میں پیچھے 2022 کی طرف مڑ کر دیکھتی ہوں اور سوچتی ہوں کیا میرے پاس لکھنے کے لئے کچھ ہے؟
کوئی مرثیہ،کوئی نوحہ؟
کوئی نغمہ کوئی گیت؟
کسی کامیابی کا نشہ
کسی ناکامی کا الم؟
تو سچ یہ ہے کہ مجھے ایسا کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا!
میں اپنی ذندگی کے اس مقام پر ایک بار پھر ہوں جہاں مجھے اپنے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی دلچسپی ہی نہیں رہی۔
جہاں مجھے کسی گیت کا نشہ نہیں چڑھتا
جب مجھے کسی تکلیف سے درد نہیں ہوتا
میرا قلم اونگھنا پسند کرنے لگا ہے کیونکہ اس کے پاس چلنے کی دلیل نہیں رہی۔
،کیوں،کس لئے جیسے حرف میری ذندگی کے ہر ارتعاش پر سانس روکے کھڑے ہو گئے ہیں۔
پچھلے تین چار سال اس قدر تباہ کن تھے کہ اب رولر کوسٹر رکی ہے تو آس پاس کچھ بھی نظر نہیں آتا!
اس سال کتابیں بھی پڑھیں،تھوڑا بہت لکھا بھی،تھوڑی بہت کوشش ذندگی کے جمود کو توڑنے کی بھی کی۔مگر ایسا کچھ نہیں کیا جس پر سر اٹھا کر خود پر آفرین پھونکی جائے۔ذیادہ تر بس نئی ذندگی کو جینے کی کوشش میں گزرا
جس معاشرے میں اترے ہیں اس کے مزاج کو سمجھنے کی کوشش میں گزرا
میں ڈھل سکتے ہیں کہ نہیں،یہ سوچتے گزرا!
اور “نہیں ے ہر سوال کے جواب کے آخر میں کھڑا پایا۔
اس میں ڈھل جانے کی قیمت ہے اپنا آپ گنوا دینا!
اور اپنا آپ گنوا کر انساں کو کچھ بھی ملے،چین نہیں ملتا!
یہ سودا بہت مہنگا ہے
خود کو اس کے لئے اپاہج پاتی ہوں
تو پھر سمجھ یہی آتی ہے کہ اس جہاں سے نبھتی دکھائی نہیں دیتی۔
تو پھر کیا میں خود کو زخمی کرنے پر آمادہ ہوں؟
میرے پاس اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں!
تو پھر زخمی ہونا ہے تو دیوار کی تختیوں پر لگنا اچھ نہیں لگتا۔
ذندگی کچھ گہرائیوں میں تیرنے کی خواہشمند ہے!
اتنی گہرائی میں کہ اوپر سے کوئی میری حرکت کی جنبش تک نہ جان سکے۔
اتنی خموشی سے کہ دھڑکن تو دھڑکن چیخیں تک لوگوں کی سماعت سے پرے رہیں۔
بدلے ہوئے موسم مجھے بلا رہے ہیں!
کن منزلوں کی تلاش ہے کچھ خبر نہیں!
کن وادیوں کا سفر لاحق ہے کچھ قیاس تک نہیں!
محض ایک دعا!
خدا ہماری منزلوں کو سلامتی بخشے!
ہمارے رستوں کو کھولتا اور پھیلاتا رکھے!
ہمارے دماغوں کو جمود کے زنگ سے بچائے
ہمارے سفروں کو ہمیشہ سفر میں رکھے!
آمین!
صوفیہ کاشف
خدا اپ کی منزلوں کو سلامتی بخشے۔ امین
LikeLiked by 1 person
Ameen
LikeLiked by 1 person