دس سال کہاں رکھے تھے؟ اس نے ڈھونڈنا چاہا۔ چاولوں کے ڈبے میں، آٹے کے کنستر میں ، چینی کے مرتبان میں، کہیں بھی تو نہیں تھے۔ حتی کہ اس گلدان کی تہہ میں بھی نہ ملے جہاں پھول پانی کی فراوانی سے پھپھوندی بن چکے تھے۔امونیا گیس بن کر نتھنوں کو بند کرنے والے بن گئے تھے وہ پھول جن کے کھلنے سے دل باغ وبہار ہوجایا کرتا تھا۔ میرے دس سال آخر کس دراز میں ،کس الماری میں پڑے ہیں۔کسی دیوار پر تو نہیں ٹنگے ہوئے، دیکھوں ذرا۔ مبادا کسی نے تصویر کر لئے ہوں۔طاق نسیاں کو بھی جھاڑا۔ کہیں سے پتہ نہ ملا کہ دس سال کہاں کھو گئے تھے۔رکھےہوں گے کہیں۔مل جائیں گے اس نے دل کو تسلی دی۔
لیونڈر یعنی اسطخدوس کے پھولوں سے ملنے جانا ہوا تو گویا داستان گوئی کا موقع بھی ہاتھ آگیا۔
اسطخدوس کی پتیوں میرے دس سال آج مجھے بے طرح یاد آرہے ہیں۔ لیکن وہ مل کے نہیں دےرہے، مجھے انھیں استعمال میں لانا ہے۔
کچھ دوستوں کو خط لکھنے ہیں، کچھ کو لطیفے سنانے ہیں اور کچھ کے ساتھ چائے پینی ہے۔ یونہی گلی میں فٹ بال کھیلتے بچوں کی بال کو کک بھی مارنی ہے۔ پھل فروش چاچا سے بلا وجہ تکرار کرنی ہے۔ پنیر کا بڑا ٹکڑا کھانا ہے۔ گوشت کا نفیس پارچہ زیتون کے تیل میں جنگلی اجوائن کے ساتھ تلنا ہے۔ کہیں کسی گھاٹی پر خاموش ڈھلوانی رستے پر لمبی واک پر نکلنا ہے۔ کسی انجان لکھاری کی گم نام سی بوسیدہ کتاب پڑھنی ہے۔ اس جھرنے کے پاس جا کر رکنا ہے جہاں سے گزرتے ہوئے یخ چھینٹے میرے چہرے کو چھوتے ہوں۔ مالٹے کی شاخ سے الٹا لٹک کر جھولنا ہے۔ کتنی تتلیوں کے قافلے دور جاتے دیکھنے ہیں۔ افق پر تاباں رہنے والے سورج کے تھال کو آنکھ کی پتلی میں سمونا ہے۔ کسی شام بلا حزن و ملال بس اداس ہی رہنا ہے۔ آہیں بھرنا ہے۔ کسی جھکے پیڑ کے پاس یونہی ٹہلنا ہے۔ کئی جنگلی پھول جھاڑیوں سے اکٹھے کرنے ہیں۔ کسی گاڑی کے پیچھے بھاگنا ہے۔ کسی ریل کی سیٹی سے چونکنا ہے۔ کوئی بات کہنی ہے کسی حوصلہ ہارے ہوئے انسان کو ۔
تم حیران ہو کہ دس سالوں کا مصرف کیا ہوگا۔مجھے دس سال ڈھونڈنے ہیں ۔ یہ سب کرنا ہے۔
پتیوں کے تبسم سے استفہام کا پیغام آشکار تھا۔
تو اس نے کہا۔
کیا کسی نے تم کو اس قدر حفاظت و محبت سے رکھا ہے کہ تمہارا دم گھٹ جائے اور تم مرجھا جاؤ؟
ہوا کے جھونکے سے پھول لہرانے لگے ،گویا ہاں کہتے ہوں۔ خوب تم کو اب یہ بات سمجھ میں آئے گی۔ دیکھو تمہارے وجود کا حسن تو نفاست و تر و تازگی و نزاکت میں ہے ناں۔ کوئی ان کو ہی تم سے الگ کر لے تو حسن ،حزن میں ڈھل جاتا ہے۔ دل سینے میں گویا سل بن جاتا ہے۔ کیا تمہارا دل ہے لیونڈر؟ ہاں کیوں نہیں ہوگا جب تمہارے کان ہیں تو دل بھی ہوگا۔ کان اور دل کا رشتہ بہت قریبی و حقیقی ہے۔ اچھا یہ اضافی بات ہے ملاقات کی۔ مجھ سے ترجمانی ہو پی نہیں رہی میرے حالات کی۔ اچھا سنو۔ کسی نے میری عمر کے دس سال لوٹے ہیں انھیں روکا ہے۔ انھیں کہیں رکھا ہے۔ اب میں وقت کی قید میں ہوں۔ مجھے وہ دس سال جینے ہیں ورنہ بڑھاپا آجائے گا اور جوانی نہیں جی جائے گی۔ کیا تم نے کسی کو لڑکپن سے سیدھا بڑھاپے میں جاتے دیکھا ہے؟ میرے ساتھ تو وہی ہونے کا خدشہ ہے۔ مجھے کوئی وظیفہ بتاؤ۔ کوئی اسم ہو اس طلسم کا جہاں میرے دس سال پوشیدہ ہیں۔
مجھے آغاز نہیں کرنا آتا مجھے آخر سے کہنی ہے کہانی۔
بے ربط ہی سہی سمجھ لینا۔میں کوئی پھولوں کی لڑی نہیں پرخار لفظوں کی داستان بیان کرنے کی اجازت کے لئے منتظر ہوں۔ کہو سناؤں؟
ایسا تھا کہ میرے پاس ایک چراغ تھا نہیں الہ دیں کا چراغ نہیں۔ میں حریص نہیں خواہشات کی غلامی سے جان جاتی تھی۔ میری روش تو درمیانہ تھی۔ خو عاجزانہ تھی۔ تو وہ چراغ جو تھا وہ روشن مستقبل کا سراغ یعنی روشن دماغ تھا۔ وہ اندھیروں میں میری ہمراہی کرتا تھا۔ بھیڑ چال چلنے سے کنارہ کش کرواتا تھا۔ میرے لئے جنگل میں دوراہا نہ تھا کوئی ۔ میرے لئے کوئی نقش قدم تک نہ تھا ۔ سنگ میل بھی نہ تھا۔ میں نے خود ہی راہ اختراع کی۔اور سفر شروع ہوا ۔کوئی چودہ برس گزرے کائنات کے مروج زمان و مکان کے حوالے سے۔ پھر پتھر بھی کھائے سفر میں ، کانٹے بھی آئے۔ طنز، تشنیع، لعنت ،گالی ، دشنام، مار پیٹ، زخم ، ظلم ، بد دعا، بے رحمی، قطع رحمی،توتا چشمی، زبان بندی ، تحقیر، جبر، استہزاء سب کچھ وصول کیا۔ انھیں پشت پر لٹکی یاد کی زنبیل میں انڈیل کر سفر کا اعادہ کیا۔ ادھر میں نے ارادہ کیا، ادھر سے ظلم زیادہ ہوا۔
زبان گنگ رہی، دل چلایا، بدن نے مزاحمت کی۔ لہو بہا، آنسو نکلے۔ آہیں بھریں، دل بھی بھر آیا۔ مگر ظلم کا توپ خانہ خالی نہ ہوا۔ چراغ بجھانے وہ آئے تھے۔ اندھیرے ہوتے تو گلہ نہ ہوتا وہ اجالے کے دعویدار تھے۔ اندھیروں سے لڑا جا سکتا ہے۔ اجالوں کے پیمبران کے ساتھ نہیں۔
مجھے وہ پل بھی یاد آرہا ہے کہ جب گلاب دے کر عذاب دئے گئے۔ کباب کھلا کر جوتے برسائے گئے۔ پھر خود اذیتی میں لذت آنے لگی۔ اسے غذا کی طرح لینا شروع کیا۔ کیا کہا چراغ بجھا دیا؟ نہیں چراغ میرے لہو کی روانی سے جلتا تھا۔ وہ شعلہ ستم کی حالت میں اور لپکتا تھا۔ جب چہرے پر نیل پڑتے تھے تو یہ نقش مجھے بہت بھاتے تھے۔ آنکھ پر سیاہ خون جم کر رکتا تھا تو عزم جواں ہونے لگتا تھا۔ پیر مضبوطی سے جم جاتے تھے۔ پایہ استقامت میں لغزش تو جنونی قرار دینے پر بھی نہیں آئی۔ تہمت، بہتان کیا شے تھی۔ کوئی شے میرے روشن دماغ کو اندھیروں کو میں دھکیل نہ سکی۔ پھر ان کو ایک طریقہ سوجھا۔ انھوں نے میرے عمر کے گوشوارے سے دس سال نکال دیئے۔
مکرمی لیونڈر معلوم ہے پھر کیا ہوا؟ میرے سینے میں بائیں جانب ایک خلا بن گیا۔ میں نے اسے کبھی کس شے سے پر کیا کبھی کس شے۔ ایک بار تو دل بھی رکھ دیا بیچ میں۔ لیکن درمان نہ ہوا۔ دل بھی چٹان ہوا۔ پھر چٹخ گیا ایک دن۔ آنکھیں کھارے پانی کی جھیل ہوئیں جن میں نمک کی زیادتی کی بنا پر سپنے سطح پر تیرتے رہے۔
کسی طور خلا بھر کے نہ دیا۔ ادھار چاہتیں بھی رکھ کر ناکامی ہوئی۔ کتنی بار تو تم سے بھی کبھی کسی اور پھول سے مکالمے ہوئے، گفتگو ہوئی۔ راہ نہ سجھائی دی۔ اب یاد آیا کہ یہاں تو دس سال کا خزانہ رکھا جانا تھا۔ یادوں کی پوٹلی کھولنی تھی۔ وہ بھری جاتی تو خالی ہونی تھی۔ اب اسے بھروں کیسے؟ ہائے میرے دس سال؟
اسطخدوس مجھے بتاؤ میں کوئی اشتہار برائے ‘گمشدگی دس سال’ چھپوا دوں؟ شاید کسی دن کوئی لفافہ موصول ہو ڈاک سے۔ جس پر کچھ لکھا ہو۔ تجویز ،پتہ ، نشانی۔
اسطخدوس کہیں ایسا تو نہیں کہ تم بھی میرے ہر اندام جیسا جواب دو کہ کیا تم نے ان دس سالوں کو کسی کے ہاتھوں پر تلاش کیا ہے؟ کسی کے دستانے اتارے ہیں؟ کیا میرے دس سال ان ہاتھوں پر ہیں؟ کیا میں یہ سوال لکھوں کسی بے نام لفافے پر اور ڈاک خانے میں چھوڑ آؤں کہ
‘ہتھیلی کا چھالا نہ بنا کر رکھا ہوتاخیر تھی مگر چہرے پر داغ بنا دینا کیا یہ محبت و عزت کا خراج ہے؟
کیا مصلحین و محبین کا یہی مزاج ہے؟’
کیا جواب آئے گا یا معافی کی درخواست موصول ہوگی؟ یا میرے دس سال ملیں گے لیونڈر کے پتوں بتاؤ یا میں راکھ کریدوں؟ یا کسی کے ہاتھ دیکھوں وہ جو ہاتھ دھو کر میرے چراغ کے درپے تھے۔ کیا ان پر میرے دس سال مجھے پڑے ہوئے سود سمیت مل جائیں گے؟
چلو تم بھی گونگے رہو۔ وہ دس سال اب مجھے نہ ملیں گے۔
______________
تحریر :طاہرے گونیش
فوٹوگرافی:صوفیہ کاشف