پاداش(11)___________شازیہ خان

پاداش
قسط نمبر 11
شازیہ خان
سیما کو بیٹھے بیٹھے غنودگی سی طاری ہو گئی تھی کہ اچانک دروازہ کُھلنے کی آواز آئی تو وہ بالکل سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔ گھونگھٹ بھی کر لیا۔ یہ وہ وقت تھا، جس کے لیے اُس نے بچپن سے خواب دیکھے تھے۔ اُن خوابوں پر اکثر شرمائی بھی، کبھی کبھی مایوسی کی لہر چُھو جاتی تو وہ اُسے ایک دیوانے کا خواب سمجھ کر بُھولنے کی کوشش کرتی، مگر کچھ خواب ہمارے اعصاب سے زیادہ قوی ہوتے ہیں۔ ہم ناچاہیں پھر بھی کُھلی آنکھوں کو دھوکا دے کر پلکوں تلے چلے آتے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے اُن پر ہمارا کوئی بس نہیں۔ عمر بھی اُس کی زندگی کا ایک ایسا ہی من چاہا خواب تھا، جس کی تعبیر آج پوری ہو رہی تھی۔ ہم کتنے خود غرض ہیں، ہر بات دیکھ بھال کر کر نے والے۔ چھوٹی چھوٹی چیزوں میں ہزار عیب نکال کر مسترد کر دیتے ہیں، لیکن جس چیز کی طلب دِل کر دے اُس میں ہزار عیب بھی خوبیاں بن جاتے ہیں۔ عمر کی ہر غلط بات کو دِل نے مسترد کر دیا۔ بس اُسے پانے کی تمنا حاوی تھی۔ آج سیما نے اُسے پا لیا تھا۔ اُسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اگلے پَل وہ کیسے ری ایکٹ کرے گی۔ اُسی لمحے عمر نے بستر کے پاس بیٹھ کر سیما کا گھونگھٹ اُلٹ دیا اور بولا:
’’مجھے بالکل اندازہ نہ تھا کہ تم بھی مڈل کلاس عورتوں کی طرح یہ سب کرو گی۔ مجھے لگا تھا کہ تم کپڑے بدل کر سو رہی ہو گی۔ رات کا ایک بج چکا ہے۔ اُصولی طور پر تو تمہیں اِس وقت سو جانا چاہیے تھا۔‘‘ اُس کی لڑکھڑاتی زبان سے سیما کو اندازہ ہو گیا کہ وہ مکمل طور پر نشے میں ہے۔ پھر وہ دوسری بات کیے بغیر اُس کے پاس ہی ڈھیر ہو گیا۔
’’میں تمہارا اِنتظار کر رہی تھی۔‘‘ اُس نے ایک ٹھنڈی سانس بھر کرکہا۔
’’میرا… مگر کیوں…؟‘‘ وہ کروٹ لے کر اُس کی طرف جھکا۔
’’ایک بیوی اپنے شوہر کا اِنتظار کیوں کرتی ہے…؟‘‘ سیما نے بھی بہت تحمل سے اُس کی بات کا جواب دیا تو عمر پر ہنسی کا دورہ پڑ گیا اور وہ بڑی مشکل سے اُٹھ کر بیٹھ گیا۔
’’یار! بڑی عجیب سی بات ہے۔ دو بول کیسے دو لوگوں کو ایک دوسرے کے جسم، کمرے اور زندگی کا مالک بنا دیتے ہیں۔ ایک شخص کیسے اپنی پوری زندگی دوسرے کے ہاتھ میں دے کر اُس کی مرضی سے پوری عمر گزار سکتا ہے۔ سوری! اگر اِس کا نام شادی ہے تو یہ شادی میں نے اپنے باپ کے دباؤ پر کی ہے، لیکن تم مجھ پر دباؤ ڈالنے کی کوئی کوشش نہ کرنا۔ میں اب بھی آزاد رہنا چاہتا ہوں۔ اپنی مرضی سے زندگی گزارنا چاہتا ہوں۔ اگر تم نے روکنے یا ٹوکنے کی کوشش کی تو اپنا اور میرا راستہ الگ سمجھنا۔‘‘ ایسی باتیں وہ صرف نشے میں ہی کر سکتا تھا۔ اِسی لیے دوستوں نے اُس کی ہمت بندھانے کے ساتھ ساتھ شراب بھی خوب پلا دی تھی۔ سیما بہت مضبوط اعصاب کی مالک تھی۔ اُس نے بِنا کسی بحث کے بہت آرام سے عمر کی بات سُنی۔ اُس کے لیے شاید یہی بہت تھا کہ وہ عمر کی زندگی میں شامل تھی۔ وہ سمجھ گئی تھی کہ عمر نے اُس سے شادی کیوں کی…؟ آفندی صاحب کے دبائو پر وہ ر اضی تو ہو گیا تھا، مگر اُسے اپنی آزادی بہت پیاری تھی، جس وہ کسی قیمت پر سیما کے حوالے نہیں کر سکتا تھا۔ اپنے سب سے پسندیدہ شخص کی زندگی میں اُس کے آس پاس رہنا ہی ایک پُرسکون اور سکون آمیز تجربہ تھا۔ باقی رہا عمر کی اُن عادتوں اور رنگ برنگی عورتوں سے دوستیاں تو اُسے یقین تھا کہ وہ آہستہ آہستہ اپنی محبت سے اُس کی زندگی سے ساری بُرائیاں باہر نکال پھینکے گی۔
’’عمر! مجھے تمہاری آزادیاں سلب کرنے کا کوئی شوق نہیں۔ تم جیسے ہو ویسے ہی رہو۔ مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میرے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ تم میری زندگی میں شامل ہو۔ میرے شوہر کی حیثیت سے تمہارا ہونا ہی میری زندگی کی سب سے بڑی خوشی ہے۔ میں کبھی تمہاری زندگی میں روک ٹوک نہیں کروں گی۔ یہ میرا تم سے وعدہ ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اُس نے عمر کی طرف ہاتھ بڑھا دیا، لیکن وہاں تو مدہوش سا عمر گہری نیند میں تھا۔ اپنی بات کہہ کر وہ دوسرے کی بات سُننے تک بھی نہ رُکا اور گہری نیند میں چلا گیا۔ سیما نے ٹھنڈی سانس بھری اور اُٹھ کر اُس کی دونوں ٹانگوں کو پکڑ کر بستر پر بڑی مشکل سے لٹایا۔کتنا معصوم لگ رہا تھا وہ ایسے سویا ہوا۔اُسے عمر پر پیار آگیا اور پھر کسی کمزور لمحے سے نظر بچا کر وہ واش روم کی طرف بڑھ گئی۔
٭……٭……٭……٭
آج ثنا کلاس سے نکلنے میں لیٹ ہو گئی۔ جلدی جلدی ڈیپارٹمنٹ سے نکلی اور بس اسٹاپ پر پہنچی تو بارش شروع ہو گئی۔ اُس وقت کسی بس کا دُور دُور تک کوئی پتا نہ تھا۔ نہ ہی کوئی رکشہ نظر آرہا تھا، جو اُسے طوفانی بارش میں صحیح سلامت گھر تک پہنچا دیتا۔ اُس نے بارش سے بچنے کے لیے اِدھر اُدھر نظر دوڑائی تو پاس ہی ایک گھنا درخت تھا۔ شاید اُس کی چھاؤں میں وہ بھیگنے سے بچ جاتی۔ ابھی اُس نے تیزی سے درخت کی طرف قدم بڑھائے ہی تھے کہ ایک کار اُس کے بہت پاس آ کر رُکی، اندر بیٹھے شخص نے فرنٹ ڈور کھول دیا۔ وہ گھبرا کر پیچھے ہٹی۔ رضوان نے ثنا کو قدرے جُھک کر آواز دی:
’’بارش تیز ہو جائے گی مس ثنا! آجائیں… میں گھر تک چھوڑ دوں…‘‘
ثنا نے آنکھوں پر ہاتھ کا چھجا بنا کر اُنہیں جُھک کر بہ غور دیکھا اور قدرے پیچھے ہٹ گئی۔
’’تھینک یو! بس آنے والی ہی ہے… میں چلی جاؤں گی…‘‘ حالاں کہ وہ جانتی تھی کہ آج اُس نے کلاس سے لیٹ نکلنے کی وجہ سے اپنی بس مِس کر دی۔ اگلی بس آنے میں دس منٹ مزید لگنے تھے، لیکن وہ اِس طرح اُن کی آفر قبول نہیں کر سکتی تھی۔
’’دیکھیں مِس ثنا! جلدی سے آ جائیں۔ میں واقعی آپ کو گھر چھوڑ دوں گا۔ بارش بہت تیز ہو رہی ہے۔ آپ چاہیں تو پہلے اپنے بھائی کو فون کرکے بتا دیں کہ آپ میرے ساتھ آ رہی ہیں۔‘‘ رضوان نے اُس کی بے اِعتباری دیکھتے ہوئے کبیر علی کا حوالہ دیا۔ ثنا کو تھوڑی ہمت ہوئی اور وہ موسم کی صورتِ حال دیکھ کر بادل نہ خواستہ اُن کی کار میں بیٹھ گئی، لیکن بیٹھنے سے پہلے کبیر علی کو Text کرنا نہ بھولی۔ رضوان کی تیز نظروں سے اُس کی یہ حرکت چُھپی نہ رہ سکی۔ وہ زیرِلب مُسکرا دیئے۔ واقعی لڑکیوں کی بے اِعتباری کبھی کبھی اُن کے لیے رحمت بن جاتی ہے۔ ہر مرد اِعتبار کرنے کے لائق بھی نہیں ہوتا۔ بے اِعتباری کا شدید اِحساس اُن کے لیے ایک نعمت ہی ہے۔ ثنا کے کار میں بیٹھتے ہی انہوں نے کار چلا دی۔ ثنا نے بڑی سی چادر سے خود کو لپیٹا ہو اتھا۔ چادر قدرے موٹی تھی، جس نے بارش کے قطروں کو جذب کر لیا تھا۔ پھر بھی اُس نے ہاتھ سے آہستہ آہستہ اُنہیں جھاڑا اور سامنے ونڈ سکرین کے شیشے کے پار تیز بوچھاڑ کو دیکھنے لگی۔ اگر اُس وقت وہ اُن کی آفر قبول نہ کرتی تو بُری طرح پھنس جاتی۔
’’مِس ثنا! کیا آپ مجھے ایک غلط شخص سمجھتی ہیں…‘‘ رضوان نے سامنے سکرین کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’نہیں… ایسی تو کوئی بات نہیں…‘‘
’’تو پھر آپ نے مجھے فون کیوں نہیں کیا…؟‘‘ انہوں نے شکایتی انداز میں کہا۔
’’ دیکھئے رضوان صاحب! میں اِس قسم کی لڑکی نہیں ہوں، جو ہر شخص کے لیے راہِ عام ہوتی ہے۔ مجھے اپنے گھر والوں کی عزت عزیز ہے اورپھر میں ابھی پڑھنا چاہتی ہوں۔ آگے بڑھنا چاہتی ہوں۔ اِس قسم کی عیاشیوں کے لیے میرے پاس بالکل وقت نہیں۔‘‘ ثنا نے موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اُسے کُھل کر رَد کر دیا۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ اُسے کس طرح بھی کوئی راہ دِکھلائے۔ کیا آپ مجھے ایک آوارہ اور بُرا شخص سمجھتی ہیں، جو لڑکیوں سے فلرٹ کرنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑتے۔ مجھے آپ کی اِس بات سے بہت دُکھ ہوا۔ میں تو صرف آپ سے اتنا پوچھنا چاہتا تھا کہ آپ کی زندگی میں کوئی اور تو نہیں۔ اِسی لئے فون نمبر دیا تھا کہ پہلے آپ کا عندیہ لے لوں۔ اگر آپ کی زندگی میں کوئی اور ہے تو میں پیچھے ہٹ جاتا ہوں۔‘‘ اُن کی بات سُن کر ایک لمحے کو ثنا کا سانس ہی اَٹک گیا۔ اِس پہلو پر تو اُس نے واقعی نہیں سوچا تھا۔ اب شرم کے مارے وہ جیسے سر جُھکا کر بالکل شیشے سے ہی چپک گئی، لیکن جواب تو دینا تھا۔
’’لیکن میں ہی کیوں…؟ آپ اتنے امیر کبیر اور خوب صورت ہیں۔ آپ کو تو مجھ سے بہتر لڑکی مل سکتی ہے۔ اتنی لڑکیاں تو بھائی کے ولیمے میں ہی آپ کی ایک نظر کی متمنیٰ تھیں، بلکہ ایک نے تو مجھ سے آپ کا نمبر لینے کی کوشش بھی کی تھی۔‘‘ یہ بات اُس نے سر جُھکا کر اپنے انگوٹھے کو دیکھتے ہوئے کہی۔
’’بالکل مل سکتی ہے، لیکن میں اُس وقت حیران ہوا جب بہت ساری لڑکیوں میں سے ایک لڑکی نے مجھے بالکل نظر انداز کر دیا۔ آپ کو اندازہ نہیں کہ میری حیثیت اور دوسری قابلیت کو دیکھتے ہوئے لڑکیاں میرے اِردگرد رہنے کی کوشش کرتی ہیں۔ جانتا ہوں ولیمے میں کئی لڑکیوں کے کُھلے پیغام اُن کی آنکھوں سے مجھ تک پہنچے، لیکن ایک لڑکی کو میری بالکل پرواہ نہ تھی۔ یہ بات میرے لیے بڑی عجیب تھی۔ اتنے سال باہر پڑھنے کے باوجود کبھی ایسا نہ ہوا کہ کسی نے نظر انداز کیا ہو، لیکن واقعی وہ آپ کی بناوٹ نہیں تھی۔ معصومیت تھی کہ آپ کے پاس کھڑا شخص آپ کو مسلسل دیکھ رہا تھا، لیکن آپ کو بالکل پرواہ نہیں۔ دِل نے کہا یہی وہ لڑکی ہے، جس کی مجھے تلاش تھی۔ آپ کی معصومیت نے مجھے مجبور کیا کہ آپ سے بات کر کے اپنا رشتہ بھیجا جائے۔ مجھے اپنی زندگی کی ساتھی کے لیے بالکل ایسی ہی معصوم سی لڑکی چاہیے تھی، جس میں کوئی بناوٹ نہ ہو تو اب بتائیے کہ آپ کو اِنکار تو نہیں… میں آپ سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ اگر اِنکار کر دیں گی تو دوبارہ بات بھی نہیں کروں گا۔‘‘ انہوں نے اُس کے دِل میں موجود خدشات کو ختم کرنے کے لیے کافی تفصیلاً جواب دیا۔
ثنا کو اندازہ بھی نہ تھا کہ وہ کُھلم کُؑھلا اُس سے شادی کی بات کریں گے اور واقعی اِس پر اُس وقت جیسے آسمان گر پڑا، لیکن مجبور تھی کس طرح کُھلے عام کہہ سکتی تھی کہ نہیں… میری زندگی میں کوئی اور نہیں اور میں بھی آپ کی زندگی میں شامل ہونا چاہتی ہوں… اِسی دوران گھر آگیا۔ کار کے رُکتے ہی اُس نے دروازہ کھولنے کی کوشش کی۔ آٹومیٹک لاک کی وجہ سے ثنا سے دروازہ نہ کُھلا۔ اُس نے رضوان کو پلٹ کر دیکھا۔
’’پلیز! آپ میری بات کا جواب دے دیں، دروازہ کُھل جائے گا…‘‘
وہ عجب سے مخمصے میں پھنس گئی۔ اگر گلی میں کسی نے اُسے اِس طرح رضوان کی کار میں دیکھ لیا تو ہزار باتیں بن جائیں گی۔
’’دیکھیں! پلیز یہ ساری باتیں آپ بھائی اور اماں سے کریں۔ وہ میرے لیے جو فیصلہ کریں گے، مجھے قبول ہوگا۔‘‘
’’یعنی آپ کو میرے ساتھ پر کوئی اِعتراض تو نہیں…‘‘
ثنا نے سر جُھکا کر نفی میں سر ہلا دیا۔ رضوان نے مُسکراتے ہوئے آٹو لاک کُھول دیا۔
’’بس اتنی سی بات تھی اور آپ نے میرے اِتنے دِن برباد کر دیئے۔ جائیے! بہت جلد میں اور بابا آپ کا ہاتھ مانگنے آ رہے ہیں۔‘‘ یہ بات انہوں نے ایک ہلکا سا قہقہہ لگاتے ہوئے کہی تو وہ تیزی سے دروازہ کُھول کر اندر کی طرف بھاگی جیسے پیچھے کوئی بھوت لگ گیا ہو۔ رضوان نے ایک بھر پور قہقہہ لگاتے ہوئے ریس پر پاؤں رکھ کر کار آگے بڑھا دی۔
٭……٭……٭……٭
رضوان نے اپنا وعدہ پورا کر دِکھایا۔ اِتوار کے دِن کبیر علی کو اِنفارم کرکے بابا کے ساتھ اُن کے گھر پہنچ گیا۔ اُن کے آنے کا مقصد کبیر علی کو بھی نہیں معلوم تھا، لیکن انہوں نے ثنا اور اماں کو رضوان کے آنے کا بتا دیا تھا۔ سامعہ ایک دِن پہلے ہی اپنی اماں کے گھر گئی تھی۔ کبیر علی نے فون پر سامعہ کو رضوان کی آمد کا بتایا پھر اُس سے آنے کے بارے میں پوچھا۔ اُس نے صاف اِنکار کر دیا۔ وہ اماں کے ساتھ شاپنگ پر جانا چاہتی تھی ، چوںکہ اُس کا پروگرام پہلے ہی بنا ہوا تھا۔ اِس لیے کبیر علی نے اِصرار کرنا مناسب نہ سمجھا اور فون رکھ دیا ۔ اُنہیں اِحساس تھا کہ اُسے اماں اور ثنا کی کسی بات سے کوئی دِلچسپی نہ تھی۔ پھر وہ کیوں مجبور کرتے۔
٭……٭……٭……٭
رحیم بابا نے اِدھر اُدھر کی دو چار باتوں کے بعد کبیر علی اور اماںکے آگے اپنا مدعا رکھ دیا۔ اماں کے ساتھ ساتھ کبیر علی بھی حیران تھے۔ اُن کے تو وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ثنا کی قسمت اتنی اچھی ہو سکتی ہے۔ رضوان کے لئے لڑکیوں کی کیا کمی تھی۔ ایک امیر کبیر گھرانے سے تعلق… پڑھا لکھا ہونہار لڑکا… اماں کو محسوس ہوا کہ ثنا نے اُن سے اپنے حِصّے کی ساری دُعائیں سمیٹ لیں۔ اُن کی یہ صابر بیٹی کتنے عرصے سے اِس گھر اور اُن کا پورا بوجھ سنبھالے ہوئے تھی۔ اپنی ہر نماز میں کبیر علی کو تو وہ یاد رکھتی ہی تھیں، لیکن ثنا کے لیے ساری دُعائیں خصوصی ہوتیں۔ وہ اولاد کتنی خوش قسمت ہوتی ہے، جو اپنی ماں کی خصوصی دُعاؤں میں حِصّہ دار بن جائے۔ اُس کی دین و دُنیا دونوں سنور جاتی ہے، لیکن یہ خصوصی دُعائیں سمیٹنے کی توفیق ساری اولادوں کے حِصّے میں نہیں آتی۔ یہاں بھی ماں اللہ کی طرح حساب برابر رکھتی ہے۔ جیسے جو بندہ اپنے ربّ کی عبادت دوسرے بندوں سے زیادہ کرتا ہے۔ زیادہ آزمائشیں بآسانی صبر کے ساتھ جھیل جاتا ہے۔ اللہ کی قربت او رمحبت بھی اُسی کا حِصّہ بنتی ہے۔ یہاں بھی جو بچہ ماں کی محبت کے جواب میں اپنی دُگنی محبت لوٹاتا ہے۔ ہمیشہ وہی ہتھیلیوں کے پھیلتے ہی دھیان میں آتا ہے۔ واقعی ثنا کی وجہ سے وہ بہت پریشان تھیں۔ سوچتی تھیں کہ جو رنگ و روپ سامعہ دِکھا رہی ہے۔ اِس کے بعد ثنا کے لیے اِس سے کسی بھلائی کی توقع بالکل فضول ہے۔ بس اُسے جلد اَز جلد کسی اچھے گھرانے میں بیاہ دینا اُن کی پہلی اور آخری خواہش تھی، لیکن ثنا کے لیے قدرت نے اتنا اچھا اِنتظام کیا ہوگا۔ یہ انہوں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ چائے ناشتہ کروا کر اور کچھ دِن سوچنے کی مہلت کے بعد انہوں نے مہمانوں کو اچھے ماحول میں رُخصت کیا۔
اُن کے جانے کے بعد دونوں بہت خوش تھے اور اللہ کا شکر ادا کرتے رہے کہ اُس نے ثنا کی قسمت میں اتنا اچھا لڑکالکھا۔
’’لیکن اماں! آپ ایک بار ثنا سے ضرور پوچھ لیں کہ اُس کی رضا کیا ہے…؟ میں اُس کی خوشی کو بہت اہمیت دیتا ہوں۔ اُس نے رضوان کو دیکھا ہوا ہے۔ اگر منظور ہے تو پھر جلد ہی بات پکی کر دی جائے۔‘‘ وہ واقعی بہت خوش تھے۔ رضوان ایک شریف خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ وہ اِس سے اچھی طرح واقف تھے، لیکن بات بہن کی رضا کی بھی تھی۔ سلمیٰ بیگم نے اُنہیں تسلّی دی۔
’’میں آج شام ہی اُس سے پوچھ کر تمہیں بتاتی ہوں… فکر مت کرو… مجھے یقین ہے ہماری بچی کا بھی وہی فیصلہ ہوگا، جو ہمارا فیصلہ ہے۔‘‘
٭……٭……٭……٭
اماں کی بوڑھی ہڈیوں میں اب اتنا دَم نہیں تھا کہ وہ دُکان دُکان سامعہ کے ساتھ گُھوم سکیں، لیکن مجبور تھیں۔ جب سے کبیر علی نے سامعہ کا اکاونٹ کھلوا کر کریڈٹ کارڈ بنوایا تھا۔ وہ اِستعمال کرنے کے لیے بے چین تھی۔ پہلے سوچ لیا تھا کہ ڈھیر ساری شاپنگ کرنا ہے۔ ایسا شاید کبیر علی کے ساتھ شاپنگ میں ممکن نہ ہوتا۔ اِسی لیے اُس نے اماں کے ساتھ پروگرام بنا لیا۔ اب بے چاری اماں کو دُکان دُکان اُس کے ساتھ خوار ہونا پڑا۔ اُس کے کریڈٹ کارڈ کی لیمٹ پچاس ہزار تھی۔ اُس نے دِل بھر کر چیزیں خریدیں۔ اماں بولیں تو اُنہیں کبیر علی کا نام لے کر خاموش کرواد یا کہ کبیرعلی نے اجازت دی ہے کہ دِل بھر کر شاپنگ کر لو، کوئی اَرمان نہ رہ جائے۔ اُس کی حالت اُس وقت ایک ایسے بھوکے کی سی تھی جسے سالوں کے بعد اپنے من پسند کھانوں کے سامنے کھڑا کرکے دِل کھول کر کھانے کی اجازت دی جائے۔ پھر بھی اُس کا دِل اور پیٹ کسی طور نہ بھرے۔ ہر دوسری دُکان پر وہ ایک ایک چیز نکلوا کر دیکھ رہی تھی۔ اُس نے ابا اور اماں کے لیے بھی شاپنگ کی، حالاںکہ اماں نے اُسے کافی منع کیا، لیکن وہ بہ ضد رہی کہ میری خواہش کی خاطر ایک بار لے لیں۔ وہ مجبور ہو گئیں، لیکن اِس شرط پر کہ ایسا ہی جوڑا آپا کے لیے اور ایک ثنا کے لیے بھی لو تو بادلِ نہ خواستہ اُسے اماں کی خاطر خالہ اور ثنا کے لیے بھی سوٹ لینے پڑے۔ اُسے ویسے ہی اُس رقم کی بڑی تکلیف تھی، جو ہر مہینے کی پہلی تاریخ کو کبیر علی سلمیٰ بیگم کو دیتے۔ اُسے لگتا اتنی بڑی رقم ماں کو دینے کا کیا فائدہ…؟ اُن کے کون سے اخراجات ہیں، مگر شادی شدہ زندگی کی شروعات تھیں۔ ابھی اِن معاملات میں کچھ بولنا اُس کے لیے صحیح نہ تھا۔ اِسی لیے سب دیکھتے ہوئے خاموش ہو جاتی اور سوچتی کہ اِن ماں بیٹی کا پتا تو آہستہ آہستہ ہی کاٹے گی۔ اُسے نہیں معلوم کہ اتنا زہر اُس کے اندر کیسے بھر گیا۔ شاید بچپن سے ثنا کو اپنے سے بہتر دیکھ دیکھ کر دِل میں کہیں نہ کہیں یہ نفرت پل رہی تھی، جو اب بڑھ کر ایک بڑا ناسور بن چکی تھی۔ اُسے ثنا کے پاس نت نئی جیولری، سینڈلز اورکپڑے دیکھ کر جلن ہوتی۔ اُس کی کوشش ہوتی کہ ثنا کا ہر نیا جوڑا پہلے وہ پہن لے۔ ثنا دِل کی اتنی اچھی تھی کہ ماں اور بھائی سے زبر دستی کرکے بالکل ویسا ہی جوڑا اُس کے لیے ضرور لیتی۔ اگر کبھی نہ لے پاتی تو اپنا جوڑا پہلے اُسے پہننے کی اجازت دے دیتی۔ اُس میں سے کئی تو واپس بھی نہیں ملتے۔ سامعہ اُنہیں اپنا حق سمجھ کر رکھ لیتی۔ اب جب کہ وہ سارے اِحسانات یک مشت لوٹانے کا وقت تھا تو اُس نے تو خود غرضی کی حد ہی کر دی۔ جو کچھ کبیر علی اُسے دے رہے تھے۔ اُس پر بھی سامعہ کی نظر تھی کہ وہ دینا بند کر دیں، مگر اِس کے لیے تھوڑا اِنتظار ضروری تھا۔ دوسرے دِن وہ شاپنگ سے لدی پھندی سُسرال پہنچی اور سیدھے اپنے کمرے میں جا کر سارے پیکٹس رکھ دئیے۔ وہ بہت خوش تھی۔ اُس نے اِس خوشی میں ایک لمحے کو بھی یہ نہ سوچا کہ خالہ اور ثنا سے بھی مل لیا جائے۔ سیدھی جا کر اپنے کمرے میں گُھس گئی۔ شکیلہ (ماسی) سارا کام کر کے جا چکی تھی۔ اُس کے آنے سے پہلے کھانا تیار کرنے کے لیے اُس نے شکیلہ کو فون پر سب بتا دیا۔ کبیر علی نے آفس کے ڈرائیور کو بھیج کر اُسے گھر بلوا لیا تھا۔ ثنا ابھی یونی ورسٹی میں تھی۔ کھانا کھا کروہ نیچے آئی، تاکہ خالہ اور ثنا کو اُن کے کپڑے دے۔ اتنی دیر میں ثنا بھی آگئی۔
’’کیسی ہو سامعہ…؟ خالو اور خالہ کیسے ہیں…؟‘‘
’’سب ٹھیک ہیں خالہ! اماں آپ کو سلام کہہ رہی تھیں۔ یہ کپڑے میں آپ دونوں کے لیے لائی ہوں۔‘‘ اُس نے ایک برانڈ کے دو بیگز اُن کی طرف بڑھائے۔ خالہ نے مُسکراتے ہوئے پیکٹس اُس کے ہاتھ سے تھام لیے۔ وہ پہلی بار خالہ کے لیے کچھ لائی تھی۔
’’اِس کی کیا ضرورت تھی…؟ ویسے بھی میرے پاس ابھی پچھلے سال کے ہی کئی اَن سِلے جوڑے پڑے ہیں۔‘‘ انہوں نے وضاحت دی۔
’’میں بھی اماں سے کہہ رہی تھی کہ آپ دونوں کے پاس ویسے ہی اتنے سارے جوڑے ہیں۔ نہیں مانیں کہا جب تک آپاکے لیے نہیں لوں گی میں بھی نہیں لوںگی۔‘‘ بے خیالی میں اُس کے دِل کی بات زبان پر آگئی تو اُس کو یک دَم اپنی غلطی کا اِحساس ہوا اور دونوں ماں بیٹی نے چونک کر ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ ویسے ہی اُنہیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ آج اُن کی بہو کیسے اُن پر مہربان ہو گئی۔ اِس کے پیچھے بھی اُن کی بہن کی محبت کا ہاتھ تھا۔ کیا تھا اگر وہ اتنی گری ہوئی بات نہ کرتی اور کہہ دیتی کہ وہ اپنی خوشی سے لائی ہے۔ کم ظرف سے اچھے کی توقع رکھنا فضول ہے۔ وہ اپنی کم ظرفی کو کسی پردے میں نہیں چُھپا سکتا۔ عیاں ہو ہی جاتا ہے۔ ثنا اُس کی بات سُن کر کمرے سے نکل گئی۔
’’اچھا! یہاں آؤ، بیٹھو ذرا… مجھے تم سے ایک ضروری بات کرنا ہے۔‘‘ خالہ نے بستر پر اپنے پاس ہی اُس کی جگہ بنائی۔ وہ حیران اور پریشان سی اُن کے پا س بیٹھ گئی۔ دِل ہی دِل میں خود کو کوس رہی تھی کہ اِس وقت نیچے کیوں آئی۔ شام کو جب کبیر علی آجاتے تو آتی۔ اب ان کا تو خالہ کا نصیحتی پروگرام شروع ہو جائے گا۔ ’’یوں کرو… یوں نہ کرو…‘‘ وہ خاموش سی اُن کی طرف دیکھ رہی تھی۔
’’کل کبیر علی کے باس اور رحیم بابا ہمارے گھر آئے تھے… میں نے تو کہا تھا کہ تمہیں بھی بلا لوں، لیکن کبیر نے بتایا کہ تمہیں اور ناہید کو شاپنگ پر جانا ہے۔ اِس لیے آنا ممکن نہیں۔ خیر! وہ کل ہمارے گھر بہت خاص اِرادے سے آئے تھے۔‘‘ انہوں نے رُک کر اُس کے چہرے کی طرف دیکھا۔
’’مطلب…؟‘‘ اُس کے منہ سے سرسراتی ہوئی آواز میں نکلا۔
’’دراصل رضوان کے باپ تو نہیں ہیں اسی لیے رحیم بابا نے اُن کا باپ بن کر ہماری ثنا کا ہاتھ مانگا ہے…‘‘ اُن کے لہجے میں بہت خوشی تھی۔ یہ بات سُن کر سامعہ کے پورے وجود میں کڑواہٹ سی بھر گئی۔ اُس نے شادی میں شہزادوں جیسے رضوان کو دیکھا تھا۔ جس کے پاس حُسن کے ساتھ دولت کی کوئی کمی نہ تھی۔ اُس نے اتنی خوب صورت اور امیر لڑکیوں کو چھوڑ کر ثنا کا ہاتھ مانگا تھا۔ اُسے ایک دَم جھٹکا سا لگا تو ثنا تم یہاں بھی مجھے مات دے گئیں۔ وہ ایک لمحے ساس کو کوئی جواب دے سکی اور نہ ہی کسی قسم کی خوشی کا اِظہار کر سکی، لیکن جب ساس کے سوالیہ چہرے پر نظر پڑی تو خیال آیا کہ وہ اُس کے جواب کی منتظر ہیں۔
’’لیکن خالہ! وہ تو بہت امیر کبیر لوگ ہیں…‘‘ سامعہ کے منہ سے صرف اتنا ہی نکل سکا۔
’’یہی بات مجھے کھٹک رہی ہے کہ رشتہ صرف اپنے ہم پلّہ لوگوں میں کرنا چاہیے، لیکن کبیر علی اُس بچے اور اُس فیملی کو اچھی طرح جانتا ہے۔ وہ گواہی دیتا ہے کہ اُس نے اِتنے دِنوں میں رضوان کو کسی بُرائی میں مبتلا نہیں دیکھا۔ میں اور کبیر تو راضی ہیں۔ بس ثنا کی مرضی معلوم کرنا ہے۔ اِس کے لیے تم اُس سے پوچھو کہ اُسے کوئی اِعتراض تو نہیں، کیوں کہ لڑکا اور فیملی بہت اچھی ہے۔ کبیر علی کسی صورت اِس رشتے کو ٹھکرانا نہیں چاہتے۔ تم ذرا بات کرکے دیکھو۔ ویسے تو میں اپنی بیٹی کو اچھی طرح جانتی ہوں۔ وہ آج کل کی بچیوں کی طرح نہیں، لیکن جب سنت نے اجازت دی تو اُس اجازت کا پاس رکھنا بھی ضروری ہے۔‘‘ وہ نہ جانے کیا کیا کہہ رہی تھیں، لیکن سامعہ کے اندر جیسے آگ کا طوفان تھا۔
سامعہ ثنا سے کہیں زیادہ خوب صورت تھی، لیکن ثنا جیسی قسمت نہ تھی۔ خالہ کے دونوں بچے خوب صورت نہ تھے، لیکن پُرکشش تھے اور ثنا کو تو ویسے بھی اوڑھنا پہننا آتا تھا۔ اِسی لیے وہ لڑکیوں کے ہجوم میں اپنی معصومیت کی وجہ سے الگ ہی لگتی تھی، لیکن یہ معصومیت کسی کے دِل میں اتنی کُھب جائے گی اور اتنا اچھا رشتہ آجائے گا، ایسا تو سامعہ نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔
’’تم نے بھی تو رضوان کو دیکھا تھا شادی پر… تمہیں کیسا لگا…؟ کیا دونوں کا جوڑا اچھا رہے گا نا…؟‘‘
’’جی خالہ! مگر اِستخارہ کر لیتیں تو اچھا تھا…‘‘ اُس نے ایک بار پھر اُنہیں مشورہ دیا۔
’’اِستخارہ تو میں نے کبیر علی کی شادی پر بھی نہیں کیا تھا۔ اگر ہاں میں جواب نہ آتا تو مجھے اللہ کی ماننی پڑتی اور میرا بیٹا ناخوش رہے، ایسا میں زندگی بھر برداشت نہیں کر سکتی۔ جوڑے جب آسمانوں پر بنتے ہیں تو پھر ہم اپنی رائے کیوں ٹھونسیں۔ اگر رضوان ثنا کے نصیب میں نہ ہوتا تو اللہ اُس کے اور اُس کے بابا کے دِل میں اِس گھرانے سے قلبی تعلق نہ جوڑتا۔ اُن کے بابا کا خیال تھا کہ وہ گھر جو عرصے سے ایک عورت کے لیے ترس رہا ہے۔ اِس گھر کے لیے ثنا جیسی معصوم اور گھریلو لڑکی کی ضرورت ہے۔ بات تو اُن کی بھی معقول تھی کہ ہر امیر زادہ ماڈرن لڑکیوں کا طلب گار نہیں ہوتا۔ کچھ کو گھر چلانے والی لڑکیاں بھی چاہیے ہوتی ہیں۔ تم بس ثنا کی رائے لے کر کبیر کو بتا دو، تاکہ بات آگے بڑھائی جاسکے۔‘‘ اُنہیں شاید اِس کی اِستخارے والی بات اچھی نہیں لگی۔ ویسے تووہ ہر کام میں اِستخارہ کرتی تھیں، لیکن انہوں نے کبیر علی کے لیے اِستخارہ کیا اور نہ ہی اب ثنا کے لیے کرنا چاہتی تھیں، کیوں کہ اِستخارہ میں منع ہونے کی صورت میں اُنہیں اللہ کی ماننی پڑتی اور وہ خود بھی اتنے اچھے رشتے کو اِنکار نہیںکرنا چاہتی تھیں۔ بس دُعا گو تھیں کہ بہ ظاہر اچھے نظر آنے والے کو وہ اچھا بنا بھی سکتا تھا۔ ایسی قدرت بھی تو اُس کے ہاتھ میں تھی۔ وہ قادر مطلق ہے۔ وہی اُن کے بیٹی کے نصیب کو بھی اچھا کر دے گا۔
٭……٭……٭……٭
وہ مرے مرے قدموں سے ثنا کے کمرے میں آگئی۔ ثنا اُسے کمرے میں آتا دیکھ کر چونک گئی۔ اِلماری سے کپڑے نکالتے ہوئے وہ رُکی اور خوش ہو کر بولی:
’’اَرے واہ! تم نے بہت دِن کے بعد اِس کمرے کو رونق بخشی۔ ورنہ یاد ہے ہم اِس کمرے میں کتنا ٹائم گزارتے تھے…؟‘‘ اُسے اچانک دیکھ کر ثنا کے منہ سے شکوہ پھسل گیا۔ وہ خاموشی سے اُسے دیکھ رہی تھی۔ اُس کی نظروں میں کچھ عجیب سا تھا اور وہ عجیب سا کیا تھا…؟ وہ ثنا کی سمجھ نہیں آیا۔
’’تمہارے لیے کبیر کے باس کا رشتہ آیا ہے تمہیں معلوم ہے…؟‘‘
’’ہاں! مجھے اندازہ ہے کہ وہ کیوں آئے تھے۔‘‘ ثنا نے بھی اُسی طرح جواب دیا۔
’’صرف اندازہ یا پھر اِس میں تمہاری اپنی بھی مرضی شامل ہے…؟‘‘ سامعہ کے دِل کی بھڑاس اِس ایک جملے سے نکل سکتی تھی۔ایسا بھلا کب ممکن تھا۔
’’کیا مطلب…؟‘‘ اِس بار سامعہ کو اُس کی عجیب سی نظروں کا مطلب بہ خوبی سمجھ میں آیا۔ وہ ایک قسم کا حسد تھا، جو اِس بار اُسے پوری طرح محسوس ہوا۔
’’میری مرضی بھلا کیسے ہو سکتی ہے…؟‘‘
’’اِس کا مطلب ہے کہ تمہیں یہ رشتہ منظور نہیں۔‘‘ سامعہ نے فوراً پوچھا تو ثنا نے چونک کر اُسے دیکھا۔
’’ایسا میں نے کب کہا…؟‘‘
’’تم ہی تو کہہ رہی ہو کہ میری مرضی اِس رشتے میں کیسے ہو سکتی ہے…؟ اِس کا مطلب تو صاف ہے کہ تمہیں رشتہ منطور نہیں اور ویسے بھی امیر گھروں کے لڑکوں کا کیا اِعتبار، جگہ جگہ منہ مارتے ہیں۔ شادی کے لیے نیک اور شریف عورتیں گھروں میں رکھ چھوڑتے ہیں۔‘‘
’’سامعہ! مجھے بڑے تو کیا، کسی چھوٹے گھر کے لڑکے کا بھی کوئی تجربہ نہیں… تم تو مجھے سالوں سے جانتی ہو۔ مجھے لڑکوں میں کبھی کوئی دِلچسپی نہیں تھی۔ اگر میری ماں اور میرا بھائی اِس رشتے پر راضی ہیں تو مجھے کیا اِعتراض ہو سکتا ہے…؟‘‘ ثنا نے بہت سمجھ داری سے سنبھل کر جواب دیا۔ اُس نے شکر ادا کیا کہ سامعہ کو رضوان کے معاملے میں اپنا راز دار نہیں بنایا۔ ورنہ شاید یہ شادی کبھی نہ ہو سکتی۔ اُسے سامعہ کے روّیے پر بہت افسوس ہو رہا تھا۔ وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ وہ ہمیشہ سے ایسی تھی یا اب بھائی سے شادی کے بعد کُھل کر اُس کی جلن سامنے آرہی تھی۔ بجائے اِس اچھے رشتے پر خوش ہونے کے وہ بڑے گھر کے رشتوں کے نقصانات بتا رہی تھی۔
’’تو پھر میں خالہ جان سے کہہ دوں کہ تمہیں کوئی اِعتراض نہیں…؟‘‘
’’بالکل! بلکہ یہ بھی کہہ دینا کہ اگر میری ماں اور بھائی کالے چور کو میرا ہاتھ پکڑا دیں گے تو میں پلٹ کر اُن سے کچھ نہیں پوچھوں گی۔‘‘ اِس بار اُس نے بہت غور سے سامعہ کا چہرہ دیکھتے ہوئے چبا چبا کر کہا۔ مجھے اپنے بھائی اور ماں پر پورا اِعتماد ہے۔ وہ کبھی میرے لیے کوئی غلط فیصلہ نہیںکر سکتے۔‘‘
’’لیکن تمہاری اپنی زندگی کا معاملہ ہے۔ ایک بار سوچو۔‘‘ سامعہ نے اپنے طور آخری کوشش کی، ثنانے ہاتھ اُٹھا کر اُس کی بات کاٹ دی۔
’’میری زندگی میری ماں اور بھائی کی زندگی سے وابستہ ہے، جو بیٹیاں اپنی زندگیوں کو بھائی اور باپ کی امان میں دے دیں، اللہ اُنہیں ہمیشہ خوش رکھتا ہے۔ یہ میرا ایمان ہے۔ میری ماں کی دُعائیں میرے ساتھ ہیں، جو کچھ ہوگا، اچھا ہی ہوگا اور میرے نصیب کا ہوگا۔‘‘ اُس کے حتمی اَنداز کے بعد سامعہ کے پاس کہنے کو کچھ بچا ہی نہ تھا۔ جلے ہوئے دِل کے ساتھ وہ اپنے کمرے میں آگئی اور شیشے کے سامنے کھڑے ہو کر خود کو دیکھنے لگی۔
’’سامعہ بی بی! کیا کمی تھی تم میں کہ تمہیں کبیر علی جیسا شخص ملا اور ثنا میں ایسی کیا خاص بات تھی جو اُسے رضوان جیسے شخص کی ہم راہی مل رہی ہے۔ وہ بہت دیر تک اپنے خوب صورت خدوخال کو شیشے میں دیکھتی اور کڑھتی رہی۔ اُسے کسی صورت یہ رشتہ برداشت نہیں ہو رہا تھا۔ اُس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ رضوان کو خود فون کرکے اِنکار کر دے، لیکن مجبور تھی۔ کچھ کر نہیں سکتی تھی۔‘‘
٭……٭……٭……٭
رضوان اور بابا نے نکاح پر دِل بھر کر اَرمان نکالے، بہ ظاہر سادگی تھی، لیکن ڈائمنڈ کا سیٹ اور ایک بڑے برانڈ کا خوب صورت جوڑا جو ثنا کی پسند پر تیار کیا گیا تھا۔ رضوان نے ہی ایک بڑے پارلر سے ثنا کی میک اپ بکنگ بھی کروائی تھی۔ جب ثنا سٹیج پر آئی تو دیکھنے والوں کی آنکھیں کُھلی کی کُھلی رہ گئیں۔ وہ بے تحاشا حسین لگ رہی تھی۔ آج اُس پر خوب روپ چڑھا تھا۔ اُس کے پہلو میں بیٹھے رضوان پر بھی ایک الگ ہی بہار تھی۔ زندگی میں پہلی با رکسی پر دِل آیا اور اب وہ اُس کی زندگی میں آ رہی تھی۔ رضوان کا خیال تھا کہ نکاح کر دیا جائے اور دو مہینے کے بعد رُخصتی… پھر اِن دو مہینوں میں جو تیاری کرنا ہو کر لی جائے، بلکہ انہوں نے تو جہیز کے نام پر ہر چیز منع کر دی۔ اُنہیں کچھ نہیں چاہیے، لیکن ثنا کو تھوڑا بہت تو دینا تھا اور اِسی کی تیاری سلمیٰ بیگم اور کبیر علی کر رہے تھے۔ اُنہی کے منہ سے تھوڑا بہت سامعہ بھی کر رہی تھی۔ دِل جل رہا تھا، لیکن دُنیا دِکھاوے کو کام تو کرنا ہی تھا۔آخر دُنیا کی نظر میں دُلہن کی بھابھی تھی۔
٭……٭……٭……٭
رضوان نے نکاح کے بعد ثنا سے فون پر بات کی اور پھر روز رات اُن کی بات ہوتی۔ وہ جتنا اُن پر کُھلتی جا رہی تھی اُنہیں اپنے نصیب پر رَشک آرہا تھا۔ انہوں نے آج تک لڑکیوں کو لالچی ہی دیکھا تھا۔ وہ اُن کی ہر خواہش کو یہ کہہ کر ٹال دیتی کہ ابھی اتنا خرچہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ آپ یہ سب شادی کے بعد کیجئے گا اور وہ حیران رہ جاتے کہ یار لڑکیاں تو اپنے شوہروں سے فرمائشیں کرتی نہیں تھکتیں، تم ہر چیز سے اِنکار کر رہی ہو۔ ایک بار گھر آجاؤ پھر دیکھنا میں تمہاری ایک نہیں مانوں گا، جو مرضی ہوگی، لے کر دوں گا۔ تو وہ ہنس پڑتی۔
’’ٹھیک ہے اُس وقت میں آپ کی ہر بات مانوں گی، لیکن ابھی اتنا خرچہ مت کریں…‘‘
جب ثنا کی برّی آئی۔ دیکھنے والوں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ ایک ایک جوڑا شان دار اور ہر جوڑے کے ساتھ میچنگ کی جیولری اور جوتے۔ سامعہ سے تو یہ سب دیکھا ہی نہیں گیا۔ وہ اُٹھ کر اپنے کمرے میں آگئی۔ اففف میرے خدا! کسی کا نصیب تو اپنے ہاتھ سے لکھتا ہے۔ یہ سچ ہے۔ میری بار توکہاں تھا …؟ وہ اللہ سے شکوہ کر رہی تھی کہ کبیر علی اُسے ڈھونڈتے ہوئے کمرے میں آگئے۔
’’اَرے تم یہاں بیٹھی ہو… وہاں مہمان تمہارے بارے میں پوچھ رہے ہیں…‘‘
’’میرے سر میں درد ہو رہا تھا… آپ جائیں مہمانوں کو دیکھیں… میں بس آ رہی ہوں۔ گولی لینے آگئی تھی…‘‘ وہ اُس وقت کسی سے بات نہیں کرنا چاہتی تھی۔ بس خاموش رہنا چاہتی تھی۔ اِسی لیے اُس نے اُنہیں واپس بھیج دیا۔ بیٹھے بیٹھے اچانک اُسے اُبکائی آئی اور وہ واش روم کی طرف بھاگی۔ کچھ دِنوں سے اُس کا دِل کچا ہو رہا تھا۔ کچھ اچھا نہیں لگ رہا تھا اور اب اِس اُبکائیوں کے نہ رُکنے والے طوفان نے اُسے چوکنا کر دیا تھا کہ ضرور کوئی گڑ بڑ ہے۔ اُس وقت تو وہ خود کو سنبھال کر دوبارہ نیچے آگئی۔ جہاں ثنا کی مہندی کی رسمیں ہو رہی تھیں اور ثنا کے ساتھ بیٹھا ہوا رضوان اُسے سخت زہر لگ رہا تھا۔ بعض لوگوں کی سائیکی ہوتی ہے اگر اُنہیں من پسند کھلونا نہ ملے تو دوسرے کے کھلونے کو دیکھ کر خوش ہونے کے بجائے اُسے توڑنے کی پلاننگ کرنے لگتے ہیں۔ ایسے ہی خیالات اُس وقت سامعہ کے بھی تھے۔ اُنہیں کبیر علی بھی زہر لگ رہے تھے۔ واہ دونوں بہن بھائیوں نے کیا قسمت پائی ہے۔ جن اچھی چیزوں کی تمنا میں لوگ دُعائیں مانگ مانگ کر عمریں گزار دیتے ہیں، وہ اِن دونوں کو اللہ نے پلیٹ میں رکھ کر دے دیں۔ اُس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ کسی طرح دونوں کو کھینچ کر ایک دوسرے کے پاس سے اُٹھا دیں۔ اُس وقت اُسے اُن دونوں کے علاوہ ایک اور فکر بھی کھائے جا رہی تھی، جس کا ذکر وہ کسی سے خود کنفرم ہونے سے پہلے نہیں کرنا چاہتی تھی، حتیٰ کہ کبیر علی سے بھی نہیں… کیوں کہ وہ اتنی جلدی بچوں کے حق میں نہیں تھی۔ ابھی تو اُس نے اپنی زندگی اِنجوائے کرنا شروع کی تھی۔ ابھی سے وہ بچوں کا جھمیلا نہیں پالنا چاہتی تھی۔ اِسی لیے دوسرے ہی دِن وہ شکیلہ کے ساتھ گھر کے پاس ایک لیڈی ڈاکٹرسے ملنے پہنچ گئی، جس نے اُس کے خدشات کی تصدیق کر دی۔
’’لیکن ڈاکٹر اتنی جلدی… میں اتنی جلدی ماں نہیں بننا چاہتی…‘‘ اُس نے ڈاکٹر کی طرف دیکھا۔ عمر رسیدہ لیڈی ڈاکٹر نے کرسی پر سیدھا ہوتے اور اُس کی طرف چشمہ ٹھیک کرتے ہوئے حیرانی سے دیکھا اور بولی:
’’بی بی! چھے مہینے گزر گئے۔ تمہارے علاقے کی عورتیں تو ایک مہینہ اُوپر ہو جائے تو میرے پاس ساسوں کے ساتھ بھاگی بھاگی آتی ہیں، بلکہ خود ساس لے کر آتی ہے کہ دیکھ لیں کوئی خامی تو نہیں… اور تم چھے مہینے کے بعد بھی یہ کہہ رہی ہو کہ ابھی بچہ نہیں چاہتیں… تو پھر کیا چاہتی ہو…؟‘‘
’’میں چاہتی ہوں کہ آپ کوئی ایسی دوائی دے دیں جس سے یہ……‘‘ ابھی اُس کا یہ جملہ مکمل نہیں ہوا تھا کہ عمر رسیدہ لیڈی ڈاکٹر غُصّے سے کھڑی ہو گئی۔
’’تم مجھے ایک زندہ نفس کو مارنے کا کہہ رہی ہو… دیکھو بی بی! میں یہ کام نہیں کرتی… اور تمہیں بتا دوں… تم خود بھی بہت کمزور ہو، اگر تم نے کوئی ایسی ویسی کوشش کی تو بچے کے ساتھ تم بھی نہیں بچو گی… تم میں خون کی شدید کمی ہے… بس اب گھر جاؤ اور اچھا کھاؤ پیو، تاکہ تم اور تمہارا بچہ ایک اچھی زندگی جی سکے… ورنہ دونوں مر جاؤ گے… ڈاکٹر کو ایسی خواتین سے نمٹنے کا کافی تجربہ تھا۔ اِسی لیے اُس نے سامعہ کوکافی حد تک ڈرا دیا۔ موت کے خیال سے ہی اُس کی روح قبض ہو گئی۔ اُس نے واپسی کا راستہ کپکپاتی ٹانگوں سے کیا اور آکر بستر پر ڈھیر ہو گئی۔ کبیر علی کمرے میں موجود تھے۔ اُسے اِس طرح ڈھیر ہوتے دیکھ کر پریشان ہوگئے۔ پاس آکر حال پوچھنے لگے تو اُس نے بتایا کہ طبیعت خراب ہے۔ شکیلہ کے ساتھ ڈاکٹر کے پاس دوا لینے گئی تھی۔ آپ تو شادی کے کاموں میں مصروف تھے۔ میں نے سوچا کہ آپ کو پریشان نہ کروں۔
’’اَرے یہ کیا کہہ رہی ہو۔ گھر کے کام اپنی جگہ، تم بھی میری ذمہ داری ہو۔ بتاؤ پرچی کہاں ہے…؟ مجھے دو دوائی لا دوں…‘‘ وہ واقعی پریشان ہو گئے تھے۔
’’دوائی کی ضرورت نہیں… بس ڈاکٹر نے کہا ہے کہ اچھا کھاؤ اور آرام کرو…‘‘ ناچاہتے ہوئے بھی اُس کے لہجے میں ایک حیا سی اُتر آئی، جس پر کبیر علی نے چونک کر سامعہ کی طرف دیکھا۔
’’کیا مطلب…؟‘‘ وہ اپنی حیرانی کو کنفرمیشن میں بدلنے کے لیے اُس کی طرف دیکھنے لگے۔
’’مطلب کہ میں باپ بننے والا ہوں…‘‘
’’جی…!‘‘ اُس نے بھی سر جُھکا لیا تو کبیر علی نے خوشی سے نعرہ لگایا۔
’’یاہو…! سامعہ! تم نے مجھے میری زندگی کی سب سے بڑی خبر سُنائی ہے۔ میں بہت خوش ہوں۔ یااللہ! تیرا شکر ہے تو نے اِس گھر میں خوشیوں کی برسات کر دی ہے۔ میں ابھی اماں کو بتا کر آتا ہوں، بلکہ مٹھائی لے کر آتا ہوں۔ تم آرام کرو، بلکہ بتا دو کہ تمہارا کیا کھانے کا دِل ہے۔ میں شکیلہ سے کہہ کر بنواتا ہوں۔‘‘ وہ خوشی سے بے قابو ہو رہے تھے اور وہ سوچ رہی تھی کہ کسی بھی نئی شادی شدہ جوڑے کے لیے بچے کی پیدائش کتنی بڑی خوشی ہے، لیکن مجھے اتنی خوشی کیوں نہیں ہو رہی۔ اگر ڈاکٹر جان کے خطرے والی بات نہ کرتی تو شاید وہ کسی نہ کسی طرح اِس بچے سے جان چھڑا لیتی۔ اب مجبوری تھی۔ اُسے نو مہینے اُس کے آنے کا اِنتظار کرنا تھا اور ساتھ ہی اپنے خوب صورت فگر کو بھی خراب کرنا تھا۔ اتنے سارے برانڈڈ سلے سلائے کپڑے لے کر رکھے تھے۔ سب بے کارجائیں گے۔ اُسے آنے والے بچے کی خوشی سے زیادہ یہ غم ستا رہا تھا۔ مجبوری تھی کیا کر سکتی تھی۔ اماں اور ثنا بھی یہ خوش خبری سُن کر کمرے میں ہی آگئیں۔ ثنا نے تو ایک لڈو اُس کے منہ میں ٹھونس دیا۔ وہ بہت خوش تھی۔
’’سامعہ! تم نہیں سمجھ سکتی کہ بھائی اِس وقت میرے جانے سے جتنے اُداس تھے۔ اب ایک نئے مہمان کے آنے سے اُتنے ہی خوش ہیں۔ تم نے ہم سب کو بہت بڑی خوشی دی ہے۔ بس اب کھاؤ پیئو اور آرام کرو۔‘‘
خالہ نے بھی اُس کے سرپر پیار کیا اور ہزار کا نوٹ اُس پر سے وار کر شکیلہ کو دیا، جو اُس نے خوشی خوشی اپنے دوپٹے کے پلّو سے باندھ لیا۔ جہاں سلمیٰ بیگم کو بیٹی کی رُخصتی کا دُکھ تھا، وہیں اِس گھر میں آنے والے نئے مہمان کی بے اِنتہا خوشی بھی منائی جا رہی تھی۔ ثنا سامعہ کی ساری بے رُخی اور بے گانگی بُھول کر اُس سے بات کر رہی تھیں۔ اُس کی پسند کا سوپ اور کھانا بنوا کر دے رہی تھیں۔
٭……٭……٭……٭
آج ثنا کی رُخصتی تھی۔ وہ تیار ہونے پارلر گئی تھی۔ سامعہ نے بھی اُس کے مقابلے میں شہر کے ایک بڑے پارلر میں بکنگ کروائی تھی۔ وہ آج ایک اچھے اور مہنگے برانڈ کا بھاری سوٹ زیب تن کیے ہوئے تھی۔ میک اپ کے بعد اُس پر بہت نکھار آگیا تھا۔ کبیر علی نے پہلے اُسے اور پھر ثنا کو پارلر سے پِک کیا۔ ثنا کے ساتھ ماموں کی بیٹی تھی۔ جس نے ثنا کو سہارا دے کر جب گاڑی میں بٹھایا۔ سامعہ ثنا پر چڑھے روپ کو دیکھ کر حیران رہ گئی۔ اُس پر ایسا روپ آیا تھا، جس کے آگے سامعہ کی ساری خوب صورتی بالکل پھیکی پڑ گئی۔ ثنا کو سٹیج پر بٹھایا گیا اور ساتھ ہی بیٹھا رضوان آف وائٹ شیروانی اور مہرون تلے کے کام سے بھرے کلاہ کے ساتھ بہت حسین لگ رہا تھا۔ سب ہی جوڑے کی تعریف کر رہے تھے۔ ثنا کے روپ سے روشنیاں سی پھوٹ رہی تھیں، کیوں کہ سلمیٰ بیگم آتے جاتے دونوں پر پڑھ پڑھ کر پُھونک رہی تھیں۔ اُنہیں آنے والے بہت سے مہمانوں کی نظروں میں اتنے اچھے رشتے پر حسد پُھوٹتا بہ خوبی نظر آرہا تھا۔ وہ نہیں چاہتی تھیں کہ اُن کی بیٹی کی زندگی کی اِبتداء کسی کی بدنظری کا شکار ہو جائے۔ لیکن ثنا پر اصل روپ تو دوسرے دِن ولیمے کی تقریب میں آیا تھا۔ اُس کی دبی دبی شرمائی سی ہنسی اور سٹیج پر اُس کے ساتھ بیٹھے رضوان کی کوئی شوخ سی بات پر اُس کی طرف دیکھنا، سامعہ کے تن بدن میں آگ لگا گیا۔ واقعی کسی نے سچ کہا ہے یہ محبت بھی کیسی عجیب سی شے ہے۔ جسے شدید خواہش ہو اُس سے بھاگتی ہے اور جسے اِس کا اِحساس تک نہ ہو، خود بہ خود اُس کے قدموں تلے لپٹ جاتی ہے۔ اِسی لیے کبھی کبھی کچھ لوگوں کے لیے محبت دعوتِ شیراز اور کچھ کے لیے لنگر میں بٹتے کنکر بھرے چاولوں کی طرح ہوتی ہے۔ دِل نہ چاہے پھر بھی بھوک مٹانے کے لیے وہ کنکر بھرے چاول نگلنے ہی پڑتے ہیں۔ اُس وقت خود ترسی کا شکار سامعہ کے لیے کبیر علی کی محبت لنگر میں بٹتے اُن چاولوں جیسی ہی تھی۔ کبیر علی سے شادی کے بعد اُس نے خود کو تسلّی دے لی تھی اور عمر کو بُھول گئی تھی۔ ثنا اور رضوان کی شادی نے عمر کی محبت کے دھاگے اُدھیڑ دئیے تھے۔ وہ ایک بار پھر شدید تکلیف میں تھی۔ حسد اورجلن کا اِحساس بہت قوی تھا۔ بس نہیں چل رہا تھا کہ رضوان کو ثنا کی زندگی سے کھینچ کر بہت دُور کر دے۔ جب اُسے اُس کا من چاہا نہ مل سکا تو ثنا کیسے اتنے اچھے رشتے کا حق رکھ سکتی تھی۔ مجبور تھی کچھ کہہ نہیں سکتی… کچھ کر نہیں سکتی تھی… سوائے دیکھ دیکھ کر جلنے اور کڑھنے کے… وہ اپنی ہی آگ میں جل رہی تھی… کبھی کبھی جلن اِنسان کی پوری سائیکی تبدیل کر دیتی ہے… وہ بالکل بدل جاتا ہے ، لیکن یہ جلن اور حسد کا شعلہ یک دَم نہیں جلتا، بلکہ اِنسان کی کوئی نہ کوئی محرومی بہت دِنوں اُس کے اندر پرورش پاتی ہے جو کبھی نہ کبھی ایک الاؤ کی صورت اِختیار کر لیتی ہے۔ بچپن کی بہت سی محرومیاں آج ثنا کو خوش دیکھ کر ایسا ہی الاؤ اُس کے اندر پیدا کر رہی تھیں اور دُور بیٹھی ثنا کو علم بھی نہ تھا کہ اُس کی خوشیوں سے کسی کے دِل میں بھانبھڑ جل رہے ہیں، لیکن اِنسان کو جو خوشیاں اللہ کی طرف سے اِنعام کی صورت میں ملیں۔ اُنہیں دُشمنوں کی بدنظری کبھی نہیں چُھو سکتی۔ ایسا اُس وقت ثنا کے ساتھ بھی تھا۔ وہ اپنی ماں کی دُعاؤں کے حصار میں تھی۔ پھر بھلا کسی کی جلن اور حسد کی آگ اُس کی خوشیوں کو کیسے کھا سکتی تھی۔
٭……٭……٭……٭
سیما نے عمر کے ساتھ ہر طرح کا کمپرومائز کر لیاتھا۔ شاید اُس کے لیے اِتنا ہی کافی تھا کہ عمر اُس کی زندگی میں شامل ہے۔ اُسے یقین تھا کہ اپنی محبت سے ایک نہ ایک دِن وہ اُس کی محبت جیت لے گی، لیکن یہ اُس کی بُھول تھی۔ وہ پل میں تولہ، پل میں ماشہ والا بُھوت تھا۔ کبھی اُس سے اتنی محبت اور لگاوٹ سے بات کرتا کہ وہ اپنے مستقبل کے لیے اُس کی ہم راہی میں کتنے خواب دیکھ لیتی… اور کبھی کئی کئی دِن اُس سے لاتعلق رہتا… اور دوستوں میں مصروف رہ کر اُسے اپنا پتا بھی نہیں دیتا… لیکن باپ کے سامنے وہ اُس سے اتنی لگاوٹ اور محبت سے بات کرتا کہ وہ پُر سکون ہوجاتے کہ انہوں نے دونوں کی شادی کرکے ایک اچھا فیصلہ کیا اور اِس منہ زور گھوڑے کو لگامیں ڈال دیں۔۔۔ لیکن یہ اُن کی خوش خیالی تھی۔ اُنہیں اندازہ بھی نہ تھا کہ اُن کا منہ زور گھوڑا ایسے راستے کی طرف دوڑ لگا رہا تھا، جس کی کوئی منزل نہ تھی۔ اپنے آپ کو برباد کرکے نہ جانے باپ سے کیسا بدلہ لے رہا تھا۔ کبھی کبھی شوقیہ چرس اور ہیروئن کو منہ لگانے والا اب اکثر دوستوں کی محفلوں میں کُھل کر نشہ کرتا۔ وہ کس سے اِنتقام لے رہا تھا… خود سے یا باپ سے…وہ بگڑا ہو اتو تھا، مگر اِس حد تک گر جائے گا، اُس نے خود بھی نہیں سوچا تھا۔ دوست اُس کی دولت کو مل جل کر لوٹ رہے تھے۔ جو کما رہا تھا، اُس کے اکاؤنٹ سے کس طرح غائب ہو جاتا۔ اُسے مہینے کے بعد پتا چلتا کہ اب کچھ باقی نہیں۔ پارٹیز، لڑکیوں اور نشے نے اُسے کچھ کرنے کے قابل ہی نہیں چھوڑا، لیکن اُس کی قسمت اچھی تھی کہ یہ سب ابھی آفندی صاحب کی نظروں سے اوجھل تھا۔ وہ گھر ہی تب آتا۔ جب وہ سو جاتے، لیکن سیما اُس کے لڑکھڑاتے قدموں اور ڈھیر ہوتے جسم کو دیکھ کر دُکھی سی رہ جاتی کہ یہ روز بہ روز اِس کو کیا ہوتا جا رہا ہے۔ اگر خوش اخلاق ہوتا تو اتنا کہ سیما کو لے کر سڑکوں پر آوارہ گردی کرتا اور اُس سے لاتعلق ہوتا تو دِنوں اُس کی طرف پلٹ کر نہیں دیکھتا۔ یہ رشتہ اب اِسی طرح چلنا تھا۔ سیما نے خود کو سمجھا لیا تھا۔ وہ خود ہی تو اُس کی زندگی میں شامل ہونا چاہتی تھی اور اب شامل تھی تو پھر اس کے روّیے سے کیسی شکایت …؟ اُس نے اپنا دِل کام سے لگا لیا تھا۔ نئے نئے پراجیکٹس میں عمر کی کئی ذمہ داریوں کوبھی بہ خوبی خاموشی سے کر ڈالتی اور خالو جان سمجھتے کہ اُن کے بیٹے نے کمال کیا۔ وہ دِل کھول کر عمر کی تعریف کرتے اور وہ چور نظروں سے اُس کی طرف دیکھ کر رہ جاتا۔ دِل ہی دِل میں اُس کا شکر گزار تھا، لیکن کبھی زبان سے شکریہ ادا نہیں کیا۔
٭……٭……٭……٭
آج بہت دِنوں کے بعد وہ خالو جان کی اجازت سے نانوبی کی طرف آئی تھی۔ عمر بہاول پور کسی جیپ ریلی میں گیا ہوا تھا۔ اُس کا فون بھی بند جا رہا تھا۔ وہ شدید بور ہو رہی تھی تو نانو بی کی طرف آگئی کہ اُن کے ساتھ شاپنگ کرکے بوریت مٹائی جائے۔ ساتھ کسی اچھے ریسٹورنٹ میں لنچ بھی کیا جائے۔ اُنہیں جلدی جلدی تیار کرکے گاڑی میں بٹھایا اور مال آگئی۔ شاپنگ کے لیے اُس نے شہر کے سب سے بڑے مال کا اِنتخاب کیا تھا۔ جہاں ہر طرح کے برانڈز موجود تھے۔ ابھی وہ پہلی شاپ پر ہی گئی تھی کہ اندر داخل ہوتے ہوئے اُس کی ٹکر سامعہ سے ہوئی۔ جس نے جدید تراش خراش کا سوٹ پہن رکھا تھا۔ وہ اکیلی ہی تھی۔ اُسے دیکھ کر کترا کر گُزر جانا چاہا، لیکن سیما نے پکڑ لیا۔
’’اَرے سامعہ! تم یہاں……‘‘ اُس نے ملانے کے لیے ہاتھ بڑھایا، جو سامعہ نے تھام لیا اورپھر نانو بی کو سلام کیا۔
’’ہاں! کیا میں یہاں نہیں آسکتی…؟‘‘ سامعہ نے اُس کی بات کا غلط مطلب لیا۔
’’نہیں… میرا مطلب یہ نہیں تھا… دراصل بہت عرصے سے کوئی رابطہ نہ تھا۔ اِسی لیے اچانک دیکھ کر حیرانی ہوئی۔ ماشاء اللہ اور بہت خوب صورت ہو گئی ہو شادی کے بعد…‘‘ اُس کی صحت سے سیما نے اندازہ تو لگا لیا تھا کہ وہ پریگننٹ ہے، لیکن پوچھا نہیں۔ چاہے آپ کی قریبی دوست ہی کیوں نہ ہو، ایسی باتیں جب تک کوئی خود نہ بتائے پوچھنا اچھا نہیں لگتا۔
’’ہاں! بس شادی کے بعد دوستوں سے ملنا ہی کم ہوتا ہے۔ کبیر اتنا ٹائم ہی نہیں دیتے کہ اُن کے علاوہ کچھ اور سوچا جائے۔‘‘ وہ بڑے تفاخر سے بتا رہی تھی اور واقعی اُس کی صحت قابلِ رشک تھی۔ عورت کی خوب صورتی اور اُس کے نکھار کا اِنحصار شادی کے بعد اُس کی زندگی میں شامل ہونے والے مرد پر ہی ہوتا ہے۔ کسی شادی شدہ عورت کو خوش دیکھ کر ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ اُس کے مرد نے اپنی محبتوں سے اُس کے سارے دُکھ چُن لیے ہیں اور واقعی سیما اُس وقت سامعہ کو رَشک سے دیکھ رہی تھی۔ وہ کتنی خوش لگ رہی تھی۔ نا چاہتے ہوئے بھی سیما اُسے اپنی اور عمر کی شادی کا بتا بیٹھی۔ سامعہ کا چہرہ ایک دَم پھیکا پڑ گیا۔
’’اچھا! بہت مبارک ہو…‘‘ اُس کے منہ سے سرسراتے ہوئے یہ الفاظ نکلے۔
’’بس شادی اتنی جلدی میں ہوئی کہ دوستوں کو بھی نہ بلا سکی۔‘‘ وہ اپنی طرف سے معذرت کر رہی تھی۔ سامعہ سوچ رہی تھی کہ تم اگر بُلاتی بھی تو مجھے کب آنا تھا۔
’’اَرے بھئی! تم دونوں فرینڈز کہیں بیٹھ کر بات کیوں نہیں کرتیں۔ چلو کیفے ٹیریا چلتے ہیں۔‘‘ نانو بی شاید کھڑے کھڑے تھک گئی تھیں۔ اِس لیے اُن کی لمبی گفتگو سُن کر مشورہ دیا۔
’’اِن شاء اللہ نانو بی! پھر ملاقات ہو گی۔ ابھی تو میرے شوہر باہر میرا اِنتظار کر رہے ہیں۔ ذرا دیر ہو جائے تو پریشان ہو جاتے ہیں۔‘‘ سامعہ نے کچھ جتاتے ہوئے سیما کو دیکھا اور بولی۔
’’اوکے سیما! میرا نمبر وہی ہے پُرانا والا۔ اِن شاء اللہ جلد بات ہوگی۔ خدا حافظ نانو بی۔‘‘
’’خدا حافظ…‘‘ دونوں نے اُسے خدا حافظ کہا اور سامعہ آگے بڑھ گئی۔ آج پہلی بار سیما کو اُس پر بہت رَشک آیا۔ وہ اُس کی قسمت کو سراہنے لگی۔ کتنی عجیب سی بات ہے ہم ظاہری چیزوں پر مرنے والے لوگ دوسروں سے صرف اِس لیے حسد کرنے لگتے ہیں کہ وہ بہ ظاہر ہم سے بہترین حالت میں ہیں۔ کوئی یہ نہیں جانتا کہ سامنے والا اِس من چاہی چیز کو پا کر کس کرب میں مبتلا ہے۔ سچ ہے اللہ نے دِلوں کے بھید دِل میں رکھ کر اِنسان کو سکون میں پناہ دی۔ ورنہ دوسروں کے غم بھی ہمیں جینے نہ دیتے۔ ہمارے دُکھوں کی پوٹلی ہمارے اندر ہی دُھلتی ہے۔ اُس کا گند بھی اندر ہی گرتا ہے۔ اگر باہر گرے تو ہر شخص دوسرے کے رحم کا حق دار ہو جائے اور اپنے دُکھ کے ساتھ ساتھ دوسرے کے دُکھوں کو پالنے لگے۔
٭……٭……٭……٭
رضوان اور ثنا ایک دوسرے کو پاکر بہت خوش تھے۔ ثنا نے رضوان کو پا کر اللہ کا بے اِنتہا شکر ادا کیا کہ اُس کی قسمت میں ناصرف بہ ظاہر خوب صورت، بلکہ نیک سیرت شخص لکھا۔ ہنی مون کے لیے رضوان کا پلان دُبئی جانے کا بن گیا۔ جب وہ دونوں اماں اور کبیر علی سے ملنے آئے سامعہ کو پتا چلا کہ وہ ہنی مون کے لیے دُبئی جا رہے ہیں تو اُس نے بھی کبیر علی کا پیچھا لے لیا کہ مجھے آپ ابھی تک ہنی مون پر لے کر نہیں گئے۔ مجھے بھی جانا ہے دُبئی… یہ سامعہ کی دِلی خواہش سے زیادہ وہ ضد تھی، جو ثنا کی خوشی دیکھ کر اُبھری تھی۔ وہ اماں سے جانے کی اجازت لیتے ہوئے کتنی خوش تھی۔ بہترین برانڈڈ سوٹ میں ملبوس امپورٹڈ بیگ پکڑے۔ یہ وہ ثنا تو نہیں لگ رہی تھی، جو سادگی سے اِدھر اُدھر اپنا کام کرتی پھرتی تھی۔ اُس کے پاس میک اَپ بھی امپورٹڈ تھا۔ جس نے اُس کے چہرے پر رونق اور نکھار دوبالا کر دیا تھا، لیکن سامعہ کو یہ بات معلوم نہ تھی کہ یہ نکھار ثنا کی ماں کی دُعاؤں کا اَثر تھا۔ جو اُس کے چہرے پر اُمڈ اُمڈ کر آرہا تھا۔ اگر دِل میں سکون نہ ہو، بہترین سوٹ اور میک اَپ بھی کسی کام کا نہیں ہوتا۔ جیسے وہ اُس وقت جو جلن ثنا کے لیے اپنے دِل میں محسوس کر رہی تھی۔ اُس کی سیاہی سے خود سامعہ کا چہرہ کرخت اور بدصورت نظر آرہا تھا۔ کبیر علی اُسے سمجھا سمجھا کر تھک گئے تھے کہ رضوان آفس میرے کندھوں پر چھوڑ کرجا رہے ہیں۔ ایک ہفتے کے بعد جب وہ لوگ آجائیں گے، پھر چلیں گے اور پھر تمہیں ایسی حالت میں سفر نہیں کرنا چاہیے۔ فارغ ہو جائو پھر چلیں گے۔ وہ ناراض ہو گئی۔ دو دِن اُن سے بات نہ کی۔ سارا وقت موبائل میں سر گُھسا کر ناجانے کیا کیا دیکھتی رہی۔ شکیلہ آتی اور کھانا پکا کر چلی جاتی۔ وہ آفس سے واپس آکر اِنتظار کرتے کہ اُسے کھانا پانی پوچھے گی۔ وہ تو اُنہیں بالکل نظرانداز کر بیٹھی تھی۔ شکیلہ کو انہوں نے اماں کے کچن کے لیے بھی کھانا پکانے کا کہا تھا۔ اب شکیلہ اوپر اور نیچے دونوں کے لیے کھانا تیار کرتی اور اماں کو کِھلا کر پھر جاتی۔ اُن کی صُبح کی دوائی اور ناشتہ وہ خود اماں کو دیتے اور دوپہر میں اُن کو فون کرکے یاد کرواتے۔ وہ سامعہ سے اماں کے کسی کام کا نہ کہتے۔ اُنہیں لگتا کہ اماں اُن کی ذمہ داری ہیں۔ اُن کی بیوی کی نہیں۔ اِسی لیے بہن کے جانے کے بعد اُن کی حتیٰ الامکان کوشش ہوتی کہ ماں کے سب کام وہ خود کریں۔ اپنے چھوٹے موٹے کام تو سلمیٰ بیگم خود اُٹھ کر کرنے کی کوشش کر لیتی تھیں، مگر اُن سے کچن میں زیادہ دیر کھڑا نہیں ہوا جاتا تھا۔ دمہ، جوڑوں کا درد اور شوگر کے مرض نے اُنہیں اندر سے بالکل گُھلا کر رکھ دیا تھا۔ شوہر کے جانے کے بعد تن تنہا دونوں بچوں کو ایک مرد کی طرح پالنے میں جسمانی اور دماغی دونوں طرح تھک چکی تھیں۔ اِسی لیے سٹریس نے اُنہیں شوگر کا مریض بنا دیا۔ تھوڑی تھوری دیر کے بعد اُنہیں کچھ نہ کچھ کھانے کو چاہیے ہوتا، کیوں کہ اِنسولین لیول ڈراپ ہو جاتا تھا۔ شکیلہ اُوپر اور نیچے کا کام بہ خوبی نبھا رہی تھی… اور کیوں نہ کرتی کبیر علی ایک اچھی خاصی تنخواہ دے رہے تھے کہ ماں کو تکلیف ہو اور نہ ہی بیوی کو… بیوی بھی بستر پر ہی سارا ناشتہ پانی منگواتی اور خود موبائل میں ڈائون لوڈ مختلف ایپس چیک کرتی یا ٹی وی پر کوئی فلم دیکھتی۔ ایک دو دِن کے بعد فون کرکے اماں ابا کی خیریت ضرور معلوم کرتی۔ ابا اب کافی بہتر تھے۔ فزیوتھراپی نے اُن کے دائیں حِصّے کو کافی حد تک کارآمد بنا دیا تھا۔ دِن میں ایک آدھ بار دُکان کا چکر بھی لگا لیتے۔ وہ اُن کی طرف سے بھی کافی مطمئن تھی۔ اب پریشانی تھی تو بس اپنے بڑھتے ہوئے وزن سے، جو کافی بڑھ چکا تھا۔ ڈاکٹر نے اُسے صحت مند خوراک کھانے کے لیے ڈائٹ پلان دیا تھا، جو اُس نے پلٹ کر دیکھا ہی نہیں… رات کو اکثر کبیر علی کو اپنی میٹھے کی شدید خواہش پر پریشان کرکے باہر لے جاتی اور پھر جب تک پیٹ کے بعد مکمل دِل نہ بھر جاتا، کھاتی رہتی… وہ بھی ہنستے۔
’’یار! یہ تم عورتوں کو اِن دِنوں میں کیا ہو جاتا ہے…؟ کھانے پینے کے معاملے میں پوری جِن بن جاتی ہو…‘‘ تو وہ منہ بنالیتی۔
’’لو بھلا! اِس میں میرا کیا قصور…؟ ڈاکٹرز کہتے ہیں اِن دِنوں میں اکثر کریونگز اِن چیزوں کی ہوتی ہے، جس کی جسم میں کمی ہو۔‘‘ وہ معصومیت اور کچھ ناراضگی سے کہتی۔
’’ہاں! ویسے جس طرح تم یہ مٹھائیاں، قُلفے، آئس کریم اور دودھ جلیبی کھا رہی ہو۔ مٹھاس کی تم میں واقعی کمی ہو گئی ہے۔‘‘ انہوں نے مُسکراتے ہوئے شرارت کی تو وہ تو بھڑک ہی گئی۔
’’کیا مطلب…؟‘‘ اُس نے غُصّے میں آئس کریم کا پیالہ کار کے ڈیش بورڈ پر پٹخ دیا۔ ویسے بھی پیالہ خالی ہو چکا تھا۔ اُس کے جارحانہ انداز پر، جس سے وہ ہمیشہ ڈر جاتے تھے، اُس وقت بھی کار روک کر انہوںنے ہاتھ جوڑ دیئے اور جب تک اُسے منا نہ لیا گاڑی نہ چلائی۔
٭……٭……٭……٭
ثنا رضوان کا پوری طرح خیال رکھ رہی تھی۔ دونوں نے دُبئی میں ساتھ گزارا ایک ہفتہ بہت اچھی طرح اِنجوائے کیا۔ رضوان نے اُسے منع کرنے کے باوجود بہت ساری شاپنگ کروائی۔ ساتھ ہی کبیر علی، سامعہ اور سلمیٰ بیگم کے لیے بیش قیمت تحائف لیے۔ وہ حیران تھی کہ رضوان کتنی خوش دِلی سے اُس کے گھر والوں کے لیے بھی تحفے تحائف خرید رہے ہیں۔ ورنہ مردوں میں اِس طرح کا اِحساس بہت کم پایا جاتا ہے۔ خود اُس کے لیے شاپنگ میں اپنی مرضی سے زیادہ اُس کی مرضی کا خیال رکھ رہے تھے۔ آخری دِن انہوں نے کہیں شاپنگ یا گُھومنے پھرنے کے بجائے ہوٹل کے خوب صورت کمرے میں آرام کا پلان کیا۔ پورا ہفتہ گُھوم گُھوم کر تھک چکے تھے۔ آخری دِن صرف اور صرف ایک دوسرے کے ساتھ گزارنا چاہتے تھے۔ بریک فاسٹ سے لے کر ڈنر تک انہوںنے کمرے میں ہی کیا اور دِل بھر کر باتیں کیں۔ رضوان نے ثنا کو اپنی فیملی کے بارے میں بتایا کہ کس طرح اُس کی اماں بچپن میں ہی فوت ہو گئی تھیں۔ پھر بابا نے اُس کی تربیت کی۔ ثنا کو حیرانی تھی کہ کوئی مرد تن تنہا بچے کی اتنی اچھی تربیت کر سکتا ہے۔ وہ ہر لحاظ سے مکمل مرد تھا۔ جتنے اِحترام سے وہ ثنا سے بات کرتا۔ اُس سے ثنا کے دِل میں اُس کے لیے محبت اور بڑھ جاتی۔ وہ خوش قسمت تھی۔ اُسے بھائی بھی محبت کرنے والا ملا اور شوہر بھی عزت دینے والا۔
وہ دُبئی سے واپس آئی تو اماں کی نظر اُس پر ٹھہر ہی نہیں رہی تھی۔ وہ اِن چند دِنوں میں ماشاء اللہ کتنی خوب صورت ہو گئی تھی۔ انہوں نے دونوں پر معوذتین پڑھ کر پُھونکا۔ اللہ ہر بُری نظر سے بچائے۔ اِتوار کا دِن تھا۔ کبیر علی بھی گھر میں تھے۔ انہوں نے شکیلہ سے اچھا سا لنچ تیار کرنے کے لئے کہا۔ رضوان کے پاس تو ٹائم نہیں تھا۔ وہ رات کو ڈنر پر آنے کا کہہ کر چلے گئے، لیکن ثنا ماں سے جُڑ کر بیٹھ گئی۔ تھوڑی دیر میں سامعہ بھی نیچے اُتر کر آگئی۔ ثنا بہت خوشی خوشی بھابھی سے ملی۔
’’ماشاء اللہ سامعہ! تم تو اور خوب صورت ہو گئی ہو…‘‘ اُس نے سامعہ کے نکھرتے وجود پر ایک نظر ڈالتے ہوئے کہا تو وہ صرف مُسکرا کر رہ گئی۔
’’اپنی سُناؤ کہاں کہاں گُھوم کر آئی ہو…؟‘‘ ثنا اپنے نئے آئی فون سے اُسے ہنی مون کی تصاویر دِکھانے لگی۔ تصاویر تو اُس نے کیا دیکھنی تھیں۔ اُس کے نئے موبائل کو دیکھ کر ہی جل کر رہ گئی۔
’’اَرے واہ ثنا! یہ کب لیا…؟ نیا لگ رہا ہے…‘‘ موبائل ثنا کے ہاتھ سے لے کر اُس نے پوچھا۔
’’ہاں! رضوان نے دُبئی سے بہت سی شاپنگ کروائی ہے۔ اُسی میں یہ بھی شامل ہے۔ میں تو منع کر رہی تھی۔ میرے پاس موبائل موجود ہے، لیکن وہ نہ مانے۔ بس لے کر دے دیا۔ میں تم لوگوں کے لیے بھی وہاں سے بہت ساری چیزیں لے کر آئی ہوں۔ یار! شکیلہ سے کہو پہلے اچھی سے چائے پلا دے پھر بیگ کھولتی ہوں۔‘‘ اُس نے مُسکراتے ہوئے کہا تو سامعہ شکیلہ کو چائے کے لیے آوازیں دینے لگی، جو شاید کچن میں ہی مصروف تھی۔
ثنا نے سامعہ کے لیے کپڑے، پرفیومز اور بچے کی شاپنگ کی تھی۔ ایک بڑا بیگ اُس نے سامعہ کے حوالے کیا، جس میں کبیر علی کے لیے بھی پرفیومز، جوتے اور شرٹس وغیرہ موجود تھے۔ سلمیٰ بیگم کے لیے بھی وہ بیگ، پرفیومز اور عطر وغیرہ لائی تھی۔‘‘
’’اففف! ثنا! یہ سب تو بہت قیمتی ہے۔‘‘ ثنا کی لائی ہوئی چیزیں دیکھ کر سامعہ کے منہ سے ایک دَم نکلا۔
’’سامعہ! یہ ساری شاپنگ رضوان نے خود اپنی مرضی سے کی ہے۔ اُن کے خیال میں میرے گھر والے اُن کے لیے بالکل اپنے گھر والوں کی طرح ہیں۔‘‘ ثنا کے لہجے میں سادگی تھی، لیکن ناجانے کیوں سامعہ کو لگا کہ وہ اُسے جتا رہی ہے۔ اُس نے ایک تیز نظر ثنا پر ڈالی جو کہ اپنی بات کہہ کر ماں سے بات کرنے لگی تھی۔ وہ اپنی جگہ کِلس کر رہ گئی، لیکن دِل میں سوچ لیا کہ کبھی نہ کبھی اِس بات کا جواب ضرور دے گی۔
٭……٭……٭……٭
سیما آج بہت دِنوں کے بعد نانو بی کی طرف آئی تھی۔ وہ پہلے جتنی بار آئی کبھی عمر اُس کے ساتھ نہ تھا۔ آج خاص طور پر نانو بی نے دونوں کو کھانے پر بُلایا تھا۔ وہ آج بھی دوستوں میں مصروف تھا۔ اِس لیے سیما کو اکیلے ہی آنا پڑا۔ وہ دونوں اتنی بڑی ٹیبل پر اکیلے بیٹھ کرکھانا کھا رہی تھیں۔ نانو بی کو اُس کی خاموشی کھٹک رہی تھی۔
’’سیما بچے! اتنی اُداس کیوں ہو…؟‘‘ (تمہارے چہرے پر وہ خوشی کیوں نہیں جو نئی نویلی دُلہنوں کے چہرے پر ہوتی ہے) وہ چاہتے ہوئے بھی اُس سے یہ سوال نہ پوچھ سکیں۔ بس خاموشی سے اُسے فورک سے دھیرے دھیرے چاول کھاتا دیکھتی رہیں۔
’’آج میرے پاس رہ جاؤ…‘‘ انہوں نے دِل کی خواہش ظاہر کی۔
’’رہ تو جاتی نانو بی! لیکن خالو جان کو بتایا نہیں اور پھر عمر کا فون بھی بند ہے۔ وہ آئے گا تو مجھے نہ پا کر ناراض ہوگا۔ اگلی بار آؤں گی تو پورا ایک ہفتہ رہوں گی۔‘‘ اُس نے اُنہیں دلاسا دیا۔
’’تم پچھلی بار بھی یہی کہہ کر گئیں تھیں اور میں اِنتظار کرتی رہی۔ آج بھی میں نے بُلایا تو آئی ہو اور وہ تو آج بھی نہیں آیا۔‘‘ اُنہیں نواسے کے اِس روّیے سے سخت شکایت تھی۔ نہ جانے اُنہیں کیوں لگتا کہ یہ شادی بڑوں کی ضد سے ہوئی ہے۔ جس میںبچوں کو کوئی خوشیاں نہیں ملیں، لیکن دِل کے خدشے کو زبان پر نہیں لا سکتی تھیں اور نہ ہی نواسی سے پوچھ سکتیں۔
’’آئس کریم کھانے چلیں…؟‘‘ سیما کو لگا کہ نانو بی اُس کے چہرے پر خوشیاں کھوج رہی ہیں۔ اگر زیادہ دیر وہ اُن کے سامنے رہی تو شاید وہ رو پڑے گی۔ اُس نے ماحول اور بات تبدیل کرنا ضروری سمجھا۔
’’آرڈر کر دو… میرا کہیں جانے کا موڈ نہیں، بلکہ تم یہاں آؤ۔ میں کچھ دیر تم سے باتیں کرنا چاہتی ہوں… آج ناجانے تمہاری ماں کیوں یاد آرہی ہے…‘‘ وہ بیٹی کا ذکر کرکے آبدیدہ ہوگئیں۔ سیما نے بھی کرسی سے اُٹھ کر اُنہیں کندھوں سے تھاما اور لاؤنج میں پڑے ایل شیپ صوفے پر لا کر بیٹھا دیا۔ خودپاس ہی اُن کے کندھے پر سر رکھ کر بیٹھ گئی۔
’’نانو بی! میں آپ کی تنہائی سے واقف ہوں۔ آپ سے دوبارہ ریکوئسٹ کر رہی ہوں۔ آپ چل کر ہمارے ساتھ کیوں نہیں رہتیں۔ خالو جان نے بھی کتنی بار آپ سے کہا، مگرآپ مانتی ہی نہیں…‘‘
’’اب تو یہاں سے اپنے ابدی گھر کا ہی سفر ہوگا… اِنسان عارضی جہاں کا مسافر ہے… اُسے سکون اپنے ابدی گھر میں ہی ملتا ہے… کیا روز روز گھر بدلنا…‘‘ اُن کے لہجے میں یاسیت تھی۔ وہ تڑپ کر رہ گئی۔
’’نانو بی! پلیز! ایسی باتیں مت کیا کریں۔ اللہ ہمیشہ آپ کا سایہ میرے سر پر سلامت رکھے۔ ایک آپ ہی تو ہیں میری زندگی میں میری اپنی۔۔۔ ورنہ اور کون پوچھتا ہے…؟‘‘ ناچاہتے ہوئے بھی شکوہ اُس کے لہجے میں دَر آیا۔ نانو بی چونک گئی۔
’’کیوں عمر تمہارا خیال نہیں رکھتا…؟‘‘
’’نہیں نہیں… ایسی کوئی بات نہیں… وہ تو میرا بہت خیال رکھتا ہے، لیکن میری نانو بی جیسا تو کوئی اور نہیں ہے۔ آپ جیسا خیال کوئی اور رکھ بھی نہیں سکتا۔‘‘ اُس نے بات بنائی، حالاں کہ دِل چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ وہ نانو بی کو عمر کی ساری حرکتوں کے بارے میں بتا دے، مگر وہ جانتی تھی اُن کا دِل بہت کمزور ہے۔ برداشت نہیں کر پائیں گی۔ اِس لیے چہرے پر جھوٹی مُسکراہٹ سجالی۔
’’سچ سچ بتا… وہ تیرا خیال تو رکھتا ہے …؟ تو اُس کے ساتھ خوش تو ہے…؟‘‘ انہوں نے بھی موقع کا فائدہ اُٹھا کر اُس سے پوچھ لیا۔
’’اَرے نانو بی! میں بہت خوش ہوں۔ وہ میرا بہت خیال رکھتا ہے۔‘‘ اُس نے اُنہیں جھوٹی تسلّی دی۔ پھر کافی دیر تک اُن کے ساتھ بیٹھی باتیں کرتی رہی۔ آخر میں نانو بی کو اُن کے کمرے میں پہنچا کر نوکرانی کو اُن کے پاس چھوڑ کر کار لے کر نکل آئی۔ پورے راستے وہ اپنی قسمت پر روتی رہی۔ کسی قسمت پائی تھی۔ ماں جیسی نانو سے جھوٹ بول کر وہ قطعی خوش نہ تھی، لیکن اِس عمر میں وہ اُنہیں کوئی غم نہیں دینا چاہتی تھی۔ ویسے بھی وہ دِل کی مریضہ تھیں۔ بچپن سے میرے عمر کی دُلہن کہہ کہہ کر انہوں نے ہی اُس کے دِل میں عمر کا خیال ڈالا تھا۔ وہ واقعی خود کو عمر کی دُلہن ہی سمجھتی رہی۔ جب وہ سچ مچ کی دُلہن بنی تو عمر نے اُسے بن بیاہی دُلہن بنا دیا۔ شادی کی پہلی رات اُس کا روکھا پھیکا رویہ آج تک برقرار تھا۔ وہ صرف خالو جان کے سامنے اُس سے اچھی طرح بات کر لیتا۔ کمرے میں آتے ہی اُس کی سرد مہری لوٹ آتی۔ سیما نے بھی اُس کی سرد مہری میں کبھی دراڑ ڈالنے کی کوشش نہیں کی۔ کمرے میں آکر وہ بھی سرد مہری کی چادر اوڑھ لیتی۔ اتنی اَنا تو اُس میں بھی تھی۔ شادی کے دوسرے دِن ہی عمر نے رات کے نشے سے حال میں آتے ہی یہ سمجھا دیا تھا کہ یہ شادی کا سارا ڈرامہ صرف اِس جائیداد سے عاق نہ ہونے کی وجہ سے کیا گیا ہے۔ ورنہ اُس کا شادی کا کوئی اِرادہ نہیں تھا اور نہ ہی وہ اُس سے کسی قسم کے جذباتی رشتے کی اُمید رکھے۔ اُس وقت تو اُس نے آنکھیں پھاڑے اُس کی ساری تقریر سُن لی، لیکن بعد میں ٹھنڈے دماغ سے سوچا تو خود کو سمجھا لیا کہ اکثر مردوں کی زندگی کی شروعات ایسی ہی ہوتی ہیں۔ آہستہ آہستہ وہ اپنی محبت سے اُس کی محبت کو جیت لے گی۔ بس کچھ عرصے کی خاموشی ضروری ہے، لیکن چند مہینوں میں ہی اُسے اندازہ ہو گیا کہ عمر آفندی سے کسی بھی قسم کی اُمید بے کار ہے۔ وہ ایسا پتھر تھا، جس پر وقت کی کاری ضرب بھی کوئی جنبش نہیں ڈال سکتی۔ وہ مجبور تھی، کچھ نہیں کر سکتی تھی۔ سوائے اللہ کی مدد اور اچھے وقت کے اِنتظار کے۔
٭……٭……٭……٭
سلمیٰ بیگم ثنا کے بغیر خود کو بہت تنہا محسوس کر رہی تھیں، حالاں کہ شکیلہ، کبیر علی کی ہدایات کے مطابق زیادہ تر وقت نیچے اُن کے پاس ہی گزارتی۔ جب ایک بجے سامعہ اٹھتی تو اُسے جا کر ناشتہ دیتی اور پھر سلمیٰ بیگم کو کھانا… لیکن تنہائی بہ ذاتِ خود ایک بہت بڑی بیماری ہے۔ جس کا اِختتام کبھی اچھا نہیں ہوتا۔ ثنا کی کوشش ہوتی کہ ہفتے میں دو تین چکر اُن کے پاس لگا جائے۔ فون تو وہ تقریباً روز ہی کرتی، لیکن وہ اپنی طبیعت کی خرابی کا اُسے کبھی نہیں بتاتیں کہ وہ پریشان ہو کر بھاگی چلی آتی۔ اب تک اُن کی دوائی اور اِنسولین کا ٹیکا ثنا ہی لگاتی تھی اور اُس کے جانے کے بعد یہ ذمہ داری کبیر علی نے اُٹھا لی۔ ثنا نے بہت کوشش کی کہ اماں خود یہ ٹیکا لگانا سیکھ لیں، لیکن وہ دِل کی اتنی کمزور تھیں کہ پہلے ٹیکا بھرنا اور پھر اُسے اپنے جسم کے کسی حِصّے پر لگانا اُنہیں بہت مشکل لگتا۔ اِسی لیے بیٹے سے ہی لگواتی تھیں… اور وہ بھی پوری ذمہ داری سے اپنا یہ کام نبھا رہے تھے۔ بڑی سے بڑی میٹنگ چھوڑ کر وہ سات بجے گھر میں ہوتے۔ اُنہیں ٹیکا لگا کر کھانا دیتے اور پھر جب تک وہ کھانا مکمل نہیں کر لیتیں۔ اپنے کمرے میں نہیں جاتے تھے۔ رات کو اماں کو تنہا چھوڑنا بھی اُنہیں مشکل لگتا کہ اگر رات میں کسی وقت اُن کی شوگر ڈاؤن ہو گئی تو کیا ہوگا۔ اسی لیے وہ رات میں بھی اماں کے پاس رُکنے کے لیے ایک عورت کی تلاش میں تھے۔ شکیلہ کے بچے چھوٹے تھے۔ وہ رُک نہیں سکتی تھی، لیکن اُس نے ذمہ داری لی تھی کہ رات کے لیے کوئی نہ کوئی عورت ڈھونڈ کر دے گی۔ وہ اماں کے پاس شوگر لو ہونے کی صورت میں پھل، چنے، گُڑ حتیٰ کہ جام کی شیشی بھی ایک ٹرے میں رکھ دیتے تھے، مگر شوگر کے مریض کو اِن چیزوں کی نہیں، ایک دیکھ بھال کرنے والے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو بہ وقت ضرورت شوگر چیک کرکے یہ چیزیں اُنہیں کِھلا سکے۔ رات کے کسی پہر وہ نیچے کا ایک چکر بھی لگا لیتے۔ اُنہیں کبھی کبھی سامعہ کے روّیے پر بہت افسوس ہوتا۔ کچھ بھی تھا سلمیٰ بیگم اُس کی خالہ تھیں۔ ایسی خالہ، جس نے اُسے ہمیشہ محبت دی تھی۔ وہ اُن سے اتنی بے پروائی برتے گی۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے، لیکن مجبور تھے کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہ تھے۔ بس دِل کو مار کر رہ جاتے۔ بیوی بھی وہ تھی جو کہ محبوب تھی اور اب ایسی حالت میں تھی کہ اُس سے اماں کے لیے کام کا کہنا مشکل لگتا تھا۔ انہوں نے اوپری پورشن کے چکن میں ایک بیل بھی لگوا دی تھی، جس کا دوسرا حِصّہ اماں کے بیڈ کے ساتھ تھا۔ اگر فوری طور پر اُن کو ملازمہ یا کبیر کی ضرورت ہو تو وہ بیل بجا کر اُنہیں بُلا سکیں، لیکن اُن کی یہ ساری محنت اُس رات اکارت گئی جب رات کے کسی پہر اُن کی شوگر لو ہوئی اور اُنہیں ٹھنڈے ٹھنڈے پسینے آنے لگے۔ بہ مشکل ہمت کرکے وہ کھڑی ہوئیں۔ انہوں نے بیل بجانے کی کوشش کی اور بار بار بجائی، لیکن دوسری طرف آواز نہیں گئی، کیوں کہ رات کے کسی پہر کبیر علی کے سونے کے بعد سامعہ نے اُس کی ایکسٹینشن نکال دی تھی۔ شوگر لو ہونے کے ساتھ اُنہیں ہارٹ اٹیک بھی ہوا اور وہ نیچے گر گئیں۔
(باقی آئندہ)

Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

You are commenting using your WordPress.com account. Log Out /  Change )

Twitter picture

You are commenting using your Twitter account. Log Out /  Change )

Facebook photo

You are commenting using your Facebook account. Log Out /  Change )

Connecting to %s

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.