دسویں قسط
تحریر: حمیرا فضا
کورڈیزائن: ثروت نجیب
_______
وہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تو اُس کی نظر قالین پر پڑے خاکی لفافے پر ٹھر سی گئی ۔اُسے یہ سمجھنے میں ایک پل بھی نہ لگا کہ یہ خط کس کی طرف سے بھیجا گیا ہے اور کس کے ذریعے یہاں تک پہنچا ہے۔وہ خط کو نظر انداز کرتا سرعت سے آگے بڑھ گیا ،ملنے والی خوشی کو وہ کسی بھی قیمت پر بدمزہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔
’’تم کبھی نہیں سدھر سکتی ۔‘‘صوفے پر بیٹھے بیٹھے تیکھی نظریں دوبارہ خط پر پر پڑیں تو اُس کے لب بے اختیار ہلے،مگر جلد ہی اُس نے اپنا دھیان جیون اور اُس کے خط سے ہٹا لیا تھا۔
وہ آج بہت خوش تھا ،خوش کیوں نہ ہوتا اُسے دیوانہ کرنے والی،کئی مہینوں سے اُس کے دل پر راج کرنے والی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اُس کی جو ہونے والی تھی ۔وہ ہر پسندیدہ چیز کو اپنی طاقت اور شاطرانہ فطرت کی بدولت حاصل کرتا آیا تھا اور وہ لڑکی اُس کی اب تک کی سب سے بڑی جیت تھی ۔محبت کو حاصل کرنے کا جنون ،محبت کو سمجھنے کے جنون سے کہیں زیادہ ہوتا ہے اور اکثر لوگ یہیں مات کھا جاتے ہیں۔وہ اپنی دانست میں محبت کو اپنی باندی سمجھتا تھا یہ جانے بغیر کہ محبت کو فتح کرنے کے لیے محبت کا غلام بننا پڑتا ہے ۔ اُسے بس اپنی بادشاہت کا زعم تھا ،اُسے ہمیشہ جیتنے سے غرض تھی اِس بات کی پرواہ کیے بنا کہ اُس کی وجہ سے کئی رشتے ہار گئے ہیں۔وہ اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتا تھا کہ ایک لڑکی اُس کی محبت میں دیوانی ہوئی تھی تو دوسری ہر قربانی دینے کو تیار تھی۔
’’میں نے اپنے لیے تمھیں چنا ہے ۔۔۔تم وہ قیمتی ہیرا ہو جو میرا ہی ہو سکتا تھا ۔۔۔جیسے میرا ہی ہونا تھا۔۔۔تم کوئی معمولی لڑکی نہیں ہو۔۔۔تم خوبصورتی اور فراست کا حسین امتزاج ہو ۔۔۔ تم انمول ہو۔۔۔تم جازم خان کا انتخاب ہو۔‘‘اُس نے موبائل آن کر کے اُس نازنین کی تصویر دیکھی اور پر سوچ انداز میں کہتا ہوا کھڑکی کی طرف چلا آیا ۔
باہر پورے چاند کی رات تھی ۔اُس نے ایک نظر چاند کو دیکھا پھر سفید لباس میں ملبوس اُس پیاری لڑکی کو ۔تصویر نے ساری روشنیوں کو مات دے کر اُس کی نظروں کو مقناطیسی انداز میں اپنی طرف کھینچ لیا۔جازم نے اُس کی بڑی بڑی آنکھوں میں جھانکا ،کتنی دلچسپ تھیں اُس کی آ نکھیں ،محبت کی گہرائی میں غوطہ لگاتی۔۔۔فسوں بکھیر کر بولنے والی۔۔۔ذہانت کے پانیوں سے بھری آنکھیں ۔وہ آنکھوں کی زبان میں اتنی طاق تھی کہ اکثر جازم اُسے خاموشی سے تکتا رہتا۔وہ اپنی انوکھی سوچ اور منفرد حرکتوں سے کئی بار اُسے چونکا چکی تھی ۔وہ جذبات میں بہتی ہوئی،روتی تڑپتی ہوئی لڑکیوں سے ہمیشہ چڑتا تھا۔ اُس کی شاطر سوچیں اپنے محبوب کے حُسن کے بعد اُس کی ذہانت پر ہی فدا ہوئی تھیں ،ابھی وہ اِس حقیقت سے انجان تھا کہ وہ لڑکی صرف ذہین ہی نہیں،خودسر اور بہادر بھی ہے۔
کتنی ہی دیر اپنی ہونے والی بیوی کے بارے میں سوچنے کے بعد وہ اِس نتیجے پر پہنچا کہ اب اُسے یہ خوشخبری حویلی کی ہونے والی ملکہ کو سنا دینی چاہیے ۔اِس خیال کے ساتھ اگلے ہی لمحے وہ معنی خیز مسکراہٹ سے اُس کا نمبر ڈائل کرنے لگا ۔
’’میں کب سے تمھاری کال کی ہی منتظر تھی۔تم جانتے ہو اِس کہانی کو ہمیں ہی مکمل کرنا ہے۔ اب کس بات کا انتظار کر رہے ہو تم؟‘‘وہ تفتیش بھرے انداز میں فکر مندی سے بولی ۔
’’یوں سمجھو کہ انتظار ختم ہوا۔اب دن نہیں لمحے گننا شروع کردو۔‘‘جازم نے تسلی بخش آواز میں کہا۔اُس کے ہونٹوں کا تبسم اور گہرا ہوا اور لہجے کی شوخی مزید بڑھی۔
’’کیا مطلب ؟ صرف لمحے ؟‘‘وہ نا سمجھنے والے انداز میں معصومت سے پوچھنے لگی ۔
’’ہاں بس لمحے ! میں کل صبح ہی تمھیں لینے آرہا ہوں۔‘‘جازم نے محبت سے لبریز انداز میں ایسا فیصلہ سنایا تھا کہ وہ کچھ پل کے لیے خاموش ہوگئی۔
’’کیا یہ سچ ہے ؟ کوئی خواب تو نہیں ہے؟ خوبصورت کھنکتی آواز میں ہنوز بے یقینی تھی۔
’’بس آج رات تک خواب ہے یہ ۔۔۔چاہو تو سو جاؤ۔۔۔چاہو تو جاگ کر اِس خواب کو حقیقت بنتے ہوئے دیکھو۔‘‘جازم نے جاذبیت سے کہا تو اُس نے شرماتے ہوئے فون بند کر دیا تھا۔
کل اُس کی زندگی بدلنے والی تھی ۔وہ اپنی زندگی کو ہمیشہ کے لیے اِس حویلی میں لے کر آنے والا تھا۔نہ اُسے ذکیہ بیگم کے ردعمل کی پرواہ تھی نہ جیون کی تکلیف کی ۔ اُسے غرض تھی توبس اپنی مرضی اور خوشی سے ۔ایک کے بعد ایک جرم نے اُسے واقعی پتھر دل بنا دیا تھا۔وہ مدہوشی کے عالم میں چلتا ہوا بیڈ تک آیا ور بستر پر ڈھے سا گیا۔ذہن میں آنے والے کل کامنصوبہ گھومنے لگا تھا۔نجانے کیسے اُس کی ہزاروں سوچو ں میں سے ایک سوچ اُس خط پر رک سی گئی ۔ کئی بار اِس نا پسندیدہ سوچ کو جھٹکا گیا ،مگر تجسس ایسا تھا کہ وہ اُٹھنے پر مجبور ہوا۔اُس نے خط نیچے سے اٹھایا اور بے دردی سے لفافہ پھاڑنے کے بعد پڑھنا شروع کردیا۔طویل خط کے اُتار چڑھاؤ نے اُس کے تاثرات یکدم بدل دئیے تھے۔
’’کیا بکواس ہے یہ؟ تم کبھی بھی اپنی سستی حرکتوں سے باز نہیں آسکتی۔تم کیا سمجھتی ہو تمھاری یہ باتیں مجھ پر اثر کرے گیں۔مائی فٹ!‘‘زہر بھرے انداز میں کہتے ہوئے اُس نے سفید کاغذ ہوا میں اچھال دیا اور غصے سے پورے کمرے میں ٹہلنے لگا۔ناچاہتے ہوئے بھی جیون کے لکھے کئی لفظ ،کئی جملے اُس کی نظر کے سامنے آنے لگے تھے ۔اُس نے جھک کر پھر خط اٹھایا اور بار بار پڑھتا رہا۔اُس کے پورے وجود پر وحشت طاری ہوگئی تھی ۔وہ ایک بے چین کیفیت میں گرفتار ہو چکا تھا۔رات دیر تک سوچنے کے بعد آخر وہ ایک نتیجے پر پہنچ گیا۔
’’سوری بے بی کل نہیں ۔۔۔تمھیں ایک مہینہ انتظار کرنا ہوگا ۔۔۔مجھے ہماری شادی سے پہلے کچھ انتظامات کرنے ہونگے۔۔۔کچھ ایسے انتظامات جو بہت ضروری ہیں۔‘‘یہ پیغام بھیجنے کے بعد اُس نے بھرپور تھکن سے سر بیڈ کے کراؤن سے ٹکا دیا۔جیون اُس سے اپنی خوشیاں تو نہ چھین سکی ،مگر اُس کی خوشی کو پھیکا کرنے میں کامیاب ضرور ہوئی تھی۔
*****
تڑپ اُٹھوں بھی تو ظالم تیری دہائی نہ دوں
میں زخم زخم ہوں پھر بھی تجھے دکھائی نہ دو
وقت کے ساتھ ساتھ وہ صبر کرنا سیکھ گئی تھی۔بوجھل دل اور خالی آنکھیں ۔۔۔ اُس نے زندگی کا نیا چہرہ قبول کر لیا تھا۔بہت کچھ کھو کر بھی زندگی کی بدصورتی میں وہ اپنا اصل پا گئی تھی۔آنسو خشک نہیں ہوئے تھے ،پر اِن آنسوؤں کے ساتھ دل میں ٹیس نہیں اُٹھتی تھی ۔دل دماغ سے وہ نکلا نہیں تھا ،پر اُس کے ہونے سے گھٹن نہیں بڑھتی تھی ۔ زخم ابھی تک بھرے نہیں تھے ،مگر اِن زخموں میں راحت کا سامان پیدا ہو چکا تھا۔اُس نے جازم کو امید کے دائرے سے نکال کر سارا عشق اپنے نام کر لیا تھا ۔یہ عشق اب اُس کا تھا ،اُس کی ملکیت تھا ،اُسے سنبھالنا ،سنوارنا،زندہ رکھنا اب صرف اُس کی خواہش تھی ۔دھوکہ ایسی چیز ہے جو بڑی سے بڑی محبت کو بھی نفرت میں بدل دیتا ہے ،نفرت دن رات کئی بار اُس کا در کھٹکٹاتی رہی ،مگر اُس کے وجود کے اندر ،کمرے کے کونے کونے میں عشق سما چکا تھا وہ کیونکر دروازہ کھولتی ۔ وہ بے تابی کے سمندر میں غرق ہوکر طمانیت کے سیپ ڈھونڈ لائی تھی ۔وہ اِس یکطرفہ محبت کی وفاداری پر پرسکون ہونا سیکھ گئی تھی ۔بس اِس زندگی کو قبول کرکے بھی اُسے کبھی کبھی یہ سپنا آجاتا کہ جازم کے بھٹکتے قدم اُس کی منزلوں کے نشان ڈھونڈ نے نکلے ہیں ،اکثر یہ گمان جاگ جاتا کہ دل توڑنے والا ایک دن دل سمیٹنے کے لیے آئے گا، کسی وقت یہ یقین پختہ ہونے لگتا کہ وہ جازم کو وہاں ملے گی جہاں جدائیوں کا تصور بھی نہیں ہوتا ۔
وہ پھر سے لوٹ آیا ہے
مگر!
پہلے سے زیادہ اجنبی ہے
پہلے سے زیادہ انجان سا ہے
پہلے سے زیادہ۔۔۔۔۔۔
کسی اور کا ہے
اُس کے ہاتھوں میں اِس بار
کسی کا ہاتھ ہے
وہ میرے پاس ہے پر
کسی کے ساتھ ہے
میں ملن کا یہ نظارہ دیکھ کر
اپنے ہی اندر گمشدہ ہوگئی ہوں
پہلے سے زیادہ تہی دامن ہو چکی ہوں
مٹی کے وجود کی بولتی دھڑکیں
لکڑی کی کھڑکی سے خاموش منظر
مجھے بتا گئے ہیں
صبر کا دامن پل میں چھوٹ گیا
دل پہلے سے زیادہ ٹوٹ گیا۔۔۔۔۔۔۔
صبح سے اُسے سیف نظر نہیں آیا تھا،اُس کی کیفیت بھی کچھ عجیب سی تھی ۔وہ بار بار کھڑکی کھولتی اور بند کردیتی ۔وہ آنے والے طوفان سے بے خبر تھی ۔اِس بات سے بے خبر تھی کہ وہ صبر کی جس منزل پر کھڑی ہوئی ہے ،وہاں ایک نئی آزمائش آنے والی ہے ۔اُس کا دل بہت مضطرب تھا، بوجھ تلے دبی ہوئی دھڑکنوں پر پھر سے کوئی پہاڑ گرنے کا اندیشہ تھا،سمندر کو صحرا بنانے والی آنکھوں میں پھر سے طوفان آنے کا دھڑکا تھا۔وہ جس حقیقت کا سامنا کرنے کے لیے خود کو تیار کر رہی تھی اُس حقیقت کا سامنا کرنے کا وقت شاید آچکا تھا۔کچھ دیر بے قراری سے لڑنے کے بعد وہ کھڑکی کے پاس گئی تو کھلی کھڑکی نے جیسے اُس کا سانس تنگ کردیا۔وہ اُس کے سامنے تھی، وہی جس نے اُس کی جگہ لی تھی، وہی جس کی خاطر اُسے چھوڑ دیا گیا تھا۔وہ حویلی کے بڑے دروازے کو پار کرکے اندر قدم رکھ چکی تھی ۔جازم اُس سے تھوڑا آگے آگے چل رہا تھا ،اُس کی باز جیسی نظریں سامنے کی طرف تھیں۔وہ اِرد گرد سے بے خبر تھا یا نظر آنے کی کوشش کر رہا تھا۔وہ سہمے سہمے انداز میں جازم کے پیچھے پیچھے تابعداری سے چل رہی تھی۔وہ ایک دبلی پتلی نرم و نازک سی لڑ کی تھی،جس کا معصوم چہرہ خوشی اور افسردگی کے رنگوں سے سجا ہوا تھا۔وہ اپنی بڑی بڑی خوبصورت آنکھوں سے ایک ایک چیز کو حیرانی سے دیکھ رہی تھی۔وہ بغیر میک اپ کے نکھری نکھری اور دلکش تھی ۔سادہ سے کپڑے ،بکھرے بال ، ننگے پاؤں بتا رہے تھے کہ وہ عام حالات میں یہاں تک نہیں پہنچی تھی۔جیون کھڑکی کے پیچھے چھپ سی گئی ۔اُس لڑکی کا ایک ایک قدم اُس کے صبر کو کچلنے لگا تھا۔
’’کیسا عشق ہے تیرا جیون ! اپنے عشق کو کسی اور کا ہوتا دیکھ اور اِس پر خوش ہو ۔۔۔
اِن ہواؤں کے ذریعے اُسے مبارک بھیج اور خوش ہو۔۔۔
تجھے ناز تھا اپنے صبر پر ،دل کو سنبھال اور خوش ہو۔۔۔‘‘ اُس کا دل بھی آج اُس کا نہیں تھا وہ اُس کی خاموشی توڑنے پر مصر ہوا۔
’’نہیں۔۔۔نہیں ۔۔۔یہ اِتنا آسان نہیں۔۔۔‘‘ وہ پاگل دل سے اُلجھنے لگی ۔ وہ لڑکی چلتے ہوئے پھولوں کے پاس رکی اور اُس نے ایک پھول توڑ لیا۔
’’مت توڑو اُنھیں وہ میرے ہیں۔میں نے اُنھیں اپنے ہاتھوں سے لگایا ہے۔‘‘جیون نے ایک آہ بھر کر دل پر ہاتھ رکھا۔اُسے لگا پھول نہیں اُس کا دل پھر سے توڑا گیا ہے۔
داخلی رستے سے چلتے ہوئے وہ دونوں اطراف لگے رنگ برنگے پھولوں کو حسرت سے دیکھ رہی تھی ۔جلد ہی اُسے احساس ہوا تھا کہ وہ اپنے ہمسفر سے پیچھے رہ گئی ہے۔وہ بھاگنے والے انداز میں اُس تک پہنچی تو نیچے رکھے ایک گملے سے بے دھیانی میں ٹکرا گئی ۔گملا اُس کی ٹھوکر سے ماربل کے فرش پر گھومتا ہوا ایک طرف سے ٹوٹ چکا تھا۔آواز پیدا ہونے پر جازم نے اُسے مڑ کر دیکھا ،مگر کچھ کہا نہیں۔
’’آہ۔۔۔تم نے میرا پیارا گملا توڑ دیا۔تم نہیں جانتی کہ یہ سارے گملے میرے بچوں کی طرح ہیں ۔حویلی کا ایک ایک گملا میرے ہاتھوں سے رکھا ہوا ہے۔‘‘جیون نے منہ پر ہاتھ رکھ کر آنکھوں کو بہنے سے روکا تھا ، لیکن وہ اپنی ضد پر اُتریں۔
حویلی کے بڑے کمرے کے دروزے تک پہنچنے سے پہلے وہ پریوں کے حُسن والی ایک بار پھر چونکی اور دونوں طرف بنے قد آور ستونوں کو تعجب سے دیکھنے لگی ۔مغلیہ نقش و نگار سے سجے یہ ستون اُس کی توجہ کھینچ رہے تھے ۔وہ کچھ پل کے لیے دائیں طرف کے ستون کے پاس رک کر اُس کے اوپر بنے خوبصورت ڈیزائن پر انگلی پھیرتے ہوئے مسکرائی تھی ۔
’’مت ہاتھ لگاؤ۔۔۔تممھارا چھونا اِن ستونوں کو اچھا نہیں لگے گا۔یہ صرف میرے لمس کے عادی ہیں۔‘‘جیون نے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں سختی سے آپس میں جوڑ لیں تو وہ لڑکی پیچھے ہٹ گئی جیسے جیون کی التجا اُس کی سماعتوں تک پہنچی ہو۔
تین سیڑھیاں چڑھنے کے بعد اُس کی رقیب نے دروازے کے بائیں جانب لگے اپنے قد جتنے بڑے آئینے میں خود کو محویت سے دیکھا ۔ اُس نے جلدی سے منہ پر ہاتھ پھیرا اور اپنے بال درست کرنے لگی ۔
’’سنو اے لڑکی ! یہ آئینے تمھاری تعریف کبھی نہیں کرے گے۔ یہ صرف جیون کے دیونے ہیں۔‘‘جیون نے تنی ہوئی گردن کے ساتھ حق سے کہا تھا۔
اب وہ اجنبی لڑکی اُسے کچھ قریب سے نظر آرہی تھی۔ جیون نے کھڑکی کی اوٹ میں چھپتے ہوئے اُسے غور سے دیکھا ۔ وہ بلا کی حسین تھی۔۔۔ اُس کا حُسن بھرپور تھا۔۔۔ اُس کے چہرے کا ہر نقش جان لیوا تھا
۔۔۔وہ کس قدر مکمل تھی ۔جیون نے دل میں اعتراف کیا کہ وہ اُ س سے کہیں زیادہ خوبصورت ہے۔وہ دونوں اُس کی نظر سے اوجھل ہو چکے تھے ،مگر وہ تب تک وہاں کھڑی رہی جب تک وہ دونوں حویلی کی حدود میں رہے۔
’’تمھاری پسند واقعی قابلِ دید ہے۔۔۔ قابلِ تعریف ہے۔۔۔تم نے اپنے لیے ہیرا ڈھونڈ ہی لیا،جس کے برابر میں کبھی نہیں ہو سکتی تھی۔۔۔کاش میں اُس کی جگہ ہوتی ۔۔۔کاش وہ ہاں نہ ہوتی ۔۔۔کاش میں جیون نہ ہوتی ۔‘‘ باقی سارا دن وہ خاموش رہی ،باقی سارا دن اُس نے دل سے یہی جملے سنے تھے۔اُسے شدت سے احساس ہوا کہ اُس نے جازم کے نام وہ خط لکھ کر غلطی کردی ہے۔
*****
جیون کا رونا ،خود کو نوچنا ،ندامت سے جھکا ہوا سر سیف کے صبر کو توڑ چکا تھا۔ وہ کچھ دن تک اُس کی کھڑکی کے پاس نہ گیا ۔یہ حقیقت اُس کے لیے جان لیوا تھی کہ جیون خود کو وہ گنگار سمجھتی ہے ،جو معافی مانگنے کے باوجود بھی سزا ہی چاہتا ہے ۔وہ جان گیا تھا کہ جیون نہ اُس کی دی ہوئی خوشیوں کو قبول کرے گی ،نہ اُس کا ہاتھ تھامے گی ،وہ ملال کے اُس راستے پر تھی جہاں اُس نے سزا کو ہی منزل سمجھ لیا تھا۔
’’نہیں ہو تم اُتنی قصور وار جتنی تم خود کو سزا دے رہی ہو۔میں نے کبھی تمھارا برا نہیں چاہا۔میں نے کبھی نہیں چاہا کہ تم احساس کے اُس مقام تک پہنچو جہاں تم خود پر ساری خوشیاں حرام کرلو۔‘‘ جیون کااعتراف جرم ایسا تھا کہ سیف نے نے خود کو ہی ملامت کی۔
وہ اُس کے سامنے نہیں جانا چاہتا تھا۔اُس سے نظر نہیں ملانا چاہتا تھا،مگر دل بار بار سمجھانے لگا کہ جیون کو اُس کی ضرورت ہے ۔اُس نے ساری بے بسی اپنے کمرے میں چھوڑی اور پھر اُسی راہ پر چل پڑا ۔جیون کے دل پر نیا زخم جو جازم نے اپنی خوشی کی صورت لگایا تھا،وہ زخم صرف اُسے ہی بھرنا تھا۔رات کافی ہو چکی تھی اور جیون کی کھڑکی بند تھی وہ کسی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے وہی بیٹھ گیا۔وہ جانتا تھا جیون اُس کی موجودگی ضرور محسوس کرے گی۔
’’تم آگئے سیف ۔۔۔مجھے تم سے کچھ کہنا ہے ۔۔۔کچھ ایسی باتیں جو میں اب سمجھی ہوں ۔‘‘ کوئی میٹھی آواز اُس کے کانوں کو چھو گئی تھی ،کسی کی ملائم انگلیاں اُسے اپنے بالوں میں گھومتی ہوئی محسوس ہوئیں۔ وہ ہڑ بڑا کر اُٹھ بیٹھا تھا ۔آنکھ کھلی تو وہ اُس کے سامنے ہی کھڑی تھی۔
’’کیا صبح ہوگئی ہے ۔‘‘سیف نے اردگرد پھیلتی ہلکی روشنی کو دیکھ کر اچنبھے سے پوچھا ۔
’’ہاں واقعی صبح ہو چکی ہے ۔‘‘جیون نے گہری سانس لے کر اطمینان سے کہا۔وہ اپنا ہاتھ پیچھے کر چکی تھی ۔وہ سنبھل کر بیٹھ گیا ،مگر جیون کی یہ عنایت اُس کے دل کو گدگدا گئی تھی۔
’’تم پہلے جیسی ہو جاؤ جیون !ضدی ،نٹ کھٹ ،حکم دینے والی جیون ۔میں تمھارا یہ روپ نہیں سہہ سکتا ۔تمھارا یوں ٹوٹنا مجھے بکھیر کر رکھ دے گا۔‘‘اِس سے پہلے وہ کچھ کہتی سیف نے سر اُٹھا کر کہا تو اُسے دیکھ کر ٹھٹک گیا۔وہ آج کچھ بدلی بدلی لگ رہی تھی۔اُس کے چہرے پر وہ تکلیف نہیں تھی جو جازم کو دیکھنے کے بعد ہونی چاہیے تھی ۔
’’میں سمندر ہو چکی ہوں،پھر سے قطرہ نہیں ہو سکتی ،مگر ہاں! تمھیں قطرہ قطرہ ٹوٹنے سے بچا سکتی ہوں۔‘‘یہ کہتے ہوئے اُس نے اپنے چہرے سے سفید ڈوپٹہ ہٹا دیا ۔سیف اُس کے لفظوں پر کیا غور کرتا وہ اُس کے چہرے کی روشنی میں کھو چکا تھا۔ادھے جلے چہرے کے باوجود بھی وہ اُتنی ہی خوبصورت تھی۔جازم کی کھوٹی محبت اُس کا سونے جیسا روپ نہیں بگاڑ سکی تھی ،یا پھر وہ اُسے لگتی ہی اتنی حسین تھی۔عاشق کا دل کوئی عام دل نہیں ہوتا ،اُسے خوشبو خوشبو سے بڑھ کر آتی ہے،اُسے حُسن حُسن سے زیادہ دیکھائی دیتا ہے ۔وہ اُسے ٹکٹکی باندھ کر دیکھے جا رہا تھا۔
’’تم تو اِس کھڑی کے باہر ایسے سو گئے ، جیسے میں جازم کے دروازے کے باہر سو جاتی تھی۔یقین کرو نیندوں کو حرام کرنے سے کچھ نہیں ملتا۔‘‘وہ اُس کی محبوب نظروں کی تاب نہ لاتے ہوئے بے چینی سے بولی۔
’’کوچے کوچے کے پتھر عاشقوں کو پہچانتے ہیں ۔۔۔گلی گلی کی خاک عاشقوں کی ساتھی ہوا کرتی ہے ۔۔۔یہ صحرا صحرا پھرتے ہیں اور در در پڑے رہتے ہیں۔۔۔جانتی ہو کس لیے ؟ پورے وجود کی ملکیت کے لیے نہیں بس ایک نگاہ کی بھیک کے لیے۔‘‘وہ اُس کے ادھورے روپ کو اپنی پوری روح میں تحلیل کر چکا تھا۔
’’میں نے ہمیشہ عشق عشق کیا۔۔۔مگر عشق کیا تو تم نے کیا سیف۔۔۔میرے عشق میں نفرت تو نہیں سمائی ،مگر جلن نہیں مٹی۔۔۔کل اُسے کسی اور کے ساتھ دیکھ کر میں تڑپ گئی۔۔۔کل مجھے اپنے محدود عشق کے اندر تمھارے لا محدود عشق کا نشان ملا۔۔۔میں اُس کو اپنے ساتھ خوش دیکھنا چاہتی تھی ۔۔۔اور تم بس مجھے خوش دیکھنا چاہتے ہو۔۔۔میں تم سے عشق نہیں کر سکتی ۔۔۔پر میرا عشق تمھارے عشق کے در کا غلام بن گیا ہے ۔۔۔میرا عشق تمھارے عشق سے عشق کر بیٹھا ہے ۔اُس نے گہری آنکھیں سیف کی آنکھوں میں رکھتے ہوئے سرور سے کہا تو سیف کا دل اپنی جگہ سے ہل سا گیا تھا۔
’’یہ سب کچھ ہونے کے باوجود بھی میں جانتا ہوں،تم مجھ سے محبت نہیں کرسکتی۔‘‘سیف دل سے مجبور ہوکر بولا۔اُسے جیون کے چہرے پر اپنی محبت کا احترام دیکھائی دے رہا تھا،اپنے لیے محبت نہیں۔
’’محبت کرنا ضروری نہیں ہوتا سیف ۔۔۔محبت کو سمجھنا ضروری ہوتا ہے ۔۔۔اِس حویلی کی محبتوں کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ میں تمھاری محبت سمجھ گئی ہوں۔‘‘جیون دھیرے سے کہتے ہوئے آگے بڑھی اور کھڑکی میں آکر بیٹھ گئی۔
’’میں چاہتی ہوں تم مجھے جی بھر کے دیکھ لو۔کسی نے میرے دل کی تمنا ٹھکرا دی تھی ،میں دل سے تمھاری خواہش پوری کرنا چاہتی ہوں۔‘‘اُس نے سکون سے آنکھیں بند کرتے ہوئے کھڑی کے کونے پر سر ٹکادیا۔سیف اُس کی آنکھوں کے بند ہوتے ہی بجھ سا گیا تھا۔
’’کیا تم میری طرف ایک بار بڑھ نہیں سکتی جیون۔‘‘سیف کے شکستہ لہجے میں آخری امید تھی۔
’’بڑھنا چاہتی ہوں۔کاش ! بڑھ سکتی مگر کیا کرو ں کہ میرے بڑھتے قدم تمھارے وجود کو مٹا دیں گے۔اِس دل کا سودا کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔اِس دل میں کوئی دھڑکن نہیں بچی، بس وہ ظالم رہ گیا ہے ۔میں اپنا دل اور یہ کمرا نہیں بدل سکتی وہ ہر جگہ نظر آتا ہے ۔‘‘ جیون نے ہر بار کی طرح اُس کی امید توڑ دی تھی ۔
’’یہ پاگل پن ہے جیون۔وہ تمھیں برباد کر کے کسی اور کے ساتھ جا چکا ہے ۔ تم بھی واپس لوٹ آؤ۔ ‘‘سیف اُسے جھنجھوڑتے ہوئے خفگی سے بولا۔
’’میں نے تم پر ملامت کی۔۔۔۔تمھیں ذلت میں دھکیلا۔۔۔تمھیں ٹھکرایا۔۔۔تمھیں تکلیف پہچائی ۔۔۔پھر بھی تم یہاں بیٹھے ہو۔۔۔تو بولو ! اُس کی دھتکار۔۔۔اُس کی بے وفائی۔۔۔اُس کے ستم کے باوجود کیسے میں اُس کی چوکھٹ سے اُٹھ جاؤں؟۔۔۔تمھارے عشق نے مجھے بدل دیا اور میں شاید تب تک ناکام رہونگی جب تک وہ نہیں بدل جاتا۔‘‘وہ بنا آنکھیں کھولے اُسے لاجواب کر گئی تھی۔
’’وہ نہیں بدلے گا جیون ۔۔۔۔نہیں بدلے گا ۔۔۔اِس گمان کی دنیا سے باہر نکل آؤ۔۔۔میں تمھیں ایسے نہیں دیکھ سکتا۔۔۔مجھے درد ہوتا ہے ۔۔۔بہت درد۔‘‘وہ پہلی بار بے بسی سے ہار کر بچوں کی طرح رو پڑا۔
’’تمھارے اور میرے درد کے ختم ہونے کا وقت آچکا ہے ۔۔۔کبھی مت رونا سیف ۔۔۔تمھارے رونے سے مجھے تکلیف ہوگی ۔۔۔آئیندہ کبھی مت رونا۔۔۔تم وہ شخص ہو جس نے ہمیشہ میری خوشیوں کی دعا کی ہے۔۔۔میں تمھیں بہادر دیکھنا چاہتی ہوں ۔۔۔اِس کمزور ی کو عشق کے راستے میں مت آنے دینا۔۔۔کبھی بھی نہیں۔‘‘ جیون نے کہتے ہوئے اچانک سے آنکھیں کھول دیں تو وہ اُس کی آنکھوں کی سرخی دیکھ کر خوفزدہ سا ہوا۔
’’اپنا خیال رکھنا اور سب عشق کرنے والو کا! ‘‘ اُس نے سیف کو ایک نظر دیکھا اور پھر اُن دونوں کے بیچ کی کھڑی بند ہو گئی۔
“جیون ۔۔۔ جیون ۔۔۔جیون کھڑکی کھولو۔‘‘وہ مجنوں کی طرح بند کھڑی کو پیٹتے ہوئے اُس کا نام زور زور سے پکارنے لگا ۔نجانے کیوں اُس کا دل کسی انجانے وہم اور خوف سے لرز رہا تھا۔جیون نے اُس کی کوئی التجا نہیں سنی ،وہ خاموش ہو چکی تھی ۔اُس نے زندگی کا ساتھ نہیں چھوڑا تھا،زندگی اُس کا ہاتھ چھوڑ کر جا چکی تھی۔
*****
زندگی سے لڑ جھگڑ کر
میرے نہ رونے کی خواہش کرنے والی
مجھے بہادر دیکھنے والی
میں تمھارے آخری لفظوں پر پورا اتر چکا ہوں
پر تمھارے ساتھ مر چکا ہوں!!!
ساری کلیاں سارے پھول بے آواز رو ئے تھے ۔۔۔
سارے آئینے سارے ستون گلا پھاڑ کر چیخے تھے۔۔۔
حویلی کی اونچی اونچی دیواریں شرمندہ سی سر جھکائے کھڑی تھیں۔۔۔
سفید بطخیں،رنگین تتلیاں اُس کی جدائی میں اداس بیٹھی تھیں۔۔۔۔
پرندوں کی آواز میں درد بول رہا تھا۔۔۔
ہر آنکھ کا آنسو چپ چاپ بہہ رہا تھا۔۔۔
کمرے۔۔۔دالان۔۔۔زینے۔۔آنگن۔۔کونسی جگہ ایسی تھی جہاں صفِ ماتم نہ بچھی تھی۔۔۔۔جہاں اُس کی کمی نہ تھی۔۔۔
حویلی کے سب نوکر غم سے نڈھال تھے۔۔۔رقیہ ناز کی آنکھوں میں گہرا ملال تھا تو ذکیہ بیگم کے چہرے پر بے حسی۔۔۔ سیف کے لیے تو جیسے سب کچھ ہی ختم ہو گیا تھا۔۔۔دل دھڑکنے کی وجہ ۔۔۔دیکھنے کی وجہ ۔۔۔محسوس کرنے کی وجہ ۔۔۔سانس لینے کی وجہ ۔۔۔وہ ہر وجہ اپنے ساتھ لے گئی تھی۔۔۔وہ اندر باہر سے بالکل خالی ہو چکا تھا ۔۔۔اپنی روح سے جدا انسانوں کے بیچ ہوا میں معلق ۔۔۔اُس کی صورت کو ہر جگہ دیکھتا خود سے بالکل لا تعلق ۔۔۔اُس کے اندر جیسے لہو جم گیا تھا۔۔۔کوئی بوند بھی حرکت کر کے زندگی کا پتا دینے کو تیار نہ تھی ۔۔۔اور دل جس کی ٹک ٹک ہمیشہ جیون کا نام لیتی تھی ۔۔۔وہ سننے سے بھی سنائی نہ دیا ۔۔۔نجانے دل گونگا ہو گیا تھا یا کان بہرے ۔۔۔جیون کے ساتھ اُس کی زندگی کو بھی چپ لگ گئی تھی ۔۔۔زندگی روٹھ چکی تھی۔۔۔اُس کی آنکھوں کے سامنے مٹ چکی تھی۔۔۔مگر وہ کچھ نہ کر سکا۔۔۔وہ اُس لمحے اِتنا بے بس تھا کہ رو بھی نہیں سکتا تھا۔۔۔روتا بھی تو کیسے وہ حکم چلانے والی آنسو پر پابندی جو لگا گئی تھی۔۔۔ایک غلام نے ایک محبوب نے آخری لفظوں کا پاس رکھا۔۔۔اُس نے آنکھوں کی برسات کو روک دیا۔۔۔مگر دل کا طوفان ایک پل کے لیے بھی نہیں تھما تھا۔
جیون کی خوشیوں کا قاتل حویلی میں نہیں تھا ۔اُسے جلد ہی جازم کو ڈھونڈ کر ،اُسے یہ تکلیف دہ اطلاع دینی تھی ۔وہ دکھ اور صدمے کے جمود کو توڑتے ہوئے دیوانوں کی طرح بھاگنے لگا۔کبھی وہ جیون کہتا تو کبھی جازم ۔اِس دیوانگی میں وہ خود کو بھی بھول گیا۔ وہ ایسا محبوب تھا جسے آخری دیدار کی پیاس نہ تھی ،جس کے لیے صرف اِس وقت ضروری مرنے والی کی تمنا تھی۔
جازم تک خبر پہنچ گئی تو حویلی کا ہر فرد اُس کا انتظار کرنے لگا ۔سیف نے حویلی سے قبرستان اور قبرستان سے قبر تک اُس کی راہ دیکھی ،مگر وہ نہیں آیا نہ کسی پل کی محبت کے واسطے۔۔۔نہ بچپن کی دوستی کی خاطر ۔۔۔نہ انسانیت کے ناتے۔سیف کو آخری لمحے تک امید رہی کہ وہ شاید مرنے والی کے احترام میں آجائے۔اُس لڑکی کو پلٹ کر دیکھ لے جو اُسے زندگی مانتی تھی ۔جو محبت میں مٹ کر موت سے جا ملی تھی ۔ وہ جانتا تھا بے جان جیون کو بھی اُس کا انتظار ہوگا ،مگر وہ اتنا سفاک تھا کہ اُس نے جیون کی آخری مراد بھی پوری نہ کی۔بارش ہونے والی تھی اب سیف اور جیون کے لیے اُس کا انتظار بے سود تھا۔اُس کو آنا ہوتا تو شاید وہ کبھی جاتا ہی نہیں۔
*****
(جاری ہے )
اُس کو آنا ہوتا تو شاید وہ کبھی جاتا ہی نہیں
👍👍
That’s the reality of every relationship…
LikeLiked by 1 person
Indeed!
LikeLiked by 1 person
مُحبت بندگی ہے اِس میں تن کا قُرب مت مانگو
کہ جِس کو چُھو لیا جائے اُسے پوجا نہیں کرتے
LikeLiked by 1 person
👍
LikeLiked by 1 person