بلاگ کیسے لکھیں؟________افادیت اور استعمال



بلاگ کیا ہے اورآپکی آنکھوں میں اس کے جاگتے سپنے،پر بحث کے بعد اگلا اہم سوال یہ اٹھتا ہے کہ اسکا فایدہ کیا ہے؟ آخر کیوں اس پر اتنی محنت کی جائے،کوئ فائدہ،کوئ سکوپ ،کوئ عظیم مستقبل کا وعدہ؟

پہلی بات یہ کہ آپ ڈائری یا جرنل کیوں لکھتے ہیں؟ اپنے کتھارسس کے لئے!اپنی خوبصورت باتوں اور یادوں کو محفوظ رکھنے کے لئے؟اپنے دل کی باتوں کے اظہار کے لئے؟تو یہی وجہ ہے کہ آپ اپنا بلاگ لکھیں۔جرنل کے صفحات پر رنگ انڈیلنے اور پھول پتے بنانے کی بجائے چمکتے جگمگاتے کمپیوٹرائزڈ پردوں پر جتنے چاہے رنگ بکھیریں ،دنیا جہاں کے خوبصورت فوٹو لگائیں،فارمیٹینگ کریں رنگ برنگے فونٹ کلرز ،خوبصرت کلر سکیم اور پھر سب کچھ کہہ دینے کی آذادی۔آپ اپنی باتیں اپنے لوگوں سے نہیں کہنا چاہتے،آپ شرمیلے ہیں،گھبراتے ہیں دل کی بات کہنے سے؟کوئ بات نہیں۔بلاگ کو پرائیویٹ رکھیے, صرف اپنے تک محدود رکھیں اور جو چاہے کہانیاں حکایتیں اس میں درج کرتے رہیں۔اس سے بڑھنا چاہتے ہیں تو قلمی نام اپنائیں اور فرضی مقامات اور لوگوں کے لئے مصنوعی نام استعمال کریں۔کوئ کبھی جان نہیں سکے گا کہ کہ اس بلاگ کی خوبصورت،دلنشیں یا بے ساختہ تحریر کے پیچھے کون ہے۔ویسے بھی آپکی پہچان وہ نام ہے جس سے آپ دنیا میں پہچانے جائیں۔اگر دنیا آپ کو ارحم کے نام سے جانے جبکہ آپ کا خاندان آپ کو اصغر کے نام سے جانتا ہو تو اس میں کچھ حرج نہیں۔نام چھپانا چاہتے ہیں ضرور چھپائیے اس میں کوئ قباحت نہیں۔بلاگرز کی خاصی تعداد اپنے حقیقی ناموں سے اجتناب کرتی ہے کیونکہ ہر کسی میں آس پاس کے لوگوں کے رویوں یا انکی آوازوں کو چیلنج کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔دوسرا اپنی پہچان اپنے آس پاس کے لوگوں سے مخفی رکھنے سے بہت سی ایسی باتوں کے کہہ دینے اور لکھ دینے کی آذادی ہو جاتی ہے جو بصورتِ دیگر مشکل ہے۔آس پاس کے دوست احباب ،حالات اور رشتوں کا دباو بہت سی باتیں کہہ دینے سے روک دیتا ہے۔سوجب تک آپ اس لیول تک نہ پہنچیں کہ اپنی ہر بات بلند بانگ انداز میں کہہ سکیں تو قلمی نام استعمال کریں ،جب چاہیں اپنا اصل نام استعمال کریں ،نہ چاہیں تو ہمیشہ اپنی پہچان چھپا کر اپنی آواز بلند کریں یہ آپ کا حق ہے آپ اسے جیسے چاہیں ویسے استعمال کریں۔سو سب سے پہلا فایدہ تو یہ ہے کہ یہ آپکے دل کی ہر بات کہنے اور لکھنے اور ذیادہ سے ذیادہ لوگوں تک پہچانے کا اور ان کو ہم آواز کرنے کا بہت بہترین ذریعہ بھی ہے کتھارسس بھی۔

ہمیں لگتا ہے کہ بہت سی مشکلات صرف ہم پر ٹوٹتی ہیں،بہت سے جذبات صرف ہمارے ہی دل میں ابھرتے ہیں،کچھ کوتاہیاں صرف ہم سے ہی سرزد ہوئی ہے۔بلاگ ہمیں ہمارے محدود ماحول سے اور مخصوص علاقے کے مخصوص ذہنی رویوں سے بہت دور دنیا کے دوسرے کنارے پر لے کر جاتا ہے اور یہی وہ سب سے بڑا فایدہ ہے جو انٹرنیٹ نے آج کی نسلوں کو تحفے میں دیا ہے۔کہ آپ کی آواز اور تحریر،آپ کا انداز اور موضوع صرف کچھ گلیوں ،کچھ مخصوص علاقے کے لوگوں تک جہاں پر اکثر ایک ہی انداز میں سوچا سمجھا جاتا ہے سے بہت دور تک لے کر جاتا ہے۔ایسے قارئین تک جن کے لئے ان الفاظ جذبات یا مشاہدات کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔جن کو پہلے سے ان چیزوں کا ادراک نہیں ہوتا یا وہ بھی آپ کی طرح اپنے اندر کی شخصی تنہائی میں کڑھ رہے ہوتے ہیں۔آپکی تحریر ان کے دل کی آواز بن جاتی ہے۔اور پھر ایسے لوگ آپکے لئے تحریک اور طاقت بن جاتے ہیں جن کے لئے آپ کے الفاظ کی اہمیت ہوتی ہے وہ جسے کہتے ہیں زمان و مکاں سے بے نیاز ہو جانا تو یہ زمان و مکان سے نکل کر خود اپنی آڈینس کو ڈھونڈنا ،ان تک پہنچنا اور پھر انکو اپنے لئے ایک طاقت کے طور پر استعمال کرنا ہی ایک بلاگر کا ہنر ہے۔پہلے دن سے اپنے ذہن میں یہ بٹھا لیں کہ آپ کو اپنا بلاگ اپنے دوست احباب کے لئے نہیں لکھنا،نہ انکے لائکس اور تھپکیوں سے چلنا ہے۔آپ کو یہ حوصلہ رکھنا ہے کہ جب تک ،جتنا عرصہ اور جتنی محنت آپ کو اپنے قدردانوں تک جانے میں لگے گی آپ کو کرنی ہے تو پھر آپکے اڑنے کی طاقت کو کوئ بھی چیلنج نہیں کر سکتا۔دوستوں سے امیدیں لگانے کا مطلب طاقت کی کمی،غلط توقعات اور انجام کار محدود کوشش اور لا محدود ناکامی۔

آپ لکھتے ہیں تو پھر رسائل اور اخبارات میں چھپنے کے لئے بھجواتے ہیں۔پھر مہینوں اسکے چھپنے کی راہ تکتے ہیں اور اکثر پھر بھی چھپ نہیں پاتا۔کیوں؟ کیا آپ کو لگنے لگا ہے کہ آپ ایک بُرے لکھاری ہیں اسی لئے بڑے بڑے اخبارات،رسائل اور ڈائجسٹس میں جگہ نہیں بنا پاتے جبکہ آپ کے آس پاس کے لوگ آپ کی تحریروں کی تعریف کرتے ہیں۔اسکی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ آپ مرکز سے بہت دور بیٹھے ہیں ۔ہو سکتا ہے آپ اخبارات،رسائل اور ڈائجسٹس کے دفاتر کے اتنے قریب نہ ہوں کہ رسائل یا اخبارات کے دفاتر جا کر اپنے ہاتھوں تحاریر جمع کروا سکیں، مرکزی شہروں سے اتنے فاصلے پر ہوں کہ آپکی پوسٹل ڈاک بہت دنوں بعد بوریوں میں پہنچتی ہو،اور جب بوریوں کے ڈھیر ان دفاتر میں پہنچتے ہوں تو آپکی تحریر تک پہنچنے کی باری ہی نہ آتی ہو۔ہو سکتا ہے جن تحریروں کو آپ ناقابل اشاعت سمجھ کر دل توڑبیٹھے ہیں وہ کسی نے کبھی پڑھی ہی نہ ہوں۔میرا پہلا مضمون 1998 کے جنگ اخبار میں چھپا تھا جب میں تھرڈ ائیر کے آخرمیں تھی۔اور وہ میں نے تب بھیجا تھا جب میں فرسٹ ائیرمیں تھی کوئ دو سال پہلے۔اتنے عرصے بعد کہ میں اس پر فاتحہ پڑھ کر بھول بھلا چکی تھی تو مجھے ایک دن اخبار سٹینڈ پر لگی اخبار میں اپنے نام کے ساتھ مضمون لگا دکھائی دیا۔تو بوریوں کے ڈھیر میں سے دو سال بعد خوش قسمتی سے میری تحریر ایڈیٹر صاحب کے ہاتھ لگ گئی تھی۔آج اس ٹیکنالوجی کی دنیا نے یہی سب سے بڑی سہولت دی ہے کہ جو تحریریں آپکی مال گاڑیوں کا سفر کر کے ہفتوں میں پہنچتی ہیں اور پھر جا کر بوریوں کے ڈھیر میں گم جاتی ہیں اب آپ خود آگے بڑھ کر اسے اپنے بلاگ کے ذریعے ساری دنیا کے سامنے رکھ سکتے ہیں۔اس میں نہ زمینی فاصلہ آپکی کامیابی میں حائل ہو گا،نہ کوئ چھوٹے شہر یا قصبے کا سمجھ کر آپ کی تحقیر کرے گا۔اڑن طشتری آپ کے پاس ہے اس پر بیٹھیں اور سب سے آگے کی اڑان لے لیجیے۔ہو سکتا ہے کہ آپ کے قلم میں جادو ہو جو آج تک کسی کی نظر سے گزرا نہ ہو ،یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایسا کوئ بھی جادو نہ ہو،مگر یاد رکھیں جادو پریکٹس سے ہی آتے ہیں۔یہ بلاگ لکھنے کا عمل آپکے قلم میں طلسم بھرے گا اور ساتھ ساتھ تھوڑی بہت اپنی مہارت کے بل پر ملنے والی آڈینس آپکا خون خوب گرم رکھے گی۔

ہو سکتا ہے آپکی مشق سخن جو موضوعات ہوں ان سے بہت سے جرائد کو دلچسپی نہ ہو،ہو سکتا ہے آپ ساس بہو کے جھگڑوں پر نہ لکھنا چاہیں،شاید آپ کے اندر کوئ پیری پورٹر جیسی داستان جاگ رہی ہوں جس کا آس پاس کی بھیڑ چال دنیا میں کوئ خریدار نہ ہو،ہو سکتا ہے کہ آپ کے اندر پنپنے والا خیال اتنا نیا اور انوکھا ہو کہ مخصوص فارمولوں پر چلنے والے جرائد اس کا بوجھ ہی نہ ڈھو سکتے ہوں،ہو سکتا ہے کہ بدصورتوں کی دنیا میں آپ اتنے خوبصورت ہوں کہ بدصورتوں کی ہراسمنٹ کا شکار ہو کر اپنی ہمت ہی ہار بیٹھے ہوں، تو اپنا بلاگ آپ کو یہ موقع بھی دیتا ہے کہ آپ اپنی مرضی کا کام کریں،اپنے موضوعات پر لکھیں،اپنے انداز سے لکھیں،اپنے رحجانات کو فالو کریں،اپنی مرضی کا کونٹینٹ ڈالیں،تصاویر لگائیں ،وڈیوذ ڈالیں یا سادہ تحریر میں کتاب لکھیں۔دنیا میں ہر چیز کہیں نہ کہیں بکتی ضرور ہے مسلئہ صرف اس مارکیٹ تک پہنچنے کا ہے اور بلاگ آپ کو یہ موقع بالکل مفت اور بہت اچھے طریقے سے فراہم کرتا ہے۔

کیا آپ کتاب لکھ کر ہزاروں لاکھوں ڈالرز میں کھیلنا چاہتے ہیں؟ یا پاکستان اور اردو کے معروضی حقائق جانتے ہوے خود کو اہل کتاب بنا کر ،یہ جان کر کہ کتاب یہاں آپ کو صاحب روزگار نہیں کرتی قناعت کر لیں گے؟ کیا خالی شہرت اور عزت سے آپ کا پیٹ بھر سکتا ہے؟ اگر ہزاروں لاکھوں ڈالر کمانے ہیں تو پھر بلاگ انگریزی میں لکھیے،انگریز کے لئے لکھیے ۔آپکی ڈائری،خیالات،مشاہدات،ہنر،تحریر دنیا بھر میں ملکوں ملکوں پھیلی زبان انگریزی میں ان کروڑوں لوگوں تک پہنچائیں جو پڑھنے کے شوقین بھی ہیں اور جس مارکیٹ میں لکھی گئی کتاب بکتی بھی ہے اور عالمی سطح پر آج کی بیسٹ سیلر کتابیں اکثر بلاگرز کی کتابیں ہیں جنہوں نے اپنی پہچان بلاگ سے بنائ۔اور اگر آپ اچھی انگریزی لکھتے ہیں تو پھر تیسری دنیا کے تین نمبر کے چھوٹے سے شہر میں ہونا بھی آپکی منزل کھوٹی نہیں کر سکتا!لیکن اگر زبان دانی کا مسلئہ ہے تو بھی کمانے کے لئے آپ کے پاس نام ،عزت اور شہرت کے ساتھ بہت کچھ ہے جس پر ہمارے خطے کے اردو لکھنے والے سہولت سے صابر شاکر ہو جاتے ہیں۔پاکستان اور انڈیا کے علاؤہ جنوبی ایشیا کی کچھ چھوٹی جگہوں پر اردو پڑھی اور سمجھی جاتی ہے۔اسکے علاؤہ اردو پڑھنے اور لکھنے والے ہجرت کر کے پوری دنیا کے ہر خطے میں موجود ہیں۔لاکھوں نہیں تو چند ہزار کی آڈینس سے اردو بلاگر کو کوئ محروم نہیں کر سکتا جو یہاں پر ایک معزز نام و مقام رکھنے کے لئے بہت مناسب آڈینس ہے۔اور جب تالی کی تاثیر کی بات کی جائے تو بعض اوقات کامیابی کی ترغیب کے لئے ایک تالی بھی بہت کچھ ہوتی ہے۔ہزاروں تو بہت زیادہ ہیں۔تو صرف اپنا تکمیل شوق ہی آپکی پہچان اور نام بن جائے گا۔ہو سکتا ہے کل کو لوگ آپکی ماہرانہ رائے اور مشاورت طلب کرنے لگیں،آپکی تخلیق و ہنر آپ کے لئے راستہ تب ہی بنائے گا جب آپ اسے اپنی پہچان بنا سکیں گے اور یہ کام کرنے کا سب سے بہترین پلیٹ فارم بلاگ ہے۔

کیا آپ کو لگتا ہے کہ دوسرے لوگ اپنے تعلقات کی وجہ سے آپ سے آگے نکل جاتے ہیں؟بہت سے لوگ آپکی پرموشن کا بدلہ دوستیوں اور تعلقات سے لینا چاہتے ہیں؟،کیا غلط طریقے،اقربا پروری،سفارش آپکا رستہ روکتی ہے؟کیا لوگوں کے روئیے آپ کی بے باک طبیعت کو ناگوار خاطر دکھتے ہیں؟کیا آپ صرف اپنی کامیابی کی خاطر کالے کو گورا اور دن کو رات نہیں کہہ سکتے؟کیا مکھن لگانا،خوشامد کرنا آپ کے بس کی بات نہیں؟ تو ان سب باتوں اور ان رستوں کو گولی مار کر آج ہی اپنا بلاگ بنا لیں۔ہر طرح کی ذاتی،سماجی،معاشی ہراسمنٹ سے اپنی جان چھڑائیں اور اپنی مرضی اور سہولت سے اپنی محنت سے اپنا نام اور مقام پیدا کریں۔وہ جب اقبال پچھلے صدی میں کہتے تھے کہ،”نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر!” تو آج بھی انکی بات اس بلاگ کی دنیا میں بھی اتنی ہی کار آمد ہے کہ جتنی ایک صدی پہلے تھی۔

آج سے بیس سال پہلے صحافیوں کو اندازہ نہیں تھا کہ ایک دن پاکستان میں اتنے نیوز چینلز ہونگے اور وہ اتنا کمائیں گے جتنا انہوں نے کبھی سوچا نہ تھا۔ڈائجسٹ رائیٹرز کو اندازہ نہیں تھا کہ ایک رات یہی لکھے گئے ناول ایک دن ان کے لئے کمائ اور شہرت کا ایک بڑا سبب بن جائیں گے۔اسی طرح آج کی تاریخ میں یہ اندازہ کرنا مشکل ہوتا ہے کہ آئندہ وقت کونسی پلٹی کھائے اور کب ایک ناکام دکھتا کام ٹاپ ٹرینڈ بن جائے۔انسان کا کام ہمیشہ اتنا مکمل ہو کہ جس دن اسکے ہنر کی قیمت لگانے کا وقت آئے اس کے ہاتھ میں قابلیت کا ڈھیر ہو۔اور یہ سارے مواقع آپ کو بلاگ فراہم کرتا ہے،روزانہ یا ہفتہ وار لکھنے اور کام کرنے کی عادت ، طاقت،کام اور تحریر میں پختگی اور شناخت اور پہچان۔اس کے علاؤہ اس بات کا ادراک بہت اہم ہے کہ آنے والا وقت ڈیجیٹل ہے اور ایک دن جب سارا اردو میڈیا ڈیجیٹل پر پڑھا اور لکھا جانے پر مجبور ہو گا تو آپ کے پاس اتنا کیا گیا کام ہو کہ آپ اس وقت چنے گئے لوگوں میں سے سر فہرست ہوں۔یہ بلاگ ہی ہے جو آپ کو آج کی تاریخ میں کل کے ملنے والے چیلنج کے لئے تیار کرتا ہے۔

(جاری ہے)

___________

تحریر و کور ڈیزائن: صوفیہ کاشف

Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

You are commenting using your WordPress.com account. Log Out /  Change )

Twitter picture

You are commenting using your Twitter account. Log Out /  Change )

Facebook photo

You are commenting using your Facebook account. Log Out /  Change )

Connecting to %s

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.