حیدر_____________عظمی قاضی


جلوس سے اللہ اکبر کے فلک شگاف نعرے بلند ہوے تھے علامہ جبار الدین ربانی ایک روح افزا تقریر کے بعد سٹیج سے اترنے لگے تھے – ان کا ایک ہاتھ ہوا میں بلند تھا- اچانک مجلس میں ہلچل مچ گئی-ہواس سنبھلنے سے پہلے ہی ہوائی فائرنگ کے بعد اب خاکی وردی والوں کی لاٹھی چارج نے عوام کو ہواس باختہ کر دیا تھا- انڈین فوج اپنے ایک طاقتور فوجی دستے کی مدد سے کشمیر کے حزب مجاہدین کے جلسے پر حملہ آور ہوا تھا – ہواس سنبھلتے ہی جانباز مجاہدین نے اپنے قائد کے گرد گھیرا ڈال دیا تھا – یک لخت نامعلوم مقام سے ہونے والی فائرنگ نے مجمعے میں ایک نئی جان ڈال دی تھی -عوام کے برساتی پتھروں نےفوجی دستے کے اوسان خطا کر دیں تھے- “حیدر” پھیرتی سے ریوالور چلاتے اس نوجوان پر نظر پڑتے ہی یک لخت علامہ صاحب کی زبان سے یہ لفظ ادا ہوا –
“مجھے یہ نوجوان زندہ سلامت چاہیے – کسی بھی حال میں -” انہوں نے گھاٹی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنے سپہ سالار کمانڈر برہان کو دو ٹوک الفاظ میں سمجھا دیا جو ان کو محفوظ مقام پر منتقل کر نے کی فکر میں لگا تھا- نقاب پوش مجاہد انڈین فوج کو چکمہ دے کر اب گھاٹی کے اس پار اتر رہا تھا جس نے ان کو ابھی چند لمحے پہلے الٹے پیر لوٹنے پر مجبور کر دیا تھا –
“ہم تمھیں چاروں طرف سے گھیر چکے ہیں مزاحمت کی کوئی بھی کوشش ناکام جائے گی -” نقاب کے اس پار عقابی آنکھوں نے اپنے گرد دائرے میں گھومتے موٹر سائیکل سوار کو پہچاننے میں ذرا سی بھی دیر نہیں کی تھی- وہ حزب مجاہدین کے قائد علامہ جبار الدین ربانی کا فرزند تھا – اس کا یہاں ہونا کوئی انہونی بات نہیں تھی پر اس کا دیدار یہ آنکھیں آج دس سال بعد کر رہی تھی-
“وہ واپس کب آیا ہے؟” نقاب پوش سرنڈر ہو چکا تھا – اسے کمانڈر برہان الدین ربانی کی اعلانیہ باتیں سنائی نہیں دے رہی تھی- ماضی کے حساب میں لگ کر اس کا حال چند لمحوں کے لیےچھوٹ گیا تھا –
“اپنا نام پتہ کچھ بھی نہیں بتایا اس نے – کہتا ہے جو بھی بات کروں گا سردار صاحب کے سامنے کروں گا -” کمانڈر برہان نے اسے علامہ جبار الدین ربانی کے سامنے پیش کرتے ہوئے کہا –
“حیدر…” انہوں نے مسکرا کر سرگوشی کی –
“تم جاؤ کمانڈر برہان -” انہوں نے اپنے سامنے گھٹنوں پر بیٹھے اس نوجوان کو دیکھ کر کمانڈر برہان کو باہر جانے کا حکم دے دیا –
” دختر عیسٰی کدوانی ہوں -” علامہ صاحب نوجوان کی اس بات پر بجلی کی طرح اچانک مڑے تھے- وہ نوجوان کون تھا جو ہر بار مجاہدین کے جلسے پر ہونے والے بھارتی فوج کے راستے میں آکر انہیں لوٹنے پر مجبور کرتا یہ جان لینے میں انہیں جو دلچسپی تھی اب شاک میں تبدیل ہوگئی تھی یہ جان کر کہ وہ نوجوان نوجوان نہیں تھا بلکہ ان کے بہادر شہید دوست کی دختر نایاب تھی-
“اماں نے حفصہ نام رکھا تھا کہ نام کا اثر لے کر حضرت حفصہ رضی اللہ عنہ کی طرح بہادر بن جاوں پر ابا کو بیٹا چاہیے تھا جو ان کی طرح آزادی کشمیر کا جنگ لڑ کر شہید ہو جاتا انہیں کشمیر کی آزادی کے لیے میرا زنانہ خون نہیں چاہیے تھا اور یقیناً آپ بھی ہم خیال ہونگے اس لیے مجھے اجازت دیں میں یہ جنگ اپنے حساب سے لڑوں گی-” علامہ صاحب دم سادھے اس کا چہرہ تک رہے تھے جہاں سے اب نقاب ہٹ چکا تھا – وہ اپنے باپ کی طرح مضبوط اور قد آور تھی آواز میں گرج اور خود اعتمادی تھی- اگر اس خوبصورت دودھیا رنگت والے چہرے سے نقاب نہ ہٹتا تو وہ اسے مجاہد تسلیم کر چکے تھے- مجاہدوں والی ہر بات اس میں کھوٹ کھوٹ کر بھری تھی اور آخر کو وہ کدوانی اور کلثوم کی اولاد تھی وہی کلثوم جس کا دل اپنے سرتاج کو میدان جنگ میں بھیجنے پر ذرا بھر بھی نہیں لرزتا تھا- اس بات کو علامہ صاحب سے ذیادہ کون جان سکتا تھا –
؟ “سبحان اللہ سبحان اللہ سبحان اللہ” وہ کمرے میں چکر کاٹتے ہوئے بولے جارہے تھے-
“کدوانی کو اللہ نے اتنی بڑی نعمت سے نوازا ہے انہوں نے کبھی ذکر نہیں کیا ہم سے-” انہوں نے حیرت سے کہا- وہ کدوانی صاحب کے ہاں ہر بار بیٹی کے پیدائش سے باخبر رہتے تھے پر ایسے گوہر نایاب کا انہیں کبھی گمان بھی نہیں ہوا تھا –
اپنے لیے رحمت کا لفظ اس نے اکثر لوگوں سے سنا تھا پر آج علامہ صاحب نے اسے نعمت کہہ کر خاص ہونے کا احساس دلایا تھا –
“کشمیر کو تیرے جیسے جوان خون کی ضرورت ہے – حزب مجاہدین کے سینے میں تیرے جیسے جانثاروں کے لیے ہمیشہ جگہ رہے گی-” انہوں نے اپنی حیرانگی پر قابو پاتے ہوئے کہا – حفصہ اب ان کے سامنے کھڑی ہوئی تھی –
“تو کیا آپ اپنی قیمتی جان آزادی کشمیر کے لئے وقف کرنے کے لیے تیار ہیں؟ ” علامہ جبار الدین ربانی نے اس سے حلف لیتے ہوئے کہا- فرط مسرت سے اس کی آنکھیں بھر آئی –
” میں یہ نہیں کہوں گا کہ آپ یہاں محفوظ ہے کیونکہ دشمن کی نظر چاروں طرف سے ہم پر ہے- میں یہ بھی نہیں کہوں گا کہ آپ کی عزت کو یہاں کوئی خدشہ نہیں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ آپ اپنی حفاظت خود کر سکتی ہے-“
علامہ صاحب نے اسے حیدر نام دیا تھااور فل حال اس کی شناخت کو خفیہ رکھنے کی تجویز دی تھی – وہ کمانڈر برہان کی سر پرستی میں دی جا چکی تھی – ٹریننگ شروع کرنے کے لیےاسے آج ہی مجاہدین کےساتھ ان کی خفیہ ٹریننگ سینٹرز میں منتقل ہونا تھا – کمانڈر برہان کے دستے میں شامل ہو کر اسے رات کو اپنے منزل مقصود تک پہنچنا تھا –
” حیدر ” سب سے الگ دور ایک پتھر پر بیٹھی وہ مسکرا کر اپنا نیا نام دہرا رہی تھی – ابا اکثر بیشتر اس کے لیے بہادر کا لفظ استعمال کرتے تھے جب وہ بچپن میں انڈین کیمپس میں میموں کے چھوٹے موٹے کام کرنے کے بہانے گھس جایا کرتی تھی – کئی بار وہ بہت اہم معلومات فراہم کرنے میں کامیاب ہوئی تھی اور جب کبھی اس کے منہ پر فوجی افسران کے ہاتھوں زناخہ دار تھپڑ پڑتے اس کے کانوں میں سائیں کرتی ٹرین کی آواز اس وقت خاموش ہوجاتی جب وہ اپنا لال چہرہ لے کر ابا کے پاس آتی اور وہ شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے اور کہتے “میری بہادر بیٹی کشمیر انشاءاللہ آزاد ہوکر رہے گا -” اور یہی سننے کے لیے وہ اپنے باپ سے اگلی تاریخ لیتی تھپڑ کھاتی اور پھر آتی اس بات کی مٹاس کو اپنے اندر سمونے کہ کشمیر آزاد ہو کر رہے گا- یہ اس کے باپ کا عقیدہ تھا جو انہیں شہید کرگیا اور جسے سچ مان کر وہ بھی ان ہزاروں کشمیریوں کی طرح ذندہ تھی-
” کمانڈر برہان بلا رہے ہیں -” ایک مجاہد نے اسے آواز دی-
وہ سپاہیوں کے ساتھ کھانا بنانے میں مصروف تھا- رات کا اندھیرا چھاتے ہی یخ بستہ ہواؤں کے زور میں بھی اضافہ ہوا تھا – سبھی سپاہی کھلے آسمان تلے آگ کے گرد بیٹھے دنبہ بننے میں مصروف تھے –
“ہاں مجاہد کیوں اتنے الگ بیٹھے ہو؟ ” اس نے ہر نئے جوان کی طرح اسے بھی اپنے ساتھ گھل مل جانے کے لئے ہلکے اور خوشگوار موڈ میں کہا – سپاہیوں نے اپنے درمیان اس کے بیٹھنے کی جگہ بنا لی- بجائے وہاں بیٹھنے کے وہ ان سب کے پیچھے ایک دری پر بیٹھ گئی – کمانڈر برہان نے اسے قدرے حیرت سے دیکھا – ” اس کے اٹھنے بیٹھنے پر پابندی مت لگانا کام کا کھرا ہے کام پر نظر رکھنا-” اچانک اسے علامہ صاحب کی کہی ہوئی بات یاد آگئی اور وہ خاموش رہا –
وہی گہری جھیل سی آنکھیں.. گیلی گنی پلکیں جو ہمیشہ کی طرح آنکھوں کے اوپر احترام سے جھکی ہوئی تھی یوں لگ رہا تھا جیسے کسی دریا کنارے کھڑے درختوں کے گھنے شاخوں کا سایہ ہو-
” یہ لو حیدر ” کمانڈر برہان نے گوشت کا ایک ٹکڑا اسے تھما کر کہا جو ابھی ایک سپاہی اس کے سامنے پیش کر گیا تھا – اس نے کمانڈر کے ہاتھ سے گوشت لے کر دانتوں سے کاٹنا شروع کر دیا منہ پر لپٹا نقاب اب ٹھوڑی تک آچکا تھا- کھانے سے اس کے سوچوں کا تسلسل نہ ٹوٹا-
اس نے آخری بار اسے تب دیکھا تھا جب وہ ابا کے ساتھ علامہ جبار الدین ربانی آستانے پر آئی تھی – پھر سننے میں آیا تھا کہ وہ اپنی تعلیم مکمل کرنے ولایت گیا ہے پر وہ ناک و نقشہ اسے آج بھی یاد تھا-وہ تب بھی خوبرواور پراعتماد تھا پر وقت نے اس کے وجاہت و مردانگی میں اور بھی اضافہ کیا تھا – وہ اپنے کھانے پر جھکا ہوا تھا اور اندھیرے نے حفصہ کو اسے دیکھنے کی کھلی آزادی دے دی تھی –
اگلے کئی کامیاب مشینز میں کمانڈر برہان کے ہمراہ کامیابی کے جھنڈے گاڑنے کی وجہ سے حیدر عام وخاص میں کافی مشہور ہو گیا تھا – اب علامہ جبار الدین ربانی نے انہیں ایک بہت اہم میشن کے لیے تیار کرنا تھا- وہ دونوں اپنے جانبازوں کے ساتھ پہاڑی گھاٹیوں پر جنگی مشقیں شروع کر چکے تھے –
پہاڑی گھاٹیاں تھی، چٹان تھے اور چاندنی رات …. اس نے دور تک نظر دوڑائی – اس کا چہرہ چاند کی روشنی میں چمک رہا تھا آنکھیں بند تھی اور ہاتھ اللہ کے بارگاہ میں اٹھے ہوئے وہ تحجد پڑھ رہی تھی- لبوں پر صرف ایک ہی لفظ کا ورد تھا… کشمیر…. کشمیر…. وہ خالق سے اپنے جنت کی طلب گار تھی- کمانڈر برہان گھاٹی کے پیچھے چھپ کر بیٹھ گیا – حیدر حیدر نہیں تھا… وہ ایک خوبصورت دوشیزہ تھی…. اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا- وہ سانس روکے کھڑا تھا-
یک لخت اسے کسی کے ہونے کا احساس ہوا تھا ایک لمحہ ضائع کیے بغیر اس نے پھیرتی سے اپنی ریوالور کا رخ اس کی طرف کر دیا – اس کے چہرہ نقاب سے خالی تھا ریوالور کمانڈر برہان الدین ربانی کے کنپٹی پر رکھے وہ کوئی مجاہد حیدر نہیں تھا… وہ مجاہدہ تھی…. اس کی خوبصورت گہری غزل آنکھوں میں سوال تھے…. وہی بچپن والی اپنائیت… جیسے وہ اس عقاب سی آنکھوں کو یاد کرنے کی کوشش کر رہا تھا – جتنے زیادہ سوال اس کی آنکھوں میں تھیں اس سے کہیں زیادہ جواب دینے کی طاقت تھی حفصہ میں…. اچانک گولی چلی تھی اور پھر کئی گولیاں چلی تھی اس کا سر جھک کر حفصہ کے کندھے پر آگرا تھا-
برہان….. کمانڈر صاحب….. کمانڈر برہان” دشمن کے یوں اچانک حملے نے سب کو ہواس باختہ کر دیا تھا-وہ بد ہواسی میں اس کا سر اپنے گود میں لیے اسے پکار رہی تھی –
” ج… جا…. جاو….. جاو حیدر… وطن تم سے تمھاری لہو کا طلبگار ہے….. تمھارا فرض تمھارا انتظار کر رہا ہے…. اب کمان تیرے ہاتھ” وہ نہ چاہتے ہوئے اسے وہاں لیٹا کر گئی تھی – کمانڈر کا حکم تھا وہ کیسے ٹال سکتی تھی – تقریباً ایک گھنٹے کے مقابلے کے بعد انہوں نے دشمن کو الٹے پیر واپس بھیج دیا تھا – اب انہیں اپنے شہیدوں اور زخمیوں کو لے کر یہاں سے راتوں رات روپوش ہونا تھا- وہ بھاگ کر کمانڈر برہان کے پاس گئی تھی- اس کی ہونٹوں پر ایک دل فریب مسکراہٹ، آنکھیں کسی کے انتظار میں کھلی اور چہرے پر ایک سوال تھا… ایک سپاہی نے بھاگ کر اس کا سر اٹھا کر اپنے گود میں رکھ دیا ” کمانڈر برہان…. کمانڈر…. کمانڈر صاحب…” ہر سپاہی اسے دیوانہ وار اس کو پکارتا رہا- وہ دور ایک درخت کا سہارا لیے کھڑی تھی ” انا للہ و انا الیہ راجعون” یک لخت اس نے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھوس دیں- اسے یقین نہیں آرہا تھا- بےیقینی کے حالت میں وہ اپنے ہونٹ کاٹنے لگی تھی – وہ مر چکا تھا یہ یقین کرنا کتنا جان لیوا تھا- وہ بھاگنے لگی تھی … بےتحاشا بھاگی تھی… اور تب تک بھاگتی رہی جب تک اس کے پیر کندھوں پر اٹھا کر لے جانے کے قابل نہ ہوے تھے…. دنیا جب اس کا جنازہ پڑھنے میں مصروف تھی وہ ان سب سے دور گھاٹی پر بیٹھی اس کے موت کا ماتم کررہی تھی-
“نقصان ہم دونوں کا ہوا ہے فرق صرف اتنا ہے کہ ہم شہادت پر آنسو گرانے کے قائل نہیں ہیں- آزمائش کی گھڑی ہے آپ کے ہمت کا کھڑا امتحان ہوگا – اب یہ آپ پر ہے کہ آپ حفصہ بن کر اپنے پیارے کے شہادت کو موت بنا کر اس پر ماتم کرتی ہے یا حیدر بن کر اس کے خون کا بدلہ لیتی ہے – فیصلہ آپ کا ہے-” اس نے اشک بھری نگاہوں سے علامہ جبار الدین کا چہرہ دیکھا وہاں کسی ملال کا سایہ تک نہیں تھا-” آپ کو اپنے شیر بیٹے کے
جانے کا کوئی افسوس نہیں ہے کیسے ہو سکتا ہے یہ؟ ” اس نے بےیقینی سے کہا-” کیوں ہوگا افسوس؟ کس بات پہ ہو گا افسوس؟ ہمارا شیر بیٹا شیر علی وعثمان کے صف میں شامل ہو گیا ہے – ارے ہم تو اپنی موت کے لیے بےقرار ہوئے جا رہے ہیں کہ کب محمد ہمارے کندھے پر تپکی دے کر کہیں گے بہت خوب ربانی-” اس نے نظر اٹھا کر ان کی طرف دیکھا وہاں ایک عجیب سا سرور تھا جیسے وہ بارگاہ الہی میں سرخرو ہو گیے تھے –
حیدر ایک نئے عزم کے ساتھ کھڑا ہوا تھا اس کے پاس اپنی یک طرفہ محبت کے موت پر آنسوں بہانے کا وقت نہیں تھا- انتقام کی آگ اس کے رگوں میں خون بن کر دوڑنے لگی تھی- فرض میں محبت کا عنصر شامل ہو جائے تو اسے ہرانا ناممکن ہو جاتا ہے – اپنے رخساروں پر بہتے اشکوں کو ہتھیلی سے صاف کرکے وہ اٹھ کھڑی ہوئی تھی-
” شدت پسند گروہوں کے بھارتی چھاونی پر حملے کے نتیجے میں فوج کو بھاری اکثریت پر جانی نقصان ہوا ہے- ذرائع کے مطابق ابھی تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی ہے – عوام اور فوجی شہداء کے لواحقین میں شدید غم و غصہ کی لہر-” اس نے اپنی کمزور آنکھوں کو آدھ کھول کر ٹی-وی کی طرف دیکھا جہاں انڈین نیوز چینلز پر مسلسل کل کے واقعے کے بارے میں اپڈیٹس آرہے تھے- اس نے کل دشمن کی چھاونی پر حملہ کرکے اسے نیست و نابوت کیا تھا اور نتیجتاً وہ گہری چھوٹوں کی وجہ سے بے ہوش ہوی تھی- مجاہدین جانبازوں کی مدد سے اسے زخمی حالت میں اس خفیہ جگہ پر منتقل کر دیا گیا تھا جہاں وہ زیرِ علاج تھی-
“بھارت کا اب کشمیر سے ہٹ جانا ہی بہتر ہے آیے روز ہمارے جوان شہید ہو رہے ہیں آیے روز فوج پر حملے ہو رہے ہیں ہم اب مزید اپنے بھائی بیٹوں کا قتل عام برداشت نہیں کر سکتے -“
“تو جی ناضرین آپ نے دیکھا شہداء کے لواحقین کا غم و غصہ، ان کے خیال میں بھارت کا وقت اب کشمیر میں پورا ہو چکا ہے – جلد یا بدیر بھارت کو اپنی شکست تسلیم کرنی ہوگی – یہ کہنا ہے عوام کا-” اس نے پھر اپنی کمزور آنکھیں کھول کر دیکھا اور مسکرای اللہ اس کی قربانی کا پھل دینے لگا تھا-
” انشاءاللہ – انشاءاللہ ” سردار نے فرطِ مسرت سے مسکرا کر کہا باقی مجاہدین نے ان کی تقلید کی -” لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ” علامہ جبار الدین ربانی پھیرتی سے اٹھ کر اس کی طرف بھاگا – “حیدر…. حیدر…. ہمت کرو میرے شیر…. ہمت…..” وہ اسے بدحواسی میں جھنجھوڑنے لگے- اس کی آنکھیں کھلی تھی اور سانسیں اکھاڑنے لگی تھی- تھوڑی دیر بعد ان کی بدحواسی ختم ہو چکی تھی اس کی اکھڑتی سانسوں کو آرام مل گیا تھا – علامہ جبار الدین ربانی وہی اس کے پاس زمین پر بیٹھے تھے انہوں نے نظر اٹھا کر اس کا بے جان چہرہ دیکھا وہاں ایک عجیب سا سکون تھا ہونٹ ایسے لال ہو رہے تھے جیسے ابھی ابھی آب کوثر پی کر آئی ہو وہاں کوئی تشنگی کوئی ملال نہیں تھا- وہ جام شہادت نوش چکی تھی –
دوسرے روز حیدر کے نماز جنازے میں شرکت کے لئے پورے کشمیر کے عوام امنڈ آیے تھے- مولوی صاحب نے زنانہ نماز جنازہ ادا کی تھی- اس کی ماں کلثوم نماز جنازہ میں شرکت کے بعد اب اس کے جسدِ خاکی کو الوداع کہنے قبرستان آئی تھی – “مبارک ہو آپ کو” علامہ جبار الدین ربانی نے اس کے پاس آتے ہوئے کہا اس نے سر کے اشارے سے ان کا شکریہ ادا کیا – وہ ایک مضبوط چھٹان کی طرح کھڑی رہی- وہ ایک شہید کی بیٹی اور شہید کی بیوی تھی خدا نے کوئی بیٹا نہیں دیا تھا- حفصہ نے شہید ہو کر اس کی یہ حسرت بھی پوری کردی – آج پوری دنیا اسے حیدر کی ماں کے نام سے پہچان رہی تھی – اس نے اپنی چھوٹی بیٹی آسمان کے سر پر ہاتھ پھیرا اور قبرستان سے نکل گئی – وہ آزادی کشمیر میں اپنا حصہ ڈال چکی تھی….”!

___________________

تحریر: عظمی قاضی

7 Comments

  1. ما شاء اللہ بہت خوب لکھا ہے ۔اللہ آپ کے قلم میں برکت دے ۔۔پڑھ کر دل میں مجاہدین کی عظمت جاگی اور دل ان کے لیے دعاگو ہے۔۔اللہ کشمیر کے عوام کو جلدی آذادی نصیب کرے

    Liked by 1 person

  2. My sister.ager Allah taala mujahedeen ke jazba jehad ke waja se Afghanistan ke azadi mumkin banasakti he to Inshallah kashmir bhe tavel jeddoojahd ke baad azad hoga.

    Like

Leave a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.