“امریک سنگھ کو تم نے قتل کیا تھا؟”
“نہیں!” اٌس نے اپنی سبزی مائل قہوئی آنکھیں میری سمت گھمائیں.”میں نے اسے قتل نہیں کیا!”
اٌسکی پٌرسوچ آنکھیں کچھ دیر خاموشی سے مجھ پر گڑی تعین کرتی رہیں کہ اسے مزید بولنا بھی چاہیے کہ نہیں۔میں نے اسے بتایا کہ میں بڑے بڑے کاغذی ڈبوں میں اسکے جعلی نام سے امریکہ کی فلائیٹ کے بورڈنگ کارڈز اور پناہ کی درخواستوں سمیت کلووز سے کرایہ کی کار کی رسیدیں تک دیکھ چکا ہوں۔ان کی تاریخیں وہی تھیں جن دنوں میں امرک سنگھ کی موت ہوی تھی۔اس لیے مجھے یہ تو یقین تھا کہ اس میں کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی طرح اسکا ہاتھ موجود تھا مگر کسطرح،اس بات سے میں لاعلم تھا۔
“میں صرف سچ جاننا چاہتا ہوں! مجھے اس سے کوی غرض نہیں کہ یہ قتل تم نے کیا ہے کہ کسی اور نے!وہ اسی قابل تھا”میں نے اسے کہا تھا۔
“میں نے اسے نہیں مارا،اْس نے خود اپنے آپ کو ختم کیا!______لیکن ہاں! ایسا ممکن ہم نے کیا!”
مجھے کچھ سمجھ نہ آیا کہ اسکی اس بکواس کا کیا مطلب تھا۔
“میں امریکہ اسے ڈھونڈنے نہیں گیا تھا۔میں تو کچھ اور کاموں کے سلسلے میں پہلے سے وہاں موجود تھاجب میں نے وہاں کے اخبارات میں اپنی بیوی پر حملے کے جرم میں اسکی گرفتاری کی خبر دیکھی۔اسکی رہائش گاہ کا پتہ درج تھا۔میں کتنے سالوں سے اسے ڈھونڈتا پھر رہا تھا تاکہ اس سے اپنے پچھلے حساب چکتا کر سکوں۔ میں ہی نہیں ہم میں سے بہت سے لوگ اسی کوشش میں مگن تھے۔اس لیے کچھ ضروری معلومات لے کر میں اسے تلاشتا کلووز گیا ۔ میں نے اسے ایک ٹرکوں کی گیراج میں جا لیا جہاں وہ اپنے ٹرک کی سروس کے سلسلے میں موجود تھا۔مگر وہ امرک سنگھ وہ نہیں تھا جسے میں جانتا تھا ، جالب قادری اور اسکے جیسے بہت سے دوسروں کا قاتل ۔وہ تو ایک بدلا ہوا شخص تھا ،بہت ہی ڈرا ہوا اور شکسہ حال۔مجھے اس پر ترس آنے لگا۔میں نے اسے تسلی دی کہ ڈرے مت! میں اسکا کچھ نہیں بگاڑوں گا۔میں تو صرف یہ بتانےآیا تھا کہ جو کچھ اس نے ہمارے ساتھ کیا ہم اسے کبھی بھولنے نہیں دیں گے!”
میں اور موسی نیچے گلی میں کھڑے ان باتوں میں مگن تھے جہاں میں اسے الوداع کہنے آیا تھا۔
“دوسرے کشمیریوں نے بھی وہ خبر اخبارات سے ہی دیکھی اور پھر وہ کشمیر کے اس قصاب کو اور اسکے حالات کو دیکھنے کے لیے پہنچنے لگے۔ان میں صحافی بھی تھے ، مصنف بھی،فوٹوگرافرز بھی اور وکیل بھی حتی کہ عام لوگ بھی سب اسکے آفس میں،گھر پر،بازاروں میں،گلیوں میں ،اسکے بچوں کے سکول میں بلاناغہ ظاہر ہونے لگے ۔وہ ہمیں دیکھتے رہنے پر مجبور تھا۔وہ سب کچھ یاد کرتے رہنے پر مجبور تھا۔اسی نے اسے پاگل کیا ہو گا یہاں تک کہ اس نے خود کو تباہ کر لیا۔تو جہاں تک تمھارے سوال کا تعلق ہے’ نہیں’! ۔۔۔میں نے اسے قتل نہیں کیا!”
ہمارے عقب میں واقع سکول کے پھاٹکوں پر بنی چھوٹے بچوں کو پولیو کے قطرے پلاتی بدصورت نرس کی پینٹنگ کے سامنے کھڑے ہو کر پھر موسٰی نے جو مجھ سے کہا وہ میری رگوں میں خون جما دینے کے لیے کافی تھا۔انکی ٹھنڈ میری ہڈیوں میں اتر رہی تھی کیونکہ وہ اسی محبت بھرے دوستانہ اور پرسکون لہجے میں مسکراتے ہونٹوں سے کہا گیا تھا جیسے وہ مجھے چھیڑ رہا تھا۔
۔ایک دن اسی طرح کشمیر بھارت کو خودکشی پر مجبورکر دے گا! تم ہمیں اندھا کر سکتے ہو! اپنی گولیوں سے ہماری آنکھیں پھوڑ سکتے ہو مگر اپنی نہیں!تمھاری آنکھیں پھر بھی یہ دیکھنے کو ذندہ رہیں گی کہ تم نے ہمارے ساتھ کیا کیا۔تم ہمیں تباہ نہیں کر رہے،تم تو ہمیں تعمیر کر رہے ہو! تباہ تو تم اپنے آپ کو کر رہے ہو۔خدا حافظ!۔۔گارسن بھائی”
وہ رخصت ہوا اور اسکے بعد میں نے اسے پھر کبھی نہیں دیکھا۔
_________________
اقتباس
The mystery of utmost happiness
از اروون دھتی رائے
ترجمہ : صوفیہ کاشف
اپ کی کا تحریر لا جواب ہوتی ہے۔ بہت دنوں بعد لکھا سب ٹھیک ہے ناں؟
LikeLiked by 1 person
بہت تلخ ہیں بندہ مزدر کے اوقات!
بندہ مزدور ہو جانے کے بعد لکھنے کی عیاشی سے میل ملاقات نہیں رہی۔
الحمداللہ اللہ کا کرم ہمیشہ ساتھ ہے۔
یاد رکھنے کا شکریہ!
دعاوں میں یاد رکھیں!
LikeLiked by 1 person