سوات کی وادی میں___________صوفیہ کاشف

میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ اتنی جلدی سوات میں بہتے ہوئے دریائے سوات کے سامنے ایک بڑی شیشے کی کھڑکی کے پیچھے پڑے صوفے پر بیٹھی ہوں گی اور دریائے سوات کے بہتے ہوئے پانی کی موسیقی بیان کر رہی ہوں گی۔اگرچہ خواہش میری ہمیشہ یہی رہی ہے کہ میں کسی بس کے اوپر سوار ہو کر پوری دنیا گھوم لوں مگر دل کا کیا ہے وہ تو ہر ناممکن کی لگن میں مبتلا ہو ہی جاتا ہے۔

تو یہ ممکن ہوا کہ اگرچہ میں بند کھڑکی کے پیچھے ہونے کے باعث دریا کی موسیقی نہیں سن سکتی لیکن اپنے سامنے دریا سے پرے وادی کی دور تک پھیلی ہوئی روشنیاں دیکھ سکتی ہوں۔ذندگی اتنی خوبصورت ہوتی نہیں جتنی تحریر میں لکھی یا وڈیو میں دکھائی دیتی ہے۔مگر کچھ مناظر اور کچھ لمحات ضرور اپنے اندر مکمل ہوتے ہیں۔جیسے اس منظر سے میں مکمل طور پر فیضیاب نہیں ہو سکتی کیونکہ میری بیٹی بائیو کے ٹسٹ کی تیاری کے لئے کمرے میں روشنی کئے بیٹھی ہے جس کی وجہ سے باہر سے نظر آنے والا نظارہ کچھ ادھورا محسوس ہوتا ہے۔ دل چاہتا ہے کہ کمرے میں اندھیرا ہو تا کہ منظر کی خوبصورتی مکمل ہو سکے۔ میرا بیٹا سارا دن بول بول کر تھکا نہیں۔ اس روشنی اور گفتگو میں شیشے کی طرف منہ کئے میں اپنے حصے اور نصیب کی خوبصورتی سمیٹ لینے کی کوشس میں ہوں۔یہی کیا کم ہے کہ کہ سوات کی وادی ہے،سامنے مٹک مٹک کر سریلے سروں میں بہتا دریا سوات ہے اور اس کے اور میرے بیچ صرف اس ریزورٹ کا لان ہے جہاں کسی کی پرائیویٹ پارٹی کے لئے آس پاس کرسیاں سجا کر بیچ میں لکڑیاں جلائی گئی ہیں جن سے چنگاریاں نکل نکل میری بالکنی تک پہنچ رہی ہیں

۔

تو سوات کی طرف نکلنے کی پلاننگ سے لے کر سوات تک جا پہنچنا اگر اچانک نہیں تھا تو کوئی بہت زیادہ منصوبہ بندی کے ساتھ تیار شدہ منصوبہ نہ تھا۔بس تھوڑی سی کمائی آئی تو سوچا تھکے ہوئے اعصاب کو کچھ فرحت بخش لمحات دئیے جائیں چناچہ ایسے ہی بیٹھے بٹھائے پروگرام بنایا۔سوات میں کیا کچھ دیکھنے والا ہے ہمیں کچھ خبر نہ تھی تین چار بار گوگل چھانا۔کچھ علاقوں کے نام سامنے آتے تھے جیسے شاہی باغ،کالام،سیدو شریف مگر اس سے ذیادہ کچھ نہ ملتا تھا۔چناچہ اپنی گاڑی میں سوار ہوئے اور اللہ کا نام لیکر سوات کے لئے روانہ ہو گئے کہ کچھ اور نہ بھی نظر آیا تو کم سے کم سوات تو دیکھ ہی سکیں گے ۔ہو سکتا ہے علاقے کے لوگوں سے کچھ رہنمائی مل جائے۔ایک دن کے قیام کے لئے سوات کے ایک ریزورٹ میں بکنگ فون پر ہی کروا لی تھی۔اب سوات کیا چیز تھی،علاقہ کیا تھا اور وہ ریزورٹ کیسا تھا اس کے بارے میں سارا علم ہمارے اس سفر پر ہی منحصر تھا کہ اس کے علاوہ ہمارے پاس اور کوئی علم نہ تھا کہ وہاں ہم کیا توقع کر سکتے ہیں۔جیسے دبئی میں بیٹھ کر ایک ریزورٹ کی یا کسی تفریحی مقام کی پوری ویب سائٹ کھول لیتے تھے تصاویر سے لیکر لوکیشن تک ہر معلومات وہیں سے مل جاتی تھیں ۔مگر پاکستان میں ایسا کوئی سین نہیں ہے۔کچھ پرائیویٹ یا سرکاری اداروں کے سوا تفریحی مقامات یا ٹورسٹ مقامات کی کوئی ویب سائٹس یا معلومات سرکاری طور پر مہیا نہیں ہیں کچھ اخبارات یا جریدوں میں سے بہت ریسرچ کے بعد کچھ کالم یا خبریں مل جائیں گی یا کچھ پرائیویٹ بلاگز۔اس کے لئے بھی بہت محنت کرنی پڑے گی۔ایسے نہیں کہ آپ سوات لکھیں اور آپ کے سامنے پورے سوات کی ویب سائیٹ کھل جائے جو وہاں کی مکلمل معلومات، لوکیشن،،ٹورسٹ سپاٹ،تصاویر، اخراجات وغیرہ کی تفصیل فراہم کر دے۔تو ڈیجیٹل دنیا میں اتنی گمنامی کے باوجود بھی ہم چاہتے ہیں کہ دنیا سیاحت کے لئے ہماری طرف آئے تو اسے دیوانے کا خواب نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے۔

یقینی طور پر پاکستان ٹورسٹ سپاٹ کے طور پر اگر گمنام ہے تو اس کی ایک بہت بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ جب کوئی ٹورسٹ انٹرنیٹ پر بیٹھ کر اپنا وزٹ پلان کرنے لگتا ہے تو اسے ویلکم کرتی ایسی کوئی بھی مستند ڈیجیٹل موجودگی نظر نہیں آتی اور جس دنیا سے ٹورسٹ دنیا کے لئے نکلتے ہیں وہاں آج کل ہر منصوبہ بندی انٹرنیٹ سے مہیا معلومات کی بنیاد پر ہی کی جاتی ہے اور اس میں تو کوئی دوسری بات نہیں کہ ترقی یافتہ ریاستوں اور معاشروں میں آج کل ذندگی کا مکمل انحصار انٹرنیٹ پر ہی ہے۔پاکستان کی طرح انٹرنیٹ صرف سوشل میڈیا کا نام ہی نہیں سمجھا جاتا بلکہ تمام تر مارکیٹ کاروبار ذندگی کا مرکز ہے۔ہمارے ہاں تو ابھی تیز رفتار انٹرنیٹ بھی مشکل سے ملتا ہے مل جائے تو بہتریں ٹیکنالوجی والے موبائلز اور ٹیبلٹ جن پر باہر کی دنیا میں ہوٹل کے مینو تک پیش کئے جاتے ہیں پاکستان میں بہت ہی محدود لوگ افورڈ کر سکتے ہیں۔اسی وجہ سے شاید ان چیزوں پر توجہ ہی نہیں دی جاتی۔یہ سمجھا ہی نہیں جاتا کہ امیر ملکوں سے ٹورسٹ لانے کے لئے انٹرنیٹ کے ذریعے ان تک آپ کی تشہیر پہنچنا بہت ضروری ہے۔سیاحت کی کمائی تو ڈالر لانے والا ہی دے سکتا ہے اور وہ ڈالر کمانے کے لئے پہلے ڈالر خرچ تو کیجیئے۔اب سو روپے میں ایک کولڈ ڈرنک پینے والا غریب معاشرہ کتنی سیاحت افورڈ کر سکتا ہے؟۔خدا جانے کدھر گئے وہ روشن پاکستان کے ڈیجیٹل پروگرام۔

سوات موٹر وے دیکھیں

سو ہم نے سفری بستے گاڑی میں ٹھونسے اور سری نگر ہائی وے سے نبرد آزما ہوتے بلآخر ایم 1 پر جا پہنچے جہاں سے ہماری بنیادی معلومات کے مطابق ہمارا سوات کے لئے سفر شروع ہوتا ہے۔ایم ون پر چڑھتے ہی سری نگر ہائی وے کی گھمسان کی ٹریفک کی کوفت دماغ سے رخصت ہو جاتی ہے۔بلاشبہ ہم جتنا مرضی شور مچا لیں کہ جس ملک میں دس فی صد سے بھی کم افراد گاڑی رکھتے ہوں وہاں اربوں کی موٹر وے پر پیسہ خرچ کرنا کہاں کی ملک دوستی ہے۔المیہ تو یہ بھی ہے کہ موٹر وے کی سب سے ذیادہ خوشی بھی پاکستان میں اسی طبقے کو ہے جس کے پاس بڑی موٹر ہے بھی نہیں۔۔مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ بڑی گاڑی والا دس فیصد طبقہ اس موٹر وے کی وجہ سے بڑے سکون میں ہے۔ایک شہر سے دوسرے شہر کا طویل سفر اب بہت ہی آرام اور سہولت سے انسان کم سے کم بھی 120 کی سپیڈ پر ہنستے کھیلتے کر سکتا ہے۔صرف یہی نہیں ایم ون اور سوات موٹر وے، موٹرویز کی ملکائیں حسن میں لازما شمار ہوتی ہیں ۔کہ سوات موٹر وے پر چڑھتے ہی پہاڑوں کی اونچائیوں اور گہرائیوں میں سے گزرتی ہوئی موٹروے کیا ہی خوبصورت نظارے دیتی ہے یعنی کہ اگر آپ کا کہیں قیام کا ارادہ نہیں تو خوبصورت مناظر دیکھنے کے لئے کچھ سنیکس لئے اس موٹر وے پر ایک روح افزا لانگ ڈرائیو کے لئے بھی جا سکتے ہیں۔ایک ایسی لانگ ڈرائیو جس میں آپ کو یقینی طور پر یورپ کی سیر کا لطف آئے گا۔اگر پھر بھی آپ کو یاد رہتا ہے کہ آپ پاکستان میں ہیں تو اسی رستے میں آنے والی جدید ترین اعلی معیار کی سرنگیں آپ کی یادداشت کی رہی سہی کسر بھی پوری کر دیں گی۔انتہائی اعلی معیار کی بنی یہ سرنگیں ہمیں دبئی ابوظہبی کی بنی کئی جدید سرنگوں کی یاد دلا گئیں جیسے ابوظہبی میں ایک انتہائی پوش علاقے یاس آئی لینڈ کی ٹنل جس کو باقاعدہ تفریحی ڈرائیو یعنی leisure Drive کا نام دیا گیا تھا کی سیر۔ ظاہریت میں،روشنی کے انداز میں، ،سڑک کی ہمواری میں ہمیں سوات اور ابوظہبی میں کوئی فرق نہ محسوس ہونے دیا۔ تھوڑی تحقیق سے پتا چلا کہ یہ وہ واحد موٹر وے ہے جو حکومت پختون خواہ نے اپنے ذاتی بجٹ سے بنائی ہے اور بہت ہی شاندار بنائی ہے۔ابھی اس کے دو تین اور حصے بھی زیر تعمیر ہے۔ تصور کیجئے زرا اگر اسی طرح پورا سوات اندر باہر سے اپنے ہر علاقے سے موٹروے کے ذریعے منسلک ہو جائے تو یہاں تک اور اس کے ہر خوبصورت علاقے تک رسائی کس قدر آسان ہو جائے۔پھر بلائیں آپ عالمی اور لوکل لوگوں کو اس کی سیاحت کی خاطر جب آپ کے پاس ان تک رسائی کے لئے مناسب رستے ہوں۔نہ صرف انٹرنیشنل بیگ پیکر بلکہ پورے پاکستان سے بھی فیملیز کے لئے یہاں تک رسائی آسان اور ممکن ہو جائے گی !

یورپ میں اور پاکستانی کے پہاڑی علاقوں میں بس انہیں سہولیات کا فرق ہے جو سیاحت کو ان علاقوں کے لئے آسان اور پاکستانی علاقوں کے لئے مشکل ترین بنا دیتے ہیں۔اب اندازہ کریں خوبصورت پہاڑوں اور وادیوں میں سے گزرتی موٹر وے پر چلتے یا ایسے علاقوں میں سے گزرتی ٹرین پر سفر کرتے! آپ کے پاس پہاڑ ہیں،وادیاں ہیں،ندی نالے اور آبشاریں ہیں۔موٹرویز اور ٹرینوں کو اپنی جاگیروں کی بجائے ان خوبصورت علاقوں میں سےچلائیں تو خود آپ کی اپنی عوام سیاحت کے لئے نکل پڑے گی۔بات صرف یہ ہے کہ اس کے لئے نیت والے انسانوں کی شدید ضرورت ہے!

موٹر وے سے اترکر شروع ہونے والا نیشنل ہائی وے اگرچہ ایک لین پر مشتمل ہے مگر اس کا بھی ایک لمبا حصہ جو شہروں اور قصبوں میں سے نہیں گزرتا اونچے گھنے درختوں اور پہاڑوں کے بیچ گھرا ہوا ہے جو ستمبر کے مہینے میں خوب ہریالی سے لبریز تھے۔ آس پاس سے گزرتے کچھ گھروں پر اگست کے مہینے سے لگے سبز پرچم ابھی تک موجود تھے۔سوات وادی تک کے اس تماتم تر سفر کی سب سے بڑی خوبصورتی یہ نظارے ہی ہیں جو سڑک پر چلتے آپ کو دکھائی دیتے ہیں۔آپ تنہا ہوں یا ہنی مون پر ، تو جگہ جگہ رک کر ان نظاروں کو زرا دیر تک محسوس کر سکتے ہیں۔ہم چونکہ تھوڑے بڑے ہوتے بچوں کے ساتھ تھے جنکو ذندگی صرف رولر کوسٹر پر ہی اچھی لگتی ہے۔تو ان کے دو ووٹ ہمارے دو ووٹوں کو ویٹو کر کے ہمیں ناک کی سیدھ میں منزل تک لیجانے پر مجبور کر رہے تھے۔

سوات موٹروے پر سرنگیں :دیکھیں

رہائشی علاقوں تک پہنچتے یہ نیشنل ہائی وے تنگ پڑنے لگتی ہے۔

شہر کی حدود کے اندر بھی اس کا سائز ڈبل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی جس کی وجہ سے شہر کے اندر ٹریفک بڑھ جاتی ہے اور اس کے ساتھ ہی آپ کے سفر کا دورانیہ بھی بڑھ جاتا ہے۔۔

ہماری منزل سوات کی علاقےفضاگٹ میں واقع ایک ریزورٹ تھا۔جس تک پہنچنے کے لئے نیشنل ہائی وے پر تقریبا پورے سوات ضلع سے گزرنا پڑا۔ہفتے کا دن تھا جب سرکاری اسکول کھلے ہوتے ہیں تو سوات ضلع میں سے گزرتے وقت تقریبا ہر طرف اسکولوں میں چھٹی کا وقت تھا۔حیرت انگیز طور پر میں نے پورے سوات میں سرکاری سکولوں سے نکلتےبہت چھوٹے بچے جتنی تعداد میں دیکھے شایدساری ذندگی اتنے کہیں اور نہیں دیکھے۔چار پانچ سال کے بچوں کی بہتات بستے پہنے اسکولوں سے نکلتے سڑکوں پر گھر کی طرف پیدل جاتے دکھائی دئیے۔یہ وہ سوات ہے جسے عام پاکستانی ایک غریب اور پسماندہ علاقہ سمجھتا ہے۔جس علاقے کا ہر چار سال کا بچہ اسکول جا رہا ہو اور پیدل جا رہا ہو وہ غریب کیسے ہو سکتا ہے؟ وہ تو سب سے امیر علاقہ ہوا جہاں مضبوط افراد بنائے جا رہے ہوں، جہاں کے غریب لوگ بھی اپنے بچوں کی پڑھائی کے لئے اس قدر سنجیدہ ہوں کہ تین چار سال تک بچے کو محض فیشن کی خاطر نرسری اور کنڈر گارڈن نہیں بلکہ تعلیم کی خاطر اسکول بھیجتے ہوں وہ تو سب سے بالغ ترین اور تہذیب یافتہ علاقہ ہے۔یقینی طور پر سوات کے عوام کی اس بالیدگی نے مجھے بے انتہا متاثر کیا۔

سوات کا سفر اور ریزورٹ پہنچنا:وڈیو دیکھیں

خوبصورت محل وقوع میں واقع کھلے پارکنگ ایریا کے ساتھ بنی خوبصورت لیکن کچھ پرانی عمارت کے سامنے گاڑی رکی۔پارکنگ کے آس پاس کھلے گھاس پھولوں پودوں اور بیلوں سے اٹے میدان بنے تھے اور لان میں بیٹھنے کے لئے بنچ اور کرسیاں لگی تھیں۔دریائے سوات کا اور اس کے پیچھے پھیلے کالام کے پہاڑوں کا نظارہ دیکھنے کے لئے آس پاس جنگلہ لگا تھا جہاں پر کھڑے ہو کر آپ دائیں طرف بل کھاتی کمر کی مانند بہتے دریا کا رقص دیکھ سکتے تھے یا بائیں طرف ڈوبتے اور ابھرتے سورج کی موسیقی پر سر دھن سکتے تھے یا اوپر چمکتے چاند سے راز و نیاز کر سکتے تھے۔بحرحال اتنے کھلے اور خوبصورت ریزورٹ کا تصور ہم نے نہیں کیا تھا اگرچہ چند ایسے ریزورٹس یقینا پاکستان میں موجود ہیں مگر ان کو بلند و بانگ فائیو سٹار کہا جاتا ہے اور یہ یقینا فائیو سٹار نہیں تھا۔

ریسیپشن اگرچہ وہی پاکستانی انداز کی یعنی ہاتھ لٹکائے کھڑے رہنا کہ مہمان ہم تک چل کر آ جائے ،تو ہم اس کا نام لکھ لیں۔ ،نہ سلام نہ ویلکم اور تو اور مسکراہٹ نام کا نشان تک نہیں کہ پاکستان میں ان تینوں چیزوں پر سب سے ذیادہ پیسے لگتے ہیں۔عورتوں کو سلام دعا تو بھول ہی جائیں یہاں مردوں کو بھی خوش دلی سے ویلکم کرنا سکھایا نہیں جاتا۔مہمان خود ہی آ کے حیران و پریشان کھڑا ہو جاتا ہے اب کیا کریں۔ ۔وہ انسانی رویے یا مارکیٹنگ کے ہنر جن میں تمام مہمان مرد و عورت مہمانوں کو مسکرا کر ویلکم کیا جائے یہاں پر مفقود ہیں۔چناچہ ہم بھی دشمنوں کی طرح ناک سکیڑ کر منہ مروڑ کر کمرے کی طرف نکل گئے۔

پاکستان میں پانچ ستارہ ہوٹل کا نام تو دیکھا ہے لیکن تین ستارہ اور چار ستارہ کا ابھی تک آفیشل  وجود نظر نہیں آیا۔یعنی یا تو پانچ ستارہ کے نام سے بہت ہی مہنگے ہوٹلز ہیں یا پھر عام ہوٹلز جن کی حالت زار آپ کو اندر پاوں رکھنے کے بعد ہی پتا چلتی ہے۔اس سے پہلے آپ کے لئے چار ستارہ یا تین ستارہ کی سہولتیں حاصل کرنی کی کوشس بس عموما  ایک تکا ہی ثابت ہوتی ہے۔اللہ کے فضل سے ہمارا تکا اس بار کامیاب نکلا تھا کہ ایک بڑا کھلا کمرہ ، بالکنی  اور ایک بڑے باتھ روم کے ساتھ ہمیں مل گیا۔ہم نے کوشش کی کہ ریسیپشن سے تھوڑی معلومات لے لیں شاید کہ گوگل کی کمی یہاں کے علاقائی لوگ پوری کر کے ہماری رہنمائی کر دیں کہ ہم یہاں کس قریب موجود قدرتی نظارے کا لطف لے سکتے ہیں۔مگر ریسیپشن پر صرف خانہ پری کے لئے کم معاوضہ لینے والے افراد کھڑ ےتھے جن کی اپنی ذندگی صرف اپنے قصبے میں ہی روزی روٹی کمانے میں بسر ہو جاتی ہے۔چناچہ وہ ہماری بات کو سمجھ سکے نہ ڈھنگ سے جواب ہی دے سکے۔

دبئی اپنی سیاحت کے نام پر لاکھوں کروڑوں کماتا ہے جبکہ سیاحت اس کا اصلی شعبہ ہی نہیں ۔ مگر دبئی اور عرب امارات کے ہر شہر کے ہوٹلوں کی ریسیپشن پر آپ کو ایسے کتابچوں کا ڈھیر مل جاتا ہےجو آپ کو اپنے آس پاس کے تمام تفریحی مقامات کی تفصیلات مہیا کرتا ہے۔اور یقین کیجئے کہ ریت،سمندر اور سورج کے علاوہ ان کے پاس باقی ہر چیز مصنوعئ اور انسان کی بنائی ہوئی ہے۔ہماری ذمین پر ہر طرف فطرت کے بنائے دلکش نظارے ہیں مگر ہم ان سے گھر کی دال جیسا بھی سلوک نہیں کرتے۔

کمرے کی بالکنی سے ہمیں جو منظر نظر آیا اس پر ہم صدقے واری چلے گئے ۔بالکنی میں سے نظر آنے والا یہ یہ نظارہ ذندگی کے خوبصورت ترین نظاروں میں سے ایک تھا۔ بالکنی میں وال سائز شیشہ ،شیشے کے پیچھے رکھی کرسیاں،دیوار پر آس پاس چڑھی لدی پھدی بیلیں سامنے پائن کے درخت، درختوں کے پیچھے موسیقی کی مدھر لے میں بہتا دریائے سوات ،ان سے زرا پیچھے کالام کے پہاڑوں سے زرا اوپر گھومتی پھرتی منڈلاتی بدلیاں!میں نے پچھلےپندرہ سال سمندر خوب دیکھا ہے مگر ایسے ٹیڑھا ترچھا اپنی مرضی اپنی لے میں بہتا،ٹوٹتا بکھرتا اور پھر جڑتا دریا پہلی بار دیکھا۔من موجی ،اور کھلنڈرا!کہیں پتھروں میں سرکتا کہیں پودوں کے جھنڈ میں سے نکلتا! اگر سمندر ایک طاقت کا نشاں ہے تو دریا سوات کو دھن کہنا مناسب ہے۔مطمیئن،معصوم، اور مدہم!ذندگی میں حسن کیا ہے؟ مجھ سے پوچھیں تو یہ لمحہ اور یہ منظر حسن کی بہترین تعریف ہے۔وہ جو کہتے کہ فطرت کا نظارہ کیجئے تو بے سبب نہیں کہتے۔صرف اسی ایک نظارے میں انسانی جسم اور نفس کی بہت سی صحت ،خوشی،سکون اور بصیرت کی تاثیر چھپی ہے!

کمرے میں کچھ دیر آرام کے بعد بھوک نے بے چین کیا لنچ کا وقت خاصا گزر چکا تھا ۔اسی ہوٹل میں کھانے کی بجائے ہم ذرا گھومنے کی نیت سے باہر نکلے ۔خواہش تھی کہ کسی لوکل ریستوران سے کسی لوکل کے ہاتھ کا کھائیں گے۔کہ سنا تھا کہ پٹھان بکرے کا کہہ کر بکرا ہی کہلاتا ہے  گدھا نہیں کھلاتا۔مگر اب اس نیشنل ہائی وے کی سنگل لین روڈ پر ٹریفک اسقدر ذیادہ تھی کہ دور تک جانے کہ ہمت نہ تھی۔ایک قریبی ہوٹل میں پہنچے  جہاں کافی نیشنل اور انٹرنیشنل کھانوں کی  ورائٹی تو  موجود تھی مگر وہ کسی لوکل کا نہیں بلکہ کسی کاروباری کا بڑا ہوٹل تھا ایسے بڑے سمجھے جانے والے ہوٹل جو آپ کو اپنے شہر میں ہی مل جاتے ہیں اس کے لئے اتنی دور سوات آنے کی ضرورت نہ تھی۔۔بندہ سوات آئے اور لوکل نہ کھائے تو کیا فائدہ۔مگر اب یہی قریب تر تھا سو اسی سے مستفید ہو لئے۔

۔کیا سوات میں ایسی کوئی فوڈ کورٹ موجود ہے جہاں پر لوکل باورچی کے ہاتھ کے لوکل کھانے ملتے ہوں؟ اس کا مجھے علم نہ ہو سکا لیکن اس پر ارباب اختیار کو سوچنا چاہیے تا کہ ایسے لوگ جو صدیوں سے اسی علاقے اسی کلچر کے ہوں ان کے روایتی ذائقے پیش کر سکیں۔صرف یہی نہیں مین مارکیٹ میں برانڈز تو بہت نظر آئیں جس سے لگا کہ سوات بھی خاصا جدید ہو گیا ہے مگر یہاں کے علاقائی کلچر کی عکاسی بڑی مشکل سے اور بہت ہی کم نظر آئی۔ کوئی لکڑی کا ،دھاگے کا ،اون کا کام یا موتی کا کام سوات ویلی میں آنے والے کو آسانی سے نظر نہیں آتا جبکہ ان کی رونمائی ہمیشہ مین جگہوں پر ہونی چاہیےوہی سب کچھ جو ہمیں ہمارے گھر کی نکڑ پر بھی مل جاتا ہے۔ہم بحرحال اس قبیلے کی سیاحت کی نمائندگی کر رہے تھے جو خاندانوں کے ساتھ نکلتے ہیں اور گلی گلی قریہ قریہ بھٹک نہیں سکتے تو ایسے لوگوں تک بھی آپ کو اپنی پہچان اور کلچر،اپنا ذائقہ اور اپنا ہنر پہنچانا ہو گا۔اس کام کے لئے مین مارکیٹس میں گفٹ شاپس بھی ہونی چاہیں ایسے سیاحتی مقامات پر اور یہاں کے بنیادی ہنر اور ذائقہ کو بھی نیشنل ہائی وے پر جگہ ملنی چاہیے۔

کھانا کھا کر لوٹے تو سورج اپنا روشنی کا لبادہ  سمیٹے ڈوبنے کی تیاریوں میں تھا ۔ زرد روشنی  دریا کے پانیوں میں گھلتی جاتی تھی اور اوپر آسماں پر اندھیرے کی چادر پھیلتی جاتی تھی۔

پائن کے درختوں کے بیچ سےنظر آتے پہاڑوں کے پیچھے سورج اپنی آخری سانسیں سمیٹ رہا تھا اور اس کے سامنے پھیلے بل کھاتے دریا کی من موجی ندیاں زدر رنگ میں ڈھلتی جا رہی تھیں۔ڈوبتا سوج تمام منظر نامے کو زرد ی رنگ میں ڈھال کر اپنے ساتھ اس ڈوبنے کے عمل میں شریک سفر کر رہا تھا۔اور کیا ہی اتفاق ہے کہ سورج کے ڈھلتے ہی ،اس کی روشنی کے مٹتے ہی تمام تر مناظر اپنی خوبصورتی سے محروم ہو جاتے ہیں۔

غروب کے مناظر لیتے ہمارے آس پاس ڈینگی نما عفریت کا خاصا موٹا اور پلا ہوا کالا مچھر ہمارے ہاتھوں اور پاوں پر کاٹنے میں مصروف عمل رہا۔ ریزورٹ کے لان میں اور اس کی بالکنی میں ڈینگی مچھر پھرتا دور سے نظر آتا تھا۔خود مجھے ڈینگی سے نپٹنے کی اتنی پریکٹس ہو چکی ہے کہ اب تو ایک ہی نظر میں پہچان جاتی ہوں کہ ڈینگی مچھر ہے۔اگر اس کا ایک قیمتی نکتہ آپ بھی جاننا چاہتے ہیں تو دھیان رکھیں کہ آس پاس منڈلاتی چیز کی رفتار مچھر کی اور رنگ و قدوکاٹھ مکھی کا لگے تو سمجھ لیں ڈینگی مچھر ہے۔تصدیق کے  لئے ہاتھ میں پکڑے موبائل سے جب یہ مکھی نما مخلوق بڑی بڑی ٹانگوں کے ساتھ کہیں بیٹھے تو اس کی تصویر بنا لیں۔بڑی بڑی ٹانگوں پر سفید پولکا ڈاٹ بنے واضح طور پر نظر آ جائیں گے۔۔غروب آفتاب کے خوبصورت منظر سے جی بھر کر فیض یاب ہونے کے بعد کمرے میں لوٹے تو ہاتھ پاوں مچھر کے کاٹے سے خاصے سوج چکے تھے۔وہ تو مقدر اچھا تھا جو ہمارے ہاتھوں پر بوسے لینے والے مچھر ہم سے پہلے کسی ڈینگی کے مریض کی قدم بوسی نہ کر سکے  تھے ورنہ واپسی پر ہم بھی وبا اپنے ساتھ اپنے علاقے اور گھر لے آتے جہاں پہلے ہی ڈینگی کی فوج مریضوں کو ڈھونڈتی پھرتی ہے۔۔ہزاروں روپے لینے والے ریزورٹ بھی نہ مچھر کنٹرول کے پابند ہیں نہ شہری انتظامیہ کو  فکر ہے۔ہماری گلیوں اور پارکوں میں ،باغوں اور وادیوں میں ہر سو وبائیں پھیلی ہوئی ہیں جن کے تدارک کے لئے ہم کچھ نہیں کر سکے نہ کبھی کریں گے۔اگر پھر بھی ٹورسٹ چاہیے تو کم سے کم ان کو آگاہی ضرور دیجئے کہ بھئی سوچ سمجھ کر آئیں ہمارے ہاں وبائیں ٹورز کے ساتھ مفت میں ملتی ہیں۔

رات کے ابتدائی دو گھنٹے بچوں نے کمرے میں بیٹھ کر پڑھنے میں گزار دیئے اور میں نے کھڑکی میں بیٹھ کر باہر کی روشنیاں دیکھنے میں۔آٹھ بجے جو ہمارا سونے کا معیاری وقت ہے بچے چادریں لپیٹ کر سو گئے جبکہ ہمیں ایک گلے کی دوا کے لیے سڑک پر نکلنا پڑا۔رات میں سوات کی سڑک پر چلتے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ستارے آپ کے استقبال کے لئے ذمین پر اتر آئے ہوں۔پہاڑی پر واقعہ گھروں میں جلتی بتیاں ستاروں کا روپ دھارے منظر میں رنگ بھرنے لگتی ہیں۔۔سوات میں آپ صرف سوئٹزلینڈ کا ہی نہیں ، روم کا بھی لطف لے سکتے ہیں جہاں پہاڑی پر اوپر نیچے گھروں کی موجودگی اسے  خوبصورتی مہیا کرتی ہو۔

کمرے میں لوٹ کر میاں حسب معمول سوشل میڈیا میں اور میں حسب عادت  کھلی کھڑکی سے نظر آتے نظارے میں گم ہو گئی۔طبلے پر  بجتی لائیو علاقائی دھنیں نیچے ہونے والی پارٹی میں سے میری کھڑکی میں گونج رہی تھیں۔

_______________

صبح کی پہلی کرن سے پہلے اٹھ کر میں اسی کرسی پر دوبارہ  موجود تھی کہ سوات کے دریا کے پیچھے واقع پہاڑوں میں سے نکلتی صبح دیکھنے کی نعمت آج مجھے میسر تھی اور میں اس سے کسی صورت محروم نہ رہنا چاہتی تھی۔آہستہ آہستہ روشنی کی کرنیں پہاڑ کے پیچھے سے سرکتی، اندھیرے کو زرد روشنی میں بدل کر کالے آسماں پر پھینکے لگیں ۔سیاہی نما منظر آہستہ آہستہ اپنی پرتیں کھولنے لگا اور سورج پچھلے شام کی ضبط شدہ خوبصورتی آس پاس کی دنیا کو لوٹانے لگا۔کالا منظر سرمئی اور سرمئی سے اپنے اصل رنگ میں بدلنے لگا۔پرندے بھی آہستہ آہستہ اپنے گھونسلوں سے نکل کر پرواز کرنے لگے۔دریائے سوات  اسی لے ،اسی رفتار سے بہہ رہا تھا۔لوگ جاگنے لگے اور ریزورٹ سے نکل کر لان میں پھیل گئے۔میں صبح کے حسن سے لطف اٹھا کر  گوگل کے نقشے  پر کچھ ایسے مقام ڈھونڈتی رہی جو دیکھنے کے قابل ہوں  مگر وہ جو خوبصورت تصاویر نظر آتی تھیں ان کی کوئی لوکیشن دکھائی نہ دیتی تھی۔۔شاہی باغ نما علاقہ نظر آتا تھا جسے ڈھونڈنے کے چکر میں ہم گھنٹہ بھر میپ کے تعاقب میں چلتے رہے اور بلآخر ایک ایسی گلی میں جا پہنچے جس سے آگے  جانا مشکل تھا تو پتا چلا اسی پورے علاقے کا ہی  نام شاہی باغ ہے۔اب جو تصاویر والا علاقہ تھا وہ جانے کہاں تھا۔

سوات ویلی اب بحرحال ایسا علاقہ قطعی نہیں لگتا جہاں مینگورہ چوک میں پھانسیاں دی جاتی ہوں یا ضرب غضب کی گونج سے کانپتا رہا ہو۔بازار سجے ہیں محفلیں برپا ہے، سڑکیں آباد ہیں اور اسکول اور کالج بھرے ہوئے ہیں۔صرف یہی نہیں پورے ضلعے میں اسکولز اور کالجز  کی بہتات ہے بلکہ سوات کی طرف پہلا پل پار کرتے ہی سب سے پہلا سامنا آپ کا ایک یونیورسٹی سے پڑتا ہے۔ایک خاصا بڑا کیمپس اقرا یونیورسٹی کا بھی نظر  آیا۔جو کوئی سوات کو ایک پسماندہ یا غریب علاقہ سمجھتا ہے انہوں نے کبھی جنوبی پنجاب کے چھوٹے شہر نہیں دیکھے جہاں  اسکولز اور کالجز کی اکثریت بھی چھوٹی چھوٹی کوٹھیوں پر مشتمل ہو،یونیورسٹی کی کلاسز عموما کالج کے ایک طرف بنے دو کمروں میں ہی ہو جاتی ہوں،اور  امیر اور ماڈرن طبقے  کے چھوٹے بچے ضرور  فیشن ایبل نرسریوں میں جاتے ہوں  مگر عوام الناس کے چھوٹے بچوں کی اکثریت اسکول نہیں۔مزید غربت دیکھنی ہے تو شمالی سندھ جا پہنچیں  اور چھوٹے علاقوں کو مدرسوں کے بھی بغیر ملاحظہ فرمائیں۔یقینی طور پر سوات پنجاب اور سندھ کے بہت سارے چھوٹے شہروں سے بہت بہتر  ہے اور اس کا تمام کریڈٹ صرف کسی ایک حکومت کو نہیں دیا جا سکتا کہ یہ تو مشکل ہے کہ یہ سب یونیورسٹیز اور کالجز دو تین سالوں میں بن گئے ہوں۔ ہم نے بھی سوچا تھا سارے گورنر ہاوس یونیورسٹیز میں بدل جائیں گے دس بارہ میڈیکل کالجز کا ملک میں  اضافہ ہو جائے گا مگر ہائے رے خواب دیوانوں کے!

صرف یہی نہیں شاہی باغ تلاش کرنے کی کوشش میں ہم گوگل میپ ہاتھوں میں لئے ایک ایسی تنگ ترین گلی میں جا گھسے جہاں یا جایا جا سکتا تھا یا نکلا جا سکتا تھا۔بہت ہی تنگ اندرون شہر کی گلی جس کی آخری حد تک بہت تنگ مگر صاف ستھری سڑک بنی تھی۔جنوبی پنجاب کے علاقوں کی اس سے بڑی اور پوش سڑکیں بھی آپ کو جیسے صدیوں سے ٹوٹی پھوٹی اور قدیم نظر آتی ہیں ۔پورا شاہی باغ اور سیدو شریف ہم جہاں تک پہنچے ہمیں ہر طرف نہ صرف سڑکیں بنی ہوئی دکھائی دیں بلکہ وہ بھی عام علاقوں سے ذیادہ صاف تھیں! کہیں گٹر ابلے ہوئے نہ کہیں کوڑے کے ڈھیر! مجموعی طور پر اتنی صاف سڑکیں ہمیں راولپنڈی میں بھی کم دکھائی دیتی ہیں جتنی ہم نے سیدو شریف اور شاہی باغ میں دیکھیں۔لوگ گالیاں نکالتے ہیں پنجابی کو کہ پنجابی سب کھا جاتا ہے۔کوئی پنجاب میں خصوصا جنوبی پنجاب میں جا کر کبھی دیکھے تو سہی پوش علاقوں میں بھی مکمل بنی سڑک شازو نادر ہی نظر آتی ہیں ہر طرف ٹوٹی سڑکیں کوڑے کے ڈھیر ابلتے گٹر کے سوا کم ہی کچھ نظر آتا ہے۔غریب پنجابی کا تو صرف نام ہی بیچا جاتا ہے ورنہ اس کے نام پر کھا جانے والی مخلوق کسی اور طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔تو بحرحال سوات ایک خوبصورت صاف ستھری اور بہتر بنیادی سہولیات رکھنے والا ضلع ہے۔

ایک اور چیز جو ہم نے دیکھی وہ ٹریفک پولیس تھی۔اتنی ٹریفک پولیس تو ہم نے ساری ذندگی نہیں دیکھی جتنی ہم نے ایک گھنٹے میں سوات کے نیشنل ہائی وے پر دیکھی۔پہلی بار پتا چلا کہ ٹریفک پولیس نہ صرف ذندہ مخلوق کا نام ہے بلکہ اس مخلوق کی خاصی بڑی نفری کا وجود پایا جاتا ہے چونکہ نیشنل ہائی وے کی یک رویہ سنگل لیں پر مشتمل سڑک کے ہر کلومیٹر پر ایک سپاہی ٹریفک کنٹرول کرنے پر معمور تھا ۔اب یہ خدا جانے کہ یہ یہاں کی روزانہ کی پریکٹس ہے یا اس روز کوئی وزیر مشیر یا وزیراعظم خود وہاں کے سفر میں تھا۔ورنہ ہم نے تو جڑواں شہروں میں بھی ٹریفک پولیس نام کی چیز یا ان کا نظام کہیں کبھی شاذونادر نادر ہی دیکھی ہے۔اگر یہ ہمیشہ کی روٹین ہے تو سوات کے سیاست دانوں اور انتظامیہ کو ضرور داد دینی بنتی ہے۔اور اگر کسی وزیر مشیر کا چکر ہے تو معذرت قبول کیجئے۔

واپسی کو نکلتے دل چاہا دریا کے کنارے کھڑے ہو کر دریا کا نظارہ کیا جائے۔مگر جہاں تک ہماری نظر گئی ہمیں کوئی ایسا کنارہ نہ ملا جسے خصوصی طور پر اس دریا کی زیارت کے لئے بنایا گیا ہو۔کوئی اور ملک ہوتا تو شاید دریا کے ساتھ ساتھ کارنیش ہوتا جہاں پر بیٹھنے ،چہل قدمی کرنے یا پکنک منانے کا انتظام ہوتا۔مگر چونکہ پاکستان ہے تو اس خوبصورت دریا کے ساتھ بغیر کارنیش کے سنگل لین نیشنل ہائی وے ہے ،بے ڈھنکی بنی دکانیں اور ہوٹلز ہیں۔جہاں آپ کہیں کہیں سڑک کے کنارے کھڑے ہو کر اس نظارے کا مزا لینے کی کوشس کر سکتے ہیں۔رستے میں ایک جگہ ایک چھوٹا سا پارک بنا ضرور نظر آیا مگر باقی سارا دریا کے کنارے کا منظر ہم نے فوکس کر کے شہر کی خوبصورتی میں اضافے کی بجائے لاپرواہی اور بے اعتنائی سے پس پشت ڈال رکھا ہے۔جو دیکھنا چاہے ہمت کر کے انہیں رستوں میں کھڑا ہو کر دیکھ لے یا کنارے پر واقع کسی ہوٹل میں بکنگ کروا لے جس کی بنا پر آپ کے پاس ایک خوبصورت کونا دریا کا کنارہ دیکھنے کو مہیا ہو جائے گا۔ورنہ سرکار اس دریا کی موجودگی کو کوئی خاص بھاو دیتی دکھائی نہیں دیتی۔ ہم نے دیکھ رکھا ہے کہ دبئی میں کس طرح شہر کے بیچو بیچ پیسہ لگا کر صرف خوبصورتی کی خاطر ایک مصنوعی نہر بنائی گئی ہے ۔کیسے سمندر اور دریا کنارے ریاستیں ٹورسٹ کو متوجہ کرنے کے لئے اور علاقوں کی خوبصورتی کے لئے استعمال کرتی ہیں انکی حقیقت سے دبئی، سنگاپور اور سوئٹزلینڈ بنانے کے دعوے کرنے والے لاعلم تو نہیں بس پاکستانی علاقوں کو اس انداز شاہی کے قابل نہیں سمجھتے۔

وہیں سے پھر واپسی کا سفر شروع کیا جو شاہی باغ کی آبشاریں تلاش کرنے کی ناکام کوشش کے بعد طویل تر  اور تھکا دینے والا لگا۔لیکن نکلنے سے پہلے ایک لوکل ریستوران سے ہم نے علاقائی ہاتھ کے بنے چپلی کباب ضرور پیک کروا لئے تا کہ اصل سواتی ذائقہ چکھا جا سکے۔دریائے سوات کے خوبصورت نظارے کے علاوہ یہ صرف سوات شہر کا سفر ثابت ہوا تھا ۔اس کے علاوہ پہاڑوں ،نظاروں اور آبشاروں تک ہم نہ پہنچ سکے تھے۔اس دعا اور امید سے واپس پلٹے کہ قسمت میں ہوئے نظارے تو پھر ضرور بلا لائیں گے ہمیں انشااللہ! نصیب ذندہ صبحت باقی!

_______________

صوفیہ کاشف

6 Comments

  1. کمرے کی بالکنی سے ہمیں جو منظر نظر آیا اس پر ہم صدقے واری چلے گئے ۔بالکنی میں سے نظر آنے والا یہ یہ نظارہ ذندگی کے خوبصورت ترین نظاروں میں سے ایک تھا۔
    دبئ کے ایر پورٹ پر پڑھا۔ بہت مزہ آیا- Final goodbye لوڈ نہی ہو رھا ✊🙏😢

    Liked by 1 person

      1. اسى لیے میں سعودی عرب کی سرکاری نوکری چھوڑ کر کینیڈا آگیا۔ ہر سال یہ ڈر لگا رھتا تھا کب saudization کے نام پر خروج لگا دیں۔

        Liked by 1 person

Leave a reply to Tahir Chaudhry Cancel reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.