پردیس سے دیس__________2

کرایے کا پہلا گھر:

پاکستان واپسی جہاں مجھے تکلیف دیتی تھی وہیں تھوڑا سی فرحت کا احساس بھی تھا کہ بلاآخر میں واپس اس دنیا میں اس دنیا میں واپس جا سکوں گی جن کی کمی ذندگی کو محروم مراد دکھاتی تھی ۔اسی دلچسپی سے میں نےکچھ شاپنگ بھی کی،اپنے متوقع عزیز اور احباب کی ملاقاتیں دھیان میں رکھتے ڈنر سیٹ،اور ٹی سیٹ لئے،کچن کے استعمال کی کچھ مزید چیزیں خریدیں،کچھ پرانی چیزوں کو اپ ڈیٹ کیا، بچوں کو نئی چیزیں اور کپڑے دلائے،کچھ گروسری اور کھانے پینے کی اشیا کا جن کے بغیر بچوں کا گزارا نہ تھا جیسے بسکٹ،کیک،چاکلیٹس ،وغیرہ ،ان کا سٹاک بھی مکمل کیا۔ خدشات و واہمات کے ساتھ بہرحال ایک نئے ایڈوینچر اور ایک نیی خوبصورت شروعات کا خواب بھی بدستور منسلک تھا جو ہمیں آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتا تھا۔

ابوظہبی کو پیچھے چھوڑتے ہوئے

روانگی سے دس دن پہلے ہی ہم گھر کا سارا سامان کنٹینر میں بھر کر بذریعہ بحری جہاز براستہ کراچی اسلام آباد کی طرف روانہ کر چکے تھے۔ایک پوش علاقہ جس میں ایک دوست خاندان رہتاتھا کے قریب شفٹ ہونے کی خواہش میں اسی علاقے کے ایک ہوٹل میں چند دن کی بکنگ کروائی۔سوچا جب تک سامان پہنچے گا تب تک گھوم پھر کر ایک گھر کرایے کا پسند کر لیں گے۔ روانگی کے لئے بس بچوں کے امتحان ختم ہونے کا انتظار تھا۔

“پردیس سے دیس” کی کچھ باتیں۔ وڈیو کے لیے لنک پر کلک کریں۔

آخری دس دن ابوظہبی میں اپنے خالی گھر میں اس تھوڑے سےمیاں کے لئے چھوڑے گئے سامان پر گزارا کیا جسے ہم دس سال سے اپنا گھر اپنی جنت بنائے بیٹھے تھے۔2008 میں ابوظہبی اپنا دیس اور سسرال کے دییے کمرے اور اماں ابا کے دیے جہیز کو چھوڑ کر ،محنت سے بنایا کیرئیر اور آنکھوں میں چمکتے خواب چھوڑ کر صرف اپنے اور ایک سالہ بیٹی کے چند جوڑے اور ذندگی ایک سوٹ کیس میں ڈالکر لائی تھی اور اس خالی گھر کو میں نے ایک کپ ،ایک گلاس اور دو گدوں سے اور اپنی آخری کمائی کے دو سو درہم سے بنانا شروع کیا تھا۔

آج مجھے اس سارے گھر کو سمیٹ کر جانا تھا۔جس ذندگی کو بنانے میں دس سال لگائے تھے آج اسے ایک جگہ سے اکھاڑ کر دوسری جگہ لیجانا اعصاب شکن فیصلہ تھا مگر یہ فیصلہ ہم دو بندوں نے مل کر لے لیا تھا۔اگرچہ یہ فیصلہ ہمارے خاندانوں کو پسند نہ تھا۔

واپسی کا فیصلہ کرتے کیا بہتر توقعات تھیں؟ لگتا تھا کہ درہم سے رپوں کا سفر کچھ سیونگ کا باعث بنے گا۔بچے تنہا رہ رہ پل گئے ہیں ان کو کم ہی سہی مگر اپنے جیسے کزنز اور دوست ملیں گے۔ابوظہبی کے جدید اور محفوظ شہر میں ،محفوظ گھروں میں اور سہولتوں میں پل بڑھ کر وہ بہت سے وسوسوں اور حقائق کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔وہ سمجھ سکیں گے کہ زندگی ہمیشہ ہر جگہ ایسی ہی سیدھی سادھی اور خموش نہیں ہوتی۔اس میں شور ہوتا ہے،ہجوم ہوتے ہیں،شادیاں اور جنازے ہوتے ہیں،محبت اور نفرت ہوتی ہے،اتفاق اور اختلافات بھی ہوتے ہیں،اگرچہ ایسا سوچتے ہمارا بھی سارا دھیان محبت،رنگ اور خوشیوں پر رہا تھا،اختلاف،نفرت اور بدصورتی ہمارے خیالوں سے بھی اتر چکی تھی۔پچھلے دس سال بغیر کسی سہارے کے میں نے لگاتار کام کیا تھا۔ایسے سال گزارے تھے جب بچے کے پاس بیٹھنے والا بھی میرے سوا کوئی نہ ہوتا تھا،جب مجھے ضروری حاجات کا،نہانے دھونے کا وقت بھی مکمل میسر نہ تھا کہ بچوں کو دیکھنے والا کوئی سہارا نہ تھا،ہفتہ بھر،مہینہ بھر سال بھر اور پھر سالہا سال کسی کے آسرے اور مدد کے بغیر جینا ایک مذاق نہ تھا۔یہ باتیں سننے میں آسان اور بے ضرر لگتی ہیں مگر جب سالہا سال تک سہنی پڑتی ہیں تو ایک لامحدود عزاب میں بدل جاتی ہیں۔ہم نے یہ جنت نما عزاب سہا تھا جب بند کمروں میں اکیلے یا ساتھ بیٹھ کر ہم رویے تھے،جب ہر مشکل لمحے میں سوائے خدا کے اور کوئی نہ تھا۔خوب کہا جاتا ہے کہ اس کے بغیر کچھ چاہیے بھی نہیں ہوتا مگر سچ تو یہ ہے کہ ہم بھروسہ ہمیشہ اپنے آس پاس کے لوگوں پر ہی کرتے ہیں۔مشکل وقت میں آپ کے بہن بھائی،دوست رشتہ دار اور ہمسائے ہی کسی نہ کسی طرح آپ کا ظاہری آسرا بنتے ہیں اور ہمیں انہی کی طرف دیکھتے رہنے کی عادت ہو جاتی ہے کہ ہم جانے انجانے میں انہی پر بھروسہ کرنے لگتے ہیں۔انسان سپورٹ کے لئے سب سے پہلےدوسرے انسان کا ہی محتاج ہوتا ہے اسی کی طرف دیکھتا ہے۔بس ہمارے پاس وہ انسان ہی نہیں تھے۔وہ دن جب ہم اپنے آس پاس کسی آسرے کی تلاش میں بےسود لپکے،ہماری روحوں میں ہمیشہ ذندہ رہتے ہیں کیونکہ وہ کرب آپ کی ہستی عموما ہضم نہیں کر پاتی۔کچن میں بیٹھ کر تنہا رونا،سالہا سال دن بھر کے سکوت میں شام کا انتظار کرنا،خود کو کاموں میں لگائے رکھنا تا کہ تنہائی کا احساس نہ ہو،اور جب کبھی تھک جانا تو ڈیپریشن سے ہی پاگل ہو جانا،ایسی تھی میری خاتون خانہ ذندگی جس سے بھاگ کر اب ہم جانا چاہتے تھے۔صرف پیسہ امارت،اعلی شہر،شیشے کی عمارتیں ہی سب کچھ نہیں ہوتیں،ان میں کچھ لوگ ہوتے ہیں جو سورج کی حدت کو کم کرتے ہیں ،جو خوبصورتیوں کو دلکش کرتے ہیں،جو تکلیف کی شدت گھٹا دیتے ہیں اور خوشی کے لمحات میں جان بھر دیتے ہیں۔ایسا نہ ہو تو کیا پاکستان میں اٹھارہ کروڑ لوگ ذندہ رہ پاتے جن کے پاس نہ صاف سڑکیں ہیں نہ پیسہ،نہ اعلی لباس نہ عمدا خوراک ۔پھر بھی آدم کے سہارے جئیے جاتے ہیں۔

پردیس میں آس پاس لوگ بہت ہوتے ہیں مگر سب کے سب اجنبی ہوتے ہیں۔وہ ہمیں دوسری مخلوقات کی طرح دکھتے ہیں ہم ان سے کنی کترا کر گزرتے رہتے ہیں اور کبھی بھی ایسا سپورٹ سسٹم نہیں بنا پاتے جیسا آپ اپنے پیچھے چھوڑ کر آتے ہیں۔اور اکثر ہم خود بھی بھول جاتے ہیں کہ ہم پیچھے چھوڑ کر کیا آئے ہیں صرف رنگ،خوشبو اور محبت یاد رہ جاتی ہے۔پردیسی کو اس کے سوا سب کچھ بھول جاتا ہے۔اسی سپورٹ سسٹم کے بغیر لگتا تھا زندگی ادھوری تھی سو واپس اس نظام میں جانے کی طلب تھی۔

میں اتنے سال میاں کی سائٹ کے قریب ہونے کی خاطر عربی لوکل لوگوں کی اکثریت والے رہائشی علاقوں میں رہنے پر مجبور تھی جسمیں اردو بولتی انڈین مائیں تو تقریبا ہر گھر میں تھیں مگر خود کو عربی بنانے کی جدو جہد میں مصروف تھیں۔چناچہ ہم تھے اور ہماری دور دور تک پھیلی تنہائی تھی۔مجھے آج بھی یاد ہے وہ دن جب سات سالہ بیٹے کو بے ہوش چھوڑ کر میں نیچے کے اپارٹمنٹ کے دروازے بجاتی رہی تھی جس میں دن کے اوقات میں کوئی نہ تھا ۔(عرب لوکل مرد و عورت کی اکثریت کو سرکاری نوکریاں میسر ہیں چناچہ گھروں میں دن کے اوقات میں اکثر سوائے ملازمین کے کوئی نہیں ہوتا) ۔آٹھ آٹھ کنال کے ایک ولا والی کالونی میں گھر بہت دور دور تھے سڑکوں کے بیچ میں بڑے بڑے میدان معلق تھے اور دن کے اوقات میں سڑک پر ٹریفک بھی بہت محدود تھی اور میں دوسری منزل پر خالی گھر میں بے ہوش بیٹا چھوڑ کر کلو میٹرز کے فاصلےبھاگ نہ سکتی تھی،جب میں آزمائش کی اس گھڑی میں اکیلی تھی اور بی بی حاجرہ کی طرح ادھر ادھر بھاگتی تھی، دروازہ پیٹتی تھی،،،، اداسی اور تنہائی کی طویل تر لال عینک کی بدولت ہم ہر چیز محبت بھری دیکھنے پر مجبور تھے۔

اسلام آبادمیں ہوٹل اپارٹمنٹ

اسلام آباد میں عارضی رہائش کے لئے جس ہوٹل کا انتخاب کیا تھا وہ تصاویر،کرایے اور لوکیشن کے حساب سے تو خاصا لگثری ہونا چاہیئے تھا مگر پاکستان اترتے ہی سب سے پہلے اس ہوٹل کو دیکھا تو احساس ہوا کہ لگثرری کا مطلب کئی سیڑھیاں اتر کر خاصا نیچے آ گیا ہے۔دو کمروں کے ایک فلیٹ میں انتہائی بنیادی لیول کی اشیائے ضرورت اور سازو سامان،باتھ روم انتہائی بنیادی اور صفائی ستھرائی کا معیار خاصا پسماندہ، عرب امارات کے معیار سے خاصا کم تر،حتی کہ ہمارے سفید پوش لوگوں کے گھروں کی تعمیرات و معیار بھی اس پوش علاقے کے مہنگے ہوٹل کے کمرے سے بہتر تھی۔تعمیر سے فٹنگ،فنیشنگ اور اشیا تک ہر چیز کی کوالٹی خاصی بنیادی لیول کی تھی جبکہ کرایے بتاتے تھے کہ ہوٹل اعلی معیار کا ہے۔ آہستہ آہستہ کچھ دنوں میں ہم سمجھنے لگے کہ ہم چاند سے زمیں پر اتر آئے ہیں اور اب ہر قدم پہلی سے پسماندہ چیز پر پڑے گا۔ہمیں اس پر بھی اعتراض نہ ہوتا مگر آہستہ آہستہ ہم پر کھلنے لگا کہ جو سب سے پسماندہ چیز ہم نے پاکستان میں دیکھی وہ کچھ انسانوں کا اخلاق و کردار ہے جس کی مجموعی حالت شہر کی گلیوں سے، اعلی جگہوں پر لگی پست معیار کی چیزوں سے اور تعمیرات کی خستہ حالی سے بڑھ کر زوال پزیر ہے۔اس کی وضاحت آہستہ آہستہ سامنے آتی رہے گی۔

حفظ ماتقدم کے طور پر بیڈ شیٹس ہمارے بیگز میں موجود تھیں ۔عرب امارات کا موسم گرم ترین ہونے کی بنا پر تقریبا سال بھر ہی اے سی کا استعمال نا گزیر ہے اس لئے وہاں رہنے والے سارا سال کمبل لینے کے عادی ہو جاتے ہیں۔مگر اب اے سی تو تھے مگر کمبل نہ تھے ہمارے پاس چناچہ اللہ کا نام لیکر انہیں میں گزارا کر لیا جو ہوٹل میں مہیا کیے گئے تھے۔

شہر میں نکلے تو عرصے بعد سبزے کی بہار دیکھی،جولائی کے مہینے میں سڑکوں پر جھاڑیاں بھی اس قدر خوش رنگ پتوں سے اور رنگ سے لدی ہوئی تھیں کہ ان کو دیکھ دیکھ دل ہی نہ بھرتا۔ابوظہبی جیسے ماڈرن اور جدید شہر میں کارپٹٹڈ سڑکیں ،نفیس زرا زرا سی تراشی ہوئی ہریالی،چمکتی عمارتیں،جگمگاتے ٹاورز تو دکھائی دیتے ہیں مگر سبزے اور پھولوں کے جو رنگ اور بہتات پاکستان میں ہے یقینی طور پر عرب امارات کے صحرا میں یہ نعمت میسر نہیں ہے۔اپنا تمام تر سرمایہ اور محنت لگا کر بھی وہاں صرف مخصوص قسم کا محدود سبزہ ہو سکتا ہے۔یہ لدے پھدے درخت پاکستان کے لئے خدا کی مفت نعمت ہیں اور دنیا کی ہر نعمت پیسے سے نہیں خریدی جا سکتی۔

سبزے اور ہریالی میں گھرا اسلام آباد

شروع کے دن سامان کے انتظار میں تھے سو فراغت تھی گھومنے نکلے اور مری کی طرف رخ کیا۔اور یہ سفر کم سے کم میرے بچوں نے ذندگی میں پہلی بار کیا اور میں نے تقریبا انیس سال بعد۔پچھلے دس سال سے جب سے باہر تھے پاکستان کا سفر صرف کبھی کبھار کا والدین کے شہر تک کا رہ گیا تھا۔وہیں اترتے اور وہیں سے واپسی پکڑتے رہے تھے۔فجیرہ ،العین اور سعودیہ کے پتھریلے کالے اور لال پہاڑ تو خوب پھرے تھے مگر سرسبز پہاڑ ایک طویل عرصے بعد پھرے تو یوں لگا جیسے ذندگی جنت بن گئی ہو۔خدا پاکستان پر اس قدر مہربان ہو سکتا ہے کہ اس قدر خوبصورت وادیاں اور شجر،پہاڑ اور نظارے اس نے یہاں کے انساں کو کسقدر فراغ دلی سے نواز رکھے تھے۔امارات میں العین میں ہم دیکھ چکے تھے کہ کس طرح ایک چھوٹی سی پہاڑی پر کسقدر محنت سے ہلکا پھلکا سبزہ کرنے کے لئے کتنے پاپڑ بیلے جاتے تھے اور یہاں نیچے سے اوپر تک سبز جنگلات بھرے تھے اور یہاں کا انساں شاید اس نعمت سے ہی بے خبر تھا۔میں نے سوچا کیسے کیسے گرم موسم یہ وادیاں اور جنگل نگل جاتے ہونگے،اس دنیا کے انساں کے حصے کے کیسے کیسے تپتے سورج یہ وادیاں چوس جاتی ہونگی۔ مگر ایسا ہے کہ انسان بہت ہی محدود اور ناشکرا ہے اسے چیونٹی کی طرح ایک بڑے لال دائرے میں رکھ دو تو وہ سمجھتا ہے ساری کائنات لال ہے،سبز میں رکھ دو تو سمجھتا ہے دنیا میں سبز کے سوا کوئی وجود ہی نہیں۔اور یہی محدود حد نظر اسے ناشکرا بنا دیتی ہے اور وہ نعمتوں کی بہتات کو بس قدرت کا نظام سمجھنے پر بضد ہو جاتا ہے۔۔ اور اس کے اعتراف سے کنی کترانے لگتا ہے۔شاید اسی لئے تو قرآن جاننے اور سمجھنے کی کوشش پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے،تبھی تو خدا کہتا ہے زمیں پر پھیل جاؤ اور خدا کا فضل تلاش کرو۔مگر انسان اس پھیلنے کو صرف اپنے شہر کی سڑکوں تک پھیلنے پر محدود کر لیتا ہے اور اپنے حد سے باہر سوچنے سے اجتناب کرتا ہے۔
_________

اس کی اگلی قسط ڈان نیوز پر دیکھنے کے لئےاس لنک پر کلک کریں۔

تحریر و فوٹوگرافی:صوفیہ کاشف

ٹائیٹل کور بشکریہ ڈان نیوز

2 Comments

  1. واہ واہ شاندار
    واقعی انسان کی نظر بہت محدود ہے، چھوٹی سی دنیا کو کل کائنات سمجھ لیتا ہے، جبکہ اللہ کی دنیا تو لا متناہی ہے۔ رنگا رنگ ہے، بے کنار ہے۔

    بہت ہی خوبصورت لکھا ہے

    Liked by 1 person

Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

You are commenting using your WordPress.com account. Log Out /  Change )

Twitter picture

You are commenting using your Twitter account. Log Out /  Change )

Facebook photo

You are commenting using your Facebook account. Log Out /  Change )

Connecting to %s

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.