دوام۔۔۔۔۔۔آخری سحر ہے (2)

تحریر:سدرتہ المنتہی

کور ڈیزائن :صوفیہ کاشف

فوٹوگرافی:صوفیہ کاشف،قدسیہ

ماڈل:ماہم

قسط 2

دوام! آخری سحر ہے

_______________

ہم ایک دوسرے کی یادوں میں جیا کریں گے

*********

گھر کا لان ایکدم ویران تھا اور
گھاس بالکل بے ترتیب تھی
سب کچھ وہی تھا،اسی صورتحال میں جیسا سوچا تھا
جس کا اندازہ تھا
اتنے سالوں بعد یہی حشر ہونا تھا تمام چیزوں کا
وہ تو شکر ہے کہ اسکی ماں نے پرانی پڑوسن کو فون کرواکر خاص تاکید کی تھی اور اس کے پہنچتے ہی انہوں نے اپنے دونوں ملازم اس کی طرف بھیج دئیے تھے
جن میں ایک باہر لان کی تھوڑی بہت صفائی اور گھاس کو کاٹ کر ترتیب میں کررہا تھا
تو دوسرے کے ساتھ مل کر وہ کمروں کی صفائی میں لگی ہوئی تھی
سب ہوگیا تھا۔۔
کمرے صاف ستھرے۔۔بیڈ شیٹس تبدیل
اس سے ماں باپ کے کمرے کو دوبارہ تالا نہیں لگایا گیا
بس دروازہ بند تھا
دروازہ چاہے مقفل ہو یا نہ ہو مگر اس کا بند ہونا بھی کسی طرح سے ناراضگی کا اظہار کررہا تھا
وہ ابو کے کمرے میں انکی تصویروں کے اور پرانی ڈائریوں کے اور پرانے چشموں کے شیشوں کے،ٹوٹے ہوئے اور خشک ہوچکے قلم کی سوکھی نبوں کے،یا پھر بک شیف میں دھرے اخبارات کے گلے سنتی جو پچھلے چار سالوں سے انسانی لمس سے محروم رہے تھے۔
اسے لگ رہا تھا تصویریں بولنے لگ جائیں گی۔۔
ابو کی تصویر اس سے کئی سوالات کرے گی
ابو کا لہجہ دھونس بھرا ہوگا
شکوہ بھرا ہوگا
غصہ بھرا ہوگا
وہ کس کس بات کا جواب دے گی
اور خود کتنے شکوے کرے گی۔۔روئے گی
لڑے گی۔۔بولے گی کہ کتنا یاد کیا۔۔
بتائے گی کہ کیسے چار سال کا عرصہ گزرا۔۔
کتنا لمبا گزرا۔۔اتنا لمبا جیسے چار سالوں میں چار صدیاں آجاتی ہوں
مگر ایسا ہی ہوتا ہے
یہ دکھ ہر کسی پر اترتا ہے
سب پر باری باری۔۔پہلے آپ پر ۔۔پھر مجھ پر۔۔اس کے بعد آئندہ نسلوں پر اترے گا۔۔
ہوسکتا ہے میرا درد صرف مجھ تک رہے۔۔
ہوسکتا ہے ابو کہ میں زندگی میں صرف انہیں کاموں تک محدود رہوں۔۔ہوسکتا ہے کہ تنہائی کا سفر لمبا ہو۔۔مگر فی الحال تو بس یہی کہنا ہے کہ میں پاکستان آپکے لئے آئی ہوں
آپکی یادوں کے لئے آئی ہوں
اس گھر میں گزارے ہوئے لمحوں کو محسوس کرنے آئی ہوں
اور میں جب تک یہاں رہوں گی۔ہر رات آپ کے ساتھ مووی دیکھنے کی خواہش کروں گی۔۔
سونےکے لئے جاتے وقت آپ کے سر کا بوسہ لوں گی
آپ کو شب بخیر کہوں گی
اور آپ کی ہدایتوں کی ہامی اپنے ساتھ لیکر
سوجائوں گی۔
پھر صبح ہوگی۔۔
پھر ہم ہونگے
پھر امی کا ناشتے کے وقت کا غصہ ہوگا
اسے یاد آیا وہ کتنا چیختی تھیں
بے زار ہوتی تھیں
وہ کیسے کھسک جاتی تھی کبھی بیچ ناشتے سے ہی تو کبھی باتوں کو کاٹ کر باپ کو بہلاکر نکل جاتی اور پیچھے جرح سے گزرنے کے لئے وہ اکیلے رہ جاتے۔
پھر جب رپورٹنگ سے خوار ہوکر وہ گھر لوٹتی تو وہ انہیں ایک اک بات نکتہ بہ نکتہ لفظ بہ لفظ بتانے کے لئے بے چین ہوتے تھے
اور اس کا بس نہیں چلتا کہ ہر ایک نکتے کی گنتی صاف گنے اور کچھ مسنگ ہو تو ٹوک دے مگر انکی زبانی پوری روداد سننے کا اپنا ایک مزا تھا جو کبھی کبھار تو اور بھی دلچسپ بن جاتا جب کوئی سنگین صورتحال جنم لیتی تو مانو ہنگامہ چڑھ جاتا
اور اس کے لئے کسی نئے رشتے کا آنا کسی ہنگامے سے کم بھی تو نہیں تھا
ماں کو فکر تھی کہ اچھی عمر میں بچی گھر کی ہوجائے۔
عمریں چڑھتی ہیں تو لڑکیاں زیادہ سیانی ہوجاتی ہیں
اور اگر لڑکی ضرورت سے زیادہ سیانی ہوگئی تو سمجھو زندگی میں قیامت نے آ لیا۔
آج سے چھ سال پہلے کی ہی تو بات تھی
وہ تو رپورٹنگ کے لئے عجلت میں نکلی تھی۔
آج تو کالمز بھی اسی نے ایڈٹ کرنے تھے۔
خبروں کی مزیدار سرخیاں بھی گھڑنی تھیں،
اور دو دن بعد آنے والے ہفت وار میگزین کو بھی آخری جھلک دیکھنا تھا
اور پھر جو جو غلطیاں وہ نکالتی تھی کہ اخبار کا مالک بھی سر تھام کر رہ جاتا کہ یہ میری نظر سے کیونکر چونکی۔۔تبھی ضرورت سے زیادہ زمہ داریاں اس نے خود بھی لے لیں تھیں
اور ڈالنے والے نے ڈال دی تھیں۔
ان کا کام ہورہا تھا۔
اور اسکی تسلی ہوجاتی تھی۔
بقول بھائی کے کہ وہ دگنا کام کرآتی ہے
بقول باپ کے کہ مجھے بس اسکی فکر ہے کہ یہ تھک بہت جاتی ہے۔
مگر جب وہ کام کے لئے بات کرتے ہوئے کہتی کہ
دگنے کام کے اگر دگنے پیسے نہ بھی ملیں تو دگنا تجربہ تو ملتا ہی ہے ۔تو اس بات سے کم از کم وہ تو مطمئن ہوبھی جاتے تھے۔
مطمئن نہ بھی ہوں تو لاجواب ہوتے تھے۔
کبھی کبھار وہ اسے کہتے تھے میں تو صرف تم سے لاجواب ہوجانے کے لئے پیدا ہوا ہوں جیسے
اور تم مجھے لاجواب کرنے کے لئے پیدا ہوئی ہو۔
باقی دنیا تمام گئی بھاڑ میں۔۔جس پر مقابل فریقین کی سخت گھوری ماحول کو یکدم ہی بدل دیتی تھی اس دن کی طرح جب وہ جلدی میں گھر سے نکلی تھی اور پیچھے ان بیچارے کی کلاس شروع ہوئی کہ ہائے وہ گئی کہاں؟آج تو میں نے اسے چھٹی کرنے کا کہا تھا۔
“وہیں جہاں ہر روز جاتی ہے!____
جو اس کا دفتر کم گھر زیادہ لگتا ہے”
زبیر نے تڑکا دیا تھا اور انہوں نے سر پہ ہاتھ دے دیا

“سن رہے ہیں کہ نہیں۔۔وہ نکل گئی ہے؟”انکے انجان پنے پر وہ مزید غصہ ہوتیں
“اچھا ۔۔۔ٹھیک ہے۔”۔وہ اخبار دیکھتے لاپرواہی برتتے
“خدا کا خوف کریں افتخار! آپ اسے روک نہیں سکتے۔”۔
“میں کیسے روک سکتا ہوں وہ جاب پر جاتی ہے ۔۔اور روز جاتی ہے۔۔”
“یعنی کہ حد ہوگئی افتخار۔۔بہت غلط کررہے ہیں آپ سمجھے
آج وہ لوگ آئیں گے کیا کہوں گی میں انہیں۔۔دوسری مرتبہ اس نے ایسا کیا ہے میرے ساتھ”_
وہ روہانسی ہوگئی تھیں
“وہ کون لوگ؟”بیوی کے سامنے انجان بننا کوئی ان سے سیکھتا
اخبار رکھیں تو بات کروں۔۔چڑگئیں
“اچھا رکھ دیا اب بولو۔”
“میری بات سنیں۔”۔
آدھی زندگی تو اسی میں گزاردی ہے
زبیر کی ہنسی چھوٹ جاتی اور وہ اسے گھرکتیں
“افتخار پلیز سیرییس!
“آج آپکی بیٹی کو دیکھنے کے لئے ایک فیملی آرہی ہے
انہیں کیا کہوں گی”
وہ پہلے کچھ غور سے چپ رہتے جیسے بات کی اہمیت پرکھ رہے ہیں
پھر سر جھٹک کر تسلی دیتے
“ہوسکتا ہے وہ تب تک آجائے۔۔”
“اگر نہ آئی تو”۔۔بے چارگی کا عروج ہوتا تھا
“تو کچھ نہیں”۔۔انہوں نے کندھے جھٹک دیے تھے
“تو میں انہیں کیا کہوں گی یہ تو بتائیں نہ۔۔”
“کیا کہوگی ۔۔۔۔۔کچھ مت کہنا
بول دینا اس کا ایک ضروری انٹرویو تھا!”
صاحب کے پاس ہر مسئلے کا حل تھا
“حد ہوگئی انہیں سن کر کیسا لگے گا ؟”
“یقینا”اچھا لگے گا۔”۔مسکراہٹ دو ہونٹوں کے درمیان دبانے کی چیز تھی۔
“افتخار…!”
۔۔وہ رونے والی ہوگئیں۔۔

“دیکھو اگر انہیں اچھا نہیں لگا ناں تو ہم انہیں اچھے طریقے سے بتادیں گے کہ دیکھیں وہ جاب کرتی ہے تو جاب کے سلسلے میں باہر گئی ہے”
“شام تک بھی جاب چلتی ہے کیا افتخار۔۔؟”
“آپکو کیسے پتہ کہ آج اسے شام ہوجانی ہے؟”
“یہ ہوئی نہ بات۔۔یعنی کہ وہ آپکو بتاکر گئی ہے کہ شام کے بعد آئے گی۔۔ہے نہ؟”
پکڑ لئے جاتے تو کھسیانے ہوجاتے تھے
“دیکھو۔۔اب
۔میگزین کا بھی کام آج تھا تو ایسا تو ہونا تھا ناں”

“سارے کام یہ بتائیں آج ہونے تھے ؟”وہ افسوس سے بھی آگے چلی جاتی تھیں
“میں کچھ نہیں کہہ سکتا دیکھو۔۔جو کام جس دن ہونا ہوتا ہے ہوکر رہتا ہے
اور تم بھی فکر مت کرو دیکھو پلیز۔۔ جب اس کا رشتہ طے ہونا ہوا، ہوجائے گا”۔وہ تسلی سے جیسے بات مکمل کربیٹھے تھے
“آپ اسے کبھی سدھرنے نہیں دیں گے افتخار۔۔
اب خدا جانے آج شام کیا ہوگا۔۔”
“دیکھو تم اپنے حصے کا کام کرو
باقی جو ہونا ہوگا وہ ہوجائے گا”۔ان کے درمیان یہی حل تھا۔
وہ پیر پٹختی ہوئیں چلی گئیں.
وہ اخبار پھینک کر ٹی وی آن کرکے بیٹھ گئے مزے سے۔۔
زبیر بھی اٹھ گیا
اور وہ دو چار منٹ بعد پھر آگئیں
“افتخار۔۔بات سنیں۔۔
وہ بے بسی سے دیکھتے اور وہ لاپرواہی سے کہتیں
مجھے بیکنگ پائوڈر چاھئے.”
“تو میں کیا کروں؟”
“چاہیئے کا مطلب ہے کہ لے آئیں”۔لہجہ تلخ ہوجاتا
“میں کیوں لے آوں۔۔ارے واہ۔۔”کندھے اچکاتے
‘تو کیا میں جاوں؟”سر پہ کھڑی ہوکر کہتیں
“ہاں تو جاؤ”۔۔وہی انداز
“صرف بیکنگ پاوڈر خریدنے کے لئے میں جاوں؟”
“ہاں جاسکتی ہو میری طرف سے تم پر کوئی پابندی نہیں ہے یقین کرو۔۔بیکنگ پاوڈر لینے کے بہانے تھیلا بھر کر لاؤ۔میں نے تو کبھی تم سے حساب نہیں مانگا”
وہ بے بسی سے دیکھتی تھیں۔۔
“شاباش ہے افتخار۔۔آپ کا مطلب ہے میں ایک بیکنگ سوڈہ کے بہانے تھیلے بھر بھر کر لاتی ہوں؟”
“اچھ۔۔چھا
۔یعنی کہ تھیلا ہی نہیں تھیلے؟اففف میں تو واقعی آپ سے کوئی حساب نہیں لیتا”
اور چڑکر بگولہ ہوجاتیں
“بات مت کرئیے گا مجھ سے اب”
“نہیں کروں گا ٹھیک ہے۔۔”
“سوچ لیں اور اور پکا طے کرلیں۔”۔
“سوچ لیا۔”۔اسی میں عافیت ہے
“ٹھیک ہے تو پھر میں جارہی ہوں۔”۔
“کدھر؟سوڈہ لینے؟”
“نہیں بھاڑ میں۔”۔
شوق سے جاؤ۔۔کہتے ہوئے جب انکی طرف دیکھتے تو بے بس سے ہوجاتے
اچھا ناں۔۔اب اس میں رونے کی کیا بات ہے؟
آنکھیں آنسووں سے بھرجاتیں تو وہ نرم ہوجاتے
ارے یار مزاق کررہا تھا
یہ مزاق تھا؟آپ نے کہا کہ بھاڑجائوں میں۔۔
دیکھو اب وہ تو تم نے خود کہا تھا یار۔۔میں نے تو بس تائید کی تھی۔ہر بات تو مانتا ہوں تمہاری
بہت اچھی مانتے ہیں۔۔ایک بیکنگ سوڈہ تک نہیں لاسکتے۔۔
ارے واہ یہ کیا بات ہوئی ۔۔ابھی لاتا ہوں۔۔تم۔کہو تو بیکنگ سوڈہ کے بہانے چاف مزید چیزیں لادوں۔۔
جی نہیں صرف وہی لائیں جو کہا ہے
یعنی کہ بیکنگ سوڈہ؟وہ پھر موڈ میں تھے
نہیں زہر کا سوڈہ؟
ارے واہ بیٹی کے لئے رشتہ لانے والوں کو زہر کھلائیں گی؟
نہیں خود کھائوں گی تاکہ جان چھوٹے ۔۔
یہ تم نے پہلے کبھی کیوں نہیں سوچا؟اتنا اچھا آئیڈیا ہے
اچھا؟یعنی کہ زہر کھالوں؟
نہیں نہیں۔۔میں تو بس سجیشن دے رہا تھا کوئی لاگو تھوڑاہی کررہا ہوں۔۔۔
اچھا غصہ مت کرو۔۔یہ بتائو صرف سوڈہ چاہئے؟
نہیں۔۔میدہ بھی لائیے گا اور کوکو پائوڈر بھی۔۔
اور بھی کچھ ہوگا؟مسکراہٹ امڈ آئی
جو جو کچھ کیک بنانے کے لئے ڈلتا ہے وہ لے آئیں
کیک ہی نہ لے آئوں اس جھنجھٹ سے بچنے کے لئے؟
نہیں کیک انہیں اپنے ہاتھ کا بنا کھلائوں گی تو متاثر ہونگے
واہ رشتہ بیٹی کا لارہے ہیں یا آپکا؟بے ساختہ چھوٹ جاتا
وہ پھر گھوری ڈالتیں
افتخار آپکو اچھا لگے گا کوئی میرا رشتہ لیکر آئے گا؟
وہ نفی میں سر جھٹکتے۔۔میں تو اس کا خون کردوں گا اگر کوئی میری زندگی میں تمہارا رشتہ لایا تو
پلیز افتخار ایسی باتیں نہ کریں۔۔بس جائیں اب لائیں جو کچھ چاہئے۔۔
وہ دروازے سے پھرپلٹے
سنیں بیگم۔۔
اب کیا ہوا؟
اگر انہیں تمہارا بنایا ہوا کیک پسند نہ آیا تو ہم کیا کریں گے؟
تو پھر میں کیک ان کے منہ پہ دے ماروں گی۔۔
ایکسیلینٹ اسی ہمت کی توقع تھی تم سے مجھے
کہتے ہوئے مسکراتے چلے گئے
انہوں نے ہونٹ کاٹے
کبھی موقع نہ جانے دیجئے گا دل جلانے کا
وہ مسکراکر نکلے اور سارا ہی کچھ ریڈی میٹ لے آئے جس پر وہ سر پیٹتی رہ گئیں کہ دیکھو ہاتھ سے بنا ہوا کیک یہ کہہ کر پیش کرتی کہ بیٹی نے بنایا ہے تو متاثر ہوجاتے
اور وہ اس لطیفے پر ہنس دئیے کہ شام تک گھر میں بیٹی کا کوئی نام و نشان نہیں اور کیک گھر میں رک کر بیٹی نے بنایا ہے والا جھوٹ ننگے پائوں پکڑاجاتا
اور پھر ہوا بھی یہی کہ وہ مغرب تک رکے رہے
اور اس رات عالین کی واپسی رات دس سے پہلے نہ ہوئی تھی
آٹھ بجے تک لوگ چلے گئے۔۔اور جس طرح سے گئے تھے بیگم کو فکر تھی کہ انکار ہی متوقع ہے
اور ان کے سر سے فکر اتری کہ چلو جان چھوٹی یہ بونگا سا لڑکا کم از کم عالین کو تو زرا نہیں اچھا لگتا
اچھا تھا کہ سامنا نہ ہوا ورنہ وہ منہ سے کچھ نہ بھی کہتی تو تاثرات سے کہنا اولین فرض سمجھتی اور پھر ہوتا وہی جس کا ڈر ہوتایعنی کہ ماں کی سخت خفگی تو فی الحال وہ یہ سب ٹلتا دیکھ کر اطمینان میں آئے
زبیر نے بچی کھچی چیزیں مزے سے کھاکر ختم کرلیں
ماں کو اس بات کا غصہ تھا کہ رات دس بجے لوٹنے کے بعد عالین کا سب سے پہلاجملہ یہ تھا کہ شکر ہے وہ لوگ چلے گئے
دوسرا یہ تھا کہ کیا کچھ کھانے کے لئے بچا ہے؟جس پر ماں کی سخت گھوری تھی
زبیر کی مسکراہٹ تھی جسے وہ ایک مکا جڑکر ابا کے کنارے آ لگی کہ کارووائی سننے کو ملے
اور رات کا کھانا دونوں باپ بیٹی اس خوشی میں کھانے کے لئے باہر چلے گئے کہ بلا ٹلی
اور وہ دل کڑا کرکے ساتھ چلنے سے انکار کرکے گھر بیٹھ کر زبیر پر اپنا غصہ اتارنے لگیں تھیں
مگر وہ کھانا لیکر گھر آئے تھے
اور اس خوشی میں قہقہے لگالگا کر ڈنر نوش فرمایا تھا
انکا تو اتنا دل برا ہوا کہ قسم کھا بیٹھیں کہ اب نہ رشتے والی کو کچھ بولوں گی اور نہ ہی رشتے کا سوچوں گی۔۔
خود ہی بھگتنا باپ بیٹی مل کر تب احساس ہوگا جب عمر نکلی جاتی ہوگی
دھمکاکر کمرے میں چلی گئیں
یہ آئس کریم تو مکمل کرجائو بیگم۔۔ان پر جیسے کچھ اثر نہ تھا
یا پھر لینا نہیں چاہ رہے تھے
بھاڑ میں جائے یہ آئس کریم۔۔
زبیر ہنسا۔۔اصل میں امی نے غصے میں کھانا زیادہ کھالیا ہے ابو۔۔اب آئس کریم کی جگہ کہاں بچے گی
وہ گھورنے کے لئے سیڑھیوں کے درمیان بھی رک جاتی تھیں
اور انکی نظر کی گھوری دور تک سفر کرتی تھی
تمہاری نیت تو میں سمجھتی ہوں بچو۔۔عالین نے اسکے سامنے سے پیالہ اٹھالیا اور دونوں باپ بیٹی مووی دیکھنے کے لئے ڈرائنگ روم میں چلے گئے
اور پھر وہ وقت بڑی دھن میں بیتتا

مگر اس وقت وہ کیا کرتی کہ جب رات کا دوسرا پہر شروع ہوگیا تھا اور گھر میں اس وقت سوائے اس ایک کے کوئی نہیں تھا۔۔ملازم تو جلدہی چلے گئے تھے۔۔اور آنٹی پڑوسن کے ساتھ اس نے ڈنر کیا۔۔اور وہ رات بارہ بجے اسے شب بخیر کہہ کر کئی ہدایات دے کر اپنے گھر چلی گئیں۔
انہوں نے یہ بھی تاکید کی کہ کسی بھی وقت ضرورت پڑے تو بلالینا
حالانکہ اسے پتہ تھا کہ وہ نیند کی گولی لیکر سوتی ہیں
اور اگر وہ آج نہ بھی لیں تو پڑوسی انکل کی جھک جھک کون سنے گا
بیٹا الگ۔۔بیٹی میڈیکل کی اسٹوڈنٹ پڑھ پڑھاکہ سوجاتی ہے
یہ دو بڈھے ہی رات گئے تک ساتھ ہوتے ہیں
اسی لئے اس نے نہ رکنے کا اسرار کیا نہ انہوں نے رکنے کا ہی کہا۔۔البتہ وہ جاتے ہوئے شرمندہ ضرور تھیں کہ ایک جوان لڑکی کو اکیلے گھر میں چھوڑکر جانا پڑرہا ہے
انکی ہدایت کی تسلی کے لئے اس نے گیٹ مقفل کیا پہلی بار زندگی میں اس نے اندر سے بیرونی گیٹ مقفل کیا تھا
ورنہ تالے عمومہ” دروازوں کے بیرونی حصوں پر سجتے تھے۔
ڈرائنگ روم میں انکے پسند کی مووی لگاکر وہ لیٹ گئی
اور صوفے پر آڑھی ترچھی لیٹے کب نیند نے اس کے سر کا بوسہ لیا۔۔۔
کب اسے شب بخیر کہا۔۔
اور کب نیند کو پکڑ کر خواب جھولتا ہوا اسکی آنکھوں کی کھڑکیوں میں جھانکنے لگا۔
اسے اندازہ نہ ہوا۔
وقت اپنی مقررہ رفتار سے چلتا رہا۔۔۔
ٹی وی پر انگریزی مووی ختم ہوکہ بلیک پرنٹ آگیا۔
بجلی نے دو جھٹکے مارے
ٹیلی وژن کی لال بتی جل کر بجھ گئی،
ریموٹ لڑھک گیا!
اے سی آف ہوگیا۔
پنکھا اپنی زنگ آلود زر زر کی آواز سے چلنے لگا۔۔
اسکی پیشانی پر جولائی کے گرم درجہ ہرارت جس میں رات کے وقت کبھی معتدل ہونے کے باوجود بھی پسینہ قطروں کی صورت چمکنے لگا تھا۔
اس نے نیند میں اپنے اوپر سے چادر تو ہٹادی تھی
یہاں تک کہ سکڑ کہ سوئی ہوئی تھی،یہاں تک نیند میں بھی ڈرنے کا خیال دو مرتبہ جھانکی مارنے لگا بھی تھا

مگر نیند کی گہرائی پر خواب کا تسلط تھا جو دوبارہ ادھورا ہوکر ٹوٹنا نہیں چاہتا تھا۔

اس خواب نے دوبارہ اسکے شعور کی روح کی رسی کھینچی اور اپنی طرف متوجہ کیا تھا
خواب مسکرایا کہ نیند لوٹ آئی ہے
مگر خواب جب کھلتا تھا تو اس کے اندر رنگوں۔۔ماضی کی یادوں۔۔سفید کھڑکیوں سے گزرتی ہوئی روشنیوں کی لکیر جو دھویں کی شکل اختیار کرجاتی تھی
اور گھوم پھر کر سورج کی طرف لوٹتی ہوگی۔۔یہ اس نے کبھی سوچا تھا کہ سورج کی روشنی پلٹ کر سورج کو واپس جاتی ہے یا پھر زمین میں کہیں دم توڑدیتی ہے
اور پھر روشنی کی چنگاریاں اسے ننھے قطروں کی طرح نظر آتی تھیں
اور چندھیائی ہوئی نظر سے سورج سے ٹکر کھانے کے سبب روشنی کی ذیادتی اندھیروں کو جنماتی تو وہ ہنس دیتی تھی
ابو پوچھتے کہ کیاہوا
وہ کہتی کہ سورج نے چوٹ دی
وہ کہتے تم نے سورج کو کیوں دیکھا۔۔سورج کو برا لگتا ہے اگر کوئی اسے گھورنے کی کوشش کرے تو وہ اندھا کردیتا ہے
سورج روشنی بانٹتا ہے مگر نظریں ملانا اسے برا لگتا ہے
وہ دینا چاہتا ہے اور دینا جانتا ہے
مگر شرارت کو نا پسند کرتا ہے
اور انکی ماں ناگواری سے دونوں کی گفتگو کو سنتے ہوئے دیکھتی تھیں اور سر جھٹک دیتی تھیں
اور وہ انکے تاثرات پر ہنسنے کی ہمت نہ بھی رکھتے تو مسکرادیتے تھے
اور یہ کبھی انکے دن کا آغاز ہوتا تھا تو کبھی اسی طرح کا کوئی اختتام
سورج کی پہلی کرنیں ہمیشہ سے زندگی بانٹنے کو ایک ہی جست میں پھینکتی تھیں
کبھی ایک خطہ۔۔تو کبھی دوسرا۔۔
سورج کا گولہ گھومتا رہتا تھا
اور دنیا کی گول پٹی پر دن رات پہلو بدلتے جاتے تھے
موسموں کا ہر طرف ایک الگ رویہ تھا
بس اوقات الگ تھے
ورنہ سورج کا سب کے ساتھ ایک ہی برتائو تھا دوستانہ۔
*******

اگر میں موت کے نام ایک محبت نامہ لکھوں تو؟
******
سبزے بھری گھاس کے اوپر وہ سفید پہران میں ملبوس اٹھارہ سالہ لڑکا تھا جو سبز آنکھوں کو جنبش دیکر کچھ دیکھ رہا تھا
اس کے چہرے پر شیو بڑھ گئی تھی
پہلی بار اس کی مکمل شیو آئی تھی
مکمل داڑھی کا شیپ تھا
مگر باوجود اس کے چہرے پر معصومیت تھی
اور آنکھوں کا سبز رنگ بہت خوبصورت لگتا تھا کبھی کبھار اس سبز رنگ میں گرے کی آمیزش جھلکتی تھی تو کبھی پیور سبز تارے سفیدے پر چھائے رہتے
خصوصہ” جب سورج کی شعاعیں پڑتیں تو اس کی آنکھوں کے رنگ جگمگاتے تھے
اور وہ سر جھکالیتا تھا
اس نے کبھی سورج سے نظر ملانے کا سوچا بھی نہ تھا۔
وہ تو زمین کی سرحدوں میں سکھ کا متلاشی تھا
ایک ایسا متلاشی۔۔جس کے پاس بہت پرسکون ایریا میں ایک اچھا گھر تھا
جس کا باپ بہت پیسے والا تھا
ماں ویل اسٹیبلشڈ فیملی سے تعلق رکھتی تھی
حسین تھی اور چوالیس پینتالیس کی عمر میں ایک دم ینگ اور خوبصورت لگتی تھی
اس کا باپ پچاس کے لگ بھگ ایک معتبر شخصیت کا حامل تھا
ان کے پاس آفیسر طبقہ اور بیوروکریٹس کی فیملیز آتی جاتی تھیں۔۔
وہ اپنے شہر سے باہر مہنگے اسکول سے پڑھا تھا
اس کا کالج بہترین تھا جہاں کے بچے ہمیشہ پوزیشن ہولڈر رہے تھے
وہ بھی پوزیشن ہولڈر بچہ تھا
وہ دل لگاکر پڑھتا تھا
اور ان دنوں سی اے کے پہلے امتحان کی تیاری کررہا تھا
اسے پتہ تھا یہ سمیسٹر بہت مشکل ہے
اسے پتہ تھا کہ اسے مزید توجہ دینی ہے
مگر یکایک کیا ہوا کہ اسکی دلچسپی ہر ایک چیز سے اٹھ رہی تھی
وہ پچھلے دو سال سے گھر آکر پچھتایا تھا
اس نے ان دو ڈھائی سالوں میں ماں باپ کے درمیان وہ تلخیاں وہ دوریاں ۔۔وہ سختیاں محسوس کی تھیں
جو اسکول کے دور میں دور رہتے ہوئے بہت کم کرسکا تھا بلکہ نہ ہونے کے برابر۔۔وہ چھٹیوں میں جب بھی آتا تھا خوش رہتا تھا
گوکہ بہت زیادہ خوش نہ سہی۔۔مگر مطمئن رہتا تھا
اسکی ماں کو حیرت تھی کہ وہ عام بچوں کی طرح بہت ضد کیوں نہیں کرتا کسی چیز کے لئے
بہت زیادہ بولتا بھی نہیں۔۔بہت نارمل مگر ضرورت کے تحت بولتا تھا البتہ مدھم مسکراتا بھی کم تھا
عمومہ” وہ چپ رہتا تھا
اسے جہاں لے جائو چلا جائے گا
جہاں سے شاپنگ کروائو کرلے گا
جو کھلائو کھالے گا
نہ کھانے میں ضد۔۔نہ کچھ لینے میں ضد۔
جب پیدا ہوا تو روتا بھی بہت کم تھا بلکہ نہ ہونے کے برابر رہتا تھا۔۔اسکی ماں نے کئی بار ڈاکٹر سے معلوم کیا مگر ڈاکٹر اسے ایک نارمل بے بی کہتے تھے
اور پھر اس کی ماں کو بھی تسلی ہوگئی کہ چلو اچھا ہے یہ تنگ کرنے والا بچہ نہیں ہے
دو تین سال کا تھا تو آیا کے حوالے کردیا گیا یکدم ہی اسکی ماں کو احساد ہوا کہ وہ ضرورت سے ذیادہ حساس ہورہی ہے بچے کے لئے۔۔فگر بگڑ رہا ہےوزن تیزی سے بڑھا ہے
شیپ بگڑ رہا ہے
کہیں سے چوبیس پچیس سالہ لڑکی نہیں لگ رہی تیس کے اوپر لگنے لگی ہے
فورا” وہ اپنی ٹون میں آئیں۔۔اور اپنا خیال رکھنے لگیں
اور بچہ آیا کی گود میں پلنے لگا۔۔وہ دیکھ لیتیں
۔پیار کرلیتیں گود میں لیکر اپنے پاس بھی رکھتیں کچھ دیر مگر کبھی کبھار تو پورا پورا دن ہوجاتا وہ ماں کو دیکھ نہیں پاتا۔۔اور تب اسے اتنا اندازہ نہیں تھا کہ یہ کچھ غلط ہے
اس کے سرکل میں یہی سب ہوتا تھا
مگر وہ پانچ چھ سال کا ہوگا کہ ماں کو مس کرتا تھا
ماں کے ساتھ سونا چاہتا تھا
بلکہ ماں باپ دونوں کے ساتھ ۔۔اس نے اپنے سرونٹ کواٹر میں ملازم کے بچے کو ماں باپ کے درمیان سوتا ہوا دیکھا تھا
اور یکلخت ہی اسکے دل میں بھی یہ خواہش ابھری تھی کہ وہ ایسے سوئے کہ ایک طرف امی ہو تو دوسری جانب پاپا۔۔
وہ ایک روز جاکر انکے کمرے میں ایسے سوگیا تھا پورے بیچ میں ۔۔اور اسکے ماں باپ کچھ حیران بھی ہوئے تھے
باپ نے اسے لپٹا لیا تھا
مگر ماں کو یکدم ہی احساس ہوا کہ اگر وہ روز ایسے سونے لگا تو اسکی عادتیں بگڑجائیں گی
اگلی رات وہ خود اسے اپنے بستر سے اٹھاکر آیا کے پاس کمرے میں چھوڑآئیں تھیں
اسکے کمرے کے اکلوتے بیڈ پر وہ سوتا تھا
صوفے پر آیا سوتی تھیں
اور اس روز کے بعد اس کی پھر وہ ہمت نہ ہوئی کہ زبردستی جاگھسے۔۔ماں باپ کے بستر میں۔۔
اس کے بعد پھر اسکی دادی آئیں تھیں جب وہ سات آٹھ سال کا ہوگا
اور انہوں نے اس کا سر اپنی گود میں رکھ کر اسکے بال سنوارے تھے
اسے یہ احساس بہت اچھا لگا تھا
انہوں نے اسے اپنے بازو پر بھی لیٹایا تھا
وہ اسے بہت ساری کہانیاں بھی سنانے لگیں تھیں
اسی دوران اسے دادی سے عجیب انس ہوگیا تھا
اور یہ سب محسوس کرکے اسکی ماں بہت چیخی چلائی تھی کہ اس عورت کو کہو کہ اپنے گھر جائے۔۔یہ میرے بیٹے کو بگاڑنے آئی ہے
احتجاج تو اسکے باپ نے بھی نہیں کیا بلکہ ڈرائیور کو کہا کہ گاڑی نکالے۔۔آیا کو کہا کہ ماں جی کو کہو کہ تیار ہوجائیں۔۔
کچھ تو انہیں بھی ماں کی لایعنی تقریروں اور نصیحتوں سے چڑ تھی بارہا وہ کہتے کہتے رہ جاتے کہ اسی وجہ سے تو ہم آج الگ الگ رہ رہے ہیں۔۔
ماں جی آپکی یہی باتیں تو مجھے زہر لگتی ہیں
یہی سب تو مجھ سے برداشت نہیں ہوتا تھا
اور آپ نے نہیں سمجھا۔۔آپ اب تک نہیں بدلیں۔۔
ماں اس دن بیٹے کے گھر سے مایوس ہوکر گئی تھیں۔۔
اس کے بعد وہ جلد بورڈنگ چلا گیا۔۔
اور اسکی دادی ایک مرتبہ چھٹیوں میں بس چند گھنٹوں کے لئے آئیں تھیں
کچھ دیر اپنے بیٹے کو دیکھنے لگیں
انکے سامنے کھانے کی کئی چیزیں رکھی تھیں مگر انہوں نے ایک بھی اٹھاکر چکھی تک نہ تھی
وہ کچھ دیر رکیں
بہو کو شکوے بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے بھی معافی مانگی کہ کوئی کوتاہی ہو تو معاف کردینا
ہوسکتا ہے اس کے بعد میں کبھی یہاں آ نہ سکوں۔۔
وہ بھی ان دنوں آیا ہوا تھا
دادی نے اسے خود سے تب بھی لپٹالیا تھا
ڈھیروں پیار کیا تھا
ڈھیروں دعائیں دی تھیں۔۔اور مگر اس کے چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے وہ خوف زدہ سی محسوس ہوئیں تھیں
پھر پلٹ کر بیٹے کو کہا کہ ہاشم الدین۔۔ مستقیم کا صدقہ دیا کرو۔۔تم چاہے مانو یا مانو ۔۔مگر
صدقہ عمر بڑھاتا ہے
اسکی ماں چونکی تھی ساس کی بات پر۔۔باپ بھی چونکا تھا
دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔۔اور پھر یکلخت ہی اپنے اپنے سر ایسے جھٹک دئیے جیسے یہ کوئی وہم ہو۔۔
وہ پوتے کو گاڑی تک ساتھ لے گئیں تھیں
اسے کچھ روپے دئیے اس کے ماں باپ سے چھپ کر اور کہا انہیں مکمل مت خرچنا۔۔ان میں سے ایک دو بچالینا۔۔تمہیں یاد رہے گا۔۔تمہاری دادی نے تمہیں اور کچھ نہیں دیا۔۔بس یہ چند روپے۔۔مگر حلال کے۔۔تم جب دیکھو گے تو تمہیں میری یاد آئے گی۔۔جب تم نوکری کرنا تو انہیں کھول کر ضرور دیکھنا۔۔ہوسکتا ہے یہ تب تک تمہارے پاس محفوظ رہیں۔۔یہ یاد رکھنا کہ یہ رقم حلال کی ہے۔۔
اس میں نہ تمہارے باپ کی کمائی ہے اور نہ ہی تمہارے دادا کے باجے کی کمائی ہے
یہ میری کمائی ہے۔۔حلال کی
۔میں دعا کرتی ہوں تم بھی حلال کمائوگے
اگر میں زندہ رہی تو تمہاری کمائی کا کھانا کھائوں گی۔۔۔تم جب مجھ سے ملنے آنا تو میرے لئے کھانے کی چیزیں لانا۔۔میں ضرور کھائوں گی۔۔
وہ اسے تسلی دے رہیں تھیں
تب تو یہ باتیں اسے سمجھ نہیں آئیں تھیں
۔اب بھی اس نے اتنا غور نہیں کیا تھا مگر اتنا ضرور تھا کہ اسکی دادی کے لہجے میں تاثیر بہت تھی
مٹھاس بہت تھی۔۔سکون تھا۔۔
وہ اسکے بعد ایک بار اپنے باپ کے ساتھ گیا بھی تھا جب انکی طبیعت خرابی کا پتہ چلا تھا
تب اسکی عمر تیرہ چودہ سال تھی۔۔اور اس کی ماں نے بہت اعتراض کیا تھا اسکے وہاں جانے پر۔۔
وہ کچھ نہ کہہ سکا۔۔
پھر سے اسکول۔۔پھر سے پڑھائی۔۔پھر سے افراطفری۔۔
پھر کالج۔۔پھر یونیورسٹی کی اتنی مشکل پڑھائی۔۔
اور یہ سی اے کا کورس جو اسکی جان جلارہا تھا یہ بھی اسکے باپ کی چوائس تھی۔
جس سے وہ یکدم ہی اکتانے لگا تھا
نہ صرف کورس سے۔۔بلکہ۔۔سب سے
۔گھر سے۔۔ گھر کے مختصرگھر والوں سے۔۔انکے رویوں سے۔۔انکی لڑائیوں سے۔۔اختلافات سے۔۔اور اجنبیت جس کا وہ عادی تھا مگر اب اس کا یکدم ہی دل اٹھنے لگا تھا۔۔یہاں تک کہ اتنی چھوٹی سی عمر میں زندگی سے۔۔
اسے خود اپنی اس بدلتی کیفیت پر بہت افسوس تھا
مگر یہی سچ تھا۔۔وہ کسے کہتا۔۔
وہ کس کو بتاتا۔۔اپنے بیوروکریٹ باپ کو۔۔یا پھر اسٹائلش پڑھی لکھی خود سر ماں کو ۔۔وہ کس کو کہتا۔۔اگر کہتا تو سمجھایا جاتا
۔ٹوکا جاتا۔۔مگر سمجھا ہرگز نہیں جاتا۔۔اس لئے بیکار تھا کہ کچھ کہتا۔۔مگر یکدم ہی اس کے ذہن میں خیال آیا کہ وہ کچھ لکھے۔۔جو کچھ وہ سوچ رہا ہے۔۔تبھی دوپہر جب کچھ ٹھنڈی ہوکر شام میں بدلی۔۔اور شام کے سائے پھیلے تو وہ اپنے گھر کے لان میں سبزگھاس پر بیٹھ گیا
کاغذ اپنے ہاتھ میں لئے ہوئے اور وہ موت کے نام پر ایک محبت نامہ لکھنے لگا تھا
جب اسکی ماں اندر کمرے سے نکلی تھی
اسے اندازہ نہیں ہوا تھا کہ آج بھی اسکے ممی بابا کی بحث ہوئی ہے
اسے اندازہ ہونا تھا جب اس نے اندر جانا تھا
اور ان سے بات چیت کی کوشش کرنی تھی
تو اسے اندازہ ہونا تھا کہ پھر سے گھر کا چین اڑنے والا ہے
اپنے ماں باپ کی اس مسلسل سرد و گرم جنگ سے وہ تھک چکا تھا
پہلے ہی اسے اندازہ تھا کہ اسکی عمر تھوڑی ہے
اور اسے اپنے اس خیال پر بھرپور یقین بھی تھا
پھر اس کے پاس جینے کے لئے بہت کم وجوہات تھیں
پہلی یہ کہ ایک دوسرے سے سخت نفرت کرنے کے باوجود بھی وہ دونوں اس سے تھوڑی بہت محبت رکھتے تھے بہرحال وہ انکی اکلوتی اولاد تھا
اس لئے اس نے کبھی دادا دادی کے پاس جاکر رہنے کا چاہتے ہوئے بھی نہیں سوچا تھا
کیونکہ اسے پتہ تھا اگر وہ نہ رہا تو وہ دونوں ایک جگہ پر نہیں رہیں گے
گھر کے افراد نہیں ہونگے تو گھر گھر نہیں رہے گا
صرف مکان بن کر رہ جائے گا۔
وہ مکان۔۔جسے نہ جنت سے تشبیہہ دی جاسکتی ہے اور نہ ہی جہنم کا استعارہ کہا جاسکتا ہے
جہنم کے خیال کو اگر چولہے میں بھی جھونکا جائے مگر جنت کا استعارہ کون چھوڑتا ۔۔مگر اسے تو فقط گھر کی چاہ تھی
ایک مضبوط گھر۔۔ایک۔اچھا گھر۔۔
ایک۔صحت مند گھر۔۔جس کے رہنے والے کم۔سہی مگر ایک۔دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہوں۔۔
اس نے سوچا شاید میاں بیوی کے اختلاف اس کے خاندان میں موروثی ہیں۔۔
اس کے دادا اور دادی کے نظریات الگ تھے
سوچیں الگ تھیں۔۔
باتیں الگ تھیں۔۔دونوں لگتا تھا کہ الگ الگ زندگیاں گزاررہے ہیں
دونوں نے ایک دوسرے سے کٹ کر زندگی گزاری تھی
مگر چلو وہ تو سمجھوتے کی شادی ہوگی۔۔
مگر یہ تو پسند کی شادی تھی
اس پسندیدگی کے قصے تو خود اس کے ابو کے دوست اسے سناتے تھے۔۔
مگر پھرکیا ہوا کہ یہ شخص دوستوں سے تو بہت اکھڑا۔۔ہر کوئی انہیں لالچی لگتا تھا
ہر کوئی مطلبی۔۔انہیں لگتا تھا دوست ان سے مدد مانگنے آتے ہیں
انہیں لگتا تھا کہ ہر کوئی ان سے کچھ نہ کچھ لینے ہی آتا ہے
یہاں تک کہ ماں بھی۔۔اور وہ اپنے بیٹے کو اپنی ماں سے بہت دور دور رکھنے کی کوشش کرتے تھے
ایسا کیوں تھا۔۔۔اپنی اولاد پر انہیں یقین کیوں نہ تھا ۔۔۔۔کوئی تو کھوٹ تھا ہی۔۔مگر رشتوں میں بھی کھوٹ ہو تو کیا رہ جاتا ہے جینے کے لئے
اس کے تو دوست بھی کم تھے
جو ایک دو تھے وہ بھی سخت باتونی۔۔وہ سب کی سن لیتا تھا
سب کا اچھا دوست تھا
بس اپنی نہ کبھی اس نے کہی اور نہ کسی نے سنی۔
اور نہ ہی ماں باپ میں سے ہی کوئی اس کے لئے اچھا دوست بن سکا۔۔
اور پھر اس نے سوچا کہ شاید اس کے لئے زندگی میں کچھ بھی نہیں ہے
تب ہی تو دادی خوف زدہ تھیں۔۔
تب ہی تو اس کی کسی سے لگی نہیں۔۔اور تب ہی تو اسے خواب آتے تھے۔۔موت کے خواب۔
یہ واحد کیفیت تھی جو ایک عرصے سے اس کے ساتھ چل رہی تھی
اور اتنی پختہ ہوگئی تھی کہ اسے اب اس کیفیت کا یقین ہوچلا تھا
وہ نیند سے کئی بار ہڑبڑاکر بیدار ہوا تھا
کئی بار ایسا ہوا تھا کہ وہ ڈرا ہو وہ پسینے میں شل ہو اور اسے اپنی موت کا یقین ہوگیا ہو۔۔
وہ ایک بار چاہتا تھا کہ ممی ڈیڈی اس کے لئے روئیں۔۔پگھلیں۔۔بے بس ہوجائیں۔۔اسے پکاریں۔۔اس کی قدر کرنا چاہیں۔۔
مگر تب شاید۔۔۔تب شاید ۔۔کچھ غلط ہوچکا ہو۔۔
تب شاید ایسا ممکن نہ ہو اور ۔۔۔۔۔۔اور۔۔۔وہ بہت دور جاچکا ہو۔۔۔
یہ خیالات اسے اکثر آتے تھے
اور ان خیالات نے اس کا چین اڑایا ہوا تھا۔
یہ خیال جس قدر زیادتی پکڑرہا تھا اتنا ہی گہرا ہورہا تھا۔۔اور سب سے بڑی اور بری بات یہ تھی کہ اس خیال کی اب تک کوئی نفی نہیں ہوئی تھی
اور وہ حقیقت میں بدلنے جائے گا مستقیم کے اندر یہ سارے گمان جڑپکڑگئے تھے
وہ جیسے اندھیرے سے گزرنے کی تیاری کررہا تھا
اور اسی شام پہلی مرتبہ اس کی ماں نے اسے اپنے کمرے میں کچھ ضروری اور ارجنٹ باتیں کرنے کے لئے بلایا تھا
اور اس کے خیال کو مزید تقویت ملی تھی
یہ کالے اندھیرے کی خبر تھی

*******

میں تمہاری تلاش میں نکلی ہوئی ایک تنہا مسافر ہوں
********

مجھے تمہاری زندگی سے نکال دیا گیا تھا
تم نے کہا تھا ہم آخری کنارے کے پاس ملیں گے۔۔
اور وہ آخری کنارہ شاید زوال کا کنارہ ہوگا۔
برسات کی بوندوں کی ٹپ ٹپ نے پورے خاموش ماحول کو توڑا ہوا تھا
مجدد ثانی اسے اپنے دوست طارق حسینی کے پاس لیکر آیا تھا
طارق حسینی اپنی فیملی کے ساتھ مقیم تھا
اس کی بیوی تھوڑی باتونی تھی اور اس کی چند گھنٹوں کے لئے باتیں بھی نہ قابل برداشت تھیں
وہ اپنے بچوں کے قصے سناتی تھی پھر بچوں کے قصوں سے لیکر ساس سسر کی بے قاعدگیوں اور اور نندوں کی لاپرواہیوں پر بھی ختم نہیں ہوتیں
باتیں کہاں سے شروع ہوکر کہاں پر ختم ہوتی تھیں
اس نے سوچا وہ اگر طارق کی جگہ ہوتی تو ایسی بیوی کو ایک رات سے زیادہ برداشت نہ کرپاتی۔۔رہ رہ کر اسے مجدد ثانی پر حصہ چڑھ رہا تھا
جو اسے یہاں پھینک کر خود بیٹھک میں جان بچاکر چلا گیا تھا
اس کا جی چاہا جاکر اس سے ٹھیک ٹھاک جھگڑا کرے کہ مگر کس بلبوتے پر۔۔ایک رات کا مسافر دوست جس نے نہ صرف اسکی سنی
بلکہ اسے تسلی بھی دی
یہاں تک کہ ریل کے انتظار میں جب اچانک پلیٹ فارم کو برسار نے بھگویا
کلی مسافر خانوں میں دبکے پڑے تھے
تو وہ نہ مناسب ماحول کی وجہ سے اسے اپنے ساتھ قریبی علاقے کے رہائشی اپنے دوست طارق حسینی کے پاس لے آیا تھا کہ وہ اپنی فیملی کے ساتھ رہتا ہے
اپنے تئیں ایک محفوظ ماحول میں چھوڑا تھا
حالانکہ اسے فکر بھی تھی کہ ریل نکل جائے گی
مگر مجدد نے اسے یہ تسلی دی کہ جس کی سواری جب نکلنی ہوتی ہے
نکل جاتی ہے
ہم صبح سویرے وہاں سے نکل جائیں گے
اور میں تمہیں جام پور کی ٹرین میں بٹھا آئوں گا
یا پھر جام پور کے اڈے پر چھوڑ آئوں گا
کہوگی تو اس دروازے تک چلوں گا
جہاں تمہیں جانا ہے
اور اسے مکمل تسلی مل گئی تھی کہ وہ اکیلی نہیں ہے
حالانکہ گھر سے نکلتے ہوئے اسے ڈر تھا کہ اسے اندھیرے میں نکلنا پڑے گا
اسے اکیلے سفر کرنا پڑے گا
اس تلاش میں اکیلے نکلنا پڑے گا
مگر اسکی دادی نے کہا تھا کہ کبھی سفر میں ہی سفر کے ساتھی مل جاتے ہیں
جو عارضی طور پر سہی مگر حوصلہ بہت عرصے کے لئے دے جاتے ہیں
ہمیں سفر میں اچھے اور برے دونوں تجربات سے گزرنا پڑتا ہے
اور تجربات کے ڈر سے کبھی سفر منسوخ نہیں کرنا چاھئیے۔۔
وہ اسی سوچ کو لیکر نکل پڑی تھی
اور اسے مجدد مل گیا تھا پلیٹ فارم کی تنہائی میں جب اندھیرا اسے ڈرانے کی کوشش میں تھا تو ڈوبتے کو تنکے کا ہی نہیں کشتی کا جیسے سہارا ملا تھا
وہ کشتی جو اسے کہہ رہی تھی کہ کنارے تک چھوڑے گی
پھر اس کے بعد سفر اس کا اپنا ہوگا۔۔
پھر آگے اسے دیکھنا ہوگا۔۔
اور فی الحال تو وہ رات مشکل سے کاٹ رہی تھی
پھر سزا کے طور پر طارق کی بیوی معصومہ کو اس کے سر پر مسلط کردیا گیا تھا
وہ بولتے ہوئے ہی لڑھک گئی تھی نیند کے کنارے
اور اس نے شکر کا سانس لیا تھا
رات تمام ہونے کو تھی
فجر کی اذانیں نمازوں پر بلانے کے لئے دی جاتی تھیں
اور اسے فجر کی آسودگی اور تھمتی ہوئی برسات کی بوندیں جن کی آواز خاصی تھم چکی تھیں
اور برسات نے پورا ماحول بھگویا ہوا تھا
نمی اور ٹھنڈی ہوا کے جھونکے جو کھڑکی سے کراس کرکے سارے کمرے میں بکھر گئے تھے
کمرے کی فضا بڑی آسودہ ہورہی تھی
اور وہ گہری نیند کے ہلکورے لینے لگی تھی
نیند بعض دفعہ کتنی میٹھی ہوتی ہے۔۔
آسودگی بھری۔۔عنایتوں بھری۔۔
اور دنیا بھر کے غموں سے آزادی دیتی ہوئی۔۔میٹھی لوری سناتی۔۔بے خبری کس قدر اچھی تھی
اور دوسری جانب بیٹھک میں اکیلا مجدد جس نے دیوار پر قد آدم سایہ دیکھا اور کروٹ بدل دی کہ اس وقت وہ خود کو بھی فیس کرنے کے لئے تیار نہیں تھا
بہت سی راتوں ے رت جگے نے اسے تھکادیا تھا
اسے اندازہ تھا کہ سعدیہ نورعین بھی سورہی ہوگی
تو کوئی ہرج نہیں کہ وہ بھی سولے۔۔آج پہلی بار اسے کسی لڑکی سے دلی ہمدردی محسوس ہوئی تھی
آج دوسری مرتبہ اس کی کسی لڑکی سے ملاقات ہوئی تھی
اور دو پہلی ملاقات میں ہی دوسری مرتبہ بہت اچھا محسوس کررہا تھا
بہت اپنائیت بھرا۔۔
اور تو اور آج عالین افتخار اس کے خواب میں آئی۔۔اور سعدیہ سے ملاقات کے بعف فورا” اسے عالین کا ہی تصور آیا تھا
ایسے ۔۔جیسے دونوں میں کوئی یکساں بات ہو۔۔یا پھر دونوں کا جیسے آپس میں کوئی تعلق ہو۔۔
اسے یکدم خیال آیا کہ وہ سعدیہ کے سامنے عالین کا زکر کرے گا۔۔ابھی تو انکی ملاقات کو بہت کم دیر ہوئی تھی اور شاید کم عرصے کی ہی ہوگی
اس میں اور عالین میں ایک واضح فرق یہ بھی تھا کہ سعدیہ اس پر ڈپینڈ کررہی تھی اور وہ کسی پر ڈپینڈڈ نہیں ہوتی تھی بلکہ بندہ اس پر ڈپینڈڈ نہ بھی ہو مگر اس کی سنگت اس کا ساتھ ضرور ہی چاہ سکتا تھا
اور آج اسے مزید یاد کرتے ہوئے جب اس نے اپنی یاد کو ذہن سے کھنگالا تو اسے اندازہ تھا کہ شدید یاد سفر کرتی ہوئی اس تک ضرور ہی پہنچے گی
اور چاہے کسی بہت ضروری کام کے خیال میں پھنسی ہوئی ہو۔۔مگر ایک لمحے کے لئے اس کے خیال کا سلسلہ ٹوٹا ہوگا اور یاد کوئی نیا اسٹیشن پکڑنے لگی ہوگی۔۔فریکوئنسی جڑتی ہوگی
لہروں پر یادیں سفر کرتی ہیں
بجلی کے سے کوندے کی لپک کی طرح۔۔یادیں کانوں میں سرگوشیوں کی طرح۔۔
ذہنوں میں تصویروں کی طرح۔۔
دلوں میں دوستی کی طرح
اوقات کی گنتی الٹتی ہے۔۔پلٹتی ہے
چھنتی ہے۔۔
اور چھاجاتی ہیں۔۔
یعنی کہ یادیں سفر کرتی ہیں
******

ہم ایک ہی وقت میں ایک دوسرے کو یاد کیا کرتے ہیں
******

پلیٹ فارم پر بدروحیں تو نہیں پھرا کرتیں۔۔
آخر یہ ساری گاڑیاں اور مسافر کہاں جاتے ہیں
مجھے لگتا ہے ان تمام لوگوں میں کچھ اور لوگ بھی موجود ہوتے ہیں
ایک ہزار کے مجمعے میں کبھی سوا ہزار جتنا رش ہوتا ہے
اس کا کیا مطلب ہوتا ہے؟ایک گیارہ سالہ بچے نے سوال کیا جو ان سارے بچوں میں سے زرا نکلتے ہوئے قد کا اور بڑا تھا جو ہر دوسری بات پر سوال بھی کرتا جارہا تھا
کچھ بچے ہونق بنے غائب دماغی سے سن رہے تھے
منہ کھولے پر سوچ انداز میں اپنے تئیں کہانی سنتا ہوا ایک چار پانچ سالہ بچہ بھی تھا
جو صرف سن رہا تھا
اس پوری بوگی کے بچے اس نے جمع کئے ہوئے تھے
مائیں آرام سے بیٹھی تھیں جن کی اور باپ بھائی تو کسی کے ساتھ چچا ماموں بھی بے فکر سے بیٹھے تھے
بچے قصہ سن رہے تھے
وہ بول رہا تھا
بچے سوال کررہے تھے
اور وہ جواب دے رہا تھا
سوال یہ تھا کہ اس کی بات کا مطلب کیا ہے۔
جواب یہ تھا کہ اس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ ہم اکیلے سفر نہیں کرتے۔۔اگر ہم اکیلے ہوتے ہیں تب بھی ہمارے ساتھ کچھ اور ہوتا ہے کوئی بھی۔۔
یعنی کہ ایک ہزار کے مجمعے میں سوا ہزار کی مخلوق ہوسکتی ہے ہوسکتا ہے اس سے بھی دگنی ہے
مگر مجھے ہمیشہ ایک پر اضافی سوا محسوس ہوتا ہے

وہ بڑی سنجیدگی کے ساتھ سنارہا تھا
اور وہ چڑ رہی تھی
تم کون ہو لڑکے تم؟بلآخر اس کے ضبط کا پیمانہ چھلکا اور وہ اپنی اکلوتی سیٹ سے اٹھ کر ان تک آئی
کون ہو تم؟
میں ایک انسان ہوں۔۔
نام پوچھ رہی ہوں تمہارا؟
مجدد ثانی نام ہے میرا۔
ٹھیک ہے مجدد ثانی۔۔
اپنے نام کی طرح باتیں مت بنائو
تم اس طرح کے قصے کیوں سنارہے ہو ان بچوں کو؟
اس لئے کہ مجھے معلوم ہے کہ میں جو کہہ رہا ہوں وہ سچ ہے۔۔اسکی مسکراہٹ گہری تھی
ادھر آئو۔۔۔۔زرا اٹھو۔۔
وہ اٹھا تو بچوں سے زرا فاصے پہ ہوکر اپنی سیٹ کی طرف ہوکر کہنے لگی
میں تمہارے ساتھ بحث نہیں کرنا چاہتی مگر اتنا بتانا چاہتی ہوں کہ تم بچوں کو حراساں کررہے ہو
ان میں سے کوئی بھی بچہ سالوں تک اکیلے سفر نہیں کرسکے گا
اور جب کرے گا تب ڈرے گا۔اس کا لہجہ پر افسوس اور حتمی تھا۔
کیوں ڈرے گا کوئی میں تو بچوں کو مضبوط کررہا ہوں
میں انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ کبھی بھی وہ تنہائی محسوس نہ کریں۔۔
بہت خوب لڑکے
کسی بھی مافوق الفطرت شہ کے ڈرسے وہ تنہا رہنا زیادہ پسند کریں گے

میں انہیں کسی اپنے کے ساتھ کا بتائوں گا تو نہیں ڈریں گے
اور وہ اس طرح اس اپنے رشتے کے خیال سے کیا نفرت کرپائیں گے؟
غلط کہتے ہو وہ پناہ مانگیں گے انکے وجود سے
اور ہر ایک خیال سے جس سے انہیں خوف لاحق ہو
کیونکہ انہیں لگے گا کوئی ہر وقت ان کا پیچھا کررہا ہے
پھر چاہے وہ کسی مرے ہوئے کی موجودگی کا احساس ہی ہو ۔۔
تمہیں کیسے لگے گا جب ٹوئلٹ جاتے ہوئے یہ احساس تمہارے ساتھ ہو تو؟
کوئی بات نہیں میں آنکھیں بند کرلیا کرتا تھا شروع شروع میں جب بچہ تھا ۔
بہرحال مجدد بچوں کے لئے یہی بہتر ہے کہ انہیں کسی بھی احساس کے علاوہ صرف یہ بتایا جائے کہ اللہ ساتھ ہے وہ دیکھ رہا ہے
تو کیا وہ اس سے نہیں ڈریں گے؟
نہیں بلکہ وہ اطمینان محسوس کریں گے کہ کوئی انکی حفاظت کررہا ہے
دیکھو انکے لئے دوستی کا جذبہ انکے ہم نوائوں کے لئے جگائو۔۔
بچے اٹھ کر اپنی نشستوں کی طرف چلے گئے تھے
ریل پلیٹ فارم کی طرف بڑھی تھی
اور وہ اس کے سامنے والی کرسی پر اس لئے آزادانہ بیٹھ گیا کہ یہ بوگی کا آخری حصہ تھا
اور بوگی میں آدھی سیٹیں خالی تھیں
تبھی سیٹ بدلنے کی آزادی تھی۔
مگر میں تو ایسا نہیں تھا
میں تو بات کرتا تھا
میں تو پرچھائیاں دیکھتا تھا۔۔وہ بڑبڑارہا تھا
مجھے تو کبھی کبھار سوال کا جواب بھی مل جاتا تھا۔۔
پھر تمہیں ڈر نہیں لگا؟وہ فورا” ہی اسکی ہمدرد ہوگئی تھی۔
شروع شروع میں لگتا تھا پھر مزا آنے لگا
اور اب۔۔؟
اب میں ان سے جان چھڑانا چاہتا ہوں۔۔کھڑکی سے باہر دیکھا تو اسکی آنکھوں میں نمی تھی۔
جیسے اس نے پہلی بار کسی سے اپنا دکھ کہا ہو۔
ہر جگہ ہی مجھے کچھ ایسی صورتیں کچھ چلتے پھرتے لنگڑاتے ہوئے پھر فورا” غائب ہوجانے والے لوگ نظر آجاتے ہیں
اوہ ویری انٹرسٹنگ۔۔وہ جی بھر کہ حیران ہوگئی۔
مجھے تمہارا انٹرویو کرنا ہے
مگر اس سے پہلے میرا انٹرویو کا وعدہ کسی اور کے ساتھ ہے
جہاں مجھے کل لازمی پہنچنا ہے۔
اور میری عادت ہے کہ میں براہ راست انٹرویو کرتی ہوں
آج سے پہلے مجھے صرف محنتی اور کچھ کردکھانے والے لوگوں سے مل کر مزا آتا تھا
لیکن آج کے بعد مجھے تم جیسے لوگوں سے بھی مل کر مزا آئے گا۔۔
تم مجھے اپنا پتہ وغیرہ دے دو مجدد ثانی ۔
میں کبھی کسی ایک پتے پر نہیں ہوتا
میں مختلف جگہیں گھومتا رہتا ہوں جب پیسے ختم ہوجاتے ہیں تو ٹک جاتا ہوں
آج کل میرے پاس کچھ پیسے ہیں
میں کچھ شہروں کی تاریخی جگہیں گھومنا چاہتا ہوں۔
جیسے خالی پرانے مندر اور خالی عمارتیں وغیرہ،
اگر تم مجھ سے وہ چیزیں شئیر کرو تو مجھے اچھا لگے گا ثانی۔۔
یقینا” مگر تم وہ اپنے میگزین میں چھپوادوگی جبکہ میں ایسا نہیں چاہتا
میں تمہارے نام سے چھپوادوں گی مجدد
میں یہ بھی نہیں چاہتا
جب تک تحقیق ادھوری ہو کوئی فائدہ نہیں ملتا
تم عمومہ” کیا کرتی ہو؟
میں اسی میگزین کے لئے اشتہارات بھی لیتی ہوں
اور رپورٹنگ کے ساتھ کبھی ایڈٹنگ بھی کرلیتی ہوں
اور بلکہ ایک دو چینلز کو بھی اشتہارات دلواتی ہوں اس کے علاوہ اس میگزین کے لئے انٹرویوز کرتی ہوں
میرا اس ماہ کا فیچر ہے
کہ وہ نوجوان جو اپنی زندگیوں میں خدا سے ناراض رہے ہیں۔
اچھا۔۔۔واہ۔ تو پھر۔اس میں کس کی کہانی چھاپ رہی ہو ۔۔۔؟؟
یہ سوچنا پڑے گا کسی مخصوص کی نہیں بلکہ کچھ خبریں ہیں۔۔کچھ ثبوت بھی۔۔مایوسیوں کے۔۔خیر چھوڑو۔۔تم کہیں اداس نہ ہو۔۔ویسے بھی اداسی سفر کو خراب کردیتی ہے۔
تم اپنا پتہ دو تو تمہیں بھجواسکتی ہوں ایشو چھپ جاتے ہی۔
میرا جب قیام ہوگا تو وہاں کا دے دوں گا۔
بلکہ نہیں میں تمہیں انٹرنیٹ پر وہ میگزین لنک کردوں گی یہ ٹھیک ہے؟
یہ اچھا ہے مگر میرا اینڈرائڈ فون خراب ہے وہ صرف تصویریں کھینچنے کے کام آتا ہے
یہ استعمال کرتا ہوں۔۔اس نے ایک سادہ فون نکال کر دکھایا جیب سے
تو تم اینڈرائڈ لے کیوں نہیں لیتے۔۔آج کل تو بہت عام ہوتے ہیں یہ فون۔
اگر میں ایک اچھا تیس چالیس ہزار کا فون خریدوں تو میرا سفر ڈسٹرب ہوسکتاہے۔۔اور پیسے کم پڑسکتے ہیں
تم اپنی آئی ڈی پر شئیر کرتے ہو یہ سب؟
نہیں۔۔
کس لئے؟
میں نہیں بتانا چاہتا کہ میں کس وقت کہاں ہوں اور کیا کررہا ہوں
میں بہت ان ایکٹو ہوتا ہوں۔
یہ بھی اچھا ہے خیر فون نمبر تو دوگے نہ۔۔اسی کا
ہاں وہ لے لو۔۔
اس نے لکھوادیا فون نمبر
تم سے مل کر حقیقتا” اچھا لگا
شکریہ تم مجھے بتاسکتی ہو کہ کس کا انٹرویو کررہی ہو فی الحال۔۔
ہاں بالکل وہ ایک ایسی شخصیت ہیں جنہوں نے تھیٹر کے لئے بہت کام کیا ہے۔
اوہ واہ ان سے پوچھنا کہ اگر مجھ سے وہ تھیٹر کرانا چاہیں تو میں حاضر ہوں۔۔مجھے تھیٹر کرنے کا بہت شوق رہا ہے۔۔
ضرور کہوں گی۔بس ان سے ملاقات ہوجائے۔۔
گاڑی رکنے کو چند لمحے گزرے تھے
تم سے مل کر بہت اچھا لگا مجدد ثانی۔تم یہاں اتروگے؟
نہیں۔۔میں اس سے شاید بہت آگے جائوں۔۔
اچھا مجھے یہاں ایک جاننے والی کی شادی اٹینڈ کرنی ہے اور اس کے بعد مجھے نکلنا ہے انٹرویو کے لئے۔
اچھا سنو ۔۔وہ اپنا تھیلا اٹھاتے ہوئے رکی۔۔
ہوسکے تو بچوں کی سہمی ہوئی صورتوں سے یہ ڈر نکالتے ہوئے جانا۔۔
ضرور ،وہ ہنس پڑا تھا اور اس کے سامنے ہی اٹھا تھا دو سامنے بیٹھے بچوں سے مخاطب ہوا
ہیلو بچو آپ کے ساتھ سوائے آپکے پیرنٹس کے کوئی نہیں ہوتا یقینا” آپ کسی اور کا ہونا پسند بھی نہیں کریں گے۔
اگر نہیں کرتے تو کوئی نہیں بیٹھتا، آپ بس جہاں بیٹھیں ایسے منہ بنائیں کہ آپ کسی کو ساتھ بٹھانا پسند نہیں کرتے پھر کوئی نہیں آئے گا
اور آپ آرام سے سفر کریں گے
یہ جو کچھ کہا سفر کے لئے وقت گزاری کے لئے کچھ کہانیاں یاد کرلی ہیں
باقی سب بکواس تھی
امید ہے سفر میں مزا آیا ہوگا
دونوں بچے ہنسے تھے
اور عالین بھی سر جھٹک کر نیچے اترگئی تھی
وہ کھڑکی سے پلیٹ فارم پر اس کو آگے جاکر ہجوم میں کھوجاتے ہوئے دیکھنے لگا تھا
اور اسے حیرت ہوئی تھی کہ وہ اس اجنبی لڑکی کو آواز دینا چاہ رہا تھا
بلانا چاہ رہا تھا۔۔
شاید کچھ مزید دیر۔۔
اس نے ابھی یہ بھی نہیں کہا تھا کہ ہم دوست بن سکتے ہیں
بن چکے ہیں۔۔
یا پھر ہم دوست ہی تھے۔۔تبھی ملے۔۔
ریل نے رفتار پکڑی تھی۔۔اور پلیٹ فارم مختلف مناظر میں گم ہوگیا تھا
ریل بھاگتی ہوئی جارہی تھی، منظر دوڑتے ہوئے لگ رہے تھے۔
اوقات کھسک رہے تھے
مجدد ثانی نے سر پشت سے ٹکالیا تھا
ریل دھواں دھار چنگھاڑ کے ساتھ بڑھ رہی تھی
مسافر نے اپنا پڑائو جھانکنا تھا
نیا!

*******
جاری ہے

Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

You are commenting using your WordPress.com account. Log Out /  Change )

Facebook photo

You are commenting using your Facebook account. Log Out /  Change )

Connecting to %s

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.