قصیدہ لامیہ

ابو طالبؑ

اس قصیدے کے ہر لفظ کے آخر میں ‘لام’ آتا ہے۔

قصیدے کا اُردو ترجمہ درجِ ذیل ہے۔


جب میں نے اپنی قوم کو دیکھا کہ  اُن میں محبت نہ رہی

اور انہوں نے اپنے تمام رشتے ناطے بُھلا دیئے

بجائے یہ کہ مسائل ختم کراتے

ہماری دُشمنی اور ایذا رسانی میں وہ پیش پیش ہوئے

اور ہمارے دُشمنوں کی ہاں میں ہاں مِلانے لگے

ہم سے بدگُمان لوگوں کے وہ حریف بن گئے

اور ہمیں دیکھ کے

ہمارے پیچھے وہ مُنہ سے  اپنی اُنگلیوں کی پُشت دانتوں سے چباتے ہیں۔

میں ان سب کے مدِ مُقابل کھڑا  للکار رہا ہوں

لچک دار نیزے اور تیز کاٹتی تلوار کے ساتھ

جو ہمارے اجداد بادشاہوں کا ترکہ ہے

سب اس  مقدس دروازے کے سامنے کھڑے ہیں

جہاں ہر قسم کھانے والا اپنی قسم پُوری کرتا ہے

جہاں اشعری لوگ اپنی سواریاں بِٹھاتے ہیں

اساف اور نائلہ بُتوں کے پاس قُربان کیے گئے جانوروں کے خُون کے سیلاب  کے پاس

وہ قُربانی کے جانور

جِن کے بازوؤں اور گردنوں پر قُربان کیے جانے کے نِشان لگے ہوئے ہیں

سدھائے ہوئے، آٹھ اور دو برس عمر کے اونٹ

عُمدہ پتھر اور زیب و زِینت اور آرائش ان کی گردنوں پر بندھی ہیں

ان کی گردنیں جیسے کھجور کے پھل دار درخت کی شاخیں

میں اللہ سے پناہ مانگتا ہوں

بڑائی کا طعنہ مارنے والے اور باطل سے چمٹے رہ جانے والوں سے

اور کینہ ور

جو ہمارے عیب کی جستجو میں رہتا ہے

اور دین میں ہماری مرضی کے بغیر افسانہ کرنے والے سے

اور جبل نور اور اس ذات کے ساتھ جس نے کوہ شبیر کو اس کے مقام پر نصب کیا ہے

اور اس کے ساتھ ہی جس کی غارِ حرا میں آمدو رفت ہے

وادی مکہ کے برحق بیت اللہ کے ساتھ اور اللہ کے ساتھ

یقیناً اللہ غافل نہیں ہے

اور حجر اسود کے ساتھ

پناہ مانگتا ہوں ، جب اسی چومتے ہیں

اور اس نرم پتھر پر ابراہیم ؑ کےننگے پاؤں کے نقش و نشانات کے ساتھ

پناہ مانگتا ہوں

صفا اور مروہ کے درمیان سعی

سعی کے چکروں کے ساتھ

ان کے درمیان جو نشانیاں ہیں

ان کی پناہ مانگتا ہوں

سوار اور پیادہ حاجیوں اور ہر نذر ماننے والوں کے ساتھ

پناہ مانگتا ہوں

اور عرفہ کے ساتھ

جب وہاں کے لوگ کوہ الال کا قصد کرتے ہیں

بالمقابل نالوں کے بہاؤ تک

اور پہاڑوں پر وہاں پِچھلے پہر کے قیام  کے ساتھ

پناہ مانگتا ہوں

کہ وہ سواریوں کے سینوں کو ہاتھوں میں تھامتے ہیں

مزدلفہ کی رات

اور منیٰ کی قیام گاہوں کے ساتھ

پناہ خواہ ہوں

کیا ان سے زیادہ کوئی قابلِ احترام جگہیں یا قیام گاہیں ہیں؟

اور مزدلفہ کے ساتھ پناہ خواہ ہوں

جب سواریاں تیز رفتاری سے اسے عبور کرتی ہیں

جیسے وہ خوب برستی بارش کے باعث تیز دوڑ رہی ہوں

اور جمرہ کبریٰ سے پناہ مانگتا ہوں

جب اس کے سر پر پتھر مارے جاتے ہیں

اور پناہ مانگتا ہوں کندہ کے ساتھ

جب وہ وادی محصب میں شام سمے ٹھہرے تھے

اور ان کو بکر بن وائل کے حاجی گزار رہے تھے

وہ دونوں جو آپس میں حلیف ہیں

انہوں ے اپنے عہد و پیمان کو مستحکم کر لیا ہے

اور اس پر مودت و محبت کے سب ذرائع جمع کر دیے ہیں

وہ پامال کر گئے وادی کی عُمدہ گھاس سُرخ اور شیرق کو اپنے شُتر مُرغ کی تیز رفتاری سے

پس کیا کِسی  پناہ مانگنے والے کے لئے اس کے بعد بھی کوئی

جائے پناہ ہے؟

اور کیا کوئی خُدا ترس

پناہ لینے والے کو ملامت کرتا ہے

ہمارے متعلق دُشمنوں کے اِرادے قبول کئے گئے ہیں

وہ خواہش پالے ہوئے ہیں کہ ہم پر ترک اور کابل کے راستے بھی بند کر دیے جائیں

کعبہ کی قسم

تُم غلط کہتے ہو

کہ ہم مکّہ چھوڑ کے کُوچ کر جائیں گے

سُنو

تُمہارا یہ منصوبہ سراسر رنج و غم ہے

کعبہ کی قسم

تُم دروغ گو ہو

کہ ہم سے محمد ﷺ چھین لیے جائیں گے

ابھی تو ہم نے ان کی حفاظت کے لیے نہ برچھے چلائے نہ تِیر مارے

یاد رکھو

ہم اُنہیں تُمہارے سپرد نہ کریں گے

تا وقت کی ان کے آگے

پیچھے

ان کے قدموں میں

ہم سب کٹ جائیں

مر جائیں

اور اپنے اہل و عیال ان پر قُربان کر دیں

سُنو

ایک مسلّح قوم تمہارے مقابلے میں

شور و غُل کے ساتھ کھڑی ہو گی

جیسے اُونٹوں پر  پانی کی مشکوں کو چڑھانے اُتارنے میں

شور و غوغا سُنائی دیتا ہے

اس وقت تک

ہم اپنے کِینہ ور دُشمن کو نیزے سے چھلنی کر کے اوندھا گِرا نہ دیکھ لیں

آفت زدہ رنجیدہ انسان کی طرح

بخدا

اگر تُم نے فِتنہ بڑھایا

تو ہماری تلواریں تمہارے سرداروں کا کام تمام کر دیں گی

جو ایسے جوانوں کے ہاتھوں مریں گے

جو ستاروں کی طرح شعلہ زن

ریئس

قابلِ اعتماد اور فرضِ منصبی پُورا کرنے والے

ہمارے بہادر جوان ہیں

اور یہ حالتِ جنگ

پھر

سالہا سال تک

چلے گی

تیرا باپ نہ رہے

قوم کا ایسے رئیسِ اعظم کو نظر انداز کر دینا

جو اپنے فرائضِ منصبی پورے انجام دیتا ہے

وہ چرب زبان ہے نہ ہی عاجز

وہ ﷺ

وہ سفید رنگت والا

جِس کے رُخِ انور کی بدولت ابرِ رحمت طلب کیا جاتا ہے

جو یتیموں کا فریاد رس

اور

بیواؤں کا سہارا ہے

سر پرست ہے

آلِ ہاشم کے خستہ حال لوگ اس کی آڑ لیتے ہیں

پناہ لیتے ہیں

اس کے پاس رحمت ہے

نوازش ہے

فضل اور کرم ہے

بقا کی قسم

اسید اور اس کے بیٹے نے ہمارے ساتھ بُغض و عداوت کا مظاہرہ کیا ہے

اور کھانے والے کے سامنے کاٹ کر رکھ دیا ہے

عثمان اور قنفد نے بھی ہم پر مہربانی اور خدا ترسی نہیں کی

بلکہ انہوں نے انہی قبائل کی بات مانی

انہوں نے ابی اور ابن عبد یغوث کی کہی مانی

اور ہمارے بارے

انہوں نے کسی بات کا خیال نہیں رکھا

پس

اگر وہ کہیں مِل گئے

یا ہماری دسترس میں آ گئے

تو ہم ان کو ان کو ان کے کرتوتوں کے برابر

سزا ماپ کر دیں گے

اور ابو عمرو

ہمارے بغض اور عناد میں بدمست ہے

چاہتا ہے کہ ہمیں

بھیڑ بکریوں اور اونٹوں کے چرواہوں کے ہمراہ

یہاں سے کہیں اور بھیج دے

صبح و شام سے سرگوشیوں میں دغا  کے راز و نیاز کہتا ہے

اے ابو عمرو

تو ہم سے چپکے چپکے پھر فریب کی باتیں کرتا ہے

اور وہ حلف اُٹھاتا ہے

ہمیں دھوکا نہ دے گا

ارے

ہم تو اسے آشکارا دیکھتے

بغیر کِسی شک و شبہے کے

ہمارے ساتھ بغض و کینہ کے باعث

اخشب سے اور مجادل کے درمیان

ہر نشیب و فراز

اس پر تنگ ہو چکا ہے

ابو ولید سے پوچھو

اس نے دغاباز کی طرح ہم سے انحراف کر کے

کیا فائدہ پہنچایا؟

آپ تو دانشور تھے

کہ عقل و دانش اور نوازش سے

آپ کی زندگی بسر ہوتی تھی

اور آپ

آدابِ زندگی سے ناآشنا بھی نہ تھے

اے عتبہ

ہمارے خلاف

کِسی دشمن، فاسد،  جھوٹے، کمینے، کینہ ور اور مکّار کی بات نہ سُن

ابو سُفیان میرے پاس سے

کِسی بادشاہ کی طرح اغراض کر کے گزر گیا

نجد اور ٹھنڈے پانی کے کِسی علاقے کی طرف فرار ہو گیا

وہ کہتا ہے

وہ ہم سے بے خبر نہیں

خیر خواہی کا جُھوٹا اظہار کر کے بتاتا ہے کہ وہ شفیق و مہربان ہے

مگر اندر کی شرارت کو چُھپاتا ہے

اے مطعم

میں نے کبھی تمہیں تنہا چھوڑا؟

کِسی تنگی کے دِن یا بڑی مصیبت کے  لمحے

بے شک قوم نے تُجھے ایک مشکل مقام پہ رسوا کیا تھا

مگر ہم نے تیرا ساتھ دیا تھا

جانتے ہو،

جب کوئی معاملہ میرے سپرد کیا جائے تو میں کِسی کی پناہ نہیں لیتا

اللہ تعالیٰ ہماری طرف سے عبد شمس اور نوفل کو ان کی شرارت کی فوری سزا دے،

پوری پوری، انصاف کے ترازو سے تول کر

جس میں ذرہ برابر کمی نہ ہو

وہ خود گواہ ہو کہ اس میں کوئی  جور و جفا نہیں

قوم کی مت ماری گئی ہے کہ اس نے ہماری بجائے بنی خلف

اور فیاطل کو پسند کیا

پہلے ہر مشکل گھڑی میں ہم ہی ہاشم اور آل قصی کے خاص معزز لوگ تھے

اے عبد مناف

تم بہترین لوگ ہو،

اپنے قصے میں ہر کمینے کو مداخلت نہ کرنے دو

مجھے زندگی کی قسم

تم کمزور اور عاجز و ناتواں ہو چکے ہو

اور تم نے غلط کام کیا ہے

تم کبھی ایک ہی ہانڈی کا ایندھن ہوا کرتے تھے

اور اب تم کئی ہانڈیوں کے جلتے چولہے ہو

پہلے متحد تھے

اب منتشر ہو گئے ہو

بنی عبد مناف کو ہم سے قطع رحمی مبارک ہو

ہمیں رسوا کرنا

شعب میں محصور کردینا مبارک ہو

اگر ہم غیرت مند ہوئے تو تمہاری ان حرکتوں کا نوٹس لیں گے

اور تُم دودھیل اونٹنی کو دوھو گے جو مباہ نہیں

لوی خاندان میں رشتے ناطے تھے

انہیں بھی ہر رئیس نے نظر انداز کر دیا

خاندان نفیل روئے زمین کے بدترین لوگوں سے ہے

اور بنی سعد کے ہر جوتا پوش اور برہنہ پا سے کمینہ ہے

قصی کو بتا دے کہ ہمارا یہ مشن پھیلے گا

اور ان کو ہمارے بعد ذلت ا و ر رسوائی کا مژدہ سنا دے

اگر قصی پہ کِسی وقت بُرا وقت آئے

جب ہم ان کے بغیر اپنے محفوظ مقام پر چلے جائیں

اگرچہ وہ اپنے محلوں میں بے جگری سے لڑیں

تو ان کی شیر خوار بچوں والی خواتین کے ہم ہی غم گسار ہوں گے

بخدا ، ہر دوست اور بھانجے کو

ہم اپنا خیر خواہ سمجھتے تھے

مگر ہم نے ان کی غیر حاضری کو بے سود پایا

سوائے کلاب کے ایک خاندان کے جو رسوا کن ظلم و زیادتی سے بری ہے

زہیر بن ابی امیہ اچھا بھانجا ہے

جھوٹ کی تہمت سے پاک

فریب سے جُدا ننگی تلوار

بڑے سرداروں میں سے ایک سردار

بزرگوں کے اعلیٰ شرف سے منسوب

زندگی کی قسم

میں احمد ﷺ اور اس کے بھائیوں کے شوق محبت کا گرویدہ ہوں

ملاقات کی خواہش رکھنے والے کی عادت کی طرح

سب لوگوں میں سے آنحضور ﷺ کی مِثال کون ہے؟

جب حکام ایک دوسرے کی برتری ثابت کرتے لمحے موازنہ کریں

تو اور کِس کی اُمید کی جا سکتی ہے؟

بردبار ، اعلیٰ مدبر

منصف مزاج

دانا  اور بینا

اللہ سے محبت رکھتا ہے وہ

اس سے غافل نہیں

اعلی سعی و کاوش اور شریف ابن شریف

ان ﷺ کی عظمت بزرگی کی وراثت ثابت ہے

بغیر نزاع کے

پروردگار عالم نے ان کی تائید اپنی مدد سے کی ہے

اور اسی نے اپنا دین ظاہر کیا ہے

جس کی حقانیت لازوال ہے

واللہ

اگر مجھے عار و عیب کا اندیشہ نہ ہوتا

جس کا مجلس میں ہمارے مشائخ کو طعنہ دیا جاتا ہے

تو ہم اس وقت ان کی ہر حالت میں پیروی کرتے

یہ باتیں  سچ ہیں ، مزاح اور مذاق نہیں

سب جانتے ہیں

ہمارا فرزند ارجمند جُھوٹا نہیں

اور نہ ہی باطل  باتیں ان کا مقصد ہیں

ہمارے خاندان میں احمد ﷺ ایسے مقام پر فائز ہیں

کہ کسی مقابلہ کرنے والے کا جوش و ولولہ بھی اس سے قاصر ہے

میں نے اپنی زندگی اپنی جان ان پہ نچھاور کر دی

ان کی حمایت کی ہے

اور ان کا دفاع ہر اس طریقے سے کیا جائے گا

جو بھی ممکن ہو

________

مراسلہ:عمر

(ابدال بیلا کی کتاب “آقا ﷺ” سے مِلا۔
انہوں نے اسے تفسیر ابن کثیر سے نقل کیا۔)

Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

You are commenting using your WordPress.com account. Log Out /  Change )

Twitter picture

You are commenting using your Twitter account. Log Out /  Change )

Facebook photo

You are commenting using your Facebook account. Log Out /  Change )

Connecting to %s

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.