جو تعبیر نہیں رکھتے،وہ خواب کیوں آتے ہیں
مسافر کے راستے میں سراب کیوں آتے ہیں
حاصل نہیں وہ مسافر تو کھو کیوں نہ جائیں
ملنا ہے تو پھر الجھانے حالات کیوں آتے ہیں
اک اسی خدا کے بندے گر یہ محنت کش بھی
ہاتھوں میں لے کر کوڑے نواب کیوں آتے ہیں
اک جیسے چہرے،اک جیسے دل ،دماغ
دنیا میں کچھ لوگ پھر نایاب کیوں آتے ہیں
گوشت کا ہی ٹکرا ہے گر یہ ننھا سا دل
اس دل پر نجانے اتنے عذاب کیوں آتے ہیں
___________
کلام،فوٹوگرافی و کور ڈیزائن:
صوفیہ کاشف
( 1998 میں لکھی گئی ہے )
ماشاء اللہ ۔۔۔ بہت خوب باجی۔۔ کیا یہ آپ کا اپنا کلام ہے؟…
LikeLiked by 1 person
جی! شاید نام لکھا ہے میرا!
LikeLiked by 1 person
آہا۔۔۔ شاید کیا؟ 😉۔۔۔ آپ کا ہی تو تکیہ کلام ہے ۔۔۔ اعلیٰ !!
LikeLiked by 1 person
شکریہ!
LikeLiked by 1 person
😊
LikeLike
خوش آمدید 😊
LikeLike
😢💔
LikeLiked by 1 person