(وہ برفیلی چوٹی بہت دور رہ چکی اور شاید اب تک اس کی برف پگھل کر کئی طرح کی جھیلوں اور ندی نالوں میں بدل چکی۔مگر پھر بھی کچھ داستانیں اپنی داستان میں ذندہ رہتی ہیں،کچھ لمحات وقت کے بلیک ہول میں یاد بن کر ہمیشہ ذندہ رہتے ہیں۔)
بھوربن کی پانچ ستارہ پتھریلی چوٹی___پارٹ 1 یہاں پڑھیں
پہاڑ کی بلندی ہو کہ کھڑکی کے باہر پھیلا سمندر ہو۔اگر میری کھڑکی کے سامنے سے سورج طلوع ہوتا ہے تو اگلی صبح سورج نکلنے سے پہلے میں لازما اپنے کیمرے کے ساتھ وہاں آپ کو صبح کی پہلی کرن کی منتظر ملوں گی۔تو یہ صورتحال بھوربن میں تھی کہ گوگل طلوع آفتاب کا وقت صبح سات بجے بتاتا تھا مگر میں گوگل پر یقین کرنے سے انکاری تھی۔کہ پانچ بجے نکلنے والا سورج سات بجے کیسے نکل سکتا ہے۔سو پانچ بجے سے پہلے ہی منہ اندھیرے اٹھ کر میں نے منٹ منٹ پر بالکنی کے چکر لگانے شروع کر دئیے کہ کہیں یہ نہ ہو کہ پہلی کرن مجھے ہیلو کہے بغیر ہی زمین پر اتر جائے۔سو نہ سردی میں ٹک کر بالکنی میں کھڑے ہو سکتی تھی نہ کمرے میں ہی اس اندیشے کے تحت دبک کر بیٹھ سکتی تھی۔
انتظار کے یہ لمحات کڑے ہی نہ تھے طویل تر بھی تھے کہ گولڈن آور(سورج کی پہلی کرن کے آسماں پر پھیلنے کے لمحات) سے پہلے میں کئی طرح کے فوٹوز کے تجربات،پہاڑی کے نیچے چمکتی بتیاں،اندھیرے میں ساکن برف بھرے درخت اور سکوت اور انجماد کی کئی اقسام کی فوٹوگرافی کر چکی تھی اور گوگل کی رپورٹ کے عین مطابق سورج نے اپنی پہلی کرن بالکل سات بجے کے قریب ہی پہاڑ کے پیچھے سے پھینکی تھی۔اور یہ عجیب کرن تھی کہ سورج کے نکلنے سے بھی پہلے کرن باہر نکل آئی تھی۔یہ نظارہ میں نے پہلی بار دیکھا کہ میدانی علاقوں یا سمندر کے پیچھے سے پہلے سورج کی پرچھائی ابھرتی تھی اور پھر ایک خاص اونچائی پر پہنچ کر اس میں سے زرد روشنی دمکنے لگتی تھی۔مگر بھوربن کی اونچائی پر شاید سورج کو ہم سے نظر ملانے کے لئے کم سے کم دو گھنٹے کی حرارت اور اونچائی درکار تھی اس لئے اس کی شعاعیں اس کی شبیہ ظاہر ہونے سے پہلے ہی پردہ سرکا کر ابھر آنے کو بے چین تھیں۔
اسی لئے ایک باقاعدہ سورج نکلنے کے مناظر لینے کا میرے پاس معمول سے بھی کم وقت تھا چونکہ شاید محض ایک دو منٹ سے زیادہ نہ تھا۔اور یہ وقت بہت تیزی سے گزر گیا۔
طلوع آفتاب کی منظر کشی سے فارغ ہو کر اب میں کچھ دیر سونا چاہتی تھی چونکہ اس منظر کی طلب میں میں تقریباً آدھی رات سے جاگ رہی تھی۔وہ مناظر جن کو کوئی زرا سی آنکھ بھر کر بھی نہیں دیکھتا ان کے پیچھے اکثر کیمرہ والوں کے کئی کئی گھنٹے صرف ہو چکے ہوتے ہیں۔میری طرح! اسی لئے اب فراغت سے مجھے کچھ دیر سونا تھا۔
میرے تھوڑے دیر کے سونے کے دورانیے میں بچے اور میاں صاحب اٹھ کر ناشتے کے لئے تیار ہو چکے تھے۔نہا دھو کر تیار ہو کر ناشتے کے لئے نادیہ ریسٹورنٹ پہنچے تو مکمل طور پر بھر چکا تھا۔خوش قسمتی سے میرے بچے ہم سے پہلے پہنچ کر ہمارے لئے ایک ٹیبل بچائے بیٹھے تھے۔وگرنہ لوگوں کا مجمع ریسٹورنٹ کے باہر بھی بھرا اپنی باری کا منتظر تھا۔
ناشتے میں لوکل ورائٹی تو موجود تھی مگر انٹرنیشنل ورائٹی کم تھی۔بدقسمتی سے ہم ناشتے سے پہلے کافی اور کھانوں کے انتخاب میں انٹرنیشنل ورائٹی کے عادی ہو چکے تھے۔کافی پہلے لینے کے لئے کافی بھاگ دوڑ کرنی پڑی چونکہ شاید اس کا یہاں رواج نہ تھا۔تازہ جوس کی بجائے کارٹن جوس رکھا گیا تھا اس لئے اس سے لطف نہ اٹھا سکے۔کٹے ہوئے پھلوں پر شیرہ چھڑک دیا گیا تھا جس کی وجہ سے اس کی healthy eating
والی کوالٹی ختم ہو کر رہ چکی تھی۔بچوں کو اپنی مرضی کے بٹر اور کپ کیکس نہ ملے۔

کچھ انتظامی اور سماجی رویے بھی سامنے آئے جن میں دو مردوں نے ایک ماں اور اس کی بچی کو میز کرسی سے اٹھا دیا کہ “ہم یہاں پہلے بیٹھے تھے”۔پھر اس خاتون کو کسی دوسرے کی میز کے دوسری طرف بٹھا دیا گیا۔اور وہ خاتون بھی خموشی سے بیٹھ گئیں یہ تک نہ کہہ سکیں کہ ہم تقریبا چالیس ہزار ایک رات کا بھر کر کیا کسی کی میز پر بیٹھنے کے لئے آئے ہیں۔اس کی وجہ بھی وہی لوگوں کو کنزیومر رائیٹس سے آگاہی کا نہ ہونا ہے اور چونکہ لوگ ان حقوق کو جانتے نہیں،اور کوئی ان رائٹس کا تحفظ دینے والا بھی نہیں، تو بیچنے والے اس کا فایدہ اٹھاتے ہیں۔اتنے مہنگے ہوٹل میں ہزاروں روپے دے کر آنے والے ملک کے امیر ترین لوگوں سے غریب ترین رویوں کا مظاہرہ بھی دیکھا جسے دیکھ کر سوائے افسوس کے اور کچھ ہو نہیں سکتا تھا۔
خیر یہ ناشتہ مایوس کن نہیں تو بہت پرلطف بھی نہ تھا اور اس سفر کا آخری پڑاؤ تھا کہ اس کے بعد بس سامان کا اٹھانا تھا اور واپسی کا سفر تھا۔
beautiful
LikeLike
❤️💐
LikeLike