قدیم_____________صوفیہ کاشف

جب ہم جوان تھے ہمیں اپنی ایک ذندگی دکھائی دیتی تھی جسے ہم کسی نہ کسی خوبصورت کامیابی کسی سفر اور منزل سے آراستہ کرنے کے سپنے دیکھتے رہتے تھے۔تب خبر نہ تھی کہ انسان کس قدر قدیم ہو سکتا ہے۔آج لگتا ہے!

آج مڑ کر پیچھے دیکھتی ہوں تو جنموں کی داستانیں دکھائی دیتی ہیں۔یوں لگتا ہے چار دہائیوں میں جیسے چار جنم جئیے ہوں۔(کیا وہ جو سات جنموں پر یقیں رکھتے تھے ان کی عمریں ستر سالہ ہوتی تھیں؟)

اکثر اس پر سوچتی رہتی ہوں ۔آخر ایسا کیوں لگتا ہے جیسے میرا آج میرے پچھلے جنموں سے بہت دور ہو کر کھڑا ہے کیوں یہ سب ایک ذندگی ایک وجود کاحصہ نہیں لگتا؟سال ڈیڑھ سالہ بچی کو جلے ہوئے بازو پر بندھی ہوئی پٹی کے ساتھ میں پہچان نہیں پاتی۔ذندگی کے پہلے دس سالوں میں جیتا ایک بھولا بھالا بچپن مجھے اپنا نہیں لگتا’کوئی صدیوں پرانا قصہ لگتا ہے’جو مجھ سا لگتا ہو مگر میرا نہ ہو!

ذندگی کی دوسری دہائی مجھے کوئی صدیوں پہلے پڑی کسی کتاب کا قصہ لگتا ہے جو ادھوری سی یاد رہ جائے اور باقی سب بھول جائے۔جیسے اس چہرے کو بس یونہی کبھی گزرتے گزرتے بھیڑ میں دیکھا ہو اور بس۔اس جنم سے اس جنم تک جیسے صدیوں کی دوری ہو!

تیسری دہائی اگرچہ کچھ پڑوسی پن سا تاثر دیتی ہے ۔ہاں اسے کچھ جانتی ہوں میں اس کے ساتھ تھوڑا سا تعلق رہا ہے میرا۔آج۔۔۔۔کہاں کھڑی ہوں، کیا ہوں’دیکھتی ہوں تو گھبرا جاتی ہوں۔میں کیوں آخر اسقدر گمشدہ ہوں!!!کیا صرف میری ہی ذندگی اسقدر قدیم ہے یا اور بھی کچھ لوگ ہیں جو ہر راہ ہر سفر میں محض بھٹکے ہی رہتے ہیں۔؟

پچھلے کئی سالوں میں میں نے بارہا دیکھا کہ سونے کے لئے لیٹی’زرا سی آنکھ جھپکی اور امی نے پکارا_____ کبھی ابی نے صدا دی ۔کان میں آواز پڑی اور میں ہڑبڑا کر اٹھی۔آس پاس دیکھا۔اور پریشان ہو گئی۔یہ کہاں ہوں میں۔میں تو ابھی امی کے گھر میں ان کے کمرے میں تھی۔ابھی ان کی آواز کی بازگشت میرے کانوں میں گونجتی تھی ابھی میں ان کے قریب بیٹھی ایک کم عمر سی بچی تھی!!!!!۔ایسا کب ہوا میں اتنی دور کیسے آ گئی؟ اتنی دور !زماں میں بھی ،مکاں میں بھی!چند لمحوں میں انسان صدیوں پیچھے کیسے چلا جاتا ہے؟ حال کی نظر سے کیسے اوجھل ہو جاتا ہے؟جانے کب کب کون کون ہمیں صدا دیتا ہے جسے ہم عین وقت پر سننے سے قاصر رہتے ہیں۔۔

تو میں اب آدھی رات کو اپنے دبئی فلیٹ کے خاکی صوفے پر بیٹھی ہوں اور کوشش کرتی ہوں کچھ لکھ دوں۔کم سے کم وہی جو اکثر میری سوچ پر اترتا ہی رہتا ہے!ذندگی اسقدر عجیب اور حالات ایسے سوتیلے ہیں کبھی بھی ڈھنگ سے وفا نہیں کر پاتے۔دکھاتے کچھ رہتے ہیں چل کسی اور طرف پڑتے ہیں۔۔۔

اس بار پاکستان گئی تو کچھ پرانے صفحات پر لکھی کچھ جوانی کی تحاریر سامنے آ گئیں۔دیکھی تو حیران رہ گئی۔۔۔میں نے خود بھی ان کو شاید دو دہائیوں بعد دیکھا۔۔۔۔دل کو ایک کسک نے چھیڑا ۔۔۔سوچا اگر جو ذندگی کے سفر میں بڑی بڑی نقبیں نہ لگتیں تو شاید آج جانے کیا ہوتی،جانے کہاں ہوتی!!!!_________ پھر سوچا کہ بالٹی کے مقدر میں جتنا پانی ہو صرف اتنا ہی اس میں سما سکتا ہے!۔جتنی مرضی بارش ہوتی رہے یا اوپر ٹونٹی چلائے رکھو ‘اضافی پانی ہمیشہ ہی بالٹی سے چھلک جائے گا۔تو میرے نصیب کا حجم اتنا ہی تھا۔جو اضافی تھا اسے چھلکنا ہی تھا!!!!ذندگی سوال کھڑے کرتی ہے اور پھر خود ہی جواب بھی دیتی ہے۔بس یہی ہے کہ ہم دیکھ سکیں ‘ سمجھ سکیں۔ورنہ جواب سامنے کھڑا مسکراتا ہے مگر انساں دیکھ نہیں پاتا۔اور ہم عام انسان اکثر ہی دیکھ نہیں پاتے!

(اے خدا! تو ہمیں دیکھنے والا کر دے!!!)

29.5.21

_______________

تحریر و فوٹوگرافی:صوفیہ کاشف

20 Comments

    1. ميرے بچے 4&5سال کے تھے جب وائف کو لاھور بھیج دیا A لیول کے بعد بچوں کے ساتھ کینیڈا آ گئے۔ سب صحیح ھو گیا۔ پاکستان میں وائف نے ماں اور باپ بن کر بچوں کو پالا۔ میں تو صرف ریال بھیجتا تھا

      Liked by 1 person

        1. ہر چیز صرف جگہ بدل لینے سے ٹھیک نہیں ہو جاتی۔بلکہ جتنی جگہیں بدلتی رہتی ہیں انسان اتنا ہی ذیادہ گمشدہ ہوتا چلا جاتا ہے۔مگر یہ صرف میرا خیال ہی ہے غلط بھی ہو سکتا ہے۔

          Liked by 1 person

          1. سنئیں اتنا عرصہ بعد اتنی خوبصورت اردو پڑھنے کو ملی۔ ماشاءالله زور قلم اور زیادہ

            Liked by 1 person

  1. بچوں کے مستقبل کے لئے اپ کو امیریکہ کینیڈا یا یو کے شفٹ ھونا پڑے گا۔ کوی فیوچر نہی پاکستان یا عرب ملکوں میں۔ ایک بھائی کی حیثیت سے مشورہ دے رھا ھوں

    Liked by 1 person

    1. آپ اور آپکی مسز ماشاءاللہ بہت مضبوط ہیں جو اس کامیابی سے سب کر گئے۔انسان کے بس میں سب کچھ نہیں ہوتا۔مستقبل جہاں ہو وہ خود انساں کو کھینچ لیتا ہے ورنہ ساری دنیا امریکہ کینڈا جا کر بس جائے!!!!خدا طے کرتا ہے کس کا مستقبل کہاں ہے!!!!
      ویسے اس بلاگ کا پردیس سے دیس سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ بلاگ کی ایک دوسری سیریز “صوفیانہ” کا حصہ ہے جن کے موضوعات کچھ مختلف ہیں۔حوصلہ افزائی کا شکریہ!!!

      Liked by 1 person

  2. سنیں کینیڈا میں سالانہ 150,000 سٹوڈنٹ مختلف یونیز میں سٹوڈنٹ ویزہ پر آتے ھیں۔ یہاں ان ورک پرمٹ ملتا ہے اور وہ 20 hours weekly کام کر سکتے ھیں جن سے ان کی فی پے ھو جاتی ہے اور رھائش بھی۔ سٹوڈنٹ جب گریجویٹ ھو جا تے ھیں تو کینیڈین گورنمنٹ ان کو اسوقت PR permanent residency دے دیتی ھے جس سے وہ اپنی فیملی اور 20 سال سے کم عمر کے بہن بھائ اور ماں باپ کو فورن سپانسر کر سکتے ھیں

    Liked by 1 person

  3. میری وائف کہتی ھیں کہ کاش وہ بچوں کو لاھور لے جانے کے بجائے بچپن سے ھی کینیڈا لے آتی

    Liked by 1 person

  4. ٹورنٹو کی ھر گلی اور ھائ وے پھولوں سے لدی ھوتی ھیں مارچ سے اکتوبر تک۔ نومبر سے فروری تک اپ گھر آفس اور جم جا تے ھیں۔ گھر گاڑی آفس سینٹرلی ایرکنڈیشنڈ اور ھیٹڈ ھو تے ھیں۔

    Liked by 1 person

  5. ایک سے ایک خوبصورت لوگوں نے ٹی اور شارٹس پہنے ھو تے ھیں حرام ھے کوئ ایک دوسرے کو آنکھ اٹھا کر دیکھے

    Liked by 1 person

        1. اور ریویوز بھی۔ بڑا اچھا لگا جب اپ نے تارڑ صاحب کو پیغمبر سے تشبیح دی جو انہوں نے مستقبل میں پانی کی کمی کا بتایا

          Liked by 1 person

          1. میرا ناول”زرد پتوں کی اوٹ میں”؟
            ممی کی ڈائری؟
            سفر حجاز؟
            افسانے؟
            کالمز؟
            سب؟

            Like

Leave a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.