پاداش(آخری قسط)____________شازیہ خان


عمر نے اُٹھتے ہی اپنا موبائل آن کیا اور دوبارہ ایک طرف پھینک دیا۔ متواتر میسجز سے اُس کا فون بج اُٹھا۔ اُس نے کسل مندی سے تکیے کے پاس پڑا موبائل منہ بناتے ہوئے اُٹھایا اور ایک ایک کرکے سارے میسجز پڑھ ڈالے۔ آخری میسیج نے اُس کی نیندیں اُڑا دیں۔ وہ بستر سے چھلانگ لگا کر اُٹھا اور واش روم کی طرف بھاگا۔ اُلٹا سیدھا تیار ہو کر کچن میں کھڑی ناشتہ تیار کرتی سامعہ کو بابا کی طبیعت کا بتا کر نکل گیا۔ میسیج آئے دو گھنٹے گُزر چکے تھے۔ سیما نے عمر کو بابا کے شدید ہارٹ اٹیک کا میسیج کیا تھا۔ ساتھ ہی ہاسپٹل کا نام بھی تھا۔ جیسے ہی ہسپتال پہنچا تو سیما کو بڑے ضبط سے سعود آفندی کی سفید چادر سے ڈھکی میّت کے پاس کھڑا دیکھا۔ ڈاکٹرز اپنی آخری کارروائی نمٹا رہے تھے۔ سیما نے ڈبڈباتی نظروں سے اُسے دیکھا اور نفی میں سر ہلا دیا۔ وہ پاس ہی پڑی بینچ پر مرے ہوئے قدموں سے بیٹھ گیا۔
’’سیما! بابا اتنی جلدی کیسے چلے گئے…؟ تم نے مجھے پہلے کبھی اُن کی طبیعت کے بارے میں کیوں نہیں بتایا…؟‘‘
’’عمر! خالو جان نے تم سے دُور ہونے کا غم اپنے دِل پر لے لیا تھا۔ تم نے اُن کو بہت دُکھ دئیے۔‘‘ وہ ضبط کے آخری کنارے پر تھی۔ آنکھوں کے کٹورے نمکین پانی سے لبالب بھرے ہوئے تھے، جو نکل کر باہر آگیا۔ اُسے خالو جان کے آخری الفاظ نے رُلا دیا تھا کہ عمر کو اُن کا آخری دیدار نہ کرنے دیا جائے۔ وہ شدید مخمصے میں تھی۔ ایک مرتے ہوئے شخص کی آخری خواہش اُس کے پاس امانت تھی۔ ایسے وقت اُسے یہ بات کس طرح بتائی جائے…؟ اُسے سامنے بیٹھے عمر پر شدید ترس آ رہا تھا، جسے باپ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنے کی مہلت بھی نہ مل پائی۔
خالو جان کی میت کو درخشاں آپی کے پاکستان آنے تک سرد خانے میں رکھوا دیا گیا۔ اُس نے بھی خالو جان کی آخری خواہش کو آپی کے پاکستان آنے تک اُٹھا رکھا۔ عمر کی حالت بہت خراب ہو رہی تھی، مگر اُس سے عمر کا اتنا رشتہ بھی نہیں رہا کہ وہ اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اُسے دلاسے دے سکے۔ وہ خاموشی سے گھر آگئی۔
٭……٭……٭……٭
عمر جب گھر پہنچا تو سامعہ بے تابی سے اُس کا اِنتظار کر رہی تھی۔ مرے مرے قدموں صوفے پر ڈھیر ہو گیا۔ سامعہ جلدی سے پانی لے آئی۔
’’کیا ہوا عمر! سب خیریت تو ہے…؟ انکل کی طبیعت اب یسی ہے…؟‘‘ اُس نے پریشانی سے پوچھا۔
’’خدا کے لیے مجھے میرے حال پر چھوڑ دو… ناجانے کون سی منحوس گھڑی تھی، جب سے تم میری زندگی میں آئیں… میں اپنے باپ سے دُور ہو گیا۔‘‘ وہ زور سے چیخا۔ سامعہ کی آنکھیں حیرت سے پھٹ گئیں۔ اُسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ عمر اُسے اپنی تباہی کی وجہ قرار دے گا۔
’’مر گیا میرا باپ… تم سُن رہی ہو… میرا باپ مجھے سے ملے بغیر چلا گیا… میں اُس سے معافی تک نہ مانگ سکا…‘‘ اُس نے جھنجھلاہٹ میں اپنے بال نوچ ڈالے۔ وہ شدید ڈیپریشن میں تھا۔ اُسے پوری طرح اندازہ تھا کہ اُس کا باپ کم اَز کم سامعہ کی وجہ سے نہیں مرا، لیکن وہ ایک آسان تختہ مشق کی صورت اُس وقت اُس کے سامنے تھی۔ سامعہ نے اُس کی ذہنی حالت کو دیکھتے ہوئے خود پر قابو پایا اور اُس کے پاس آکر بیٹھ ہاتھ پکڑ لیا، جو عمر نے زور سے جھٹک دیا۔
’’خدا کے لیے یہاں سے چلی جائو۔ میں کچھ دیر اکیلا رہنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’مگر تم اِس وقت…‘‘ سامعہ نے کچھ کہنا چاہا تو وہ دوبارہ زور سے چلایا۔
’’تم سُن نہیں رہی… اِس وقت میرے پاس سے چلی جائو… مجھے کسی کی ضرورت نہیں…‘‘ وہ اُس کی دھاڑ پر بوکھلا کر اُس کے پاس سے اُٹھ گئی۔
٭……٭……٭……٭
اُسے اندازہ بھی نہ تھا کہ بابا اِس طرح اچانک رُخصت ہو جائیں گے۔ بابا کو آخری بار اُس نے کچھ مہینے پہلے فون کیا تھا۔ تب انہوں نے اُسے بہت بُرا بھلا کہا تھا۔
’’مجھے تم سے ایسی اُمید نہ تھی عمر…! تم نے مجھے بہت دُکھ دئیے، جو سلوک تم نے سیما کے ساتھ کیا وہ شاید مجھے قبر تک سکون نہیں لینے دے گا۔ عمر! یاد رکھو! میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گا۔ آج کے بعد اِس گھر اور اِس جائیداد کے ساتھ تم اپنے باپ پر بھی فاتحہ پڑھ لینا۔ سمجھنا کہ تمہارا باپ اِن سب کے ساتھ دفن ہوگیا۔‘‘ اُس وقت عمر نے اُن کی باتوں کو ایک جذباتی فیصلہ سمجھا تھا۔ اِس سے پہلے درخشاں آپی نے بھی اُسے فون پر بے بھائو کی سُنائیں اور باپ کی وجہ سے سارے تعلق ختم کر لیے تھے۔ وہ اپنے باپ کو دُکھی نہیں کرنا چاہتی تھی۔ اُن کے خیال میں اُس نے ناصرف سیما کے ساتھ زیادتی کی، بلکہ اپنے باپ اور بہن کو بھی سیما کا مجرم بنا دیا۔ اگر وہ سیما سے جائیداد کی لالچ میں شادی نہ کرتا اور اُسی وقت شادی سے اِنکار کر دیتا تو شاید آفندی صاحب کبھی نہ کبھی اُسے معاف کر دیتے، لیکن یہ شادی کرکے اُس نے سیما کی زندگی کو داغ دار بنا دیا تھا۔
٭……٭……٭……٭
درخشاں کے پاکستان آنے کے بعد آفندی صاحب کی تدفین ہوئی، لیکن وہ تدفین عمرآفندی کو اطلاع دیئے بغیر ہوئی۔ وہ دو دِن کے بعد جب گھر گیا تو درخشاں آپی آ چکی تھیں اور تھوڑی دیر پہلے ہی بابا کی تدفین ہوئی تھی۔ وہ اُن سے لپٹ کر رونا چاہتا تھا، لیکن انہوں نے اُسے وہیں روک دیا اور ایک لفافہ اُس کی طرف بڑھا دیا۔
’’یہ بابا نے تمہارے لیے دیا تھا اور اُن کی خواہش تھی کہ یہ لفافہ تمہیں اُن کی تدفین کے بعد دیا جائے۔‘‘ اُسے کتنے سالوں کے بعد بہن ملی تھی، لیکن بدنصیب اِس تکلیف دہ وقت میں اُن کے گلے بھی نہیں لگ سکتا تھا۔ کتنے عرصے کے بعد اُن سے مل رہا تھا۔
’’کتنا ظلم کیا آپی آپ نے… مجھے بابا کا آخری دیدار بھی نہیں کرنے دیا…؟‘‘ وہ رو پڑا۔
’’یہ اُن کی آخری خواہش تھی کہ تمہیں اُن کی شکل بھی نہ دِکھائی جائے۔ یاد رکھو عمر! اُنہیں اِس اِنتہا پر تم لے کر آئے تھے۔ بہت بدنصیب ہوتی ہیں وہ اولادیں جنہیں ماں باپ دُکھی اور تڑپتے دِل سے چھوڑ کر جائیں۔ پھر دُنیا اُن کی رہتی ہے اور نہ آخرت… میرے بھائی میرا دِل بھی تمہارے لئے تڑپتا ہے، لیکن میں اپنے باپ کی آخری خواہش پوری کرنا اپنا فرض سمجھتی ہوں۔ اپنی ساری جائیداد وہ سیما کے نام کر چکے ہیں۔ جو میرا حِصّہ تھا اُس کا میں اُن کے نام پر ٹرسٹ بنا رہی ہوں۔‘‘
’’لیکن آپی یہ زیادتی ہے… میں بھی اُن کی اولاد ہوں… وہ میرا حق مجھ سے نہیں چھین سکتے…‘‘ وہ چلّایا۔ اُسے آسرا تھا کہ کبھی نہ کبھی تو اُس کا باپ اُسے معاف کر دے گا۔ یہاں تو وہ جاتے جاتے اُسے مکمل طور پر قلاش کر گئے۔
’’عمر! یہ ساری دولت اور یہ بزنس نانو بی نے اپنی دونوں بیٹیوں کے نام پر کھڑے کیے تھے۔ تمہارے یا میرے باپ کی وراثت نہیں تھی۔ ہاں! انہوں نے اِس میں اضافہ ضرور کیا تھا۔ اِس لیے تم کسی صورت اپنی وراثت ثابت نہیں کر سکتے۔ تم جانتے ہو اِس سارے بزنس کی چیئرمین نانوبی تھیں۔ بابا نے اُن کی بیٹی سے شادی کے بعد اِس بزنس کو بہت اچھی طرح سنبھالا، لیکن یہ میری تمہاری وراثت نہیں تھی۔ تمہاری ماں کی طرف سے کیا گیا بزنس تھا۔ اِس لیے تم کسی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا کر بھی اِسے اپنا ثابت نہیں کر سکو گے۔ کاش! تم سُدھر گئے ہوتے۔ بابا کی زندگی میں ہی اُن سے آکر معافی مانگ لیتے۔ یقین کرو، وہ جب مجھ سے بات کرتے تو ایک بار تمہارا ذِکر ضرور ہوتا۔ شاید اُنہیں آس تھی کہ تم اپنی غلطیوں پر نادم ہو گے اور آ کر اُن سے معافی مانگ لو گے، لیکن شاید تم بھی اُن کی موت کا اِنتظار کر رہے تھے…‘‘ وہ تلخی سے بولیں تو عمر تڑپ اُٹھا۔
’’پلیز آپی! ایسا مت کہیں۔ میں نے اُن سے بہت بار معافی مانگنے کی کوشش کی، لیکن اُنہیں تو اپنی بھانجی کا دُکھ ہی نہیں بُھولتا۔ ہر بار وہ اُس کا ذِکر لے بیٹھتے۔ میں نے ایسا کبھی نہیں سوچا تھا کہ…‘‘
’’عمر! اکثر وہی ہوتا ہے جیسا ہمارے گمان میں بھی نہیں ہوتا۔ پھر پوری زندگی خراب ہو جاتی ہے۔‘‘ انہوں نے اُس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
’’خیر! یہ لیٹر تمہیں پاپا کے وکیل کی طرف سے دیا گیا ہے، جس میں انہوں نے تمہیں اپنی منقولہ اور غیرمنقولہ جائیداد سے مکمل طور پر عاق کر دیا ہے۔‘‘ عمر نے کپکپاتے انداز میں لفافہ کھولا اور پڑھ کر بند کر دیا۔ اب اُس کی آخری آس بھی ختم ہو گئی تھی۔ وہ بہت تکلیف دہ انداز میں درخشاں اور سیما کی طرف دیکھتا ہوا پلٹ گیا۔ اب بھلا وہاں رُک کر وہ کیا کرتا۔ درخشاں سے بھائی کو اِس حالت میں دیکھنا مشکل ہو رہا تھا۔ اِسی لیے وہ بھی تیزی سے بھیگی ہوئی آنکھوں کے ساتھ پلٹ گئیں۔ اُس کا ماں جایا تکلیف میں تھا، لیکن اِن حالوں وہ خود اپنی حرکتوں سے پہنچا تھا۔ جب اُس نے سیما کو طلاق دی تھی۔ تب بھی انہوں نے اُسے بہت سمجھایا تھا کہ بُری راہوں سے پلٹ آئو… عمر بہت پچھتائو گے… لیکن اُس وقت عمر کی آنکھوں پر شیطان کی پٹی بندھی ہوئی تھی۔ اُسے دُنیا کی رنگینیاں نظر آرہی تھیں۔ وہ سمجھتا تھا کہ بابا کا چند روزہ غُصّہ ختم ہو جائے گا تو اُسے بُلا لیں گے، لیکن انہوں نے تو اُسے جاتے جاتے تہی دامن کر دیا۔
٭……٭……٭……٭
گھر آ کر وہ شدید تکلیف میں رہا۔ اُسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ بابا اُسے عاق کرنے کا اتنا بڑا فیصلہ کس دِل سے کر سکتے ہیں…؟ پہلے بھی انہوں نے دھمکی دی تھی، مگر وہ آج اپنی کہی ہوئی بات کو سچ کر گئے۔ سامعہ نے اُسے صوفے پر سر پکڑے دیکھا تو لپک کر اُس کے پاس آ گئی۔
’’آپ آگئے عمر…! کیا اَنکل کی تدفین ہو گئی…؟‘‘
’’ہاں! ہو گئی۔ اِس کے ساتھ میرے مستقبل کی بھی تدفین ہو گئی…‘‘ وہ زور سے چلایا۔
’’خدا نہ کرے، کیسی باتیں کر رہے ہیں…؟‘‘ وہ اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر چِلّائی۔
’’ہاں! جب سے تم میری زندگی میں آئی ہو۔ میری قسمت کو جیسے کسی نے کالے پانی سے دھو دیا ہے۔ ہر شے ہاتھ سے نکلتی جا رہی ہے۔ بہت بدنصیب عورت ہو۔ دِل کو آسرا تھا کہ میرا باپ کبھی نہ کبھی مجھے معاف کر دے گا اور میں اُس کے پاس لوٹ جائوں گا، لیکن دیکھو انہوں نے جاتے جاتے مجھ پر اور میرے مستقبل پر آخری کیل ٹھونک دی۔ اپنی جائیداد سے عاق کر دیا ہے۔‘‘ اُس نے ہاتھ میں پکڑا لفافہ اُس کی طرف پھینکا، جو اُس نے سنبھال لیا اور پڑھنے لگی۔
’’لیکن اِس میں میرا کیا قصور…؟‘‘ اُس کے منہ سے سرسراتے ہوئے لفظ نکلے۔
’’تم جس دِن سے میری زندگی میں آئی اور تمہاری محبت میں میں نے اُن کی چہیتی سیما کو چھوڑا۔ انہوں نے مجھے معاف نہیں کیا اور تم پوچھ رہی ہو کہ میرا کیا قصور…؟‘‘ وہ اپنی بے راہ روی اور گناہوں کی داستانیں چُھپا کر سارا ملبہ اُس پر ڈال رہا تھا۔ وہ خاموشی سے کھڑی اُسے تکتے ہوئے سوچ رہی تھی کہ یہ ہے وہ شخص، جس کے لیے اُس نے اپنی جنت چھوڑ دی۔ ماں جیسی نعمت سے منہ موڑا۔ آیان جیسی رحمت کو چھوڑ دیا اور سب سے بڑھ کر کبیر علی جیسی چھت سے محروم ہو گئی، جس کے تلے ہمیشہ اُس نے سکون ہی پایا تھا۔ اب تپتے صحرا تلے وہ عمر کے تکلیف دہ جملے سُن رہی تھی۔ اُس نے ڈبڈباتی نظروں سے عمر کو دیکھا۔ وہ سمجھ چکی تھی اب اُ س سے کچھ کہنا فضول ہے۔ باپ کے مرنے کی وجہ سے اِس وقت وہ اپنے حواسوں میں نہیں۔ وہ خاموشی سے اپنے کمرے میں چلی آئی۔
اُسے محسوس ہوا کہ عمر سے شادی خسارے کا سودا تھا۔ ہم ہیروں کی تلاش میں کنکر چُن لیتے ہیں اور پھر پچھتا بھی نہیں سکتے، کیوں کہ یہ خود ہمارا ذاتی فیصلہ ہوتا ہے۔ کتنی بے دردی سے وہ اُسے بدنصیب کہہ رہا تھا اور وہ پلٹ کر یہ بھی نہ کہہ پائی کہ اگر میری قسمت تمہاری قسمت نہ بنا پائی تو پایا تو میں نے بھی کچھ نہیں… سب کچھ کھو دیا… اُس سے شادی سے پہلے وہ سونے میں ہاتھ ڈالتی تو ہیرا بن جاتا تھا اور اب مسلسل اُس کا لاکھ بھی خاک ہو رہا تھا۔ اُسے بھی تو عمر کی قسمت راس نہیں آئی۔ وہ بھی تو خالی ہاتھ رہ گئی۔ کبھی کبیر علی کی قسمت اور اُس کی قسمت دونوں مل کر دُگنی اور ہری بھری ہو رہی تھی… لیکن اب… اب تو وہ کیفیت تھی کہ ’’نہ خدا ہی ملا اور نہ وصالِ صنم‘‘ … عمر کا روّیہ اُس سے دِن بہ دِن بُرا ہو رہا تھا، لیکن وہ اِس رشتے کو بچانے کے لیے کچھ نہیں کر پا رہی تھی۔
٭……٭……٭……٭
سلطان احمد آخری میٹنگ کے لیے پاکستان دوبارہ آگیا تھا۔ عمر نے اُسے سمجھا دیا تھا کہ کوئی ایسی بات نہ ہو کہ میٹنگ ناکام ہو جائے۔ میٹنگ کو ہر صورت کامیاب ہونا ہے۔ اُسے ہر قیمت پر یہ پراجیکٹ چاہیے۔ وہ اُس کی شکل دیکھ کر رہ گئی۔ اُسے معلوم تھا کہ ہر قیمت سے اُس کا کیا مطلب تھا…؟ وہ بچی نہیں تھی کہ اُس کی بات کا مطلب نہ سمجھتی۔
’’لیکن عمر! تم جانتے ہو۔ پچھلی بار بھی وہ کتنی غلیظ باتیں کر رہا تھا۔ میں تمہاری بیوی ہوں۔ اُسے معلوم تھا، مگر اُس نے ذرا لحاظ نہ کیا…‘‘ وہ کَلس کر رہ گئی۔
’’اِس سے کیا فرق پڑتا ہے… آج کل کاروبار میں یہ سب چلتا ہے۔ یار! نکل آئو اپنے پُرانے حجرے سے… اب تم مولوی مظہر کی بیٹی نہیں، میری بیوی ہو۔ جیسا میں چاہوں گا تمہیں کرنا پڑے گا ورنہ…‘‘ اُس نے بات ادھوری چھوڑی۔
’’ورنہ کیا…؟‘‘
’’دیکھو! میں وہ سب کہنا نہیں چاہتا، لیکن صرف ایک بات بتانا چاہتا ہوں کہ میرے پاس کاروبار کے لیے یہ آخری چانس ہے۔ اپنے مستقبل کا ہر چراغ میں بُجھا چکا ہوں اور اب شاید تمہارے اور میرے مستقبل کا فیصلہ بھی اِس ڈیل کے ساتھ ہوگا۔‘‘
’’عمر! یہ تم کیا کہہ رہے ہو…؟ کیا ہماری محبت کا رشتہ اتنا کمزور ہے کہ اِس کا دارومدار ایسی ڈیل کے ہونے یا نہ ہونے پر ہو… پلیز! ایسی بات مت کرو…‘‘ وہ لپک کر اُس کے پاس آئی اور ہاتھ جوڑتے ہوئے بولی۔ عمر نے بے پروائی سے کندھے اُچکا دئیے۔
’’دیکھو سامعہ! میری پوزیشن سمجھو۔ میں ہر طرف سے خالی ہو چکا ہوں۔ باپ کی جائیداد کا سہارا تھا۔ وہ بھی ختم ہوگیا۔ اگر تم بھی اِس مشکل وقت میں میرا ساتھ نہیں دو گی تو پھر میں کوئی اور راستہ ڈھونڈوں گا…‘‘ اُس نے بہت آسانی سے اتنی بڑی بات کہہ دی تو وہ سر تا پا بلبلا کر رہ گئی۔ وہ تو یہ بات کہہ کر چلا گیا، مگر سامعہ صوفے پر بیٹھ کر رونے لگی۔ زندگی اُسے کتنی مشکلات میں لے آئی تھی۔ پہلے ہمیشہ اماں کی دُعائیں اُسے مشکلوں سے نکال لیتی تھیں۔ آج اُسے اماں بہت یاد آ رہی تھیں۔ اُس نے پہلی فرصت میں اُن کا نمبر ڈائل کر دیا۔ اُس کی قسمت دوسری طرف سے انہوں نے اُٹھا لیا۔ وہ بِلک بِلک کر رو رہی تھی۔
’’اماں! پلیز مجھے معاف کر دیں…‘‘ ناہید بیگم کا دِل اولاد کی بِلکتی آواز پر پسیج گیا۔ وہ جو فون بند کرنے کا سوچ رہی تھیں اُسے خاموش کروانے لگیں۔
’’کیا ہوا…؟ رو کیوں رہی ہو…؟‘‘ اُس کے بِلکنے پر وہ پریشان ہو گئیں۔
’’اماں! آپ کی دُعائوں نے میرا ساتھ چھوڑ دیا۔ پلیز! میرے لیے دُعا کریں۔‘‘ اُس نے ماں سے اِلتجائیہ انداز میں کہا۔
’’دُعا کا حق تو تم نے خود ٹھکرایا ہے۔ ماں کا دِل اولاد کے لیے دُعائیں کرنا نہیں چھوڑتا۔ جب اولاد اُسے شدید دُکھ دے تو وہ دُعائوں میں کمی لے آتی ہے، مگر چھوڑتی نہیں… لیکن اللہ سے ماں کا دُکھ کبھی چُھپا نہیں رہ سکتا۔ میں نے کبھی نہیں چاہا تھا کہ تمہیں اپنی دُعائوں سے محروم رکھوں۔ میرے پاس تمہارے سوا کون تھا…؟ لیکن کیا کروں، اب وہ حق تم کھو چکی ہو۔‘‘
’’پلیز! اماں اتنی کٹھور نہ بنیں۔‘‘ وہ گِڑگِڑائی۔
’’مجھ سے زیادہ تو کٹھور پن تم نے دِکھایا ہے۔ ہم سب کے دِل پر ہاتھ مار کر کتنی آسانی سے چلی گئیں۔ تم نے کتنے دِل توڑے ہیں۔ کتنی خودغرض بن گئی تھیں۔ ایک لمحہ نہیں سوچا اپنی خوشی کے لیے پورا گھر برباد کر گئیں۔ شاید تم اِس گھر کے قابل ہی نہ تھیں۔ اللہ نے اُلفت کی صورت ایک ایسا ہیرا اِس گھر کو دیا ہے جو واقعی اِس گھر کے قابل تھا۔ کبیر، آیان اور میرے لیے وہ قدرت کا اِنعام ہے۔‘‘
’’کبیر علی نے دوسری شادی کر لی…؟‘‘ وہ سرسراتی ہوئی آواز کے ساتھ بولی۔
’’ہاں! تو کب تک وہ تمہارا سوگ مناتا… اُس نے بچے کی خاطر یہ شادی کی اور اللہ نے پورے گھر کی قسمت کھول دی… تو کبھی آکر دیکھ تیرے بچے سے کتنی محبت کرتی ہے۔ وہ محبت جو اُسے تجھ سے ملنی چاہیے تھی۔ وہ اب اُلفت سے مل رہی ہے۔ سامعہ تو بہت بدنصیب ہے۔ تو نے اپنی جنت اپنے پیروں سے ٹھکرائی ہے۔ اِسی لیے اللہ نے تجھے بے سکون رکھا۔ خیر! ماں ہوں، دُعا ہی دوں گی کہ تو نے جو فیصلہ اپنی خوشی کے لیے کیا تھا، اللہ تجھے وہ خوشی ضرور دے۔ بس اِس سے زیادہ میرے پاس تیرے لیے کچھ نہیں اور خدا کے لیے آئندہ فون کرکے مجھے مزید بے سکون مت کرنا۔‘‘ یہ کہہ کر انہوں نے فون بند کر دیا۔ سامعہ فون بند ہوتے ہی پُھوٹ پُھوٹ کر رو پڑی۔ آج اِحساس ہوا کہ ہم کتنی اچھی چیزوں کو یہ سمجھ کر کھو دیتے ہیں کہ وہ ہمارے لیے نہیں اور اِس سے اچھی کی تلاش میں برُی چیزیں اپنا لیتے ہیں۔ جب زندگی جنت سے جہنم کا سفر کرتی ہے تو پتا چلتا ہے کہ کتنا غلط فیصلہ ہو گیا۔
٭……٭……٭……٭
عمر کے جانے کے بعد سیما درخشاں سے لپٹ کر رو پڑی۔
’’آپی میری وجہ سے اِس گھر سے اِس کا بیٹا دُور ہوا… میں ساری عمر اِس بات پر خود کو معاف نہیں کر سکتی…‘‘
’’اَرے نہیں پگلی! وہ تمہاری وجہ سے نہیں، بلکہ اپنے کرتوتوں کی وجہ سے دُور ہوا ہے۔ تم تو بابا کے غُصّے کی ایک چھوٹی سی وجہ بن گئیں۔ وہ پہلے ہی اُسے اِس کی حرکتوں پر بہت سمجھا چکے تھے کہ راہ راست پر آ جائو، مگر وہ سُدھرنے پر تیار نہ ہوا۔ آخری دِنوں میں تو وہ عمر کی وجہ سے بہت تکلیف میں تھے۔ جب بات کرتے یہی کہتے کہ وہ تم سے ساری عمر شرمندہ رہیں گے۔ انہوں نے یہی دُکھ اپنے دِل میں اُتار لیا کہ تم دونوں کی شادی اُن کی زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ ہم یہ کیوں سمجھ لیتے ہیں کہ شادی کے بعد ہمارا بگڑا ہوا بچہ ایک معصوم بچی سدھار لے گی، جو ہم سے نہ سُدھر سکا وہ بھلا کسی معصوم سے کیا سُدھرے گا…؟‘‘
اُنہیں کسی صورت تم جیسی ہیرا بیٹی کا ہاتھ اپنے ناہنجار کے ہاتھوں میں نہیں دینا چاہیے تھا۔ وہ تمہارے قابل ہی نہ تھا۔ ہمیں معاف کر دینا سیما!… میں بھی تمہارے لیے کچھ نہ کر سکی…‘‘ وہ ہاتھ جوڑتے ہوئے رو پڑیں۔
’’اَرے نہیں آپی! اِس میں آپ کا یا کسی کا کیا قصور…؟ میری قسمت ہی خراب تھی، جو عمر جیسے شخص سے محبت کر بیٹھی۔ ایسا میرے نصیب میں لکھا تھا کسی کا کیا قصور…؟‘‘ سیما نے اُن کے جُڑے ہوئے ہاتھ پکڑ لیے اور اُن کے گلے لگ گئی۔
’’خیر! یہ بتائو تم نے اب آگے اپنے لیے کیا سوچا ہے…؟‘‘ انہوں نے سنبھلتے ہوئے آنسو پونچھے اور اُس سے اُس کے مستقبل کے بارے میں سوال کیا۔
’’کیا مطلب…؟‘‘ اُس نے حیرانی سے درخشاں کو دیکھا۔
’’مطلب یہ کہ آگے اتنی بڑی زندگی تنہا کیسے گُزارو گی…؟ اب تک تو بابا تمہارے ساتھ مل کر اتنے بڑے بزنس کو سنبھال رہے تھے۔ اب تم یہ سب اکیلے کیسے دیکھو گی…؟ کسی نہ کسی کا ہاتھ تو تھامنا ہوگا…‘‘ انہوں نے فکرمندی سے پوچھا۔
’’درخشاں آپی! میں دوسری شادی کے بارے میں ابھی کچھ نہیں سوچ سکتی، کیوں کہ اِس طرح سارا کام رُک جائے گا۔ کیا عورت مرد کے بغیر زندگی نہیں گُزار سکتی…؟‘‘
’’یقینا بہت آسانی سے گُزار سکتی ہے… مسئلہ معاشی ہو تو عورت کو مرد کی ضرورت پڑتی ہے۔‘‘
’’میں تو اتنے بڑے بزنس کی مالک ہوں۔ معاشی طور پر کوئی مسائل نہیں۔ اپنے لیے ہر شے خود لے سکتی ہوں۔ عمر سے شادی محبت کے نام پر کی تھی۔ جب وہ محبت ہی مر گئی تو دوسری شادی کی کوئی ضرورت نہیں۔ بس آپ دُعا کیجئے گا کہ میں اِس بزنس کو اچھی طرح سنبھال سکوں۔‘‘
’’میری ساری دُعائیں تمہارے ساتھ ہیں۔ تمہیں جب میری ضرورت پڑے گی، میں حاضر ہوں۔‘‘
’’مجھے اللہ کے بعد آپ کا ہی تو سہارا ہے۔ اگر کسی کو مدد کے لیے پُکار سکتی ہوں تو وہ صرف آپ ہیں۔ بس دُعا کیجئے گا کہ مجھے زندگی میں کبھی مدد کی ضرورت نہ پڑے۔‘‘ وہ اُن کے گلے لگ گئی۔ درخشاں سوچ رہی تھی کہ عمر! تم نے کتنے قیمتی ہیرے کو ٹھکرایا ہے۔ اب اگر تم چاہو بھی تو دوبارہ ایسا ہیرا تمہارے نصیب میں نہیں۔
٭……٭……٭……٭
آج صُبح سے ہی عمر بہت پُرجوش تھا۔ سلطان صاحب سے میٹنگ کے لیے سامعہ کے کپڑوں کی سلیکشن میں اُس کی پوری طرح مدد کر رہا تھا۔ اُس نے ایک خوب صورت ریڈ میکسی جو قدرے گہرے گلے کی تھی، الماری سے نکال کر اُس کی طرف بڑھائی اور بولا:
’’آج تو سلطان احمد کسی صورت تمہیں نہ کر ہی نہیں پائیں گے… یہ پہنو… اِس میں تمہارا حُسن دوآتشہ لگے گا۔‘‘ سامعہ نے بہت عجیب سی نظروں سے عمر کی طرف دیکھا اور بولی:
’’عمر! میرے حُسن کو تمہاری سراہتی نظریں ہی کافی ہیں۔ اِسے کسی گندی نامحرم نظر کی کوئی ضرورت نہیں…‘‘
’’پھر وہی مڈل کلاس عورتوں کی طرح باتیں شروع کر دیں۔ یہ سب ہماری کلاس کی ضرورت ہے۔ تم کیا سمجھتی ہو، یہ بڑی بڑی بزنس ڈیلز یونہی ہو جاتی ہیں۔ اِس کے لیے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ یہ بزنس مین اِسی طرح اپنی بیویوں کے ذریعے کام نکلواتے ہیں۔‘‘ وہ سوچ کر رہ گئی کہ عمر سے پوچھے کہ کیا تمہارے باپ کا طریقہ کار بھی یہی تھا…؟ لیکن جانتی تھی کہ اِس کے بعد عمر کی گالیوں اور بدتمیزیوں کا جواب اُس کے پاس نہیں ہوگا۔ اُس نے خاموشی سے وہ میکسی اُس کے ہاتھ سے لی اور ساتھ میچنگ جیولری ڈھونڈنے لگی۔ وہ وہاں بھی اُس کی مدد کرنے لگا۔
’’دیکھو! یہ بڑے بڑے رِنگز اِس میکسی کے ساتھ بہت کمپلیمنٹ کریں گے، بلکہ یہ پرل کی مالا بھی گلے میں ڈال لو۔‘‘ وہ واقعی اُس کے حُسن کو دوآتشہ کرکے سلطان احمد کے آگے پیش کرنا چاہتا تھا۔ کہیں کوئی کمی نہ رہ جائے۔ یہی سوچ کرآگے بڑھ کر اُس کی ہیلپ کر رہا تھا۔ اتنی ساری محنت پر وہ سوائے تلخی سے مُسکرانے کے اور کچھ بھی نہ کر سکی۔ یہ راستہ اُس کا اپنا چنیدہ تھا۔ اب سوائے خاموشی سے عمر کی باتوں پر عمل کرنے کے اُس کے پاس کوئی چارہ نہ تھا۔ وہ تیار ہو کر عمر کے سامنے آئی تو ایک بار عمر کو بھی اُس پر پیار آ گیا۔
’’اُو مائی بیوٹی فل وائف…‘‘ اُس نے آگے بڑھ کر سامعہ کے ماتھے اور پھر گال پر بوسہ دیا۔ آج پہلی بار سامعہ اِس بوسے کی راحت کو پوری طرح محسوس نہ کر سکی۔ شاید اِس کے اندر عمر کی محبت مر رہی تھی۔ وہ محبت جو عمر کے اِس انداز پر اُس کے اندر میٹھی میٹھی کسک پیدا کر دیتی تھی۔ آج ناجانے کیوں تشنگی کا اِحساس پیدا کر رہی تھی۔ اُسے محسوس ہو رہا تھا کہ اُن دونوں کے درمیان محبت کا رشتہ ٹوٹ رہا تھا۔ پارہ پارہ ہو رہا تھا، مگر عمر کو اُس کا رَتی برابر قلق نہ تھا۔ بھلا کوئی اپنی سب سے پسندیدہ شے سجا بنا کر دوسرے کے آگے پیش کر سکتا ہے…؟ اپنی محبوب شے کو تو دُنیا سے چُھپا کر رکھا جاتا ہے۔ یہاں وہ اپنی محبوب شے سے ایک مکروہ کام لے رہا تھا۔ اُسے عمر سے گھِن آنے لگی۔
٭……٭……٭……٭
وہ اپنے وقت پر سلطان صاحب کے پاس اُن کے ہوٹل پہنچ گئی، جو بے تابی سے اُس کا اِنتظار کر رہے تھے۔ اُس کے بھرپور حُسن کو دیکھ کر سلطان صاحب کی آنکھیں خیرہ ہو گئیں۔ انہوں نے بہت ملائمت سے اُس کا ہاتھ تھاما اور ٹیبل پر بیٹھا دیا۔ پھر اِدھر اُدھر کی باتیں شروع کر دیں۔ دونوں نے اچھے ماحول میں کھانا کھایا۔ اِسی دوران اُس نے دو تین بار اُن کے پراجیکٹ اور ایگریمنٹ کی بات کی، جو انہوں نے کمالِ خوبی سیٹال دی۔ وہ بھی خاموش ہو گئی اور زیادہ اِصرار سے گریز کیا۔ دو گھنٹوں میں اُس نے کئی بار اپنی تعریف سُنی، جو وہ بہت کُھلے دِل سے کر رہے تھے، لیکن ناجانے اُسے آج کیوں یہ تعریف بالکل اچھی نہیں لگ رہی تھی۔ کبھی وہ ایسی تعریفیں سُننے کے لیے کتنی بے تاب ہوا کرتی تھی۔ دِل سے چاہتی کہ اُس کے قصیدے پڑھے جائیں، لیکن شادی کے بعد وہ دِل سے عمر کے ساتھ وفادار تھی۔ سوائے عمر کی تعریف کے کچھ اچھا نہیں لگتا تھا۔ شاید اب وہ تعریف بھی اپنی اہمیت کھوتی جا رہی تھی۔ رُخصت ہوتے ہوئے سلطان صاحب نے پاس رکھے لیدر کے قیمتی بیگ سے ایک خوب صورت فائل نکال کر اُس کی طرف بڑھائی۔
’’یہ لیجئے سامعہ…!‘‘ سامعہ نے فائل تھامی اور حیرت زدہ نظروں سے اُن کی طرف دیکھا۔
’’ایک بار مسکرائیے…‘‘ وہ کچھ نہ سمجھتے ہوئے اُن کی طرف دیکھتے ہوئے مُسکرا دی۔
’’واہ! کیا قیامت مُسکراہٹ ہے… آج یہ ڈیل آپ کی اِس قیامت مُسکراہٹ کے نام…‘‘
’’مطلب…؟‘‘ اُس نے حیرانی سے کاغذات پڑھے۔ اُس میں موجود ایگریمنٹ سے سامعہ پر ساری بات واضح ہو گئی۔
’’سوچئے! اگر ایک مُسکراہٹ سے آپ کو ایسی ڈیل مل سکتی ہے تو سلطان احمد آپ کے لیے اور کیا کیا کر سکتا ہے…؟‘‘ وہ بڑے نشیلے انداز میں اُس کی طرف دیکھتے ہوئے بولے تو وہ بھی مُسکرا دی۔
’’لیکن سلطان صاحب! آگے کی ڈیلز کے لیے مجھے کیا کرنا ہوگا۔ ذرا اُسے بھی کلیئر کر دیں۔‘‘ اُس نے بات کلیئر کرنا ضروری سمجھا۔
’’ابھی بزنس میں بالکل نئی ہیں آپ…لیکن اتنا تو جانتی ہوں گی کہ بزنس ہمیشہ پرافٹ اور لاس پر چلتا ہے… اور لاس اُسی صورت ہوتا ہے جب سامنے والے کی effort نظر نہ آئے۔ یہ ایک مُسکراہٹ کا پرافٹ ہے۔ اِس سے بڑے پرافٹ کے لیے آپ کو میرے ساتھ دُبئی چلنا ہوگا۔‘‘
’’جی… مگر میں…‘‘ وہ ایک دَم پریشان ہوگئی۔ اُس نے سوچا بھی نہ تھا کہ وہ اُسے اِس طرح کی کُھلم کُھلا آفر دیں گے۔
’’اگر مگر کچھ نہیں… آپ آرام سے گھر جائیں… اپنے شوہر سے مشورہ کیجئے… اگر اگلے پراجیکٹس میں وہ انٹرسٹڈ ہیں تو اگلے ہفتے میرے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہو جائیں۔‘‘ وہ اُن کی بات سُن کر ایک لمحے کو سُن سی رہ گئی۔ یہ سُنسناہٹ واپسی کے پورے سفر میں اُس کے ساتھ رہی۔ گھر آ کر اُس نے خاموشی سے فائل عمر کے ہاتھ میں تھما دی، جسے دیکھ کر وہ جُھوم اُٹھا۔
’’واہ پارٹنر! میں جانتا تھا کہ وہ تمہیں دیکھ کر اِس پراجیکٹ سے اِنکار نہیں کر سکے گا۔ تم ہو ہی اِتنی خوب صورت…‘‘ وہ جذباتی انداز میں بول رہا تھا۔
’’بس تم اِسی طرح کام کرتی رہی تو میں بہت جلد وہ سب کچھ پا لوں گا، جو وقت نے مجھ سے چھین لیا ہے۔‘‘
’’یہ پراجیکٹ انہوں نے مجھے میری ایک مُسکراہٹ کے بدلے دیا ہے۔ اگلے پراجیکٹس کے لیے انہوں نے مجھے اپنے ساتھ دُبئی چلنے کے لیے کہا ہے اور تم جانتے ہو اِس بات سے اُن کا کیا مقصد ہے…؟‘‘ اِس بار وہ اُس کی خوشی پر فرسٹریٹ ہو کر چِلّائی۔ شاید وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ سلطان احمد اُس سے مزید کیا چاہتے ہیں…؟
’’ہاں! تو کیا ہوا…؟ چلی جائو… اِس میں کیا بُرائی ہے…؟ اُسے تم پسند آ گئی ہو اور وہ تمہارے ساتھ چند دِن گُزارنا چاہتا ہے۔‘‘
’’So What… تمھیں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تمہاری بیوی کسی غیر مرد کے ساتھ وقت گُزارے اور وہ شخص اُسے اِستعمال کرے۔ یہ گناہ ہے عمر…!‘‘ وہ پوری طرح چِلّائی۔
’’پھر وہی تھرڈ کلاس عورتوں کی طرح گناہ اور ثواب کی باتیں… ہماری کلاس میں ایسا معمولی سی بات ہے۔ اگر تمہاری ایک مُسکراہٹ کے بدلے اتنی بڑی ڈیل ہو سکتی ہے تو کیا اپنے شوہر کی خاطر تم اِس سے زیادہ نہیں کر سکتیں…؟‘‘
’’پھر مجھ میں اور طوائف میں کیا فرق رہ جائے گا عمر…؟‘‘ وہ بہت دُکھ سے بولی۔
’’کسی کے ساتھ تھوڑا وقت گُزارنے اور اچھے مستقبل کے لیے کام کرنے سے کوئی عورت طوائف نہیں بن جاتی اور پھر جب مجھے کوئی اِعتراض نہیں تو دُنیا کی پرواہ کیوں کرتی ہو…؟‘‘ وہ اُسے دبی دبی زبان میں بہت کچھ سمجھا رہا تھا۔ اُس نے محسوس کیا کہ عمر نے ساری بات اُس سے نظر ملائے بغیر کی اور وہ حیران تھی کہ یہ کیساشوہر ہے…؟ جسے اپنی بیوی کو سجا بنا کر کسی اور شخص کو پلیٹ میں رکھ کر دینے پر کوئی اِعتراض نہیں۔
’’اور اگر میں نہ کر دوں تو…؟‘‘ اُس نے بھی آخری پتا پھینکا۔
’’تو میں بھی تمہیں چھوڑنے میں ایک لمحہ نہیں لگائوں گا… مجھے ایسی عورت کی قطعاً ضرورت نہیں، جو اپنے شوہر کے لیے اتنا سا کام نہ کر سکے…‘‘ وہ بہت سفاکی سے بولا۔
’’یہ تم کہہ رہے ہو عمر…! تم تو مجھ سے محبت کا دعویٰ کرتے تھے… بہ قول تمہارے تم نے میری خاطر اپنے باپ کو چھوڑ دیا۔‘‘ وہ تھرّا کر رہ گئی۔
’’ہاں! وہی تو میری سب سے بڑی غلطی تھی، جس کی سزا میں بھگت رہا ہوں اور آج تمہاری وجہ سے پیسے پیسے کو محتاج ہو چکا ہوں۔ سوچتا تھا میرا باپ کسی نہ کسی روز مجھے معاف کر دے گا، لیکن دیکھو وہ بھی جاتے وقت مجھے اپنی ساری دولت سے محروم کر گیا۔ اب میرے پاس سوائے اِس ڈیل کے اور کوئی راستہ نہیں۔ تم نہیں تو کسی اور کے ذریعہ سلطان صاحب کی ڈیلز میں لے کر رہوں گا۔‘‘ وہ بہت سفاکیت سے اُس پر لفظوں کی چُھریاں چلا رہا تھا۔ وہ ڈبڈبائی نظروں سے اُسے دیکھ رہی تھی۔
’’اتنے سفاک نہ بنو عمر…! میں ساری کشتیاں جلا کر تمہارے پاس آئی ہوں۔ تمہیں چھوڑ کر کہاں جائوں گی…؟‘‘ اُس نے روتے ہوئے ہاتھ جوڑ دئیے۔
’’میں نے بھی ساری کشتیاں جلا کر تم سے شادی کا فیصلہ کیا تھا اور اب ہم دونوں کے پاس نئی کشتیاں بنانے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں۔ تمہیں وقت دے رہا ہوں۔ اچھی طرح سوچ لو کہ تمہیں کیا کرنا ہے۔ میرا ساتھ دینا ہے یا مجھے چھوڑنا ہے۔ ورنہ میرے پاس بھی تمہیں چھوڑنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں۔‘‘ وہ یہ کہتا ہوا فائل اُٹھا کر باہر نکل گیا اور وہ روتی ہوئی صوفے پر ڈھیر ہوگئی۔
’’یاخدا! میں کیا کروں…؟ تو ہی مجھے کوئی راستہ دِکھا…‘‘ اُسی وقت فون بج اُٹھا۔ دوسری طرف فاطمہ تھی، جو اُس سے کسی ٹی وی شو کے بارے میں بات کرنا چاہ رہی تھی، لیکن اُس کی روتی ہوئی آواز نے اُسے پریشان کر دیا۔ اُس نے فاطمہ کو کُھل کر ساری بات بتا دی۔ فاطمہ اُس کی ساری بات سُن کرحیران ہو گئی۔
’’عمر اِس طرح کیسے کر سکتا ہے…؟ اور یہ بتائو تم نے کیا سوچا…؟‘‘
’’لیکن فاطمہ! لگتا ہے اُس کی بات ماننے کے سوا میرے پاس کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں۔‘‘
’’عمر سے علیحدہ ہونے کا فیصلہ کرلو…‘‘ اُس نے سمجھایا۔
’’مگر میں اُس سے الگ ہو کر نہیں رہ سکتی۔ تم بتائو کہاں جائوں گی…؟ یہ میرا اپنا بویا ہوا بیج ہے، جو مجھے خود کاٹنا ہوگا…‘‘
’’تو پھر جیسا وہ کہتا ہے، اُس کی مان لو… سچ بتائوں سامعہ! اِس دُنیا میں یہی سب کچھ ہو رہا ہے۔ دُنیا میں سب سے آسان سودا عورت کے روپ میں ہوتا ہے، جسے مرد کرتے ہوئے ایک لمحہ نہیں لگاتا۔‘‘ فاطمہ بھی اُس کے دُکھ کو پوری طرح محسوس کر رہی تھی۔ فاطمہ کی باتوں کے بعد اُسے محسوس ہوا کہ عورت کے لیے دُنیا کے کسی حِصّے میں اور کسی رشتے میں کوئی اَمان نہیں۔ وہ رو پڑی۔ فاطمہ نے اُسے کل ملنے کا کہہ کر فون بند کر دیا۔ وہ زار و زار رو رہی تھی۔ اپنی چھت اور اپنی امان تو میں نے خود ہی کھوئی ہے۔ وہ اِس بے فیض محبت کی پاداش میں ایک ایسی بے امانی کا سودا کر بیٹھی تھی، جس کے بعد سکون اُس کے نصیب میں کہیں نہ تھا۔ اِس رات نیند کی گولیاں کھا کر بھی نیند سے محروم رہی۔ صُبح ہونے تک وہ فیصلہ کر چکی تھی کہ وہ عمر کی بات مان لے گی، کیونکہ دوسرا کوئی راستہ بھی تو نہ تھا۔ بے سکونیوں نے اُس کی زندگی کا رستہ دیکھ لیا تھا۔
٭……٭……٭……٭
اگلے دِن وہ اور فاطمہ ایک ملٹی نیشنل فوڈ چین کے ڈرائیور تھرو میں آڈر بُک کروا رہے تھے کہ برابر والی پارکنگ لین میں اُسے کبیر علی اور آیان کے ساتھ اُن کی نئی بیوی اُلفت نظر آئی، جو آیان کو گود میں بٹھا کر اُس کے سر پر ہاتھ پھیر رہی تھی۔ کتنی مکمل فیملی پکچر تھی۔ آیان اُلفت کے بالوں سے کھیل رہا تھا اور کبیر علی اپنے آرڈر کے اِنتظار میں اِدھر اُدھر دیکھ رہے تھے۔ اُس نے جلدی سے دوپٹے کا پلو منہ پر لے لیا۔ فاطمہ سے اُس کی یہ حرکت چُھپی نہ رہ سکی۔
’’کیا ہوا…؟‘‘ اُس نے سامعہ کی نظروں کے تعاقب میں پاس کھڑی کار کی طرف دیکھا اور پھر دوبارہ سامعہ کو دیکھا، جس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
’’برابر والی گاڑی میں میرا پہلا شوہر اور بیٹا موجود ہیں…‘‘ فاطمہ نے اُس کی بات پر ایک بار پھر اُس طرف نظرڈالی۔
’’اُن کے ساتھ اُن کی دوسری بیوی ہے… دیکھو فاطمہ! میرا بیٹا اُس کے ساتھ کتنا خوش ہے…‘‘ اِس بار وہ منہ پر ہاتھ رکھ کر پُھوٹ پُھوٹ کر رو پڑی۔ اُس کی حالت کے پیشِ نظر فاطمہ نے ڈرائیوتھرو سے باہر نکلنا مناسب سمجھا اور کار آگے بڑھا دی، پھر وہ دونوں پاس ہی ایک ریسٹورنٹ کے کیبن میں آکر بیٹھ گئے۔
’’مجھ سے بہت بڑی غلطی ہو گئی فاطمہ… اِس محبت کے نام پر بہت بڑی غلطی ہوگئی… میں نے اپنی جنت کو خود ٹھکرایا ہے… میں ساری عمر بھی اللہ سے توبہ کرتی رہوں، تب بھی مجھے معافی نہ مل سکے گی۔ میں نے اپنے محبت کرنے والوں کا دِل دُکھایا ہے…‘‘ فاطمہ نے اُسے کُھل کر رونے دیا۔ اچھا ہے آخری بار وہ کُھل کر رو لے۔ ورنہ اُس کے اندر شدید گُھٹن جنم لے گی۔ سامعہ کے اندر کی برسات کچھ کم ہوئی تو فاطمہ نے اُس کی پُشت پر ہاتھ پھیرا اور بولی:
’’سامعہ! بعض اوقات ہمیں خود نہیں معلوم ہوتا کہ ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور اب ہمیں اگلا قدم کیا اُٹھانا ہے…؟ ایسے وقت خود کو وقت کے دھارے پر چھوڑنا مناسب ہوتا ہے… واقعی تم اب ایک ایسے راستے پر کھڑی ہو، جہاں آگے کنواں اور پیچھے کھائی ہے… عمر کی نہ مانو گی تو کہاں جائو گی…؟ اُس کمینے نے تو تمہارا سارا بینک بیلنس بھی ختم کر دیا… کاروبار کے نام پر اپنا فلیٹ بھی تم اُس کے حوالے کر چکی ہو… تو بس اب جیسا وہ کہتا ہے ویسا کرو…‘‘ فاطمہ نے ہاتھ تھام کر اُسے سمجھایا تو وہ بے یقینی کی کیفیت میں اُسے دیکھنے لگی۔ فاطمہ کو ایک لمحے کے لیے اُس کی ذہنی حالت پر شک ہوا، لیکن پھر تھوڑی ہی دیر میں سامعہ نے سر ہلا کر اُس کی بات پر ٹھنڈی سانس بھری تو اُسے تسلی ہوئی۔ دونوں نے وہاں لنچ کیا اور پھر واپس گھر لوٹ آئے۔
٭……٭……٭……٭
اگلے ہفتے ہی وہ اپنا بیگ پیک کر رہی تھی کہ عمر آ گیا، جو اُسے دھمکی دینے کے بعد تقریباً ایک ہفتے سے غائب تھا۔
’’کہیں جا رہی ہو…‘‘ وہ بہت آرام سے پوچھ رہا تھا۔
’’ہاں! سلطان صاحب کے ساتھ دُبئی کا پلان ہے…‘‘ اُس نے بیگ میں اپنا جیولری بکس اور جوتوں کے پیکٹس رکھتے ہوئے عمر کو جواب دیا۔ تو وہ پاس آکر اُس کے گلے لگ گیا۔
’’اُو ڈارلنگ تھینک یو! میری بات مان کر تم نے میرا مان رکھ لیا… آج میں تم سے اِسی سلسلے میں بات کرنے آیا تھا…‘‘ اُس کے اندر دُکھ کے کانٹے اُبھرنے لگے، مگر وہ خاموش تھی، کیوں کہ یہ کانٹے اُس کے اپنے پیدا کردہ تھے، جسے کسی صورت وہ جسم سے نکال کر پھینک سکتی تھی اور نہ ہی اُن کی تکلیف اُسے برداشت ہو رہی تھی۔ عمر کا خوب صورت چہرہ اُسے ایک مکروہ چہرے میں بدلتا محسوس ہو رہا تھا۔ وہ ناجانے اُسے گلے لگائے کیا کچھ کہہ رہا تھا۔ اُسے سوائے اماں کی دُعائوں کے کچھ یاد نہیں تھا۔ آج جب یہ دُعائیں اُس سے روٹھ گئیں تو اب چاہے وہ کتنا بھی برباد ہوتی کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا… ایسے راستے کا اِنتخاب خود اُس کا اپنا فیصلہ تھا پھر بھلا پچھتاوا کیسا…؟ اُس نے بہت نرمی سے خود کو عمر سے علیحدہ کیا اور بیگ کی زِپ لگائی۔
’’کوئی خاص چیز چاہیے تو بتا دو، لے آئوں گی…‘‘
’’اَرئے بھئی! بس نئے پراجیکٹس پر بات کرنا مت بُھولنا۔ جتنی جلد اُن سے نئے منصوبوں کی ڈیل ہو جائے، بہتر ہوگی۔ پہلا پراجیکٹ تو اِنشااللہ اِسی ہفتے شروع ہو رہا ہے۔ پھر تم دیکھنا ہمارے دِن بدل جائیں گے اور ایسا صرف تمہاری وجہ سے ممکن ہوا…‘‘ وہ بہت ترنگ میں تھا۔ اُسے اُس کی ترنگ میں چھوڑ کر وہ واش روم کی طرف بڑھ گئی۔ اب شاور کے نیچے اُسے اپنے ڈھیر سارے دُکھ بھی تو بہانے تھے۔ پھر کبھی نہ رونے کا فیصلہ کرتے ہوئے اُس نے گرم پانی کی پُھوار کے ساتھ اپنے سارے دُکھ بہا ڈالے۔
٭……٭……٭……٭
سلطان احمد کے ساتھ اُس نے پورا ہفتہ گُزارا… سامعہ بنت مظہرالحق کی موت کا ہفتہ تھا۔ اِس بار عیاش عمر آفندی کی بیوی نے جنم لیا تھا۔ اِس ہفتے کے بعد اُس کے اندر ضمیر جیسے کہیں سو چکا تھا۔ سلطان صاحب نے اُسے ڈھیر ساری شاپنگ کروائی۔ وہ بہت خوش تھے اور اِس بات سے بہ خوبی واقف کہ دولت ہو تو کسی بھی عورت کو بآسانی خریدا جا سکتا ہے۔
’’تم کتنی خوب صورت ہو… تمہارا شوہر اِس بات کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتا… تم موتیوں میں تولنے کے قابل ہو سامعہ!…‘‘ وہ لفظ نہیں ایک قسم کے تازیانے تھے، جو اُس کی روح پر لگ رہے تھے۔ وہ تلخی سے مُسکرا دی۔ کبھی لفظوں کا یہی کھیل اُسے کتنا سکون دیتا تھا۔ کبھی وہ اپنی خوب صورتی کے بارے میں بہت کچھ سُننا چاہتی تھی، لیکن آج جیسے دل چاہ رہا تھا کہ سلطان صاحب کے جملوں کے بعد کسی گڑھے میں خود کو گرا کر اُوپر سے مٹی ڈال لے، تاکہ پوری دُنیا سے چُھپ جائے۔ اِس محبت کی پاداش میں وہ جتنی گندی ہو چکی تھی، ایسا اُس نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ وہ کیا سے کیا بن چکی تھی…؟ سوچ رہی تھی طوائف اور اُس میں کیا فرق تھا…؟ وہ سلطان صاحب سے ملنے کے بعد اپنے پورے جسم کو مَل مَل کر دھو رہی تھی، لیکن ایک نہ مٹنے والی نادیدہ غلاطت اُتر کے ہی نہیں دے رہی تھی۔ وہ تقریباً گھنٹہ بھر شاور کے نیچے کھڑی رہی، مگر پھر بھی گندگی اور کراہت کا اِحساس ختم نہ ہو سکا۔
واپسی پر اُس نے ڈھیر سارے تحائف کے ساتھ اپنے اگلے پراجیکٹ کا ایگریمنٹ بھی عمر کے حوالے کیا تو وہ خوشی سے ناچ اُٹھا۔ اُسے گلے سے لگالیا، لیکن اُس نے کسی گرم جوشی کا اِظہار نہیں کیا۔
’’پلیز عمر! میں بہت تھک چکی ہوں… شاور لے کر سونے جا رہی ہوں… ابھی ڈسٹرب مت کرنا…‘‘ وہ خود کو اُس کے حصار سے نکالتے ہوئے بولی تو عمر نے اُسے فوراً چھوڑ دیا۔
’’ اوکے…! اوکے…!! تم جائو… آرام کرو… باتیں تو بعد میں بھی ہو سکتی ہیں، لیکن یار! تم نے آج بہت بڑا کام کر دیا۔ وہ فائل کو چومتے ہوئے بولا تو اُس نے پلٹ کر عمر کو دیکھا اور بولی:
’’ایک بات کہوں عمر!…؟بُرا مت ماننا… زندگی میں پہلی بار کسی کو اپنی عزت بکتے دیکھ کر خوش ہوتے دیکھ رہی ہوں… بڑا ہی عجیب سا لگ رہا ہے…‘‘ اُس کے لہجے میں بہت تلخی تھی۔ وہ لپک کر اُس کے پاس آیا۔
’’اوہ ہنی! پلیز! جذباتیت سے نکل آئو… اب ہمارے پاس اتنی دولت آگئی ہے کہ ہم دونوں کی زندگی بدلنے والی ہے…اگر تم یہ سب نہ کرتی تو شاید سب کچھ ختم ہو جاتا۔ ہمارا رِشتہ سب سے پہلے دائو پر لگتا۔‘‘ عمر نے ڈھٹائی سے اُسے سمجھایا۔
’’دائو پر تو اب بھی یہ رِشتہ لگ ہی چکا ہے… ختم تو اب بھی سب کچھ ہو چکا ہے… اگر تم سمجھو تو…‘‘ اُس نے ڈبڈباتی نظروں سے اُسے دیکھا تو عمر نے اُس سے نظریں چُرا لیں، لیکن ڈھٹائی سے بہت جلد خود کو سنبھالتے ہوئے بولا:
’’ہمارے پاس سروائیو کرنے کا کوئی دوسرا راستہ بھی نہ تھا۔ دیکھو! اگر تم میرے لیے اتنی سی قربانی نہیں دے سکتیں تو اِس رشتے کا کیا فائدہ…؟‘‘
’’اتنی سی قربانی… تم اِسے اتنی سی قربانی کہہ رہے ہو عمر!… میرے اور تمہارے رشتے کے درمیان موجود وہ واسطہ مر چکا ہے، جو نکاح کے وقت وجود میں آیا تھا۔ اب میں تمہاری بیوی نہیں رہی، ایک طوائف بن چکی ہوں اور طوائفیں صرف کوٹھوں پر جنم نہیں لیتیں۔ میری جیسی شادی شدہ عورتیں بھی طوائف بن جاتی ہیں، جن کے پاس اپنے رشتے کو بچانے کے لیے صرف یہی راستہ بچتا ہے کہ وہ بِک جائیں… اپنی عزت کی قربانی دے دیں… مگر تم کیا جانو عورت محبت میں کیوں بکتی ہے…؟ اور شاید یہ تم کبھی نہیں جان سکوگے…‘‘ وہ اُس وقت شدید تکلیف میں تھی۔
’’پلیز! جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں…جائو شاور لو اور سو جائو… صُبح جب اُٹھو گی تو اپنی انہی باتوں پر ہنسو گی…‘‘ اُس نے بے پروائی سے کہا تو وہ اُسے تلخی سے دیکھتی سر جھٹکتی کمرے کی طرف بڑھ گئی۔ آج اُسے اباجی بہت یاد آ رہے تھے۔ وہ اکثر معاشرے کے اِس گھنائونے روپ کے بارے میں بات کیا کرتے تھے تم گھر بیٹھی عورتوں کو کیا معلوم باہر مرد نہیں بھیڑئیے پھر رہے ہیں، جو اکیلی عورت کو دیکھ چیرپھاڑ کر کھانے پر تیار ہیں۔ اگر میں ڈرتا ہوں تو صرف اتنا کہ میں تم دونوں کا قوام ہوں۔ اللہ نے میرے حِصّے میں دی ہوئی عورتوں کی مجھ سے ضرور پوچھ کرنی ہے۔ اگر کوئی اونچ نیچ ہو گئی تو اپنے ربّ کوکیا جواب دوں گا…؟‘‘ ابا آپ بالکل ٹھیک ڈرتے تھے۔ آپ کے زیر سایہ رہ کر میرا کچھ نہیں بگڑا، لیکن آج میں سر تا پا عزت سے محروم ہو گئی ہوں، مگر ایسا صرف میری اپنی وجہ سے ہوا ہے، جو شخص آپ نے میرے لیے چُنا تھا، میں نے اُس کی قدر نہ کی۔ اِس لیے اتنی بڑی سزا پائی۔ وہ بستر پر لیٹی سوچتی رہی اور بے آواز روتی رہی، مگر کب نیند مہربانی ہوئی اُسے معلوم ہی نہ ہوسکا۔
٭……٭……٭……٭
اُس دِن کے بعد واقعی اُن کی زندگی بدل گئی۔ انہوں نے وہ فلیٹ چھوڑ دیا۔ ڈیفنس کے پوش علاقے میں رہنے لگے۔ عمر اُسے اپنے دوستوں کی پارٹیز میں لے کر جاتا۔ جہاں اب وہ کُھلے عام اُس کے سامنے ڈرگز لیتا اور کئی بار اُس کو بھی شامل کر لیتا۔ اُسے لگتا کہ وہ آہستہ آہستہ بے حِس اور اِس ماحول کی عادی ہوتی جا رہی ہے۔ جیسے جیسے پیسہ آرہا تھا، اُس کی عزت دُور جا رہی تھی۔ وہ عمر کے حلقے اَحباب میں بہت مقبول ہو رہی تھی۔ اُسے محسوس ہوتا کہ اب وہ ایک ڈمی سی بن چکی ہے۔ جیسا عمر کہتا وہ کرتی جا رہی تھی، مگر سب سے تکلیف دہ بات یہ تھی کہ اُس کے دِل میں اب عمر کے لیے بھی کوئی خاص جذبات نہیں رہے۔ عمر سے اُس کی وہ محبت کہیں دُور کھڑی ہنس رہی تھی، جس کے لیے اُس نے دُنیا سے ٹکر لی تھی اور اپنا ہنستا بستا گھر برباد کیا۔
٭……٭……٭……٭
آج بہت دِن کے بعد فاطمہ اُس سے ملنے آئی۔ اُسے دیکھ کر حیران رہ گئی۔
’’تمہیں کیا ہو گیا…؟ آنکھوں کے گرد اِتنے حلقے کیوں پڑ گئے…؟ چہرے کی فریشنس کہاں گئی…؟‘‘ وہ ہنس پڑی اور پاس پڑے سیگریٹ کی ڈبی سے سیگریٹ نکال کر سُلگائی۔
’’فاطمہ یہ ساری بے سکونی میری اپنی پالی ہوئی ہے۔ ابا جی ٹھیک کہتے تھے جب کوئی عورت بے غیرتی کا چولا پہن لیتی ہے تو بے سکونی اُس کے ساتھ چمٹ جاتی ہے۔ تم سب جانتی تو ہو۔ جب تک شریف باپ کی بیٹی اور شریف شوہر کی بیو ی تھی۔ عزت دار اور سکون والی زندگی گُزار رہی تھی۔ اب بے غیرت شوہر نے بے سکونی کا تحفہ دیا ہے تو وہ میرے چہرے پر بھی نظر آئے گی۔‘‘ وہ بہت تلخی سے بولی۔
’’اتنی تکلیف میں ہو تو چھوڑ کیوں نہیں دیتیں اُسے…؟‘‘ فاطمہ نے دُکھ سے کہا۔
’’چھوڑ کر کہاں جائوں گی… مجھے کوئی شریف مرد تو اپنائے گا نہیں… ایسا ہی ایک اور مرد پھر مجھے اِستعمال کرے گا تو نیا تجربہ کرنے کا کیا فائدہ…؟ جیسا چل رہا ہے، چلنے دو… میرے لیے یہی سزا کافی ہے کہ میں اپنی ہی لگائی ہوئی آگ میں جلتی رہوں…‘‘
’’تمہیں پتا ہے پچھلے دِنوں آیان سے ملنے گئی تھی… اب تو کافی بڑا ہو گیا ہے… پہلے سوچتی تھی کہ جب وہ تھوڑا بڑا ہوگا تو اُسے اپنے پاس لے آئوں گی، لیکن نہیں اب وہ اپنی ماں کو اتنے گناہوں میں دیکھے گا تو کیا سوچے گا کہ اُس کی ماں ایک بُری عورت ہے۔‘‘ وہ بہکی بہکی سی باتیں کر رہی تھی۔ فاطمہ کو اُس کی دماغی حالت پر دُکھ ہوا۔ اُ س نے آگے بڑھ کر سامعہ کو گلے سے لگا لیا۔ عورت محبت کا گناہ کرکے ہمیشہ خسارے میں کیوں رہتی ہے…؟ اپنے گناہ کی قیمت اُسے ہمیشہ مرد سے زیادہ بھگتنی پڑتی ہے۔ مرد گناہ کے بعد بھی ویسا کا ویسا ہی رہتا ہے، لیکن عورت کا ایک غلط قدم اُسے گناہ کی اُن گہرائیوں میں پٹخ دیتا ہے، جہاں سے وہ کبھی واپس نہیں پلٹ سکتی۔
’’اَرے! میں بھی کیا بکواس کیے جا رہی ہوں۔ یہ بتائو کیا کھائو گی…؟‘‘ سامعہ کو خیال آیا کہ فاطمہ کو آئے بہت دیر ہوگئی ہے اور اُس نے اب تک کچھ کھانے پینے کو نہیں پوچھا۔ اُس نے احمدعلی کو بُلایا اور اُسے جلد اَز جلد کچھ لنچ کے لیے تیار کرنے کا کہا۔ وہ اوکے کہتا ہوا مُڑ گیا۔ اب اِس بڑے گھر میں ملازمین بھی بڑھ چکے تھے۔ اِس گھر کے لیے زیادہ تر مرد ملازمین تھے۔ احمد علی عمرآفندی کا خاص الخاص تھا، جو اُس نے اِس بڑے گھر میں شفٹ ہونے کے بعد رکھا تھا۔ تھوڑی دیر میں اُس نے لنچ کے لیے دونوں کو ٹیبل پر بُلا لیا۔ گھر میں چوں کہ آئے روز دعوتیں ہوتی تھیں۔ اِسی لیے فریزر میں ریڈی میڈ فوڈ کے علاوہ گھر کے بنے فریزڈ آئٹم ہمیشہ موجود رہتے، جو مہمانوں کی اچانک آمد پر فوری طور پر تیار ہو جاتے۔ دونوں نے مل کر لنچ کیا اور پھر فاطمہ اُسے اپنے اگلے پراجیکٹ کے بارے میں بتا کر رُخصت ہو گئی۔ وہ اکثر اپنے نئے ویڈیوز میں سامعہ کو بھی شامل کر لیا کرتی تھی۔ اُس کا یو ٹیوب چینل بہت اچھا چل پڑا تھا۔ جہاں وہ میڈیا کی خبروں کو ہائی لائٹ کرکے لوگوں کو سنسنی خیز ویڈیوز دِکھاتی۔ ڈرامہ اُس نے چھوڑ دیا تھا، کیوں کہ ڈائریکٹرز اُسے چھوٹے موٹے رولز میں کاسٹ کرتے، جو اُسے قبول نہ تھے۔
٭……٭……٭……٭
عمر کے ساتھ اُس کی زندگی کے تین سال مکمل ہوچکے تھے۔ آج اُن کی شادی کی تیسری سالگرہ تھی۔ عمر نے ایک بڑے فائیو سٹار میں پارٹی رکھی۔ شہر کی بڑی بزنس کلاس اور گورنمنٹ آفیسرز بھی موجود تھے۔ سُرخ ٹاپ اور سکن ٹائٹ بلیک پینٹ میں وہ ایک پری کی طرح پورے ہال میں گُھومتی پھرتی نظر آرہی تھی۔ ہر کسی کی ٹیبل پر جا کر اُن کا حال احوال پوچھتی۔ بے باک سی وہ سامعہ تو ہرگز نہ تھی، جس کے سر سے دوپٹہ کبھی اُترتے نہیں دیکھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ اُس کے اِعتماد میں زمین آسمان کا فرق آ گیا تھا۔ بڑی بے باکی سے وہ مردوں کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر قدرے لہرا کر اُن سے بات کرتی تو سامنے والے کا دِل پھڑک کر رہ جاتا۔ کیک کاٹنے کے لیے وہ عمر کو ڈھونڈ تی ہوئی ہال کے ایک کونے میں آ گئی۔ جہاں عمر کسی کے ساتھ باتوں میں مصروف تھا۔ اُس نے آواز دی تو دونوں نے پلٹ کر دیکھا۔ سامنے والے کو اُس نے فوراً پہچان لیا۔ عمر نے اُس کا تعارف کروایا۔
’’اِدھر آئو سامعہ! یہ ہیں مسٹر بلال… ایک بڑی ایڈورٹائزنگ کمپنی کے مالک… پچھلے دِنوں ہی ایک پارٹی میں ملاقات ہوئی تھی تو میں نے آج انہیں یہاں اِنوائٹ کر لیا۔‘‘ بلال نے بھی سامعہ کو دیکھتے ہی پہچان لیا۔
’’اَرے سامعہ! آپ یہاں…‘‘ پھر جیسے کچھ کہتے کہتے رُک گیا۔
’’کیا آپ دونوں ایک دوسرے کو جانتے ہیں…؟ یہ تو بہت اچھا ہو گیا۔ عمر نے حیرت سے پوچھا۔
’’جی… میں انہیں بہت اچھی طرح جانتا ہوں، لیکن انہیں یہاں آپ کی بیوی کے طور پر دیکھ کر بہت حیرانی ہوئی۔‘‘
’’کیا مطلب…؟‘‘ عمر نے دونوں کو باری باری حیرانی سے دیکھا۔ جیسے بات سمجھنے کی کوشش کر رہا ہو۔
’’عمر یہ وہی بلال ہیں، جنہیں میں زخمی کرکے ہوٹل سے نکلی تھی اور آپ سے ملاقات ہوئی تھی۔‘‘ سامعہ نے بھی خاموش رہنا مناسب نہ سمجھا۔
’’اَرے مس سامعہ! چھوڑیں پُرانی باتیں…جو گُزر گیا سو گُزر گیا… آج کی بات کریں۔‘‘ وہ ڈھٹائی سے بولا تو سامعہ کو شدید غُصِہ آیا، لیکن عمر کے خیال سے پی گئی۔ گھر کی پارٹی تھی۔ وہ کوئی ایسی بات نہیں کر سکتی تھی، جس سے محفل خراب ہو۔ اسی وقت عمر کا قہقہہ گونجا۔
’’بلال صاحب! واقعی کبھی ہماری بیگم بہت غُصّے والی تھیں، لیکن اب ہم نے اِن کو لگامیں ڈال دی ہیں۔ آپ بالکل فکر نہ کریں۔ یہ اب آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گی۔‘‘
’’جی! وہ تو نظر آرہا ہے…‘‘ اُس نے طنزیہ انداز میں اُس کے لباس کو گُھورتے ہوئے کہا۔ جیسے اُس کے حُلیے سے اُس کے کردار کا پوری طرح اندازہ لگا چکا ہو۔ وہ شدید بدمزہ ہوئی۔ عمر کو کیک کٹنے کا کہہ کر وہاں سے پلٹ کر میز تک آگئی، لیکن ساری پارٹی میں بلال کی طنزیہ نظروں کے حصار میں اُسے اپنا وجود آگ کا ایک گولا محسوس ہوا۔ جیسے وہ شخص اُس کی حالت سے لُطف اُٹھا رہا تھا اور ساتھ ہی پُرانی اور نئی سامعہ کا موازنہ کر رہا تھا۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے اُس کی نظریں پوچھ رہی ہوں کہ بی بی اُس وقت تو تم بڑی ساوتری بن رہی تھیں… اب کیا ہوا…؟ وہ کوشش کر رہی تھی کہ اُس کا سامنا بلال سے کم سے کم ہو، لیکن مہمانوں میں سب سے آخر میں رُخصت ہونے والا بلال تھا، جو دونوں کو اگلی ملاقات کی دعوت دیتے ہوئے رُخصت ہوا۔ اُس کے ساتھ ہی سامعہ کو ایک ایڈ کی آفر بھی دی۔ جس کے لیے اُس نے اُسی رات عمر کو منع کر دیا۔
’’مجھے اُس شخص کی صورت سے بھی نفرت ہے۔ میں آئندہ اُسے کسی صورت برداشت نہیں کروں گی۔‘‘
’’تم خوامخواہ جذباتی ہو رہی ہو… اُس نے کہا تھا کہ رات گئی بات گئی… تم بھی چھوڑو… چِل (chill) کرو۔‘‘ وہ لاپروائی سے بولا اور بات ختم کر دی۔
٭……٭……٭……٭
دوسرے دِن اُس کے بے دار ہوتے ہی بلال کی کال آگئی۔ اُس نے بِنا دیکھے فون اُٹھا لیا، لیکن بلال کی آواز سُنتے ہی اُس کی نیند پوری طرح غائب ہو چکی تھی۔
’’کیسی ہیں مسز عمر آفندی…؟‘‘ دوسری طرف بلال کی مکروہ آواز سنتے ہی وہ کچکچا کر رہ گئی۔ اُسے اندازہ ہو گیا تھا کہ بلال کو اُس کا نمبر عمر سے ہی ملا ہوگا۔
’’سُنو! مجھے تم سے کوئی بات نہیں کرنی۔ اِس لیے میری جان چھوڑو۔‘‘ یہ کہہ کر اُس نے فون بند کرنا چاہا۔ دوسری طرف سے بلال نے قہقہہ لگایا اور بولا:
’’یار! دُنیا بھر میں اپنا پیار بانٹنے والی صرف ہم سے ہی اتنی گریزاں کیوں رہتی ہے…؟‘‘
’’کیا مطلب…؟ تم کہنا کیا چاہتے ہو…؟‘‘
’’وہی جو تم سُننا نہیں چاہتیں… مانتا ہوں جب ہم پہلے ملے تھے، تم پاکباز تھیں، لیکن اب تو ہر محفل میں تمہاری خوب صورتی کے ترانے بج رہے ہیں۔ ساری دُنیا تمہارے حُسن کے چشمے سے فیض یاب بھی ہو رہی ہے تو ہمیں محروم کیوں رکھتی ہو…؟‘‘ وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ جب بلال پہلے اُس سے ملا تھا، تب خبیث تھا یا اب خبیث ترین ہو چکا تھا۔
’’شٹ اپ!… منہ بند کرو اپنا… اور اگر دوبارہ فون کیا تو…‘‘ وہ غُصّے سے ہانپ اُٹھی۔
’’فون تو میں بار بار کروں گا… یار! تم پر دِل آگیا تھا… تم جیسی لڑکیاں اتنی آسانی سے نہیں ملتیں… اگر مل جائیں تو چھوڑنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔‘‘ وہ بڑے مکّارانہ انداز میں بات کر رہا تھا۔
’’ویسے آپس کی بات ہے… تمہارا شوہر چاہتا ہے کہ تم میرے کسی اِشتہار میں کام کرو…‘‘
’’دفع ہو جائو… مجھے نہیں کرنا تمہارے کسی اِشتہار میں کام…‘‘ وہ زور سے چِلّائی۔
’’سوچ لو ایسا موقع بار بار نہیں ملتا…‘‘ وہ دوبارہ بولا، تو وہ چیخ پڑی۔
’’لعنت بھیجتی ہوں تمہارے موقعوں پر… اور لعنت بھیجتی ہوں تم پر… تم میرے لیے اتنے فکر مند کیوں ہو…؟ جائو جا کر کسی ایسی ماڈل کو چانس دو جو بہ قول تمہارے ایک چانس کے لیے موقعے ڈھونڈتی ہے۔ مجھے تمہارے ساتھ کام کرنے کا کوئی شوق نہیں…‘‘ وہ واقعی اُس شخص سے شدید قسم کی چِڑچکی تھی۔ اِس کے بعد دوسرا غُصّہ اُسے عمر پر آیا، جو ساری بات جانتے بوجھتے اُس کو سامعہ کا نمبر دے بیٹھا۔ ساری کہانی سے واقف ہونے کے باوجود چاہتا تھا کہ بلال اُسے کام کا ایک موقع دے اور وہ کوئی نہ کوئی اِشتہار ضرور کرے۔
فون بند کرکے وہ سیدھی عمر کے پاس آئی، جو ٹیریس پر ورزش کر رہا تھا۔
’’عمر! تم نے بلال کو میرا نمبر کیوں دیا…؟ کیا تم نہیں جانتے کہ اُس شخص نے میرے ساتھ کیا سلوک کیا تھا…؟‘‘ وہ عمر کے پاس آکر زور سے چِلّائی۔ اُسے عمر پر شدید غُصّہ آ رہا تھا۔
’’کول ڈائون بے بی!… ابھی تک تمہیں سیاست نہیں آئی اور نہ ہی موقع سے فائدہ اُٹھانا جانتی ہو… بُھول جائو پُرانی باتیں… وہ تمہارے ساتھ کام کرنا چاہتا ہے… بھلا میں اُسے کیسے منع کر سکتا تھا… چھوڑو ساری باتیں اور اُسے ’اوکے‘ کر دو…‘‘ آرام سے ورزش کرتا ہوا عمر اُسے تحمل سے جواب دے رہا تھا۔ وہ شدید چِڑ گئی اور جھنجھلاتے ہوئے بولی:
’’مجھے کوئی اِشتہار نہیں کرنا اور خاص طور پر اُس شخص کے ساتھ کچھ نہیں کرنا…‘‘
’’اَرے یار! گھر آئی لکشمی کو کون ٹھوکر مارتا ہے… میرے خیال میں تم جذباتی ہو رہی ہو… ایسا کرو اندر جائو… اچھی سی کافی بنا کر پیئو اور پھر ٹھنڈے دماغ سے دوبارہ سوچو… ورنہ اپنا نقصان کر بیٹھو گی…‘‘ وہ ڈمبل اُٹھاتے ہوئے تھوڑی دیر کو رُکا اور اُسے سمجھایا۔ اُسے پھر غُصّہ آگیا۔
’’عمر ضروری نہیں کہ میں تمہاری ہر بات مانوں…یہ میری اپنی زندگی ہے… اِسے اپنی طرح گُزارنے کا مجھے پورا حق ہے… تمہیں کوئی حق نہیں کہ تم میری مرضی کے خلاف میرے لیے کوئی فیصلہ کرو۔‘‘ وہ غُصّے سے ہانپ رہی تھی۔ اِس بار اُس کی بات پر عمر نے ڈمبل ایک طرف رکھ کر کھڑے ہوتے ہوئے پہلے اُس پر پوری توجہ مرکوز کر دی۔ پھر آگے بڑھ کر اُس کے بال دونوں ہاتھوں میں جَکڑ لیے۔ زور دار تھپڑ مارتے ہوئے دانت کچکچا کربولا:
’’سُنو سامعہ آفندی! تم میری بیوی ہو اور تمہارے بارے میں صحیح یا غلط کسی بھی قسم کے فیصلے کا مجھے پورا اِختیار ہے۔ ہم دونوں کی زندگی ایک ساتھ جُڑی ہے۔ تمہارے ایک غلط قدم سے ہم دونوں کے مستقبل کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ایسا میں کبھی کسی صورت برداشت نہیں کر سکتا۔‘‘
’’عمر! وہ شخص مجھے کسی صورت برداشت نہیں… میں اُس کے کسی اِشتہار میں کام نہیں کروں گی…‘‘ اُس نے اپنے بالوں کو اُس کے ہاتھوں سے چھڑوانے کی کوشش کی، مگر ناکام رہی۔
’’تم اُس کے ساتھ ایک بار نہیں، بلکہ جتنی بار وہ چاہے گا کام کرو گی… یہ میرا فیصلہ ہے اور یاد رکھو میں تمہارا شوہر ہوں…‘‘ وہ ہر صورت اُس سے اپنی بات منوانا چاہتا تھا۔
’’اگر میں تمہاری بات نہ مانو تو…؟‘‘ آخری فیصلہ سُننے کے لیے اُس نے بھی اپنی بازی کھیل ڈالی۔
’’اگر تم میری بات نہیں مانو گی تو بہت آسانی سے اپنی راہ الگ کر سکتی ہو… مجھے عورتوں کی کمی نہیں… صرف اتنا یاد رکھو میں نے ہمیشہ اپنی بات منوانا سیکھا ہے۔ اگر کوئی مجھے اِنکار کر دے تو اُسے اپنی زندگی میں رکھنے کا مجھے کوئی شوق نہیں…‘‘ وہ بے رحمی کی حد تک سنگ دِل ہو رہا تھا۔ اُس کے جملے سامعہ کا دِل کاٹ رہے تھے۔
’’یہ تم بار بار مجھے چھوڑنے کی دھمکی کیوں دیتے ہو…؟ جانتے ہو تمہارے سوا میری زندگی میں کوئی اور نہیں اِسی لیے چھوڑنے کی بات آسانی سے کر دیتے ہو…‘‘ وہ روپڑی۔ تب بھی عمر کا دِل نہیں پسیجا۔
’’سُنو! اِس دنیا میں سروائیو کرنے کے لیے عورت کو مرد کی زیادہ ضرورت ہے، کیوں کہ مرد کو ایک چھوڑ ہزار مِل جاتی ہیں۔ اِس لیے عقل مند عورتیں ہمیشہ اپنے سے وابستہ مرد کی ہر بات مان کر اُس کے ساتھ زندگی گُزارتی ہیں۔ سچ بات تو یہ ہے کہ مجھ جیسے خوب صورت مرد کو عورتوں کی کیا کمی… شُکر کرو کہ میری بیوی ہو… ورنہ آج بھی میرے پیچھے بہت سی لڑکیاں دیوانی ہیں… صرف تمہارے خیال سے اُن کو نظر انداز کرتا ہوں۔‘‘ وہ مُسکراتے ہوئے اُس کے بال ایک جھٹکے سے چھوڑتے ہوئے بولا۔
گال پر پڑا تھپڑ اتنا زور دار تھا کہ سامعہ کا گال سُوجھ گیا۔ اب وہ ایسی دِل جلانے والی باتیں کرکے اُس کو زچ کر رہا تھا۔ وہ اُس پر جھپٹ پڑی۔
’’جان سے مار دوں گی، اگر کسی دوسری عورت کا نام بھی لیا…‘‘
’’تو پھر میری جان بات مان لو میری… خواہ مخواہ اَنا کا مسئلہ بنایا ہوا ہے…‘‘ وہ اُس کے حملے کو روکتا ہوا اُسے گلے سے لگاتے ہوئے سامعہ کے کان میں سرگوشی کے انداز میں بولا۔ وہ روتے ہوئے اُس کے گلے سے لگ گئی۔ اب اُس کے پاس عمر کی بات ماننے کے سوا کوئی اور چارا بھی تو نہ تھا۔ وہ اُسے چھوڑ کر کہاں جاتی…؟ اُس کی ساری کشتیاں جل چکی تھیں۔
٭……٭……٭……٭
ایک ہفتے کے بعد ہی وہ بلال کے ساتھ مری میںشوٹ پر تھی۔ ایک بیوٹی کریم کا ایڈ تھا، جس میں اُس کا رول سیکنڈ لیڈ تھا۔ بہ قول بلال اب وہ غیر شادی شدہ یاکم عمر تو رہی نہیں۔ شُکر کرے کہ یہ چھوٹا سا پارٹ بھی اُسے مل گیا۔ صرف عمر کی خواہش پر اُسے یہ رول ملا تھا۔ اُسے تو بلال کا شُکر گُزار ہونا چاہیے تھا۔ ساتھ ہی بلال نے اُس سے ہر طرح کی قیمت بھی وصول کی۔ وہ اندر ہی اندر دُکھی تھی۔ اُسے اِستعمال کرکے جہاں بلال نے اپنی اَنا کے ناگ کو دودھ پلایا تھا۔ وہیں وہ خود ختم ہو چکی تھی۔ بلال بہت خوش تھا۔ ایک اچھی اماونٹ کا چیک اُس کے حوالے کرکے وہ لوٹ گیا۔ اُس نے دو دن مزید وہاں گُزارنے کا فیصلہ کیا اور تنہا مال روڈ پر گُھومتی رہی۔ اندر ایک خالی پن بس چکا تھا، جسے وہ کوئی نام نہ دے پائی۔ کیا واقعی وہ عمر آفندی سے شادی کرکے گھاٹے کا سودا کر بیٹھی تھی…؟ اِس سوال سے وہ جتنا بچنے کی کوشش کرتی، یہ سوال بار بار اُس کے سامنے آکر کھڑا ہو جاتا، مگر اُس کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ آج اُسے اماں بہت یاد آرہی تھیں۔ جب اُس نے پچھلی بار اُ نہیں فون کیا تھا۔ تب فون اُٹھانے والی اماں کی میڈ نے اُسے بتایا تھا کہ اُنہیں چار دِن سے بخار آ رہا تھا۔ وہ اب کچھ بہتر ہیں، مگر سو رہی ہیں۔ چھوٹی بی بی کہہ رہی ہیں کہ اُنہیں کوئی ڈسٹرب نہ کرے۔ اِس لیے میں ابھی اُنہیں اُٹھا کر آپ کی بات نہیں کروا سکتی، لیکن آپ کا پیغام ضرور دے دوں گی۔ پھر وہ مری شوٹ پر آگئی۔ واپس جا کر اُس نے دوبارہ اماں کو فون کیا تو دوسری طرف فون کبیر علی نے اُٹھایا۔
’’اماں کیسی ہیں…؟‘‘ اُس نے سلام کیا اور پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ چار دِن ہاسپٹل رہ کر آئی ہیں۔ کئی بار تمھیں فون کیا، لیکن تمہارا فون بند جا رہا تھا۔ تمہیں بہت یاد کر رہی ہیں۔ اگر ممکن ہو تو آکر مل جائو… وہ اُڑتی ہوئی اماں کے پاس پہنچی۔ وہ بہت کمزور لگ رہی تھیں۔ وہ جا کر اُن کے گلے لگ گئی اور پُھوٹ پُھوٹ کر رونے لگی۔ دوسری طرف ماں تھیں۔ اُن کا بھی دِل بھر آیا۔ حالاں کہ جو کارنامے اُن تک پہنچ رہے تھے۔ اِس کے بعد وہ اُس سے شدید ناراض تھیں۔ بہت کچھ پوچھنا اور سمجھانا چاہ رہی تھیں۔ کبیر علی اور اُلفت نے دونوں کو تنہا چھوڑ دیا۔
’’اماں! آپ اتنی بیمار تھیں… مجھے فون کیوں نہیں کیا…؟ میں آجاتی آپ کے پاس…‘‘ سامعہ نے اُن کا ہاتھ پکڑ کر نرمی سے کہا۔
’’سامعہ! اللہ نے اگر ایک بیٹی لے لی تو اُلفت کی صورت میں دوسری بیٹی سے نواز دیا ہے، جو مجھے کسی چیز کی کمی نہیں ہونے دیتی…‘‘ وہ اُلفت سے بہت خوش تھیں۔ سامعہ کو ایک لمحے کے لیے اُلفت سے جلن ہوئی، لیکن دِل کو سمجھا لیا کہ اگر آپ اپنی جگہ اپنی مرضی سے چھوڑ دیتے ہیں تو کوئی نہ کوئی تو وہ جگہ بھر دیتا ہے اور اُلفت نے اُس کی جگہ بہت اچھی طرح سے بھر دی تھی۔ اُس کے پیچھے کبیر علی، آیان یا اماں، بلکہ کسی کو بھی سامعہ کی غیر موجودگی کا ذرا سا ملال نہ تھا۔
’’سامعہ! تجھے معلوم ہے میں بیمار کیوں پڑی…؟‘‘ اماں کی آواز میں کمزوری اور لرزش تھی۔ سامعہ نے حیرانی سے اماں کی طرف دیکھا اور نفی میں سر ہلا دیا۔
’’جس دِن تو اِس گھر سے گئی تھی تو میرا خیال تھا کہ صرف اپنی پسند کی شادی کا بُھوت سوار ہے، لیکن مولوی مظہر الحق کی بیٹی اُن کی عزت کا جنازہ نکال دے گی، اِس بات کا تو تصور بھی نہ تھا۔‘‘ وہ بہت دُکھ سے اُس کی طرف دیکھ رہی تھیں۔ اُسے اندازہ ہو گیا کہ اُس کی داستانیں اماں تک بھی پہنچ گئی ہیں۔
’’سامعہ! کاش ظفر کے بجائے تو مر جاتی…‘‘ اِس بار اماں کے جملوں نے اُسے اندر تک لرزا کر رکھ دیا۔ وہ اب بے آواز رو رہی تھیں۔
’’میں نے کبیرعلی کو منع کیا تھا کہ تمہیں میری حالت کا مت بتانا، مگر وہ جانتا تھا کہ اگر یہ دُکھ میرے اندر رہ گیا تو شاید میں زندہ نہ رہ پائوں۔ اِسی لیے تجھے بُلا لیا۔ واقعی اِس وقت اگر میرے اندر ذرا ہمت اور طاقت ہوتی تو میں تجھے اِتنا مارتی کہ تیرا دَم نکل جاتا، لیکن مجبور ہوں۔ سوچ رہی ہوں کہ تیری پرورش میں مجھ سے کہاں غلطی ہوئی، جو اتنی بڑی آزمائش اللہ نے میرے مقدر میںلکھ دی۔‘‘
’’نہیں اماں! پلیز… مجھے بددعا مت دیں۔ واقعی میں بھٹک گئی ہوں، لیکن مجبور ہوں۔ اُسے چھوڑ نہیں سکتی۔ میں نے اپنی جنت کو اپنے ہاتھوں سے جہنم میں بدل دیا۔‘‘ وہ ہاتھ جوڑ کرا ماں سے معافی مانگ رہی تھی۔ اس نے بہت سے لوگوں کا دِل دُکھایا تھا، مگر ماں کا دِل دُکھا کر اُس نے اپنے لیے جہنم کا دَر کھول لیا تھا۔
’’میں چاہوں بھی تو تجھے معاف نہیں کر سکتی، کیوں کہ تو نے اپنے ربّ کو ناراض کیا۔ بے شک تو نے اپنی پسند کی شادی کی تھی۔ اِس کی تجھے مذہب نے اجازت دی، لیکن شادی کے بعد ایسی گناہ آلود زندگی پر تجھے اللہ کبھی معاف نہیں کرے گا اور اگر اُس نے معاف نہیں کیا تو بھلا میری معافی کی کیا اہمیت…؟‘‘
وہ بہت دُکھی مگر مجبور تھیں اِس کے لیے کچھ نہیں کر سکتی تھیں۔ سوائے سمجھانے کے اور سمجھانے کے بعد بھی اُنہیں یقین تھا کہ شاید وہ یہ گناہ والی زندگی کبھی نہ چھوڑ سکے۔
وہ تھوڑی دیر اُن کے پاس یونہی بیٹھی رہی۔ آیان اسکول سے آگیا تھا۔ اُسے اپنے پاس بُلا کر پیار کیا۔ اب کافی بڑا بڑا اور سمجھ دار لگ رہا تھا۔ کوئی شیطانی اور نہ ہی شرارت۔ بس خاموش نظروں سے اُسے دیکھ رہا تھا۔ اُس کے اندر دُکھ کے بھانبھڑ جلنے لگے۔ وہ اُسے پیار کرکے اماں کے پائوں کو ہاتھ لگا کر وہاں سے اِس بات کا اِرادہ کرتے ہوئے اُٹھی کہ آئندہ کبھی یہاں نہیں آئے گی۔
٭……٭……٭……٭
گھر آ کر اُس نے بہت کوشش کی کہ اُسے سکون مل جائے، لیکن بے قراری کسی صورت کم ہی نہیں ہو رہی تھی۔ وہ عمر کو فون ملانے لگی، لیکن اُس کا فون مسلسل بزی جا رہا تھا۔ تھک کر اُس نے اکٹھا تین چار نیند کی گولیاں ایک ساتھ حلق میں اُنڈیلیں اور تکیے پر سر دھر دیا۔ شاید نیند اُسے فی الوقت سکون دے جائے اور بے چینی ختم کر دے۔ اُس کی پناہ صرف اِس دنیا سے غفلت میں ہی تھی۔ اُسے اُس کی من چاہی دُنیا نے کتنا ذلیل کرکے رکھ دیا تھا۔ ابا صحیح کہتے تھے کہ دُنیا میں ہمارے اِردگرد بے شمار آفتیں ہیں، جو ہمیں گھیرنے کو ہمہ وقت تیار رہتی ہیں۔ اُن سے بچنے کی کوشش میں ہی ہماری عافیت ہے۔ اگر اُن سے بچ گئے توبس آخری آفت موت کی صورت ملے گی اور پھر جنت کا قدم آسان ہو جاتا۔ اِس وقت وہ بار بار ابا کی یہی بات سوچے جا رہی تھی اور دُعا کر رہی تھی کہ کاش موت ہی اُسے لپک لے۔ وہ ایسی زندگی گُزارتے ہوئے زندوں میں نہ تھی۔ بے سکونی اور بے قراری ہر وقت اُس کا احاطہ کرتی اور وہ بے چینی کو وجود کا حِصّہ بنتے دیکھتی اور کچھ نہ کر پاتی۔ ایسی بے چینی کبیر علی کے ساتھ نہ تھی۔ اِس گناہ آلود زندگی نے اُسے بے چین اور بے سکون کر دیا تھا۔ اُسے بالکل سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ اِس گناہ آلود زندگی سے پیچھا کیسے چھڑائے…؟ عمر اُس کی محبت تھا، مگر یہ کیسی محبت تھی، جس نے اُسے گناہ آلود زندگی بسر کرنے پر مجبور کر دیا۔ کیا لڑکیاں ایسی محبت کی دُعائیں مانگتی ہیں…؟ کیا محبت جیسے پاکیزہ جذبے کا ایسا انجام ہوتا ہے…؟ اگر اُس نے اپنے لیے ایک من چاہا شخص پانے کی خواہش کی، تو کیا غلط کیا…؟ جو ایسی گناہ آلود زندگی اُس کی قسمت میں لکھ دی گئی۔ وہ شدید تکلیف میں تھی۔ اُسے لگ رہا تھا کہ اُس کا وقتِ نزع آپہنچا۔ اُسے بچپن سے لے کر اب تک گُزری اپنی ساری زندگی یاد آ رہی تھی۔ ابا کی وقت بے وقت نصیحت اور ڈانٹ… ظفر کی محبت… اماں اور خالہ کی بھرپور توجہ… کبیر اور ثنا کی باتیں… آیان کا لمس… پھر عمر آفندی کے محبت سے لبریز والہانہ انداز… کیا کچھ نہیں تھا اُس کی زندگی میں… اُسے محسوس ہو رہا تھا کہ کوئی کانٹے دار شے اُس کے دونوں پائوں کے انگوٹھوں سے کھینچتی ہوئی ٹخنوں تک آئی۔ شاید وہ کوئی کانٹوں بھری جھاڑی تھی، جس نے اُس کے انگوٹھوں سے ٹخنوں تک شدید تکلیف سے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اُس نے حالتِ نزع میں ہی زور دار چیخ ماری۔ اُفففف کتنی شدید تکلیف تھی… وہ اُٹھ کر بیٹھ گئی… وہ پسینے میں ڈوبی ہوئی ہانپ رہی تھی اور اُس تکلیف کو یاد کر رہی تھی جو اُسے اِس خاردار جھاڑی کے صرف ٹخنوں تک آنے پر ہوئی تھی۔ یا میرے مولا!… کیا واقعی وقتِ نزع ایسی ہی تکلیف سہنی پڑے گی…؟ اُس نے گھڑی پر نظر ڈالی۔ وہ پانچ گھنٹے سو چکی تھی اور ایسا سب اُس کے خواب میں تھا۔ اُس نے گُھومتے سر کو دونوں ہاتھوں سے تھاما اور گھٹنوں پر رکھ لیا۔ نیند کی گولیوں کا اثر ابھی بھی باقی تھا، لیکن اِس تکلیف دہ خواب نے اُس کی ساری نیند اُڑا دی۔ اتنے میں عمر کی کال آگئی۔ وہ اُسے کسی پارٹی کے لیے تیار ہونے کاکہہ رہا تھا۔ جہاں اُسے گورنمنٹ آفیسرز سے ملنے کاموقع ملنے والا تھا۔ وہ اپنی حالت کے پیشِ نظر اُسے اِنکار کر بیٹھی۔ جواباً عمر نے اُسے بہت سی مغلظات اور گالیوں سے نوازانا شروع کر دیا۔ اُس کے خیال میں وہ ڈرامہ کر رہی ہے، بلکہ ایسے ڈراموں میں ماہر ہو چکی ہے۔ فوراً سے بیشتر تیا رہو جائو… ورنہ یہ موقع ہاتھ سے نکل جائے گا… اُسے وہاں کچھ آفیشلز سے ضروری کام نکلوانے ہیں اور یہ موقع بار بار نہیں آئے گا۔
٭……٭……٭……٭
اُس کی بات پر سامعہ ٹھنڈی سانس بھر کر رہ گئی۔ ایک لمحے کو دوبارہ اُسے اِس خاردار جھاڑی کا جھٹکا یاد آیا، جو اُ س کے انگوٹھے سے ٹخنے تک ہی آیا تھا، لیکن اُسے جہنم کا سفر کروا گیا، چوں کہ ابھی وہ زندہ تھی تو اِس تکلیف کو نظر انداز کرتی ہوئی بیڈ سے کھڑی ہو گئی۔ اُسے معلوم تھا کہ اگر وہ آ گیا تو اُسے تیار نہ دیکھ کر غُصّے میں آجائے گا۔ فون پر اُس کی گالیوں سے اندازہ ہو چکا تھا کہ وہ مکمل طور پر نشے میں ہے۔ اگر وہ نشے میں تھا تو یقینا اُس پر ہاتھ اُٹھانے سے بھی گریز نہیں کرے گا۔ اب تو اکثر نشے میں جو چیز ہاتھ میں ہوتی اُسے مار بیٹھتا۔ نشہ اُسے ایک الگ ہی عمر میں تبدیل کر دیتا تھا اور وہ اپنے سارے مہذب انداز بھول بیٹھتا تھا۔
٭……٭……٭……٭
اُسے تیار ہونے میں صرف آدھ گھنٹہ لگا او ر جب تک عمر آیا۔ وہ سینڈیلز پہن رہی تھی۔ نیند کی گولیوں کا اَثر تھا۔ دماغ بالکل سُن تھا، لیکن مجبوری تھی۔ اُس کی تلخی سے بچنے کے لیے وہ کچھ بھی کر سکتی تھی۔ اِسی لیے خود پرجبر کرتے ہوئے اُس کو دیکھ کر مُسکرائی تو وہ بھی اُس کی تیاری پر مُسکرا دیا۔
’’مجھے ایسی عورتیں بہت پسند ہیں جو اپنے شوہر کی ہر بات بآسانی مان لیں۔‘‘ وہ مُسکراتا ہوا اُس کے پاس آیا اور ماتھا چومنے لگا۔ وہ پیچھے ہٹ گئی اور آئینہ دیکھتے ہوئے اپنے بالوں کو سیٹ کرنے لگی۔ عمر نے اُس کے گریز کو محسوس کیا اور کندھے اُچکاتے ہوئے بولا:
’’اوکے! میں بس دس منٹ میں تیار ہوتا ہوں… پھر نکلتے ہیں۔‘‘ وہ اُس کی بات کو نظر انداز کرتی ہوئی باہر نکل گئی۔ آج وہ اُس سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتی تھی۔ اُس نے عمر سے پوری پارٹی میں کوئی بات نہ کی، جس فرد سے بھی وہ ملوا رہا تھا وہ بہت خوش دِلی سے مل رہی تھی۔ اُسے آج عمر سے ناجانے کیسی عجیب سی نفرت محسوس ہو رہی تھی۔ وہ خود اُسے کوئی نام نہیں دے پا رہی تھی۔ اُسے عمر کے وجو دسے بھی گِھن آرہی تھی۔ وہ جب اُس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر کسی سے ملواتا تو اُسے لگتا کہ کسی غیر نے اُسے تھاما ہوا ہے۔ کراہیت کا یہ اِحساس اِس سے پہلے کبھی اِتنا شدید نہیں ہوا۔ یوں محسوس ہو رہا تھا کہ وہ اُس کا شوہر نہیں، بلکہ ایک گند سے بھری دلدل ہے، جس میں وہ روز بہ روز دھنستی جا رہی ہے۔ وہ اُس کے وجود اور اُس کی خوب صورتی کی پوری قیمت وصول کر رہا تھا۔ اُسے یاد آیا کہ ایک بار بازار میں غلطی سے کسی مرد کی کُہنی اُسے لگ گئی۔ کبیر علی نے اُس شخص کو بہت مارا تھا، حالاں کہ وہ بے چارہ معافیاں مانگتا رہا کہ غلطی ہو گئی، لیکن جب تک سامعہ نے جا کر اُنہیں نہیں روکا، کَبیر علی نے اُس شخص کا بھرکس نکال دیا۔ اُس دن اماں بھی اُن کے ساتھ تھیں۔ جب وہ کبیر علی پر غُصّہ ہوئی کہ بے چارے سے غلطی ہو گئی، آپ نے خوامخواہ اُسے مارا، تو اماں کہنے لگیں۔
’’سامعہ! یاد رکھو! کسی مرد کے لیے یہ برداشت کرنا بہت مشکل ہے کہ اُس کی عزت کو کوئی غلطی سے بھی چُھوئے۔ کبیرکا غصہ بالکل بجا تھا۔ تم خود خیال رکھو اِس بات کا کہ بچ کر چلو۔‘‘ اُس وقت وہ اماں کی بات کو لاپروائی سے نظر انداز کر بیٹھی، لیکن آج رہ رہ کر اُن کی محبت یاد آ رہی تھی کہ اصل محبت تو انہوں نے کی تھی۔ عمر آفندی نے تو اُسے محبت کے نام پر رُسوا کیا تھا۔ وہ ٹھنڈی سانس بھر کر رہ گئی۔ شاید گیا وقت وہ واحد شے ہے، جو ہمارے رونے، بِلبلانے یا پچھتانے سے کبھی پلٹ کر نہیں آسکتا۔
٭……٭……٭……٭
فاطمہ نے اُسے اپنے ایک پروگرام میں دعوت دی، جس میں عورتوں کے حقوق پر بات کرنا تھی۔ اُسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا بولے۔ کل تک وہ گھر میں بیٹھنے والی عورت کو ہڈحرام سمجھتی تھی۔ اب اُسے لگتا کہ جو عورت گھر کے اندر موجود ہے۔ وہ اپنی زندگی کا بہترین وقت اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ گُزار رہی ہے۔ کام کے لیے باہر نکلی عورت کے دُکھ سے تو وہ اب واقف ہوئی تھی۔ گھر بیٹھی عورتیں مجبور نہیں، بلکہ خوش قسمت تھیں، جو اپنی جنت میں موجود تھیں، لیکن اُسے ازدواجی زندگی کی خاطر کیرئیر قربان کرنے والی عورت کے حق میں بولنا تھا۔ ایسی عورتیں جنہوں نے شوہر اور گھر کی خاطر اپنا کیرئیر ختم کر لیا۔ خود کو کچن اور بچوں تک محدود کر لیا، لیکن وہ چاہنے کے باوجود اُس عورت کے لیے کچھ نہ کہہ سکی۔ اندر سے آیان چیخ رہا تھا۔ اماں اُس پر غُصّہ کر رہی تھیں۔ ثنا اُسے سمجھا رہی تھی، لیکن اُس نے کسی کی نہ سُنی۔ صرف اپنے دِل کی سُنی اور آج نقصان کر بیٹھی۔ اینکر اُس سے ناجانے کیا سوال کر رہا تھا، مگر اُس سے دو لائنوں کے سوا کچھ نہ بولا گیا۔
’’میرے خیال میں شادی شدہ عورت کو ہمیشہ اپنے گھر اور بچوں کو اہمیت دینی چاہیے، کیوں کہ اگر وہ نظر انداز ہوگئے تو شاید پوری زندگی اُن کا کوئی بدل نہیں ہو سکتا… کیرئیر تو پھر بن جائے گا اگر ایک گھر ٹوٹ جائے تو دوبارہ نہیں بن سکتا۔‘‘ فاطمہ نے اُس کے کان پر لگے سپیکر پر ڈانٹا کہ تمہیں کیرئیر اور ینٹڈ عورت کے حق میں بولنا ہے اور تم عورت کے گھر میں رہنے کے حق میں بول رہی ہو… فاطمہ نے اُس کا مائیک بند کرکے اینکر سے دوسرا سوال کروا دیا۔ فاطمہ نے اُسے پروگرام کے بعد خوب ڈانٹا۔ وہ خاموشی سے اُس کی ڈانٹ سُنتی رہی۔ کبھی کبھی لاشعوری طور پر ہم وہ سچ کہہ جاتے ہیں، جو شاید شعور میںرہتے ہوئے کبھی نہ کہہ سکیں۔ وہ اپنی دماغی حالت بدلتے ہوئے محسوس کر رہی تھی، مگر کچھ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے…؟ اندر ہی اندر اُسے بہت سے دُکھ کھا رہے تھے۔ اُس کے غلط فیصلوں کا دُکھ دیمک کی طرح اُس کے جوڑوں میں بیٹھ چکا تھا، جو اُس کے دِل کو چاٹ رہا تھا، مگر وہ مجبور تھی کچھ نہیں کر سکتی تھی۔
٭……٭……٭……٭
عمر کے روز و شب کافی بدل چکے تھے۔ اب وہ رات رات بھر گھر سے غائب رہنے لگا تھا۔ وہ نوکروں کے ساتھ گھر میں اکیلی ڈرتی رہتی۔ کئی بار اُس نے عمر کو فون کیا، مگر اُس کا موبائل اکثر بند ہی جاتا۔ وہ شک کرنا نہیں چاہتی تھی، لیکن عمر کی بڑھتی ہوئی بے زاری نے اُسے چوکنّاکر دیا تھا۔ وہ جتنا اِس رشتے کو بچانے کی کوشش کر رہی تھی،رشتہ اتنا ہی کمزور ہو رہا تھا۔ آج پورے ایک ہفتے کے بعد وہ گھر آیا تھا۔ آنے سے پہلے اُس نے فون کر دیا تھا۔ تیار رہنا… ہم ڈنر باہر کریں گے… وہ خوش ہو گئی۔ کئی ہفتوں کے بعد وہ اُس سے اتنے پیار سے بات کر رہا تھا۔ اُس نے عمر کا پسندیدہ کالے رنگ کا کُرتا شلوار نکالا۔ ساتھ میچنگ شوز اور میچنگ جیولری کے ساتھ وہ اُس کے آنے سے پہلے تیار تھی۔ گھنٹے بعد ہی عمر کے ساتھ وہ ایک اچھے ریسٹورنٹ میں ڈنر کر رہی تھی۔ کھانا آنے تک سب کچھ ٹھیک تھا۔ دونوں باتیں کرتے ہوئے سوپ اَنجوائے کر رہے تھے کہ چانک ایک خوب صورت ماڈرن سی خاتون اُن کی ٹیبل پر آگئی۔
’’او مائی گاڈ… عمر! یہ تم ہو…؟‘‘ عمر نے سوپ کا چمچ نیچے رکھ کر آنے والی کو دیکھا اور اُٹھ کر جذباتی انداز میں اُسے گلے لگا لیا۔ دونوں کسی زمانے میں اچھے یونی ورسٹی فرینڈز رہ چکے تھے۔ عمر نے ماہا سے سامعہ کا تعارف کروایا اور اُسے ساتھ ڈنر کی دعوت دے ڈالی، جو اُس نے بہت بے تکلفی سے قبول کرلی۔ عمر اور ماہا نے اُسے نظرانداز کرکے باتیں شروع کر دیں۔ وہ سخت بور ہوئی۔
’’ویسے تم تو شادی کے سخت خلاف تھے… پھر یہ گلے میں گھنٹی کیسے باندھ لی…؟‘‘ بے شک ماہا نے یہ جملہ عمر کے کان میں جُھک کر ہلکی سی سرگوشی میں کہا تھا، لیکن چوں کہ سامعہ کی پوری توجہ اُن دونوں کی جانب تھی۔ اِس لیے اُس نے پوری بات بہ خوبی سُن لی۔
’’اَرے یار! چھوڑو اِن باتوں کو… یہ بتائو کہ تم اب تک اکیلی کیسے پھر رہی ہو…؟ شادی وادی نہیں کی…؟‘‘ عمر نے بات کو گول کر دیا۔ وہ چاہتی تھی کہ عمر ماہا کو سامعہ اور اپنی محبت کی داستان سُنائے، لیکن عمر نے ماہا کی بات نظرانداز کرکے اُسے دُکھ دیا۔
’’بھئی ایک نہیں… دو دو شادیاں کیں… لیکن جب کچھ سمجھ نہیں آیا تو چھوڑ دیں۔ اب میری ایسی قسمت کہاں کہ تم جیسا ہینڈسم میرے لیے ہاں کرتا… اُس وقت توتم پر زندگی اِنجوائے کرنے کا بُھوت سوار تھا۔‘‘ وہ بڑے مزے سے بولی تو سامعہ کے آگ لگ گئی۔
’’سامعہ! بہت خوش قسمت ہو جو عمر جیسا ہینڈسم بندہ تمہارے نصیب میں لکھا ہے، جسے یونی ورسٹی کی آدھی لڑکیاں اپنا ہیرو سمجھتی اور بہت پسند کرتی تھیں۔‘‘ وہ بڑی حسرت اور رَشک سے سامعہ سے مخاطب تھی۔
’’مل گئی گواہی…ماہا یہی بات اِس سے میں کہتا ہوں کہ خوش نصیب ہو، جو میرے جیسے بندے نے تمہیں شادی کے لیے چُنا…‘‘ اُس نے سینہ پُھلا کر سامعہ کی طرف دیکھا اور پھر ماہا سے بولا۔
’’ویسے تم نے تو فلرٹ بھی بہت سی لڑکیوں سے کیے تھے۔ وہ اپنی بیوی کو نہیں بتائے…؟‘‘ وہ پھر عمر کی طرف جُھکتے ہوئے سرگوشی میں بولی تو عمر نے اُسے آنکھیں دِکھائیں۔
’’یار! جب لڑکیاں خود گود میں پکے ہوئے پھل کی طرح گریں گی تو میں کیا کر سکتا ہوں…؟‘‘ اِس بار اُس نے ماہا کی بات چُھپانے کی قطعاً کوشش نہ کی، بلکہ اُس کے انداز میں عجیب سا فخر تھا، جسے سُن کر سامعہ کی جان جل گئی۔ وہ اب اُن دونوں کی گفت گو سے بے زار ہو نے لگی تھی۔ ڈنر بھی تقریباً ختم ہو چکا تھا۔ اُس نے بے زاری سے عمر کی طرف دیکھا اور آنکھوں ہی آنکھوں میں چلنے کے لیے کہا، کیوں کہ اب ماہا اُس سے بالکل برداشت نہیں ہو رہی تھی۔ وہ جس بے تکلفی سے بار بار عمر کا ہاتھ پکڑ رہی تھی اور بات بے بات قہقہہ لگاتے ہوئے اُس کا بازو دبوچتی… اُس سے سامعہ کو اُن دونوں کے درمیان بے تحاشا بے تکلفی کا اندازہ ہو چکا تھا۔ وہ اب گھرچلنے کے لیے تیار تھی۔ عمر نے بھی گھڑی دیکھی اور ماہا کو گھر آنے کی دعوت دیتے ہوئے اُس کے گال پر بوسہ لیا۔ اگلا سین دیکھنے سے پہلے ہی سامعہ دروازے کی طرف بڑھ چکی تھی۔ اُسے عمر پر شدید غُصّہ تھا، جس پر اُس نے پورے راستے عمر سے کوئی بات نہ کی۔ عمر بھی کمال ڈھٹائی سے اُس کے غُصّیلے موڈ کو اَنجوائے کرتا رہا۔ اُسے سامعہ کے تپنے پر بہت مزہ آرہا تھا۔ ماہا اُس دِن کے بعد کئی بار عمر کے گھر آئی۔ عمر کے ساتھ اُس کی بے باکی بھرے انداز سامعہ کو بہت کچھ جتا گئے۔ وہ عمر سے صوفے پر یوں چپک کر بیٹھتی کہ سامعہ جل کر رہ جاتی۔ اُسے اندازہ تھا کہ دونوں باہر بھی ملتے ہیں، لیکن عمر اُسے گھر کیوں بُلاتا ہے…؟ اِس کا اندازہ سامعہ کو اُس دِن ہوا جب سامعہ فاطمہ کے ساتھ اُس کے ایک ویڈیو شوٹ پر کراچی گئی ہوئی تھی۔ دو دِن کراچی رہنے کے بعد جب وہ واپس آئی تو اُسے اپنے کمرے میں آ کر ایک عجیب سا اِحساس ہوا۔ عمر واش روم میں تھا۔ دروازہ ملازم نے کھولا۔ وہ سیدھی کمرے میں آئی۔ اُس کے بیڈ پر کسی کا دوپٹہ پڑا ہوا تھا۔ یہ سامعہ کا دوپٹہ ہرگز نہ تھا۔ پھر اُس کے ڈریسنگ پر ایک گجرا بھی موجود تھا۔ سامعہ کی ساری حسیں جیسے بیدار ہو گئیں۔ اتنے میں عمر واش روم سے سر پر تولیہ رگڑتا ہوا نکل آیا۔ اُس نے دونوں چیزیں اُس کے سامنے کر دیں۔
’’تم کب آئیں…؟‘‘ اُس کے ہاتھ میں دونوں چیزیں دیکھ کر وہ ذرا پریشان نہ ہوا۔
’’ماہا بھی بہت لاپروا ہے… اپنی چیزیں یہیں بُھول گئی۔‘‘ وہ لاپروائی سے ڈریسنگ پر کھڑا بُرش کرنے لگا۔
’’کیا مطلب…؟ ماہا یہاں میرے بیڈ روم میں کیا کر رہی تھی…؟‘‘ وہ چِلّائی۔
’’چِلّائو مت… رات ہم دونوں ایک پارٹی سے گھر آ گئے تھے۔ اُس نے رات میرے ساتھ ہی گُزاری ہے۔‘‘ وہ یوں بولا جیسے کوئی بہت معمولی سی بات ہو۔
’’عمر! تم نے اُسے یہاں میرے بیڈ تک لانے کی ہمّت بھی کیسے کی…؟‘‘ وہ اُس پر جھپٹ پڑی۔ اُسے عمر کی بے وفائی سے زیادہ اپنے بیڈ کے آلودہ ہونے کا غم تھا۔ وہ سمجھ چکی تھی کہ عمر کسی ایک عورت پر قناعت نہیں کر سکتا، مگر یوں اُس کے کمرے تک اپنی گند لے کر پہنچ جائے گا۔ اِس کا بالکل اندازہ نہیں تھا۔ اُس نے جنگلیوں کی طرح اُس کی شرٹ کی دھجیاں اُڑا دیں۔ تب عمر نے بھی دفاعی انداز میں اُس کے دونوں بازو پکڑ لیے۔
’’جنگلی عورت! ابھی تک پچھلی مار بُھولی نہیں ہو… ہاں! میں اُسے یہاں تک لایاتھا اور شاید ہمیشہ کے لیے اُسے یہاں لے آئوں… میں دیکھتا ہوں کہ تم کیا بگاڑ لو گی…؟‘‘ اِس بار اُس کی بات سے وہ جھلّا گئی اور اُس نے عمر کو پوری قوت سے دھکا دیا۔ وہ دیوار سے جا کر ٹکرایا۔
’’تم دوسری عورت کو لانا چاہتے ہو تو پہلے مجھے چھوڑنا ہوگا… طلاق دے دو مجھے…‘‘ وہ خود سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ اُس کے اندر اتنی ہمت کہاں سے آئی کہ اُس نے عمر جیسے لمبے چوڑے شخص کو دھکا دیا۔ دیوار کے پاس رکھا گلدان اور لیمپ ایک دھماکے سے زمین بوس ہو گئے۔ اُس کا بس نہیں چلا تو اُس نے پاس پڑی پرفیوم کی بوتل اُٹھا کر پھینک کر ماری۔ عمر نے منہ پر ہاتھ رکھ کر اُس کا وار روکا۔ زور و شور کی لڑائی اور دھما چوکڑی میں احمد علی کمرے میں آگیا اور اِس معاملے کی تہ تک پہنچتے ہی اُسے پکڑ لیا، لیکن وہ بہت جنونی ہو رہی تھی۔ عمر سے لپٹ کر اُسے کھسوٹ رہی تھی۔ احمد علی نے بہت مشکل سے قابو کرکے اُسے بستر پر پھینکا۔ اِتنی دیر میں عمر بھی حواسوں میں آ چکا تھا۔ اُسے بستر پر پھینک کر احمد علی الگ کھڑا ہوگیا، لیکن عمر نے آگے بڑھ کر اُسے گھونسوں اور لاتوں پر لے لیا۔ وہ اُسے گھر کے ملازم کے سامنے مار رہا تھا۔ گالیاں دے رہا تھا۔ اُس نے جوابی کارروائی کرنے کی کوشش کی، لیکن اتنے ہٹے کٹے مرد کے آگے اُس کا دَم جواب دے گیا۔
’’بہت ناز ہے نا تمہیں کہ تم خوب صورت ہو… جوان ہو… مجھے چھوڑ کر دوسرا مرد ڈھونڈ لو گی۔ آج میں تمہاری یہ ساری خوب صورتی ختم کر دوں گا… طلاق کا لفظ تیری زبان پر کیسے آیا…؟ احمد علی ہاتھ پائوں باندھ اِس عورت کے… بہت برداشت کرلیا…‘‘ اُس نے احمد علی کو حکم دیا اور وہ منٹوں میں ناجانے کہاں سے رسّی ڈھونڈ کر لے آیا۔ دونوں نے مل کر اُس کے ہاتھ پائوں باندھے… ساتھ ساتھ عمرکے ہاتھوں گاہ بہ گاہ سامعہ کی پٹائی بھی ہو رہی تھی۔ وہ بلبلا کر رو رہی تھی… معافیاں مانگ رہی تھی… لیکن عمر پر تو آج فرعونیت کا بُھوت سوار تھا۔ وہ اُسے ایسی سزا دینا چاہتا تھا کہ وہ پھر کبھی اُس پر ہاتھ نہ اُٹھا سکے اور نہ ہی طلاق کی بات کر سکے… تم مجھ پر ہاتھ اُٹھائو… میں تمہیں آئندہ اِس کے قابل ہی نہیں چھوڑوں گا…‘‘ اُس نے ایک زور دار گھونسا اُس کے منہ پر جڑا۔ سامعہ کی ناک سے خون کا فوارہ چھوٹا اور وہ تکلیف سے چِلّائی۔ عمر کا بس نہ چلا تو اُس کی سانس بند کرنے کی کوشش کی۔ اُسے لگا کہ جیسے وہ مرنے والی ہے۔ تقریباً نیم بے ہوش تھی کہ عمر اُس کے سینے پر سوار ہو گیا۔ بے ہوش ہونے سے پہلے آخری بار اُس نے عمر کے ہاتھ میں چُھری دیکھی۔ وہ اُسے ختم کرنا چاہتا تھا۔ وہ مکمل نشے میں تھا۔ شاید آج اُس پر سامعہ کو ختم کرنے کا جنون حاوی ہو گیا تھا۔ نشے نے اُس کے سوچنے سمجھنے کی ساری صلاحتیں چھین لیں۔ وہ نہیں جانتا کہ وہ کیا کر رہا تھا۔ پہلے بھی وہ کئی بار اُس کے ہاتھوںپٹ چکی تھی۔ محلے والوں اور سوسائٹی گارڈز نے کئی بار دیکھا، مگر آج تو حد ہی ہوگئی۔ شاید قدرت کو اُس کی حالت پر رحم آگیا کہ عمر کے فون کی گھنٹی بج اُٹھی۔ اُس نے چُھری ایک طرف پھینکی اور فون اُٹھا لیا۔ کسی دوست کا فون تھا، جسے جلداَزجلد نمٹا کر وہ دوبارہ اُس کی طرف آیا۔ وہ زخموں سے چور چور تھی۔ عمر نے اُس پر بھی بس نہ کیا۔ احمد علی سے الیکٹرک شیور منگوایا اور اُس کے سارے بال مونڈ ڈالے۔ وہ نیم بے ہوشی کی حالت میں اپنے اوپر ہونے والے ظلم کو محسوس کر رہی تھی، لیکن مجبور تھی۔ ہاتھ بھی نہیں ہلا سکتی تھی۔ وہ اُسے اِس بات کی سزا دینا چاہتا تھا کہ اُس نے طلاق کی بات کیوں کی۔ جانتا تھا وہ اِس کے لیے سونے کا انڈہ دینے والی مرغی تھی۔ اتنی آسانی سے تو وہ نہیں چھوڑے گا۔ وہ تسلّی سے اپنے کام سے فارغ ہوا اور اُس کا موبائل لے کر باہر نکل گیا، مگر جانے سے پہلے دروازہ لاک کرنا نہ بُھولا۔
٭……٭……٭……٭
جب سامعہ کو دوسری صُبح ہوش آیا تو اُس کا پورا جسم درد کی وجہ سے دُکھ رہا تھا۔ اُس نے سامعہ کے جسم پر جگہ جگہ پائپ سے مارا تھا اور پھر بھی بس نہ چلا تو الیکٹرک شیور کے ساتھ گنجا کر دیا۔ اُس نے سر پر ہاتھ پھیرا تو وہاں بالوں کی جگہ جما ہوا خون موجود تھا۔ اُس کی اُنگلیاں چپچپا کر رہ گئیں۔ سر پر کئی جگہ زخم موجود تھے، جن سے ابھی تک خون رَس رہا تھا۔ وہ بڑی مشکل سے اُٹھ سکی اور شیشے کے سامنے کھڑی ہوئی۔ اُس نے خود کو دیکھ کر منہ سے نکلنے والی چیخ کو روکا۔ اُس کا پورا سر گنجا تھا۔ واقعی عمر نے اُسے کسی قابل نہیں چھوڑا۔ اُس کا موبائل بھی لے گیا۔ وہ بلبلاکر رو اُٹھی۔ یہ اُس نے محبت کی کیسی سزا پائی تھی…؟ اُس کے آنسو نہیں رُک رہے تھے۔ وہ ناجانے کب تک روتی رہی۔ اچانک اُسے باہر کچھ کھٹ پٹ سی محسوس ہوئی۔ اُس نے گھڑی کی طرف دیکھا تو نو بج چکے تھے۔ یقینا کام والی صفائی کرنے آ چکی تھی۔ اُس نے آہستہ آہستہ دروازہ کھٹکھٹا کر زرینہ کو آواز دی تو چند لمحوں کے بعد ہی دروازہ کُھل گیا۔ زرینہ نے اُسے ایسی حالت میں دیکھا تو ڈر کر منہ پر ہاتھ رکھ لیا۔ اُس کے سارے کپڑے پھٹ چکے تھے۔ چہرہ سوج گیا تھا اور جسم کے کئی حِصّوں سے خون بہ کر تقریباً جم چکا تھا۔ زرینہ نے جلدی سے الماری سے دوسرے کپڑے نکال کر پہنائے۔ واش روم میں موجود ڈیٹول سے اُس کے زخم صاف کیے۔ شاید احمد علی بھی ابھی تک نہیں آیا تھا۔ ورنہ وہ دروازہ کبھی کھولنے نہ دیتا۔ اُس نے زرینہ سے اُس کا موبائل لیا اور فاطمہ کوفون ملا دیا۔ اُسے یقین تھا عمر نشے میں دُھت سو رہا ہوگا۔ وہ جتنی جلدی یہاں سے نکل جائے بہتر ہے۔ فاطمہ اُس کے گھر سے پندرہ منٹ کی دُوری پر رہتی تھی۔ اُس کی ساری بات سُنتے ہی وہ گاڑی اُڑاتے ہوئے گھر تک آپہنچی۔ جب اُ س نے سامعہ کی حالت دیکھی تو خود بھی روپڑی۔
’’یار! اِس جانور نے تمہاری کیا حالت کر دی ہے…؟‘‘ وہ سامعہ کو گلے لگا کر رو پڑی۔
’’اِس جانور کو میں چھوڑوں گی نہیں…؟ فاطمہ مجھے ابھی تھانے جانا ہے۔ اِس کے خلاف اقدامِ قتل کا کیس کروائوں گی۔‘‘ وہ اُس کے آگے ہاتھ جوڑ بیٹھی۔
’’میں تمہیں تھانے ضرور لے چلوں گی، لیکن تم جانتی ہو ہماری پولیس کو… وہ ایسے معاملات کو گھریلو معاملہ کہہ کر ایف آئی آر درج نہیں کرتے اور نہ ہی میڈیکل کرواتے ہیں۔‘‘ فاطمہ نے سمجھانا چاہا، لیکن وہ بہ ضد رہی۔
’’فاطمہ اُس نے صرف میرا جسمانی نہیں ذہنی ٹارچر بھی کیا ہے… ایسا پہلی بار نہیں ہوا… ہر بار میں اُس کی باتوں میں آ کر اُسے معاف کر دیتی تھی، لیکن… اب بہت ہو گیا… اب میں اُسے معاف نہیں کروں گی… چاہے کچھ بھی ہو جائے… میں اُس کے خلاف عدالت میں ضرور جائوں گی…‘‘ وہ پکّے عزم کے ساتھ بولی۔
’’مگر…‘‘ فاطمہ نے اُسے کچھ سمجھانا چاہا تو سامعہ نے ہاتھ اُٹھا کر اُسے بولنے سے باز رکھا۔
’’اگر مگر کچھ نہیں… اگر تم میرا ساتھ نہیں دے سکتیں تو ابھی منع کر دو… میںکار سے اُتر جاتی ہوں… اُس نے دروازہ کھولنے کی کوشش کی تو فاطمہ نے اُس کا اِرادہ بھانپ کر اسپیڈ پر پائوں رکھ دیا… دس منٹ کے بعد وہ دونوں تھانے میں ایس ایچ او کے سامنے موجود تھیں، جس نے بڑے تحمل سے اُس کی بات سُنی اور اُسے یقین دِلایا کہ اُس کے ساتھ اِنصاف ہوگا۔
’’بی بی! تمہارا میاں تو کوئی جانور لگتا ہے… اپنی بیوی کے ساتھ کوئی ایسا سلوک بھی کرتا ہے…؟‘‘ اُس کے زخم دیکھ کروہ واقعی دُکھی ہو گیا۔ سامعہ نے اُس کی بات پر سکون کا سانس لیا۔ ایس ایچ او نے بیان لکھنے کے بعد اُس کا میڈیکل کروانے کے لیے ایک لیڈی کانسٹیبل کو سامعہ کے ساتھ ہاسپٹل بھیجا۔ وہاں کافی دیر وہ ڈاکٹر سے ٹائم کے لیے گُھومتے رہے، لیکن میڈیکل مکمل نہ ہوسکا۔ یہاں ایکسرے اور دیگر ٹیسٹ کے لیے ڈاکٹر نے پانچ ہزار مانگے، جو اُس وقت اُن دونوںکے پاس نہیں تھے۔ وہ واپس تھانے آگئیں۔ جہاں اِس بار اُن دونوں کو ایس ایچ او سے ملنے کے لیے کافی اِنتظار کرنا پڑا۔ جب اُس نے اندر بُلایا۔ انہوں نے ڈاکٹر کی شکایت کی۔ ڈاکٹر اُن سے ایکسرے کے لیے پیسے مانگ رہی ہے۔ اُس نے بھی اُن سے بہت روکھے انداز میں بات کی۔
’’اوے بی بی! باہر جا کر بیٹھو… ابھی تمہیں بُلاتے ہیں۔‘‘ دونوں خاموشی سے باہر آ کر بینچ پر بیٹھ گئیں اور اِنتظار کرنے لگیں کہ کب کوئی آ کر اُن کا مکمل بیان ریکارڈ کرے گا، لیکن تین گھنٹوں کے اِنتظار کے بعدبھی جب کوئی نہ آیا تو فاطمہ کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ اُس نے دوبارہ محرّر کے پاس جا کر پوچھا کہ اور کتنی دیر لگے گی۔ اِس بار لیڈی محرّر کا لہجہ بھی تُرش تھا۔ اُس نے فاطمہ کو ڈانٹ دیا۔
’’تھوڑا اِنتظار نہیںکر سکتیں…؟ صاحب ابھی بزی ہیں… وہ فارغ ہو جائیں گے توتمھیں بُلاتے ہیں… جائو باہر جا کر بیٹھو…‘‘ فاطمہ غُصّے میں واپس آگئی، لیکن منہ سے کچھ نہ بولی۔
اسی اِنتظار میں چھٹی کا وقت ہو گیا۔ اِس بار فاطمہ نے اُس سے چلنے کے لیے کہا۔ اُسے اندازہ ہو گیا تھا کہ ایس ایچ او صاحب کے پاس عمر کی طرف سے ضرور کوئی فون آ گیا تھا، جس کے بعد اُن کی ساری ہمدردیاں دُھواں بن کر اُڑ گئیں، لیکن وہ منہ سے کچھ نہ بولی۔ اتنی دیر میں سامعہ خود اندر جا چکی تھی۔ محرّر نے اُسے بتایا تھا کہ صاحب نے بیان پر سائن کر دئیے ہیں، لیکن آپ کو ایف آئی آر کی کاپی نہیں مل سکتی۔
’’مگر کیوں…؟ میں نے ایف آئی آر درج کروائی ہے تو اُس کی کاپی مجھے کیوں نہیں مل سکتی…؟‘‘ وہ اُن کے روّیے پر حیران تھی۔
’’پانچ ہزار دو اور ایف آئی آر کی کاپی لے لو…‘‘ اِس بار لیڈی محرّر نے بھی جیسے اُس کا اور اپنا زیادہ وقت برباد کرنا مناسب نہ سمجھا اور اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی۔
’’پانچ ہزار، مگر میرے پاس تو اِس وقت پانچ روپے بھی نہیں ہیں…‘‘ وہ بڑے دُکھ سے بولی۔
’’تو جائو… جب ہوں تو آ کر کاپی لے جانا…‘‘ اِس بار لیڈی محرّر نے سنگ دِلی سے کہا۔ وہ بھڑک اُٹھی۔
’’تم بھی ایک عورت ہو اور اگر تم ہی دوسری عورت کے دُکھ کو نہیں سمجھ سکتیں تو لعنت ہے… خدا نہ کرے کل کسی دوسری عورت کے ساتھ ایسا ہو… معاشرے میں تم جیسی عورتوں کی وجہ سے ہی عورت پر ظلم عام ہو چکا ہے، جو مظلوم عورتوں کا ساتھ دینے کے بجائے اُن کے آگے پتھر رکھ کر راستے بند کر دیتی ہیں، لیکن اِس میں تمہارا کوئی قصورنہیں ہے۔ مردوں کے معاشرے میں مردوں کے رواج چلتے ہیں اور تمہیں بھی اُس پر چلنے کا حکم ہے۔ یاد رکھو! اگر آج ہم جیسی عورتیں مار کھا کرمارنے کے لیے دوسرا گال دیتی رہیں تو مرد کبھی اپنے ظلم کا اِحساس نہیں کر سکے گا۔‘‘ وہ روہانسی ہو گئی۔ فاطمہ بھی اُس کی اونچی آواز سُن کر پاس ہی آگئی۔ وہ بِلک بِلک کر رو رہی تھی۔ فاطمہ نے اُسے سنبھالا اور لا کر گاڑی میں بٹھا دیا۔ وہ فاطمہ کے ساتھ اُس کے فلیٹ پر آ کر بھی سنبھل نہیں پا رہی تھی۔ بہت مشکل سے اُس نے سامعہ کے زخموں کو ڈیٹول سے صاف کیا۔ دو پیناڈول اور نیند کی گولیاں دے کر سُلایا کہ شاید سونے کے بعد اُس کا ڈیپریشن کچھ کم ہو جائے۔ جب وہ گہری نیند میں چلی گئی۔ تب فاطمہ کو اِس معاملے پر سوچنے کا موقع ملا کہ پولیس کے ساتھ نہ دینے کے بعد اب اُسے آگے کیا کرنا ہے…؟ اور اِس کیس کو کیسے ڈیل کرنا ہے…؟
٭……٭……٭……٭
وہ رات کو سو کر اُٹھی تھی۔ بہت اُداس تھی۔ فاطمہ نے اُسے سینڈوچ اور ساتھ میں چائے کا گرم کپ تھمایا۔
’’تم نے دیکھا فاطمہ! عورت کے لیے معاشرے میں کہیں پناہ نہیں۔ بے شک میں مانتی ہوں۔ میں نے بہت بڑی غلطی کی، لیکن جو کچھ اُس نے محبت کے نام پر میرے ساتھ کیا۔ میں اتنی بڑی سزا کی حق دار نہیں تھی۔ وہ کمینہ ایس ایچ او پہلے تو ہمدردی کر رہا تھا، مگر ہمارے ہاسپٹل سے واپسی کے بعد کیسے اُس نے اپنا لہجہ تبدیل کر لیا۔
’’کہتا ہے سچ سچ بتائو… کیا تمہیں تمہارے شوہر نے کسی اور مرد کے ساتھ پکڑا تھا…؟ میرا دِل چاہ رہا تھا کہ پاس پڑا فون اُٹھا کر اُس کے سر پر مار دوں۔‘‘ وہ مٹھیاں بھینچ رہی تھی۔
’’سامعہ! میں نے اِسی لیے کہا تھا کہ اُس کمینے کے ہاتھ بہت لمبے ہیں۔ ایسے کئی پولیس والے اُس کی جیب میں ہوں گے۔ تم نے میری بات ہی نہیں مانی۔‘‘ فاطمہ بھی اُس کی حالت کے پیشِ نظر بہت دُکھی تھی۔
’’میں جانتی ہوں پولیس والوں سے اُس کی دوستی تھی۔ کئی پولیس والے اُس کے ہم پیالہ تھے، مگر اِس کے علاوہ میرے پاس کوئی اور راستہ بھی تو نہ تھا۔ بھلا میں کہاں جاتی…؟ کس سے اِنصاف مانگتی…؟‘‘ وہ پُھوٹ پُھوٹ کر رو رہی تھی۔
’’ایک راستہ تو تمہارے پاس ابھی بھی موجود ہے… اگر تم چاہو تو ہم تمہارے اوپر ہونے والے ظلم کی پوری ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر ڈال دیتے ہیں۔‘‘ فاطمہ نے اُسے راہ دِکھائی۔ وہ تو شروع سے ایسا چاہتی تھی، لیکن سامعہ کی حالت کی وجہ سے اُس پر کوئی دبائو ڈالنا نہیں چاہتی تھی۔
’’تم منہ ہاتھ دھو لو۔ میں ابھی تمہاری ویڈیو بنا کر میڈیا پر ڈالتی ہوں۔ جب عوام کا دبائو پڑے گا پھر دیکھنا یہی پولیس والے سر کے بل تمہارے پاس آئیں گے۔‘‘ وہ بہت پُرجوش تھی۔ اُسے ہر حال میں اپنی دوست کی مدد کرنی تھی، جس سے بہر حال ایک بڑی غلطی ہو چکی تھی اور وہ اُس کی سزا بھی بھگت رہی تھی۔ اُس کو تنہا نہیں چھوڑا جاسکتا تھا۔ اِس وقت جب کہ وہ سب کچھ گنوا چکی تھی۔ سارے رشتے کھو چکی تھی۔ ایسے وقت وہ اُسے کیسے تنہا چھوڑ دیتی۔ فاطمہ کو اپنا وقت یاد آگیا۔ جب وہ اِس شہر میںنئی نئی آئی تھی۔ کوئی دوست نہ تھا۔ اُس وقت اُس کی دوستی سامعہ سے ہوئی تھی۔ سامعہ نے اُس کا بہت ساتھ دیا۔ آج اگر سامعہ کو اُس کی مدد کی ضرورت پڑی تو اُسے ہر حال میں اُس کا ساتھ دینا تھا۔
٭……٭……٭……٭
فاطمہ نے موبائل پر سامعہ کی ساری ویڈیو ریکارڈ کر لی، جس میں سامعہ نے خود پر ہونے والے ظلم کے بارے میں رو روکر بتایا اور اپنی اور عمر کی ساری کہانی سُنائی۔ ویڈیو چند لمحوں میں وائرل تھی۔ فاطمہ کے فیس بُک اور اِنسٹاگرام پیج پر ہزاروں فالورز تھے۔ جنہوں نے ویڈیو دیکھی اور اپنے کمنٹس میں سامعہ سے مکمل ہمدردی کا اِظہار بھی کیا۔ بعض لوگوں نے تو عمر کو گالیاں تک دیں اور اُس کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا۔ سامعہ کو کمنٹس پڑھ کر اُمید ہو چکی تھی کہ اب شاید لوگ اُس کے حق میں آواز بُلند کریں گے اور اُس کو اِنصاف مل جائے گا۔
سامعہ کی ویڈیو پر پولیس ڈیپارٹمنٹ کے اعلیٰ حکام پہلے ہی ایکشن لے چکے تھے۔ سامعہ کو میڈیا سے مختلف اینکرز کے فونز آنے شروع ہو گئے، جو اُس پر گُزری ہوئی واردات کی مکمل سچائی جاننا چاہتے تھے۔ وہ ایک لمحے کے لیے بھی خو ف زدہ نہ ہوئی۔ فاطمہ اُس کے ساتھ تھی، جو ہر جگہ سپورٹ کر رہی تھی۔ اُسے سمجھا رہی تھی کہ کس طرح سے میڈیا اینکرز کو پُر اِعتماد اَنداز میں جواب دینا ہے۔ ورنہ وہ اپنے سوالات سے اُس کو غلط ثابت کردیں گے۔
ایک فون اُسے اُس تھانے سے بھی آیا، جہاں وہ سب سے پہلے اپنا بیان ریکارڈ کروانے گئی تھی۔ اُس نے اُن کو بہت بُری طرح ڈانٹ کر فون رکھ دیا اور کہا کہ اب ساری بات کورٹ میں ہوگی۔ میں آپ لوگوں کا چہرہ بھی دُنیا کو دِکھائوں گی کہ آپ نے کس طرح میری آیف آئی آر کاٹنے کے لیے مجھ سے میدیکل کے نام پر پیسے مانگے، لیکن ایس پی صاحب کے فون اور اُن کے سمجھانے پر اُس نے دوبارہ ساری بات ریکارڈ کروائی اور عمر آفندی کے خلاف اقدامِ قتل کی ایف آئی آر کٹوائی۔
٭……٭……٭……٭
میم صباح کی نظر سے بھی یہ ویڈیو گُزری۔ انہوں نے فوراً عمر کو ویڈیو بھیج دی۔ عمر کو یہ سب دیکھ کر شدید غُصّہ آیا۔ اُسے بالکل اندازہ نہ تھا کہ وہ اِس حد تک بھی جا سکتی ہے۔ اُس نے پہلے بھی کئی بار اُسے مارا تھا۔ محلے والوں نے آکر بیچ بچائو کروایا اور پھر چند محبت بھرے بولوں کے عوض اُس نے دوبارہ سامعہ کو منا لیا، لیکن اُس دِن عمر نے واقعی کافی نشہ کیا ہوا تھا۔ بات کُھلنے پر اُس نے اُس سے دوسری شادی کی بات کی کہ اُسے شادی کے لیے راضی کرلے گا، لیکن وہ تو بپھر گئی۔ اُسے چھوڑنے کی دھمکی کے ساتھ طلاق کے لیے کہنے لگی، جو عمر سے برداشت نہ ہو سکا اور اُس نے نشے کی حالت میں اُسے بہت مارا پیٹا۔ یہ سوچ کر کمرے میں بند کرکے چلا گیا کہ صبح اُٹھ کر خود ہی دماغ ٹھیک ہو جائے گا، مگر اب تو وہ اُس کے لیے درد سر ہی بن گئی تھی۔ اُس نے پوری ویڈیو دیکھی۔ جہاں وہ اقدامِ قتل کے اِلزام کے ساتھ اُسے جیل تک لے جانے کی بات کر رہی تھی۔ عمر نے جلدی جلدی اپنے فون سے اُس کی ایک پُرانی ویڈیو ڈھونڈی، جس میں وہ عمر کے دوستوں کے ساتھ ڈانس کر رہی تھی اور سوشل میڈیا پر اَپ لوڈ کر دی۔ اپنے طور اُس نے جواباً سامعہ کی حقیقت دُنیا کے سامنے لانے کی ایک کوشش کی تھی اور کافی حد تک وہ اُس میں کامیاب بھی رہا۔ دُنیا وہی سچ سمجھتی ہے جو آپ اُسے دِکھاتے ہیں۔ اگر ایک کوشش سامعہ نے اُس کے کردار کو بُرا ثابت کرنے کی کی تھی، تو ایک کوشش وہ بھی کرنے کا پورا حق رکھتا تھا، لیکن شاید اُس کی قسمت ہی خراب تھی۔
٭……٭……٭……٭
عمر آفندی اِس سارے واقعے کے بعد بہت پریشان تھا، کیوں کہ رات ہی فون پر میم صباح نے بھی اِس معاملے سے ہاتھ اُٹھا لیا تھا۔ اُن کے خیال میں مقامی تھانے کے ایس ایچ او تک تو وہ بات کو دبا گئیں، لیکن سوشل میڈیا پر سامعہ کی ویڈیو کے بعد پولیس کے اعلیٰ حکام بھی حرکت میں آگئے ہیں۔ انہوں نے اِس معاملے کو خود ڈیل کرنا شروع کر دیا ہے۔
’’سوری عمر! میں تمہارے لیے جہاں تک کر سکتی تھی، میں نے کر دیا۔ اب میں اِس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتی، کیوں کہ ابھی ایس ایچ او کا فون آیا تھا۔ پولیس کی نفری تمہیں اور تمہارے ملازم کو گرفتار کرنے آرہی ہے۔ دیکھو! میں نے تمہیں خبر دار کردیا۔ اب میرا نام نہ آئے۔ تم مجھے بالکل نہیں جانتے اور نہ ہی کبھی میرے رابطے میں رہے ہو۔ ورنہ…‘‘ اُسے در پردہ دھمکی دے کر انہوں نے فون بند کر دیا۔ دروازے پر اُسے شور کی آوازیں آنے لگیں۔ عمر کو ایک دَم گھبراہٹ شروع ہوگئی۔ وہ باہر کی جانب دوڑا۔ جہاں چند پولیس والے احمد علی کو گھیرے کھڑے تھے۔ اُسے سمجھ آگیا کہ اب وہ کہیں نہیں بھاگ سکتا۔ اِس لیے ہتھیار ڈالنے میں ہی عافیت ہے۔
٭……٭……٭……٭
فاطمہ نے ایک وکیل سے بات بھی کی، جو اُس کی طرف سے کیس لڑنے پر تیار ہو گیا، لیکن اُس نے بھی سب سے پہلے یہی بات کی کہ اب تک آپ کا میڈیکل نہیں ہو پایا اور اِس میں جتنی دیر ہو گی آپ کا کیس کمزور ہو جائے گا، جو لوگ پہلے اُس سے ہمدردی کر رہے تھے۔ عمر کی طرف سے وائرل کی گئی ویڈیو کے بعد آپ سے اُن کی ہمدردیاں ختم ہو گئی ہیں۔ وہ دونوں کو غلط اور اِس معاملے کو دونوں کے درمیان ایک گھریلو جھگڑا سمجھ رہے ہیں۔
’’مگر وکیل صاحب! یہ ایک گھریلو معاملہ نہیں ہے… میں نے ایف آئی آر میں بتایا تھا کہ اُس نے مجھے قتل کرنے کے لیے چُھری اُٹھا لی تھی۔ اگر فون نہ آ جاتا تو وہ مجھے جان سے مار ڈالتا۔‘‘
’’لیکن ایف آئی آر میں نے پڑھی ہے۔ اُس میں دفعہ 324 اقدامِ قتل کے بارے میں تو کوئی بات ہی نہیں کی گئی، بلکہ لکھا ہے کہ آپ دونوں نشے میں تھے اور اسی حالت میں دونوں کا جھگڑا ہوا تھا۔‘‘
’’ جب میرا میڈیکل ہی نہیں ہواتو پولیس کیسے کہہ سکتی ہے کہ میں نشے میں تھی…؟‘‘ وہ اتنے بڑے اِلزام پر چِلاّ اُٹھی۔
’’دیکھیں مس سامعہ! اگر اب تک آپ کا میڈیکل نہیں ہو سکا تو بات صاف ہے کہ پولیس نہیں چاہتی کہ آپ کا میڈیکل ہو۔ ورنہ آپ پر تشدد ظاہر ہو جائے گا اور ایسا لگتا ہے کہ اُس نے پولیس والوں کو خرید لیا ہے۔‘‘
’’بالکل ایسا ہے… جب میں زخموں سے چور چور پہلی بار تھانے گئی تو انہوں نے مجھے بہت آرام سے بٹھا کر ساری بات سُنی تھی۔ ہاسپٹل میڈیکل کروانے گئی اور جب واپس آئی تو نقشہ ہی بدلا ہوا تھا۔ سب کے روّیے تبدیل ہو چکے تھے۔
’’لیکن اب ہمیں جلد اَز جلد میڈیکل کروانا ہوگا، تاکہ وہ اپنے انجام تک پہنچ سکے۔‘‘ وکیل نے اُسے سمجھایا تو وہ صرف سر ہلا کررہ گئی۔
٭……٭……٭……٭
فاطمہ نے سامعہ کو خوشخبری سُنائی۔
’’سامعہ! تمہاری محنت رنگ لے آئی۔ ابھی ایک خبر سے پتا چلا ہے کہ عمر آفندی اور احمد علی کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔‘‘ اُس نے ہاتھ اُٹھا کر اللہ کا شکر ادا کیا، لیکن مجھے ڈر ہے کہ اُس کی ضمانت نہ ہو جائے۔ فاطمہ نے نیا خدشہ ظاہر کیا۔
’’اگر ایسا ہو گیا تو میں سمجھوں گی کہ اِس اندھے معاشرے میں عورت اپنی جنگ ہمیشہ ہارتی رہے گی۔ کسی عورت کو اپنے حق کے لیے آواز اُٹھانے کا کوئی حق نہیں۔‘‘ فاطمہ دُکھی تھی۔
’’سُنو فاطمہ! میں مانتی ہوں مجھ سے بہت بڑا گناہ ہو گیا، لیکن اِس گناہ میں وہ برابر کا شریک تھا۔ دونوں فریقین کے باہمی گناہ کے بعد ہمیشہ گناہ کی سزا عورت ہی کیوں بھگتتی ہے…؟ اُس شخص کی عزت بھی اِسی طرح پلید ہو گی جیسے میری… اگر گناہ دونوں کا تھا تو وہ مجھے اپنوں کی نظر میں بے عزت کرکے کسی اور کے ساتھ رَنگ رَلیاں منانے کے لیے آزاد نہیں رہ سکتا۔‘‘ اُس کی آواز میں بہت دَم تھا… بہت کچھ کر گُزرنے کا عزم… اب وہ سب کچھ لُٹا کر اپنی کشتیاں جلا بیٹھی تھی، لیکن عمر کو کورٹ میں گھسیٹ کر سزا دِلوانے کا جو فیصلہ اُس نے کیا تھا، وہ اُس سے کسی طور پیچھے ہٹنے والی نہیں تھی۔ پورے سوشل میڈیا اور ٹی وی پر اُسی کی ویڈیوکی دُھوم تھی۔ خود اُس سے کئی ٹی وی اینکرز انٹرویو لے چکے تھے۔ بار بار وہ ایک ہی کہانی دُہرا رہی تھی، جو سچ تھی، لیکن کچھ اینکرز اُسے موردِ اِلزام ٹھہرا کر اِنویسٹی گیشن میں بھی مصروف تھے، جن میں سے کچھ اُس کی پچھلی زندگی کو بھی اُکھیڑ لائے، جہاں کبیرعلی اور آیان موجود تھا۔ جب ایک اینکر نے اُس سے طنزاً اُس کی پہلی شادی اور بچے کے بارے میں سوال کیا کہ اُن کو کیوں چھوڑا…؟ تو سامعہ نے بڑے تحمل سے اُن کی بات کا جواب دیا۔
’’وہ میری زندگی کی ایسی غلطی تھی، جس کی سزا میں آج بھی میں پور پور جل رہی ہوں… بس! جب اِنسان کی عقل پر پردہ پڑ جائے تو وہ اپنی بنائی جنت کو خود ہی آگ لگا دیتا ہے… میں نے خود اپنی جنت کو آگ لگائی ہے… اُس نے اِعتراف کیا کہ اُس کا پہلا شوہر اُس سے بہت محبت کرتا تھا، لیکن عمر نے اپنی محبت کے جھانسے میں پھنسا کر اُسے راہ سے بھٹکا دیا۔‘‘
’’آپ کوئی دودھ پیتی بچی تو نہیں تھیں کہ کوئی اِتنے آرام سے آپ کو راہ سے بھٹکا دے…؟ جو کچھ بھی ہوا، آپ کی رضا مندی سے ہی ہوا ہوگا…؟‘‘ اینکر نے طنزیہ انداز میں اُس پر حملہ کیا۔
’’جی! میں مان رہی ہوں کہ مجھ سے غلطی ہو گئی……‘‘ ۔۔وہ سوچ کر بولی۔
’’غلطی نہیں بی بی!… آپ اِسے گناہ کہیں… ایک شادی شُدہ عورت وفادار شوہر کے ہوتے ہوئے اگر کسی غیر مرد سے دوستی رکھے تو اِسلام اِس کی اجازت نہیں دیتا…‘‘ ساتھ بیٹھے ایک وکیل نے اُس کی بات کے دوران لقمہ دیا تو وہ بھڑک اُٹھی۔
’’سزا مل تو گئی ہے مجھے… اب اِس سے بڑی سزا اور کیا ہو گی…؟ پوری دُنیا میں تماشا بن گیا ہے میرا… آپ کو اُس کا ظلم نظر نہیں آ رہا، کیوں کہ وہ ایک مرد ہے…؟ وہ ظلم کرکے بھی پاک و صاف ہو جاتا ہے اور آپ جیسے اُس کی برادری کے دیگر لوگ اُسے بچانے صرف اِس لیے آ جاتے ہیں کہ ایک عورت نے اُس کے ظلم پر آواز کیسے اُٹھائی…؟ گھریلو تشدد کا شکار عورتیں ابھی تک اپنے گھروں میں اِسی لیے پٹتی اور خاموش رہتی ہیں، کیوں کہ وہ جانتی ہیں آواز اُٹھانے والی عورت کو ہی بُرا بھلا کہا جائے گا… بالفرض مجھ سے کوئی گناہ ہو بھی گیا تھا تو کیا اُس کی سزا میں وہ شخص مجھے جان سے مارنے کا حق رکھتا تھا…؟‘‘ وہ تقریباً چِلّا ہی اُٹھی۔
’’سامعہ بی بی! اُن کا مطلب قطعاً یہ نہیں تھا۔ وہ صرف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آپ جسے ظلم کہہ رہی ہیں وہ دراصل میاں بیوی کے درمیان ایک معمولی سا جھگڑا بھی ہو سکتا ہے اور ہو سکتا ہے کچھ دِن کے بعد آپ دوبارہ اُن کے ساتھ رہنے لگیں جو کہ عموماً ہمارے معاشرے کا عام چلن ہے…‘‘ اینکر نے بیچ میں آکر بات ختم کرنا مناسب سمجھا۔
’’میں اُس شخص کی سزا کا مطالبہ کر رہی ہوں اور آپ کہہ رہے ہیں کہ میں اُس کے ساتھ دوبارہ رہنے لگوں گی…‘‘ وہ ایسے سوالات سے زچ ہو گئی۔ فاطمہ نے اُسے میڈیا اور عدالت کے ایسے چُبھتے سوالات کے لیے پہلے ہی تیار کر رکھا تھا کہ اُسے عدالت میں اِس سے بھی گندے سوالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے توجیسے بھی سوالات ہوں، تمہیں گھبرانا نہیں، بلکہ بہت حوصلے اور ہمت سے اُن سارے سوالات کا مقابلہ کرنا ہے اور اپنی جنگ لڑتی ہے، مگر اِس بار اُس کی حد تقریباً ختم ہو رہی تھی کہ پروگرام میں موجود ایک خواتین کے حقوق کی علمبردار اُس کی مدد کو آن پہنچی۔
’’سرمد صاحب! سامعہ صحیح کہہ رہی ہے… ہمارے معاشرے میں عورت ظلم کے خلاف اِسی لیے خاموش ہو جاتی ہے کہ اُسے مردوں کے اِسی طرح کے روّیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے… وہ سالہا سال شوہروں سے پٹنے کے باوجود آواز نہیں اُٹھاتی کہ آواز اُٹھانے والی عورت کو ہی بدکردار سمجھا جاتا ہے… یہ سمجھا جاتا ہے کہ اُس کا شوہر یقینا اُسے اِسی لیے مارتا ہے کہ وہ غیر مردوں سے تعلقات رکھتی ہے… میرے معزز وکیل دوست فرما رہے تھے کہ ایک شادی شُدہ عورت کسی غیرمرد سے تعلق رکھے، تو گناہ ہے۔ کیا یہ گناہ اُس وقت نیکی میں بدل جاتا ہے، جب ایک مرد بیوی کے ہوتے ہوئے کئی عورتوں سے تعلق رکھتا ہے…؟ اور وہ تعلق صرف بات چیت تک محدود نہیں رہتا، بلکہ جسمانی بھی ہو جاتا ہے… تب تو مرد کی فطرت میں ایک عورت پر اِکتفا نہیں جیسی باتیں یاد آتی ہیں… تب کیوں بُھول جاتے ہیں کہ اگر ایک عورت کو اپنا شوہر پسند نہیں تو ہمارا مذہب ہی اُسے خلع لینے کا حق دیتا ہے، لیکن یہاں ہمارا معاشرہ ایسی باتیں بتانے کی بجائے عورت کو بدکردار ثابت کرنے پر تُل جاتا ہے… سامعہ کی کہانی کوئی نئی کہانی نہیں… ایسی بے شمار گھریلو تشدد کا شکار عورت کہانیوں سے ہمارا معاشرہ بھرا پڑا ہے۔ روز کئی عورتیں اپنے شوہروں سے صرف اِس لیے پٹتی ہیں کہ وہ شوہر کو دوسری شادی کی اجازت نہیں دیتیں… اکثر عورتیں جسم پر موجود زخموں اور نیل کے نشانات کو اِس لیے چُھپا جاتی ہیں کہ آواز بلند کرنے کی صورت میں شوہر کی طرف سے بدکرداری کا طعنہ ملے گا اور پھر وہ خود ہی بدنام ہو جائے گی۔ سامعہ کے ساتھ جو بھی ظلم ہوا، سب کو نظر آرہا ہے، مگر وہ بُری اِس لیے بن گئی کہ وہ اپنے زخموں کے ساتھ اُس مجرم کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے آواز بلند کر رہی ہے۔‘‘ اُن کی جذباتی گفتگو سے وہ بہت متاثر ہوئی۔ وہ اُن کی بہت مشکور ہوئی، جو بات وہ اب تک سمجھا نہیں پا رہی تھی۔ انہوں نے بہت آسانی سے اُس کا دفاع کرتے ہوئے اینکر اور وکیل کا منہ بند کر دیا تھا۔
٭……٭……٭……٭
کیس عدالت میں پہنچ گیا تھا اور وہاں بھی اُس پر بہت گندے اور رکیک اِلزامات لگائے گئے، جن کا جواب دیتے ہوئے وہ خود شرم سے پانی پانی ہو جاتی۔ آج اگر اباجی زندہ ہوتے تو شاید یہ سب دیکھتے ہی مر جاتے۔ وہ ہر بار کوشش کرتی کہ جواب بہت سوچ سمجھ کر دے، لیکن عمر کا عیّار وکیل اُسے جُرم میں برابر شریک ہونے کے بعد یہ ثابت کرنے کی کوشش میں لگا رہا کہ اِس بدکردار عورت نے اُس کے مؤکل کو اتنا پریشان کر دیا تھا کہ تنگ آ کر وہ یہ سب کرنے پر مجبور ہوا۔ نت نئے مردوں سے تعلق بناتے دیکھ اُس سے برداشت نہ ہو سکا تو اُس نے سامعہ کو مارا پیٹا اور بدکرداری سے منع کیا، پھر بھی وہ باز نہ آئی۔ اپنی رَنگ رَلیوں میں لگی رہی۔ آخرکار اُسے اُس پر ہاتھ اُٹھانا پڑا اور اُس کا سر مونڈنا پڑا۔ اُسے محسوس ہو رہا تھا کہ عدالت میں موجود ہر مرد کو عمر سے ہمدردی تھی۔ جو عورت پہلے بھی ایک اچھے خاصے مرد کو چھوڑ کر اپنے عاشق کے ساتھ چکر چلا کر اُس سے عقد کر سکتی تھی۔ اُس کے لیے تیسرے کا ساتھ کیا مشکل تھا…؟ وہ کہہ کہہ کر تھک گئی کہ طلاق کا فیصلہ اُس نے عمر کی محبت میں کیا تھا، لیکن کسی نے اُس کی بات کا یقین نہ کیا۔ اُس کے وکیل نے بھی بھرپور دفاع کی کوشش کی، لیکن عمر کی وائرل ویڈیو کے بعد سامعہ کا کیس کمزور ہو گیا تھا۔
٭……٭……٭……٭
آج وہ بہت اُداس تھی۔ اُسے اماں شدّت سے یاد آرہی تھی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ اماں، کبیر علی اور آیان نے اگر یہ سب واقعہ دیکھا ہوگا تو اِس کے بارے میں کیا سوچا ہوگا…؟ اُس کا دِل اماں سے بات کرنے کے لیے بے چین ہوا، مگر وہ خود ہی تو سارے دروازے بند کر چکی تھی۔ آخری بار اماں سے ملنے کے بعد اُس نے اپنا نمبر بھی بدل لیا تھا۔ اگر اماں اُس سے بات بھی کرنا چاہتیں تو بھلا کیسے کر سکتی تھیں…؟ اُسے اندازہ ہو گیا تھا کہ اِس بڑے گناہ (جسے شیطان محبت کا نام دیتا اور بھٹکاتا ہے) کی پاداش میں اُس کی جنت اُس سے دُور جا چکی تھی۔ اماں کی دُعائیں بہت دُور کھڑی اُس پر کفِ افسوس مل رہی تھیں۔ بیٹے کی محبت سے محروم وہ ایک ایسی بدنصیب ماں تھی، جس نے چند بُرے خوابوں کی پاداش میں اچھی زندگی کی تعبیر کھو ڈالی۔ فاطمہ اُس کے پاس آکر بیٹھ گئی۔ اُس نے صُبح سے کچھ نہیں کھایا تھا۔ فاطمہ اُس کے لیے بسکٹس اور چائے ایک ٹرے میں لے کر آئی تھی، تاکہ وہ کچھ نہ کچھ تو کھا لے، لیکن اُس کا دِل کچھ کھانے کو نہیں چاہ رہا تھا۔ کل فیصلہ ہونا تھا۔ اِس فیصلے پر صرف اُس کی زندگی کا فیصلہ نہیں، بلکہ اُن ساری عورتوں کی زندگی کا فیصلہ موقوف تھا، جو ہر روز کسی نہ کسی طرح اپنے شوہر وں کے ہاتھوں پٹتی اور ظلم و ستم کا شکار ہونے کے باوجود خاموش رہتی ہیں۔ بے شک وہ مجرم تھی، لیکن شاید اِس معاشرے میں سب سے بڑا جُرم ہی یہ تھا کہ اُس نے خود پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز اُٹھانے کی ہمت کیسے کی…؟
’’سامعہ! پریشان ہو…؟‘‘ چائے کا کپ بڑھاتے ہوئے فاطمہ نے اُس سے پوچھا۔
’’اپنے لیے پریشان نہیں ہوں… صرف اُن کے لیے پریشان ہوں، جن کے پاس زبان نہیں… میں تو اپنے ظلم کے خلاف بول لیا اور مجھے میرے گناہ کی سزا بھی قدرت نے دے دی، لیکن جو روز پٹتی ہیں اورکچھ کہنے پر قادر بھی نہیں، اب ان کے لیے کون آواز اُٹھائے گا…؟‘‘ اُس کی آواز میں دُکھ تھا۔
’’کیا تمہیں لگتا ہے کہ ہم عمر کو سزا دِلوانے میں کامیاب ہو جائیں گے…؟‘‘ فاطمہ کی آواز میں ایک شک تھا، کیوں کہ اُسے بھی اچھی طرح اندازہ ہو چکا تھا کہ عدالت میں موجود چہ می گوئیاں کس قسم کی تھیں۔ سب مرد کے مقابلے میں عورت کو ہی بُرا سمجھ رہے تھے۔ وہ ایسا ڈرامہ صرف لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹنے کے لیے کر رہی تھی۔ عمر کے وکیل نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اُس نے اپنے سر کے بال خود الیکٹرک شیور سے صاف کیے اور ملزم پر اِلزام لگا دیا۔ ورنہ بہ قول اگر وہ نشے میں تھا تو اتنی صفائی سے اُس کے بال کس طرح صاف ہو سکتے تھے…؟ اُ س کی بات سُن کر اور وہ وقت یاد کرکے سامعہ کانپ گئی۔ جب عمر نے اُ س کے سر پر زوردار مُکا مارا اور احمد علی نے اُسے قابو کرکے ہاتھ پیر باندھ دئیے۔ نیم بے ہوشی میں اُسے احمد علی اور عمر کی باتیں سُنائی دیں۔
’’عمر نے ایک گالی دے کر کہا تھا کہ اب میں اِس عورت کو کسی اور کے قابل ہی نہیں چھوڑوں گا کہ یہ مجھے چھوڑ کر کسی اور کے پاس جائے۔ ایسا کبھی ممکن نہیں ہو سکتا۔ یہ مجھ سے طلاق چاہتی ہے۔ وہ تو میں نہیں دوں گا اور اِسے دوسری شادی کرکے بھی دِکھائوں گا۔ ایک عورت ہو کر اِس کی یہ مجال کہ میری جائز خواہش کی مجھے اجازت نہ دے۔‘‘ اور پھر وہ بے ہوش ہو گئی۔
اگلی صُبح اُٹھ کر اُس نے اپنا حال دیکھا تو یقین نہ آیا کہ عمر اُس پر اِتنا ظلم بھی کر سکتا ہے… محبت کی وہ ساری باتیں کہیں دُور کھڑی طنزیہ مُسکرا رہی تھیں…
’’دیکھ لو بی بی! کیا حال ہوا ہے اِس محبت میں تمہارا… اِتنی سچی محبتوں کو چھوڑنے کی پاداش میں اِس ایک محبت نے تمہیں رُسوا کر دیا۔ اب گیا وقت تو پلٹ کر آ نہیں سکتا۔‘‘ سوائے کف افسوس ملنے کے اُس کے پاس کوئی چارہ نہ تھا۔
٭……٭……٭……٭
وہ اِس دوغلے معاشرے کے بارے میں سب کچھ جانتی تھی۔ مردانہ تسلط رکھنے والے معاشرے میں اگر کوئی عورت خود پر ہوئے ظلم و ستم کے لیے آواز اُٹھائے تو ہر شخص اُسے ہی ذلیل و خوار کرنے پر تُل جاتا ہے۔ جب تک اُس کی غیر مردوں کے ساتھ ڈانس والی ویڈیو وائرل نہیں ہوئی تھی، لوگوں کی ساری ہمدردیاں اُس کے ساتھ تھیں، لیکن اب میڈیا سمیت سب اُسے ایک طوائف اور فاحشہ ثابت کرنے پر تُلے ہوئے تھے۔ ایسی کون سی مجبوریاں تھیں جنہوں نے اُسے بدکردار بننے پرمجبور کیا…؟ کوئی نہیں جانتاتھا…؟ سب یہاں تک کہہ رہے تھے کہ بہت اچھا ہوا، ایسی عورتوں کا یہی انجام ہونا چاہیے۔ ضرور اِس کی بے وفائی شوہر کے سامنے آ گئی ہو گی۔ اِس لیے اُس نے اِسے اِس حد تک مارا پیٹا۔ ایسی عورتوں کو تو ختم کر دینا چاہیے۔ ناجانے لوگ کیا کیا کہہ رہے تھے اور وہ سوچ رہی تھی کہ اگر وہ بدکردار ہوئی تو یہ اُس کا اپنا فیصلہ نہ تھا… پھر لوگ حقیقت جانے بغیر کس طرح دوسرے کو judge کر لیتے ہیں۔
وہ دوبارہ کورٹ گئی۔ اُس کا سامنا عمر سے ہوا، لیکن اُس نے عمر پر نظر ڈالنا بھی گوارا نہ کیا۔ وہ شدید نفرتوں کے حصار میں تھی۔ اُس شخص نے اُس کی محبت کا تماشا لگا دیا تھا۔ اُس کے وکیل نے شروع میں ہی اُس سے پوچھا تھا کہ اگر وہ دوبارہ عمر کے ساتھ زندگی گُزارنا چاہتی ہے تو ابھی بتا دے… وہ یہ کیس یہیں چھوڑ دے گا۔
’’عمر کی سزا اور اپنے پیسوں کی وصولی کے علاوہ اُسے کوئی اور بات قبول نہیں۔‘‘ سامعہ نے اُسے صاف لفظوں میں بتا دیا۔
عمر کو اُس کے وکیل نے سمجھا دیا تھا کہ وہ عدالت کو یہی بتائے کہ دونوں مل کر نشہ کر رہے تھے اور ایسی حالت میں اُسے بالکل اندازہ نہ ہوسکا کہ وہ کیا کر رہا ہے…؟ اُسے تو یہ بھی یاد نہیں کہ اُس نے سامعہ پر ہاتھ اُٹھایا… یہ عورت پہلے بھی ایسے ڈرامے کر تی رہی ہے اور اب دوبارہ ڈرامے کرکے لوگوں کی ہمدردیاں وصول کر رہی ہے۔
عمر کی یہ ساری باتیں جب میڈیا پر وائرل ہوئیں تو سامعہ کا کیس مزید کمزور ہو گیا۔ عدالت میں اُسے میاں بیوی کا گھریلو معاملہ بنا کر ہی پیش کیا گیا۔ مردانہ تسلط اور عورت کو کمزور ثابت کرنے والے تو ہر طبقے میں موجود ہوتے ہیں۔ پولیس، وکیل، جج یا معاشرے کی ہر اہم جگہ پر ایسے ہی لوگوں کی حکمرانی ہے، جو روتی ہوئی، زخموں سے چور عورت کو ڈرامہ ثابت کرکے مرد کو ہر ظلم کا اِستحقاق دیتا ہے۔ عورت کی بدکرداری کو وجہ بنا کر اُس کے قتل کو جائز قرار دینے والے اِس معاشرے میں ہر جگہ موجود ہیں۔ مرد کو اِسی لیے بڑے سے بڑے مظالم پر بھی راہِ فرار مل جاتی ہے۔ آخرکار عمر کو بھی رہائی مل گئی۔ عدالت نے اِقدامِ قتل کے ناکافی ثبوت کے باعث اُسے صرف چند مہینوں کی سزا سُنائی، جس کے بعد وہ آزاد تھا۔ عمر نے ایک فاتحانہ نظر روتی ہوئی سامعہ پر ڈالی اور خبیثانہ انداز میں مُسکرا دیا۔ جیسے کہہ رہا ہو۔
’’دیکھ لو…! کیا بگاڑ لیا تم نے میرا…؟ تم خود ہی بدنام ہو گئیں…‘‘ گھر آکر وہ فاطمہ کے گلے لگ کر پُھوٹ پُھوٹ کر رو پڑی۔ فاطمہ کے پاس بھی ہمدردی کے کوئی جملے نہ تھے کہ وہ اُسے چُپ کرواتی۔ اُسے معلوم تھا کہ اُس کا حالیہ زخم بہت ہی گہرا ہے، بھرنے میں وقت لگے گا۔ وہ اُس کی پیٹھ سہلاتی ہوئی یہی سوچ رہی تھی کہ کب تک گھر والوں کے ظُلموں سے ستائی ہوئی عورتیں اپنے زخموں پر خود ہی مرہم رکھیں گی…؟ کب تک یہ معاشرہ زخموں سے چور عورت کی بات نہیں سُنے گا…؟ وہ سمجھ چکی تھی کہ معاشرے میں اتنی آسانی سے عورت کے لیے تبدیلی نہیں آئے گی… عورت غلام ہے اور غلام رہے گی… وہ سوچ رہی تھی کہ عورت کے لیے وقت اُس وقت تک نہیں بدلے گا، جب تک یہ معاشرہ مردانہ تسلط سے آزاد نہیں ہوگا… جب تک وحشی اور جنونی مرد عورتوں کو ذہنی اور جسمانی ٹارچر دیتے رہیں گے اور وہ معاشرے کے خوف سے اُنہیں برداشت کرتی رہے گی… اُس نے ایک آواز اُٹھانے کی کوشش کی تھی، لیکن ناکام ہو گئی۔ خود کو معصوم ظاہر کرنے کے لیے مرد کو سارے حربے معلوم ہیں۔ ایسے حالات میں عورت مظلوم ہو کر بھی ظالم اور بدکردار قرار پاتی ہے۔ سامعہ کی سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اب اُسے کیا کرنا چاہیے…؟ وہ خود کو بالکل تنہا محسوس کر رہی تھی، لیکن جب تک زندگی تھی…جینا تو پڑے گا… یہی سوچ کر وہ فاطمہ کے ساتھ اُس کے چینل پر کام کرنے لگی۔ زندگی گُزارنے کے لیے کچھ نہ کچھ تو کرنا تھا۔
٭……٭……٭……٭
عمر کی سزا کی مدّت پوری ہو گئی تھی… وہ باہر آچکا تھا… سامعہ اِسی دِن کا اِنتظار کر رہی تھی۔ اُس نے عمر کو فاطمہ سے فون کروایا کہ وہ اُس سے ملنا چاہتی ہے۔ وہ جیسے تیار بیٹھا تھا اور اُس کے فون کا ہی اِنتظار کر رہاتھا۔
’’ہاں! میں تیار ہوں… لگتا ہے اِتنی بے عزتی کے بعد تمہاری دوست کو عقل آ گئی… مگر یہ بات وہ اچھی طرح جان لے کہ طلاق تو میں اُسے نہیں دوں گا… جو پیسا اُس نے مجھے کاروبار میں لگانے کے لیے دیا تھا… وہ بھی واپس نہیں دے سکتا… اُس کی وجہ سے میرا اِتنا نقصان ہوا ہے… اگر وہ میرے پاس آ کر دوبارہ وہی کام شروع کرنا چاہے، تو مجھے کوئی اِعتراض نہیں۔‘‘ وہ مرد تھا، شاید ایسا اندازِ تفاخرانہ اُس کو زیب دیتا تھا۔ جب فاطمہ نے یہ ساری بات سامعہ کو بتائی تو وہ تلخی سے مُسکرا دی۔
’’مگر تم کرنا کیا چاہتی ہو…؟ اگر اُس کے ساتھ دوبارہ ہی رہنا تھا تو یہ سب ڈرامہ کرنے کی کیا ضرورت تھی…؟‘‘ وہ خود سامعہ سے بددل ہو چکی تھی۔ سارے زمانے میں اپنا تماشا لگا کر وہ دوبارہ اُس کمینے کے پاس جار ہی تھی۔ سامعہ نے اُس کی بات کا کوئی جواب نہ دیا۔ بس تلخی سے مُسکرا دی اور دوسرے دِن کی تیاری شروع کر دی۔
عمر نے اُسے اپنے آفس بُلایا تھا۔ وہ وقت پر اُس کے پاس پہنچ گئی۔ خود کو بڑی سی کالی چادر میں ملبوس کیے وہ اُس وقت عمر کے روبرو تھی۔
’’تم نے بہت اچھا فیصلہ کیا… مجھے کوئی اِعتراض نہیں، لیکن ایک بات واضح کر دوں… میں ماہا سے شادی کرنے جا رہا ہوں… میرے بُرے وقت میں اُس نے میرا بہت ساتھ دیا… اُسے کسی طور نہیں چھوڑ سکتا…‘‘ وہ یوں کہہ رہا تھا جیسے سامنے بیٹھی ہوئی عورت گوشت پوست کی انسان نہ ہو… کوئی بے جان گڑیا ہو… جس کے جذبات اور اِحساسات کی اُسے کوئی فکر نہیں… وہ تلخی سے مُسکرا دی اور بولی:
’’میں بھی یہی چاہتی ہوں عمر!… کہ وہ آگے بھی تمہارے بُرے وقت میں تمہارا پورا ساتھ دے، کیوں کہ آگے جو وقت تم پر آنے والا ہے… یقینا میں اُس وقت تمہارے پاس نہیں ہوں گی…‘‘ وہ لڑکھڑاتے ہوئے لہجے میںیہ کہتے ہوئے تلخی سے مُسکرائی۔
’’کیا مطلب…؟ کیسی بہکی بہکی باتیں کر رہی ہو…؟‘‘ وہ تھوڑا پریشان ہوا۔ اُسے محسوس ہوا کہ جیسے وہ مکمل نشے میں ہو۔
آج پہلی بار اُس نے دِل پر جبر کرتے ہوئے نہیں، بلکہ خوشی سے نشہ کیا تھا۔ اگر نشہ نہ کرتی تو اتنا بڑا قدم کیسے اُٹھا سکتی تھی…؟ کھڑے ہوتے ہوئے میز پر عمر کے سامنے قدرے جُھکتے ہوئے اُس نے اپنی چادر سے تیزاب کی بوتل نکال کر اُس کا ڈھکن ہٹایا اور پوری قوت سے عمر کے چہرے پر پھینک دیا۔ عمر کو سمجھنے اور سنبھلنے کا موقع بھی نہ ملا… تیزاب واقعی اصلی تھا، جس نے عمر کے خوب صورت چہرے کی جلد کو جلا کر پَل بھر میں جھاگ میں بدل دیا۔ اُس کی دونوں آنکھیں اور پورا چہرہ شدید جَل چکا تھا۔ وہ تڑپ رہا تھا، چیخ رہا تھا اور مدد کو پُکار رہا تھا۔ اِس سے پہلے کہ ملازمین اُس کی مدد کو اندر آتے، عمر کا خوب صورت چہرہ، ایک مکروہ چہرے میں بدل چکا تھا۔ سامعہ کے پاس اِس کے سوا کوئی چارہ بھی نہ تھا۔ وہ عمر کو اب کسی اور عورت کی زندگی برباد کرنے کے لیے چھوڑنا نہیں چاہتی تھی۔ اب وہ اپنے مکروہ چہرے کو اِستعمال کرکے کبھی کسی عورت کو برباد نہیں کر پائے گا۔ وہ اپنی خوب صورتی کے بَل بوتے پر دِل توڑتا تھا۔ آج اُس نے وہی وجہ ہی ختم کر دی۔ وہ اپنی سزا پا چکی تھی، لیکن عمر کی سزا تو تا عمر تھی۔ اب تا عمر وہ اپنے خوب
صورت چہرے کے لیے ترس جائے گا۔ عورتیں اُس سے گِھن کھائیں گی۔ اُس کے پاس نہیں آئیں گی۔ یہی سزا بہت تھی۔ سامعہ کو اب کسی سزا کی پروا نہ تھی۔ اُس نے اپنی زندگی برباد کرنے والے کی زندگی برباد کر ڈالی تھی۔ فی الوقت وہ اتنا ہی بدلہ لے سکتی تھی، مگر ہر عورت میں اتنی ہمت کہاں…؟ کبھی تو وقت بدلے گا… یہ مردانہ تسلط سے بھرپور معاشرہ بدلے گا اور گھروں میں پٹتی، روتی اور اپنے زخموں پر خود ہی مرہم لگاتی عورت کو اِنصاف ضرور ملے گا۔
(ختم شُد)
٭……٭……٭……٭

1 Comment

Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

You are commenting using your WordPress.com account. Log Out /  Change )

Twitter picture

You are commenting using your Twitter account. Log Out /  Change )

Facebook photo

You are commenting using your Facebook account. Log Out /  Change )

Connecting to %s

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.