مصیبتیں سر برہنہ ہوں گی، عقیدتیں بے لباس ہوں گی
تھکے ہوؤں کو کہاں پتہ تھا کہ صبحیں یوں بدحواس ہوں گی
تُو دیکھ لینا ہمارے بچوں کے بال جلدی سفید ہوں گے
ہماری چھوڑی ہوئی اداسی سے سات نسلیں اداس ہوں گی
کہیں ملیں تم کو بھوری رنگت کی گہری آنکھیں، مجھے بتانا
میں جانتا ہوں کہ ایسی آنکھیں بہت اذیت شناس ہوں گی
میں سردیوں کی ٹھٹھرتی شاموں کے سرد لمحوں میں سوچتا ہوں
وہ سرخ ہاتھوں کی گرم پوریں نجانے اب کس کو راس ہوں گی
یہ کس کی بیٹی کے سر کی چادر کئی جگہ سے پھٹی ہوئی ہے؟
تم اس کے گاؤں میں جا کے دیکھو تو آدھی فصلیں کپاس ہوں گی
_________________