خوشبو جیسے لوگ ملے_______گلزار

خوشبو جیسے لوگ ملے افسانے میں

ایک پرانا خط کھولا انجانے میں

شام کے سائے بالشتوں سے ناپے ہیں

چاند نے کتنی دیر لگا دی آنے میں

رات گزرتے شاید تھوڑا وقت لگے

دھوپ انڈیلو تھوڑی سی پیمانے میں

جانے کس کا ذکر ہے اس افسانے میں

درد مزے لیتا ہے جو دہرانے میں

دل پر دستک دینے کون آ نکلا ہے

کس کی آہٹ سنتا ہوں ویرانے میں

ہم اس موڑ سے اٹھ کر اگلے موڑ چلے

ان کو شاید عمر لگے گی آنے میں

_______________

فوٹوگرافی و کور ڈیزائن: صوفیہ کاشف

Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

You are commenting using your WordPress.com account. Log Out /  Change )

Facebook photo

You are commenting using your Facebook account. Log Out /  Change )

Connecting to %s

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.