میری طبیعت کچھ دنوں سے ایسی تھی جیسے میں مر چکا ہوں اور میرا جسم اِدھر اُدھر گھوم رہا ہے۔
نہ ہی خوش ہوں نہ ہی غمگین۔
میرے اندر کے جذبات اندر ہی اندر اپنا رستہ بنا کر کہیں اور نکل گئے ہیں اور میرا جسم بھی اپنے ہی راستے چل پڑا ہے۔
عصر کے بعد گھر سے نکلا اور دور کھیتوں کی طرف آ گیا۔
ان دنوں کرونا کی وبا پھیلی ہوئی تھی اور لوگ لاک ڈاؤن ہونے کی وجہ سے اپنے گھروں میں پھنس کر رہ گئے تھے۔
یہ اپریل کا مہینہ تھا، بارشیں لگاتار ہو رہی تھی۔
فضا اور ہوا صاف تھی۔
میں کھیتوں کے درمیان چلتا ہوا دور تک آ گیا تھا۔ہر طرف خاموشی تھی اور پرندوں کی آوازیں دور سے بھی اتنی صاف سنائی دے رہی تھی کہ میں ان آوازوں کو الگ الگ کر سکتا تھا۔
میں ایک اونچے ٹیلے پر بیٹھ کر گندم کے لہلہاتے کھیتوں کو دیکھ رہا تھا جو کچھ ہی دنوں میں پک کر تیار ہونے والے تھے۔میں دور سے کوئل کی آواز سن رہا تھا جو مسلسل بول رہی تھی۔ کھیتوں کے درمیانی راستے پر ایک پیپل کا درخت تھا۔ اس سے آگے قبرستان اور پھر گاؤں کی آبادی شروع ہوجاتی تھی۔
کوئل کی یہ آواز پیپل کے درخت سے آرہی تھی۔
آسمان پر کئی رنگوں کی روشنیاں اور بادل تھے اور ڈھلتی سورج کی کرنوں نے آسمان پر مختلف رنگوں کے ابسٹرکٹ بنانے شروع کر دیئے تھے۔ یہ منظر ایسا تھا کہ میرے وجود کے کچھ ذرات بھی اس میں شامل ہوگئے اور میں محسوس کرنے لگا جیسے یہ سب منظر میرے اندر اتر رہے ہیں۔
دور سے آنے والے تیتر اور چڑیوں کی آوازیں بھی کہیں میرے اندر مدغم ہو رہی تھیں۔ نہ چاہتے ہوئے بھی میں اپنے دماغ کو ان آوازوں کا پیچھا کرنے سے نہیں روک سکتا تھا۔ مجھے محسوس ہو رہا تھا جہاں تک میں دیکھ سکتا ہوں وہاں کی ہر حرکت میرے احساس سے خالی نہیں ہے۔
میرا دماغ مسلسل تحرک میں تھا اور پیپل کا درخت جو مجھے گھر جاتے ہوئے راستے میں پڑتا تھا،میں چلتا چلتا اس کے سامنے پہنچ گیا۔
ایک لمحے میں مجھے محسوس ہوا جیسے میرے وجود کا ایک حصہ اس درخت میں سما گیا ہے اور اب میں، میں نہیں رہا بلکہ درخت بن گیا ہوں۔ میرا جسم اپنے ہی راستے پر ہے اور میری روح درخت کے اندر حلول کر گئی ہے۔
نئے وجود میں ڈھلتے ہی محسوس ہوا،میں دکھ کے عالم میں زندگی گزار رہا ہوں۔
میں ایسا درخت ہوں جو عمر رسیدہ ہوگیا ہے۔
میں نے یہیں کھڑے کھڑے عمر گزار دی ہے اور یہاں سے صرف دکھ سمیٹے ہیں۔ اب میرے سر میں بھی خشکی بڑھ رہی ہے اور میرے اوپر والے حصے کی کچھ شاخیں سوکھ گئی ہیں اور لمحہ با لمحہ موت میرے اندر اتر رہی ہے۔
موت؟
یہ میری مہمان ہے جو مجھ سے باتیں بھی کرتی ہے اور مجھے تسلی بھی دیتی ہے۔
میں نے اپنی شاخوں پر کئی پرندوں کو لوریاں دی ہیں اور انہیں آشیانوں میں اِن کی نسلوں کو جوان ہوتے دیکھا ہے۔
میرے پاس ایسی کئی یادیں ہیں جنہوں نے مجھے بڑھتی عمر کے ساتھ گہرے دکھ میں مبتلا کیا ہے۔
میری جڑیں جب زمین میں اپنی جگہ بنا رہی تھیں اور مجھے مضبوطی دینے عمل میں تھی تب میری ایک جڑ مر گئی تھی۔ اگر آج وہ زندہ ہوتی تو میری انہی زمین میں پیوست ہوئی جڑوں کی طرح جوان ہوتی اور میری ہمت اور حوصلے میں اضافہ کرتی۔ایک وقت ایسا بھی آیا جب خوراک زیادہ نہ ہونے کے باعث مجھے اپنے ہی کچھ حصوں کو مارنا پڑا جن میں زندگی کی گنجائش کم تھی۔
مجھے تیز ہواؤں میں اپنی شاخیں گرنے کا ہمیشہ ڈر لگا رہتا ہے جنہیں میں جوان کرتا ہوں۔
یہ وہ دکھ ہیں جو مسلسل میرے اندر اترتے رہتے ہیں۔
میری بڑی شاخوں پر ایک لنگڑی بلبل رہتی تھی جس کا شوہر تو ایک دن شکار ہوگیا لیکن وہ اور اس کی بیٹی اسی گھونسلے میں رہتے رہے۔دن گزرتے گئے اور بیٹی جوان ہوگی اور وہ لنگڑی بلبل بوڑھی ہو گئی۔ اب وہ زیادہ دور نہیں جاتی تھی اور پورا دن مجھ سے ہی باتیں کرتی رہتی یا اپنے گھونسلے کے اردگرد گھومتی رہتی تھی۔
شام کو جب اس کی بیٹی واپس آتی تو اس کے کھانے کے لئے کچھ نہ کچھ ضرور لے کر آتی۔تھوڑے دن پہلے ہی اس کی بیٹی بھی باپ کی طرح اسی درخت سے ایک شکاری کے زد میں آ کر ہلاک ہوگئی تھی۔
میں اس لنگڑی بلبل کی آہ و فریاد سن سکتا تھا جو شاید مجھ سے بھی زیادہ دکھ محسوس کر رہی تھی۔
اگلی صبح وہ بلبل بھی مر چکی تھی۔اُس کا جسم میرے نیچے بکھرے ہوئے پتوں پر پڑا تھا اور اس پر چیونٹیاں پھیل چکی تھی۔
میری زندگی کے دن گنے جاچکے تھے۔ موت میرے اندر لمحہ با لمحہ موجود رہتی تھی اور آہستہ آہستہ میرے وجود پر اپنا رنگ چڑھائے جارہی تھی جس کے سامنے میں لاچار اور بے بس تھا۔
جوانی میں بھی میرے وجود کے کئی حصوں کو الگ کیا جاتا رہا ہے اور ان کے کٹ جانے کا دکھ بھی میرے اندر ہی اندر مل کر میری موت کے ساتھ سازش کرنے لگا ہے۔
میں نے اپنے جیسے بہت سے درختوں کو اپنے وجود سے پیدا کیا اور میرے دیکھتے ہی دیکھتے ان کو یہاں سے کہیں اور منتقل کر دیا گیا۔ میرے وجود کے ایسے کئی حصے کھیتوں کے دوسری پار لگے ہوئے تھے۔ ان سے میری بات چیت صرف اس وقت ہوتی جب تیز ہوائیں چلتیں اور یوں اُن کی آواز مجھ تک پہنچتی۔
۔۔۔۔
میں درخت کے وجود سے باہر آیا تواِسی پیپل کے بوڑھے درخت کے سامنے تھا۔
شام کی اذان میرے کانوں میں پڑنے لگی تھی۔
میں سامنے پیپل کے درخت سے اب آزاد ہو کر گھر کی طرف چلنے لگا تھا۔
مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ میرا وجود کسی اور وجود میں منتقل ہو گیا تھا اور اس کے اندر کا دکھ بھی اب میرے وجود کا حصہ تھا۔
میں بھی شاید ایسا ہی محسوس کر رہا تھا جیسے وہ درخت محسوس کرتا ہے۔
میں دوسرے وجود کے دکھ کو بھی ایسے ہی محسوس کر رہا تھا جیسے میں اپنے وجود کے دکھوں کو محسوس کرتا ہوں۔
میرے قدم آہستہ آہستہ گھر کی جانب بڑھنے لگے تھے اور میں بوڑھے پیپل کی زندگی کو ختم ہوتے ہوئے محسوس کر رہا تھا۔شاید دوسرے وجود کے دکھ کا احساس میرے اندر پہلی مرتبہ اترا تھا اور اب وہ میرے ہی وجود میں سے کسی نئے راستے کی تلاش میں تھا۔
دوسرے وجود کا دکھ_________طیب ناسک
