Start over !

ویب سائٹ پر کام کرتے ترتیب و تدوین کے آخری صفحہ پر ایک لفظ آتا ہے جو مجھے ہمیشہ ڈرا دیتا ہے۔

Start over

میں اس کے آس پاس پھٹکنے سے ڈرتی ہوں کہ کہیں غلطی سے انگلی لگ جانے سے بٹن دب نہ جائے اور میرا سارا تین سال کا کام زرا سی دیر میں دھواں بن کر ہوا ہو جائے۔سالہا سال کی محنت ضائع ہو کر صفر پر چلی جائے ۔مجھے اس تصور سے ہی خوف آتا ہے۔مگر اصل میں ذندگی کی حقیقت یہ ہے کہ یہ بہت سارے

start overs

پر مشتمل ہے اور یہ سب کچھ لٹ جانے کا خوف صرف ویب سائٹ تک محدود ہے۔ اصل ذندگی کئی بار سٹارٹ اور کے مراحل سے گزر چکی ہے۔اس قدر کہ اب میں اس میں طاق ہو چکی ہوں۔ بار بار کے سٹارٹ اور نے اس قدر دلیر کر دیا ہے کہ میں زندگی میں کبھی بھی کوئی فیصلہ محض چند پل میں لے سکتی ہوں۔مجھے یہ سوچنا نہیں پڑتا کہ سب پھر سے کیسے بنے گا،پھر سے عمارت کیسے کھڑی ہو گی،یہ سارا سفر صفر سے دوبارہ کرنا پڑے گا۔اب اس طرح کے سوال مجھے پریشان نہیں کرتے !میں جانتی ہوں انشااللہ،ہو جائے گا!

اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ یہ بہت ہی آسان اور فرحت افزا عمل ہے۔بلکہ درحقیقت یہ ایک بہت ہی مشکل،کٹھن اور اعصاب شکن کام ہے اور الحمداللہ میں ان اعصابی جنگوں سے نبرد آزما ہونا سیکھ بیٹھی ہوں۔سر پر اولے،بارش آندھی،کیسے برداشت کی جاتی ہے،ننگے پاؤں نوکیلے پتھروں پر کیسے چلا جاتا ہے،پہاڑ کی سب سے اونچی چوٹی پر کھڑے ہو کر زمین کی سب سے گہری کھائی میں چھلانگ کیسے لگائی جاتی ہے،اورپھر زمین دوز تہوں سے جینا شروع کر کے پھر سے بلند کیسے ہوا جاتا ہے۔یہ ایک فن ہے،مہارت ہے جو انسان کو قسمت سے ملتی ہے کوئی شاید خود سے نہ مانگ سکے نہ سیکھنے کی جرات کر سکے کیونکہ ہم سب محفوظ راستے اور سلامت ذندگی چاہتے ہیں،ہم رات ڈھلنے سے پہلے ہزاروں میل کا فاصلہ طے کر کے دوسرے دن اس سے آگے جانے کے خواہاں ہیں پھر سے صفر پر پہنچ جانے کے نہیں۔یہ بڑے بڑے گھر جو ہم نے سالوں شے شے جوڑ کر اپنے لئے ایک سلطنت بنائی ہے یہ بکھر نہ جائے کہیں،یہ ذندگی جو ہم نے مہارت در مہارت اور کامیابی در کامیابی جوڑ کر ایک مقام پر لائے ہیں کہیں ٹوٹ نہ جائے،یہ تعلقات جو ہمیں زمین سے اور شہروں سے اور علاقوں سے مضبوطی سے جوڑے رکھتے ہیں،کہیں ہمارے ہاتھ سے چھوٹ نہ جائیں،اسی لئے سب چاہتے ہیں آسان اور محفوظ راستہ جس میں سے آپ کی مٹھی میں پکڑی کوئی دولت پھسل نہ سکے۔

سٹارٹ اور کی قابلیت آپ کو مقدر سے ملتی ہے۔قسمت کے ہاتھوں کو بار بار آپ کو اٹھا کر بے رحمی سے زمیں پر پٹخنا پڑتا ہے اس چیلنج کے ساتھ کہ چلو اب اٹھ کر دکھاؤ،اور پھر انسان کی عزیت نفس اور وقار اس سے تقاضا کرتی ہے کہ چلو ہنس کے اٹھو! قسمت کو پتا نہیں چلنا چاہیے کہ کسقدر ٹوٹ پھوٹ کر دی اس نے! چلو مسکراؤ مشکل کے سامنے کھڑے ہو کر!اب ذندگی نے آپ کے سامنے ایک مشکل انتخاب رکھ دیا ہے۔ان تمام تکالیف کو جان پر سہو اور ملیا میٹ ہو کر مٹی میں مِل جاو،یا انہیں آگ جیسی مشکلوں سے گزر کر کندن ہو جاؤ!تکالیف ہر صورت مقدر ہیں مگر اس میں سے ہمیں کیا بن کر نکلنا ہے یہ ہمارا فیصلہ ہے،ہمارا طرز عمل اور کردار کی پہچان ہے۔

تو میں نے ان سٹارٹ آورز کو جان پر کئی بار جھیلا اور سیکھا کہ مشکلات میں مسکرانا کیوں ضروری بھی ہے اور اہم بھی۔ یہی سٹارٹ آورز وہ کالی راتیں ہیں جن میں سے بہت چمکدار خوبصورت صبحیں بھی طلوع ہوتی ہے جو ذندگی میں بہت سی طاقت اور ہنر لاتی ہیں ۔ انہیں سٹارٹ اورز سے انمول دلیری اور خودمختاری ملتی ہے۔انسان روح کی تہہ میں بیٹھے تمام فوبیاز سے آگے نکلتا ہے جو اسے بدلنے سے،ہمت سے،تکلیف سے بچنے کی ترغیب دیتے رہتے ہیں۔وہ کہتے ہیں

بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق

عقل ہے محو تماشا زیر بام ابھی

تو جب عشق بے خطر آگ میں کودتا ہے تو وہ اس سے پہلے ہی بہت سی آتشوں میں سے گزر کر جادواں ہو چکا ہوتا ہے،وہ اس لیول تک پہنچ چکا ہوتا ہے جب یہ چھلانگ اور آگ دونوں ہی اس کے لئے خوف زائل کر چکی ہوتی ہے۔اور عشق کے اس لیول تک پہنچنے سے پہلے مقدر یہ سٹارٹ اورز اسے پیش کرتے ہیں جن پر چل کر انساں آگ میں کودنے کی ہمت پاتا ہے۔دراصل ہماری مذہبی کتابیں ہمیں اپنی تاریخ اور مذہب کی عظیم ہستیوں کے بارے میں علم دیتے انکی ودیعت اور انکی پیغمبریت پر،خدا کی طرف سے ان کو دی گئی صلاحیتوں اور قابلیتوں پر اس قدر زور ڈال دیتے ہیں کہ انسانی شخصیت کسطرح ایک مخصوص حالات و واقعات سے گزر کر ایک پختہ شکل لیتی ہے یہ بہت ہی اہم پہلو ہم نظر انداز کر بیٹھتے ہیں۔اصل تو یہ ہے کہ آگ میں کودنے سے پہلے بھی انسان بہت سے آگ کے دریاؤں کو ڈوب کر پار کر چکا ہوتا ہے کہ جب اسے جلتی آگ میں پھینکا جاتا ہے۔

سٹارٹ اور کا ایک بہت ہی روشن رخ یہ ہے کہ یہ آپ کو ہر بار انداز اور رنگ بدل کر جینے کا حق دیتا ہے۔جتنی بار ذندگی کو یا ذندگی کے کسی ایک شعبے یا کام کو دوبارہ صفر سے شروع کیا جائے،اتنے ہی انداز سے آپ اسے کر سکتے ہیں۔اتنے ہی رنگ،جزبے،طریقوں سے آپ وہی کام بار بار کر سکتے ہیں۔نیے کام اور چیز کا ایک اپنا لطف ہوتا ہے۔جس کی ایک مثال میری موجودہ حالت ہے جب میں ابھی حال میں ہی تیسری بار ایک مکمل ہجرت کے ساتھ واپس دبئی آئی اور کم و بیش یہ میری ذندگی کا چوتھا سٹارٹ اور ہے تو میرے ساتھ ہر فیملی فرد کا ایک بیگ اور ایک باکس تھا۔میں اپنے تمام تر اثاثے،پورے بڑے گھر اور تین بڑی زندگیوں کا تماتر سامان ایک بار پھر پاکستان میں چھوڑ آئی۔اور یہاں پھر سے دبئی میں زیرو سے ذندگی اور گھر کو بنانا شروع کیا۔اس بار میں نے سوچا ک میں ہر چیز اور روایت کے انتخاب میں مکمل نیا پن لاوں گی۔ذندگی اور گھر سجانے اور بنانے کے وہ تماتر طریقے جو اب تک آزما چکی ہوں سے بالکل مختلف ،ہماری زندگی کے لئے نیا اور دنیا کے حساب سے جدید۔کچن کی چھوٹی سے چھوٹی چیز سے بڑے سے بڑے فرنیچر تک میں نے یہی اصول اپنایا۔جو سٹائل پہلے تھا وہ اب کی بار نہیں رکھا،جو چیزیں پہلے بہت لش تھیں انکو اس بار مینیمل کر دیا،جو پہلے نظر انداز تھا اس پر اس بار خوب توجہ دی۔اور مجھے اس میں خوب لطف آ رہا ہے۔گھر ،چیزیں،زندگی،سب ہی حلال ہوں تو آہستہ آہستہ ہی بنتی ہیں۔اور میں اسے آہستہ آہستہ ہی بنا رہی ہوں ،دیر لگے گی مگر بنے گی ضرور انشااللہ! ذندگی کے اس سٹارٹ اور کی آگ میں کود کر جل چکی ہوں اب ٹھنڈی آگ میں جھلمل کرنے کا وقت ہے_

Coverphoto by Osama:

(کور فوٹو پھولوں والی دکان پر کام کرنے والے اسامہ کا ہے۔جس نے یہ فوٹو ہمیں گملا پسند کروانے کے لئے بھیجا تھا۔اس فوٹو نے مجھے حیران کر دیاکہ اتنا خوبصورت فوٹو کیا محض تکا ہے؟)

______________

آپ نے بھی ذندگی میں کبھی سٹارٹ اور کا سامنا کیا ہے؟ آپ نے اس عمل کو کیسا پایا؟ اپنے تجربات اور مشاہدات کے بارے میں ہمیں کمنٹ سیکشن میں بتائیں!

4 Comments

  1. زندگی ہر پل بدلتی سنگتوں، حالتوں اور حرکیات کا نام ہے۔ دِل سانس کے معنوی استعارے سے زیادہ حقیقی منبع ہے۔ اور سانس ہے ہی وہ ، جو چلتی رہتی ہے۔ رُک جائے، تو سانس نہیں کہلاتی۔

    ایک کے بعد ایک سفر ، اپنی محدود مشکلوں کے ساتھ ساتھ دامن میں لامحدود امکانات رکھتا ہے۔ خوابوں کے، رشتوں کے، خوشی کے اور اُمید کے امکانات۔ اور بہر کیف ہمیں ہماری آخری منزل کی طرف تو لے جاتا ہی ہے۔

    کیا ہی خوبصورت قول ہے ، “تُمہارا مُلک وہ ہے ، جو تُمہاری منزل ہے ، اور جس کی طرف تُم جا رہے ہو۔۔۔”

    خُدا اپنی بے پناہ عزت و جاہ کے طُفیل آپکو آسانیاں عطا فرمائیں، اور اس سے بھی زیادہ چیلنجز کا سامنا کرنے کی ہمّت ودیعت فرمائیں۔

    “انشااللہ ، ہو جائے گا”
    👍💐

    Liked by 1 person

    1. واہ کیا کہنے!”رک جائے تو سانس نہیں کہلاتی!”کچھ سفر مادی ہوتے ہیں ،کچھ تجریدی۔آپ کے مادی سفروں کی روداد کا انتظار ہے!

      Liked by 1 person

Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

You are commenting using your WordPress.com account. Log Out /  Change )

Facebook photo

You are commenting using your Facebook account. Log Out /  Change )

Connecting to %s

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.