ممی بلاگر________صوفیہ کاشف

پچھلے کچھ بلاگز میں اپنے خوابوں اور ارادوں کی بات کرتے مجھے کچھ نئی باتیں سمجھ میں آئیں_ذندگی میں ریالٹی چیک کس قدر ضروری ہیں۔وہ جسے ہم یوگا اور میڈیٹیشن

Meditation

کہتے ہیں۔اسی ٹھہراؤ کا نام ہے۔جب انسان کسی دھن میں مگن کچھ دیر کے لئے اس دھن کی طرف سے سماتیں بند کر لے۔کچھ دیر ٹھہر کر خود کو دیکھنا،اپنے آپ کو ٹٹولنا،اپنی حقیقت اور اپنے خوابوں کو سامنے ترازو میں رکھنا اور تولنا کہ کوئی مقدار سے زیادہ تو نہیں،بہت اہم ہے۔

میں نے ممی کی ڈائری لکھتے اور الف کتاب کے لئے بلاگ بنانے کی سیریز لکھتے کئی بار یہ لکھا ہے،مجھے جاننے والے یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ ممی بننے کے بعد ممی بلاگر بننے کی شدید خواہش تھی۔میرے پاس خوبصورت ذہین بچے تھے،کھلونوں سے بھرا کمرہ تھا،برانڈڈ کپڑے اور ماڈرن ذندگی کی ہر سہولت اور رنگ موجود تھا۔جدید ترین موبائل اور کیمرے تھے،،،،،،مگر یہ صرف خواہش ہی رہی۔۔۔۔۔۔۔میں اس طرح کی مکمل ممی بلاگر کبھی نہیں بنی جیسا میں چاہتی تھی یا جیسا ایک ممی بلاگر کا تصور آس پاس عام تھا کہ آپ بچوں کو اٹھاتے نہلاتے،سجاتے،انکی کی چھوٹی چھوٹی معصوم حرکتوں سے بڑی بڑی عادتوں کے بارے میں روزانہ تحریر لکھیں،خوبصورت سے خوبصورت ترین تصاویر اور بہترین سے بہتر وڈیوز بنائیں اور دوسری اپنے جیسی اناڑی ماؤں کو انسپائر کریں۔میں ممی بلاگر نہیں بنی کہ میرے پاس ہر چیز تھی سوائے وقت کے!!!!

۔کیوں؟اس سوال کا جواب دیتے ہمیں کچھ فیکٹس چیک کی ضرورت ہے۔مجھے لگتا ہے مجھے آج اس پر بات کرنی چاہئے چونکہ میرے جیسی اور بھی بہت سی خواتین اپنے پیارے پیارے بچوں کے ساتھ،ان کے ڈھیر سارے کھلونوں اور مسکراہٹوں کے ساتھ ایک مامی بلاگ سجانے کا شوق پالتی ہو نگی۔اس شوق کو لگن بنانے سے پہلے کچھ حقائق جاننا انتہائی ضروری ہے۔

ذندگی جینا ایک کام ہے اور ذندگی جیتے ہوئے دکھانا دوسرا کام،اور یہ دوسرا کام پہلے کام جتنا وقت اور محنت مانگتا ہے۔آپ ذندگی جی سکتے ہیں یا جیتے دکھا سکتے ہیں۔دونوں کام ایک ساتھ نہیں کر سکتے۔

میں ممی بلاگز اور ویلاگز تب سے پڑھ اور دیکھ رہی تھی جب سے پاکستان کی عام عورت کو ابھی اس کی بھنک تک نہ پڑی تھی۔میں نے آسٹریلیا،یورپ ،امریکہ کی بہت سی بلاگرز کو پڑھا،ان کا کام دیکھا،بہت سے ویلاگرز کو فالو کیاان سے انسپریشن لی،اور خود کو قصوروار سمجھا کہ میں اپنے بچوں کی باتوں میں اتنا مزا نہیں کرتی جتنا وہ اپنی وڈیوز اور تحریروں میں دکھائی دیتی ہیں،میں نے انہیں پرفیکٹ ممی اور خود کو بیکار سمجھا اور اس ٹینشن میں پہلے سے ذیادہ محنت کرتی رہی۔ ان کی اصل زندگیاں اور تصویری کہانیاں جانیں_______یقین کریں بلاگز اور ویلاگز پر ہنستے مسکراتے مطمئین چہرے اکثر محروم مراد نکلے۔۔۔۔۔۔۔ہمیں اگر لگتا ہے کہ ممی بلاگر،ولاگر فل ٹائم دو ،تین،چار بچے بھی اچھی طرح کسی مدد کے بغیر پال سکتی ہے اور بلاگر ویلاگر بھی کمال کی بن سکتی ہے،تو یہ مبالغہ آرائی ہے۔بلاگ لکھنا،اس کو ٹائپ،ایڈٹ کرنا،اس کے لئے خوبصورت تصاویر تخلیق کرنا،تصاویر کی ایڈٹس،پھر ویب سائٹس کے کام۔۔۔۔۔۔یہ چند لمحات کی نہیں ،گھنٹوں کی نوکری ہے!ایک بلاگر نے اپنے لائف سٹائل بلاگ کے بارے میں لکھا تھا کہ اسے روزانہ صبح سات سے شام پانچ بجے تک اس پر کام کرنا پڑتا ہے۔۔۔۔۔۔۔اور اب میں اس بات کی گواہی دیتی ہوں یہ کام کم سے کم بھی روزانہ کے پانچ سے سات گھنٹے مانگتا ہے!

میں نے ایسی بلاگرز کے بارے میں بھی جانا جنہوں نے اپنے عین عروج میں بلاگ چھوڑ دیا تھا کیونکہ ان کے بچوں کی ذندگی نظر انداز ہو رہی تھی۔۔۔

میرے بچے جب تک چھوٹے تھے میں نے کسی بھی ایسی خواہش کو سیریس نہیں لیا۔۔۔کیوں؟

کیونکہ ہم خواب دیکھنے والی ینگ عورتوں کے دل بہت جلدی ان رستوں سے لگ جاتے ہیں جنہیں چھوڑ کر ہم گھر گرہستی میں قدم رکھتی ہیں۔۔۔۔۔اور ایسے رستوں سے دل لگ جائے تو پھر سب سے پہلا نقصان گھر ،گرہستی اور مدرہوڈ کا ہی ہوتا ہے،جس میں ہمارے ننھے ننھے جگر گوشے آتے ہیں،۔۔اور یہ میں نے کیسے جانا؟ میں نے ان دنوں دو تین بلاگ بنانے کی کوشش کی۔جب میں اس بلاگ کے لئے لکھنے یا اس کو بنانے میں مصروف ہوتی اور میرا دھیان مکمل طور پر سو فی صد میرے کام کی طرف ہوتا تو عین بیچ میں میرا بچہ جاگ جاتا یا اسے دھونے کی ،نہلانے کی ضرورت درپیش ہو جاتی یا کوئی نہ کوئی مسلئہ بیچ میں کھڑا ہو جاتا۔ایسے وقت میں اپنی دلچسپی کی ایکٹیویٹی چھوڑ کر بچوں کی طرف لپکنا ایک عذاب سے کم نہ ہوتا!۔۔۔ہمارے بچے ہمارے ہاتھوں میں چکنی مٹی کی طرح تھما دئیے جاتے ہیں اور ہمیں ان کو مہارت سے بیل بیل کر خوبصورت پھولوں میں ڈھالنا پڑتا ہے۔مشکل ہے،مگر یہ یہی کام سب سے برتر ہے،انسانوں کی تخلیق و تعمیر کا کام!تو ہمیں نئے انسان بنانے پڑتے ہیں اس کے لئے لازما ہمیں اپنی اینٹیں اکھاڑنی پڑتی ہیں۔۔۔۔۔

یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ کیمرے میں اور حقائق میں بہت فرق ہے۔جتنا فرق انسانی صورت اور ڈیپی میں ہے کہیں اس سے بھی بڑھ کر!یورپ امریکہ برطانیہ سے جو ممی بلاگرز ہمیں ملتی ہیں ان میں سے اکثر بحثیت روزگار کسی نے کسی میڈیا سے وابستہ ہوتی ہیں۔چناچہ مہارت اور استطاعت کے ساتھ عموما ان کے پاس ریسورسز بھی وقت سے پہلے ہی مکمل ہوتے ہیں۔جبکہ ہمارے ہاں دو دہائی پیچھے چلے جائیں تو میڈیا میں چند عورتوں کے سوا اور کوئی نام نظر نہیں آتا، آج بھی فوٹوگرافر اور کیمرہ ویمن کم ہی ملے گی۔تو پھر ایسے صورت میں بلاگر ویلاگر بننے کی خواہش میں ہمیں ڈبل محنت کرنی پڑتی ہے،دہرا وقت لگانا پڑتا ہے،،کام سیکھنے کا اور کام کرنے کا وقت !

یورپ امریکہ برطانیہ کلچر میں مشترکہ خاندانی نظام بھی نہیں ہوتے جہاں ایک فرد کے اٹھنے بیٹھنے اور چلنے پھرنے میں دس لوگوں کا دخل موجود ہو۔ہمارے ہاں صورتحال اس سے مختلف ہے۔اور ہم لوگ عموماً پاکستان سے باہر بھی ان کلچرز میں چلے جائیں تو اپنے یہ سسٹم ساتھ ہی لیجاتے ہیں کیونکہ ہمارے معاشرے نے بڑی محنت سے ہمیں ایسا بنا رکھا ہے۔ہم اپنے شوہروں کی نازبرداریوں میں جنت ڈھونڈتی رہتی ہیں اور ہمارے شوہر نامدار ٹی وی کے سامنے گھنٹوں بیٹھے ہمیں جنتی بننے کے خوب تر مواقع دیتے رہتے ہیں۔تو ایسے میں ہم میں سے اگر کوئی ممی بلاگر بن جائے تو یہ ایک آسان انتخاب نہیں جس میں آپ کے گرد ایک سپورٹ سسٹم موجود ہو۔سب سے اہم بات ممی بلاگر بننے کا یہ انتخاب آپ کے ممی ہونے کے انتخاب کی نفی کر دے گا۔میں نے آٹھ نو سال کسی ایسے شوق سے دل نہ لگایا جو میری توجہ میرے بچوں سے چھین لے۔مجھے لگتا تھا اس وقت پر میرے بچوں کا حق تھا،مجھے لگتا تھا میں اپنے مشاغل میں وقت ضائع کروں گی ۔ یقینا ہو سکتا ہے میں غلط تھی۔مجھے تھوڑا بہت وقت اس مشغلے کو دینا چاہیے تھا،اس سے میرے بچے میری مصروفیت اور کام کا احترام سیکھ سکتے تھے،اس سے وہ ورکنگ فیملی کے رواجوں اور عادتوں کی عادت ڈال سکتے تھے۔مگر یہ حقیقت تھی کہ میں روزانہ کے سات آٹھ گھنٹے اپنے مشاغل کو نہ دے سکتی تھی۔مجھے اپنی ترجیحات کا احساس تھا،میں ان خواتین کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھی جن کی مہارتیں،حالات اور سپورٹ سسٹم مجھ سے مختلف ہوں۔سو میں خود کو ٹالتی رہی۔تب تک کہ جب تک مجھے اس کے لئے مناسب وقت نہیں مل گیا۔تب پھر میں نے” ممی کی ڈائری” لکھی.

یہ میری صلاحیت کے مطابق میرا انتخاب تھا۔آپ کی صلاحتیں کیا ہیں,آپ کو اس کے مطابق خواب دیکھنے پڑیں گے۔لیکن ذندگی میں خوابوں کا انتخاب کرتے یہ بہت ضروری ہے کہ آپ اپنے حالات و واقعات،ترجیحات کو سمجھتے ہوں۔مجھے یاد ہے مجھے افسانے لکھتے کئی طرف سے کئی طرح کی ورکشاپس میں گھسیٹا گیا،کئیوں نے سمجھایا محنت کرو،تم کچھ کر سکتی ہو،اسے وقت دو! مجھے بلاگز اور آرٹیکلز میں کئی لوگوں نے محنت کرنے کی تلقین کی جو میں ایک کان سے سنتی دوسرے سے نکالتی رہی،اس لئے نہیں کہ میں نے دنیا کا بہترین فیصلہ کیا تھا یا میں دنیا کی سب سے عقلمند ترین خاتون تھی۔اس لئے کہ میں اپنی حدیں اور ترجیحات جان چکی تھی۔مجھے علم تھا میرے مشاغل کے لئے میرے پاس کتنا وقت ہے،میں نے ہمیشہ اپنے دل کو سنبھالنے کی کوشش کی کہ جانتی تھی یہ بہت جلدی ایسی فراغتوں سے لگ جاتا ہے جس میں ہنر جنم لیتا ہے.میرے پاس کئی کئی دن تحریروں کو دینے کے لئے تب نہیں تھے ،اب وقت پہلے کی نسبت بہتر ہے پھر بھی مکمل نہیں ہے۔دل کو ڈھالنا میں نے زمہ داری سمجھا ڈھالتی رہی۔یہ ذندگی ہر چیز کا وقت دے دیتی ہے آج نہیں تو کل! ہر مصروفیت میں سے ایک دن فراغت کی شام جنم لے ہی لیتی یے۔

لیکن اگر آج میں آپ سے یہ کہوں کہ میں اپنی ان ترجیحات سے مطمئین ہوں تو میں غلط ہوں۔کیا ہم اس دنیا میں ،اس ذندگی میں مطمئین ہو سکتے ہیں؟ شاید کبھی نہیں! اطمینان کا خمیر اس دنیا میں اٹھانا جان جوکھوں کا کام ہے،ہم سے نکموں سے کہاں ہوتا ہے!مگر ہاں! ہماری ہر ترجیح ہمارا ایک سفر ہوتا ہے جو ہمیں کونسے جزیرے پر لے جائے ہمیں خبر ہی نہیں ہوتی۔ضروری نہیں کہ ہم اپنی منزل پر پہنچ ہی سکیں،ہو سکتا ہے ہم اپنی منزل سے زیادہ بڑی منزل کی طرف نکل پڑیں،ہو سکتا ہے ہماری منزل ہمارے خوابوں سے بھی بڑھ کر ہو! ہو سکتا ہے اس کے الٹ ہو!ایلف شفق کی کتاب”بلیک ملک” میں ڈیم درویش یقین رکھتی ہے کہ جو بھی قدم اٹھاؤ،آگے سبق تو ملیں گے مگر پچھتاوں سے جان نہ چھوٹے گی،انساں ہمیشہ اپنی چنی راہ سے غیر مطمئین رہتا ہے!

میں نے دیکھا ہے کہ جنہوں نے جوانیاں رگڑ کر ڈاکٹری پڑھی،وہ آج بلاگر اور ویلاگر بن رہی ہیں،یا ستی ساوتری بن کر گھر سنبھال رہی ہیں،جنہوں نے ہاؤس وائف بننا چاہا وہ آج کیرئیر نہ بنانے پر افسردہ ہیں،جو کیرئیر میں مگن رہیں آج سوچتی ہیں کہ گھر بنانا ہی بہتر تھا!تو ہم جب زباں سے بلندو بانگ بھی کہتے ہیں کہ ہم بہت مطمئین ہیں،تو اندر سے کہیں ایک بازگشت ذندہ رہتی ہے جو کہتی ہے”نہیں!نہیں!نہیں!”

تو آج کوئی بھی راہ دو رستوں میں سے چنیں،یہ سوچ کر چنیں کہ اس پر سو فیصد کامیابی،سکون اور انعام ممکن نہیں! کچھ ملے گا،کچھ کھوئے گا! صرف سبق ہی ہو گا جو مکمل حاصل ہو گا!

________________

تحریر و فوٹو گرافی:صوفیہ کاشف

17 Comments

  1. Bohot hi umda aur lajawaab tehreer hai. Humaare paas alfaaz nahin. Aapki har tehreer ke tarah ise padh kar bhi yun lag raha hai ke alfaazon ko chum chum kar motiyon ki tarah piro diya ho.
    Aur akhri paragraph mein saari tehreer ka nichod hai. Speechless Masha Allah.

    Would you Allow me to quote the last paragraph in my blog.

    Liked by 2 people

    1. بہت شکریہ پیاری!!! آپ کی وجہ سے لکھنے کی ہمت ہوتی ہے،کوئی پڑھے نہیں تو کوئی لکھے گا کیا؟ضرور کیجئیے مجھے خوشی ہو گی!!!💝💝💝

      Liked by 2 people

      1. Aap isi tarah likhti rahiye Hum to zaroor padh rahe hain aur padhenge. Bohot kuch seekhne ko mil raha hai aapse. Humaari Khush qismati hai ke aapse raabta hua. Warna published writers waghaira ya koi aise busy log kahan kisi ko jawab dete hain.

        Liked by 2 people

  2. “ہمارے بچے ہمارے ہاتھوں میں چکنی مٹی کی طرح تھما دئیے جاتے ہیں اور ہمیں ان کو مہارت سے بیل بیل کر خوبصورت پھولوں میں ڈھالنا پڑتا ہے۔مشکل ہے،مگر یہ یہی کام سب سے برتر ہے،انسانوں کی تخلیق و تعمیر کا کام!تو ہمیں نئے انسان بنانے پڑتے ہیں اس کے لئے لازما ہمیں اپنی اینٹیں اکھاڑنی پڑتی ہیں۔۔۔۔”

    یہ سولہ آنے درست بات ہے۔ بالکل ہو بہو کہانی ہے۔ لیکن بچوں کی طرف دیکھ کر اطمئنان ہوتا ہے۔ اور یقین جانیں یہ وقت بہت جلد مٹھی سے پھسل جاتا ہے۔ صرف ایک بات سمجھنا ضروری ہے کہ جب بھئ جو کام بھی کریں، اسے پورے دل سے کرنا چاہیے، آدھے ادھورے دل سے کیا ہوا کام کسی لائق نہیں ہوتا۔

    ایسے موضوعات پر کوئی سیریز ترتیب دیں، یہ بہت لازمی ہیں۔ا

    Liked by 2 people

    1. اس موضوع پر ممی کی ڈائری پہلے سے موجود ہے۔کوشش کروں گی اس میں اضافہ کر سکوں ۔تقریباً ہر بات اس میں کہہ چکی ہوں!

      Like

  3. بہت اعلی کوشش ہے، اگر آپ اپنے اس بلاگ میں دو تین تبدیلیاں کردیں تو بہت اچھا دکھنے میں بھی لگے ۔
    سب سے پہلے تو یہ کہ اردو فانٹ اس میں پلگ ان کریں تاکہ ایک خوبصورت تحریر نظر آئے۔ اس کے علاوہ بلاگ کا تھیم تبدیل کریں۔ تاکہ دکھنے میں خوبصورت لگے
    http://www.haripurtoday.blogspot.com
    http://www.voiceofharipur.blogspot.com
    http://www.maangfoods.blogspot.com

    Liked by 1 person

  4. آپ کا بلاگ پڑھ کر یوں لگا جیسے کسی نے میری سوچ یا جذبات جو لفظوں کا روپ دیا ہو۔ ما شاء اللہ بہت ہی عمدہ بلاگ۔ اور یقینا ہر راستے سے انسان کو سبق ملتے ہیں ۔۔آپ کا بلاگ پڑھ کر سکون ملا کیونکہ مجھے بھی ہمیشہ سے یہی لگا کہ میں نے محنت نہیں کی یا میں نے غلط راستے کا انتخاب کیا یا یہ کہ میں لوگوں کہ مقابلے میں کچھ بھی نہیں مگر آپ کا بلاگ پڑھ کر احساس ہوا کہ انسان کو یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ ہر چیز کامل نہیں ہوتی بلکہ یہ دنیا نا مکمل ہے ۔۔

    Liked by 1 person

    1. اگر کوئی الفاظ آپ کی ذندگی میں نرمی اور آسانی شامل کر سکتے ہیں تو اس سے بڑھ کر اس تحریر کا کیا اجر ہو گا! سلامت رہیں اور مطمئن رہیں!♥️♥️

      Like

  5. جوانیاں رگڑ کر ڈاکٹری پڑھنے والی اصطلاح اچھی لگی۔ نا چیز کی تو ادھیڑ عمر بھی اسی کام کی نذر ہوئی اور اب بڑھاپا بھی اسی دشت کی سیّاحی میں گزر رہا ہے۔ غلط نہ سمجھئے؛ میڈیکل کالج میں فیل نہیں ہوتی رہی۔ ہر علم کی طرح طب بھی ایک سمندر ہے۔

    Liked by 1 person

    1. بے فکر رہیں بالکل غلط نہیں سمجھوں گی۔میں ایسے خاندان سے ہوں جس میں ڈاکٹر زیادہ اور دوسرے شعبوں والے کم ہیں خصوصا ہماری نسل اور انکے والدین تو سب ڈاکٹری پر ہی مر مٹے تھے۔میری بہن،کزنز،سہیلیاں س اسی دشت کی سیاحی میں عمر گزار رہی ہیں۔مگر اسے دشت کی سیاحی بھی مت کہیے کہ پاکستان جیسے معاشرے میں جہاں کوٹ کوٹ کر غربت اور جہالت بھری ہے یہی ڈاکٹری بہرحال انکی ایک بہتر ذندگی کی ضمانت بھی رہی ہے۔الحمداللہ !یہ اصطلاح بھی اسی لئے بجا لگی ہے کہ ہم نے ساری عمر یہ مراحل بہت ہی قریب سے دیکھے ہیں۔میرا نکتہ صرف یہ تھا کہ اگر آپکو شوبز میں آنا ہو تو جوانیاں رگڑ کر میڈیکل پڑھنے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے انسان کو اور اگر اتنی محنت کر لی ہو تو پھر اسے چھوڑ کر ایسی جگہوں پر لوگ چل پڑے ہیں جنکو وہ انپڑھ رہ کر بھی بخوبی سرانجام دے سکتے تھے۔ہماری نسلیں آج بھی اپنے مقاصدواضح تعین کرنے سے قاصر ہیں۔آپ نے خوب اپنی کمٹمنٹ نبھائی اس پر آپکو فخرہونا چاہیے۔

      Liked by 1 person

Leave a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.