یہ سفید ریش آدمی اور یہ عمر رسیدہ عورت جن کے چہروں پر تھکن اور اکتاہٹ کی لکیریں ہیں اور جو اپنی ہڈیوں کی فریاد کے باوجود ایسے کام میں لگے ہوئے ہیں جیسے دنیا کا نظام چلانے کی پوری ذمہ داری ان کے سر ہے۔ برسوں گزر گئے مگر ان کا یہ گھر نہیں بنا۔ یا یوں کہیں کہ گھر پہلے بن گیا تھا مگر مرمت برسوں بعد بھی
جاری ہے۔
وہ رائے دیتی ہے۔ خاکہ پیش کرتی ہے اور یہ مستری اور مزدور کے ساتھ مل کر اس خاکے کو عملی شکل میں لاتا ہے۔ یوں سمجھیں ان دونوں کی برسوں کی پارٹنرشپ ہے اس گھر کو تعمیر کرنے کی جو ابھی تک “وہ” نہیں بنا جو یہ اسے بنانا چاہتی ہے۔ اور اس کاملیت اور جنت بنانے کے چکر میں وہ بوڑھا ہو چلا ہے۔ دبلا ہو چلا ہے۔ اب سر پر آٹے کی بوری اکیلے لاد کر نہیں لا سکتا۔ اب تیز رفتاری سے چلے تو اس کی سانس پھول جاتی ہے۔ اس کے چہرے پر بنی جھریاں اب شمار میں نہیں آتیں۔ وہ اس گھر کی مرمت سے تھک چکا ہے۔ وہ اس گھر کے بدلتے خاکوں سے اکتا چکا ہے مگر وہ نہیں مانتی۔ وہ جنت بنانا چاہتی ہے۔ ایک ایسا محل بنانا چاہتی ہے جس میں اس کا بہو بیٹا شان سے رہیں۔
اس نے ہر لمحہ اس دو کمرے کے گھر کو محل بننے کا خواب دیکھا تھا اور وہ جو اس سے عشق کرتا تھا وہ اس کے ہر خواب کو تعبیر کرنا چاہتا تھا مگر اب اس کی آنکھیں دیکھ کر لگتا نہیں کہ ان میں کبھی محبت کی چمک بھی تھی۔ اب وہاں اکتاہٹ ہی اکتاہٹ، بے زاری ہی بے زاری ہے۔ اور جب محبوب آپ سے محبت میں پوری زندگی مانگ لے تو آپ راضی برضا تو ہو جاتے ہیں مگر آپ تہی دست ہو جاتے ہیں۔ بچتا آپ کے پاس پھر کچھ بھی نہیں ہے، نہ اپنے لیے نہ اس انسان کے لیے جو آپ کو جان سے زیادہ عزیز ہوتا ہے۔
اس کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ وہ محلوں سے محبت کرتی تھی اور وہ اس سے محبت کرتا تھا۔ پھر ہوا یوں کہ اپنی جوانی کے جوش میں اس نے اس کے لیے محل تعمیر کرنے کی ٹھان لی مگر جب خواہشات پوری ہونے کی مدت پوری زندگی سے زیادہ ہوتی ہے تو زندگی ان خواہشات کی تکمیل کی نذر ہو جاتی ہے مگر دیکھنے کو کچھ نہیں ملتا۔ جو آپ نے سوچ رکھا ہوتا ہے زندگی ویسا نہیں کرتی۔ محبت اس شش و پنج میں خودکشی کرلیتی ہے اور بچ جاتے ہیں دو لوگ۔۔۔ زندگی سے اکتائے ہوئے۔۔۔ ایک دوسرے سے بے زار ایک عاشق اور محبوب۔۔ جو ایک دوسرے کو محبت سے دیکھنا تک گوارا نہیں کرتے۔ اور کوئی جا کر ان سے پوچھے کہ بھلا آپ کے بیچ کی محبت کا کیا ہوا تو وہ یوں معترض نگاہوں سے آپ کو دیکھنے لگ جاتے ہیں جیسے ان کے لیے محبت کوئی ماورائی شے ہو جس کو وہ جانتے تک نہیں۔۔
برسوں پہلے جب اباجی کی وفات کے بعد بٹوارہ ہوا اور جائیداد تقسیم ہوگئی تب ان دونوں نے پیسہ پیسہ جوڑ کر دو کمروں اور ایک باورچی خانے پر مشتمل یہ گھر بنوایا تھا جس کی چار دیواری کافی وسیع تھی مگر مزید کمرے بنوانے کے اخراجات نہیں تھے سو انہوں نے محل بنانے کا خواب مستقبل پر ٹال دیا۔ محل جلدی بن جاتا اگر ہر دو سال بعد ایک بچی کی آمد نہ ہوتی۔ محل بنانے کے ساتھ ساتھ بیٹوں کی ماں بننے کا خواب بھی چکنا چور ہوگیا۔
کبھی کبھی زندگی آپ کو دیوار سے لگا دیتی ہے۔ تہی دست کر دیتی ہے۔ قصداً پے درپے وار کر کے آپ کا زور آزماتی ہے۔ تبھی جاڑے کی اس بارش میں جنوبی دیوار گر گئی۔ محل کیا بنتا جو کچھ بنا تھا وہ مٹ رہا تھا۔ اور جیسے ہی وہ دیوار مرمت کروادی گئی گھر کی مشرقی دیوار گر گئی۔ اور تب سے گھر میں ٹوٹ پھوٹ اور مرمت کا سلسلہ چل پڑا۔ یہاں کوئی چیز ٹوٹ جاتی وہاں وہ دونوں اس کو مرمت کرنے میں لگ جاتے۔ پہلے خود پوری کوشش کرتے اور جب ان سے نہ بن پڑتی تو مستری کو بلاتے اور جو تھوڑی بہت جمع پونجی ہوتی، اس کے حوالے کر دیتے۔
کبھی پانی کی مشین خراب ہوتی تو کبھی کپڑے دھونے کی کبھی پانی کی ٹنکی میں مسئلہ ہوتا تو کبھی غسل خانے کی پائپ میں۔۔۔ اس گھر میں ایک بھی دن ساری چیزیں ایک وقت پہ کبھی ٹھیک نہیں ہوتی تھیں۔ اور وہ دونوں کسی نہ تھکنے والی مشینوں کی طرح بچت کے چکر میں اس چیز کی مرمت میں گھنٹوں پسینے بہاتے۔ دھیمے دھیمے بات کرتے تاکہ بچوں کی پڑھائی میں خلل نہ ہو۔ اور جب بات ان کے بس سے باہر ہو جاتی تو دونوں تھک ہار کر برآمدے میں پڑی چارپائیوں پر کچھ دیر کو لیٹ جاتے۔ مستری کو نہ بلانے کی ہر ممکن کوشش کرتے اور مجبوری میں جب مستری بلانا پڑ جاتا تو دونوں لڑ پڑتے۔ روپے کی کمی، سات بچوں کی ذمہ داری اور تنگ دستی۔۔۔ دونوں ایسے لڑ پڑتے کہ گھر کے کونوں کھدروں میں بیٹھے دنیا و ما فیہا کے غموں سے بے خبر بچے کمروں کے دروازوں سے حیران پریشان جھانکنے لگتے۔
یہ سلسلہ چلا اور بڑی دیر تک چلا۔ ان کی پارٹنرشپ جیسی جوانی میں تھی ویسی اب بھی ہے۔ اگر کچھ بدلا ہے تو صرف یہ کہ اب وہ دونوں بچوں کے سامنے بحث کرنے سے نہیں کتراتے۔ پہلے جس طرح گھنٹوں کام کرتے اب بھی ویسا ہی کرتے ہیں مگر بعد میں ہڈیوں کا رونا ضرور روتے ہیں۔ ایک کی ہڈیاں دکھتی ہیں تو دوسرے کی ہڈیوں کے جوڑ۔۔۔ اب کام کرتے ہوئے ان کی آنکھوں میں امید نہیں اکتاہٹ کی جھلک ہوتی ہے۔ انہیں محل بن جانے کی خوشی نہیں جلدی ہے۔ اس ایک گھر نے ان دونوں کی پوری زندگی کھا لی اور اب ان دونوں کو بلآخر کام ختم کر کے سستانے کی جلدی ہے۔ محل بن بھی جائے گا اور یہ دونوں اسے دیکھ بھی لیں گے مگر یہ کون جانے کہ اس گھر کا جب بٹوارہ ہوگا تو کوئی یہ یاد رکھے گا بھی کہ نہیں کہ اس گھر کی ایک ایک اینٹ میں ایک خوبصورت جوان لڑکی اور اس کے مضبوط شوہر کی جوانی پڑی ہے۔ اس گھر کا بٹوارہ اگر ہوگا تو اس کے ساتھ ان دونوں کی زندگی اور محنت بھی بٹے گی۔ یعنی جس چیز میں وہ زندگی لگا رہے ہیں وہ بلآخر ضائع ہو جائے گی۔ بھلا کون یاد رکھے گا کہ ان بنیادوں میں دو لوگوں کا خون پسینہ ان کی زندگی ان کی جمع پونجی ہے؟ ماں باپ کی قربانیاں اولاد کہاں یاد رکھتی ہے؟ پوتے پوتیاں بھلا کہاں یہ سوچتے ہیں کہ ان کے گھر کے کونے والے کمرے میں موجود ہڈیوں کے ڈھانچوں نے بھی کبھی جوانی دیکھی تھی اور جس گھر میں اب وہ بڑی شان سے رہتے ہیں پہلے کوئی اور رہتا تھا۔ رات سونے سے پہلے مستقبل کے بارے میں بے شمار سہانے خواب دیکھنے والی آنکھیں اب قریب پڑی شے تک نہیں دیکھ سکتیں۔ اور جو ہڈیاں اب درد سے کراہتی ہیں وہ کسی زمانے میں پہاڑ اٹھانے کی طاقت رکھتے تھے۔
کاش یہ بات ان کی جوانی میں کوئی انہیں سمجھا دیتا تو یہ دونوں اپنا وقت اور توانائی کسی محل کو بنانے میں نہیں بلکہ محبت سے جینے میں گزار دیتے تو آج ان دونوں کے چہروں پہ بنی لکیریں اکتاہٹ کی نہیں، مسکراہٹوں کی ہوتیں! مگر اس وقت ذہن کہاں اس بات کو مانتا تھا کہ جوانی نے ڈھلنا بھی ہے۔ جب ایسے دو لوگوں کی زندگی کا سفر ایک ساتھ ہو جس میں ایک خواب دیکھنے اور دوسرا اس کو حقیقت میں بدلنے کا شوق رکھتا ہو تو زندگی محبت میں نہیں، محنت مشقت میں کٹ جاتی ہے۔ انسان نہیں جانتا کہ آگے کیا ہوگا لیکن وہ پھر بھی آگے کے لیے سوچتا ہے۔ مستقبل کے لیے خوار ہوتا ہے اور مستقبل ہی کے لیے اپنا حال تک قربان کر دیتا ہے۔ غلطی کرتا ہے! پھر ہاتھ نہ مستقبل آتا ہے نہ حال۔۔ اور اب تو یہ عالم ہے کہ دونوں کو لگتا ہے ان کی زندگی ضائع ہوگئی ہو جیسے۔ مگر اب کچھ نہیں ہوسکتا۔ وقت اور گاڑی کے پہیے میں فرق ہی یہی ہے کہ وقت کا پہیہ واپس نہیں پلٹتا۔
وہ اس عمر رسیدہ عورت کو کن اکھیوں سے دیکھتا ہے تو حیران ہو جاتا ہے۔ وہ اس قدر خوبصورت تھی کہ وہ اسے دیکھتا تو سوچتا اس کی جوانی اور خوبصورتی سدا بہار ہوگی۔ وہ اتنی حسین تھی کہ اس کو دیکھتے ہوئے کہیں اور دیکھنے کو دل نہیں کرتا تھا مگر اس انتہاء کی ظالم عورت نے اسے محبت کی فرصت نہ دی۔ اسے مصروف رکھا۔ اسے اتنا تھکا دیا کہ اسے محبت کرنے کا وقت ہی نہ ملا اور اب جب محل بن گیا ہے اور اس کے پاس فرصت ہی فرصت ہے تو اب وہ جوانی نہ رہی۔ اب ان آنکھوں میں وہ ادا نہیں، نہ ہی اس کی زلفوں کو دیکھ کر اب ان پہ کالی رات کا گمان ہوتا ہے۔ اب ہوتا یہ کہ اس بڑے سے محل میں وہ الگ الگ کونوں میں بیٹھ کر کھانس رہے ہوتے ہیں۔ اپنی بگڑتی صحت کی فریاد کررہے ہوتے ہیں۔ اور کبھی ایک ساتھ بیٹھ جائیں تو ایک دوسرے سے الجھ پڑتے ہیں کیونکہ جن کی زندگی بنا محبت کا سلیقہ سیکھے گزر جاتی ہے، وہ بڑھاپے میں محبت کرنا کبھی نہیں سیکھتے۔ کچھ داستان محبت یوں بھی ادھوری ہوتی ہیں کہ محبوب کا ساری زندگی پاس رہ کر بھی دیدار نہیں ہوتا۔ کیونکہ محبت تو وہ پودا ہے جس کو اظہار کا پانی دے کر زندہ رکھا جاتا ہے۔ اور اگر محبت کو پس پشت ڈال کر دوسری چیزوں کو اہمیت دی جائے تو محبت بھی ایسے لوگوں کو خالی دامن چھوڑ دیتی ہے۔ انسان پتھروں کے محلوں کو اہمیت دینے لگ جائیں تو دل کے محل ویران رہ جاتے ہیں۔۔۔
گھر ______________شیما قاضی

انسان پتھروں کے محلوں کو اہمیت دینے لگ جائیں تو دل کے محل ویران رہ جاتے ہیں
Very true…
LikeLiked by 1 person