کرونانے ذندگیوں سے ذیادہ اپارٹمنٹ اجاڑے ہیں

کیا ضروری ہے کہ وہ منہ پھیر کر موبائل کی سکریں پر لڈو کھیلنے لگے اور اپنے پیچھے ،دائیں اور بائیں بدلتی ہوئی تاریخ اور وقت سے نگاہیں پھیر لے؟کیوں ناں وہ سارا کچھ بھول کر اس لمحے میں بدلتی ہوئی تاریخ کا ،اور الٹ پلٹ ہوتے جغرافیہ کا حصہ بن جائے؟ پیچھے بدلتی تاریخ میں پشتو اور ملباری لہجے میں اردو بولتے مردوں کی آوازیں سنے،ورق پھاڑنے،پلاسٹک کی شیٹیں لپیٹنے اور گتے کے ڈبے بند کرنے کا شور سنے کہ چاہے کس قدر تکلیف دہ،بھدی اور نامانوس آوازیں ہیں مگر یہی آوازیں آج اس لمحے اس دنیا میں ان کی سمت،محل وقوع، آج اور آنے والا کل بدلنے والی ہیں۔(شام تک یہ بھرا پڑا گھر خالی ہو جائے گا اور کل کو ان کے قدموں تلے سے یہ محفوظ ذمیں چھن جائے گی۔)

وہ جان گئی تھی کہ ریت کی طرح سےبیتا کل اور رخصت ہوتا آج اس کی مٹھی سے نکل رہا تھا ۔شیشے کے دوسری طرف گل دوپہری کی لٹکی ہوئی ٹوکری میں بیٹھی جھولے لیتی فاختہ کو اب کوئی خدشہ لاحق نہ تھا۔جگہ، مقام ،گھر اور قیام کی جنگ وہ جیت گئی تھی۔اور وہ جو روز اسے اپنی بالکنی سے اڑاتے تھے اب ڈبے باندھتے ،سامان سمیٹتے،رخت سفر میں مبتلا تھے۔

یہ فاختائیں اس دیس کی تھیں۔ان پھولوں ،کلیوں اور بالکونی پر ان کا حق مسلم تھا جبکہ وہ رزق حلال کی تلاش میں آئے مہاجر تھے جن کا اس گھر، اور ذمیں پر حق اس فاختہ سے بھی کم تر تھا۔انہیں کوئی پیڑ کی ڈال سے اڑا دے تو ان کے پاس اختیار نہ تھا کہ وہ اڑ کر پھر کچھ دیر بعد لوٹ کر پھولوں کی ٹوکری میں بیٹھ جائیں۔وہ انسان تھے اور مہاجر تھےاور دیس نکالے ان کے مقدر تھےسو ان کو اپنے بچوں کو اپنے سروں پر ڈھونا تھا اور واپس کوچ کر جانا تھا۔

یہ بالکنی بھی سجے گی۔شاید پہلے سے کہیں بہتر۔ہو سکتا ہے آج سے بھی خوبصورت اور مہنگے پھول وہاں کھلیں۔ہو سکتا ہے پہلے سے بڑھ کر جگمگانے لگے۔کچھ اور نئے لوگ اس گھر کی دیواروں میں آن بسیرا کریں۔کوئی نہ جانے گا کہ وہ جو کچھ عرصہ پہلے اس عمارت میں رہتے تھے اور اسے گھر کہتے تھے،گھر کہنے اور چھوڑ دینے کے بیچ کیا کچھ سہہ چکے۔یہ ایک ذرا سی تبدیلی انسانوں کی ذندگیوں میں کیسے کیسے طوفان لے آتی ہے۔انسان کوچ کر جاتے ہیں مگر اپنے وجود کا ایک حصہ وہیں چھوڑ جاتے ہیں۔جسے گھر بنانے میں وقت لگا ہو اسے گھر بھولنے میں بھی وقت لگے گا۔وہاں سے نکلتے ہیں تو پہلے کی طرح مکمل نہیں ہوتے۔آدھے ادھورے ہو چکے ہوتے ہیں۔کچھ اور دیس نکالے اوپر نیچے اسی طرح ذندگیوں کا حصہ بنتے رہیں تو کچھ ہی عرصے میں انسان کا قد پانچ فٹ آٹھ انچ سے کم ہو کر دیڑھ دو فٹ کا رہ جاتا ہے جس میں سے محض ایک آدھ فٹ میں ذندگی کی رمق بچتی ہے۔باقی سب کچھ ہجرتوں اور دیس نکالوں کے ہاتھوں لٹ جاتا ہے۔

یہ قیامت صرف ان پر نہیں ٹوٹی تھی۔پچھلے چھ ماہ سے یہ قیامت اندھی بجلی بن کر روز کسی نہ کسی پر گر رہی تھی۔روز کوئی نہ کوئی دفتر خالی ہو رہا تھا۔روز کوئی نہ کوئی اپارٹمنٹ اجڑ رہا تھا۔جو لوگ بہت شور کرتے آئے تھے خموشی سے کوچ کرتے جا رہے تھے۔بلڈنگز میں فلیٹس کے کرایے روز بروز گر رہے تھے۔ہر کوئی چاہتا تھا کسی نہ کسی طرح گھر بسے رہیں۔لوگ پانچ، دس،پندرہ بیس اور تیس سالوں کی نوکریاں اور بسے ہوئے گھر چھوڑ کر واپسی پر مجبور تھے۔اس معاشی بدحالی کے ہاتھوں جو کرونا وبا کے ساتھ گلف میں رہنے والے نیشنیلٹی سے محروم مہاجروں پر کرونا وبا سے بدتر ہو کر ٹوٹی تھی۔

جو اپنا دیس تک بھول چکے تھے انہیں اب یاد آیا تھا کہ جہاں لوٹ کر جانا ہے وہی اپنا دیس تھا۔بہت سے بچے انہیں شہروں کے ہسپتالوں میں پیدا ہو کر پل گئے تھے،جو روزانہ اسکول اسمبلی میں “عیشی بلادی” گاتے تھے،اسی پرچم کو سیلوٹ مارتے تھے اور یونیفارم پر انہیں دیسوں کا جھنڈا لگاتے تھے آج انہیں اچانک پتا چلا تھا کہ یہ ترانہ اور یہ جھنڈا ان کا کبھی نہیں تھا۔جنہوں نے کبھی دبئی،ابوظہبی کے سوا کبھی کوئی نام نہ سنا تھا اب ان کو بھی ان شہروں کی طرف لوٹ کر جانا تھا جہاں وہ ہمیشہ مہماں ہو کر اترتے تھے،جہاں سے ان کے والدین کبھی روزگار کی تلاش میں نکلے تھے اور دہائیاں اس شہر میں رہنے کے بعد بھی اس ذمین کی شہریت سے محروم تھے۔سر سے آسمان اور قدموں تلے سے جو ذمین جب چاہے چھینی جا سکتی تھی کرونا کے ہاتھوں چھن رہی تھی۔دو ماہ کے لاک ڈاون میں وہ اپنی اپنی بالکونی سے جھانکتے گلے پھاڑ پھاڑ اماراتی قومی ترانہ گا کر اپنی وفاداری کا یقین دلاتے رہے تھے مگرمعاشی بحران ٹوٹتے ہی کمپنیوں اور بلادی(میرے وطن) کو ان کی ضرورت نہ رہی تھی۔

بچے جو ان گلیوں میں پیدا ہوئے ،پلے بڑھے،ساری عمر کے لئے ان گلیوں کو چھوڑ جائیں گے۔وہ قومی ترانہ جو سالہا سال اسکولز میں پڑھتے رہے اجنبی ہوا،یہ شہر ،یہ لوگ،یہ گلیاں ایک دم سے غیر ہوئیں۔بچے تو یہ سمجھ بھی نہیں پاتے کہ نیشنیلٹی کیا چیز ہے۔جس شہر جس ملک میں ان کا جنم ہوا وہ کیوں ان کا گھر نہیں بنتا۔کب کسی بھی ریاست یا حکومت نے آواز لگائی ہے کہ جو جانیں جس ذمین پر جنم پائیں انہیں اس ذمیں کا نام دو۔جو ہمارا دیس اور ہمارے حکمران کہلاتے ہیں انہیں خوشی اس بات کی ہے کہ ریکارڈ رقم پاکستان آ رہی ہے،کوئی نہیں جانتا کہ لٹے پٹے لوگ نوکری سے ہاتھ دھو کر اپنے بچوں کے بستر،بستے اور کتابیں بیچ کر زرمبادلہ لیکر واپس آ رہے ہیں۔واپس اس ریاست میں جہاں ان کے لئے کوئی روزگار مہیا نہیں،جہاں ان کی،جان، مال اور عزت کے تحفظ کی کوئی ضمانت نہیں ۔

کچھ تو اس سے بھی برے حالوں میں رہے۔ان کی بیس تیس سالوں کی گریجویٹی پھنسی ہے،کمپنیاں دیوالیہ ہو گئیں ۔لوگ رستوں میں پھنسے ،کئی کئی ماہ ہوٹلوں کے کرایے بھرتے بقایا جات ملنے کے منتظر بیٹھے ہیں۔کسی کو سال بعد ملا کسی کو دو سال بعد۔کچھ ناکام و نامراد لوٹیں گے۔تیس سال بعد بھی خالی ہاتھ لوٹیں گے۔کرونا نے اتنی جانیں نہ لیں جتنے روزگار کھا گیا۔

____________

صوفیہ کاشف

___________________

1 Comment

  1. جو بچے عرب ممالک میں پیدا ہوئے۔ اعلی گھروں میں رہے ان کیلئے پاکستان واپس جانا ایک المیہ سے کم نہیں۔ ان بچوں کا مستقبل صرف انگلینڈ امریکہ کینیڈا مائیگریٹ ہونے میں ہے۔

    Liked by 1 person

Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

You are commenting using your WordPress.com account. Log Out /  Change )

Facebook photo

You are commenting using your Facebook account. Log Out /  Change )

Connecting to %s

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.