کتنی کہانیوں کا صفحہ پلٹ کر آپ اس میں سے نکل جاتے ہیں کیونکہ آپ اس کا حصہ نہیں بننا چاہتے!
کبھی اپنے آپ پر انسان کو اس قدر اختیار ہوتا ہے۔
اور کبھی کہانی ہمیں دھکے دیتی رہتی ہے کہ نکلو یہاں سے اور ہم قدم تک نہیں اٹھا پاتے کہ کہ ہم دل کے قدموں پر سب اختیار رکھ چکے ہوتے ہیں۔ایسی کتنی ہی ان گنت کہانیاں تھیں جن کی شروعات میں ہی میں نے کہانی کا دروازہ کھولا اور اس میں سے نکل گئی۔لکھی جاتیں تو ناول بنتے،بنائے جاتے تو سیزن۔مگر نہ لکھنا تھا نہ لکھی گئیں۔مجھے ان خوبصورت کہانیوں کا وجود گوارا نہ تھا۔
سو کتنے ہی دروازے ہم ان میں جھانکے بغیر بند کر دیتے ہیں یہ سوچ کر کہ یہ ہمارے لئے نہیں ۔اور جن کو چھان پھٹک کر چنتے ہیں اکثر ان میں سے جہنم پھوٹ پڑتی ہے۔
“So miss is this The farewell to Arms?”
I smiled and said,”Yes”.
اس” یس ” نے کہانی کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند کر دیا اور میں اس کہانی کو اسی میز پر ادھورا چھوڑ کر اٹھ گئی!
کون جانے کہ کہانی کا یہ موڑ آج بھی اسی میز پر پڑا ہو اور کوئی اور بھی اس نامکمل کہانی کے صفحے کو الٹ پلٹ کر کے دیکھتا ہو!
“I love my prestige!”
پھر زندگی میں ایک مقام آتا ہے کہ انسان سوچتا ہے کہ دنیا میں محبت اہم تھی کہ عزت!
جو پایا وہ بھی بہتر ہے
جو کھویا وہ بھی کچھ کم نہ تھا!
گمان!جو ہمیشہ غلط نکلتے ہیں!
شاید اس دنیا میں کوئی بھی صحیح گمان پانے نہیں آیا
یہاں ہر پہہیلی کا جواب الٹ ہی نکلے گا!تبھی تو بنے گی زندگی آزمائش!
مذہب ہمارے حوصلے کے لئے بنے ہیں! اگر ہمیں یہ گمان نہ ہوتا کہ اس تکلیف کے بدلے کچھ اچھا ملے گا تو ہم زندگی کی آزمائش میں ہوش و حواس کھو دیتے۔سچے ہیں کہ وہم مگر ہماری بقا کے لئے بہت ضروری ہیں۔
___________________
صوفیہ کاشف
“So miss is this The farewell to Arms?”
I smiled and said,”Yes”.
اس” یس ” نے کہانی کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند کر دیا اور میں اس کہانی کو اسی میز پر ادھورا چھوڑ کر اٹھ گئی! Wah Wah Wah
LikeLiked by 1 person
Please please please keep writing ✊
LikeLiked by 1 person
انشاء اللہ ! اب سوچا ہے کہ اللہ ہمت دے تو اپنے بلاگ پر مزید لکھتی رہوں گی!
شکریہ!
LikeLiked by 1 person
✊
LikeLike
جو کردار سوچنا شروع کر دے، اس کی کہانی بدلنے لگتی ہے۔
ہم سب کہی، ان کہی، سُنی، ان سُنی کہانیوں کے کردار ہیں۔ کُچھ کہانیوں میں ہم مرکزی کردار ہیں، اور کچھ میں تائیدی، کچھ میں واقعات ہمارے گِرد گھومتے ہیں اور کچھ میں نتیجہ۔ اس میں اہم یہ ہے کہ ہم اپنا کردار واضح جان لیں، اور پھر اسے قبول کر لیں۔ ہماری رضامندی نہ ہونے کی صورت میں کہانی بدلے نہ بدلے، ہم ضرور بدل جاتے ہیں۔
میرے خیال میں جن کہانیوں کا حصہ ہم نہیں بننا چاہتے، وہ ہمارے اختیار کا امتحان ہے۔ اور جن کہانیوں کا حصہ ہم چاہتے ہوئے بھی نہیں بن پاتے، وہ ہماری تسلیم کا امتحان ہے۔
زندگی کے جو دوراہے ہمیں ماضی کے فیصلوں کی صورت یاد آتے ہیں، وہ پچھتاووں اور تفاخر کے بیچ موجود اس سرحدی لکیر کی مانند ہیں جو ہماری یادوں میں موجود ہے، اور جس پر ہم آج بھی یہ سوچتے ہوئے چلتے ہیں کہ لمحۂ انتخاب میں ہمارا عمل / ردِعمل درست تھا یا نہیں۔
ان دو انتہاؤں کے بیچ ایک اطمینان کی پگڈنڈی بھی ہے۔
اطمینان عطا ہے۔
یہ تسلیم کا انعام ہے، اور صبر کا پھل۔
بڑے کہا کہتے ہیں، کہ جو کرتا ہے، اللہ کرتا ہے۔ اور اللہ جو کرتا ہے، ٹھیک کرتا ہے۔
یہ سبق کوشش، عمل، منطق، علّت اور سبب کے نہیں، بلکہ نیت، نتیجے، رضا، نصیب اور مقدر کے صفحات پر مسطور ہے۔
کسے معلوم تھا کہ “فئیر ویل ٹو آرمز” ایک فطری بہانہ بنا، یا واقعاتی عذر، جذبہ بنا یا حکمتِ عملی، عمل تھا یا ردِ عمل۔ ہم مکالمے کا نتیجہ دیکھ کر کرداروں کی سوچ تو نہیں پڑھ پاتے، پر لکھاری کی مرضی ضرور جان سکتے ہیں۔
اسی مرضی میں راضی ہونا، مقدر کہلاتا ہے۔
یعنی مقدر، خدا کے فیصلوں پر ہمارے رویے کا نام ہے۔
“پھر زندگی میں ایک مقام آتا ہے کہ انسان سوچتا ہے کہ دنیا میں محبت اہم تھی کہ عزت”
شاید عزت۔
کہ عزت، محبت کا لازمی ترین جزو ہے۔
Active ingredient
یوں تو محبت،عزت کے بنا وجود ہی نہیں رکھتی۔ اور دیکھنے والی نگاہوں کے لئے قدر اور اہتمام، چاہت کی واضح ترین صورتیں ہیں۔
جہاں تک گمان کا تعلق ہے، تو جاننا چاہئیے کہ گمان عمل سے بھی طاقتور ہے۔ اس میں خیر اور شر کی طاقت اور پوٹینشل بیان سے باہر ہے۔
گمان، نیت کا ایک رُخ ہے۔
ماننا چاہئیے کہ یہاں ہر پہیلی کا جواب اُلٹ نہیں نکلے گا۔ زندگی ہمارے خیال کی آزمائش ہے۔ خیال سے نیت ، قول اور فعل جُڑا ہے۔ یہ بہت سیدھا معاملہ ہے، گُتھیوں سے آزاد۔ اور پہیلی تو ہم خود ہی ہیں، باقی سب اتنا سادہ و آسان ہے!
اب جان گیا میں تیری پہچان یہی ہے
توُ دِل میں تو آتا ہے سمجھ میں نہیں آتا
مذہب ہمارے جسم و روح کی راہنمائی کے لئے بنے ہیں، تاکہ اخلاقی بنیادوں پر انسانوں (نتیجتہً ربّ) سے مضبوط تعلق استوار ہو۔ یہی امتحان کا واحد سوال ہے، یہی نبیوں کی سنت۔
ہم تو خوبصورت ترین روایات کے امین ہیں۔ ہم اُمید، حوصلہ، استقامت اور تحمل بانٹنے والے ہیں۔ ہمیں اپنے مصلحین، پُرکھوں اور بزرگوں کی جانب سے واہموں کو ایمان سے توڑنا سکھایا گیا ہے۔ وہ ایمان، جو ہمیں انسانوں سے جوڑتا ہے، ان کو حق اور صبر کی راہ دِکھاتا ہے۔ ہم نے اچھا گمان بانٹنا ہے، اور اس طرح زندگی کی آزمائش میں ہوش و حواس کھونا ہیں، نہ کھونے دینا ہے۔
ہمیں اس کہانی میں اپنے کردار کو پہچاننا ہے۔
مستاں سے ایک اقتباس
تو اس کٹیا کے دھویں کو دیکھ بابو۔ وہ تیرے لئے زندگی کا استعارہ ہے۔ اس سرمئی لکیر سے تجھے زندگی کا تعلق محسوس ہوتا ہے۔ جو تو سمجھتا نہیں ہے وہ بات یہ ہے کہ سب منظر، سب رشتے، سب حقیقتیں صرف وہ ہیں جو تیرا گمان تجھے کہے۔ تیرا گمان اس کٹیا سے اٹھتے دھویں کو زندگی کہے گا تو وہ تجھے ہمیشہ زندگی کی علامت لگے گا۔ تیرا گمان تجھے یہ دھواں عذاب کی علامت کے طور پہ دکھائے تو تو ہمیشہ اس میں عذاب ہی کا احساس پائے گا۔ عنبر کی اپنے خیالوں میں گونجتی ہنسی کو تو اپنے لیے تمسخر کا چابک بنا لے، یا اسکی آگے بڑھ جانے کی چائلڈ لائک ایکسائٹمنٹ کا اظہار۔ تیری مرضی ہے۔ بس مہرے کا اختیار یہیں تک ہے۔ اور یہی وہ اختیار ہے جو اتنا بڑا ہے کہ سیانے سے سیانا مہرہ سنبھال نہیں پاتا۔
https://leenahnasir.blogspot.com/2017/03/
حدِّ اوہام سے گُزر کے کُھلا
خوش یقینی ، گُماں سے آتی ہے
جو کردار سوچنا شروع کر دے، اس کی کہانی بدلنے لگتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کردار اُس وقت یہ نہیں سمجھ پاتا کہ یہ سوچ بھی کہانی ہی کا حصہ ہے۔ سمجھ آتے آتے، کہانی کے اختتام کا وقت بھی آ جاتا ہے۔
LikeLiked by 1 person
۔
دو بابوں کی قدم بوسی کے لئے سفر میں ہوں۔اس لئے مکمل پڑھنے میں کچھ وقت لگا۔
ہمیشہ کی طرح آپ کے تبصرے نہ صرف بہت سے سوالوں کے جواب ہیں بلکہ ان پر مزید سوال کھڑے کر رہے ہیں۔یہی ارتقا کی بنیادی شرط ہے!
آپ کے وقت کی مشکور!
LikeLiked by 1 person
میں نے بہت چھوٹی عمر میں جان لیا تھا کہ ذندگی میں عزت سب سے اہم ہے۔مگر دہائیوں کے بعد میں نے جانا کہ محبت بھی بہت اہم ہے،اتنی کہ اس کی خاطر بہت کچھ ٹھکرا دینا چاہیے۔
بات یہ ہے کہ جب نصیب میں آزمائش ہو تو محبت چنے انساں یا عزت،آخر میں دونوں ہی محض دھوکے نکلتے ہیں۔عزت مقدر میں نہ ہو تو سب کچھ ٹھکرا کر بھی نہیں ملتی اور محبت کے قابل نصیب نہ ہو تو دنیا کی کوئی بھی خوشی انساں کو راس نہیں آتی۔
جو کردار سوچنا شروع کر دے مجھے لگتا ہے اس کی ذندگی مشکل ہونے لگتی ہے۔سوچنے، سہنے،اور اس سے پار اترنے سے بڑھ کر کوئی پل صراط نہیں۔
LikeLiked by 1 person
عزت، محبت کا واضح ترین رُخ ہے۔
ہم دوراہوں پر رہنے والے لوگ ہیں۔ شاید اسی لئے خوشی کو بھی سہہ نہیں پاتے۔ حاصل ہمارے لئے نصیب سے زیادہ اہم رہا کرتا ہے، اسی لئے ہم محرومی کو ناخوشی کہتے ہیں۔
کائنات بہت سیدھے سدھاؤ اصولوں پر قائم ہے۔ ان میں سے ایک توازن بھی ہے۔
عام طور پر، لینا، دینے کے ساتھ جُڑا ہے۔
جو بھی حاصل کرنا ہو، اسے لوٹا کر دیکھیئے۔ وقت نہیں مِلترا، کسی کو وقت دینا شروع کیجیئے۔ رزق، خوشی، اطمینان، دُعا، علم، ادب، عزت، محبت۔۔۔ جِتنا ، ربّ کے لئے دیں دے، اس سے کئی گُنا واپس مِلے گا۔
اسے برکت کہتے ہیں۔
LikeLiked by 1 person
دے کر نہ پانے والے لوگ بھی بہت ہیں
ایسے بھی بہت جو لٹاتے رہے اور آخر میں خالی رہ گئے اکیلے رہ گئے
بات وہی گمان کی ہے
کسی نے اسے مفلسی مان لیا
کسی نے رحمت کہہ کر تسلی دے لی
الفاظ کا ہیر پھیر ہی سہی
کٹیا کی قسمت تو نہ بدلی!
LikeLike
گمان رکھنا سیکھتے ہماری عمریں بیت جاتی ہیں۔سچ اور جھوٹ کر سمجھتے انساں مٹ جاتے ہیں۔
سب کچھ انساں کے اختیار میں نہیں ہے۔
خدا آپ کے ہر لفظ پر آپ کو جزا دے کہ آپ ان فلسفوں کو ایسے بیان کر لیتے ہیں جیسے ان کو کبھی جئیا نہ ہو۔ہم تو جو کچھ جی لیں ان کو بیان نہیں کر پاتے۔
جو سیکھ جائیں اسے سمجھا نہیں پاتے!
LikeLiked by 1 person
ہم کمزور لوگ ہیں کمزوروں کی طرح سے ٹوٹ جاتے ہیں،شیشے کی طرح بکھر جاتے ہیں دھویں کی طرح سڑ جاتے ہیں۔
کسی کے نصیب میں سبق لکھے گئے اور کسی کے نصیب میں منزلیں!
آپ منزلوں کے مالک ہیں ہم رستوں میں بکھرے ہوئے پتھر!
خدا آپ کی منزلوں کو شاد و آباد رکھے!
LikeLiked by 1 person
سوفِسٹی کیشن والی بلاگ پوسٹس کے سلسلے میں تعطل (یا تعطیل) سمجھ میں آتا ہے۔
شاید مصروفیت لکھنے والوں سے زیادہ پڑھنے والوں پر اثر انداز ہے۔
🙂
اچھا لکھتی رہیں۔
جیتی رہیں۔
LikeLiked by 1 person