دیس کے نام ایک خط

میں نے ایک دہائی سے زیادہ عمر امارات میں وطن کو عزیزوں کو ،ماضی کو یاد کرتے گزارا،اور میں نے پردیسیوں کے کرب پر ڈھیروں مضامین لکھے۔مگر پچھلے ایک سال کے تجربات نے میرا نکتہ نظر میری سوچ اور روئیے بالکل بدل کر رکھ دئیے ہیں۔مجھے لگا میری سوچ اور سمجھنے کی صلاحیت مزید نکھر گئی ہے۔جانے سے پہلے میری ذیادہ تر نظر یہاں کے مسائل پر تھی۔پاکستان سے ہو کر واپس آنے پر مجھے نعمتوں کی مزید قدر ہونے لگی ہے اور کوئی شک نہیں کہ مجھے پہلے سے زیادہ امارات پر فخر محسوس ہو رہا ہے اس کے باوجود کہ ہمارے پاس یہاں کی نیشنیلٹی نہیں اور یہ بھی نہیں پتا کہ اگلا وقت ہمارے لئے کیا لائے، مگر اس ریاست نے اتنے سالوں میں ہمیں اتنا کچھ دیا ہے کہ ان کا احسان مانےبغیر چارہ نہیں۔

پاکستان میں اور پاکستان کے سب سے خوبصورت،مہنگے اور طاقتور شہر میں ہوتے ہوئے میں نے جانا کہ خدا نے پاکستان کو ڈھیروں ڈھیر نعمتیں دی ہیں بس لوگ نہیں اچھے دئیے۔پاکستانی انسانوں کی ایک بڑی  اکثریت  انسانیت کے تماتر تر تقاضوں سے بہت کم تر ہیں،کلاس ،پیسہ،رتبہ سے قطع نظر۔اور یہ بات سنتے اس بات کا دھیان رکھیں کہ میں اس شہر کی بات کر رہی ہیں جہاں پاکستان کے بہترین تعلیمی ادارے،پاکستان کی تمام تر انتظامی مشینری کے اونچے عہدےدار،اور پاکستان کی تماتر کریم رہائش پزیر ہے۔اگر یہ تجزیہ ان سے لیا گیا ہے تو جو علاقے لوگ مرکز سے، سہولیات تعلیم سے دور ہونگے ان کا کیا حال ہو گا۔

ہم بھی انہیں میں سے ایک تھے۔ہمارے کردار کا ایک حصہ ہماری تعلیم،تربیت،بیک گراؤنڈ،سے بنتا ہے تو دوسرا اہم حصہ معاشرے کے ہاتھوں تشکیل دیتا ہے۔متحدہ عرب امارات کے سخت قانون نے ہمیں سکھایا کہ ہمارے آس پاس کے انسانوں کے حقوق کیا ہیں۔ہمارا محض ایک غلط ٹویٹ،سوشل میڈیا پر کسی کے بارے میں ایک غلط پوسٹ ہمیں جیل کے اندر لیجا سکتا ہے۔کیونکہ کسی بھی سوشل میڈیا پر کسی دوسرے کی بات کرنا،مذاق اڑانا تضحیک کرنا،حتی کہ کسی کی بغیر اجازت تصویر لینا چاہے وہ کسی جرم کے دوران ہی کیوں نہ ہوں، ایک ناقابل معافی جرم ہے تا کہ سمجھا جا سکے کہ جرم کو پکڑنے اور سزا دینے کے لئے ادارے موجود ہیں۔۔پاکستان میں کیا یہ بات کسی کو سمجھ آ سکتی ہے؟

آٹھ ماہ بچوں کے ساتھ پاکستان میں میں نے تنہا پاکستانی دنیا کو سہا ہے اور میں تقریبا محفوظ تھی کیونکہ میں سب سے مہنگے علاقے میں امیر ترین لوگوں میں رہتی تھی۔میں نے سنا کہ ڈی ایچ اے میں سویلینز کی کوئی عزت نہیں کرتا۔مگر میرے ساتھ ایسا نہیں تھا۔میں نے ہر کسی کو جھک کر ملتے دیکھا،اس کی وجہ میرے پاس پیسہ ہونا تھا یا باہر سے آنے کا پریولیج تھا۔میں سمجھ سکتی ہوں کہ اگر یہ گیارہ سال بیچ میں سے نکال کر میں سیدھی چھوٹے شہر سے یہاں آئی ہوتی تو مجھے کیا دیکھنا پڑ سکتا تھا۔۔۔۔اگر جو میں مڈل کلاس علاقے سے مڈل کلاس لوگوں سے آئی ہوتی تو جانے کیا کچھ دیکھ چکی ہوتی۔تو دولت اور امارت جو ڈر عام پاکستانی  لوگوں میں پیدا کرتی ہے اس کی وجہ سے میں کافی حد تک محفوظ رہی مگر میں سمجھ بھی گئی کہ مجھے کونسی چیزیں محفوظ رکھ رہی ہیں کیونکہ انہیں لوگوں کو اور جگہ پر میں نے کچھ اور سلوک کرتے  دیکھا۔

لوگوں نے کس کردار کا مظاہرہ کرنا ہے اس کا تعین ان کا کردار نہیں کرتا سامنے والے کی اوقات کرتی ہے۔جس قوم میں کردار ہی نہ ہو اس سے کیا توقعات رکھیں ؟عسکری ٹاوردوست کے گھر جاتے   جس گیٹ سے میں ہمیشہ بائیں رستے سے نکلتی تھی کیونکہ سامنے بڑا سا بورڈ موجود تھا جس پر لکھا تھا کہ دائیں طرف مڑنا منع ہے اسی سے بڑے بڑے افسران کی گاڑیاں ہمیشہ دائیں سمت نکلتی تھیں۔ایک بار میں نے گیٹ کیپر سے کہا کہ آپ کے یہاں کھڑے ہونے کا کیا فایدہ ہے کہ آپ کے سامنے اس لگے ہوئے بورڈ کی نفی کرتی گاڑیاں غلط سمت پر مڑ رہی ہیں؟اس نے کہا “میڈم!کرنلز اور افسر لوگ بورڈ کو دیکھتے بھی غلط رخ مڑ جاتے ہیں تو ہم کیسے روک سکتے ہیں؟”ظاہر ہے ایک گیٹ کا سپاہی غلط کام کرنے والے کرنل کو کیسے روک سکتا ہے؟میری بات میں آ کر شاید اس نے کسی کو روکا ہو گا جو اگلی بار میں نے اس دائیں طرف مڑنے سے منع کرتے بورڈ پر کراس لگا دیکھا۔ مجھے آٹھ ماہ لگے ساری عمر کے پروفیشنل ڈرائیور کو روڈ قوانین سکھاتے۔کیونکہ جب میرے ساتھ بیٹھے وہ غلط موڑ مڑتا تو میں شرم سے پانی پانی ہو جاتی تھی۔یہ شرم مجھے امارات نے سکھائی اور سڑک پر دوسرے لوگوں کا اس احساس سے لاعلم ہونا پاکستانی معاشرے نے سکھایا۔صرف ایک ٹریفک کا محکمہ ایمانداری سے کام کر لیتا تو پاکستانی سڑکوں پر گھمسان کا رن نہ پڑتا۔

ایوب پارک میں ایک بار کتوں کے آوارہ پھرنے پر آواز لگائی،تو دس مالی اور ملازم مجھے دیکھتے ہی ایک دوسرے سے آواز لگا کر پوچھتے,”کتے تو نہیں ہیں ؟دوسرا ادھر سے ہی کھڑا جواب دیتا نہیں ہیں” جبکہ وہ قریب ہی کہیں موجود ہوتے۔

“اقربا پروری،بددیانتی،کاہلی نے پاکستان میں قوانین کو جامد کر رکھا ہے۔ایک ایک طاقتور فرد سو سو لوگوں کو حرام خوری میں شریک جرم کر لیتا ہے۔چاہے وہ کوئی ایگزیکٹو ہو کہ گیٹ کیپر،ہر درجے پر بددیانتی،بدنیتی،،،،،اور اس کی شرح 99.99فی صد سے بھی ذیادہ ہے۔اس کی انتہا سمجھ تب آتی ہے جب آپ ایسے معاشرے سے آتے ہیں جہاں قوانین کا مکمل نفاذ ہو، اقربا پروری،اور ذاتی مفادات سے بڑھکر۔پاکستان میں دو نمبر ہونا چالاکی اور ذہانت کے زمرے میں آتا ہے۔جس معاشرے میں جھوٹ،دھوکہ بددیانتی ایک خوبی مانی جائے اس کی گراوٹ کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔

امارات نے ہم ایسے  تیسری دنیا کے لوگوں کو  انسان بنایا ہے۔ہمیں انسانوں کے حقوق اور ہمارے فرائض یاد کروائے ہیں۔مجھے پانچ سال تک ڈرائیونگ لائسنس نہیں ملا جب تک میں نے سو فی صد مکمل ڈرائیونگ کر کے نہیں دکھا دی۔اور حیرت انگیز طور پر پاکستان میں سب کے پاس لائسنس ہے اور ڈرائیونگ اور روڈ کے اصول کسی کو نہیں آتے۔کیا کچھ لکھوں کہ بات سمجھنی آسان ہو سکے۔لکھتی رہوں تو کیا کیا کچھ لکھ دوں مگر ہاتھ تھک گئے۔

میں دعا کروں گی آپ میرے الفاظ سے خائف نہ ہوں کیونکہ پاکستان میں لوگ بہت جلدی ان باتوں سے خائف ہو کر دفاعی پوزیشن میں چلے جاتے ہیں۔سفید اور کالے میں فرق کے لئے دونوں رنگوں کا دیکھنا ضروری ہے شاید اس لئے۔ورنہ اندھیروں میں بسنے والوں کو پتا نہیں چلتا کہ روشنی کسے کہتے ہیں۔

5 Comments

  1. When I visit Pakistan I stay in Cecil hotel Murree, sitting in the balcony watching mall traffic, jogging on Kashmir point and move to PC Bhorban to stay there until end of my trip. My all relatives have been moved to USA, Canada, UK & Germany

    Liked by 1 person

  2. پاکستان ایک ایسی بیوہ کی مانند ھو چکا ھے جس سے سب متعہ یا مسیار تو کرنا چاھتے ہین لیکن کوی بھی دائمی نکاح کرنا نہیں چاھتا پاکستان میں کامیاب زندگی گذارنے کے لیے طاقت اور دولت کا ھونا لازم ھے ورنہ یہاں زندگی سسکتی ھے دوسرے پاکستانی عوام نے اپنے آپ کو ایک کیپسول میں بند کیا ھوا ھے جس سے باھر وہ دیکھنا نہین چاھتے ھر مسلئہ کا ذمہ دار امریکہ اور مغربی ممالک ہیں جو ھر وقت پاکستان ککیخلاف سازشیں کرتےہیں ی‌

    Like

Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

You are commenting using your WordPress.com account. Log Out /  Change )

Facebook photo

You are commenting using your Facebook account. Log Out /  Change )

Connecting to %s

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.