“ممتا”______lalika Nakos

مامتا_______لالیکا ناکوس

مترجم: صوفیہ کاشف

مارسیل آئے انہیں ایک ماہ سے زیادہ ہو چکا تھا اور اب تو شہر کے مضافات میں واقع آرمینیائی پناہ گزینوں کے خیمے ایک چھوٹی سی بستی کی صورت لے چکے تھے۔اس بستی میں جس قدر بس جانا انکے اختیار میں تھا وہ بسنے کی کوشش کر رہے تھے۔امیر لوگ خیموں میں اور باقی سب شکستہ حال چھپڑوں کے نیچے پناہ گزیں تھے۔

پناہ گزینوں کی اکثریت کے پاس واحد آسرا ڈنڈوں کے سہارے اونچی باندھی گئی دری کا سایہ ہی تھا۔جو بہت خوش نصیب تھے انہیں پردے کے لئے ایک چادر نصیب ہو جاتی جس کو وہ دیوار کی صورت لٹکا کر دوسروں کی نگاہوں سے اوجھل ہو سکتے۔ اک زرا گھر نما احساس سا ہو جاتا۔قحط زدہ موت سے بچنے اور بیوی بچوں کا پیٹ بھرنے کے لئے مردوں کو لازماً کوئ نہ کوئ کام ڈھونڈنا ہی پڑتا۔ ایک میکلالے تھا جو روزگار کا کوئ وسیلہ ابھی تک پیدا نہ کر پایا تھا۔آس پاس کے پناہ گزین روٹی دے دیتے تو احسان بوجھ بن کر کندھوں پر جھولنے لگتا۔وہ چودہ سال کا ہٹا کٹا جواں تو تھامگرکاندھے پر بھائی کی صورت اک شیر خوار ذی روح کی ذمہ داری نے اسے مزدوری ڈھونڈنے کے قابل ہی نہ چھوڑا تھا ۔وہ شیر خوار جس کی پیدائش کی قیمت ماں کو مر کر بھرنی پڑی، ہر دم اپنی بھوک کے نوحے سنانے میں مگن تھا۔میکالے سے کام لیتا بھی کون کہ اسکے ساتھ کے تو اپنے مہاجر ہم وطنوں نے رات بھر بچے کی چیخوں سے نیند برباد ہونے پر تنگ آ کر انہیں اپنے کواٹروں سے ہی نکال دیا تھا۔

میکالے خود ہر وقت کے بچے کے رونے سے پاگل سا ہو چکا تھا۔ماوف دماغ لئے وہ بھٹکی روح کی طرح بھٹکتا پھرتا۔جب نیند کی کمی اور تھکاوٹ کی ذیادتی میکالے کی جان کے درپے تھی تو اُسے بہرہ کر دینے والے چیختے چلاتے بچے کے بوجھ کو کندھے پر اٹھانا پڑتا جو اپنے ساتھ خود میکالے کے لئے بھی ایک بدقسمتی ہی بن چکا تھا، بدقسمتی بھی ایسی جو بہت بُری گھڑی میں ٹوٹی تھی ۔

سب کو بچے کی چیخوں سے اب الجھن ہونے لگی تھی ۔ کیمپ میں موجود لوگ ذندگی کے ستم کے ہاتھوں پہلے ہی تنگ تھے اور اب دل ہی دل میں بچے کے مر جانے کی دعا کرتے۔اور شیر خوار بچہ تھا کہ جو دن رات اپنی بھوک کا ماتم کرتا جینے کی شدید ترین کوشش میں مگن تھا۔

انہیں قریب آتے دیکھ کر پریشان حال عورتیں کان لپیٹ لیتیںں،چیختے چلاتے بچے کو اٹھائے آتے میکالے کی بجائے کسی شرابی مرد کا آنا ان کے لئے ذیادہ قابل برداشت تھا۔

ننھے بھائی کے لئے دودھ خریدنے کو میکالے کے پاس ایک ٹکا تک نہ تھا۔ اور نہ ہی کیمپ میں موجود کسی عورت میں اتنی طاقت باقی تھی کہ اسے دودھ ہی پلا سکتی۔بے بسی نے میکالے کے اوسان خطا کر رکھے تھے۔

بدقسمتیِ حالات سے گھبرا کر ایک دن میکالے دوسری طرف اناطولین کی بستی کی طرف چلا گیا جو ترکوں کے قتل عام سے گھبرا کر ایشیائے کوچک سے جان بچاتے بھاگے تھے۔کسی نے اسے بتایا تھا کہ ان کی طرف ایک دائی ہے جو اس کے بھائ پر مہربانی کر سکتی ہے۔امید کا سرا تھامتے میکالے وہاں جا پہنچا۔اناطولین کے خیمے بھی آرمینیائی کی طرح ہی خستہ حال تھے۔بوڑھی عورتیں زمیں پر صفیں بچھائے پنجوں کے بل بیٹھی تھیں۔اور انکے بچے ننگے پاؤں گندے پانی کے جوہر میں کھیل رہے تھے۔میکالے ان کے قریب پہنچا تو بہت سی عورتیں اٹھ کر اسکی طرف اس کےآنے کا مقصد پوچھنے آئیں۔لیکن وہ بغیر رکے چلتا رہا جب تک کہ اسکے سامنے مقدس مریم کی شبیہ والا درواذہ نہ آ گیا اور وہ رک گیا۔ایک روتے بچے کی آواز خیمے سے باہر تک سنائی دیتی تھی۔

“دنیا کی سب سے مقدس دوشیزہ کے نام سے جس کی تم شبیہ ہو”اس نے یونانی میں کہا

“اس یتیم پر رحم کرو اور اسے تھوڑا سا دودھ پلا دو۔میں ایک غریب آرمینی ہوں۔۔۔”

اس کی درخواست سن کر ایک دلکش کالی عورت سامنے آئی جس کی بازوؤں میں نیند بھری آنکھوں والا ایک نوزائیدہ بچہ سکون سے دودھ پی رہا تھا۔

“بچہ دکھاؤ! لڑکا ہے یا لڑکی؟”

میکالے کا دل خوشی سے جھوم گیا۔آس پاس موجود بہت سے لوگ بچہ دیکھنے کے لئے قریب آگئے اور کاندھےسے اس تھیلے کو اتارنے میں میکالے کی مدد کرنے لگےجس میں اس نے نوزائیدہ بھائ کو لپیٹ رکھا تھا۔بچے کو دیکھنے کے تجسس میں سب آگے کوجھک گئے۔میکالے نے چہرے سے کپڑا اتارا تو عورتیں دہشت سے چیخ اٹھیں۔ بھوک کی کثرت سے بچے کی صورت عام انسانوں جیسی نہ رہی تھی۔بھوک نے جسم کو سکیڑ اورسر کو پھیلا کر بھوت نما شکل دے دی تھی

اس تمام عرصے میں بھوکا بچہ انگوٹھا چوس کر ذندہ رہا تھا جو اب مسلسل چوسے جانے سے اسقدر سُوج چکا تھا کہ اب مزید چوسے جانے کے قابل بھی نہ رہا تھا۔

۔یہ خوفناک منظر دیکھ کر خود میکالے بھی خوف سے ششدر رہ گیا تھا۔

“عظیم ماں!”ایک بوڑھی عورت بولی”یہ بچہ تو راکشس ہے!اصل راکشس!میرے دودھ اترتا تو بھی مجھ میں اسے دودھ پلانے کی ہمت نہ ہوتی۔”

“سچ مچ کا دجال”ایک دوسری نے سینے پر کراس بناتے ہوے کہا”ترکوں کی اولاد!”

ایک اور بدصورت بوڑھی سامنے آئ

ہووووو__وہووووو۔۔۔۔۔۔ وہ بچے کو دیکھ کر چلا اٹھی

“یہ تو شیطان ہے!” وہ میکالے کی طرف مڑی اور چلائ۔”دفع ہو جاؤ یہاں سے منحوس اور دوبارہ کبھی یہاں قدم مت رکھنا!ورنہ ہم پر بھی تمھاری نحوست نازل ہو جایے گی۔”

سب نے ڈرا دھمکا کر میکالے کو دور بھگا دیا۔اس کی آنکھیں غم کی شدت سے بھر آئیں اور وہ بھوک سے روتے بچے کو لئے ان سے پرے ہٹ آیا۔

اب ہر آس ختم ہو چکی تھی۔بچے کی قسمت میں قحط زدگی کی بدقسمت موت لکھی جا چکی تھی۔ اسے لگا وہ دنیا کا سب سے بدقسمت اور تنہا انسان ہے۔ایک نحوست کو اٹھائے پھرنے کے تصور سے دہشت زدہ ہوتاوہ ایک سایے کے نیچے ڈھےگیا۔

۔

ابھی تک موسم گرما تھا ۔اسے یہ علاقہ ایک بنجر اور ویران سرزمین لگنے لگی جس میں اس کے لئے کہیں کوئ رحم نہ تھا۔کہیں دور دوپہر کی گھنٹیوں نے اسے یاد دلایا کہ کل دوپہر سے اسے کھانے کو کچھ نہیں ملا۔

۔خوراک کی تلاش میں گلیوں میں نکلنا ،چائے خانوں کے احاطوں میں چکر کاٹنے ، اور پلیٹ میں بچے آدھ کھائے رولز یا پھر کچرے کے ڈھیر پر کسی کتے سےبچا ہوا کچھ کھانے کو ڈھونڈنا ہو گا۔یہ سوچ کر ہی وہ کانپ کر رہ گیا ۔بے بسی سے میکالے نے ہاتھوں میں چہرہ چھپا کر بری طرح رونا شروع کر دیا۔

رونے کے بعد میکالے نے سر اٹھایا تو سامنے ایک شخص کھڑا اپنی طرف گھورتا پایا.وہ چائنہ والا شخص تھا جو کبھی کبھی انکے کیمپ کی طرف کاغذ کی بنی چھوٹی موٹی چیزیں یا نگینے بیچنے آتا جنکا وہاں کوئ خریدار نہ تھا ۔ اکثر لوگ تو اسکے رنگ اور خراب آنکھوں کی وجہ سے اس کا مذاق اڑاتے۔بچے پتھر مارتے اسکے پیچھے بھاگتے اور آوازیں کستے

“لے لنک،،،گندی بوُ”

میکلالے نے چائنہ والے کو شفقت سے اپنی طرف دیکھتے اور کچھ کہنے کی کوشش کرتے پایا۔آخر وہ بولا!”مت رو جوان!”…اور پھر عاجزی سے کہا”میرے ساتھ آؤ!”

میکالے نے سر ہلا کر انکار کر دیا ۔اس نےمشرقی لوگوں کی بے رحمی کے سینکڑوں واقعات سن رکھے تھے۔ ۔کیمپ میں تو یہ تک کہا جاتا تھا کہ یہ مشرقی یہودیوں کی طرح عیسائیوں کے بچے چوری کرنے اور انکو مار کر خون پی جانے کے عادی ہیں ۔اس کابس چلتا تو وہ بھاگ ہی جاتا وہاں سے۔

لیکن وہ شخص انکار سن کر بھی کھڑا رہا۔پریشانی کی حالت میں چارو ناچار میکالے اسکے پیچھے چل پڑا۔ اس سے برا اور ہو بھی کیا سکتا تھا اس کے ساتھ؟چلتے ہوئے کمزوری سے اس کے قدم لڑکھڑائے اور وہ بچے کے ساتھ گرتے گرتے بچا۔چائنہ والا اس کی مدد کو آیا اور بچے کو بازوؤں میں لے کر اس نے نرمی سے اپنے ساتھ لگا لیا۔

بہت سے چیٹل میدان پار کر کے وہ ایسی سڑک پر آ گئے جہاں پر اردگرد سے اک باغ میں گھرے بہت سے چھوٹے چھوٹے لکڑی کے گھر بنے تھے ۔ ایک دروازے کے سامنےپہنچ کر وہ رکا اور ہاتھوں سے دو بار اطلاعی تالی بجائ۔۔ مدہم قدموں کی آواز کے ساتھ کوئ چھوٹا سا وجود دروازے کھولنے کو قریب پہنچا۔چائنہ والے کو دیکھ کر اسکے گال تمتمایے اور چہرے پر خوبصورت مسکراہٹ پھیل گئی۔چینی خاتون تعظیم کے لئے زرا سی جھکی۔میکلالے ہچکچاہٹ کا شکار ہوا اور چوکھٹ پر ہی کھڑا ہو گیا۔ چائنہ والا پلٹ کر اسے بلانے آیا۔”ڈرو مت!اندر آ جاؤ!یہ میری بیوی ہے!”

میکالے کمرے میں داخل ہوا جو دیکھنے میں کسی حد تک کشادہ تھا اور ایک رنگین کاغذ سے درمیان میں سے پردہ بنا کر الگ کیا گیا تھا۔ ایک شکستہ حال مگر صاف ستھرا کمرہ جس کے ایک کونے میں میکالے نے بچوں کا ایک جھولا دیکھا۔

“یہ میرا بچہ ہے”حسین خاتون نے وقار سے سر ایک طرف جھکاتے اور جھولے میں بچے کو دیکھ کر مسکراتے ہوے بتایا۔”یہ بہت چھوٹا اور پیارا سا ہے ۔آو تم بھی دیکھ لو!”

میکلالے جھولے کے قریب گیا اور اس نے خاموشی سے بچے کو سراہا۔ماں کے جسم کے اندھیروں سے حال ہی میں رہائ پانے والا ایک پھولے گالوں والا بچہ سنہرے رنگ کے ریشمی کپڑے میں لپٹا کسی شہنشاہ کے سے سکون سے سو رہا تھا۔شوہر نے اپنی بیوی کو آواز دی اور ،اسے اپنے ساتھ ایک تنکوں کی چٹائ پر بیٹھنے کو کہا اور پھر خاموشی سے اس قحط زدہ بدصورت بچے کواپنی عورت کی گود میں ڈال دیا۔عورت نے حیرانی سے دیکھا اور بچے کے گرد لپٹی چادر اٹھا کراسکا چہرہ دیکھا جو پوری طرح سے ایک ڈراؤنا ڈھانچہ بن چکا تھا۔کرب اور دکھ کی شدت سے اس کے منہ سے ایک آہ نکل گئی۔ بچے کو اسے نے سختی سے اپنے ساتھ لپٹا لیا اورساتھ ہی لباس کا ایک سرا پردے کی خاطر دودھ پیتے بچے کے گرد لپیٹ لیا۔

____________

___________

مارسیل آئے انہیں ایک ماہ سے زیادہ ہو چکا تھا اور اب تو شہر کے مضافات میں واقع آرمینیائی پناہ گزینوں کے خیمے ایک چھوٹی سی بستی لگنے لگے تھے۔اس بستی میں جس قدر بس جانا انکے اختیار میں تھا وہ بسنے کی کوشش کر رہے تھے۔امیر لوگ خیموں میں اور باقی سب شکستہ حال چھپروں کے نیچے پناہ گزیں تھے۔

پناہ گزینوں کی اکثریت کے پاس واحد آسرا ڈنڈوں کے سہارے باندھی گئی دری کے نیچے کا سایہ ہی تھا۔جو بہت خوش نصیب تھے انہیں پردے کے لئے ایک چادر نصیب ہو جاتی جس کو وہ دیوار کی صورت لٹکا کر دوسروں کی نگاہوں سے اوجھل ہو سکتے۔ اک زرا گھر نما احساس سا ہو جاتا۔قحط زدہ موت سے بچنے اور بیوی بچوں کا پیٹ بھرنے کے لئے مردوں کو لازماً کوئ نہ کوئ کام ڈھونڈنا ہی پڑتا۔ ایک میکلالے تھا جو روزگار کا کوئ وسیلہ نہ کر پایا تھا۔آس پاس کے پناہ گزین روٹی مہیا کر دیتے تو احسان کندھوں پر جھولنے لگتا۔آخر وہ چودہ سال کا ہٹا کٹا جواں تھا۔ اسکے کاندھے پر تو اک شیر خوار ذی روح کی ذمہ داری نے اسے مزدوری ڈھونڈنے کے قابل ہی نہ چھوڑا تھا ۔وہ شیر خوار جسکی پیدائش کی قیمت ماں کو مر کر بھرنی پڑی، ہر دم اپنی بھوک کے نوحے پڑھنے میں مگن تھا۔میکالے سے کام لیتا بھی کون کہ اسکے تو ہم وطنوں نے ہر رات بچے کی چیخوں سے نیندیں برباد ہونے پر تنگ آ کر اسے اپنے کواٹروں سے نکال دیا تھا۔

میکالے خود ہر وقت کے اس چیخنے چلانے سے پاگل سا ہو چکا تھا۔ماوف دماغ لئے وہ بھٹکی روح کی طرح بھٹکتا پھرتا۔جب نیند کی کمی اور تھکاوٹ کی ذیادتی میکالے کی جان کے درپے تھی تو اُسے بہرہ کر دینے والے چیختے چلاتے بوجھ کو کندھے پر اٹھانا پڑتا جو نہ صرف اس کے لئے بلکہ خود اپنے لئے بھی اک بدقسمتی ہی تھا اور بدقسمتی بھی ایسی جو بہت بُری گھڑی میں ٹوٹی تھی ۔

سب کو بچے کی چیخوں سے اب الجھن ہونے لگی تھی ۔ کیمپ میں موجود سب ہی لوگ ذندگی کے ستم کے ہاتھوں تنگ تھے اور اب دل ہی دل میں بچے کے مر جانے کی دعا کرتے۔اور یہ شیر خوار بچہ تھا جو دن رات اپنی بھوک کا ماتم کرتا جینے کی شدید ترین کوشش میں مگن تھا۔

انہیں آتے دیکھ کر پریشان حال عورتیں کان لپیٹ لیتیںں،چیختے چلاتے بچے کو اٹھائے آتے میکالے کی بجائے کسی شرابی مرد کا آنا ان کو برداشت کرنا ذیادہ آسان لگتا۔

بھائی کے لئے دودھ خریدنے کو اس کے پاس ایک ٹکا تھا نہ کیمپ میں موجود کوئ عورت ہی اس قابل تھی کہ اسے دودھ پلا سکتی۔بے بسی نے میکالے کے اوسان خطا کر رکھے تھے۔

بدقسمت حالات سے گھبرا کر ایک دن میکالے دوسری طرف چلا گیا جدھر اناطولین کی بستی تھی۔ترکوں کے قتل عام سے گھبرا کر وہ بھی ایشیائے کوچک سے جان بچاتے بھاگے تھے۔کسی نے اسے بتایا تھا کہ اس طرف ایک دائی ہے جو اس کے بھائ پر مہربانی کر سکتی ہے۔امید کا سرا تھامتے میکالے وہاں جا پہنچا۔اناطولین کے خیمے بھی آرمینیائی کی طرح ہی خستہ حال تھے۔بوڑھی عورتیں زمیں پر صفیں بچھائے پنجوں کے بل بیٹھی تھیں۔اور انکے بچے ننگے پاؤں گندے پانی کے جوہر میں کھیل رہے تھے۔میکالے ان کے قریب پہنچا تو بہت سی عورتیں اٹھ کر اسکی طرف آنے کا مقصد پوچھنے آئیں۔لیکن وہ بغیر رکے چلتا رہا جب تک کہ اسکے سامنے مقدس مریم کی شبیہ والا درواذہ نہ آ گیا اور وہ رک گیا۔ایک روتے بچے کی آواز خیمے سے باہر تک سنائی دیتی تھی۔

“دنیا کی سب سے مقدس دوشیزہ کے نام سے جس کی تم شبیہ ہو”اس نے یونانی میں کہا

“اس یتیم پر رحم کرو اور اسے تھوڑا سا دودھ دے دو۔میں ایک غریب آرمینی ہوں۔۔۔”

اس کی درخواست سن کر ایک دلکش کالی عورت سامنے آئی جس کی بازوؤں میں نیند بھری آنکھوں والا ایک نوزائیدہ بچہ سکون سے دودھ پی رہا تھا۔

“بچہ دکھاؤ! لڑکا ہے یا لڑکی؟”

میکالے کا دل خوشی سے جھوم گیا۔آس پاس موجود بہت سے لوگ بچہ دیکھنے کے لئے قریب آگئے اور کاندھےسے اس تھیلے کو اتارنے میں میکالے کی مدد کرنے لگےجس میں نوزائیدہ بھائ کو ڈال رکھا تھا۔بچے کو دیکھنے کے تجسس میں سب آگے کوجھک گئے۔میکالے نے چہرے سے کپڑا اتارا تو عورتیں خوف سے چلا اٹھیں۔بچے کی صورت عام انسانوں جیسی نہ رہی تھی۔پھیل کر بڑا ہو چکا سراور بھوک سے اکڑا ہوا جسم اسے ایک بھوت سی صورت لگ رہا تھا۔بچے کی ذندگی کا سارا انحصار انگوٹھا چوسنے پر تھا جو اب مسلسل چوسے جانے کی وجہ سے اسقدر سُوج چکا تھا کہ اب مزید چوسے جانے کے قابل بھی نہ رہا تھا۔

۔یہ خوفناک منظر دیکھ کر خود میکالے بھی خوف سے ششدر رہ گیا تھا۔

“عظیم ماں!”ایک بوڑھی عورت بولی”یہ بچہ تو راکشس ہے!اصل راکشس!میرے دودھ اترتا تو بھی مجھ میں اسے دودھ پلانے کی ہمت نہ ہوتی۔”

“سچ مچ کا دجال”ایک دوسری نے سینے پر کراس بناتے ہوے کہا”ترکوں کی اولاد!”

ایک اور بدصورت بوڑھی سامنے آئ

ہووووو__وہووووو۔۔۔۔۔۔ وہ بچے کو دیکھ کر چلا اٹھی

“یہ تو شیطان ہے!” وہ میکالے کی طرف مڑی اور چلائ۔”دفع ہو جاؤ یہاں سے منحوس اور دوبارہ کبھی یہاں قدم مت رکھنا!ورنہ ہم پر بھی تمھاری نحوست نازل ہو جایے گی۔”

سب نے ڈرا دھمکا کر میکالے کو دور بھگا دیا۔اس کی آنکھیں غم کی شدت سے بھر آئیں اور وہ بھوک سے روتے بچے کو لئے ان سے پرے ہٹ آیا۔

اب ہر آس ختم ہو چکی تھی۔بچے کی قسمت میں قحط زدگی کی بدقسمت موت لکھی جا چکی تھی۔ اسے لگا وہ دنیا کا سب سے بدقسمت اور تنہا انسان ہے۔ایک نحوست کو اٹھائے پھرنے کے تصور سے دہشت زدہ ہوتاوہ ایک سایے کے نیچے ڈھےگیا۔

۔

ابھی تک موسم گرما تھا ۔اسے یہ علاقہ ایک بنجر اور ویران سرزمین لگنے لگی جس میں اس کے لئے کہیں کوئ رحم نہ تھا۔کہیں دور دوپہر کی گھنٹیوں نے اسے یاد دلایا کہ کل دوپہر سے اسے کھانے کو کچھ نہیں ملا۔

۔خوراک کی تلاش میں گلیوں میں نکلنا ،چائے خانوں کے احاطوں میں چکر کاٹنے ، اور پلیٹ میں بچے آدھ کھائے رولز یا پھر کچرے کے ڈھیر پر کسی کتے سےبچا ہوا کچھ کھانے کو ڈھونڈنا ہو گا۔یہ سوچ کر ہی وہ کانپ کر رہ گیا ۔بے بسی سے میکالے نے ہاتھوں میں چہرہ چھپا کر بری طرح رونا شروع کر دیا۔

رونے کے بعد میکالے نے سر اٹھایا تو سامنے ایک شخص کھڑا اپنی طرف گھورتا پایا.وہ چائنہ والا شخص تھا جو کبھی کبھی انکے کیمپ کی طرف کاغذ کی بنی چھوٹی موٹی چیزیں یا نگینے بیچنے آتا جنکا کوئ بھی وہاں خریدار نہیں تھا ۔ اکثر تو اسکے رنگ اور خراب آنکھوں کی وجہ سے چائینہ والے کا مذاق اڑایا جاتا۔بچے پتھر مارتے اسکے پیچھے بھاگتے اور آوازیں کستے

“لے لنک،،،گندی بوُ”

میکلالے نے چائنہ والے کو شفقت سے اپنی طرف دیکھتے اور کچھ کہنے کی کوشش کرتے پایا۔آخر وہ بولا!”مت رو جوان!”…اور پھر عاجزی سے کہا”میرے ساتھ آؤ!”

میکالے نے سر ہلا کر انکار کر دیا ۔اس نےمشرقی لوگوں کی بے رحمی کے سینکڑوں واقعات سن رکھے تھے۔ ۔کیمپ میں تو یہ تک کہا جاتا تھا کہ یہ مشرقی یہودیوں کی طرح عیسائیوں کے بچے چوری کرنے اور انکو مار کر خون پی جانے کے عادی ہیں ۔اس کابس چلتا تو وہ بھاگ ہی جاتا وہاں سے۔

لیکن وہ شخص انکار سن کر بھی کھڑا رہا۔پریشانی کی حالت میں چارو ناچار میکالے اسکے پیچھے چل پڑا۔ اس سے برا اور ہو بھی کیا سکتا تھا اس کے ساتھ؟چلتے ہوئے کمزوری سے اس کے قدم لڑکھڑائے اور وہ بچے کے ساتھ گرتے گرتے بچا۔چائنہ والا اس کی مدد کو آیا اور بچے کو بازوؤں میں لے کر اس نے نرمی سے اپنے ساتھ لگا لیا۔

بہت سے چیٹل میدان پار کر کے وہ ایسی سڑک پر آ گئے جہاں پر اردگرد سے اک باغ میں گھرے بہت سے چھوٹے چھوٹے لکڑی کے گھر بنے تھے ۔ ایک دروازے کے سامنےپہنچ کر وہ رکا اور ہاتھوں سے دو بار اطلاعی تالی بجائ۔۔ مدہم قدموں کی آواز کے ساتھ کوئ چھوٹا سا وجود دروازے کھولنے کو قریب پہنچا۔چائنہ والے کو دیکھ کر اسکے گال تمتمایے اور چہرے پر خوبصورت مسکراہٹ پھیل گئی۔چینی خاتون تعظیم کے لئے زرا سی جھکی۔میکلالے ہچکچاہٹ کا شکار ہوا اور چوکھٹ پر ہی کھڑا ہو گیا۔ چائنہ والا پلٹ کر اسے بلانے آیا۔”ڈرو مت!اندر آ جاؤ!یہ میری بیوی ہے!”

میکالے کمرے میں داخل ہوا جو دیکھنے میں کسی حد تک کشادہ تھا اور ایک رنگین کاغذ سے درمیان میں سے پردہ بنا کر الگ کیا گیا تھا۔ ایک شکستہ حال مگر صاف ستھرا کمرہ جس کے ایک کونے میں میکالے نے بچوں کا ایک جھولا دیکھا۔

“یہ میرا بچہ ہے”جوان خاتون نے وقار سے سر ایک طرف جھکاتے اور جھولے میں بچے کو دیکھ کر مسکراتے ہوے بتایا۔”یہ بہت چھوٹا سا اور پیارا سا ہے ۔آو تم بھی دیکھ لو!”

میکلالے جھولے کے قریب گیا اور اس نے خاموشی سے بچے کو سراہا۔ماں کے جسم کے اندھیروں سے حال ہی میں رہائ پانے والا ایک پھولے گالوں والا بچہ سنہرے رنگ کے ریشمی کپڑے میں لپٹا ایک بادشاہ کے سے سکون سے سو رہا تھا۔شوہر نے اپنی بیوی کو آواز دی اور ،اسے اپنے ساتھ ایک تنکوں کی چٹائ پر بیٹھنے کو کہا اور پھر خاموشی سے اس قحط زدہ بدصورت بچے کواپنی عورت کی گود میں ڈال دیا۔عورت نے حیرانی سے دیکھا اور بچے کے گرد لپٹی چادر اٹھا کراسکا چہرہ دیکھا جو پوری طرح سے ایک ڈراونے ڈھانچے کامنظر تھا۔اس نے ایک چیخ ماری جس میں ترس اور دکھ ملے جلے تھے۔ بچے کو اسے نے سختی سے دودھ پلانے کے لئےساتھ لپٹا لیا اورساتھ ہی اپنے پردے کی خاطر لباس کا اک سرا دودھ پیتے بچے کے گرد لپیٹ دیا۔

____________

___________

مارسیل آئے انہیں ایک ماہ سے زیادہ ہو چکا تھا اور اب تو شہر کے مضافات میں واقع آرمینیائی پناہ گزینوں کے خیمے ایک چھوٹی سی بستی لگنے لگے تھے۔اس بستی میں جس قدر بس جانا انکے اختیار میں تھا وہ بسنے کی کوشش کر رہے تھے۔امیر لوگ خیموں میں اور باقی سب شکستہ حال چھپروں کے نیچے پناہ گزیں تھے۔

پناہ گزینوں کی اکثریت کے پاس واحد آسرا ڈنڈوں کے سہارے باندھی گئی دری کے نیچے کا سایہ ہی تھا۔جو بہت خوش نصیب تھے انہیں پردے کے لئے ایک چادر نصیب ہو جاتی جس کو وہ دیوار کی صورت لٹکا کر دوسروں کی نگاہوں سے اوجھل ہو سکتے۔ اک زرا گھر نما احساس سا ہو جاتا۔قحط زدہ موت سے بچنے اور بیوی بچوں کا پیٹ بھرنے کے لئے مردوں کو لازماً کوئ نہ کوئ کام ڈھونڈنا ہی پڑتا۔ ایک میکلالے تھا جو روزگار کا کوئ وسیلہ نہ کر پایا تھا۔آس پاس کے پناہ گزین روٹی مہیا کر دیتے تو احسان کندھوں پر جھولنے لگتا۔آخر وہ چودہ سال کا ہٹا کٹا جواں تھا۔ اسکے کاندھے پر تو اک شیر خوار ذی روح کی ذمہ داری نے اسے مزدوری ڈھونڈنے کے قابل ہی نہ چھوڑا تھا ۔وہ شیر خوار جسکی پیدائش کی قیمت ماں کو مر کر بھرنی پڑی، ہر دم اپنی بھوک کے نوحے پڑھنے میں مگن تھا۔میکالے سے کام لیتا بھی کون کہ اسکے تو ہم وطنوں نے ہر رات بچے کی چیخوں سے نیندیں برباد ہونے پر تنگ آ کر اسے اپنے کواٹروں سے نکال دیا تھا۔

میکالے خود ہر وقت کے اس چیخنے چلانے سے پاگل سا ہو چکا تھا۔ماوف دماغ لئے وہ بھٹکی روح کی طرح بھٹکتا پھرتا۔جب نیند کی کمی اور تھکاوٹ کی ذیادتی میکالے کی جان کے درپے تھی تو اُسے بہرہ کر دینے والے چیختے چلاتے بوجھ کو کندھے پر اٹھانا پڑتا جو نہ صرف اس کے لئے بلکہ خود اپنے لئے بھی اک بدقسمتی ہی تھا اور بدقسمتی بھی ایسی جو بہت بُری گھڑی میں ٹوٹی تھی ۔

سب کو بچے کی چیخوں سے اب الجھن ہونے لگی تھی ۔ کیمپ میں موجود سب ہی لوگ ذندگی کے ستم کے ہاتھوں تنگ تھے اور اب دل ہی دل میں بچے کے مر جانے کی دعا کرتے۔اور یہ شیر خوار بچہ تھا جو دن رات اپنی بھوک کا ماتم کرتا جینے کی شدید ترین کوشش میں مگن تھا۔

انہیں آتے دیکھ کر پریشان حال عورتیں کان لپیٹ لیتیںں،چیختے چلاتے بچے کو اٹھائے آتے میکالے کی بجائے کسی شرابی مرد کا آنا ان کو برداشت کرنا ذیادہ آسان لگتا۔

بھائی کے لئے دودھ خریدنے کو اس کے پاس ایک ٹکا تھا نہ کیمپ میں موجود کوئ عورت ہی اس قابل تھی کہ اسے دودھ پلا سکتی۔بے بسی نے میکالے کے اوسان خطا کر رکھے تھے۔

بدقسمت حالات سے گھبرا کر ایک دن میکالے دوسری طرف چلا گیا جدھر اناطولین کی بستی تھی۔ترکوں کے قتل عام سے گھبرا کر وہ بھی ایشیائے کوچک سے جان بچاتے بھاگے تھے۔کسی نے اسے بتایا تھا کہ اس طرف ایک دائی ہے جو اس کے بھائ پر مہربانی کر سکتی ہے۔امید کا سرا تھامتے میکالے وہاں جا پہنچا۔اناطولین کے خیمے بھی آرمینیائی کی طرح ہی خستہ حال تھے۔بوڑھی عورتیں زمیں پر صفیں بچھائے پنجوں کے بل بیٹھی تھیں۔اور انکے بچے ننگے پاؤں گندے پانی کے جوہر میں کھیل رہے تھے۔میکالے ان کے قریب پہنچا تو بہت سی عورتیں اٹھ کر اسکی طرف آنے کا مقصد پوچھنے آئیں۔لیکن وہ بغیر رکے چلتا رہا جب تک کہ اسکے سامنے مقدس مریم کی شبیہ والا درواذہ نہ آ گیا اور وہ رک گیا۔ایک روتے بچے کی آواز خیمے سے باہر تک سنائی دیتی تھی۔

“دنیا کی سب سے مقدس دوشیزہ کے نام سے جس کی تم شبیہ ہو”اس نے یونانی میں کہا

“اس یتیم پر رحم کرو اور اسے تھوڑا سا دودھ دے دو۔میں ایک غریب آرمینی ہوں۔۔۔”

اس کی درخواست سن کر ایک دلکش کالی عورت سامنے آئی جس کی بازوؤں میں نیند بھری آنکھوں والا ایک نوزائیدہ بچہ سکون سے دودھ پی رہا تھا۔

“بچہ دکھاؤ! لڑکا ہے یا لڑکی؟”

میکالے کا دل خوشی سے جھوم گیا۔آس پاس موجود بہت سے لوگ بچہ دیکھنے کے لئے قریب آگئے اور کاندھےسے اس تھیلے کو اتارنے میں میکالے کی مدد کرنے لگےجس میں نوزائیدہ بھائ کو ڈال رکھا تھا۔بچے کو دیکھنے کے تجسس میں سب آگے کوجھک گئے۔میکالے نے چہرے سے کپڑا اتارا تو عورتیں خوف سے چلا اٹھیں۔بچے کی صورت عام انسانوں جیسی نہ رہی تھی۔پھیل کر بڑا ہو چکا سراور بھوک سے اکڑا ہوا جسم اسے ایک بھوت سی صورت لگ رہا تھا۔بچے کی ذندگی کا سارا انحصار انگوٹھا چوسنے پر تھا جو اب مسلسل چوسے جانے کی وجہ سے اسقدر سُوج چکا تھا کہ اب مزید چوسے جانے کے قابل بھی نہ رہا تھا۔

۔یہ خوفناک منظر دیکھ کر خود میکالے بھی خوف سے ششدر رہ گیا تھا۔

“عظیم ماں!”ایک بوڑھی عورت بولی”یہ بچہ تو راکشس ہے!اصل راکشس!میرے دودھ اترتا تو بھی مجھ میں اسے دودھ پلانے کی ہمت نہ ہوتی۔”

“سچ مچ کا دجال”ایک دوسری نے سینے پر کراس بناتے ہوے کہا”ترکوں کی اولاد!”

ایک اور بدصورت بوڑھی سامنے آئ

ہووووو__وہووووو۔۔۔۔۔۔ وہ بچے کو دیکھ کر چلا اٹھی

“یہ تو شیطان ہے!” وہ میکالے کی طرف مڑی اور چلائ۔”دفع ہو جاؤ یہاں سے منحوس اور دوبارہ کبھی یہاں قدم مت رکھنا!ورنہ ہم پر بھی تمھاری نحوست نازل ہو جایے گی۔”

سب نے ڈرا دھمکا کر میکالے کو دور بھگا دیا۔اس کی آنکھیں غم کی شدت سے بھر آئیں اور وہ بھوک سے روتے بچے کو لئے ان سے پرے ہٹ آیا۔

اب ہر آس ختم ہو چکی تھی۔بچے کی قسمت میں قحط زدگی کی بدقسمت موت لکھی جا چکی تھی۔ اسے لگا وہ دنیا کا سب سے بدقسمت اور تنہا انسان ہے۔ایک نحوست کو اٹھائے پھرنے کے تصور سے دہشت زدہ ہوتاوہ ایک سایے کے نیچے ڈھےگیا۔

۔

ابھی تک موسم گرما تھا ۔اسے یہ علاقہ ایک بنجر اور ویران سرزمین لگنے لگی جس میں اس کے لئے کہیں کوئ رحم نہ تھا۔کہیں دور دوپہر کی گھنٹیوں نے اسے یاد دلایا کہ کل دوپہر سے اسے کھانے کو کچھ نہیں ملا۔

۔خوراک کی تلاش میں گلیوں میں نکلنا ،چائے خانوں کے احاطوں میں چکر کاٹنے ، اور پلیٹ میں بچے آدھ کھائے رولز یا پھر کچرے کے ڈھیر پر کسی کتے سےبچا ہوا کچھ کھانے کو ڈھونڈنا ہو گا۔یہ سوچ کر ہی وہ کانپ کر رہ گیا ۔بے بسی سے میکالے نے ہاتھوں میں چہرہ چھپا کر بری طرح رونا شروع کر دیا۔

رونے کے بعد میکالے نے سر اٹھایا تو سامنے ایک شخص کھڑا اپنی طرف گھورتا پایا.وہ چائنہ والا شخص تھا جو کبھی کبھی انکے کیمپ کی طرف کاغذ کی بنی چھوٹی موٹی چیزیں یا نگینے بیچنے آتا جنکا کوئ بھی وہاں خریدار نہیں تھا ۔ اکثر تو اسکے رنگ اور خراب آنکھوں کی وجہ سے چائینہ والے کا مذاق اڑایا جاتا۔بچے پتھر مارتے اسکے پیچھے بھاگتے اور آوازیں کستے

“لے لنک،،،گندی بوُ”

میکلالے نے چائنہ والے کو شفقت سے اپنی طرف دیکھتے اور کچھ کہنے کی کوشش کرتے پایا۔آخر وہ بولا!”مت رو جوان!”…اور پھر عاجزی سے کہا”میرے ساتھ آؤ!”

میکالے نے سر ہلا کر انکار کر دیا ۔اس نےمشرقی لوگوں کی بے رحمی کے سینکڑوں واقعات سن رکھے تھے۔ ۔کیمپ میں تو یہ تک کہا جاتا تھا کہ یہ مشرقی یہودیوں کی طرح عیسائیوں کے بچے چوری کرنے اور انکو مار کر خون پی جانے کے عادی ہیں ۔اس کابس چلتا تو وہ بھاگ ہی جاتا وہاں سے۔

لیکن وہ شخص انکار سن کر بھی کھڑا رہا۔پریشانی کی حالت میں چارو ناچار میکالے اسکے پیچھے چل پڑا۔ اس سے برا اور ہو بھی کیا سکتا تھا اس کے ساتھ؟چلتے ہوئے کمزوری سے اس کے قدم لڑکھڑائے اور وہ بچے کے ساتھ گرتے گرتے بچا۔چائنہ والا اس کی مدد کو آیا اور بچے کو بازوؤں میں لے کر اس نے نرمی سے اپنے ساتھ لگا لیا۔

بہت سے چیٹل میدان پار کر کے وہ ایسی سڑک پر آ گئے جہاں پر اردگرد سے اک باغ میں گھرے بہت سے چھوٹے چھوٹے لکڑی کے گھر بنے تھے ۔ ایک دروازے کے سامنےپہنچ کر وہ رکا اور ہاتھوں سے دو بار اطلاعی تالی بجائ۔۔ مدہم قدموں کی آواز کے ساتھ کوئ چھوٹا سا وجود دروازے کھولنے کو قریب پہنچا۔چائنہ والے کو دیکھ کر اسکے گال تمتمایے اور چہرے پر خوبصورت مسکراہٹ پھیل گئی۔چینی خاتون تعظیم کے لئے زرا سی جھکی۔میکلالے ہچکچاہٹ کا شکار ہوا اور چوکھٹ پر ہی کھڑا ہو گیا۔ چائنہ والا پلٹ کر اسے بلانے آیا۔”ڈرو مت!اندر آ جاؤ!یہ میری بیوی ہے!”

میکالے کمرے میں داخل ہوا جو دیکھنے میں کسی حد تک کشادہ تھا اور ایک رنگین کاغذ سے درمیان میں سے پردہ بنا کر الگ کیا گیا تھا۔ ایک شکستہ حال مگر صاف ستھرا کمرہ جس کے ایک کونے میں میکالے نے بچوں کا ایک جھولا دیکھا۔

“یہ میرا بچہ ہے”جوان خاتون نے وقار سے سر ایک طرف جھکاتے اور جھولے میں بچے کو دیکھ کر مسکراتے ہوے بتایا۔”یہ بہت چھوٹا سا اور پیارا سا ہے ۔آو تم بھی دیکھ لو!”

میکلالے جھولے کے قریب گیا اور اس نے خاموشی سے بچے کو سراہا۔ماں کے جسم کے اندھیروں سے حال ہی میں رہائ پانے والا ایک پھولے گالوں والا بچہ سنہرے رنگ کے ریشمی کپڑے میں لپٹا ایک بادشاہ کے سے سکون سے سو رہا تھا۔شوہر نے اپنی بیوی کو آواز دی اور ،اسے اپنے ساتھ ایک تنکوں کی چٹائ پر بیٹھنے کو کہا اور پھر خاموشی سے اس قحط زدہ بدصورت بچے کواپنی عورت کی گود میں ڈال دیا۔عورت نے حیرانی سے دیکھا اور بچے کے گرد لپٹی چادر اٹھا کراسکا چہرہ دیکھا جو پوری طرح سے ایک ڈراونے ڈھانچے کامنظر تھا۔اس نے ایک چیخ ماری جس میں ترس اور دکھ ملے جلے تھے۔ بچے کو اسے نے سختی سے دودھ پلانے کے لئےساتھ لپٹا لیا اورساتھ ہی اپنے پردے کی خاطر لباس کا اک سرا دودھ پیتے بچے کے گرد لپیٹ دیا۔

____________

ترجمہ و کورڈیزائن: صوفیہ کاشف

Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

You are commenting using your WordPress.com account. Log Out /  Change )

Facebook photo

You are commenting using your Facebook account. Log Out /  Change )

Connecting to %s

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.