“ماں ! بیٹی کے گھر مہماں “

آپ کے احساس میں شاداں
نرم ہاتھوں کی حدت کو ترسی ہر ایک لمس پہ نازاں ــــ
ادھوری رہ گئیں میری آہٹیں ـــ
اک مانوس چاپ کے گھر سے نکلتے ہی !
آپ کے آنچل کو سینے سے لگاتے ہی برسیں اس طرح آنکھیں ـــــ
جیسے بھرے بادلوں کو چھبتی ہواؤں کا بہانہ مل جائے اچانک !
جیسے چھلکے جامِ محبت اور اعلان ہو جائے !
احساسِ تنہائی میں ‘ میری حالت آج ایسی ہے ـــ ـــ ـــ
ہر کونے سے آپ کی خوشبو ـ ـ ـ
بستر پہ شفقت بھری سلوٹیں ـ ـ ـ
آپ نے کھا کے جو چھوڑا تھا وہ خالی کھیر کا کاسہ ــــ
تکیہ ‘،تسبیح ‘ بوقتِ رخصت دلاسہ ــــ
میری انکھوں میں جھلملا رہا ہے اب تک
میرا گھر آپ کے بنا ایسے لگتا ہے اب مجھ کو
جیسے قرآن سے خالی جزدان ہو جائے!
میں دن بھر آپ کی ہر اک بات کو سمیٹتی رہی ہوں یوں
جیسے اولاد اک قطرے سے دل و جان ہو جائے
دعا ہے جب تک میری آنکھیں سلامت ہیں
قدرت آپ پہ اس طرح مہربان ہو جائے
جب دل چاہے آپ کا’ خانہ خدا دیکھیں
طوافِ کعبہ کا خودبخود امکان ہو جائے
مکمل کر دے جو ادھوری ہر خوشی ایسے
آپ کے لبوں پہ زیب وہ مسکان ہو جائے
میرا دروازہ کھلا ہے ‘ میری آنکھیں ہیں منتظر
ملاقاتِ محبت کا خوش آئند امکان ہو جائے
میں آپ کا بستر سمیٹوں گی ‘ نہ کبھی آپ کی یادوں کو ـــ
جی چاہتا ہے آپ کی شفقت کا پھر سے سامان ہو جائے
تا ابد خدا رکھے سلامت آپ کو ماں جی
میری نس نس آپ پہ قربان ہو جائے
ملیں ہر بار دل پھر اس طرح محبت میں
جیسے آٹے میں نمک یکجان ہو جائے
میں پھر دیکھوں نشاں اپنے گھر میں آپ کی چاپوں کے
بارِدگر خدا مجھ پہ مہربان ہو جائے
دعائیں میرے حق میں مانگی ہوئی مقبول ہوی ساری
آپ کے وسیلے ‘ زندگی سہل و آسان ہو جائے
کتنا مشکل ہے !الوداع سے بڑھ کر ‘یہ اعتراف ‘ یہ آگہی
ماں! بیٹی کے گھر مہمان ہو جائے!!

___________________

شاعرہ و کور ڈیزاینر:ثروت نجیب

5 Comments

Leave a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.