانے اس سے وہ اتنے مرعوب کیوں رہتے تھے۔۔۔ محبت ہمیں محبوب کی مرعوبیت میں مبتلا کر دیتی ہے۔۔۔اپنی بات کرنے جوگا نہیں رکھتی۔۔۔وہ اس سے اور اس کے حسن سے ہمیشہ مرعوب رہے۔ اسی لئے منگنی کے بعد اس کی خواہش کا پاس رکھتے ہوئے فون تک پر دل کی بات نہ کہہ سکے۔۔۔ لیکن آج اپنے اس مرعوب چولے کو اتار پھینکنا ہے۔۔۔ دل کی ہر بات کر دینا ہے۔۔ ایسا انہوں نے طے کر لیا تھا۔۔۔
x۔۔۔۔۔۔۔۔x۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔x
رخصتی کے وقت وہ بہت ضبط کر رہی تھی کہ اس کا ایک آنسو نہ ٹپکے۔جب ابّا نے اُسے گلے لگایا۔تو وہ پھوٹ پھوٹ کر روپڑی۔ وہیل چیئر پر بیٹھے ابّا نے اس کے سر کو بڑے پیار سے تھپکا۔۔ اس تھپکی میں آج اسے بہت مٹھاس محسوس ہوئی۔۔۔ ایک ایسی اپنائیت تھی جس کو وہ بیان نہیں کر پا رہی تھی۔۔۔ابّا سے یہ احساس کبھی بچپن میں ملتا تھا لیکن پھر آہستہ آہستہ ابّا کا سخت رویہ دونوں بہن بھائیوں سے ترش ہو تا گیا۔۔۔ اُسے آج تک سمجھ نہیں آیا کہ ابّا کو کس بات نے بدل دیا تھا۔۔۔ وہ اتنے سخت کیوں ہو گئے تھے۔ سامعہ او رظفر کے ساتھ ان کا رویہّ اتنا آگ برساتاہوا کیوں تھا۔۔ لیکن آج ان کے لمس میں وہی پرانی والی ٹھنڈک تھی۔جو اسے کبھی بچپن میں اپنے باپ کی ہتھیلیوں میں محسوس ہوتی۔۔۔ اماں نے بھی اُسے گلے لگایا۔۔ اور پیار کیا۔۔۔ لیکن اس کے آنسو نہیں رُک رہے تھے۔۔۔۔ وہ سوچ رہی تھی کہ اماں اور ابّا کا ساتھ۔۔۔ بس اتنا ہی تھا۔۔۔ اب وہ اُن کے لیے پرائی ہو چکی ہے۔۔۔۔ ثنا نے اس کو رونے سے منع کیا۔ “میک اَپ خراب ہو جائے گا۔۔ ابھی تو بھائی نے تمہیں دیکھا بھی نہیں، تمہاری رونمائی بھی نہیں دی۔۔۔۔” اپنے طور پر وہ اس کو خوش کرنا چاہتی تھی۔۔۔۔ اپنائیت کا احساس دلانا چاہتی تھی لیکن وہ ایک بار پھر پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔۔۔ اس گھر سے بچھڑنے سے بڑا دکھ کبیر علی کے ساتھ پوری عمر گذارنے کا تھا۔۔۔کیسے گذرے گی یہ عمر؟۔۔ ایک من چاہے کے بغیر۔۔۔ لیکن قدرت کی سوچ ہماری سوچ کے تابع کب ہوتی ہے۔۔۔ وہ ہمارا بھلا چاہتی ہے۔۔۔ اور ہم اکثر سمجھتے ہی نہیں کہ کس چیز میں ہماری بھلائی ہے۔۔۔ بس کانٹوں کی چاہ میں انگلیاں زخمی کر بیٹھتے ہیں۔
x۔۔۔۔۔۔۔۔x۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔x
سیما نیعمر کو آفس میں ہی بتا دیا تھا کہ آج سامعہ کی رخصتی ہے اور وہ نانو بی کے ساتھ جائے گی۔۔۔ وہ کَلس کر رہ گیا۔۔۔ یہ لڑکی اس کے ہاتھ سے نکل گئی تھی۔۔ شاید اُسے ساری عمر اس بات کا افسوس رہے گا۔۔۔ صارم کو پولیس پکڑ کر لے گئی۔۔۔ اس کاافسوس بھی اپنی جگہ تھا۔۔۔مگر اس بات پر بھی وہ شکر ادا کر رہا تھا کہ وہ وہاں وقت پر نہ پہنچ سکا۔۔۔ ورنہ وہ بھی آج صارم کے ساتھ تھانے میں بند ہوتا۔۔۔ اس نے اپنی شام رنگین کرنے اور غم بھُلانے کے لیے ایمان کو کال ملا دی۔۔ دونوں نے باہر کھانے کا پروگرام بنایا۔۔۔جس وقت سامعہ کا نکاح ہو رہا تھا۔۔۔ وہ ایک کیفے میں ایمان کے حسن کے قصیدے پڑھ رہا تھا۔۔۔ ایمان حیران تھی کہ اتنے دنوں میں وہ پہلی بار اس کو کھُل کر سراہ رہا تھا۔۔۔ وہ خوش ہو گئی۔ کیوں کہ جب پہلی بار کوئی من چاہا شخص عورت کو سراہتا ہے تو عورت کو اپنا وجود مکمل محسوس ہوتا ہے۔۔ ایمان کی زندگی میں مردوں کا آنا جانا تھا۔۔۔ لیکن وہ سب کاروباری آمدو رفت تھی۔۔۔ وہ آتے تعریف کرتے وقت گذارتے، پیسے چکاتے اور چلے جاتے۔۔۔ حتمی طورپر اس کی زندگی میں کوئی مرد ایسا کبھی نہیں آیا تھا۔۔۔ جس کے ساتھ وہ عمر بھر ساتھ نبھانے کا سوچے۔۔۔ عمر سے تو پہلی ملاقات میں ہی ایک انوکھا سا احساس ہوا تھا جس کو کوئی نام دینے سے وہ عرصے تک قاصر رہی۔۔۔ مگر جب اس احساس کو نام ملا تو۔۔۔ ایمان نے فیصلہ کر لیا تھا۔۔ کہ وہ شادی کرے گی تو صرف عمر کے ساتھ۔۔۔ وہ چاہتی تھی کہ عمر خود اس بارے میں اس سے کوئی بات کرے۔۔۔ وہ اس وقت جہاں اس کے سنگ نئی زندگی کے سپنے بُن رہی تھی وہ وہیں سامعہ سے بدلا نہ سکنے کا غم مٹا رہا تھا۔۔۔۔
دونوں نے کافی وقت ایک ساتھ گذارا اور پھر اچھے دوستوں کی طرح ایک دوسرے سے جدا ہو گئے۔۔
x۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔x۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔x
رخصت ہو کرسامعہ خالہ کے گھر آگئی۔۔۔ حالاں کہ رات بہت ہو گئی تھی لیکن ابھی تک کچھ رسمیں باقی تھیں۔۔۔ ان رسموں کے بعد اسے کمرے تک لے جایا گیا۔ دروازے کے آگے ثنا دیوار بن کر کھڑی تھی۔ ساتھ چند کزنز بھی تھیں۔ ” بھائی ہمارا نیگ دئیے بنا آپ کمرے میں نہیں جا سکتے “۔۔۔ وہ سب دروازے پر دیوار کی طرح جمی کھڑی تھیں۔۔۔ کبیر علی جنہوں نے سامعہ کو کندھوں سے تھاما ہو اتھا۔۔۔ بہن کی حرکت پر مُسکرا اُٹھے۔اماں نے اس رسم کے بارے میں انہیں پہلے ہی بتا دیا تھا۔۔۔ اسی لئے وہ جیب میں رقم کا انتظام کر کے آئے تھے۔ مگرانہیں بہن کو تنگ بھی تو کرنا تھا۔۔۔
” ارے ہٹو! میرے راستے سے اب تم مجھے اپنے کمرے تک جانے سے روکو گی۔۔۔” وہ اُسے بڑے آرام سے ایک جانب کرتے ہوئے کمرے میں داخل ہو گئے۔۔۔ تو ثنا بلبلا کر ان کے پیچھے آئی۔۔ ” بھائی یہ فاؤل ہے نیگ دیئے بنا آپ اندر نہیں آسکتے تھے۔۔” وہ پیچھے پیچھے آئی۔ اتنی دیر میں کبیر بھی سامعہ کو بیڈ پر بٹھا چکے تھے۔۔۔
” بھائی یہ غلط ہے پہلے نیگ دیں ہمارا۔۔ ” ” ارے بھئی کیسا نیگ؟کوئی اپنے کمرے میں داخل ہونے کا بھی نیگ دیتا ہے۔۔۔چلو نکلو میرے کمرے سے۔۔۔” وہ بڑے مزے سے ثنا کو چڑاتے ہوئے بولے۔ ثنا کا موڈ آف ہو گیا۔۔۔” ٹھیک ہے بھائی!یاد رکھیئے گا آپ کی بھی کوئی بہن تھی۔ اب بلاتے رہیں گے۔ مگرمیں نہیں آؤں گی۔۔۔” وہ موڈ آف کر کے کمرے سے نکلنے لگی۔ انہوں نے ایک منٹ میں اُسے جا لیا۔۔۔
” ارے میری پیاری سی بہن! تمہارے بغیر میرا گذارا کب ہے یہ لو۔۔۔ تم سب کا نیگ۔ میں تو مذاق کر رہا تھا۔۔۔” انہوں نے جیب سے رقم نکال کر اس کے حوالے کی۔۔ تو وہ خوش ہو گئی اور بھائی سے لپٹ گئی۔۔۔ ” تھینک یو بھائی!۔۔۔ اور بھابھی۔۔۔” شرارت سے مُسکراتے ہوئے اس بار اس کا مخاطب بیڈ پر بیٹھی سامعہ تھی۔۔۔
” بھابھی ذرا بھاری سا لفظ نہیں لگ رہا۔۔۔ بھائی اگر آپ اجازت دیں تو میں سامعہ کو اس کے نام سے ہی پکاروں۔کیوں کہ وہ سب سے پہلے میری دوست ہے۔۔۔”اس نے بھائی سے کہا تو وہ مُسکرا دئیے۔۔۔
” بھئی یہ تمہارا اور تمہاری دوست کا معاملہ ہے۔ اگر اُسے کوئی اعتراض نہیں تو بھلا مجھے کوئی اعتراض کیوں ہو گا۔۔۔ یہ بات تم دونوں مل کر طے کر لو۔۔۔” انہوں نے معاملے سے ہاتھ کھڑے کر دئیے۔۔۔ تو سامعہ گھونگھٹ کے اندر جل کر رہ گئی۔۔ ان دونوں بہن بھائی کا پیار ہمیشہ اسی طرح رہے گا۔۔۔ اپنی محبتوں میں وہ یہ بھی بھول گئے کہ سارا دن کی تھکی ہوئی دلہن آرام کرنا چاہتی ہے۔۔۔۔لیکن وہ کچھ بول نہ سکی۔۔۔ شاید ابھی اس کے بولنے کا موقع نہیں آیا تھا۔۔۔ اُسے برداشت کرنا تھا۔۔۔ وہ ثنا سے کہنا چاہتی تھی کہ بس کرو محبتوں کے یہ دکھاوئے۔ اسے اب محبت کی کسی قسم پر کوئی یقین نہ رہا تھا۔۔۔ اس کے نزدیک پیار،محبت عشق سب بناوٹ کے پھول تھے۔۔۔ جو نہ تو مرجھاتے اورنا ہی خوشبو دیتے تھے۔۔۔ لیکن کہلاتے پھول ہی تھے۔۔۔
وہ ان دونوں کی باتیں خاموشی سے سُن رہی تھی۔ سوچ رہی تھی کہ اب اس کی زندگی کس طور بسر ہو گی۔۔۔ لیکن بہر حال گذرتا وقت زندگی گذارنے کا سبق دے کر ہی جاتا ہے۔۔۔ اُسے پتا بھی نہیں لگا کہ کب ثنا اس کے کمرے سے نکل گئی۔۔۔ اب کمرے میں صرف وہ اور کبیر علی ہی رہ گئے تھے۔۔۔ اس احساس کے ساتھ ہی اس کے گلے میں تھوک اٹک گیا۔۔۔ جواس نے بہت مشکل سے نگلا۔۔ کبیر علی نے دروازے کی کُنڈی چڑھائی۔۔ اوراس کے پاس آکر بیٹھ گئے۔۔۔
سامعہ کو محسوس ہوا کہ گھٹن سے اس کی سانس رُک جائے گی۔۔۔ ایک لمحے کو اس کی سانس رُک بھی گئی۔۔۔
x۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔x۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔x
رضوان جب سے شادی سے واپس آیا۔ ثنا کے بارے میں ہی سوچ رہا تھا۔۔۔ ایسا کیوں تھا کہ اب تک انہوں نے کسی لڑکی کے بارے میں اتنا deep انداز میں نہیں سوچا تھا۔۔۔شاید اتنا معصوم چہرہ ان کو پہلے نظر ہی نہیں آیا تھا۔۔۔شایداُسے بھی احساس ہو گیا تھا کہ وہ ہر جگہ ان کی نظروں کا محوّر ہے۔ لیکن اس نے نازو انداز دکھانے کے بجائے ہر جگہ ان کی نظروں سے چھپنے کی کوشش کی۔۔ اور یہی بات رضوان کے دل کو چھو گئی۔۔ رحیم بابا ان کے لیے کافی لے کر آئے۔۔ اور کافی دیر تک کبیر علی کی فیملی کے بارے میں ہی بات کرتے رہے۔۔۔ انہیں بھی کبیر علی کی فیملی بہت پسند آئی تھی۔۔۔۔۔ شاید انہوں نے بھی رضوان کا کبیر علی کی بہن ثنا کی طرف جھکاؤ محسوس کر لیا تھا۔۔۔ لیکن گھر کے ملازم کی حیثیت سے کچھ کہنے کا حوصلہ نہ تھا۔۔ بے شک رضوان کو انہوں نے اپنی گودوں میں کھِلایا تھا۔۔۔ لیکن تھے تو اس گھر کے نمک خوار۔۔۔ جب تک رضوان خود ان سے اس بارے میں بات نہ کرتے وہ کچھ نہیں کہہ سکتے تھے۔۔۔ مگر وہ چاہتے تھے کہ اب اس گھر میں بھی عورت کے وجود کا احساس ہو۔۔۔ کتنے دنوں سے یہ گھر بنا عورت کے چل رہا تھا۔۔۔” بابا مجھے آپ سے ایک بات کرنی ہے۔۔۔ ” رضوان نے گلا کھنکھار تے ہوئے کافی کا سِپ لیا۔۔۔۔
(باقی آئندہ)
👌
LikeLiked by 1 person